ہر چند کہ ایجادِ معانی ہے خدا داد
کوشش سے کہاں مردِ ہُنر مند ہیں آزاد
خونِ رگِ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر
میخانۂ حافظ ہو کہ بت خانۂ بہزاد
بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا
روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد
بحیثیت موضوعِ شاعری، ادبیات کے بعد…فنونِ لطیفہ میں اقبال کی توجہ سب سے زیادہ فنِ تعمیر کی طرف رہی ہے۔ بالخصوص اس فن کے خوب و نا خوب کا تجزیہ اقبال کے فنی انتقاد کا ایک اہم حصہ ہے،…شاید اس لیے کہ فن تعمیر بصری، سہ ابعادی اور مادی ہونے کے باعث…اور اسی وجہ سے حواسِ انسانی پر زیادہ مؤثر ہونے کے باعث۔ انسانی تمدن میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ حیقیت یہ ہے کہ تمدن کا خارجی وجود تعمیر کے فن کے ساتھ تَواَم ہے۔ اجتماعی زندگی کے بنیادی رویے ایک بڑی حد تک فنِ تعمیر میں ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ کسی قوم کی اجتماعی نفسیات، خارجی حقیقت کے ساتھ اس کے روابط اور زندہ رہنے اور زندگی کو برتنے کے بارے میں اس کے عمومی رویوں کا مطالعہ اس کے تعمیراتی فنون سے بھی کیا جاتا ہے۔ تعمیر کا فن مادے کے ساتھ ہمارے اساسی اور جِبّلی رویے کے علاوہ ہمارے مادی اور ذوقی میلانات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اسی لیے تہذیبوں اور تمدنوں کے مؤرخ سیاسی احوال کے بعد سب سے زیادہ اہمیت فنِ تعمیر ہی کو دیتے ہیں۔ کسی عمارت کی داخلی اور خارجی وضع، اس کا مواد، اجزا کے تناسبات، اس میں آرائشی مواد کا عدم ووجود یا تقلیل و تکثیر…صرف افادی پہلوئوں ہی کی نہیں، بعض اوقات تعمیر کرنے والوں کے نفسی، اجتماعی اور جمالیاتی تصورات، اور کبھی کبھی ما بعد الطبیعیاتی میلانات کو بھی ظاہر کرتے ہیں،…اس کے علاوہ فنِ تعمیر چونکہ حواسِ انسانی پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے اور انسان کی ذوقی تربیت اور جسمانی فعلیت کسی نہ کسی حد تک اس کے دائرۂ اثر میں آجاتی ہے۔ نیز چونکہ زماں اور مکاں کے ساتھ انسان کے عملی اور جسمانی رشتے کا سب سے بڑا مظہر یہی فن ہے، اس لیے اقبال نے بجا طور پر فنونِ لطیفہ کی تحسین و تنقید میں اسے زیادہ اہمیت دی ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے موسیقی اور مصوری کے بارے میں فنِ تعمیر کی نسبت زیادہ اظہارِ خیال کیا ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اُن کی سب سے مفصل آرا ادب اور شاعری کے بارے میں ہیں،…اس کے بعد جس فن کو سب سے زیادہ قابلِ تبصرہ اور لائقِ توجہ سمجھا ہے وہ فن تعمیر ہی ہے۔ طبعاً بھی اقبال ذوقِ تعمیر کی معنویت سے بہرہ مند تھے،… اگرچہ اُن کے نظامِ افکار میں مکاں (space)کے مقابلے میں زمان (time) کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، لیکن اپنے ما بعد الطبیعیاتی فکر میں وہ زمان اور مکان کو ایک ہی حقیقت کے دو پہلو خیال کرتے ہیں…اور آئن سٹائن کی پیروی میں زمان اور مکان کو زماں۔ مکاں (time-space) کہتے ہیں، اسی لیے مقامات اور تعمیری مظاہر جو مکاں (space) پر انسان کے دستِ تصرف کی کرشمہ سازیوں کو ظاہر کرتے ہیں، ناگزیر طور پر اقبال کے نظامِ علامات کا حصہ ہیں۔ فنِ تعمیر سے اقبال کی اس گہری وابستگی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اسلامی تمدن کے بہت بڑے مبصر…اور اس تمدن کی فکری اور مابعد الطبیعیاتی اساسیات کے شارح کی حیثیت سے اقبال کو اسلامی فنِ تعمیر سے خصوصی دلچسپی ہے۔ اس تمدن نے دُنیا کو مسجدِ قرطبہ، قصر الزہرا اور تاج محل جیسے شاہکار عطا کیے ہیں اور فنِ تعمیر میں ایسی ہیئتوں کی تخلیق کی ہے جو جلال و جمال دونوں کا مجموعہ ہیں۔ فنِ تعمیر میں اقبال کا اصل نظامِ حوالگی اسلامی فنِ تعمیر ہی ہے۔ کھوئے ہوئوں کی جستجو میں وہ ’بجھی ہوئی آگ‘ اور ’ٹوٹی ہوئی طناب‘ (حجاز کی صحرائی تہذیب) کے علاوہ مسلمانوں کی عظیم الشان عمارات اور ان کے طرزِ تعمیر میں بھی عظمتِ رفتہ کو تلاش کرتے ہیں۔ بانگِ دراکی نظم ’گورستانِ شاہی‘ میں اس جذبے کا اظہار واضح، مگر ابتدائی صورت میں ہوا ہے۔
آہ !جولانگاہِ عالمگیر، یعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اٹھائے سینکڑوں صدیوں کا بار
زندگی سے تھا کبھی معمور، اب سنسان ہے
یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے
اپنے سُکّانِ کہن کی خاک کا دلدادہ ہے
کوہ کے سر پر مثالِ پاسباں استادہ ہے
خوابگہ شاہوں کی ہے یہ منزلِ حسرت فزا
دیدۂِ عبرت، خراجِ اشکِ گلگوں کر ادا
ہے تو گورستاں، مگر یہ خاک گردوں پایہ ہے
آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے
مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر
جنبشِ مژگاں سے ہے چشمِ تماشا کو حذر
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں
جو اتر سکتی نہیں آئینۂِ تحریر میں
اس نظم میں اقبال نے گورستانِ شاہی کے مقابر کے بارے میں دو توصیفی الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی شان (شکوہ) اور حیرت آفریں،… شکوہ اور حیرت آفرینی ایسے فن کی خصوصیات ہیں، جسے ارفع یا جلیل (sublime) کہا جاتا ہے۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اقبال فن میں ارفعیّت (sublimity) اور تخلیقی انا کی قوت کے اظہار کو زیادہ قابلِ توجہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ تخلیقی اظہار کو خارجی حوالے کے ساتھ بھی مشروط کرتے ہیں اس لیے کہ خارجی حالات ہمارے تخلیقی رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لیے فن کار کو ہر حال میں خارجی حالات کی رعایت رکھنی چاہیے، اور ان پر اپنے شعور کی گرفت کو مضبوط تر کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ بالآخر یہ فن کار ہی ہوتا ہے جو اپنی تخلیقی فعلیت کی قوت اور اپنے اظہار کی بدولت خارجی کوائف کو بدل سکتا ہے اور بدل دیتا ہے۔ یقینا یہ فن کا مقصدی نظریہ ہے لیکن اقبال نے واشگاف الفاظ میں اپنے مقصدی نظریۂ فن کی تصریح کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب کوئی قوم انحطاط کا شکار ہو کر آذر کا شیوہ (بت گری) اختیار کرتی ہے تو اس قوم کے حقیقی فن کار (مثلاً شاعر) کے کلام سے شانِ خلیل نمایاں ہونے لگتی ہے:
شانِ خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
کرتی ہے جب اس کی قوم اپنا شعار آزری
’شعارِ آزری،…کسی قدر تشریح طلب اصطلاح ہے، بظاہر تو رسمِ آزری’بت گری اور کفر و شرک، کے مترادف ہے اور بلا شبہ اقبال عقائد کی دُنیا میں سچی توحید ہی کو سچے فن کا سر چشمہ قرار دیتے ہیں (عاشقان را بر عمل قدرت دہد)،…لیکن فنی تصورات کے حوالے سے شعارِ آزری،… فطرت کی اندھی تقلید اور نقالی کے مترادف ہے،… اور فطرت کی غلامی ((نقالی ) اقبال کے نزدیک انتہائی نا محمود شیوہ ہے۔ ’اہرامِ مصر‘ کی عظمت جس سے وہ اسی لیے متاثر ہوئے کہ ایک تو وہ دوام کے اعتبار سے فطرت کے حریف ہیں۔ دوسرے اُن کی ہیئت میں فطرت کی نقالی سے کام نہیں لیا گیا۔
اس دشتِ جگر تاب کی خاموش فضا میں
فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر
اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہُنر کو
صیاد ہیں مردانِ ہنر مند کہ نخچیر
مجموعی طور پر تخلیقی فنون کو ہر تفصیل و اجمال، ظاہر و باطن (یعنی ہیئت و موضوع) اور تمام لفظی تلازمات اور نفسی و عقلی مضمرات کے اعتبار سے انائے انسانی کی تکمیل کا ضامن اور حرکت و عمل کے محرکات کا ترجمان ہونا چاہیے…اقبال کا تصورِ فن ہر حال میں ان کے تصورِ خودی (تکمیلِ فرد) اور اُصولِ بے خودی (تکمیلِ معاشرہ) کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے جو کچھ اُنھوں نے دوسرے تخلیقی فنون کے بارے میں کہا ہے وہ فنِ تعمیر کے بارے میں بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ اقبال ایجادِ معانی کو خدا داد خیال کرتے ہیں لیکن تخلیق و تعمیر کے لیے محنتِ پیہم کو لازمی قرار دیتے ہیں، لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک فن کار کا داخلی اضطراب (بالخصوص خودی کی بیداری کی واردات) تخلیقی عمل میں شامل نہ ہو، اسے دوام حاصل نہیں ہو سکتا، دوام مل بھی جائے تو ایسی تخلیق کا وجود انسانی تہذیب کی پیش رفت میں رکاوٹ بنا رہتا ہے،… اسی لیے فن میں اس کی ہیئت اور اس کے مافیہ (content) کے ساتھ ساتھ اس کے محرکات بھی اہمیت رکھتے ہیں:
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
تخلیقی فنون کے معنوی اجزا…یا مجموعی معنویت میں کوئی ایسی چیز بھی ہے جسے اقبال مطلقاً حق (truth)سے تعبیر کرتے ہیں، اس کا اشارہ اُن کی اس مختصر نظم سے ملتا ہے جس میں اُنھوں نے پیرس میں تعمیر ہونے والی ایک مسجد کے طرزِ تعمیر پر تنقید کی ہے، نظم کا عنوان بھی پیرس کی مسجد ہے:
مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے
کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ
حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ سازوں نے
تنِ حرم میں چھپا دی ہے رُوحِ بت خانہ
یہ بت کدہ انھیں غارت گروں کی ہے تعمیر
دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ
دوسرے مباحث سے قطعِ نظر، کمالِ ہنر (cractsmanship)سے کلی طور پر اعراض کرتے ہوئے اقبال نے واضح انداز میں ثابت کیا ہے کہ فن میں محرک کو بہت اہمیت حاصل ہے،… یہاں یہ بات بھی یقیناً قابلِ ذکر ہے کہ اقبال نے اس نظم میں اور اپنے تمام اشعار میں بھی، جن میں فن کے اُصولی سرچشموں سے بحث کی گئی ہے… فن کی تنقید میں پہلی بار محرک (motif) کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ موتف، یا محرک سے مراد وہ بنیادی جذبہ، اجمالی خاکہ یا مجموعی تصور(image) ہے جس پر کسی فنی ہیئت کا ڈھانچہ استوار ہوتا ہے،…علاوہ ازیں اس لفظ میں تخلیق کے ’باعث‘ (cause) کے ساتھ ساتھ اس کی غایت یا ’حاصل‘ (end) کے معانی بھی شامل ہیں جو تخلیق سے پہلے یا تخلیق کے دوران فن کار کے پیش نظر ہو سکتے ہیں یا کم از کم اس کے لاشعوری محرکات میں شامل رہتے ہیں۔ فن کے سرچشموں کی بحث میں اقبال نے جس ’موتف‘ (motif) یا محرک کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ وہ عشق ہے،… فن کے محرکات کے بے مثال تجزیوں میں اقبال نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خارجی احوال فن کی نوعیت کو بدل دیتے ہیں،… اس حقیقت کو وہ آزاد اور غلام قوموں کے فنون کے موازنے سے واضح کرتے ہیں،…بندگی نامہ میں اُنھوں نے آزاد قوموں کے فنِ تعمیر کے لیے الگ باب باندھا ہے… (درفنِ تعمیرِ مردانِ آزاد)… جس میں اُنھوں نے آزاد قوموں کے فنِ تعمیر کی اجمالی خوبیوں کے ساتھ ساتھ مسجدِ قوت الاسلام اور تاج محل کی جمالیاتی قدرو قیمت کا بھی جائزہ لیا ہے، مسجدِ قوت الاسلام مغلوں سے پہلے اور تاج محل مغلوں کے طرزِ تعمیر کی علامت ہیں:
یک زمان با رفتگان صحبت گزین
صنعتِ آزاد مردان ہم بہ بین
خیز و کار ایبک و سوری نگر
وانما چشمے اگر داری جگر
خویش را از خود برون آوردہ اند
این چنین خود را تماشا کردہ اند
سنگہا با سنگہا پیوستہ اند
روزگارے را بآنے بستہ اند
دیدنِ او پختہ تر سازد تُرا
در جہانِ دیگر اندازد تُرا
نقش سوئے نقش گر می آورد
از ضمیرِ او خبر می آورد
ہمتِ مردانہ و طبعِ بلند
در دلِ سنگ این دو لعلِ ارجمند
سجدہ گاہِ کیست این، از من مپرس
بے خبر، رودادِ جان از تن مپرس
وائے من از خویشتن اندر حجاب
از فراتِ زندگی ناخوردہ آب
محکمی ہا از یقینِ محکم است
وائے من، شاخِ یقینم بے نم است
در من آن نیروئے اِلّا اللہ نیست
سجدہ ام شایانِ این درگاہ نیست
’’تھوڑی دیر کے لیے گزرے ہوئے لوگوں کی صحبت بھی اختیار کرو، اور دیکھو کہ آزاد مردوں کی صنعت (فنی تخلیق) کس طرح کی ہوتی ہے…اُٹھو، اور ایبک و سوری کے کارنامے دیکھو…آنکھیں کھولو اگر تم میں دیکھنے کا حوصلہ ہے۔ اُنھوں نے اپنی ذات کا نظارہ اس طرح کیا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے آپ سے باہر لے آئے ہیں۔ ایک پتھر کو دوسرے پتھر کے ساتھ اس طرح پیوستہ کیا ہے کہ زمانے کو ایک لمحے کے ساتھ باندھ دیا ہے…ایسے ہی فن کا نظارہ تجھے اپنی ذات میں پختہ تر بناتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تجھے ایک نئے جہانِ معنی میں داخل کر دیتاہے…(دراصل بات یہ ہے کہ) نقش ہمیں نقش گر کی طرف لے آتا ہے، نقش ہمیں نقش گر کے ضمیر کی گہرائیوں سے باخبر کرتا ہے…پتھر کے دل میں دو قیمتی لعل ہیں ہمتِ مردانہ اور طبعِ بلند…یہ سجدہ گاہ (مسجد) کس کی ہے؟ مجھ سے نہ پوچھو…روح کا ماجرا جسم سے نہ دریافت کرو…میں تو اپنے آپ سے بھی چھپا ہوا ہوں(پوری طرح نمو دار نہیں)۔ میں نے تو زندگی کے دریا سے پانی بھی نہیں پیا…استحکام اور مضبوطی، یقینِ محکم ہی سے پیدا ہوتی ہے،… مجھ پر افسوس کہ میرے یقین کی شاخ خشک ہے۔ میرے اندر اِلاّ اللہ کی طاقت نہیں… اس لیے میرا سجدہ اس مسجد کے شایانِ شان نہیں ہو سکتا‘‘۔
یہ قطب الدین ایبک کی مسجدِقوت الاسلام کا تذکرہ ہے۔ اقبال کے یہ اشعار نہ صرف ان کے تصورِ فن کی تشریح کرتے ہیں بلکہ برِصغیر پاک و ہند میں مغلوں سے قبل کے اسلامی طرزِ تعمیر پر بہترین تبصرے کا درجہ بھی رکھتے ہیں، قبلِ عہدِ مغلیہ کے اسلامی طرزِ تعمیر میں اقبال نے جن عناصر کا سراغ لگایا ہے، وہ ہیں جذبۂ حریت (صنعتِ آزاد مردان ہم بہ بین) اظہارِ ذات، خود نگری، سنگینی، ابدیت کی شان، ہمتِ مردانہ اور طبعِ بلند کی خصوصیات…اور قوت ! عالم اسلام کی جن دو مساجد کی عظمت سے اقبال بے حد متاثر ہوئے ہیں، ان میں ایک تو مسجدِقرطبہ ہے اور دوسری یہی مسجدِ قوت الاسلام،…مؤخرالذکر مسجد کے سامنے اقبال کو اپنی انا (جو مسلمانوں کی اجتماعی خودی کے مترادف ہے) بہت کمزور دکھائی دی اور وہ ان احساسات کو ظاہر کیے بغیر نہیں رہ سکے ’مسجدِ قوت الاسلام‘ کے عنوان سے ایک نظم میں ان احساسات کو کھول کر بیان کیا ہے:
ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی
لَااِلٰہ مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود
چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو
کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود،
کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہوا مثلِ زجاج اس کا وجود
ہے تری شان کے شایاں اُسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت وہ گداز
بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ اور درود
ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود
یہاں اس امر کی تشریح کی چنداں حاجت نہیں کہ اس مسجد کی نظارگی سے اقبال جن احساسات سے دوچار ہوئے وہ دراصل مسلمانوں کی اجتماعی انا کی کمزوری، ان کے ذوقِ نمود کی کمی، اُن کی تخلیقی قوتوں کے جمود، یقین کے عدم استحکام اور احسا س غلامی کی ترجمانی کرتے ہیں، اس مسجد کے بارے میں اقبال کا ردِ عمل ایک طرح کے حزن…اور رنج و ملال (anguish) سے عبارت ہے،…جب کہ مسجدِ قرطبہ نے اقبال کو بیک وقت سوزو گداز، انشراح و اہتزاز…اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ایک نئے رئویا سے آشنا کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مسجدِ قرطبہ اقبال کی ایک ایسی عظیم الشان نظم کا محرک ثابت ہوئی جس میں اقبال کے فلسفۂ حیات اور تصورِ فن کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حیاتِ اجتماعیہ کے بہت سے تاریخی، نفسی اور جمالیاتی پہلو سمٹ آئے ہیں:
اے حرمِ قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
قطرۂِ خونِ جگر، سِل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا، سوز و سرور و سرود
تیری فضا دل فروز، میری نواسینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشود
تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل
تو بھی جلیل و جمیل، وہ بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
تیرے در و بام پر وادیِ ایمن کا نور
تیرا منارِ بلند، جلوہ گہِ جبرئیل
تجھ سے ہوا آشکار بندۂِ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سرور، اس کا شوق، اس کا نیاز، اس کا ناز
کعبۂ اربابِ فن ! سطوتِ دینِ مبیں
تجھ سے حرم مرتبت، اندلسیوں کی زمیں
ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں!
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
مسجدِ قرطبہ کا ’موتف‘ اقبال نے عشق کو قرار دیا ہے، جس کی یوں تو عمومی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں لیکن اقبال کے ہاں عشق قلبِ مومن کی ایک خاص کیفیت ہے،…خودی کے تصور کے بعد اقبال کی شاعری کا سب سے اہم تصور عشق ہے جس کی بے تابی و اضطراب، سوزو گداز…اور خلاقی انسانوں کو اپنی ذات کی وسعتوں…اور زندگی کے برتر مقاصد سے آشنا کرتی ہے۔ مسجدِ قرطبہ کے تعمیراتی پیکر میں اقبال کو سب سے اہم چیز اس کا جلال و جمال نظر آ یا ہے،…مسجدِ قرطبہ اس لیے اقبال کے نزدیک فن تعمیر کا مثالی نمونہ ہے کہ ایک تو اس کا محرک جذبہ عشق ہے، دوسرے وہ نہ صرف جلال ہے، نہ صرف جمال، بلکہ ان دنوں کے امتزاج کا حسین ترین نمونہ ہے…محرکات ہی کے مسئلے میں اقبال کے نزدیک کسی فن پارے کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ کسی داخلی کیفیت (بالخصوص عشق) کا معروضی پیکر (objective correlative) ہو،…مسجدِ قرطبہ انھیں معنوں میں مردِ خدا کی دلیل ہے کہ وہ مردِ خدا کے معنوی کردار کی خارجی تمثیل ہے،… اور اسی لیے مسجدِ قرطبہ کے جلال و جمال کو اگر کسی داخلی کیفیت سے نسبت ہے تو وہ مردِ خدا کا دل ہے:
ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں
دلفروزی او ر دل کشائی…ایک اور تعمیراتی خصوصیت ہے جو اقبال کو مسجدِ قرطبہ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ تاج محل جو مغل طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے، انھیں خصوصیات کی وجہ سے لازوال ہے۔ ’بندگی نامہ‘ کے اسی باب میں، جس میں مسجدِ قوت الاسلام کا ذکر ہے تاج محل کے حسن عالمتاب کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے۔
یک نظر آن گوہِ نابے نگر
تاج را در زیرِ مہتابے نگر
مرمرش ز آبِ روان گردندہ تر
یک دم آنجا از ابد پائندہ تر
عشقِ مردان سِرِّ خود راگفتہ است
سنگ را بانوکِ مژگان سُفتہ است
عشقِ مردان، پاک و رنگین چون بہشت
می کشاید نغمہ ہا از سنگ و خشت
عشقِ مردان نقدِ خوبان را عیار
حسن راہم پردہ در، ہم پردہ دار
ہمتِ او آنسوئے گردوں گذشت
از جہانِ چند و چون بیرون گذشت
زانکہ در گفتن نیاید زآنچہ دید
از ضمیرِ خود نقابے برکشید
ایک نظر اس خالص موتی کو بھی دیکھو…اور اگر اسے صحیح معنوں میں دیکھنا ہوتو چاندی رات میں دیکھو،… اس کا مر مر پانی سے زیادہ تیز اور اس کی دید کا ایک لمحہ ابدیت سے زیادہ پائیدار ہے، (تاج محل کیا بنایا ہے) اہلِ دل نے عشق کا راز بیان کیا ہے،…گویا پتھر کو پلکوں سے چھیدا ہے…مردوں کا عشق بہشت سے زیادہ پاک اور رنگین ہے۔ یہ عشق سنگ و خشت سے نغمے کشید کرتا ہے۔ مردوں کا عشق محبوبوں کی متاع کی کسوٹی ہے۔ یہ عشق حسن کو بے حجاب بھی کرتا ہے اور حسن کا پردہ بھی رکھتا ہے، اس کی ہمت (تاج محل کی تخلیق میں) آسماں سے بھی پرے گزر گئی ہے۔ اس نے وہ کچھ دیکھا جو بیان میں نہیں آتا…(تاج محل کی تخلیق سے) عشق نے اپنے ضمیر، اپنے نہاں خانۂِ باطن سے نقاب اُٹھا دیا ہے۔
تاج محل کے بارے میں اقبال کی پوری شاعری میں یہی ایک تبصرہ ہے۔ لیکن حق یہ ہے یہ تبصرہ جتنا مختصر ہے، اس سے کہیں زیادہ بلیغ اور خیال انگیز ہے،… تاج محل کے لیے اقبال نے جو تشبیہات استعمال کی ہیں وہ بذاتِ خود حسن کاری کا مرقع ہیں۔ گوہرِ ناب، ابد سے زیادہ پائیدار، حسن کا پردہ در بھی، اور پردہ داربھی، پاک و رنگیں، سنگ و خشت سے نغموں کے در کھولنے والا، اور ضمیرِ عشق کو بے نقاب کرنے والا تاج محل…جسے ایک کردار، ایک شخصیت بنانے میں اقبال نے غیر معمولی لفظی صناعی سے کام لیا ہے۔ اور تمام باتوں سے بڑھ کر۔ اقبال کے نزدیک تاج محل کی معنویت یہ ہے کہ اس سے عشق کے خالص اور پاکیزہ جذبے کی نمود کامل طور پر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ تاج محل کو ’مردانِ آزاد، کے حسنِ تعمیر کا نمونہ بھی سمجھتے ہیں…تعمیراتی فنون سے اقبال کی یہ دلچسپی محض رسمی نہیں بلکہ ان کے نہایت گہرے ذاتی میلانات اور شخصی ذوقِ تعمیر کی ترجمان بھی ہے۔
ان کی شاعری میں جن عمارات کا تذکرہ آیا ہے اور ان کی جن خصوصیات پر زور دیا گیا ہے۔ اور اقبال کے تصورِ فن میں تخلیقی فنون کو جن کوائف سے مشروط کیا گیا ہے، ان کی روشنی میں اقبال کے تصورِ تعمیر کے بارے میں چند نتائج کا استخراج کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فنِ تعمیر کی یہ خصوصیات اُن کے نزدیک اہم اور ضروری ہیں:
۱-شان اور شوکت [grandeur]
۲-رفعت اور عظمت [sublimity]
۳-جلال و جمال یا دلبری اور قاہری کا امتزاج (دلبری بے قاہری جادو گری ست)
۴-فطرت کی تقلید سے آزادی (فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہُنر کو)
۵-اظہارِ ذات یا ذوقِ نمود [self-ecpression] (خویش را از خود برون آوردہ اند)
۶-محرک یا موتف [motif] (ع۔جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود ) (ع اے حرم قرطبہ !عشق سے تیرا وجود)
۷-دوام اور ابدیت کی شان [relative eternity] (یک دم آنجا از ابد پائندہ تر)
۸-خونِ جگر کی شمولیت [ self-consumation] یعنی فن کار کا داخلی سوزو گداز، اضطراب اور محنتِ پیہم (خونِ رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر،مے خانۂ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد، معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود)
۹-دل افروزی اور دل کشائی [inspirational]
۱۰-احساسات کی پاکیزگی اور سچائی [purity of feeling] (عشقِ مردان پاک و رنگیں چون بہشت)
۱۱-حسن کا اظہار بھی اور اخفا بھی (حسن راہم پردہ در، ہم پردہ دار)
۱۲۔صداقت [truth] (مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے، کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ)
یوں تو تقریباً ہر بڑے مفکر نے فنونِ لطیفہ کی ماہیت اور ان کے معیاری پیمانوں کے بارے میں تفصیلاً یا اجمالاً اظہار خیال کیا ہے،…لیکن کسی بھی نقادِ فن یا مفکر نے صرف فنِ تعمیر کے اتنے پہلوئوں کی نشاندہی نہیں کی،… اسی لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اقبال کو فنِ تعمیر کی اساسی جمالیات اور اس کے معیاری اور مثالی تصورات سے بہت گہری وابستگی تھی…اگر اقبال کو خود کسی تعمیراتی مظہر کا جمالیاتی خاکہ تیار کرنا پڑتا تو اس کی نوعیت کیا ہوتی…اس کا تھوڑا سا اندازہ جاوید نامہ کے ان اشعار سے ہوتا ہے جن میں اُنھوں نے عالمِ افلاک میں سلاطینِ مشرق کے فردوسی محلات کی منظر نگاری کی ہے،…
حرف و صوتم خام و فکرم نا تمام
کے توان گفتن حدیث آن مقام
نوریان از جلوہ ہائے او بصیر
زندہ و دانا و گویا و خبیر
قصرے از فیروزہ دیوار و درش
آسمانِ نیلگون اندر برش
رفعتِ او برتر از چند و چگون
می کند اندیشہ را خوار و زبوں
آن گل و سرو وسمن، آن شاخسار
از لطافت مثلِ تصویر بہار
ہر زمان برگِ گل و برگِ شجر
دارد از ذوقِ نمو رنگِ دگر
ایں قدر بادِ صبا افسون گر است
تا مژہ برہم زنی، زرد احمر است
ہر طرف فوارہہا گوھر فروش
مرغکِ فردوس زاد اندر خروش
بارگاہے اندران کاخے بلند
ذرۂ او آفتاب اندر کمند
سقف و دیوار و اساطین از عقیق
فرشِ او از یشم و پرچین از عقیق
بر یمین و بر یسارِ آن وثاق
حوریان صف بستہ با زرین نطاق
درمیاں بنشستہ بر اورنگِ زر
خسروانِ جم حشم، بہرام فر
