پنجرے
پنجروں کا عجائب خانہ اس شہر کی قابل دید جگہوں میں سے تھا۔ وسیع میدان میں ایک پہاڑی پر بنی ہوئی اس کی مخروطی چھت والی عمارت دور ہی سے نظر آنے لگتی تھی۔
موٹریں تماشائیوں کو ایک لہراتی ہوئی سڑک سے، جس کے دونوں طرف شہتوت کے درخت لگے ہوئے تھے، عمارت کے سامنے والے میدان میں اتارتی تھیں۔ اگر کوئی پہاڑی پر پیدل جانا چاہتا تو اس کے لیے ایک تنگ راستہ تھا جس پر سو سے زیادہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ پیدل جانے والا دو تین بار بیچ بیچ میں بنے ہوئے چبوتروں پر بیٹھ کر سستانے کے بعد بھی آگے بڑھ سکتا تھا۔
اوپر سے نیچے تک پوری پہاڑی تھالوں میں ترتیب کے ساتھ لگائی ہوئی انگور کی بیلوں اور سماق کی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ایسے بنجر میدان میں جہاں خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہ اگتا تھا، اس ہری بھری پہاڑی کا منظر بہت بھلا معلوم ہوتا تھا اور ہر شخص کا جی چاہتا تھا کہ ان سیڑھیوں سے اوپر چڑھے اور اس سبز پہاڑی پر سے میدان اور اطراف کے نشیب و فراز کا سماں دیکھے۔
باہر سے عجائب خانے کی شکل ایک چوڑے ستون کی سی تھی جس کی چھت گنبد نما تھی۔ اس کی دیوار بندی زمین سے اٹھ کر گنبد تک پہنچتی ہوئی لوہے کی لمبی لمبی سلاخوں سے کی گئی تھی۔ گنبد کے سرے پر ایک حلقہ تھا اور اس میں لگا ہوا ایک بڑا سا آنکڑا اوپر فضا میں اٹھا چلا گیا تھا۔
عمارت کا فرش دور دور پر بنے ہوئے پایوں پر قائم کیا گیا تھا اور اس طرح دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت بڑا پنجرہ آسمان سے لٹکا ہوا ہے۔
اگر کوئی پنجروں کے عجائب خانے کی سیر کرنا چاہے تو اس کو عمارت کے سامنے کے میدان سے شروع ہونے والی کچھ اور سیڑھیاں چڑھ کر اس بڑے پنجرے کے دروازے تک جانا ہو گا۔ وہاں پنجرے ہی کی شکل کے ایک حجرے میں عجائب خانے کے تنہا محافظ سے معلوماتی کتابچہ لے کر وہ عمارت کے اندر داخل ہو گا۔
عمارت کے اندر تین منزلیں ہیں اور اس کے مرکز میں بنا ہوا ایک پیچ دار زینہ ان تینوں منزلوں کو آپس میں ملاتا ہے۔
اور یہ عمارت پنجروں سے بھری پڑی ہے۔ چھوٹے اور بڑے پنجرے، لکڑی کے پنجرے، لوہے کے تار کے بنے ہوئے پنجرے، سونے کے اور چاندی کے پنجرے۔ اور یہ پنجرے طرح طرح کی شکلوں کے ہیں۔ ان میں سے بعض، جو دور دست سرزمینوں کے نیم وحشی قبیلوں اور پہناور سمندروں کے جزیروں سے حاصل کیے گئے ہیں، ایسی ایسی وضعوں کے ہیں کہ تماشائی انھیں اچھی طرح دیکھنے کے لیے دیر دیر تک ایک ہی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے۔ ہر پنجرے کے پاس ہی یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اسے کہاں بنایا گیا، کب خریدا گیا اور اس میں کس قسم کا جانور یا پرندہ رکھا جاتا تھا۔ ان پنجروں میں کوئی جانور نہیں ہے۔ سب خالی ہیں اور ان میں کھانے پینے کے برتن جوں کے توں رکھے ہوئے ہیں۔ سارے پنجروں میں جانوروں کے بیٹھنے اور سونے کے اڈے، پٹریاں، کڑے اور آشیانے بھی موجود ہیں۔
عجائب خانے کے اندر کی فضا بھی ایسی ہے کہ ذرا غور کرنے پر تماشائی خود کو اچانک ایک بڑے سے پنجرے میں بند محسوس کرتا ہے اور اس پر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔
سب سے پہلا پنجرہ، جس کا نمبر ایک ہے، چھوٹا سا اور لکڑی کا بنا ہوا ہے جس میں پانی پینے کی کٹوری اور دانے کا برتن رکھا ہوا ہے۔ معلوماتی کتابچہ دیکھنے پر تماشائی کو اس کی صراحت ملتی ہے۔
میں نے پہلے قفس کو ایک لڑکے کے پاس دیکھا جس نے اس میں ایک گوریا کا بچہ بند کر رکھا تھا۔ یہ ننھا پرندہ پنجرے کے اندر سکڑا ہوا اونگھ رہا تھا۔
میں نے یہ پنجرہ پرندے سمیت لڑکے سے خرید لیا۔ پرندے کا پوٹا سوج گیا تھا اور وہ بالکل نڈھال ہو رہا تھا۔ میں نے اسے رہا کر دیا۔ وہ جھجکتا ہوا پنجرے سے باہر نکلا اور اپنے کم زور پروں سے بہ مشکل اڑ کر ایک دیوار پر بیٹھ گیا۔ پھر وہاں سے بھی اڑا اور ایک درخت کی ٹہنی پر جا بیٹھا۔ میں خالی پنجرہ اپنے ساتھ لے آیا اور کئی دن تک اپنے کمرے میں رکھ کر اسے دیکھتا رہا۔
میں دیکھتا تھا کہ بہت سے لوگ طرح طرح کی چیزیں جمع کرتے ہیں اور اپنے اس شغل میں انھیں بڑا انہماک رہتا ہے۔ لوگ ٹکٹ جمع کرتے ہیں، ماچس کی ڈبیاں، قفل، پرانے پیالے اور قابیں ادھر ادھر سے تلاش کر کے اکٹھا کرتے ہیں، میں نے بھی ارادہ کر لیا کہ میں پنجرے جمع کروں گا۔ یہ خیال مجھے پسند آیا۔ مجھے اپنے باپ کے ترکے میں بڑی جائداد ملی تھی۔ میرے بیوی بچے بھی نہیں تھے۔ میرے سے تنہا آدمی کے لیے یہ بڑا اچھا مشغلہ تھا۔ لہٰذا میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے بازاروں اور محلوں میں گھومنا شروع کیا اور پنجرہ نمبر دو خریدا۔ اس پنجرے میں ایک طرقہ تھا۔ گوریا سے کچھ بڑا مٹیالے رنگ کا یہ پرندہ پنجرے کے فرش پر مستقل ادھر سے ادھر چکر کاٹا کرتا ہے اور ہمیشہ باہر کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔
جس دن میں نے اسے دیکھا وہ چہچہا رہا تھا اور سیٹیاں بجا رہا تھا۔ وہ اپنے ہم جنسوں کو بلا رہا تھا، بیابانوں کا خواہاں تھا، کھلی فضا کا طالب تھا جس میں پر کھول کر اڑ سکے۔ آزادی کے لیے اس کی یہ کوشش اور فریاد کا انداز دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ جیسے بھی بن سکا میں نے اس کے مالک کو، جو ایک دکان دار تھا، راضی کر کے اسے خرید لیا اور گھر لے آیا۔ یہ پرندہ دن بھر میرے گھر میں سیٹیاں بجاتا اور زور زور سے چہچہاتا رہا۔ پنجرے کے اندر ایک آئینہ لگا ہوا تھا۔ پرندہ کبھی کبھی اس کے سامنے آ کر ٹھہر جاتا اور یہ سمجھ کر کہ سامنے ایک اور طرقہ ہے، اپنے حلقوم کو پھلا کر چہچہانے لگتا۔ اسی دن سہ پہر کے قریب میں نے اس کا پنجرہ اٹھایا اور شہر کے باہر آ گیا۔ ترکاریوں کے ایک کھیت میں جا کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور پرندے کو آزاد کر دیا۔ ایک شخص جو وہیں پر موجود تھا، کہتا رہا کہ اس پرندے کو شکرا جھپٹ لے جائے گا مگر میں اس کی بات پر کان دھرے بغیر دیکھ رہا تھا کہ پرندہ اڑا اور اڑتے اڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
گھر لوٹ کر میں بہت خوش تھا کہ اب میرے پاس ایک اور پنجرہ ہو گیا۔ میں نے اسے جھاڑ پونچھ کر ایک کھونٹی سے لٹکا دیا۔ یہ مضبوط پنجرہ تھا جس کے کڑے تانبے کے تھے، غلاف سرخ کپڑے کا، پانی کی کٹوری پھول دار چینی کی، دانے کی پیالی پر منبت کاری، اور ایک چھوٹا سا آئینہ۔
پھر دو تین دن ایسے گذرے کہ میرے دل میں جو خیال پیدا ہوا تھا میں اس کو دور نہ کر سکا۔ میں نے خود سے کہا:
’’اے مرد! ہر شخص کسی نہ کسی راستے پر لگا ہوا ہے۔ یہ تیرا راستہ ہے : پرندوں کو ان کے پنجروں سمیت خریدنا، پرندوں کو آزاد کرنا اور پنجروں کو جمع کرنا۔‘‘
کبھی کبھی میں یہ سوچ کر خوش ہوتا تھا کہ ایک دن میں پنجروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہو جاؤں گا۔ میں چاہتا تھا کہ ایک دن ایسا آئے جب دنیا میں کوئی پنجرہ باقی نہ رہ جائے یا کم از کم وہ سرزمین جہاں میں رہتا ہوں پنجروں سے خالی ہو جائے۔
اسی فکر اور اسی آرزو میں آخر میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں نے دو لڑکوں کو ملازم رکھ کر اپنے ساتھ لیا۔ میں جہاں بھی کسی پرندے کو پنجرے میں دیکھتا اسے خرید لیتا۔ بہت سے لوگ اپنے پنجرے بیچنے پر تیار نہ ہوتے۔ کہتے کہ یہ تو ہمارا مشغلہ ہے اور ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ میں جواب میں نرمی کے ساتھ ان سے بحث کرتا اور بہرطور آخرکار مجھی کو کامیابی ہوتی۔ ان سب کو پیسہ ہر چیز سے عزیز تھا۔
اس دن میں نے گیارہ پنجرے خریدے۔ ان پنجروں میں چار سہرے، دو گوریاں، ایک طرقہ، ایک طوطا، دو قناریاں اور ایک بلبل تھی۔ دونوں ملازم لڑکوں کی مدد سے میں ان پنجروں کو شہر کے باہر ایک باغ میں لے گیا اور ان سب لوگوں کے سامنے جو ہمارے ساتھ ہو لیے تھے، میں نے پرندوں کو چھوڑ دیا۔ کئی لوگوں نے کہا کہ قناریاں بھوکی مر جائیں گی، گوریوں کو شکرا کھا جائے گا، طوطا اس علاقے میں زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن میں ان کی باتوں پر دھیان دیے بغیر پرندوں کو آزاد کر کے خالی پنجرے گھر لے آیا۔
میرے اپنے شہر میں بہت سے لوگ کرک پالتے تھے۔ یہ پرندہ درخت پر نہیں بیٹھتا بلکہ میدانوں اور کھیتوں میں رہتا ہے۔ اس کی رنگت خاکی اور جسامت کبوتر سے کم ہوتی ہے، جنگلی جھاڑیوں اور گیہوں کے کھیتوں میں انڈے دیتا اور بچے پالتا ہے۔ اس کا شکار کرنے والے جس کھیت میں اس کی آواز سنتے ہیں اس کے قریب ہی جال بچھا دیتے ہیں۔ پھر اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان کی مدد سے ایسی آواز پیدا کرتے ہیں جو اس کی مادہ کی آواز سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ بے چارہ پرندہ آواز کی طرف بڑھتا ہے اور ناگہاں جال میں پھنس جاتا ہے۔ تب اس کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر لیتے ہیں۔ یہ اسیر پرندہ دن رات پنجرے کے در و دیوار پر ٹکریں مارتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر اور پروں سے خون بہنے لگتا ہے، اور لوگ اس کو تلف ہونے سے بچانے کے لیے پنجرے کی دیواریں سوت کی جالی سے بناتے ہیں۔ گرمی کے دنوں میں سویرے تڑکے جب دھندلکا چھایا ہوتا ہے اور صبح کی نرم ہوا چل رہی ہوتی ہے، کرک بولتا ہے۔ اس کی آواز میں تمنا، یاس اور التجا ہوتی ہے۔ میں نے کرک کا سا آزادی کا جویا کوئی پرندہ نہیں دیکھا۔ یہ کبھی پنجرے سے مانوس نہیں ہوتا، ہمیشہ باہر کی سمت دیکھتا رہتا ہے اور ہمیشہ پنجرے کی جالیوں سے سر ٹکراتا رہتا ہے۔
میں نے فیصلہ کر لیا کہ سب کرکوں کو آزاد کر کے رہوں گا۔ اپنی املاک سے میری یافت بہت تھی اور اس کی بدولت اپنے فیصلے پر عمل کرنا میرے لیے بہت آسان ہو گیا، اتنا کہ کچھ عرصے کے اندر اس شہر میں ایک بھی ایسا پنجرہ نظر نہیں آتا تھا جس میں کوئی پرندہ قید ہو۔ اب کسی کو پنجرے کے اندر سے بلبل کی آواز، قناری اور طرقے کی چہچہاہٹ، طوطے کی بولی سنائی نہیں دیتی تھی۔ اب صبح کی ٹھنڈی ہوا میں گھروں کے اندر سے آتی ہوئی کرک کی فریاد کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ ہم دیکھتے تھے کہ قمریاں چھتوں پر بیٹھی ہوئی ہیں اور طوطے شہر کے باغوں میں اونچے درختوں پر سے ایک دوسرے کو آوازیں دے رہے ہیں۔
جب میں اپنے گھر میں خالی پنجروں کو دیکھنا شروع کرتا تو مجھ پر ایک کیف و نشاط کا عالم طاری ہو جاتا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ دنیا میں اکیلا میرا ہی شہر نہیں ہے۔ اور جب تک میں زندہ ہوں اور جب تک میری عمر ختم نہیں ہوتی، میرا کام بھی باقی ہے۔ مجھے دورافتادہ قریوں اور شہروں، زخار سمندروں کے دور دست جزیروں، تپتی ہوئی زمینوں، سر بہ فلک برف آلود پہاڑوں سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پنجرے لانا ہیں۔ ذخیرے کو مکمل ہونا چاہیے، ذخیرے میں ہر نمونہ موجود ہونا چاہیے۔ میرا ذخیرہ تو محض مقامی تھا اور اس کی میری نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔
تو میں نے سفر کا سامان کیا اور دوسرے ملکوں کی سیاحت کے لیے روانہ ہوا۔ جس طرح شہر بہ شہر لوگوں کی زبان، لہجے، شکل صورت، رسم و رواج میں تبدیلی ہوتی جاتی ہے اسی طرح الگ الگ شہروں کے پنجروں کی ساخت اور پرندوں کی قسموں میں بھی فرق آ جاتا ہے۔ جس چیز میں فرق نہیں آتا وہ انسان کا یہ شوق ہے کہ پنجرے بنائے اور حیوانوں کو اسیر کرے۔ ہر جگہ طرح طرح کی شکلوں والے پنجروں کی کثرت تھی اور ان سب پنجروں میں رنگ رنگ کے پرندے، بھانت بھانت کے جانور نظر آتے تھے کہ یا تو ایک کونے میں سمٹے ہوئے پڑے ہیں یا چیخ رہے ہیں۔
