"عمیر بچے کل تم چلے جاؤ گے کراچی تو کچھ وقت ہمیں بھی دے دو۔" جہانداد خان نے عمیر یوسفزئی سے کہا۔
"ارے داجی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ میرا تو سب کچھ آپ کیلئے ہی ہے۔" عمیر انکو بٹھاتے ہوئے بولا۔
"اللہ کرے کہ تم شہر جا کر بھی ایسے ہی فرمانبردار رہو۔" خان نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
" داجی میں کیوں بدلوں گا بھلا؟" عمیر مسکرایا تھا۔
"عمیر ہمارے بہت دشمن ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرے دشمن تمہیں مجھ سے بد گمان نہ کر دیں۔" خان نے پر سوچ انداز میں کہا۔
"داجی جب آپ نے کچھ ایسا ویسا کیا ہی نہیں ہے تو پھر یقین کریں مجھے کوئی آپ سے بدگمان نہیں کر سکتا۔"
عمیر نے انکا ہاتھ تھام کر کہا جس پر وہ ٹھٹھک گئے تھے۔ مگر پھر اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے بولے۔
"دل لگا کر پڑھنا اور لڑکیوں سے دور رہنا۔"
"اوہ آپ کو یہ ڈر ہے کہ کہیں مجھے کوئی چڑیل نہ لے اڑے۔" عمیر نے قہقہہ لگایا تھا جبکہ وہ سر جھٹک کر اس سے باتیں کرنے لگے تھے۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"رقیہ دیکھو لوگ بہت اچھے ہیں میں نے خود چھان بین کروائی ہے۔ کیونکہ اب تم لوگوں کے گھر میں تو کوئی ہے نہیں جو کرے تو اس لئے میں نے بڑی چھان بین کے بعد لڑکے والوں کو مہمل کی تصویر دکھائی ہے۔" شبنم خالہ نے رقیہ بیگم کو کہا۔
"شبنم بہن مجھے بس ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔" رقیہ بیگم نے اپنا خدشہ بیان کیا۔
" تم بلکل بےفکر ہو جاؤ کیونکہ میں نے بڑی چھان پھٹک کے بعد تم سے بات کی ہے۔" شبنم خالہ نے تسلی دی لیکن رقیہ بیگم پھر پریشانی سے گویا ہوئیں۔
"مہمل کا مزاج بہت باغیانہ سا ہے کیا لڑکا اتنا سمجھدار ہے کہ مہمل کو اچھے سے رکھ سکے۔"
"ہاں یہ بات تو ہے کہ مہمل بہت مشکل سے قابو ہوتی ہے مگر لڑکا بڑا اخلاق والا ہے اور بڑی عزت کرتا ہے سب کی مہمل بہت خوش رہے گی۔" شبنم خالہ نے کہا تو رقیہ بیگم نے ایک لمبی سانس بھری۔
" کب آ رہے ہیں وہ لوگ؟" رقیہ بیگم نے پوچھا۔
" بھئی پرسو آ رہے ہیں اور میں نے انھیں بتا دیا ہے کہ مہمل ڈاکٹر بن رہی ہے۔" شبنم خالہ نے بتایا تو رقیہ بیگم اثبات میں سر ہلا گئیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
"یہ کیا بکواس ہے داؤد!" مہمل چیخی تھی مگر آفس کی دیواریں ساؤنڈ پروف ہونے کی وجہ سے اسکی آواز آفس کے اندر ہی رہی تھی۔
" یہ کوئی بدتمیزی نہیں ہے اور نہ ہی بکواس۔" داؤد نے لب بھینچے تھے۔
"داؤد چھوڑو مجھے دردر ہو رہا ہے مہمل نے اپنے بازو چھڑانے چاہے۔" جو کہ داؤد مشوانی نے اس قدر زور سے پکڑے تھے کہ اسے درد ہو رہا تھا۔
"یہ درد تم نے خود چنا ہے سیدھے طریقے سے تم کچھ سنتی نہیں۔" داؤد نے لا پرواہی سے کہا تھا۔
"تم غلط کر رہے ہو تم یوسفزئی خاندان کے ساتھ ملنا چاہتے ہو؟" مہمل اب اس سے سوال کر رہی تھی۔
" میں تمہیں تباہ ہونے سے بچانا چاہتا ہوں۔ تمہیں کیوں سمجھ نہیں آتی اس بات کی کتنی بار تمہیں سمجھاؤں میں؟" داؤد دھاڑا تھا جس پر مہمل سہم گئی تھی کیونکہ وہ پہلی بار اتنے غصے سے اس سے بات کر رہا تھا۔
"تم بیٹھو یہاں اور ہلنا مت جب تک کام نہیں ہوتا۔" داؤد نے اسکو کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور خود دیوار پر مکا مارا تھا کیونکہ اس وقت اسکا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
" جو تم چاہتے ہو میں کبھی نہیں کروں گی۔" مہمل داروزے کی طرف بڑھی تھی مگر داؤد نے اسے بازو سے پکڑ کر پیچھے کھینچا تھا کہ مہمل کا ہاتھ اٹھا اور مشوانی کے چہرے پر اپنا نشان ثبت کر گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"مس نور کہاں ہیں نرس؟" شاہ نے پوچھا۔
"سر وہ تو باہر کینٹین کی طرف گئیں ہیں۔" نرس نے بتایا تو وہ بھی اسکے پیچھے نکلا تھا۔
"ڈاکٹر نور آپ میں احساس ذمہ داری نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔" شاہ نے اسکے سر پر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
"ڈاکٹر اب میں نے کیا کر دیا ہے۔" نور نے بیزاری سے کہا۔
" آپ کیسے اس بچے کو اتنا طاقتور انجیکشن لگا سکتی ہیں؟ وہ اس کی شدت برداشت نہیں کر سکتا کیا یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی۔" شاہ نے دانت پیسے تھے
" ڈاکٹر اسکی حالت بیت خراب تھی اس لئے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ۔۔۔۔۔" نور صفائی دے رہی تھی جب وہ بولا۔
"بس کریں ڈاکٹر نور آپ کو پتہ ہے بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی وہ انجیکشن لگاتے ہوئے گھبراتا ہے کیونکہ وہ بہت کم مریض برداشت کر پاتے اور آپ نجانے کس مٹی کی بنی ہیں پتہ ہے اس بچے کی حالت کتنی خراب ہو گئی تھی اگر میں وقت پر نہ آتا تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔" شاہ نے اسے اچھا خاصہ ڈپٹا تھا۔
" معزرت چاہتی ہوں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔" نور نے شرمندگی سے سر جھکایا ہوا تھا۔
"آپ ہمیشہ یہی کہہ کر غلطی کرتی ہیں لیکن اب اگر ایسا ہوا تو میں آپ کو ہسپتال سے نکال دونگا۔" شاہ نے کہا جس پر نور نے اسے سر اٹھا کر دیکھا۔
نور کی آنکھیں شاہ کو پریشان کرنے لگیں تھیں مگر وہ مریضوں کے بارے میں کوئی کوتاہی برداشت کرنے کا حامی نہیں تھا۔ اس لئے غصے سے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا جبکہ وہ اسکی پشت ہو گھور کر رہ گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
"تم اسکا علاج کیوں نہیں کر دیتی۔" اس شخص نے اسے کہا۔
"دیکھو میں پشاور نہیں جانا چاہتی جہاں میرا باپ نہیں رہا وہاں میں کیوں جاؤں۔" نور نے کہا۔
"میں ساری عمر کیلئے جانے کو تو نہیں کہہ رہا نا تمہیں۔" اس شخص نے تپ کر کہا۔
"تمہارا کوئی بھروسہ بھی نہیں۔" نور نے اسے لتاڑا تھا۔
"اب تم ذاتی حملہ کر رہی ہو۔" وہ مسکرایا تھا۔
"پتہ نہیں کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے تم برا مت ماننا۔" نور نے مسکرا کر کہا۔
"تمہاری باتوں کا میں برا نہیں مانتا۔" فون کی دوسری طرف سے جواب آیا تھا جس پر نور کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی لیکن وہ مسکراہٹ تب سمٹی جب اس نے کہا تھا۔
"مسکراتی رہا کرو اچھی لگتی ہو۔"
نور نے آگے پیچھے دیکھا جب اسنے ہنس کر کہا "کیوں گردن تھکا رہی ہو میں اپنے گھر پر ہوں۔"
"تم ہمیشہ مجھے حیران کر دیتے ہو۔" نور نے حیرت سے کہا۔
" کیونکہ مجھ سے بہتر شاید تم بھی خود کو نہیں جانتی ہوگی۔" اسنے کہا اور فون بند کر دیا جبکہ نور اس کے انداز پر ایک بار پھر حیران تھی۔ وہ اپنی مرضی سے فون کرتا بات کرتا اور جب دل کرتا تھا فون کاٹ دیتا تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - -
داؤد مشوانی کو حیرت ہوئی تھی کہ مہمل خان نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔
"مہمل میں کہہ رہا ہوں بیٹھ جاؤ یہاں۔" داؤد کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہیں تھیں۔
"تم کیوں میری زندگی خراب کرنا چاہتے ہو اس شخص کے ساتھ۔" مہمل نے کہا۔
"یہ سب باتیں نکاح کے بعد کر لینا۔" داؤد کا رخ کھڑکی کی طرف تھا۔
"مجھے ابھی بتاؤ۔" مہمل نے پوچھا۔
"تمہاری زندگی بچانا چاہتا ہوں اور تم جانتی ہو میں تمہیں خطروں میں برداشت نہیں کر سکتا۔" اسنے خود پر ضبط کرتے ہوئے کہا۔
"تم شاید بھول رہے ہو سب سے زیادہ خطرہ مجھے اسی سے ہے جس سے تم میرا نکاح کرنا چاہتے۔" مہمل نے طنز کیا تھا۔
"تمہیں میری محبت پہ بھروسہ نہیں کیا؟" اب کی بار داؤد پلٹا تھا۔
"یہ کیسی محبت ہے تمہاری کہ تم اپنی محبت ہی کسی کے حوالے کرنا چاہتے ہو؟" مہمل نے کڑے تیوروں سے کہا۔ لیکن پھر خود ہی بولی "تمہیں محبت نہیں بچپن کی دوستی عزیز ہے۔"
"یقین کرو شاہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔میں نے اسے فون کر دیا ہے وہ آ رہا ہے آج ہی نکاح ہوگا۔" داؤد نے بتایا
"میں بتا رہی ہوں میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔" "مشوانی جا رہی ہوں میں اور اب مجھے روکنا چاہا تو میں خود کو ختم کر لوں گی۔"
مہمل نے فوراً میز پر پڑے چاقو کو اپنی کلائی پر رکھتے ہوئے کہا۔
"مہمل یہ کیا بدتمیزی ہے۔" داؤد جھنجھلایا تھا۔
"دور رہو مجھ سے! " مہمل نے کہا اور جانے لگی تو وہ بولا
"سیدھی گھر جانا کسی آفس سے تمہیں وظیفہ نہیں ملنے والا کیونکہ شاہ نے سبکو منع کروایا ہے میرے ذریعے۔"
"تم پھر میرا بھروسہ توڑ چکے ہو۔" مہمل نے آہستگی سے کہا۔
"تم نے کبھی بھروسہ کیا ہی نہیں مجھ پر، لیکن جاؤ تم تمہاری فیس میں نے جمع کروا دی ہے۔"
وہ یہ کہہ کر رخ موڑ گیا تھا جبکہ مہمل باہر نکل گئی تھی۔
داؤد مشوانی دوستی اور محبت کے درمیان میں پس رہا تھا۔
اس کے لئے دوست زندگی تھا
تو محبت زندگی کی وجہ!!!
وہ کسی ایک کا ساتھ نہیں دے پا رہا تھا وہ دو کشتیوں کا مسافر تھا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
شاہ اسکے آفس میں داخل ہوا تھا۔
"کہاں ہے مہمل تم نے کہا تھا آج نکاح ہونا ہے؟" شاہ نے پوچھا۔
"کیا تم نکاح خواں اور گواہان کو لے آئے ہو؟ " داؤد نے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔
شاہ اسکو غور سے دیکھتا اٹھا اور اسکے سامنے کتنی کھڑے ہوتے ہوئے بولا
"نہیں کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ تو اسکے سامنے ٹک نہیں سکتا اور ویسے بھی میں تیری محبت پہ قبضہ کر کے دوستی کو دھوکہ نہیں دینا چاہتا۔"
" شاہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں؟" داؤد کے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے تھے۔
"کیوں خود کو تکلیف دیتے ہو یقین رکھو جب تک وہ تمہارے دل میں ہے تب تک میں اسے نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ لیکن اسکا منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہونے دونگا۔" شاہ نے اسے کہا اور مشوانی اسکے گلے لگ گیا تھا۔
"بس کر گدھے کیوں خود کو تکلیف دیتا ہے الٹے کام نہ کیا کر۔" شاہ نے ہنستے ہوئے کہا لیکن اندر سے وہ پریشان تھا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -