مرزا غالب اُردو اور فارسی شاعری میں اقبال کے عظیم پیش رو ہیں، اُن کا ایک شعر ہے:
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
مَیں عندلیبِ گلشنِ ناآفریدہ ہوں
یعنی میں تصور سے حاصل ہونے والی سرخوشی کی حرارت سے نغمہ پرداز ہوں، گویا مَیں ایک ایسے گلشن کا بلبل ہوں جو ابھی پیدا نہیں ہوا۔ واقعہ یہ ہے ہر بڑا شاعر اور ہر بڑا مفکر ایک اعتبار سے گلشنِ ناآفریدہ کا عندلیب ہوتا ہے، اس لیے کہ شاعری اور تفکر دونوں جب اپنی بلندیوں پر پہنچتے ہیں تو اُن کا تعلق خودبخود مستقبل کے ساتھ ہوجاتا ہے، آپ اس کو یوں بھی کَہ سکتے ہیں کہ شاعری اور تفکر بلند ہی اس وقت ہوتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو انسانیت کے مستقبل سے وابستہ کرتے ہیں۔ ماضی کا تجزیہ اور حال کا مطالعہ بھی شاعری اور فکر میں عظمت اور گہرائی پیدا کرسکتا ہے اور کرتا ہے، لیکن وہ شاعر اور مفکر جو انسانیت کے لیے کوئی پیغام رکھتا ہو مستقبل کے حوالے کے بغیر اپنے پیغام کو مکمل نہیں کرسکتا، اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مستقبل کی تشکیل کا انحصار ہمیشہ آنے والی نسلوں پر ہوتا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مستقبل نوجوانوں کا ہے تو خلافِ واقعہ نہیں، مستقبل واقعی ان لوگوں کا ہے جو آج نوعمر ہیں اور زندگی کا سفر شروع کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ گوئٹے نے کہا تھا کہ نوجوانوں میں ہماری دلچسپی کا اصل سبب یہ ہے کہ اُن کے سامنے ایک درخشاں مستقبل ہوتا ہے، اُن کی آنکھوں میں آنے والے دنوں کے خواب اور اُن کی باتوں میں آنے والی بہاروں کے ناشگفتہ پھولوں کی مہک ہوتی ہے، گوئٹے نے یہ بات نفسیاتی نقطۂ نظر سے کہی ہے، لیکن مقصد اس کا بھی یہی ہے کہ مستقبل کی دُنیا کی تشکیل نوجوان نسلوں کے اندازِ نظر اور طرزِ فکر پر ہے۔ یہاں تک کہ بزرگ نسلیں فکروتہذیب اور علوم و فنون کا جو ورثہ اپنے پیچھے چھوڑتی ہیں اُس کی بقا… اس کی تشریح و تعبیر اور اُس کی تہذیبی قدروقیمت کا انحصار بھی نوجوان نسلوں پر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر سنجیدہ مفکر اور باشعور معاشرہ نوجوان نسلوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت پر زور دیتا چلا آیا ہے، نوجوان… اپنی نوجوانی کی ترنگ میں اس بات کی اکثر پروا نہیں کرتے کہ ان سے بڑی عمر کے لوگ ان میں کیوں دلچسپی رکھتے ہیں یا اُن سے کیا توقعات وابستہ کرتے ہیں اور کیوں…؟ لیکن نوجوانوں کی بے پروائی سے بزرگ نسلوں کی ذمہ داریوں میں کسی طرح کمی واقع نہیں ہوتی… عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اقبال جیسا شاعر اور مفکر جو پوری انسانیت کے سامنے ایک درخشاں اور تابناک مستقبل کا خاکہ پیش کرتا ہے، نسلِ نو کو کس طرح نظرانداز کرسکتا تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اُن کے کلام اور ان کی نثری تصانیف کے بیشتر حصوں کے مخاطب نوجوان لوگ ہی ہیں۔ انسانِ کامل، مردِ مومن، تکمیلِ خودی اور تسخیرِ کائنات کے جو نصب العینی مقاصد اقبال عالمِ انسانیت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اُن کی تکمیل کا تمام تر انحصار خود اقبال کے نزدیک بھی آنے والی نسلوں ہی کے ذوقِ عمل پر ہے۔ اقبال نے معاشرے کے کسی طبقے کے افراد کے بارے میں نہیں کہا کہ مجھے ان سے محبت ہے، سوائے نوجوانوں کے:
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ذرا خیال کیجیے… گوئٹے کا کہنا یہ ہے کہ لوگ نوجوانوں میں اس لیے دلچسپی لیتے ہیں کہ اُن کے سامنے ایک وسیع اور درخشاں مستقبل ہوتا ہے… لیکن اقبال نے دلچسپی کی جگہ محبت کا جذباتی لفظ استعمال کیا ہے لیکن اس محبت کو مشروط کردیا۔ یعنی مجھے اُن جوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پہ کمند ڈالتے ہیں… ہم جانتے ہیں کہ ستاروں پہ کمند ڈالنا شاعرانہ اندازِ بیاں ہے، اگرچہ اب انسان کے قدم ستاروں اور سیاروں تک پہنچنے لگے ہیں اور تسخیرِ کائنات اقبال کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا نصب العین ہے، لیکن اس شعر میں اُن کی مراد وہ نوجوان ہیں جن کے حوصلے بلند ہیں، جن کے مقاصد بلند تر ہیں اور جو اپنے بلند تر مقاصد کی تکمیل میں ہر لمحہ کوشاں ہیں… اقبال نے اپنے افکار کی تشریح کے لیے بعض خیالی کردار بھی تخلیق کیے ہیں، جن میں سے ایک محراب گل ہے، محراب گل کی زبانی وہ جوانوں کے مثالی کردار کی خصوصیات بیان کرتے ہیں، محراب گل کہتا ہے:
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری
ستاروں پہ کمند ڈالنے والے، بے داغ شباب اور ضربِ کاری کے حامل، جنگ میں شیرانِ غاب اور صلح میں رعنا غزالِ تاتاری… یہ ہے مثالی نوجوانوں کی وہ تصویر جو اقبال کے ذہن میں اُبھرتی ہے، اس تصویر کے پس منظر میں وہ خودی ہے جو فولاد سے زیادہ مضبوط ہے:
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ اِفتاد
اقبال کو اپنے عہد کے نوجوانوں سے شکایات بھی تھیں، اور وہ ان کے لیے کئی طرح کی دُعائیں کرتے تھے:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
کتاب خواں… اور صاحبِ کتاب ہونے میں جو فرق ہے وہ وہی ہے جو گفتار اور کردار میں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اقبال کو اصل شکایات مغربی تصوراتِ زندگی پر مبنی اس نظامِ تعلیم سے ہیں جو نوجوانوں کی خودی بیدار کرنے کی بجائے اُن کے شعور پر معلومات کے پردے ڈال دیتا ہے اور علم و ادراک کی بلندی سے آشنا نہیں ہونے دیتا۔ اسی لیے وہ نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اُس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش
فیضِ فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش
مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو
خلوتِ کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش
لیکن اس کے باوجود اقبال نسلِ نو سے کسی صورت میں نااُمید نہیں، ان کا خیال ہے کہ اگر آدمی کے جوہر میں لااِلٰہ کی تعلیم رچی ہوئی ہو تو فرنگیانہ تعلیم اس کی خودی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جاوید سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
سرچشمۂ زندگی ہوا خشک
باقی ہے کہاں مئے شبانہ
خالی ان سے ہوا دبستاں
تھی جن کی نگاہ تازیانہ
جوہر میں ہو لا اِلٰہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گر فرنگیانہ