ایک شہر میں مجھے لومڑی کا ایک لاغر اور کم زور بچہ پنجرے میں بند نظر آیا۔ اس کے بال جھڑ رہے تھے اور اس کی سوجی ہوئی سرخ کھال نیچے سے جھلک رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ میں نے اسے پنجرے سمیت خرید لیا۔ اس کا فروخت کر لینا اس کے مالک کے لیے ایسی امید کے خلاف بات تھی کہ وہ حیران تھا، اور خوش تھا۔ میں نے پنجرہ صحرا میں لے جا کر لومڑی کے بچے کو ٹیلوں کے درمیان چھوڑ دیا۔ اس کا پنجرہ بہت بھاری، غلیظ اور متعفن تھا۔ اس کا ساتھ لانا دشوار اور بے کار تھا، اس لیے میں نے اسے وہیں توڑ کر جلا دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ سارے پنجروں کو ساتھ لانا مجھ سے ممکن بھی نہ تھا۔ لہٰذا میں ہر جگہ کے صرف دو ایک خاص پنجرے چھانٹ کر رکھ لیتا اور بقیہ کو ضائع کر دیتا۔ میں ایک مشہور آدمی ہو چکا تھا، وہ آدمی جو پرندوں کو آزاد کرتا ہے، پنجروں کو توڑ ڈالتا ہے یا ساتھ لے جاتا ہے۔ میری خوشی کا یہی واحد ذریعہ تھا کہ جہاں سے میں گذرتا تھا، میرے پیچھے کوئی پنجرہ اور اس میں فریاد کرتا ہوا کوئی جانور، کوئی پرندہ باقی نہیں رہتا تھا۔
تماشائی! تو اس عجائب خانے میں پنجرے دیکھ رہا ہے۔ ان کی تعداد ہزاروں سے اوپر ہے۔ میں نے انھیں دور دور کے شہر و دیار سے لا کر جمع کیا ہے۔ اپنے امکان بھر میں ہر جگہ پہنچا اور زیادہ سے زیادہ پنجرے حاصل کرنے کی دھن میں ہر سرزمین کی سیر کی۔ تو اس عجائب گھر میں ایک پنجرے کے سامنے پہنچے گا جو بہت شان دار اور خوش نما ہے، بہترین لکڑی سے بنایا گیا ہے، ایک چابک دست استاد کی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کو سیپ کے ٹکڑوں، چاندی کی کیلوں اور سونے کے چھلوں سے منقش کیا گیا ہے۔ اس کے حلقوں اور خانوں پر کندہ کاری کی گئی ہے۔ اسے پھول پتیوں اور دل کش وضعوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ ایک دن تھا جب اس پنجرے میں ایک مینا بند تھی۔ میں نے اسے یہاں سے بہت دور ایک جگہ دیکھا تھا۔ حسین مینا تھی، سیاہ رنگ، چونچ اور پنجے زرد اور سڈول۔ وہ لگاتار پنجرے میں ادھر سے ادھر پھر رہی تھی۔ اڈے پر اس کو چین نہ تھا، بار بار سیٹیاں سی بجاتی اور اس کی تیز آواز دور تک سنائی دیتی تھی۔ میں اسے بڑی منت سماجت کے بعد خرید پایا۔ اس کا مالک اتنے خوب صورت پرندے کو ہاتھ سے دینا نہیں چاہتا تھا، مگر آخر راضی ہو گیا۔ میں نے اس کے سامنے ہی پنجرے کا در کھول دیا۔ مینا پر پھڑپھڑا کر نکلی اور پاس کے ایک درخت پر جا بیٹھی۔ اس کے دوسرے دن وہیں مجھے ایک اور مینا نظر آئی، اتنی ہی بڑی اور اسی وضع قطع کی۔ میں نے اسے بھی خریدا اور آزاد کر دیا۔ تین دن میں تین دفعہ یہی واقعہ پیش آیا۔ چوتھے دن مجھے شبہ ہوا کہ شاید میں اسی ایک پرندے کو چوتھی مرتبہ خرید رہا ہوں۔ اس لیے اب کی بار میں نے پنجرے اور مینا کو ساتھ لیا اور اس شہر سے روانہ ہو گیا۔
