اقبال کی معاصر دُنیا، اور اقبال کے بعد کی تین چار دہائیوں میں عبدالرحمن چغتائی کے فن کو بتدریج جو مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی، اس نے اُسے بجا طور پر مصورِ مشرق اور بہزادِ عصر بنادیا، اور آج اپنے بہت سے مخصوص فنی لوازمات و تلازمات کے ساتھ اور ایسی بہت سی فنی خصوصیات کے باوجود جنھیں بعض اربابِ نقد و نظر تکنیکی اعتبار سے نقائص کے زمرے میں شمار کرتے ہیں، چغتائی مصوری کی دُنیا میں مشرق کا واحد نمائندہ ہے جس کا کام اتنی کثیر تعداد میں دُنیا کے سامنے بکھرا ہوا ہے کہ مانی و بہزاد کے نام صرف افسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یوں تو لا تعداد معلوم وغیر معلوم مشرقی مصوروں کے کارنامے ہیں جن سے مشرق کے کلاسیکی شعر و ادب کے اوراق زرنگار و زرفشاں ہیں، اور جنھیں مجموعی طور پر مشرقی یا اسلامی مصوری کے شاندار نام سے یاد کیا جاتا ہے، تاہم اپنے کام کی نوعیت اور اپنے تجدیدی کارنامے کی بدولت استاد بہزاد۱؎ کے بعد چغتائی ہی ایک ایسا نام ہے۔ جو اسلامی مشرق کی مخصوص مصورانہ روایات کی علامت بن گیا ہے۔ چغتائی نے مشرق کی مصورانہ روایات کو جوں کا توں قبول نہیں کیا۔ بلکہ اُن میں اس طرح کا تصرف کیا ہے کہ مشرقی مصوری میں اس کی انفرادیت مسلّمہ ہو گئی ہے۔
شاعری اور مصوری کے رشتوں کے بارے میں دونوں فنون کے نقادوں اور دوسرے مفکروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ شاعری کے محاکاتی پہلو کی اہمیت کے پیش نظر بعض نقادوں نے شاعری کو الفاظ کی مصوری قرار دیا ہے۔ اسی طرح مصوری کی تنقید میں غنائیت (lyricism) توازن، آہنگ اور امیجری جیسی اصطلاحات بھی استعمال کی گئی ہیں جو بنیادی طور پر شاعری کی تنقید و تفہیم سے تعلق رکھتی ہیں۔ شاعری اور مصوری کا ایک رشتہ اور بھی ہے۔ دُنیا کے اکثر بڑے شاعروں کو یہ امتیاز حاصل رہا ہے کہ اُن کے ہم عصر یا بعد کے مصوروں نے اُن کے شاعری کے موضوعات یعنی واقعات و مناظر اور کرداروں کو تصویری سانچے میں ڈھالا ہے۔ شاعری کو مصور کرنے کی روایات اسلامی مشرق میں بہت اہم رہی ہیں۔ شاہنامۂِ فردوسی، خمسۂِ نظامی ، گلستان و بوستانِ سعدی اور اسی نوع کی دوسری بیانیہ یا غنائیہ شاعری کو مختلف ادوار کے بہترین مصوروں کی تصویری ترجمانی حاصل رہی ہے۔ قدیم مشرق کا کوئی اہم شعری نسخہ (محظوطہ) ایسا نہیں جو نقاشانہ مصوری کے شہ پاروں سے مزیّن نہ ہو، اُستاد بہزاد، اُس کا شاگرد میر قاسم، ہرات کا نقاش میرک(مصطفیٰ عالی کے نزدیک بہزاد کا اُستاد) پیر سید احمد تبریزی، خلیل مرزا، عبدالصمد شیرازی اور اسی قبیل کے تمام اساتذۂِ فن جو تاریخ میں زندۂ جاوید ہیں،…جدید معنوں میں طبع زاد مصور نہیں بلکہ تزئین کار، یا مرقع نگار (illustrators) ہیں قدیم اصطلاح میں اُن کے فن کو مرقع نگاری یا مرقع سازی سے تعبیر کیا گیا ہے،…اس حقیقت کے باوجود کہ مرقع سازی (illustration) عصر حاضر میں فنی قدرو قیمت کے اعتبار سے ضمنی اور ثانوی قدرو قیمت کی حامل ہے، قدیم مرقع سازی اور مینا طوری مصوری(miniature painting) صرف مشرقی مصوری ہی نہیں، پوری دُنیائے فن کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ ان کی مرقعاتی قدرو قیمت (illustrative value) سے قطع نظر جس طرح مغرب کے تمام بڑے بڑے مصورانہ شاہکار ماڈل (model) کی شرط سے آزاد نہیں تھے، اس طرح مشرق کی مصوری بھی مرقع سازی کے مفہوم کی حامل ہوئے بغیر وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ مغربی مصوری کے مداحوں اور نقادوں نے مشرقی مصوری پر اُصولِ تناظر (perspective) سے عدم واقفیت کا الزام لگایا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ مشرقی مصوری اپنی ماہیت اور عناصرِ ترکیبی کے اعتبار سے مثالیت یا عینیت (idealism) کی طرف میلان رکھتی ہے، جب کہ اُن کی (مغربی) مصوری حقیقت نگاری یا فطرت پسندی کے اُصولوں پر اُستوار ہے۔ مشرقی مصوروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ’بیرون‘ کے ساتھ ساتھ ’اندرون‘ کو بھی دکھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے ہاں اشیا، کردار اور مناظر اُصولِ تناظر کی پابندی کے ساتھ نہیں بلکہ ایک نوع کی ماورائی (transcendental) ترتیب کے ساتھ اُبھرتے ہیں۔ یہ وہی ترتیب ہے جسے آج کی اصطلاح میں سرئیلزم (surealism) کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مشرقی شاہکاروں میں اُصولِ تناظر کی پابندی نام کو بھی نہیں پائی جاتی۔ ایسا کہنا صریحاً غلط ہوگا۔ اس لیے کہ مشرق کے تمام بڑے فن پاروں میں اُصولِ تناظر کی رُونمائی اس حد تک یقینا موجود ہے، جس حد تک وہ تصویر کے ماورائی یا عینی مفہوم میں حارج نہیں۔ جن لوگوں نے بہزاد کی تصویر’زلیخا کا محل‘ دیکھی ہے، اُنھیں اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ بہزاد نے کس طرح محل کے درو بام، صحنوں، صحنچیوں اور اندر باہر کھلنے والی کھڑکیوں کے ساتھ ساتھ محل کی پوری ہیئت یا کلیت …اور اُس کی تشکیلی پیچیدگی (structural complexity) کو تمام تر جمالیاتی اُصولوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ غرض مشرقی مصوری کے اُصول و اسالیب اس کے اپنے ہیں، اُس کی جمالیات (aesthetics) اُس کی اپنی ہے،…اور اس کی رُوحِ تمدن سے پوری طرح ہم آہنگ رہی ہے۔ مشرقی مصوری پر دوسرا بڑا اعتراض تصویر میں سائے (shadow) کا نہ ہونا ہے۔ مغربی تصویر سائے اور روشنی کے امتزاج (charischaro) سے وجود میں آتی ہے۔ مغربی تصویر کو دیکھ کر آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں روشنی کا سرچشمہ (source of light) کون سا ہے یا کس طرف ہے۔ جب کہ مشرقی تصویر میں روشنی کے سرچشمے کا سراغ نہیں لگا یا جا سکتا۔ اس لیے کہ مشرقی تصویر تمام کی تمام روشنی میں ہوتی ہے۔ مشرقی تصویر کے رنگ روشنی میں نہائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی لیے مشرقی تصویر دراصل روشنی اور رنگ کے باہمی حلول و سریان سے وجود میں آتی ہے، ہو سکتا ہے اس کا سبب مسلمانوں کا تصورِ نور ہو۔ جس طرح مشرقی ادب میں المیہ تمثیل (tragedy) نہیں، لیکن المیہ کے اجزا شاعری میں تحلیل ہو گئے ہیں، اسی طرح مشرقی مصوری میں سایہ و ظلمت موجود نہیں، بلکہ رنگ اور روشنی کی دُنیا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک ما بعد الطبیعیاتی توجیہ یہ بھی ہے کہ مشرقی (اسلامی) تصوف (حیات و کائنات کی روحانی تعبیر) شر (evil) کو وجودیات میں ایک اعتبار تو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اسے وجود کی ماہیت میں شامل نہیں سمجھتا۔ اور کائنات کو مجموعی طور پر خیر کا مظہر سمجھتا ہے۔ اسی لیے مشرقی مصوری اور خاص طور پر مسلمانوں کی مصوری میں سایہ اور ظلمت کوئی اعتبار حاصل نہیں کرتے کہ وہ تصویر (جو کسی حد تک عالم موجودات کی علامت بھی قرار دی جا سکتی ہے) کی ماہیت میں شامل نہیں۔ مختصر یہ کہ رنگ اور روشنی کی اس دُنیا میں سیاہ یا سیاہی اتنی کم مقدار میں ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے دراصل اسلامی تمدن کے ما بعد الطبیعیاتی تصورات میں روشنی اصل وجود اور رنگ وجود کی مظہریت ہے (essence and phenomena) گویا زندگی اور کائنات کا مظہری پہلو ’رنگ‘ سے عبارت ہے،…شاید یہی سبب ہے کہ فارسی شاعری میں جو ایک مخصوص ما بعد الطبیعیاتی اساس رکھتی ہے، ’رنگ‘ کا لفظ ایک بے حد معنی خیز علامت یا استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ مرزا عبدالقادر بیدل، مرزا اسد اللہ خاں غالب اور علامہ اقبال کی شاعری میں یہ لفظ کم و بیش ایک ہی معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی یہ لفظ اپنی تمام معنوی وسعتوں اور تمام رمزیاتی اطلاقات اور مضمرات کے ساتھ زندگی کے مظہریاتی پہلوئوں ہی کی تشریح کرتا ہے۔
مثال کے طور پر بیدل کا صرف ایک ہی شعر کافی ہوگا:
عشق از مشتِ خاکِ آدم ریخت
ایں قدر خُون کہ رنگِ عالم ریخت
یعنی ’عشق‘ نے آدم کی مُٹھی بھر خاک سے اس قدر خون نچوڑا کہ اس سے عالمِ (موجودات) کا رنگ ٹپک پڑا یا چھلک پڑا۔ غرض ’روشنی‘ اور ’رنگ‘…مشرقی مصوری کے بنیادی تصورات اور اہم ترین اجزائے ترکیبی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ رنگ کی آمیزش، اُس کی انفرادی اور ترکیبی خصوصیات، اور اس کی بہار آفرینی کے سلسلے میں اسلامی مشرق (خصوصاً ایران) کے مصور…چین کی روایاتِ مصوری سے ضرور مستفید ہوئے ہوں گے، لیکن ان کو وضع دینے (treatment) میں مسلمان مصوروں کے اپنے تصورات کار فرما ہیں۔ اور جہاں تک روشنی کے سیلان و سریان کا تعلق ہے، مشرق و مغرب میں کوئی بھی مسلمانوں کا حریف نہیں۔ معترضین کا یہ کہنا کہ مشرقی تصاویر میں روشنی کے سرچشمے کا پتا نہیں چلتا، یعنی معلوم نہیں ہوتا کہ روشنی تصویر کی اشیا کو کس جانب سے منور کر رہی ہے، ایک ایسا اعتراض ہے جو صرف وہی لوگ کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں جو مغرب کی حقیقت نگاری، (خارجیت پسندی) کو فن کا آخری منہاج اور مطلق تصور سمجھتے ہیں اور مشرقی علوم و فنون کی رُوح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ خود مغرب میں اُٹھنے والی مصوری کی جدید تحریکات مثلاً تاثریت (impressionism) اظہاریت (expressionism) مکعبیت (cubism) دادائیت (dadaism) سرئیلیت (surealism) نے خارجی حقیقت نگاری کے مسلّمہ اُصول کو کلی یا جزوی طور پر رد کر کے ہی تصویری سطح کی نئی دُنیائوں کو دریافت کیا ہے، ممکن ہے اسے محض ایک توجیہ خیال کیا جائے ، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ شرقی مصوروں نے روشنی کو کسی ایک جانب یا تصویر کی کسی ایک سمت سے مخصوص یا محدود نہیں کیا، بلکہ روشنی اُن کے نزدیک اشیا و کردار اور مناظر و مرایا میں اس طرح جاری و ساری ہے کہ وہ اصل وجود بن جاتی ہے اور اشیا کو اُن کی ہیئتیں عطا کرنے کے لیے رنگوں کا لباس پہن لیتی ہے، اس لیے اس کو کسی مخصوص جانب سے دکھانا اُسے محدود کر دینے کے مترادف ہوگا، مشرقی مصوری میں رنگ اور روشنی کی اس معنوی اور وجودیاتی یا مظہریاتی حقیقت کو بہت کم سمجھا گیا ہے، خود مشرقی ناقدین نے بھی اس نکتے کی طرف کم ہی اشارہ کیا ہے۔ تاہم اس بات کا اعتراف سب کو کرنا پڑا ہے کہ رنگ جس طرح اپنی فطری طاقت اور تابانی، اپنے ترکیبی مزاجوں، اور اپنی حیات بخشی اور حیات افروزی کے ساتھ مشرق کی اسلامی مصوری میں نمودار ہوئے ہیں، دُنیا کی کوئی اور روایتِ مصوری اس کی مثال شاید پیش نہ کر سکے۔ یہ رنگ و نور کی مصوری کا ایسا بہشت آفریں پہلو ہے جس کی جمالیاتی قدرو قیمت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اس روایتِ مصوری کو ہم مجموعی طور پر ’نشاطِ رنگ‘ کا تجربہ کَہ سکتے ہیں، جو تصویر کی سطح پر ایک نوع کے القائی سکوت (inspirational queitude) کو متشکل کرتا ہے اور عام طور پر عبارت (نظم و نثر) کے جلو میں نمودار ہوتا ہے۔ عبارت (یالفظ) کے ساتھ تصویر کی وابستگی ایک اور مفہوم میں بھی اسلامی تمدن کے مخصوص مزاج کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلام میں روایت با للفظ کی جو اہمیت رہی ہے اور علوم کی اشاعت میں قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کے اسلامی ادوار نے جو اہم کردار ادا کیا ہے، اس کا فطری تقاضا ہی یہی تھا کہ ’نقش‘ (تصویر) عبارت کے جِلو میں رہے، یہی سبب ہے کہ قدیم مصور دواوین میں نقش یا تصویر’عبارت‘ کے بین السطور ’اشارہ‘ ہے جو رنگ و نُور کے سانچے میں ڈھل گئی ہے۔
عبدالرحمن چغتائی، لاہور کے ایک معزز معمار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے اجداد سکھوں کے عہد میں ممتاز رہے۔ خود عبدالرحمن چغتائی اور ان کے برادرِ اصغر ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے اپنی کئی تحریروں میں اپنا سلسلۂ نسب عہدِ شاہجہان کے مشہور معمار …معمارِ تاج اُستاد احمد لاہوری سے ملایا ہے۔۲؎ اس اعتبار سے ان کا خاندان ایک طویل عرصے سے برِصغیر میں اسلامی فنِ تعمیر اور بالخصوص مغل طرزِ تعمیر کی روایات کا امین چلا آرہا ہے…اور اگر توارث اور اجتماعی لاشعور کی کوئی حقیقت ہے تو اُسے چغتائی کے فن پاروں میں زندہ حقائق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مغل تعمیرات میں ڈیزائن اور ’سٹرکچر‘ کے علاوہ آرائشی صناعی کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ مغل تعمیرات کی یہ آرائشی صناعی بذاتِ خود ایک بہت بڑا فن ہے۔ اور مغل عہد میں، گو ایک ضمنی فن کی حیثیت سے ہی سہی، ایک زندہ روایت کے مترادف رہا ہے۔ چغتائی کی تصویروں کا آرائشی پہلو اسی مغل آرائشی صناعی کی روایت کی توسیع ہے، چغتائی نے اس آرائشی صناعی کو عمارات سے نقل کیا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اسے چغتائی کو ورثے میں ملنے والی روایت ضرور کہا جا سکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ عبدالرحمن چغتائی اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اپنے سلسلۂ نسب کو استاد احمد لاہور معمارِ تاج، یا معمارِ شاہجہانی سے ملانے کے ناقابلِ تردید دلائل و شواہد نہیں رکھتے،…اس لیے کہ تاج محل کی تخلیق یا تعمیر کے سلسلے میں کسی مستند نام کی تلاش میں محققین ایک طویل عرصے تک سرگرداں رہے ہیں، ۱۹۳۱ء میں علامہ سلیمان ندوی نے ادارہ معارفِ اسلامیہ، لاہور میں ایک گراں قدر مقالہ: ’لاہور کا ایک معمار خاندان‘ کے عنوان سے پڑھا، جس میں اُنھوں نے انکشاف کیا کہ تاج محل کی تخلیق و تعمیر کو اُستاد احمد لاہوری سے منسوب کیا جا سکتا ہے، جسے ’معمارِ شاہجہانی‘ کا خطاب بھی حاصل تھا ۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اپنے جدِّ امجد(دادا) رحیم بخش کے بارے میں لکھتے ہیں:
ایک زبانی روایت کے توسط سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ رحیم بخش کے والد محمد صلاح عہدِ شاہجہانی کے مشہور معمار…احمد معمار…کے خاندان سے تھے۔( ۳)
ان زبانی روایت کی بنیاد پر ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے ایک شجرۂ نسب بھی مرتب کیا ہے۔ جومحولہ بالا مضمون میں شامل ہے۔ اس شجرۂِ نسب میں استاد احمد لاہور معمارِ شاہجہانی کا مختصر شجرہ بھی شامل ہے۔ اپنے خاندان کے بارے میں خود عبدالرحمن چغتائی کا ایک بیان ہے کہ:
جہاں تک میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے یہ معمار خاندان غزنی سے ہندوستان آیا اور اس کا موروثی رشتہ ہرات سے تھا۔ اور یہ پادشاہ جہانگیر کے عہد ہی میں اپنے اعلیٰ اوصاف اور روایات کی بنا پر بر سراقتدار آیا، برسوں لاہور میں مقیم رہا۔ وہ ہر خدمت انجام دیتا رہا جو ا س کے سپرد کی جاتی رہی۔ خصوصیت سے اس خاندان کو نقاشی ، خطاطی، پچی کاری، پرچین کاری، ڈیزائن، نقشہ جات اور بنائے تعمیر میں بڑا دخل تھا۔۴؎
حتمی دلائل اور ناقابلِ تردید شواہد کی کمی کے باوجود تمام قرائن اسی حقیقت کی طرف راجع ہیں کہ عبدالرحمن چغتائی کا خاندان لاہور کے ایک قدیم اور بہت بڑے معمار خاندان سے تعلق رکھتا تھا، نیز اس خاندان کی زبانی روایات بتاتی ہیں کہ اسے استاد احمد معمارِ شاہجہانی سے تعلق تھا۔ بہر حال عبدالرحمن چغتائی کو مغل فن تعمیر کی صنّاعانہ روایات ورثہ میں ملیں، جن کی ایک بھر پور جھلک چغتائی کے شاہکاروں میں نظر آتی ہے۔ چغتائی نے اپنے فن کا آغاز ۱۹۱۶ء کے آس پاس کیا۔ وہ میو سکول آف آرٹس کا طالب علم تھا، اور مصوری کی رسمی تعلیم سے کافی حد تک بہر مند تھا،۔ اس زمانے میں پورے برِصغیر میں مصوری کا ایک ہی دبستان فروغ پا رہا تھا۔ یعنی بنگال سکول آف آر ٹ،۔ جس کے بانی رابندرناتھ ٹیگور اور ان کے بھائی روبندروناتھ تھے۔ اور اُنھیں کی نسبت سے یہ دبستانِ فن بعد میں ’ٹیگور اسکول آف آرٹ‘‘ بھی کہلایا۔ بیسویں صدی کے رُبعِ اول میں یہ واحد دبستانِ مصوری تھا جو ان معنوں میں زندہ روایات کا حامل تھا کہ اس کے ذریعے ہندوکلچر اور ہندو دیو مالا کو ایک نئی زندگی مل رہی تھی۔ دہلی اور لاہور کے مسلمان مینا طوری مصور (miniaturists) اپنے گھروں میں بیٹھے کچھ فرمائشی تصویریں بنا رہے تھے اور برِصغیر کی آرٹ گیلریاں بنگال سکول آف آرٹ کے مصوروں کی تصویروں سے مزیّن تھیں،…چغتائی نے ۱۹۱۶ء ہی میں کلکتے کا ایک سفر بھی کیا اور بنگال اسکول کے بڑے مصوروں مثلاً رابندرناتھ ٹیگور، گوگیندرناتھ ٹیگور اور نندلال بوس سے بھی ملاقات کی، اور ان کے فن کا مطالعہ کیا۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا کہنا ہے کہ چغتائی کلکتہ سے لوٹا تو اس کے ذہن میں بنگالی اسکول کے مقابلے میں اسلامی یا مغل روایات کی روشنی میں کام کرنے کا خیال پیدا ہو چکا تھا۔عبدالرحمن چغتائی کے کئی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے ہندو موضوعات پر بھی بہت تصویریں بنائیں، …مثلاً اپنے ایک نہایت اہم مضمون ’’میری تصویریں میری اپنی نظر میں‘‘۔ وہ لکھتا ہے:
میری تصویریں جن میں مغل، ایرانی، ہندو، پنجابی، کشمیری، اور برہمن۔ سبھی شامل ہیں، ان کو دیکھ کر ایک مغربی نقاد نے کہا تھا کہ نئے موضوع اور اختراعات کو تصویری قالب میں ڈھالنا ایک ذہین اور چابکدست مصور ہی کا کام ہے۔( ۵)
تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے بہت جلد اپنے لیے اپنے موضوعات کا تعین کر لیا۔ اور وہ تھے مغل اور اسلامی مشرق کے کردار،…چونکہ بیسویں صدی میں خیام کی شہرت و مقبولیت کو مشرق و مغرب میں ایک نئی زندگی ملی، اس لیے یہ ایک قدرتی بات تھی کہ چغتائی نے بھی مشرقی موضوعات کی تلاش میں ’’خیامی‘‘ موضوعات کو اپنایا، تاہم اس کا کہنا ہے کہ اس نے مولانا رُوم، سعدی، حافظ اور اقبال سے بھی کردار یا موضوعات لیے،…اور سب سے اہم بات یہ کہ اس نے بہت سے موضوعات مرزا غالب کی شاعری سے اخذ کیے،…مرزا غالب جو ایک عظیم آفاقی شاعر ہونے کے علاوہ انیسویں صدی میں ایشیائی اسلامی تمدن کی واحد تخلیقی علامت تھے۔ اپنے اسی مضمون کے آغاز میں جس کا حوالہ دیا گیا، چغتائی رقم طراز ہیں:
…میری ہر تصویر…ایک ایسی تخلیق ہے جو اپنے خالق کی ذہنی کاوش، تہذیبی شعور، وجدان اور عرفان کی نشاندہی کرتی ہے…میں نے شہرزاد، بدرالبدور، الہ دین، سند باد، خلیفہ ہارون الرشید، زبیدہ خاتون، ابوالحسن، رقاصائیں اور کنیزیں، سپاہی اور جرنیل، سلطان اور بیگمات آقا اور غلام، دخترانِ حرم اور دوشیز گانِ خانہ بدوش تخلیق کی ہیں…ان کرداروں کی کردار نگاری کی ہے جو ہماری گذشتہ عظمت، روایات، ثروت، شرافت، شان و شوکت اور امانت کے علمبردار تھے، اور وہ کسی سحر سے سحر زدہ نہیں تھے۔
چغتائی نے کہیں یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’میرے فن کی ابتدا ہوئی تو بیل بوٹوں سے۶؎‘‘…لیکن اُن کی تقدیر میں بیسویں صدی میں مصورِ مشرق کہلانا تھا، اس لیے اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کو بہت جلد اسلامی تمدن یا مشرقی مصوری کی اسلامی روایات کو از سرِ نو زندہ کرنے کے لیے وقف کر دیا، وہ آغاز ہی سے آبی رنگوں کے مصور تھے۔ اور آبی رنگوں ہی سے اُنھوں نے وہ شاہکار تخلیق کیے جن پر مشرقی روایاتِ مصوری کو ہمیشہ ناز رہے گا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ چغتائی آبی رنگوں کے مصور تھے لیکن وہ اپنے رنگ کس طرح استعمال کرتے تھے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آسانی سے نہیں دیا جا سکتا۔ اُن کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ وہ واش (wash) کی تکنیک استعمال کرتے تھے لیکن واش کی تکنیک اُنھوں نے کہیں سے مستعار نہیں لی، بلکہ طویل تجربوں اور سالہا سال کی جانفشانی سے خود ایجاد کی ہے۔۷؎ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پہلے کاغذ کو ’سیزن‘ کرتے تھے اور پھر اُسے تصویر کے لیے استعمال کرتے تھے۔ تصویر بنانے سے پہلے کاغذ پر پنسل سے خاکہ کشی کا اُنھوں نے کہیں ذکر نہیں کیا۔ ’واش تکنیک‘ کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ رنگ لگانے کے بعد اُنھیں آبی غسل دیتے تھے (واش کرتے تھے) اسی لیے ان کی تمام تصاویر میں آبی رنگ ایسی لطافت، نرمی اور ملائمت کے حامل ہیں جس کی کوئی مثال قدیم مشرقی مصوری میں نہیں ملتی۔ صرف یہی ایک ایسا اجتہاد ہے جس کی بنا پر اُنھیں ایک اُستاد فن کار تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اُن کی تکنیک کا صرف ایک پہلو ہے۔ تکنیک کے بعد اُسلوب کا مرحلہ ہے۔ اور چغتائی کے اُسلوب کے بارے میں بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے ایرانی مصوری کی مغل روایات، خالص ایرانی روایات، ہرات کے دبستانِ فن (دبستانِ بہزاد) کے علاوہ بنگال اور راجپوت دبستانوں سے بہت کچھ سیکھا اور ان تمام دبستانوں کے بہترین اجزا کو ایک ایسے اسلوب کی تشکیل میں صرف کیا جسے آج دُنیا میں صرف چغتائی کا اُسلوب ہی کہا جا سکتا ہے۔ مشرقی مصوری کے ہم عصر دبستانوں میں یہی ایک اُسلوب ہے جو بذاتِ خود ایک دبستان بھی ہے اور ایک صاحبِ طرز مصور کی انفرادیت کا نشان بھی! اسی اُسلوب کے ذریعے چغتائی نے اپنی تصویروں میں مشرق کو ایک بار پھربھی زندہ کیا، اور مشرقی ادب سے وہ تمام اجزا منتخب کیے جن کے ذریعے مشرق کی ایک مثالی (idealistic) بصری تصویر متشکل کی جا سکتی تھی۔ چغتائی کا فن رنگوں کی معجزانہ آمیزش ، خطوط کی حیرت انگیز نزاکت اور رعنائی، خطوط کے بہائو (flow) رنگوں کے امتزاج اور پیکروں کے تجسیمی آہنگ سے اُبھرنے والی غنائیت (lyricism) کا فن ہے،…چغتائی کی دُنیا میں رنگ ہی رنگ ہیں، وہ زندگی کی مثالی حقیقتوں کا ادراک ’رنگ‘ اور ’خط‘ کے ذریعے کرتا ہے، اس کی تصویری سطح کا کوئی رقبہ رنگ کی نور افشانی اور تابانی سے خالی نہیں۔ روشنی (light) اس کی تصویروں میں ’رنگ کی تابانی‘ کے طور پر ہر حصۂِ تصویر میں گھلی ہوئی ہے، وہ نور و ظلمت کے تضاد کے مصور نہیں بلکہ رنگوں کی تابانی کے مصور ہیں، وہ اپنے خطوط کے ذریعے زندگی کی درشتی اور صلابت کو ظاہر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں…وہ اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ارفعیت (sublimity) کی تجسیم کر سکیں، لیکن اُنھوں نے زیادہ تر لطیف، غنائی تصویریں بنائی ہیں۔ جو مشرق کی غنائی شاعری کے مصورانہ بدل ہیں۔ مرقع چغتائی کے مقدمہ نگار ڈاکٹر جیمز کزن نے بجا طور پر چغتائی کی تصویروں کے شیریں خطوط کو تصویر کے خطوط سے زیادہ کسی غیر سماعی شاعری کی سطور قرار دیا ہے، جنھیں مصور نے بصری حقیقت بنا دیا ہے، اُنھوں نے اپنی مصورانہ لغت (pictorial diction) مصوری کی ایرانی او رمغل ایرانی یا ہند ایرانی روایات سے اخذ کی ہے، لیکن اس لغت کو، اس بصری زبان کو اُنھو ںنے کامل مجتہدانہ شان، اور بیان پر پوری قدرت رکھنے والے صاحبِ طرز مصور کے طور پر برتا ہے۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے جو چغتائی کے فن کی انفرادی اور امتیازی خصوصیت ہے۔
فنِ مصوری میں چغتائی کو ایک مسلّم الثبوت استاد اور ایک صاحبِ طرز مصور کا مقام دلانے میں ان کے اولیں مرقعِ مصوری…مرقعِ چغتائی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ دیوانِ غالب کو مصور کرنے کی تحریک اپنے عہد کے مشہور معلّم اور اُستاد شاعر ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے کی، اور اُنھیں کے مشوروں کے ساتھ ۱۹۲۷ء میں مرقعِ چغتائی شائع ہوا۔ اس کا پیش لفظ علامہ اقبال نے انگریزی میں لکھا، یہی وہ پیش لفظ ہے جس میں اقبال نے اپنے نظریۂ فن کو پہلی بار وضاحت کے ساتھ (نثر میں) پیش کیا اگرچہ مرقعِ چغتائی، فن مصوری میں ایک بہت بڑا اقدام تھا، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے اپنے پیش لفظ میں چغتائی کی زیادہ تحسین نہیں کی۔ بلکہ دیباچے کے اختتام پر صرف اتنا کہا ہے کہ:
تاہم یہ اشارات ہمیں بتاتے ہیں کہ پنجاب کا نوجوان مصور ایک فنکار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر رہا ہے۔ وہ ابھی صرف انتیس سال کا ہے۔ وہ جب چالیس سال کی پُختہ عمر کو پہنچے گا تو اس کا فن کیا صورت اختیار کرے گا، اس کا انکشاف صرف مستقبل ہی کرے گا۔ اسی اثنا میں وہ سب جو اس کے فن میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس کی فنی پیش رفت کو غائر توجہ سے دیکھیں گے۔
مرقع چغتائی کی اشاعت نے چغتائی کو فنِ مصوری میں ’کلاسکس‘ کا درجہ عطا کر دیا، غالب کی شاعری اور شخصیت کا ’ہند ایرانی‘ پس منظر چغتائی کی مصوری کے ’مغل ایرانی‘ پس منظر سے بہت حد تک ہم آہنگ تھا، مرقع چغتائی کی اشاعت سے مشرقی مصوروں کی ایک اور روایت بھی زندہ ہوئی کہ اُن کا فن شعر و ادب کی تصویر گری سے عبارت تھا، چغتائی نے اس مقصد کے لیے دیوانِ غالب کو بطورِ ’متن‘ منتخب کیا۔ اس حسنِ انتخاب پر ذوقِ سلیم اور وقت نے مُہر توثیق ثبت کر دی۔ اس کی تصاویر اور آرائش کو جو بھی دیکھتا تھا مصورِ مشرق، اور’’ بہزادِ عصر‘‘ کے الفاظ خود بخود اس کے ذہن میں گردش کرنے لگتے تھے۔ مرقع چغتائی کی اشاعت کے دوران ہی غالباً علامہ اقبال کے لیے چغتائی کے فن کو بہ نگاہِ غائر اور کسی قدر تفصیل کے ساتھ دیکھنا ممکن ہوا وگرنہ جہاں تک اقبال کے مشاغلِ زیست کا تعلق ہے اُنھیں شعر و ادب اور افکار کی دُنیا کے علاوہ کسی اور فنِ لطیف سے عملی دلچسپی لینے کا وقت کم ہی ملتا ہوگا۔ ہو سکتا ہے انھی دنوں میں یا آنے والے سالوں میں…بالخصوص جاوید نامہ کی تصنیف کے ایام میں۔ اقبال کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہو کہ اُن کے کلام کو بھی مصور کیا جائے، اُنھوں نے یقیناً طربیۂ ایزدی (ڈوائن کامیڈی) کے مصور ایڈیشن دیکھے ہوں گے، خود جاوید نامہ کے مناظر بھی اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ اُنھیں تصویری پیکروں میں ڈھالا جائے۔
۲
اپنی تمام تر عینیّت یا تصوریت (idealism) کے باوجود اقبال اپنی شاعری میں زندگی کے دقیق ترین نکات کے شارح اور حیات و کائنات کے بارے میں بہت سے ایسے خیالات کے ترجمان ہیں جنھیں خود اُنھیں کے ادراک ہی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ اپنی فکری وسعتوں اور فلسفیانہ مطالب کے باوجود اقبال کی شاعری میں حیرت انگیز حد تک بصری مواد (pictorial value) موجود ہے جس سے مصور کو نقش آفرینی اور نقش آرائی کے لا تعداد زاوئیے میسر آسکتے ہیں۔ عام حالات میں کسی فلسفی شاعر کے ہاں اتنے بصری مواد کی توقع کم ہی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اقبال نے اپنی شاعری میں بیانیہ اسالیب، غنائی عناصر ، اور حکیمانہ افکار کو اس طرح ایک ہم آہنگ و حدت میں تحلیل کر دیا ہے کہ اس ترکیبِ نو (synthesis) نے آہنگ، امیجری، محاکات اور لفظی موسیقی کے بہترین بلکہ معجز نما امکانات کو حقیقت بنا دیا۔ غالب کی طرح اقبال کا تخیل بھی نادرہ کار تھا۔ اُنھیں تمثیل آفرینی،تجسیم اور صُوَری یا بصری تشکیل (محاکات) پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔ وہ خیال کو منظر عطا کرنے پر پوری طرح قادر تھے، جس طرح وہ الفاظ کی اصوات کے رمز شناس تھے، اسی طرح لفظ کی تصویر آفرینی کی قوتوں کو بھی اچھی طرح جانتے تھے اور اُن کے نہایت فنکارانہ استعمال کے ہُنر سے بہرہ ور تھے۔ اس لیے کوئی بھی مصور جسے نقش آفرینی کے لیے کسی ’مثالی متن‘ کی تلاش ہو، اقبال کی شاعری سے مایوس نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اقبال کا مطالعہ اس کے لیے انشراحِ خاطر کا باعث ہو سکتا ہے، بالخصوص اقبال کی فارسی غزل محاکاتی شاعری کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جس سے تصویری مواد آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کی روایت ہے ( ۸)کہ ’’۱۹۲۲ء میں ’’خضرِ راہ‘‘ کا مصور ایڈیشن بھی پیش کرنے کا اعلان ہوا تھا، مگر یہ ایڈیشن کبھی تیار نہ ہو سکا۔‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اپنے کلام کو مصور کرانے میں ایک گو نہ دلچسپی ضرور رکھتے تھے، عبدالرحمن چغتائی نے عملِ چغتائی کے آغاز میں اقبال کی اس دلچسپی یا خواہش کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
علامہ اقبال کی ہمیشہ یہ آرزو رہی کہ ان کے کلام کا ایک باتصویر اور جامع ایڈیشن شائع کیا جائے۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ صحت بحال ہو جائے تو جاوید نامہ کا انگریزی ترجمہ کروں گا اور اسے ترتیب دوں گا ۔ اس میں تمھارے بنائی ہوئی تصویریں ہوں گی اور اس کو نوبل پرائز کے لیے پیش کروں گا۔
موضوع کے تقاضوں کے پیش نظر جاوید نامہ کی مصوری کے لیے ایک خاص طرز کے محاکاتی اُسلوب کی ضروت تھی جو ’آسمانی سفر‘ کے اہم مرحل کو کامیابی کے ساتھ تصویر کا پیر ا یہ عطا کر سکے ‘… جہاں تک چغتائی کے اُسلوب کا تعلق ہے، اُسے عام معنوں میں محاکاتی نہیں کہا جا سکتا، چغتائی کے فن میں غزل کی سی اشاریت اور رمزیّت (suggestiveness) ہے۔ بیانِ واقعہ کے لیے چغتائی کا اُسلوب اپنے اندر کچھ زیادہ گنجائشیں نہیں رکھتا۔ جاوید نامہ میں ڈرامائیت ہے اور تیز رو مناظر ہیں۔ جنھیں گرفت میں لانے کے لیے کسی واقعیت نگار مصور کا موقلم ہی موزوں ہو سکتا تھا۔ چغتائی خود ایک صاحب طرز مصور ہے، صاحب طرز فن کار ایک اعتبار سے اپنے طرز یا اُسلوب کا اسیر بھی ہوتا ہے، وہ اپنے اُسلوب کے التزامات کو چھوڑ نہیں سکتا۔ یہی مشکل اقبال کو مصور کرنے میں چغتائی کو درپیش تھی۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کا بیان ہے کہ چغتائی اس سلسلے میں اقبال کے ذہنی تقاضوں کو پورا نہ کر سکا۔ اس معاملے کو ڈاکٹر محمد عبداللہ چغائی سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ اور اُنھوں نے کمالِ دیانت سے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ چغتائی اقبال کی توقعات پر پورا نہ اتر سکا:
علامہ نے بہت کوشش کی تھی کہ چغتائی جاوید نامہ کے اشعار کو اُن کی مرضی کے مطابق مصور کرے، مگر یہ حقیقت ہے کہ چغتائی علامہ کی تسلی نہیں کر سکا تھا۔ علامہ در اصل ان تصویروں کو بھی اپنے تخیل کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس جب علامہ نے اپنے اُنھیں خیالات کی مصوری کے لیے استاد اللہ بخش سے کہا تو اُس نے بعض خیالات کو زیادہ تسلی بخش طریقے سے پیش کیا۔۹؎
آج ہمارے لیے یہ جاننا بے حد مشکل ہے کہ اقبال کس اُسلوبِ مصوری میں جاوید نامہ کی تصویری شرح چاہتے تھے، اور اُن کے پیشِ نظر تصاویر کا معیار کیا تھا۔ نیز یہ کہنا بھی بہت مشکل ہے کہ وہ تصاویر جو علامہ اقبال کے خیالات کی تشریح میں استاد اللہ بخش نے بنائیں، کیا ہوئیں۔ بہر حال یہ ایک امرِواقع ہی ہے کہ اقبال اپنے فکرو فن کی مصورانہ تعبیر کے لیے چغتائی کے اُسلوب سے کچھ زیادہ مطمٔن نہ ہو سکے۔ کیا اقبال کے پیشِ نظر جدید مغربی مصوری کے محاکاتی اسالیب تھے یا ’ڈوائن کامیڈی‘ کے مصوروں کے اسالیب تھے؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ چغتائی کا ذہن اور فن جس فضا میں پروان چڑھا اس میں اقبال کے اشعار و افکار کی گونج تھی اور اُن کی شخصیت کے تذکرے تھے۔ اقبال کی حیرت انگیز شخصیت اپنے قریبی ماحول اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے مستقل طور پر انشراحِ خاطر (inspiration) کا باعث تھی۔ مرقع چغتائی کی تخلیق کا باعث بھی علامہ اقبال کے حلقۂِ احباب کا ایک فرد (ڈاکٹر محمد دین تاثیر) تھا اگرچہ چغتائی اقبال کی زندگی میں اُن کے کلام کو مصور نہ کر سکے، لیکن اقبال کو مصور کرنے کی خواہش ایک طویل عرصے تک چغتائی کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی، چغتائی نے شاعرِ مشرق سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے کلام کو مصور کریں گے۔ یہ وعدہ اقبال کی وفات کے تیس سال بعد عملِ چغتائی کی صورت میں پورا ہوا۔ اگرچہ چغتائی نے اس بات کا وضاحت سے اظہار کیا ہے، کہ اُن کی فنی پختگی کایہ وہ مقام تھا جہاں وہ خیام کو مصور کرنے کے پوری طرح اہل ہوئے تھے، اسے وہ اپنے لیے ایک ’’فطری تقاضا‘‘ کہتے ہیں۔ اقبال کو مصور کرنے کی خواہش خیام کو مصور کرنے کی خواہش پر غالب آئی، چغتائی کہتے ہیں کہ (اقبال سے کیے گئے) اس وعدے کی تکمیل کی خاطر اُنھوں نے اپنے اور کئی ’’بڑے بڑے مقاصد‘‘ کو چھوڑا:
…بلکہ اُن کا گلا دبا دیا ہے۔ اسے میں نے ہر مقصد پر مقدم جانا، اس لیے کہ علامہ سے اس کا وعدہ کر چکا تھا۔ عمر خیام کی اشاعت میرے لیے ایک فطری تقاضا تھا۔ میں نے اسے اُس وقت ترک کیا جب وہ تکمیل کی منزل پر تھا۔ اس کی طلب ایک بین الاقوامی طلب تھی اس کے ہر رُخ اور پہلو میں حسن کی جولانیاں اور حیات کے جمالیاتی تصور تھے وہ رُومانی اور روحانی قدروں کا مرقع تھا… (The Art of Chughtai) کی اشاعت تقسیم کے وقت اس منزل پر پہنچ چکی تھی کہ اب تک اُس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہوتے، مگر میں نے شاعرِ مشرق کے مصور ایڈیشن کو ان سب پر ترجیح دی۔ (عملِ چغتائی)
چغتائی نے اپنے فن کے بارے میں کئی مقامات پر خود بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اگرچہ ’مرقعِ چغتائی‘‘ میں ’سخن ہائے گفتنی‘ کا اُسلوب چُغلی کھاتا ہے کہ یہ تحریر بتمام و کمال ڈاکٹر محمد دین تاثیر کی نہ سہی، اس میں ان کے مطالعات اور ان کے قلم نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح عملِ چغتائی کے نثری تبصروں کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب کے سب خود چغتائی ہی نے لکھے، اس لیے کہ انھیں تبصروں میں بعض ایسے جُملے بھی آگئے ہیں جن میں چغتائی کے لیے واحد غائب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم یہ کہنا بھی صحیح نہ ہوگا کہ ان تحریروں میں چغتائی کی نہیں بلکہ کسی اور ذہن کی ترجمانی کی گئی ہے۔ بہر حال عملِ چغتائی میں چغتائی کو اپنے فن کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا پورا موقع ملا ہے، چنانچہ ایک جگہ اپنے فن کے بارے میں ایک نسبتاً واضح تر بیان میں وہ رقم طراز ہیں:
ہمارے فن کارکلاسیکی فن کی اصطلاح سے کچھ اس طرح گھبراتے ہیں جیسے دہریّت مذہب سے، لیکن کلاسیکی فن اور اس کی افادیت پر میرا ایمان ہے، اگرچہ میرے فن نے فن کی حیثیت سے ابھی وہ کلاسیکی رُتبہ حاصل نہیں کیا جس کی نمائندگی کا میں متمنی ہوں۔ تاہم اس میں ہر جگہ ہماری اپنی شکل و صورت اور اپنے خدو خال کا عکس نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ فرانسیسی، چینی اور جاپانی آرٹ کی طرح میری تخلیق بھی اپنے معاشرے اور اپنی تہذیب کی ترجمان ہے، اور یہ میری خود اعتمادی کا کرشمہ ہے کہ میرا آرٹ اتنا ہی جدید اور جدید تر ہے جتنا کہ کسی قوم کے فن کو جدید یا تجریدی کہا جا سکتا ہے، میرے رنگ اور رنگوں کی ساخت، میرے خط اور خطوں کا بنائو اور میری تکنیک اور تکنیک کے طریق ایسے ہیں کہ اگر اُستاد بہزاد، میرک، گوردھن، انوپ چتر ، فرخ بیگ قلماق، رضاعباسی، خواجہ عبدالصمد، میر سید علی تبریزی جیسے باکمال لوگوں کو میرا آرٹ دیکھنے کا موقع ملے تو اُن کے لیے یہ کہنے کا محل نہیں ہوگا کہ وہ ایرانی اور مغل آرٹ کو جہاں چھوڑ گئے تھے وہ وہیں رکا پڑا ہے۔ یا مشرقی آرٹ ترقی پذیر عناصر سے محروم ہیں، یا ان تصویروں کے خالق نے معاشرے کی ضرورتوں سے فرار اختیار کر کے تخلیقی افکار سے منہ موڑا ہے یا فن کے نئے تقاضوں اور نئی قدروں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، میں نے جذبات کی توانائی اور مضامین کی فراوانی کے ساتھ ساتھ رنگوں، خطوں اور تکنیک کے معاملے میں بھی رہبری کی ہر ممکن خدمت انجام دی ہے…میرا فن اندھی تقلید نہیں، خود فراموشی نہیں، یہ آزادیِ فکر ہے ، روشن ضمیری ہے، انفرادیت ہے اس میں رُوحِ مشرق بیدار ہے، میں نے ذہن میں کبھی یہ تامل پیدا نہیں ہونے دیا کہ کوئی قوت ان چشموں کو بند کر دے گی جن سے یہ روشنیاں پھوٹ نکلی ہیں۔ اگر آج کے فنِ مطلق کو یا اُس کے مجرّد آرٹسٹوں کو بائبل کے مذہبی کرداروں کو مصور کرنے کا حق حاصل ہے تو ہمیں بھی اپنے شاندار ماضی اور غیر فانی کرداروں کو فنی پیکر میں ڈھالنا جائز ہے۔۱۰؎
۳
یہ سوال کہ کیا چغتائی…اپنے آخری مجموعۂ مصوری عملِ چغتائی میں اقبال کی رُوحِ شاعری کو اپنے فن میں منعکس کر سکا‘… اقبالیات اور چغتائی کے فن سے دلچسپی رکھنے والے نقادوں اور طالب علموں کے لیے یکساں اہمیت اور دلچسپی کا باعث ہے۔ اس سوال کی روشنی میں اقبال اور چغتائی کے موضوعات اور اسالیب کا ایک مختصر سا موازنہ پیشِ نظر رکھنا غیر مناسب نہ ہوگا۔ اقبال اور چغتائی دونوں (یقینا چغتائی اقبال ہی کے زیر اثر ) مشرق کے دلدادہ ہیں۔ لیکن چغتائی کا مشرق اپنی ساری جمالیات کے باوجود وہ ہے ’’جو کبھی تھا‘‘۔ جب کہ اقبال کا مشرق، ماضی کے تمام حوالوں کے باوجود وہ ہے ’’جو کبھی ہوگا‘‘۔ چغتائی کے پاس مشرق کا ماضی کا وژن (vision) ہے، اقبال کے پاس اُس کے ممکنہ مستقبل کا…!دونوں کے ہاں مشرق ایک عینی (ideal) صورت میں جلوہ گر ہے۔ لیکن چغتائی کا مشرق…مشرق کے کلاسیکی ادب… …اور مغل ایرانی مصوروں کی دُنیا کا مشرق ہے، جب کہ اقبال کا مشرق ایشیا اور اسلامی مشرق کا وہ مستقبل ہے جس کی جھلک اقبال کو اپنے وجدان میں اور اقوامِ عالم کے انقلاب کے آئینے میں نظر آتی تھی۔ اقبال کے لیے ’حرکت‘ حیات و کائنات کا اصلِ اُصول ہے، جب کہ چغتائی کے ہاں ایک مراقباتی سکون ملتا ہے، چغتائی کی تصویروں میں حرکت کو capture کرنے کی بجائے اشیا اور کرداروں کو ’ادائے ساکن‘ (pose) کا اسیر کیا گیا ہے۔ اقبال کے ہاں الفاظ بھی ناطق اور متحرک ہیں۔ چغتائی کے ہاں رنگوں کی ایک عظیم الشان مگر خاموش دُنیا ہے۔ جس میں پتّا تک نہیں ہلتا(چغتائی کی ہزاروں تصاویر میں کوئی ایک تصویر بھی ایسی نہیںجس میں کوئی ایک کردار دوسرے کردار سے ہم کلام ہو رہا ہو۔ یہ اور بات ہے چغتائی کا سارا فن ایک ’بے حرف مکالمہ‘ ہے!)اقبال اور چغتا ئی کے موازنے کی اس سے زیادہ گنجائش نہیں ہے ، اس لیے کہ دونوں کی اقالیم مختلف ہیں، اور یہ کہنا قطعا ً مبالغہ نہیں کہ اقبال کی دُنیا کہیں وسیع، معنی خیز، اور دقائقِ حیات سے لبریز ہے۔
عملِ چغتائی… چغتائی کی ان تصاویر کا مجموعہ ہے جنھیں اقبال کے بعض موضوعات سے کوئی معنوی ربط ہے۔ عملِ چغتائی چغتائی کی کم و بیش ایک سو تصاویر پر مشتمل مرقعِ مصوری ہے۔ جس میں مصور نے ماضی اور حال کے درمیان ذہنی رشتے کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے، یہ وہ مرحلہ ہے جو اس سے پیشتر چغتائی کے فن میں نہیں آیا تھا۔ اس کا فن تغزّل اور داستانوں کے موضوعات کا نقش گر تھا۔ اس مرقعے میں وہ ان موضوعات کو مصور کرتا ہے جن کا تعلق ماضیِ قریب اور کسی حد تک حال سے ہے۔ عملِ چغتائی میں کلامِ اقبال کا متن اس طرح نہیں جس طرح مرقع چغتائی میں دیوانِ غالب کا متن ہے۔ البتہ کہیں کہیں اقبال کے منتخب اشعار اور منظومات بھی دیے گئے ہیں، ان سب پر مستزاد ہر تصویر کے پہلو بہ پہلو مصنف یا مصنف کی جانب سے کسی کے لکھے ہوئے طویل تبصرے ہیں جو زیادہ تر چغتائی کے فن کی تحسین سے عبارت ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ روحِ مشرق کو تصویری پیرائے میں منکشف کرنے کے تاریخی اہمیت کے کارناموں پر چغتائی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن عملِ چغتائی میں شامل تحریریں کئی مقامات پر موضوع سے غیر متعلق ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ان تحریروں کے ساتھ ساتھ ہر تصویر پر ایک تبصرہ انگریزی زبان میں موجود ہے، اور بعض صورتوں میں اُردو میں لکھا ہوا تبصرہ انگریزی میں لکھے ہوئے تبصرے سے کسی طرح مطابقت نہیں رکھتا۔ اس صورتِ حال پر ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی نے اپنے محولہ بالا مضمون ’عبدالرحمن چغتائی‘ میں ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:
یہ بات البتہ کھٹکتی ہے کہ کتاب کے متن میں اُردو اور انگریزی تحریر کو خلط ملط کر دیا گیا ہے مجھے یہ اندازِ ترتیب کسی طرح معقول اور موزوں نظر نہیں آتا۔ اس طرح یہ بات ممکن نہیں رہی کہ لوگ ایک منظم کتاب سے استفادہ کر سکیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ علامہ اقبال کے کلام کو مختلف عنوانات کے تحت مرتب کیا جاتا۔ اگر اقبال کے ارتقائے شاعری پر بھی کچھ اشارات ہوتے اور ساتھ ہی مختلف عنوانات کے تحت شاعری کا تجزیہ بھی کیا جاتا تو پتا چل جاتا کہ مصور اسے علمی نقطۂِ نظر سے بھی پیش کر رہا ہے۔ بہر حال چغتائی ایک مصور ہے اور یہ کتاب اس کی تصاویر کا مجموعہ ہے۔ اس سے زیادہ اس سے توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کے اس تبصرے کا آخری حصہ دعوتِ فکر دیتا ہے، یہ درست ہے کہ اگر اقبال کے کلام کو مختلف عنوانات کے تحت یکجا کر کے اُنھیں مصور کیا جاتا تو شاید عملِ چغتائی کا تاثر کچھ اور ہوتا۔ لیکن چغتائی سے اس بات کی توقع کسی طرح بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اقبال کے کلام کو مصور کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا علمی تجزیہ بھی پیش کرے۔ عملِ چغتائی کا مطالعہ کرتے ہوئے جس سوال کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ چغتائی… اقبال کے فکرو فن کے کن کن اجزا کو…کس حد تک تصویر کی زبان میں بیان کر سکا ہے۔ یہاں ایک بات واضح طور پر بیان کی جا سکتی ہے کہ اقبال کو مصور کرنے کے لیے چغتائی کے پاس تین ذرائع یا approches تھیں ۔ یعنی
۱- اقبال کے موضوعات
۲- اقبال کے مناظر، اور
۳- اقبال کے کردار
فکری مافیہ کے معنوں میں اقبال کے موضوعات بے شمار ہیں۔ ان کے ہاں ایسے افکار کی کثرت ہے جنھیں بیان کرنے کے لیے موزوں ترین اُسلوب ’تجریدی‘ پیرایۂ بیان ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ان کی بیانیہ شاعری میں ایسے مناظر کی کمی نہیں جو شایانِ تصویر بصری مواد کے حامل ہیں۔ اور موضوعاتِ مصوری کا آخری سر چشمہ وہ کردار ہیں جو ہمیں اقبال کی شاعری میں تمثیلی یا حقیقی صورت میں ملتے ہیں۔ چغتائی نے عملِ چغتائی میں زیادہ تر اس آخری ذریعے سے استفادہ کیا ہے۔ یعنی اقبال کے بعض اہم کرداروں کو اپنی تصاویر کا موضوع بنایا ہے۔ ان کرداروں میں زیادہ تر مغل تاریخ کے کردار ہیں …تاہم اس انتخاب کا دائرہ خاصا وسیع بھی ہے۔ ان کرداروں میں مغل تاریخ سے بابر، ہمایوں، جہانگیر، اورنگ زیب عالگیر، نور جہاں اور زیب النسائ…اور اسلامی تاریخ سے طارق ابنِ زیاد، صلاح الدین ایوبی، ہارون الرشید،ٹیپو سلطان، زبیدہ خاتون اور شرف النساء جیسے کردار ہیں… جن کے ذریعے (باستثنائے ہارون الرشید) اقبال نے اپنے افکار کو تجسیم عطا کی ہے، چغتائی نے بھی فکرِ اقبال کے عناصرِ جلال کو ظاہر کرنے کے لیے انھی کرداروں کو چُنا ہے، عملِ چغتائی میں ان کے علاوہ اور بھی کئی معلوم و نا معلوم کردار ہیں جو عظمت، تقدس، شان و شوکت، اور عظمتِ رفتہ کو بیان کرتے ہیں۔ ان کرداروں میں غلام لڑکی اور مؤذن جیسے نامعلوم اور غنی کاشمیری، حسین بن منصور حلاج اور قیس عامری جیسے معلوم کردار بھی ہیں۔ جن سے چغتائی نے اقبال کی ذہنی دُنیا کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان سطور میں ہم عملِ چغتائی کی بعض اہم تصاویر کا کسی قدر تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہیں۔
داستان گو
عملِ چغتائی کی اولیں تصویر ہے، جس کے بارے میں متنِ تبصرہ میں کہا گیا ہے کہ اس تصویر کو علامہ اقبال کی تحسین اور توجہ حاصل رہی ہے، اس کے تصویر کے پس منظر میں ’تاج محل‘ ستاروں کے نور اور خود اپنی تابانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ پیش منظر میں ایک خوبصورت طائوس (مور) ایک شاخِ شجر پر آرامیدہ ہے۔ شاخِ شجر جو اپنی انتہا میں مور کے پروں کے رنگوں کے قریب پہنچ گئی ہے۔ تصویر میں ایک خوبصورت توازن پیدا کرتی ہے، یہ توازن ڈیزائن کے اعتبار سے بھی ہے اور معنوی اعتبار سے بھی۔ ایک طرف سنگِ مر مر میں متشکل رنگ و نُور کی وہ دُنیا ہے جسے تاج محل کہتے ہیں، اور دوسرے طرف فطرت کے حسن کی وہ رنگینی اور مینا کاری ہے جسے طائوس کہا جاتا ہے، ان دو مظاہر کے توازن سے…نیز پس منظر میں تاج محل کے عمودی خطوط…اور پیش منظر میں طائوس کے خمیدہ اُفقی خطوط سے ایک نہایت خوبصورت بصری آہنگ پیدا کیا گیا ہے۔ اس تصویر میں تاج محل کی ’ہو بہو‘ عکاسی نہیں (جو اسے فوٹو گرافی بنا دیتی) بلکہ اس عظیم الشان عمارت کی شاعرانہ باز آفرینی ہے۔ اس لیے اس تصویر کو جلال سے زیادہ جمال… اور اس سے بھی آگے رنگ اور خط کی لطیف تر غنائیّت کا عکاس کہا جا سکتا ہے۔ اقبال نے اپنی مختصر ترین فارسی مثنوی ’بندگی نامہ‘ میں ’’درفنِ تعمیرِ مردانِ آزاد‘‘ کے عنوان سے مسلمانوں کے فنِ تعمیر کے بعض مظاہر کی تحسین کی ہے۔ اُن میں تاج محل بھی ہے، اقبال نے اسے شاعری کی زبان میں ’گوہرِ ناب‘ اور مردانِ پاک کے عشق کا مظہر قرار دیا ہے،۔ ’داستان گو‘… یعنی تاج محل اور طائوس کی اس تصویر کو اقبال کے انھیں اشعار سے مربوط کیا گیا ہے۔ لیکن اس تصویر کو ’داستان گو‘ کا عنوان کیوں دیا گیا، اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔
غلام لڑکی:
ایک سیاہ فام لڑکی کی تصویر ہے، جس کا چہرہ ایک لطیف ہلال کے ہالے میں ہے۔ اس سیاہ فام لڑکی کے ہاتھوں میں غالباً اپنی ’مالکہ‘ کے جوتے ہیں ، لیکن گردن بلند، سر بلند اور سر کشیدہ ہے، آنکھوں میں بیداری اور خود مختاری کے عزم کی ایک ہلکی سی جھلک بھی موجود ہے۔ جو اس تصویر کو مؤثر اور معنی خیز بناتی ہے‘… یہ سیاہ فام لڑکی سیاہ افریقہ کی غلامی کی تصویر ہے‘… اقبال کی اصطلاح میں یہ کالی دُنیا دراصل ’’ہلالی دُنیا‘‘ ہے جسے عشق کی زبان میں ’’بلالی دُنیا‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘…شاید یہی سبب ہے کہ اس غلام لڑکی کے چہرے کو ایک ’ہلال ‘ کی قدوسی روشنی نے اپنے ہالے میں لے رکھا ہے، چغتائی کی شاہکار تصویروں میں سے ہے۔
اذانِ بغداد:
اسلامی تمدن کے ماضی کی ایک جھلک
سیب کا درخت:
اس تصویر کا عنوان ’’ماں اور بچہ‘‘ بھی ہو سکتا ہے، ایک کشمیری ماں اپنے بچے کے ساتھ دکھائی گئی ہے حسن اور رنجوری، زندگی اور افلاس زدگی کی ایک خوبصورت تصویر‘… چغتائی کی اُن معدودے چند تصویروں میں سے ایک جن پر واقعیت پسندی کا اطلاق بھی کیا جا سکتا ہے۔
اخترِ صبح:
اس تصویر کو چغتائی کے فن کے نقطۂِ عروج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ صحرا کا اُفقی کٹائو جس کے ایک سرے پر محمل بردار اونٹ محوِ سفر ہے، اور انتہائی بلندیوں پر صبح کا ستارا چمک رہا ہے، جس کی ایک نوک زمین کی طرف اس طرح جھکی ہوئی ہے جیسے زمین کو چھو لینا چاہتی ہے۔ آسمان کی وسعت نے تصویر کے سارے کینوس کو گھیر رکھا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے صحرا کی رات آسمان کی وسعت میں منقلب ہو گئی ہے، جس کے دامن کے ایک گوشے میں صبح کا ستارہ نویدِ صبح کی طرح جگمگا رہا ہے۔ اقبال کا یہ قطعہ اس تصویر کا زیبِ عنوان ہے:
گذشتی تیز گام، اے اخترِ صبح
مگر از خوابِ ما بیزار رفتی
من از ناآگہی گم کر دہ راھم
تو بیدار آمدی، بیدار رفتی
تصویر کا عربی صحرائی لینڈ اسکیپ اقبال کی صحرائی امیجری کے قریب دکھائی دیتا ہے، تصویر کی سب سے بڑی فنی خوبی یہ ہے کہ نگاہ کا سفر ’ستارۂِ صبح‘ سے شروع ہوتا ہے، اور اسی پر ختم ہوتا ہے۔
ناقۂِ لیلیٰ:
محض ایک تصویر جس میں لیلیٰ، ناقۂِ لیلیٰ ، مجنوں اور غزالانِ صحرا کو جمع کر دیا گیا ہے بظاہر اس تصویر کا کلامِ اقبال کے کسی بصری پہلو سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔
دانائے راز:
طرازِ عنوان اقبال کا یہ شعر ہے:
نہ اُٹھا پھر کوئی رُومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
جس سے ذہن میں فوری طور پر مولانا رُوم کا تصور اُبھرتا ہے، لیکن ’دانائے راز‘ کے عنوان سے چغتائی نے جو تصویر بنائی ہے وہ مشرق کے کسی بھی مردِ خود آگاہ کی تصویر ہو سکتی ہے‘…رومی، سعدی، نظام الملک طوسی، ابن سینا، عمر خیام غرض اسے اسلامی مشرق کے کسی بھی مردِ خودآگاہ کا چہرہ کَہ سکتے ہیں۔ یہ فردوسی یا بزرجمہر کی تصویر بھی ہو سکتی ہے۔ اس ’سیاہ و سفید‘ تصویر میں مشرق کے ’مردِ دانا‘ کا IMAGE انتہائی فنی مہارت کے ساتھ اُبھارا گیا ہے۔ چہرے کے خدو خال عربی اور لباس عجمی ہے۔
نور جہاں اور جہانگیر:
اسے چغتائی کی ایک عام مغل تصویر کہا جا سکتا ہے۔ جس میں مغل ماحول کو کسی قدر آرائش کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔
برقِ نگاہ:
اس عنوان سے جنگل میں ایک چیتے کی تصویر ہے۔ ذیلی عنوان کے طور پر اقبال کا یہ شعر دیا گیا ہے:
ملے گا منزلِ مقصود کا اُسی کو سُراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
مبصّر نے لکھا ہے:’’علامہ اقبال نے تصویر دیکھی تو فرمایا چیتے کی آنکھ کسی ناگ کی آنکھ ہے،۔ تاثیر نے دیکھا تو بولا، کتنا بھی کہوں کہ یہ تصویر چغتائی کی نہیں، مگر اس کے فن کی گہرائیوں کو کون چھپا سکے گا۔ چیتے کی نشست، اس کی انفرادیت ، رنگوں کی آمیزش، پس منظر کی جھلکیاں۔ یہ ملکہ کسے حاصل ہوگا‘‘…اقبال نے شاہین کے تجسس اور چیتے کے جگر کو مصافِ زندگی میں شامل ہونے کے لیے لازمی قرار دیا ہے، چغتائی نے ’چیتے‘ کی علامت کے نفسی مضمرات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ باید و شاید، ایک سیاہی مائل نیلگوں رات اور سرخ پتھر یلی چٹان کے دامن میں اور خواب آلود جھاڑیوں کے سائے میں۔ یہ جنگلی درندہ اس طرح آرامیدہ ہے کہ ہلکی سے ہلکی آہٹ پر چونک سکتا ہے۔ تصویر میں سنگلاخ زمیں اور کرخت ماحول کو چغتائی نے اپنے لطافت خیز طرز سے جس طرح اُبھارا ہے، اُس نے تصویر کو ایک لازوال شاہکار بنا دیا ہے۔ پیش منظر میں ایک درخت کا لطیف سا تنا اور تنے کے دامن میں سرخ پتوں کا ایک تھال سا، تصویر میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے جلال کے دامن میں جمال کا شعلہ روشن ہے۔
اقبال اور رُومی:
اس مجموعے کی اہم ترین تصاویر میں سے ہے، سربفلک پہاڑ جن کا پیش منظری حصہ سیاہی اور تاریکی میں ہے۔ اور پس منظری حصہ جو دراصل تصویر کا معنوی پیش منظر بھی ہے، ایک اُلوہی اور قدوسی روشنی میں ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر رُومی کے پہلو میں اقبال اس طرح ایستادہ ہیں کہ رُومی ایک روشن سایہ اور اقبال ایک زندہ پیکر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تصویر ڈانٹے کے اطالوی اور مغربی مصوروں مثلاً بوتیچلی (botticelli) اور گستائودورے (gustave dore) کی یاد دلاتی ہے، جنھوں نے ورجل اور ڈانٹے کے روحانی سفرکی اسی نوع کی لاتعداد تصویریں تخلیق کی ہیں۔ یہ تصویر اقبال کے روحانی سفر کے تجمل…اور رُومی سے ان کے ذہنی اور وجدانی رشتے کو ظاہر کرتی ہے۔
معمارِ حرم:
ماں، باپ اور بچے کی تصویر ہے، جس کا عنوان سے کوئی ربط دکھائی نہیں دیتا۔
شرف النسائ:
مغل جمالیات کے رچائو کے ساتھ مشرقی نسائیت کی ایک مکمل تصویر، تلوار اور کتاب (الفرقان) کی رفاقت میں شرف النساء مشرقی تجمل، عفت مآبی اور توازن و اعتدال کی مکمل تصویر دکھائی دیتی ہے۔ شرف النساء جاوید نامہ کا ایک تاریخی کردار ہے‘…شرف النساء نے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآنِ کریم لے کر پنجاب میں سکھوں کا مقابلہ کیا تھا۔ وہ حاکمِ پنجاب عبدالصمد خاں کی صاحبزادی تھی۔ چغتائی اس کردار کی صلابت، جزالت اور معصومیت کو بیان کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوا ہے۔
انجمن آرا:
اس مجموعے کی ایک خالصتاً جمالیاتی اور مغل تصویر، تصویر کا مرکزی کردار (انجمن آرا) سبز لباس میں سُرخ پتوں کے سائے میں ہے۔ سُرخ پتوں نے ایک قدرتی چتر کی صورت اختیار کر لی ہے۔ چغتائی کے انفرادی اُسلوب اور پسندیدہ موضوع (مغل) کے ساتھ ایک خوبصورت تصویر جس کے جمالیاتی تناسبات صرف چغتائی ہی کی گرفت میں آسکتے تھے۔
منصور حلاج:
جاوید نامہ میں اقبال نے منصور حلاج (حسین بن منصور حلاج) کو ارواحِ جلیلہ میں شمار کیا ہے۔ جنھوں نے فردوس کے مقابلے میں گردشِ جاودانی کو ترجیح دی ہے۔ اس عنوان سے چغتائی کی اس تصویر کو عملِ چغتائی کی عظیم ترین تصویر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک تصویر میں مشرق کی بہت سی رمزیات کے ساتھ (چغتائی کے ہاں غالباً پہلی مرتبہ) ایک نیم متصوفانہ اسرار پیدا ہو گیا ہے۔ تصویر میں منصور کو مصلوب ہونے کی بجائے سنگسار ہونے کے لیے شہر سے باہر لایا گیا ہے۔ منصور ایک پتھریلے سے احاطے میں لوگوں سے منہ موڑے ہوئے ہے۔ شہر سے باہر آنے والوں کا ہجوم ایک سیل کی طرح اس مقامِ خاص کی طرف رواں دواں ہے۔ تماشائیوں میں عوام بھی ہیں اور خواص بھی۔ اربابِ اختیار بھی ہیں اور اصحاب جبہ و دستار بھی، منصور کے قریب ایک پھول پڑا ہے۔ غالباً یہ وہی پھول ہے جو حضرت شبلی نے پتھر کے عوض منصور کو مارا تھا(تصویر میں شبلی کا تشخص نمایاں نہیں) منصور کے چہرے کے گرد ایک نورانی ہالہ ہے اور چہرے پر ایک الوہی روشنی کی جھلک ہے جسے عشق کی بلاکشی نے قدرے سنولا دیا ہے۔ صرف یہی ایک تصویر عبدالرحمن چغتائی کو مصورِ مشرق قرار دینے کے لیے کافی ہے۔
غنی کاشمیری:
اقبال کا ایک پسندیدہ کردار جسے اُنھوں نے جاوید نامہ میں تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن یہ تصویر کسی بھی کشمیری کی تصویر ہو سکتی ہے۔
بنتِ اُمم:
فاطمہ بنت عبداللہ کے عنوان سے اقبال کی ایک نظم میں یہ شعر اس تصویر کا ذیلی عنوان ہے:
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
تصویر میں عورت کو بطورِ بنتِ اُمم دکھایا گیا ہے ۔ عورت جب تاریخ کا ورق اُلٹ دینے کا عزم لے کر کھڑی ہو جاتی ہے تو بہت حد تک اسی طرح ہوتی ہے۔
فروغِ دیدہ:
ایک نا معلوم الاسم سلطان اپنے کہسار نما مہیب قلعے کے سامنے کھڑا ہے۔ معلوم نہیں اس تصویر کا عنوان ’فروغِ دیدہ‘ کیوں رکھا گیا ہے۔ تصویر کی ساری خوبی قلعے کی مخصوص ساخت میں ہے، ایسے ہی کوہستانی قلعے کو’شاہنامہ‘ کی زبان میں ’دژِکہنہ ‘ کہا جاتا ہے۔
مسجدِ قرطبہ:
کسی عظیم الشان زیرِ تعمیر مسجد کو اندر سے دکھایا گیا ہے، ابھی مسجد بغیر مرکزی گنبد کے ہے اور شاید اس وقت گنبد کی تعمیر کا مرحلہ درپیش ہے۔ مسجدِ قرطبہ کے ساتھ اس زیرِ تعمیر مسجد کی کوئی نسبت دکھا ئی نہیں دیتی۔
عہد و پیماں:
مغل جمالیات کی زبان میں کسی ہندو راجے اور رانی کی تصویر معلوم ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ راجا جنگ پر جانے سے پہلے (راجپوتی دستور کے مطابق) اپنی رانی سے تلوار لے رہا ہے۔
مردِ مومن:
ع۔’’حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن ‘‘ اس تصور کو اُجاگر کرنے کے لیے ایک سبز پوش مردِ مومن کو دکھایا گیا ہے ۔ پس منظر میں حوروں کے غول ہیں، دو حوریں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ مردِ مومن کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن سبز پوش مومن ان سب سے بے نیاز اپنے کسی خیال میں محو ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک طویل سبحہ ہے، شایہ یہ سبحہ گردانی میں مصروف ہے۔
اورنگ زیب عالمگیر:
اقبال کا پسندیدہ کردار ہے، اقبال نے اسے ’’ترکشِ ما را خدنگِ آخریں ‘‘ قرار دیا ہے۔ تصویر میں وہ (اورنگ زیب عالمگیر) ایک مرمریں تخت پر قدرے سادہ گائو تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے کچھ سوچ رہا ہے (آرام نہیں کر رہا) ہاتھ میں ایک غلاف پوش کتاب جو یقینا کلامِ پاک ہے اس لیے کہ قریب ہی ایک خالی رحل بھی موجود ہے۔ پس منظر میں دریا (غالباً جمنا) اور اس کے سبز پوش و گل منظر کنارے ہیں۔ اورنگ زیب کے چہرے سے اس کا زہدو تکشف نمایاں ہے۔ تصویر کی سادگی اورنگ زیب کی سادگی کو ظاہر کرتی ہے لیکن تصویر اورنگ زیب کے کردار کی تاریخی معنویت کو کسی طرح بیان نہیں کرتی۔
مؤذن:
ایک خوبصورت رمزیاتی تصویر۔ میناروں اور گنبدوں کا ایک شہرِ خمو شاں جس میں اذان کی گونج زندگی کی حرکت پیدا کر رہی ہے۔
سلطانِ شہید:
ایک بہت بڑی توپ کے سائے میں سلطانِ شہید حضرت ٹیپو سلطان ایک ڈھال کو بغل میں لیے ، تلوار پر ہاتھ رکھے عزمِ جہاد کی مکمل تصویر بنے ایستادہ ہیں۔ تصویر میں آرائش بہت زیادہ ہے، اس کے باوجود تصویر میں سلطانِ شہید کے کردار کی جھلک موجود ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید:
اُس تاریخی دَور کی علامت جب عربوں کا تجمل عجمی تخیل کی لطافت میں ڈھل رہا تھا۔ پس منظر میں بغداد کے الف لیلائی گنبد و مینار۔ خلیفہ ہارون الرشید اس تصویر کے کردار سے بڑھ کر کیا ہوگا
غزالِ صحرائی:
ایک سُرخ و زردگوں صحرا میں غزالِ صحرائی کی تصویر۔
جنرل طارق:
ہاتھ میں ایک کشتی کا ماڈل لیے، جس میں ایک آدمی نیزا تانے کھڑا ہے، جنرل طارق، بہت حد تک اپنے تاریخی کردار کی جھلک دکھاتی ہے۔
رُخِ زیبا:
ایک خوبصورت تصویر
اسحاق موصلی:
ایک مسلمان سائنسدان، اپنے علمی اور فنی پس منظر کے ساتھ۔
شہرت:
اس تصویر میں ایک نیم عریاں عورت نے اپنے سر پر جلتا ہوا شمعدان اُٹھا رکھا ہے۔ اس تصویر کے تمام تر تلازمات ہندو اور راجپوتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی دیوداسی رقص کے لیے تیار ہو کر مندر میں داخل ہوئی ہو اور مورتی کے سامنے بیٹھ گئی ہو۔(مورتی تصویر میں موجود نہیں، اس کا وجود اشاراتی ہے)
دخترِ حرم: ایک خوبصورت تصویر
عملِ چغتائی کے آخر میں ایچنگ کی تکنیک میں اقبال کی ایک خوبصورت تصویر ہے جو اقبال کی شخصیت کا خوبصورت خاکہ پیش کرتی ہے۔ مجموعی طور پر’ عملِ چغتائی چغتائی کا ایک خوبصورت مرقع ہے۔ جس کی اکثر تصویروں کا رشتہ اقبال کے فکرو فن کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے، لیکن اسے اقبال کی مصورانہ تعبیر کہنا صرف جزوی طور پر ہی درست ہو سکتا ہے۔ عملِ چغتائی میں موضوعات اور اُسلوب کا تنوع ہے، مرقع چغتائی کی تصاویر مراقباتی ہیں، اور اُن میں ایک ’بے خودی‘ کی کیفیت موجود ہے۔ جب کہ عملِ چغتائی کی تصاویر میں زندگی اور حرکت کے آثار موجود ہیں‘…اور کرداروں کے چہروں پر شعور کی بیداری کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے، واضح الفاظ میں عملِ چغتائی کی تصاویر زیادہ ’زندہ‘ ہیں عمل چغتائی میں زندگی، حرکت، رنگ اور روشنی کے تصورات زیادہ واضح اور اثر انگیز ہیں۔ ان میں جدید معنوں میں حقیقت پسندی کا ایک عنصر بھی موجود ہے‘… ان تصاویر میں کہیں کہیں جلال و جمال کا وہ امتزاج بھی اپنی جھلک دکھا دیتا ہے، جو اقبال کا پسندیدہ مثالی تصور ہے‘… مرقع چغتائی میں صرف مغل ایرانی مشرق کی دُنیا ہے ، جب کہ عمل چغتائی میں اسلامی مشرق کی نمود بھی دکھائی دیتی ہے‘…لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں کہ کیا عملِ چغتائی فنی اعتبار سے مرقع چغتائی سے بہتر یا کم از کم اس کے ہم پلہ ہے…؟ مرقع چغتائی… مصور کی امنگوں، اُس کے نشاطیہ میلانات اور اُس کی جمال دوستی کا آئینہ داتھا،۔ عمل چغتائی مصور کے قومی اور ملی تقاضوں کی تکمیل ہے، مرقع چغتائی میں تغزل کے عناصر زیادہ تھے، عملِ چغتائی میں تغزل کے ساتھ ساتھ واقعیت پسندی اور صلابت و جزالت کے اجزا بھی موجود ہیں۔ اس اعتبار سے عملِ چغتائی میں ارفعیت (sublimity) کی خصوصیات زیادہ ہیں…عملِ چغتائی… مصور کے فنی سفر کا منطقی نتیجہ ہے۔ مرقع چغتائی کے نثری دیباچے کا اختتام چغتائی نے اقبال کی ایک فارسی نظم کے اس بند پر کیا تھا۔
دم چیست؟ پیام است، شنیدی؟نشنیدی
در خاکِ تو یک جلوۂ عام است،ندیدی
دیدن دگر آموز، شنیدن دگر آموز!
عملِ چغتائی… غالباً اسی…دیدن دگر آموز، شنیدن دگر آموز…کا جواب ہے۔ لیکن اسے صرف ایک ’نگاہِ مکرر‘ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مصور کی اپنی تاریخ و تہذیب کے ساتھ وابستگی کی ایک شعوری تعبیر ہے‘…اسی لیے مجموعی طور پر اس میں فنی پختگی کے عناصر زیادہ ہیں۔ مرقعِ چغتائی کی طرح عملِ چغتائی بھی … مشرقی تمدن کی ایک خوبصورت علامت کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔!
حواشی
۱- اُستاد کمال الدین بہزاد، اسلامی دُنیا کا سب سے مشہور مصور جو ۸۱۵ھ/۱۴۵۰ء اور ۸۶۵ھ/۱۴۶۰ء کے درمیان پیدا ہوا، اور ۹۴۲ھ/۱۵۳۲ء میں فوت ہوا، اسے اپنے عہد کا عظیم ترین مصور تسلیم کیا گیا، اُسے سلطان حسین بائیقرا، شاہ اسمٰعیل صفوی اور شاہ طہماسپ صفوی جیسے بادشاہوں کی سر پرستی حاصل رہی، ۹۲۸ھ/۱۵۱۴ء میں شاہ اسمٰعیل کے شاہی کتب خانے کا کتابدار مقرر ہوا۔ خواند میر اور قاضی احمد جیسے نقادانِ فن نے اُس کی نفاست اور جیتی جاگتی تصویریں بنانے کی صلاحیت کی تحسین کی ہے، اُسے قلم پر گرفت، خاکہ کشی اور صورت گری میں تمام معاصرین پر فوقیت حاصل تھی۔ وہ کوئلے (چار کول) سے خاکہ کشی میں بھی مہارت تامہ رکھتا تھا۔ شہنشاہ بابر نے اُسے ’’نازک قلم‘‘ کہا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر بھی اُس کے فن کا مداح اور اس کا طرز شناس تھا۔ جہانگیری اُسے خلیل مرزاشاہ رُخی) کے طرزِ مصوری کا پیرو کار بتاتا ہے۔ ۸۹۳ھ میں اس نے بوستانِ سعدی کو مصور کیا، ایک حکایت کے بالمقابل اُس نے زلیخا کے محل کی ’تصویر بنائی، جو بہزاد ہی نہیں مشرقی اسلامی مصوری میں بھی ایک نادر الظہور شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔
۲- عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا(مقالہ: عبدالرحمن چغتائی از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی)۔
۳- ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی۔ مقالہ عبدالرحمن چغتائی، مشمولہ، عبدالرحمن چغتائی مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔
۴- ’’معمارِ تاج‘‘ (مقالہ) از عبدالرحمن چغتائی مطبوعہ ماہِ نو، استقلال نمبر، ۱۹۵۳ئ۔
۵- عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔
۶- ’’معمارِ تاج‘‘ (مقالہ) از عبدالرحمن چغتائی مطبوعہ ماہِ نو، استقلال نمبر، ۱۹۵۳ئ۔
۷- ’میری تصویریں میری نظر میں‘ مشمولہ کتاب عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔
۸- ’’عبدالرحمن چغتائی‘‘ (مقالہ) از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی مشمولہ عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔
۹- ’’عبدالرحمن چغتائی‘‘ (مقالہ) از ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی مشمولہ عبدالرحمن چغتائی: فن اور شخصیت، مرتبہ ڈاکٹر وزیر آغا۔
۱۰- دیباچہ عملِ چغتائی