میری آواز اور میرا لہجہ خام…اور میری فکر نا تمام ہے۔ اس مقام کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ فرشتے اس کے جلوے سے آنکھیں روشن کرتے ہیںإ بلکہ زندہ و دانا اور سخن پرداز اور باخبر بن جاتے ہیں۔ یہ ایک محل تھا جس کے دیوار و درفیروزہ کے تھے، نیلگوں آسماں کو اس محل نے اپنی وسعت میں سمولیا تھا، اس کی بلندی فکر و تخیل سے بھی بلند تر تھی، اسے دیکھ کر فکرو تخیل خواروزبوں ہو کر رہ جاتے تھے…وہ اس کے پھول اور سروسمن اور شاخسار،… لطافت میں وہ منظر تصویر بہار کی طرح تھا۔ اس کے پھول اور پتے ذوقِ نمو کے باعث ہر لمحہ ایک نیارنگ اختیار کرتے تھے۔ ہوا کی جادو گری کا یہ عالم تھا کہ ادھر تم نے پلکیں جھپکیں، اُدھر زرد رنگ سرخ میں بدل چکا تھا…ہر طرف فوارے موتی لٹاتے تھے اور فردوس کا پرندہ زمزمہ پرداز تھا۔ اس بلند اور پر شکوہ محل میں ایک دربار آراستہ تھا، اس کے ذرے آفتاب کو بھی اسیر کیے ہوئے تھے۔ اس کی چھت اور دیواریں اور ستون عقیق کے تھے، فرش الماس کا اور کیلیں پھر عقیق کی تھیں۔ اس کی رسی کے دونوں جانب حوریں سونے کے کمر بند باندھے ہوئے صف بستہ تھیں۔ درمیان میں سونے کے تخت پر جمشید کی سی حشمت اور بہرام کی سی شان و شوکت والے سلاطین بیٹھے ہوئے تھے۔
اس تصوراتی تعمیر میں بھی بلندی اور رفعت کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ منظر ایک خاص سیاق و سباق کا حصہ ہے اور اس کی تَہ میں فردوس کے بارے میں مسلمانوں کے عمومی تخیلات بھی کار فرما ہیں، تاہم اگر اسے اقبال کے تعمیری تخیلات کا ایک نمونہ قرار دے لیا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا،…اس تخئیلی عمارت میں بھی زیادہ اہمیت گل و گلزار ہی کی تفصیل کو حاصل ہے۔ اس منظر کی سب سے دلچسپ خصوصیت یہ ہے کہ اس کے برگ و گل ہر لمحہ ایک نیا رنگ اختیار کرتے ہیں اور زرد، پلک جھپکنے میں سرخ ہو جاتا ہے اور رنگوں کی یہ تلوین اور بو قلمونی ہر لمحہ جاری رہتی ہے۔ اقبال کے تخیل میں جو زبردست حرکیت ہے شاید یہ اسی کا حصہ ہو،…ایک ساکن اور ٹھہرا ہوا فردوس ویسے بھی اقبال کو پسند نہیں آسکتا تھا۔ مجموعی طور پر یہ تصور کیاہمیں مغلیہ عمارات (بالخصوص تاج محل، مقبرہ جہانگیر اور شالا مار باغ) کے قریب نہیں لے جاتا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ مغل شہنشاہ مسلمانوں کے فردوسی تخیلات کو بہت حد تک مجسم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے؟
اگر کسی چیز کا تذکرہ نہ کرنا اور اسے بظاہر ایک متعلقہ بحث سے غیر متعلق قرار دینا بھی ایک تنقیدی رویہ اور تنقیدی تبصرہ ہے، تو اقبال نے اسلامی طرزِ تعمیر کے سوا کسی اور طرزِ تعمیر پر تبصرہ نہ کر کے یقینا ایک بہت بڑا تنقیدی فیصلہ صادر کیا ہے۔ اگر کسی نے یونانی اور رُومن عمارات کی پر شکوہ خنکی، اُن کے بھاری بھر کم جُثوں میں تخلیقی انا کی حرارت، تابانی اور بے تابی کی کمی اور عشق کے سوز و گداز کی قطعی عدم موجودگی کو محسوس کیا ہے، اگر کسی نے ہندو طرزِ تعمیر میں دلفروزی اور دلکشائی، رفعت اور شکوہ اور پیدائی اور آشکارائی کے عناصر کو یک قلم مفقود پایا ہے تو اسے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ اقبال نے یونانی رُومن اور ہندو طرزِ تعمیر کا تذکرہ یا اس پر تبصرہ کیوں نہیں کیا۔
اقبال کے ذوقِ تعمیر کی وسعت اور بلندی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ عمارت یا عمارات تو ایک طرف رہیں،… اس عہد آفریں شاعر نے ایک نئی ریاست، ایک نئی مملکت کی تشکیل و تعمیر کے تصور کو متشکل کیا۔ اس ریاست کی تعمیری اساس اقبال کے ذوقِ تعمیر پر استوار ہے۔