[اقبال کا ایک شعر]
اگرچہ یہ کہنا آسان اور اُسے ثابت کرنا خاصا مشکل ہے کہ کسی بھی فن کار کے فن پاروں کو یکجا کریں تو ایک فنی وحدت وجود میں آتی ہے، لیکن اتنی بات قرینِ صداقت ضرور ہے کہ اکثر بڑے شاعروں کی تخلیقات کسی داخلی ربط و ضبط کے تحت باہم مل کر کسی بڑی فنی وحدت کو متشکل کرنے کی طرف مائل رہتی ہیں۔ یہ ایک خصوصیت بھی ان خصوصیات میں سے ہے جو بڑی شاعری کو تہ داری عطا کرتی ہیں، اقبال کی شاعری اس داخلی ربط و ضبط کی مثالی صورت ہے، اس لیے کہ اُن کی تمام تر شعری تخلیقات جس طرح ایک مکمل فنی وحدت کی تشکیل کرتی ہیں، اس کی مثال شعر وادب میں کم ہی ملے گی۔
ادبِ عالیہ، نظم ہو یا نثر، ابلاغ و اظہار کی ایسی تخلیقی صورتوں کو پیش کرتا ہے جو اپنی ماہیت کے لحاظ سے تو ناقابلِ فہم ہیں لیکن مطالب کے اعتبار سے ہمارے فکرو وجدان کے لیے غیرمعمولی طور پر مؤثر ہیں۔ ہر عظیم ادبی تخلیق، تجربے، احساس، جذبے اور تصور کی بعض مخصوص حالتوں کی ترسیل کے ساتھ ساتھ کسی ایسی حقیقت کو بھی منکشف کرتی ہے جو عام حالات میں تعقل یا تفکر کی گرفت سے باہر رہتی ،یا اگر تعقل کی گرفت میں آبھی جاتی تو اس توانائی اور تاثیر سے خالی رہتی جو زندگی کے بطن سے اُبھرتے ہوئے خلاقانہ اظہار کے پیکر میں ڈھل کرہی برقرار رہ سکتی ہے، اقبال کے فکروفلسفہ میں غیرمعمولی توانائی اور تاثیر اسی وجہ سے ہے کہ اُن کے ہاں خلّاقانہ اظہار تکمیلیت کی انتہائی صورتوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ ایسے بہت سے فکری مطالب جن کی عقلی توضیح کے لیے عبارت کا وسیع دامن درکار ہے، اقبال کے ہاں اشارۂ بلیغ کی صورت میں اس طرح مرتکز ہوجاتے ہیں کہ وسعتِ خیال اور وسعتِ نظر دونوں کی سمائی چند لفظوں میں ہوجاتی ہے، یہ خیال کہ خیال (idea or thought )کو مادّے پر تقدم حاصل ہے۔ ایک فلسفیانہ بحث ہے، اور ہر مابعد الطبیعیاتی فلسفے کی اساس اسی ایک خیال پر ہے… اقبال جو ایک مابعد الطبیعیاتی مفکر ہیں مادّے پر خیال کی فوقیت اور تقدم کے قائل ہیں… اس تصور کے انسانی ثمرات اور تمدنی مضمرات کیا ہیں۔ اس سوال کے جواب میں جتنے مباحث اُبھر سکتے ہیں اُنھیں اقبال نے کمالِ ہنر سے صرف ایک شعر میں سمیٹ لیا ہے، وہ شعر ہے:
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اس شعر میں جہانِ تازہ اور سنگ و خشت کی تراکیب جس فنی لطافت کے ساتھ استعمال ہوئی ہیں، اُس نے اُنھیں علامت اور استعارہ کی وسعت دے دی ہے، اسی لیے اس شعر کو پڑھتے یا سنتے ہی ذہن میں قصرِزہرا، الحمرا، مسجدِ قرطبہ، تاج محل اور بادشاہی مسجد کی تصویریں جاگ اُٹھتی ہیں،… اس لیے کہ سنگ و خشت کا استعارہ مادّے کی علامت گری کرنے کے ساتھ ساتھ لطیف جمالیاتی تلازمات بھی رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا ہر استعارہ مکمل ابلاغ کے لیے وسیع تر ذہنی تلازمات اور ہمہ جہت تصورات و معانی اپنے ساتھ لاتا ہے، سنگ و خشت سے یقینا پہلا تصوری تلازمہ اُن تعمیراتی شاہکاروں کا اُبھرتا ہے جن کی نمود سنگ و خشت کی صورت گری اور صورت پذیری سے ہوئی لیکن جن کے وجود کا اوّلیں نقش نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ہی اُبھرا ہوگا۔ اس لیے کہ ہر تخلیقی حرکت کا آغاز ہمیشہ باطن ہی سے ہوا کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہر تخلیقی حرکت کے مقدر میں خارج میں مجسم ہوجانا نہیں ہوتا۔ تاج محل ایک مثالی عمارت کے طور پر نہ جانے کتنے خلاق ذہنوں کا تخلیقی نصب العین رہا ہوگا لیکن اوراقِ ایام پر اُس کا نقش صرف ایک ہی دفعہ وجود پذیر ہوسکا،… تخلیقی حرکت کو اعماقِ نفس سے اُبھار کر خارج کے ابعاد میں قائم کرنے اور زمانے کی جوئے رواں کی سطح پر اس نقشِ باطنی کو ابدی اور لازماں بنانے کا عمل جس ایقان، ریاضت اور جہدِ مسلسل کا تقاضا کرتا ہے، اس کا ظہور قوموں کی زندگی میں شاذونادر ہی ہوتا ہے، پھر یہ اتفاق بھی ہر روز نہیں ہوا کرتا کہ افراد کی تخلیقی قوت قوموں کی تخلیقی قوت سے ہم آہنگ ہوجائے۔ انفرادی قوتیں کبھی اجتماعی قوتوں سے آزاد ہوکر نہیں اُبھر سکتیں، مسجدِ قرطبہ اور تاج محل کے خلّاق فن کاروں نے تہذیبی تجربے کو جس طرح تعمیراتی ہیئت کے اُصولوں میں منتقل کیا ہے، خیال کی رعنائیوں اور جذبے کی لطافتوں کو جس طرح سنگ و خشت میں مجسم کیا ہے، اس کے پیچھے پوری زندگی کا تخلیقی شعور اور اُصولِ زندگی کارفرما ہے۔ لیکن تخلیقی شعور اور تخلیقی حرکت کے ذریعے اُصولِ زندگی کی دریافت کچھ ایسا آسان کام بھی نہیں، زندگی ہر لمحہ فکرونظر کا تقاضا کرتی ہے، اُصولِ زندگی کا کوئی رشتہ اُس وقت تک ہاتھ نہیں آپاتا جب تک حواس، ادراک اور شعور ہر لمحہ مصروفِ عمل نہ رہیں، اور یہ اُس وقت ہوتا جب کسی قوم کے تمام قویٰ بیدار و توانا ہوں اور مادّے پر شعور کی گرفت کو ہر لمحہ مضبوط رکھیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ صدیاں گزرجاتی ہیں اور کسی قوم کے یخ کدۂ احساس میں حیاتِ تازہ کی کوئی لہر نہیں دوڑتی، فکرِنو کی کوئی کرن مادّے کی کثیف ظلمتوں کا سینہ چاک نہیں کرتی۔ ایسی صورت میں زندگی انتقاماً شعور پر مادّے کے میکانکی اُصول مسلط کر دیا کرتی ہے، اور انسانوں کا دائرہِ عمل جبلتوں کی تسکین سے آگے نہیں بڑھ پاتا… اقبال کے شعور نے جب آنکھ کھولی تو ہند کے مے خانے، تین سو سال سے بند پڑتے تھے، مادّے پر شعور کی گرفت اتنی ڈھیلی پڑ چکی تھی کہ تخلیقی قوتوں کے اُبھرنے کا کہیں کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، انحطاط اور فرسودگی کی فضائے تنگ میں حیاتِ تازہ کا کوئی خوشگوار جھونکا حواس کو تروتازہ نہیں کرتا تھا، اور یہ سب جرأتِ تفکر کے فقدان اور زندگی سے گریز پائی کا نتیجہ تھا۔ جس قوم نے تاج محل اور لال قلعہ تعمیر کیا تھا وہ قوم اب استعارۃً ایک اینٹ بھی کھڑی نہیں کرسکتی تھی، اس لیے کہ ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھنا مادّے کے ساتھ شعور اور ارادے کی باقاعدہ مبارز طلبی ہے،… سنگ و خشت کی دُنیا آباد کرنے سے پہلے اپنے باطن کی دُنیا آباد کرنا زیادہ ضروری ہے، مادّہ اپنی تسخیر کے لیے محض حرکت کا نہیں بلکہ تخلیقی حرکت کا متقاضی ہے، محض ارادے کا نہیں بلکہ باشعور ارادے کا متقاضی ہے، محض جبلت کا نہیں بلکہ فکرونظر کا متقاضی ہے…!
ایک اور واضح اشارہ اس شعر میں یہ بھی ہے کہ جہانِ نو یا جہانِ تازہ سے مراد سنگ و خشت کی نئی ترتیب نہیں بلکہ نئی ادراکی قوتیں ہیں جو زندگی کو نئی سے نئی معنویت عطا کرتی چلی جاتی ہیں، انسان جس جہانِ نو کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس کی بنیاد کسی نئے کشف (vision)خیال کی کسی نئی قوت پر ہوگی جو عمل اور فکر کے مروجہ پیمانوں کو یقینا بدل کے رکھ دے گی۔ لیکن کشفِ حیات اور قوتِ خیال کا سرچشمہ کہیں باہر نہیں، ہمارے بہت قریب، ہمارے اندر ہی ہے، لیکن اس تک پہنچنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم مان لیں کہ فکروخیال کو مادّے پر فوقیت حاصل ہے۔ اپنے مطالب کے اعتبار سے تو یہ شعر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے جس کا اظہار ہمارے صوفیانہ اور فلسفیانہ لٹریچر میں بارہا ہوا ہے، یعنی یہ کہ خیال کو مادّے پر، انسان کو کائنات پر، انفس کو آفاق پر اور بطون کو ظہور پر اولیت اور فوقیت حاصل ہے لیکن اقبال نے اس تصور میں اہم ترمیم کی ہے۔ اقبال کے نزدیک مادّے پر ذہن اور شعور کی فوقیت ایک امرواقع اور حاصل شدہ حقیقت نہیں بلکہ مادّے اور شعور کے درمیان یہ ایک ایسی نسبت ہے جو قابلِ حصول ہے اور جس کا حصول ہی شرفِ انسانیت کا لازمہ ہے، یعنی یہ ضروری نہیں کہ مادّہ شعور ہی کا غلام رہے بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ نفسِ انسانی میں تخلیقی توانائی کی کمی کے باعث ذہن اور شعور مادّے کے غلام ہوجائیں، گویا اقبال کے نزدیک صرف تخلیقی تصورات اور تخلیقی عمل ہی افراد اور اقوام کی زندگی اور بقا کے ضامن بنتے ہیں، اس شعر میں ’’جہانِ تازہ‘‘ کی ترکیب جتنی شاعرانہ ہے اتنی ہی معنی خیز اور قابلِ توجہ بھی ہے، یوں تو زندگی کی تغیر پذیری لمحہ بہ لمحہ نئی نئی صورتوں کی تلاش میں مادّے کو ایک انقلابِ مسلسل سے گذار رہی ہے لیکن اس شعر میں جہانِ تازہ کا اشارہ مستقبل کے اُن لامحدود اور وسیع تر امکانات کی طرف ہے جن سے فائدہ اُٹھانا شعور و ادراک اور قوتِ فکر ہی کا کام ہے،… فکر ایک خالص تخلیقی عمل ہے جس کی شہودی قوت براہِ راست مادّے پر اثرانداز ہوتی ہے، کوئی بھی تہذیبی عمل اس وقت تک نتیجہ خیز، باثمر اور مؤثر فی الاستقبال نہیں ہوسکتا جب تک اُس کے پیچھے افکارو خیالات کی توانائی موجود نہ ہو،… ! اس شعر کے مخاطب وہ افراد ہیں جن پر تدبر اور تفکر کی گراں قدر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،… ادیب ہو یا شاعر، مفکر ہو یا مدرس، سائنس دان ہو یا معلمِ اخلاق سوچنے کی ذمہ داری اُصولاً اُنھی افراد پر ہی عائد ہوتی ہے جن کی نظر زندگی کے خارجی مظاہر کے ساتھ ساتھ زندگی کے بطون یعنی انسان کے نفسی احوال پر بھی ہوتی ہے اور اس اعتبار سے افکارِ تازہ کے سرچشموں کے زیادہ قریب ہیں کہ وہ فکروخیال اور تخلیقی تصورات کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بناسکتے ہیں،… لیکن جب قومیں سوچنا چھوڑ دیتی ہیں تو عام افراد تو رہے ایک طرف اُصولی طور پر فکروخیال سے تعلق رکھنے والے افراد بھی جامد تصورات، مردہ افکار، نیم پختہ خیالات اور نیم صداقتوں کے اسیر رہتے ہیں اور پورا معاشرہ زندگی کو ایک حرکی اور ارتقائی عمل کے طور پر دیکھنے سے محروم رہتا ہے اور یوںمعاشرے کے تمام افراد اپنی خفتہ تخلیقی صلاحیتوں کا ایک فیصد حصہ بھی بروئے کار لائے بغیر محض سانس لینے کے عمل یا مادّے کی سطحی تشکیل کو زندگی سمجھتے ہوئے، محض جبلتوں کی تسکین کو عمل کی معراج گردانتے ہوئے اور محض اینٹوں کے ڈھیر جمع کرنے کو تخلیقی عمل قرار دیتے ہوئے موت کی لکیر پھاند جاتے ہیں،… اقبال ہماری علمی اور ادبی تاریخ میں فکرِقدیم کا تکملہ اور فکرِنوکا نقطۂ آغاز تھے، اور اسی وجہ سے وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک تھے، ایک ایسی تحریک جس کا بنیادی تصور ہی یہ تھا کہ ہم اپنے اعماقِ جاں میں، اپنے نفس کی گہرائیوں میں ڈوب کر حقائقِ حیات کا ادراک حاصل کریں اور برتر زندگی کے لامتناہی اور متنوعِ امکانات سے آشنا ہوکر انفرادی تکمیل کے ساتھ ساتھ اجتماعی تکمیل کے عمل میں بھی باشعور طور پر شریک ہوسکیں۔ اجتماعی تکمیل کے عمل میں باشعور شرکت ہی دراصل انفرادی تکمیل کے مفہوم کو بھی مکمل کرتی ہے، لیکن افسوس کہ اقبال کے فکروفن کا شعلۂ جوالہ ہماری باطنی یخ بستگی کو نہ پگھلا سکا۔ بقولِ غالب:
بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مَے کے سراغ کا!
دیکھنے کے عمل میں جب تک خون جگر کا تصرف شامل نہ ہو اس وقت تک زندگی محجوب ہی رہتی ہے،…ایک مدت سے ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلسل، ’’دیدیم کہ باقی ست شبِ فتنہ غنودیم‘‘… کے عمل سے گذر رہے، افکارِ تازہ کے حقیقی سرچشموں سے دوری، ذہنی مہجوری اور فکری مجہولیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، جس کا ایک نتیجہ فکرونظر میں تکرار ہے، تکرار نہ صرف عمل سے گریز ہے بلکہ عمل کا فریب بھی ہے، گریز اور فریب کا عمل ہمارے فکرواحساس کی ہر سطح پر جاری ہے اور ہم اپنی باطنی غنودگی کو شعوری عمل کا درجہ دے کر آنکھیں بند کیے کچھ الفاظ دہراتے ہوئے بغیر کسی سمت کے تعین کے احساس کے چلے جارہے ہیں، ہم ہر بات کو مکرر کہتے اور مکرر سنتے ہیں لیکن نہ دل کی زبان سے کہتے ہیں اور نہ ہی دل کی زبان سے سنتے ہیں۔ اقبال کا ایک مدّعا یہ ضرور تھا کہ ہم ان کے خیالات کی روشنی میں سوچیں، لیکن اصل پیغام تو یہ تھا کہ ہم خود بھی سوچیں،… اقبال کے بعد ہم نے خود کتنا سوچا ہے اس کا اندازہ کچھ ایسا مشکل نہیں۔
[ایک ریڈیائی تقریر]