راستے میں ایک جنگل کے پاس رک کر میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا، مینا آہستہ سے پنجرے کے اڈے پر سے اتری، کچھ دیر تک دروازے پر رکی رہی، اس کی نظر درختوں پر جمی ہوئی تھی، شاخوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ذرا سی ہچکچاہٹ کے بعد اچانک مینا نے پر کھول دیے اور جنگل میں غائب ہو گئی۔
غیر ملکوں اور اجنبی سرزمینوں کی سیاحت میں مجھے برسوں لگ گئے۔ بیس سال سے زیادہ عرصے تک میں ملکوں ملکوں شہروں شہروں سرگرداں رہا۔ پنجرے دیکھے، ان میں محبوس جانور اور پرندے دیکھے، پنجرے خرید لیے، جانوروں کو چھوڑ دیا، پرندوں کو اڑا دیا۔ خالی پنجرے جتنے لا سکا ساتھ لایا۔ باقی کو توڑ ڈالا، پانی میں ڈبو دیا، آگ میں جلا دیا۔
آخر برسوں کے بعد، جب میرے بال سفید ہو چکے تھے، امنگ، جوانی، زندگی کا ولولہ سب ختم ہو چکا تھا، ایک دن ہزارہا پنجروں کے ساتھ لدا پھندا میں اپنے شہر واپس پہنچا۔ میں بہت خوش تھا کہ دنیا میں پنجروں کا سب سے بڑا ذخیرہ میرے پاس ہے۔
لیکن واپس آنے کے پہلے ہی دن مجھے ہر دکان پر اور ہر مکان میں پنجرے نظر آئے۔ ان پنجروں میں رنگارنگ پرندے گردن ڈالے اڈوں پر بیٹھے تھے۔ پرندے پنجروں کے در و دیوار سے سر ٹکرا رہے تھے۔ کرک کی التجائیں، طوطے کی چیخیں، قناری کی فریادیں پہلے سے زیادہ تیز تھیں۔ پنجرے اور ان میں اسیر حیوان لوگوں کی دولت و ثروت کا نشان تھے۔ بہت ایسے تھے کہ انھیں کے ذریعے روزی کماتے تھے، بہت ایسے تھے کہ خوب صورت پنجروں، نایاب پرندوں، گھنے پروں والی مضبوط قناریوں، خوش آواز کرکوں اور پڑھائے ہوئے طوطوں کے مالک ہونے پر فخر کرتے تھے۔
پھر، اب میں کیا کرتا؟ نئے سرے سے سب کو خریدنا اور آزاد کرنا شروع کرتا؟ نہیں، وقت گذر چکا تھا۔ میری زندگی کے کتنے برس اسی دھن میں نکل گئے اور اس تمام کوشش اور دوا دوش کے بعد میں دیکھ رہا تھا کہ پنجروں کی تعداد پہلے سے بھی بڑھی ہوئی اور پرندوں کی فریاد پہلے سے بھی زیادہ دل خراش ہے۔ سکھائے ہوئے سہرے ایک شاہدانے کی خاطر مجبور ہیں کہ چونچ سے لفافے کھولیں اور ان میں سے لوگوں کی تقدیر کے نوشتے باہر نکالیں۔ میں نے دیکھا کہ کرکوں کے سر لہولہان ہیں، مینائیں پنجروں کی دیواروں پر ٹکریں مار رہی ہیں، قناریوں کے پر جھڑ رہے ہیں اور بلبلیں پنجروں کے گوشوں میں سر جھکائے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ طرقے آئینے کے سامنے کھڑے اپنے جوڑے کی آرزو میں چیخ رہے ہیں اور اونگھتی ہوئی گوریاں ہر روز پنجرے کے در پر بھکارنوں کی طرح اپنے راتب کی منتظر ہیں۔
تماشائی! تو جو اس شہر یا کسی اور شہر سے یہاں کی سیر کرنے آیا ہے، اس بڑے پنجرے میں ہزاروں پنجرے دیکھتا ہے اور اچانک سوچنے لگتا ہے کہ تو خود اس پنجرے کا قیدی ہے۔ تو ان خالی پنجروں کو دیکھتا ہے اور ان حیوانوں کا تصور کرتا ہے جو ان میں رہ کر سختیاں اٹھا چکے ہیں۔ تو دروازے کی طرف جاتا ہے۔ تیرے دل میں ایک خوف ہے۔ اگر دروازہ بند ہوا، اگر کٹہرے کی سلاخیں تنگ اور مضبوط ہوئیں تو تُو یہیں پھنس کر رہ جائے گا۔ چیخے گا، مدد کے لیے پکارے گا مگر کوئی سننے والا نہیں، کوئی فریاد کو پہنچنے والا نہیں۔ تو، تنہا اور مجبور، سلاخوں کے پیچھے سے، پنجرے کے اندر سے باہر کا عالم دیکھ رہا ہے۔ آسمان پر بادل دوڑ رہے ہیں، دریاؤں اور ندیوں میں پانی بہہ رہا ہے، ہوائیں اور آندھیاں پہاڑوں پر، دشت میں چل رہی ہیں، گونج رہی ہیں۔ چڑیاں آزادی کے ساتھ اڑ رہی ہیں، لوگ آ جا رہے ہیں اور تُو نامعلوم مدت کے لیے اس پنجرے میں اسیر ہے۔ تیرے چہرے پر پسینہ آ جاتا ہے، تیرے پیروں کی طاقت سلب ہو جاتی ہے اور تیرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ تو چاہتا ہے کہ سلاخوں کو گرفت میں لے کر آخری کوشش کرے، لیکن سلاخیں مضبوط ہیں اور تیرے بازو شل۔
تماشائی! ہراساں نہ ہو۔ اس پنجرے کا دروازہ ہرگز بند نہ ہو گا۔ تو جب چاہے بڑی آسانی کے ساتھ ان سلاخوں کے باہر جا سکتا ہے۔
تو اے تماشائی، تو بلا خطر پہلی اور دوسری منزلوں سے گذر کر اس پنجرے کی تیسری منزل پر چلا جا۔ یہاں بھی تجھے جگہ جگہ پنجرے نظر آئیں گے۔ لیکن اصلی پنجرہ، بڑا پنجرہ، چھت کے کڑے سے فانوس کی طرح لٹکا ہوا ہے۔ یہ پنجرہ فن کا شاہکار ہے اور بہترین کاریگروں نے کئی سال تک مسلسل اس پر محنت کی ہے۔ اس کے نقش و نگار دیکھ، اس کے بیل بوٹوں کے پیچ و خم دیکھ، کس کمال کے ساتھ لوہے میں پیوست کیے گئے ہیں ؛ سونے کے بنے ہوئے ان پرندوں کو دیکھ جو پنجرے کے باہر کی چھت اور سلاخوں پر بیٹھے ہیں۔
پھر پنجرے کے اندر دیکھ۔ تعجب نہ کر۔ جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے، ایک انسان کا پنجر ہے۔ میرے لیے ممکن نہ تھا کہ خود کو کسی پنجرے میں قید کروں اور پھر خود ہی اپنا تماشائی بنوں، اس لیے میں گیا اور سچ مچ کا انسانی پنجر لے آیا۔ میں نہیں جانتا یہ کس کا پنجر ہے۔
میں نے وصیت کر دی ہے کہ جب میں مر جاؤں تو میرے جسم کو جلا دیا جائے اور میری راکھ کسی برتن میں بھر کر اسی پنجرے میں رکھ دی جائے۔ اگر میری وصیت پر عمل کیا گیا ہو گا تو تو اسے دیکھے گا۔
اور تماشائی جب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتا ہے تو اس کو بہت بڑا اور شان دار نقش و نگار سے آراستہ پنجرہ اونچی چھت سے لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ پنجرہ کھڑکیوں سے آنے والی ہوا میں ہلتا رہتا ہے، اور جو انسانی پنجر اس میں بند ہے، اس کے ہاتھ پیروں اور کمر میں کمانیاں لگا کر اسے سلاخوں میں اس طرح باندھا گیا ہے کہ وہ پنجرے میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا رہتا ہے۔ اور تماشائی جب غور سے دیکھتا ہے تو اسے شیشے کا ایک سربند مرتبان بھی نظر آتا ہے جس میں کچھ راکھ اور جلی ہوئی ہڈیوں کے ٹکڑے بھرے ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.adbiduniya.com/2015/10/aaj-1-september-1989.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید