شاعری کی تنقید میں تخیّلِ سماعی (auditory imagination)ایک نسبتاً جدید اصطلاح ہے جسے انگریزی زبان کے نامور شاعر اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ نے شاعرانہ تخیّل کے ایک خاص پہلو کی وضاحت کے لیے وضع کیا، اور اب جدید تنقید نے اسے اپنی روز مرہ کی اصطلاحات میں شامل کر لیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ تخیّل کو عام طور پر بصری یادوں کے تموّج سے یاد کیا جاتا ہے۔ جو اپنی تخلیقی فعلیّت کی بدولت پرانی صورتوں میں رد و بدل کر کے نئی نئی صورتیں وضع کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح تخیّل کا ایک پہلو وہ بھی ہے جس کا تعلق آوازوں کی یادداشت سے ہے۔ ایلیٹ کا ایما یہ ہے کہ جس طرح شاعر کے تخیّل میں بصری یادوں (visual memories) کا ذخیرہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک صوتی یادوں (sound memories) کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے، جس کی بدولت شاعر کا ’’گوشِ تخیّل،…(چشمِ تخیّل کی رعایت سے) پرانی اور نئی آوازوں کی گونج سنتا ہے، تخیّل کی اس صلاحیت کو ایلیٹ نے ’سماعی تخیّل‘،… یا تخیّلِ سماعی کا نام دیا ہے، یہ قوت یا صلاحیت شاعر کے کلام کی نوعیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ اسی کی بدولت کسی شاعر کے ہاں خاص قسم کے صوتی سانچے (sound pattterns) پیدا ہوتے ہیں، جس سے اس کی شاعری کو ایک انفرادی آہنگ حاصل ہوتا ہے۔ یہ صورت یوں تو عمومی طور پر بھی درست ہے، لیکن جس طرح ایک عام شاعر،… الفاظ کے استعمال میں کوئی انفرادیت نہیں رکھتا، اسی طرح اس کا سماعی تخیّل بھی اس کے شعری آہنگ کی ساخت میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتا۔ تخیّل کی یہ ساری خلاّقی ہمیں صرف بڑے شعرا کے ہاں ہی نمایاں انداز میں نظر آتی ہے،…اگر سماعی تخیّل کا مزید تجزیہ کیا جائے تو اس میں ایک ایسی چیز بھی بنیادی طور پر شامل ہے جسے وضاحت کی خاطر ’’لفظی تخیّل‘‘ (verbal imagination)کہا جا سکتا ہے،… جس کا دائرۂ یاد داشت تمام سنے اور پڑھے ہوئے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اور جو نئی تراکیب (phrases) کی تشکیل میں…اور بعض اوقات مطلقاً نئے الفاظ کی اختراع میں کارفرما ہوتا ہے،… غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ لفظی تخیّل…بصری اور سماعی تخیّل کی سرحد پر واقع ہے۔ کیونکہ نئے الفاظ و تراکیب کی تشکیل و اختراع میں الفاظ کی صوتی یادوں کے ساتھ ساتھ…الفاظ کی صوَرِی یادیں بھی شامل ہوتی ہیں،… ہم بعض الفاظ کو محض اُن کی صوتی قدرو قیمت کی بدولت، بعض کو اُن کی صوری قدروقیمت… اور بعض کوان دونوں کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں،…ایک خلاق انسان کے تخیّل میں الفاظ اپنے تمام ابعاد کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ اقبال کے تخیّل کی زرخیزی اُن کے تخلیقی کارناموں کی وسعت اور ضخامت سے بھی ظاہر ہے، اور اُن کی نوعیت سے بھی،…نئی تراکیب کی ساخت میں اُنھیں جو مہارت اور قدرت حاصل ہے اس کی مثال اُن کے دو عظیم پیش رووں …مرزا بیدل اور مرزا غالب ہی میں ملتی ہے۔ اقبال کی تراکیب نُدرت اور معنوی لطافتوں کے اعتبار سے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں کی شاعری کا سرمایۂِ افتخار اور گنجینۂِ اظہار ہیں…ان سطور میں ہمارا مقصد اقبال کی لسانی اختراعات کے صرف ایک پہلو سے بحث کرنا ہے جسے ہم اقبال کا لفظی تخیّل کَہ سکتے ہیں، اور اس لفظی تخیّل کا بھی صرف ایک ہی پہلو ہمارے پیش نظر ہے جس کا تعلق کلی طور پر نئے الفاظ کی ایجاد و اختراع سے ہے۔
زَروان: رُوحِ زمان و مکاں
اُن کے تخیّل کے دوسرے پہلوئوں کی طرح اقبال کا لفظی تخیّل بھی زیادہ بھر پور انداز میں جاوید نامہ میں ظاہر ہوا ہے، کیونکہ اس نظم میں اقبال کو بعض ڈرامائی کرداروں کے لیے کچھ انوکھے نام وضع کرنے پڑے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلا نام اُنھیں ’رُوحِ زمان و مکاں‘ کے لیے وضع کرنا تھا جو مسافر (آگے چل کر زندہ رود) کو عالم علوی کی سیاحت کے لیے لے جاتی ہے۔ اس رُوح زمان و مکاں، کو اقبال نے ’’زروان‘‘ کا نام دیا ہے، جو زمان و مکان کا ہم قافیہ بھی ہے، اور کچھ اور معنوی پہلو بھی رکھتا ہے،…لفظی تخیّل میں تلازماتی اُصول (law of association) تخیّل کی بنیادی فعلیّت کے طور پر کام کرتا ہے،… لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ’زَروان،…کوئی کُلّیتہً نیا لفظ نہیں، بلکہ ’زربان‘ اور ’زرفان‘ کی صورت میں فارسی زبان کا ایک قدیم لفظ ہے، زربان اور زرگان کو ’فرہنگِ عمید‘کے مؤلف نے ایک ہی لفظ کو قرار دیا ہے، اور زرفان کے تحت اس لفظ کے معنی یہ لکھے ہیں:
زرفان۔ ص (بفتح زا و سکونِ را) پیرِ کہنسال، پیرِ فرتوت، زربان و زرمان و زروان ہم گفتہ شدہ۔ نامِ ابراہیم خلیل راہم گفتہ اند، وبایں معنی زرہون ہم گفتہ شدہ۔ (فرہنگِ عمید: باب زا۔ مطبوعہ تہران)
گویا رُوحِ زمان و مکاں، کے لیے ’زروان‘ کا نام استعمال کرنے کی سب سے بڑی وجہ کہنگی اور قدامت کا مفہوم ہے، جو اس لفظ کے بنیادی معنی ہیں۔ لغت میں اس لفظ کے ساتھ ’ص‘ کی علامت بتاتی ہے کہ یہ اسم صفت ہے، لیکن اس لفظ کو حضرت ابراہیم خلیلؑ کا نام (اور ان معنوں میں زرہون) تسلیم کرنے میں مؤلفِ فرہنگِ عمید کا ماخذ کیا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا آسانی سے جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی روایات حضرت ابراہیمؑ کا نام ’زرہون‘ ہونے کی بالکل تائید نہیں کرتیں، تورات میں بھی ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت ابراہیمؑ کا کوئی دوسرا نام بھی تھا۔ البتہ تورات میں یہ ضرور لکھا ہے کہ خداوند تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ سے عہد کیا گیا کہ مستقبل بعید میں اُن کا نام ابرام سے براہیم میں بدل دیا جائے گا۱؎ یہ امکان کہ مؤلفِ فرہنگ نے قدیم ایرانی روایات سے یہ نام اخذ کیا ہوا، اس لیے زیادہ قرین قیاس نہیں کہ ایران کی قدیم مذہبی روایات میں سامی پیغمبروں کا کوئی تذکرہ کہیں نہیں ملتا۔ سوائے زرتشت کے جسے قدیم ایرانی پیغمبر مانتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ایران کی کسی قدیم مذہبی روایت میں زرہون کو ابراہیم سمجھ لیا گیا ہو۔ بہر حال یہ ایک قدیم الاصل لفظ ہے، جس کے معنوں میں قدامت کا مفہوم بنیادی طور پر شامل ہے۔ لیکن زربان، زرفان اور زروان…میں سے ’زربان‘ ہی بظاہر لفظ کی اصل صورت دکھائی دیتا ہے۔ اگر اس کو مان لیا جائے تو اس کا اصل حصہ ’زر‘ اور ’بان‘ لا حقہ متصور ہو سکتا ہے اور اس صورت میں ’زربان،… کیمیا گر یا سونا بنانے والے کے معنی بھی دے گا۔ عین ممکن ہے کہ قدیم ایرانی اساطیر میں ’وقت‘ کو ایک بوڑھے کیمیا گر کی صورت میں تصور کیا گیا ہو۔ اس لیے کہ وقت ہی زر (gold) ہے اور وقت ہی زر آور ہے، اقبال کے ہاں روحِ زمان و مکاں کے لیے ’زروان‘ کا لفظ ایک مخصوص صوتی قدروقیمت کے ساتھ نخستمثالی معنوں (archetypal meanings) کا حامل بھی ہے۔
زندہ رُود
جاوید نامہ کے ابتدائی ابواب میں،… اقبال نے اپنے لیے، یا اس شخصیت کے لیے جو آسمانی سفر پر روانہ ہو رہی ہے، صیغۂ واحد متکلم استعمال کیا ہے، اور ایک عنوان میں اس کے لیے ’مسافر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن کچھ آگے چل کر یعنی ’فلکِ عطارد‘ کے اختتام پر…یہ عنوان ملتا ہے۔ ’’پیرِ رُومی بہ زندہ رودمی گوید کہ شعرے بیار‘‘ (پیرِ رُومی زندہ رود سے کہتا ہے کہ کوئی شعر سنائو) اس پر زندہ رود ایک غزل پیش کرتا ہے جس کا مطلع ہے:
این گل و لالہ تو گوئی کہ مقیم اند ہمہ
راہ پیما صفتِ موجِ نسیم اند ہمہ
اس غزل کے بعد ’مسافر‘ کا لفظ پھر کہیں نہیں ملتا اور نظم کا سیاق و سباق بتاتا ہے کہ جاوید نامہ کے واحد متکلم (میَں ) کا نام زندہ رود ہے۔ زندہ رود کا لفظی مطلب ہے ’زندہ دریا‘ یعنی ہمیشہ بہنے والا دریا،۲؎ تمام قدید اساطیر اور تعبیرات میں دریا کو وقت کی علامت قرار دیا گیا ہے،…گویا اقبال نے خود کو رُوحِ عصر یا روحِ زمان قرار دیا ہے، دیکھا جائے تو زندہ رود بھی ’زروان‘ ہی کی انائے متبادل (alter-ego) ہے۔ ہمارے قدیم صوفیانہ ادب میں بعض صوفیا کے ناموں کے ساتھ ’زندہ پیر‘ یا ’زندہ پیل‘ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ مثلاً ایک صوفی شاعر حضرت احمد جام کے نام کے آخر میں ’زندہ پیل‘ کا لفظ بھی لکھا ہوا ملتا ہے۔۳؎ ہو سکتا ہے اقبال نے جاوید نامہ میں اپنے لیے زندہ رود کا نام اختیار کرنے میں ان روایات سے بھی شعوری یا غیر شعوی طور پر کوئی اثر قبول کیا ہو۔ تاہم ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس کی ایک اور توجیہ بیان کی ہے جس سے اس لفظ کی معنوی اور علاماتی وسعت میں اضافہ ہوا ہے۔ اپنی تصنیف زندہ رود: حیاتِ اقبال کا تشکیلی دَور،… کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:
زندہ رود، نام بھی اُنھوں نے غالباً آنحضورؐ کے حوالے سے اپنے لیے چُنا اس کا پس منظر یہ ہے کہ اقبال جرمن شاعر گوئٹے کے بڑے مداح تھے۔ گوئٹے قرآنی تعلیمات اور حیاتِ طیبہ سے بے حد متاثر تھا۔ یہاں تک کہ اس نے پیغمبرِ اسلامؐ پر ایک منظوم تمثیل تحریر کرنے کا ارادہ کیا، لیکن صرف ابتدائیہ ہی لکھ سکا۔ تمثیل کی تکمیل کی نوبت نہ پہنچی۔ اس ابتدائیہ یا نظم بعنوان ’محمدؐ‘ میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی آپس میں گفتگو کے دوران گوئٹے نبوت کی تشریح کے سلسلے میں آنحضورؐ کے لیے ’حیات آفریں جوئے آب‘ کی تشبیہ استعمال کرتا ہے، جس کا کام بہت سے نالے ندیوں کو اپنی آغوش میں لے کر سمندر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانا ہے۔ اقبال نے یہ نظم پڑھی ہوئی تھی اور ا س کی تشبیہات اور استعارات سے بھی بخوبی واقف تھے، بلکہ اس کا آزاد ترجمہ بھی پیامِ مشرق کی نظم ’جوئے آب‘ میں کیا تھا۔ چونکہ وہ آنحضورؐ کو انسانِ کامل سمجھتے تھے۔ اس لیے اُن کے نزدیک ہر مسلمان کے لیے آنحضورؐ کے نقش قدم پر چلنا فرض تھا، اس جذبے کے تحت اُنھوں نے جاوید نامہ کے رُوحانی سفر کے لیے اپنا نام زندہ رود منتخب کیا‘‘۔
وادیِ یرغمید یا وادیِ طواسین
’یرغمید،…اُردو اور فارسی میں ایک بے معنی لفظ ہے، لیکن یہ جاوید نامہ میں فلکِ قمر پر واقع ہے، اس وادی کو ملائکہ ’وادیِ طواسین‘ بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ جاوید نامہ کے روحانی اسفار کی دُنیا میں طاسینِ گوتم، طاسینِ زرتشت، طاسین مسیح اور تاسین محمدؐ اسی وادیِ یرغمید یا وادیِ طواسین میں واقع ہیں۔ ’طواسین‘ کی اصطلاح یقینا حسین بن منصور حلاج کی تصنیف ’کتاب الطواسین‘ سے لی گئی ہے۔ جسے صوفیانہ لٹریچر میں عام طور پر بلند مقام دیا جاتا ہے۔ طاسین در اصل ’طا‘ اور ’سین،… یعنی ط،س ہے،… جو صوفیانہ ادب میں رمزیاتی مفہوم کا حامل ہے۔ (ط کو طہٰ اور س کو’ یٰسین‘ کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ جو قرآن مجید کے حروفِ مقطّعات ہیں)۔ لیکن اسی وادی کو وادیِ یرغمید، کہنا ایک فنی حربے کے سوا اور کچھ نہیں…لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ ایک خالص فنی اختراع ہونے کے باوجود غریب، مغلق یا مہمل بالکل نہیں لگتا او ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی فارسی لغت ہی کا ایک حصہ ہے…!
مرغدین، برخیا اور فرزمرز
فلکِ مریخ پر ہمیں تین انوکھے نام ملتے ہیں،… مرغدین، برخیا اور فرزمرز،…مرغدین تو مریخ کے ایک شہر کا نام ہے، لیکن برخیا اور فرزمرز…دو کردار یا شخصیتیں ہیں،… ’مرغدین‘ بھی ’یرغمید‘ کی طرح ایک لفظی اختراع ہے، م، ر،اورغ کی اصوات بتاتی ہیں کہ اسے خطۂِ کشمیر کی ایک وادیِ گلمرغ (گل مرگ) کی ایک تلازماتی لیکن متغیر صورت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ’مرغدین‘ کو ایک ’مقامِ ارجمند‘ کہا گیا ہے،… اور اس کی بلند عمارتوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، جو ’مرغدین‘ کو کشمیر سے زیادہ کوئی مغربی شہر ثابت کرتا ہے،…’مرغدین‘ کے ساکنوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ شیریں سُخن، خوب رُو، نرم خو اور سادہ پوش ہیں…اور یہ سب خوبیاں ہمیں اہلِ خطہ (اہلِ کشمیر) میں دکھائی دیتی ہیں۔
برخیا۔ اہلِ مریخ کا ابوالآ باء یعنی آدم ہے جسے فرز مرز، آمرِ کردار زشت نے بہشت میں بہکانے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوا، اس استقامتِ کردار کے صلے میں برخیا اور اس کی نسل کو ایک اور دُنیا (جہانِ دیگرے) یعنی مریخ کی دُنیا عطا ہوئی، خیال رہے کہ جاوید نامہ میں صرف فلکِ مریخ ہی ایک ایسا مقام ہے جو دُنیا کی طرح مخلوق سے آباد ہے، اس دنیا میں رصد گاہیں بھی ہیں جہاں انجم شناس مطالعۂ نجوم میں محو رہتے ہیں،… ’فرزمرز‘ کے مقابلے میں برخیا ایک نسبتاً معروف لفظ ہے،…مفسرینِ قرآن کریم کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات میں قرآنِ کریم نے جس شخص کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’اس کے پاس کتاب کا علم تھا‘‘۔ (عندہ علم من الکتاب) وہ حضرت سلیمانؑ کا معتمدِ خاص اور کاتب (یا وزیر) آصف بن برخیا تھا، مفسرین یہ قول حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) نقل کرتے ہیں۔۴؎ فرزمرز، … بھی یرغمید اور مرغدین کی طرح ایک لفظی اور صوتی اختراع ہے،… فرزمرز مریخ کا ابلیس یا اہر من ہے، جو ابوالآ بائے مریخ برخیا کو بہکانے کے لیے اس کے پاس بہشت میں جاتا ہے اور ناکام لوٹتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس لفظ کی تخلیق میں ہُر مز یا ’اہورا مزدا‘ جیسے الفاظ کے تلازمات بھی شامل رہے ہوں۔ اگر اہر من کی راکو ساکن مان لیا جائے تو عروضی اعتبار سے فرزمرز اہرمن کا ہم وزن ہے، زکی تکرار نے اس کی صوت کو مؤکد بنا دیا ہے۔ اقبال کی زرخیز متخیّلہ نے با معنی ناموں کے وضع کرنے میں بھی بہت گہرے فنی شعور کا ثبوت دیا ہے، مثلاً۔ ملا ضیغم لولابی اور محراب گل افغان ان کی شاعری کے دو کردار ہیں، (ملا ضیغم لولابی کشمیری اور محراب گل افغان ہے) جن کے ذریعے اقبال نے اہلِ خطہ اور افغانوں کو خود شناسی اور خود گری کا پیغام دیا ہے، دیکھا جائے تو صوتی اور معنوی اعتبار سے یہ نام اتنے موزوں ہیں کہ ان سے بہتر کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔ اقبال کی عام لفظی تراکیب بھی ان کی متخیّلہ کے اثر سے خالی نہیں۔
زبان،… انسان کا نشان امتیاز اور تسمیہ (چیزوں کو نام دینے کی صلاحیت) اس کا جوہر انسانیت ہے، زبان پر گرفت فکر کے ارتقا کی پہلی شرط اور پہلا زینہ ہے، اگرچہ اعلیٰ درجے کی شاعری صرف زبان کے وسیع علم کے مترادف نہیں۔ لیکن اعلیٰ درجے کی شاعری تخلیق کرنے میں زبان کا وسیع علم بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے،… ایک خلاّق ذہن کے لیے زبان لغت، منطق اور گرامر سے ماورا ایک ایسی حقیقت ہوتی ہے جسے صرف اس کے براہِ راست تجربے ہی سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ انسانی فکر اور اس کے تخلیقی اور غیر تخلیقی اظہارات میں زبان کا کردار اور اس کا عمل دخل بے حد پیچیدہ اور ذوجہات ہے، لیکن شاعری بنیادی طور پر ہے ہی زبان کا کھیل، اس میں زبان ذریعۂِ اظہار بھی ہے اور مقصود بالذات بھی، اسی لیے شاعری میں زبان کا عمل اور بھی نازک اور پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ شاعری کے تمام معروف اجزا،… جذبہ، تخیّل، تفکر اور ارادہ۔ زبان ہی کے ذریعے اپنے آپ کو متشکل کرتے ہیں، لیکن زبان انھیں متشکل کرنے کے ساتھ ان سے ماورا ہونے کی سعی بھی کرتی ہے اور زبان کا یہی وہ عمل ہے جو شاعری میں ’شعریت‘ کا ضامن بنتا ہے۔ اقبال نے اُردو شاعری کی زبان کو کئی طرح سے متاثر کیا ہے، اُن کے سماعی اور بصری تخیّل نے بے شمار نئے الفاظ کو اُردو کی شعری اور نثری لغت کا حصہ بنایا ہے۔ ان کی ہزاروں تراکیب کی تشکیل میں اُن کے فکر کی معنی آفرینی کے ساتھ ساتھ ان کے لسانی یا لفظی تخیّل نے بھی بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ خودی، کلیمی، شبانی، بانگ بمعنی صدا، اُمم، میانہ بمعنی درمیان، قلندر، مردِ مومن، زوج، زروہ، جوّہ، فرنگ یا افرنگ، بانگِ سرافیل، نغمۂ جبریل، فردا، امروز، زمان و مکاں، غرض یہ اور ان جیسے کتنے ہی الفاظ ہیں جو اُردو کی شعری لغت میں کہیں بھی موجودنہیں تھے، مگر آج ہمیں وہ لفظ زندہ، با معنی اور متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال نے زبان کو وسعت ہی نہیں دی، اسے ایک نیا صوتی منظریہ (soundscape) بھی عطا کیا ہے، جس نے اُردو زبان کو اس کے تمدنی ماضی…فارسی اور عربی سے پیوند دے کر اسے نئے زمانے کی حقیقتوں کو بیان کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔
حواشی
۱- تورات کی عبارت یوں ہے: ’’جب ابرامؔ ننانوے برس کا ہوا تو خداوند اُس پر ظاہر ہوا، اور اس سے کہا، میں خدائے قادر ہوں، تو میرے حضور چل اور کامل ہو، اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد باندھوں گا اور تجھے نہایت ہی بڑھائوں گا۔ تب ابرامؔ سر کے بل گرا اور خدا نے اُس سے ہمکلام ہو کر کہا۔ دیکھ، مَیں اپنا عہد تیرے ساتھ باندھتا ہوں، اور تو اقوام کے انبوہ کا والد ہوگا، اور تیرا نام پھر ابرامؔ نہیں، بلکہ تیرا نام ابراہیم ہوگا، کیونکہ میں نے تجھے اقوام کے انبوہ کا والد بنایا ہے، اور میں تجھے نہایت ہی بڑھائوں گا اور قومیں تیری نسل سے ہوں گی، اور بادشاہ تیری اولاد میں سے نکلیں گے۔ تکوین، باب۱۷:۱تا۶
2- The living or the everflowing stream.
۳- دیوان حضرت احمد جام زندہ پیل، مطبوعہ نول کشور ۱۹۲۳ئ۔
۴- تفسیر ابن کثیر، جلد ۳ ،ص ۳۲۴؛ نیز تاریخ ابن کثیر، جلد ۲ ،ص ۲۳۔