اقبال نے مختلف تاریخی اور خیالی کرداروں کی زبان سے جو نصائح چھوڑے ہیں ان سب کا خطاب نژادِ نو سے ہی ہے۔ مثلاً اُن کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’سلطان ٹیپو کی وصیت‘‘ ظاہر ہے کہ سلطانِ شہید کی یہ وصیت آنے والی نوجوان نسلوں ہی کے لیے ہے، اس نظم میں سلطانِ شہید کی زبان سے اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس قابل ہے کہ اُسے آبِ زر سے لکھا جائے، اور اس سے بڑھ کر نئی نسل کے ہر فرد کے دل و دماغ پر نقش ہو۔ فرماتے ہیں:
تو رَہ نوردِ شوق ہے؟ منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب، بڑھ کر ہو دریائے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز، گرمیِ محفل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک پر
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول
آپ نے اکثر خیال کیا ہوگا کہ اقبال کی شاعری میں شاہین کا بہت تذکرہ ہے، ممکن ہے یہ بھی سوچا ہو کہ شاہین بھی اقبال کی شاعری کی دیگر علامات کی طرح ایک علامت ہو جس کے ذریعے اقبال نے اپنے افکار و خیالات کو تمثیلی طور پر پیش کیا ہے، لیکن اگر ذرا غوروتامل سے کام لیں تومعلوم ہوگا کہ شاہین اقبال کے ہاں بنیادی طور پر نسلِ نو کا استعارہ ہے… اور عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے شاہین کے لفظ کو واقعی بلند ہمت نوجوانوں اور نسلِ نو کے افراد کے لیے بطورِ استعارہ قبول کرلیا ہے، اس علامت یا استعارے کے ذریعے اقبال نے نسلِ نو سے بہت ساری باتیں کہی ہیں۔ مثلاً ایک بوڑھا عقاب اپنے بچے سے کَہ رہا ہے:
بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقابِ سال خورد
اے ترے شہپر پہ آساں رفعتِ چرخ بریں
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
ایک اور نظم میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
عقابی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
وہ فارسی نظمیں جن میں شاہین اپنے بچے کو خطاب کرتا نظر آتا ہے، دراصل نسلِ نو کے نام اقبال کے پیغامات کی تشریحات ہیں۔ اور ان سب نظموں کا مرکزی خیال یہی ہے کہ نوجوانوں کو اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا ادراک حاصل کرنا چاہیے اور اپنے جوشِ کردار اور قوتِ عمل سے دُنیا میں ایک نیا طرزِ زندگی پیدا کرنا چاہیے جس کی بنا تعمیرِ خودی اور تسخیرِ کائنات کے تصورات پر ہو۔
جاوید نامہ… جو فارسی زبان میں اقبال کا عظیم ترین فنی کارنامہ ہے۔ اقبال کے بیشتر افکار کا آئینہ دار ہے، اس طویل نظم (مثنوی) کے اختتام پر ایک اور مختصر مثنوی ضمیمے کے طور پر شامل ہے، جس کا عنوان ہے ’’خطاب بہ جاوید، ا س کا ذیلی عنوان ہے، ’’سخنے بہ نژادِ نو‘‘… گویا اقبال نے اس نظم میں دراصل نسلِ نو سے خطاب کیا ہے، اس نظم کی ابتدا اس خیال سے ہوتی ہے کہ تمھیں تمھاری ماں نے ’’لا اِلٰہ‘‘ کہنا سکھایا، اب اگر ’’لااِلٰہ‘‘ کہو تو رُوح کی گہرائیوں سے کہو اس ابتدائی نکتے کے بعد مومن کی تعریف کی ہے کہ مومن کسی کا غلام نہیں ہوسکتا، مومن غدار، فقیر اور منافق نہیں ہوسکتا، مسلمانوں نے ’’لااِلٰہ‘‘ کی رُوح کو خیرباد کَہ دیا ہے، اس لیے اب اس کے صوم و صلوٰۃ بے نور، اس کی کائنات بے تجلیِ حیات ہوگئی ہے، کبھی محبتِ خداوندی اس کی زندگی کا سرمایہ تھی، اب حبِ مال اور خوفِ مرگ اس کی زندگی کی اساس ہے، عصرِحاضر کے افکار نے اس سے ذوق و شوق اور سوزو سرور کی متاعِ گراں بہا چھین لی ہے، عصرِحاضر جو عقلِ بے باک اور دلِ بے گداز سے عبارت ہے، سراسر غرقِ مجاز ہے، علم و فن ، دین و سیاست اور عقل ودل۔ تمام کے تمام آب و گِل (مادی نصب العین) کا طواف کر رہے ہیں، ایشیا جو طلوعِ آفتاب کی سرزمین ہے، اپنے آپ سے محجوب اور غیر کے جلوے میں گم ہے، ایشیا کا دل نئی واردات (اندر سے پیدا ہونے والی نئی تخلیقی حرکت) سے خالی ہے، اس کا زمانہ ساکن، یخ بستہ اور بے ذوقِ سیر ہوکر رَہ گیا ہے،… اس عالم میں نوجوان تشنہ لب ہیں اور ان کا جامِ شعور شرابِ آگہی سے تہی ہے۔ بے یقینی اور نااُمیدی نے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو سلب کر لیا ہے۔ ان خیالات کے بعد اقبال علم کے بارے میں ایک مختصر محاکمہ پیش کرتے ہیں، فرماتے ہیں:
علم تا سوزے نگیرد از حیات
دل نگیرد لذّتے از واردات
علم جز شرحِ مقاماتِ تو نیست
علم جز تفسیرِ آیاتِ تو نیست
سوختن می باید اندر نارِ حس
تا بدانی نقرۂ خود را زِمس
علمِ حق اوّل حواس، آخر حضور
آخرِ اُو می نگنجد در شعور
علم جب تک زندگی سے سوز نہ حاصل کرلے، دل واردات کی لذت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا۔ (اے نوجوان) علم تیرے اپنے مقاماتِ (معنوی) کی شرح ہے، تو کتاب ہے اور علم تیری آیات کی تفسیر ہے، حواس کی آگ میں جلنا شرط ہے تاکہ تو اپنے اندر کے سونے کو تانبے سے الگ کرسکے۔(اپنی ذات کے تخلیقی جوہر کو پہچان سکے) علمِ حق کی ابتدا حواس سے ہوتی ہے، لیکن اس کا اختتام حضور ہے۔ یہ آخری مرحلہ ایسا ہے کہ شعور کے پیمانے میں نہیں سما سکتا۔
نژادِ نو کو اقبال نے چند نصائح صراحت کے ساتھ کیے ہیں ان میں ایک یہ ہے:
کم خور و کم خواب و کم گفتار باش
گردِ خود گردندہ چون پرکار باش
کم کھائو، کم سوئو اور کم بولو اور اپنی ذات کے گرد اس طرح رہو جیسے پرکار اپنے گردگردش کرتی رہتی ہے، یعنی حفظِ ذات اور خودشناسی کو اپنا اُصول بنائو۔ اسی طرح اقبال نے نسلِ نو کو شیوۂ اخلاص اختیار کرنے اور ماسوی اللہ کے خوف سے آزاد ہونے کی تلقین کی ہے، دین کی تشریح کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ دین کیا ہے؟ طلب میں جل جانے کا نام دین ہے، اس کا آغاز ادب اور اس کی انتہا عشق ہے۔پھول کی آبرو اس کے رنگ و بو سے ہے۔
ان نصائح کے اختتام پر اقبال نژادِ نو کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ پیرِ رومی کو رفیق راہ بنائے، تاکہ اسے (نژادِ نو کو) سوزوگداز کی دولت حاصل ہوسکے، اس لیے کہ رومی ہی ہے جو مغز کو چھلکے سے الگ کرسکتا ہے اور کوچۂ محبوب (راہِ حقیقت) میں استقامت کے ساتھ پائوں رکھ سکتا ہے۔ لوگوں نے رومی سے ’’رقصِ تن‘‘ کا سبق لیا ہے اور جب تک حرص اور غم کی آگ انسان کے اندر سلگتی رہتی ہے، اُس کی رُوح وجد میں نہیں آسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ حرص عصرِحاضر کی فقیری ہے، اور حرص سے وہی آزاد ہوسکتا ہے جو اپنی ادنیٰ خواہشوں کو تسخیر کرچکا ہو! غرض نژادِ نو کے نام اقبال کے پیغامات اُن کی ساری شاعری میں بکھرے ہوئے ہیں، یہ پیغامات ساحلوں کے موتی اور آسمانوں کے ستارے ہیں جن کی چمک کبھی ماند پڑنے والی نہیں کیونکہ نئی نسلیں ہر عہد میں پیدا ہوتی رہیں گی اور اقبال کا پیغام ہر عہد کے نوجوانوں کے لیے معنی خیز رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی تمام تر شاعری دراصل ہر عہد کی نژادِ نو کے لیے پیغام ہے… جستجو کا پیغام، زندگی کا پیغام اور خود آگہی کا پیغام! [نوجوانوں کی ایک انجمن سے خطاب]