اوّل اس خالقِ حقیقی کی ثنا چاہیے جس نے ایک حرف کن سے صفحۂ دو عالم پر کیا کیا صورتیں دکھائیں، بعدہٗ گلہ اس خالقِ مجازی کا کیا چاہیے جس نے فسانۂ عجائب لکھ کر اس گناہ گار جانِ عالم کی ہزار در ہزار گتیں بنائیں۔ وہ کون، مرزا رجب علی بیگ سرور مغفور کہ بیت السلطنت لکھنؤ کے ایک مردِ تماش بین تھے لیکن بادشاہی کارخانے سے اصلا واقف نہیں تھے۔ یہ بھی اپنی شورہ بختی، نصیبے کی سختی تھی کہ اپنی خلقت اس مردِ تماش بین کے ہاتھوں ہونی تھی، اس حلیے سے ہم چشموں میں آبرو کھونی تھی۔
فسانۂ عجائب، کہ فی الواقع خزانۂ غرائب ہے، مرزا نے دوستوں میں چھیڑ تو دیا، لیکن جس شاہ زادے کو بزورِ طلاقتِ لسانی و فصاحتِ بیانی کتمِ عدم سے معرضِ وجود میں لائے، اس کے این و آں کو سمجھ نہ پائے۔ ناچار بہ حالتِ اضطرار ان مغفور نے فرض کر لیا کہ اگر خود بدولت شاہ زادۂ دل دار ہوتے تو کیا کرتے اور وادیِ عشق میں کیونکر پاؤں دھرتے۔ پس سب سے پہلے یہ مقدمہ دھیان میں رکھا چاہیے کہ جانِ عالم میں روحِ پُر فتوح مرزا سرور کی غالب ہے، شاہ زادے کا جو سچ پوچھو تو قالب ہی قالب ہے۔
پہلا ستم مرزا نے توتے کی خریداری میں ڈھایا۔ یہ فقرہ سنایا کہ جانِ عالم نے بہ نفسِ نفیس گزری بازار میں اس حیوانِ ناطق کا پنجرہ ہاتھ میں لے مالک سے اس کی قیمت پوچھی۔
ذرا انصاف کو کام فرمائیے گا، شاہ زادہ جانِ عالم، باپ جس کا شاہ فیروز بخت، ’’مالک تاج و تخت‘‘، ’’گردوں وقار، پر تمکین، با افتخار‘‘ جس کے ’’سکندر سے ہزار خادم، دارا سے لاکھ فرماں بردار‘‘ وہ گزری بازار میں چڑی ماروں سے مول تول کرتا پھرے !
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو
میں تو شرم سے کٹ گیا، بخدا جینے سے جی ہٹ گیا، اس درجہ یہ امر شاق ہوا، مگر وہ جو مثل ہے مردہ بدست زندہ، اسی کا مصداق ہوا۔
پھر مرزا نے یہ تماشا دکھایا کہ توتے کی زبان سے احوال شہرِ زرنگار اور شاہ زادی انجمن آرا کا سنایا اور مجھ کو اس کا نادیدہ عاشق بنایا۔ باللہ میں اتنا سادہ لوح نہ تھا کہ ایک توتے کی باتوں میں آ کر انجمن آرا کا جاں نثار، آوارۂ شہر و دیار ہوتا۔ مگر مرزا کو تو قصہ آگے بڑھانا تھا، اس واسطے یہ کھیل بھی دکھانا تھا۔ اس طائرِ سبز قبا کو یوں بھی سخنانِ مبالغہ آمیز سے شغف تھا اور اس وقت تو وہ ماہ طلعت کے علی الرغم انجمن آرا کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ یہ بھید میری سمجھ میں بھی آ رہا تھا۔ مگر اصل یہ ہے کہ معاملہ اپنا اور اس طائر کا واحد تھا، یعنی وہ قفس کی تنگی سے نکل کر لطف سیّاحت کا اٹھانا چاہتا تھا، میں بھی، کہ شادی کے جنجالوں میں گرفتار تھا، کچھ دن کے لیے تاہل کی زندگی سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا۔ نہ تو میں کسی شاہ زادی کی خاطر دربدر ہوا تھا نہ توتا از راہِ خیرخواہی میرا رہبر ہوا تھا۔ دلیل اس کی یہ کہ آغازِ سفر ہی میں وہ مجھ سے جدا ہو گیا؛ اچھا بھلا توتا تھا، عنقا ہو گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ اب داستانوں میں کسی ایک فرد کو ہیرو کہا جاتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فسانۂ عجائب کا ہیرو مجھ گناہ گار کو مقرر کیا ہے۔ اپنے تئیں ہیرو جان کر جو صدمے جانِ حزیں پر گذر گئے ان کا تو ذکر ہی کیا ہے، بڑا رنج اس کا ہے کہ اربابِ نقد نے ہیرو قرار دے کر مجھ کو انتقاد کی کسوٹی پر کسنا اور کبھی مجھ پر گرجنا، کبھی سرورِ مغفور پر برسنا شروع کر دیا ہے۔ بعضے بعضے بزرگواروں نے لکھا کہ جانِ عالم کا مثالی کردار ہے، بدیں سبب یہ کردار عیب دار ہے، کس واسطے کہ اربابِ نقد کی نظرِ کدورت اثر میں اگر کوئی کردار مبرّا از عیب ہے تو یہ بے عیبی اس کا عیب لاریب ہے۔ دو ایک بزرگوار میرے طرف دار بن کر اٹھے اور کہنے لگے کہ جان عالم کا کردار کہاں مثالی ہے، وہ تو جوہرِ عقل ہی سے خالی ہے۔ اور بارِ ثبوت بھی اٹھا لائے کہ اس نے بے سمجھے بوجھے آپ کو حوض میں گرایا اور اس نے تو نقشِ سلیمانی ہاتھ سے گنوایا اور وہ تو وزیر زادۂ نابکار کی باتوں میں آیا؛ حرم میں اس کی بے عقلی کی دھوم رہتی ہے، انجمن آرا اس کو ساری مصیبتوں کا ذمے دار، مہر نگار ’’احمق الذی شاہ زادہ‘‘ کہتی ہے۔ بلکہ وہ تو خود بھی اپنے آپ کو ’’حمق میں گرفتار‘‘ بتاتا اور ساری داستان میں از اول تا آخر غلطی پر غلطی کرتا جاتا ہے۔ مگر ان کلماتِ لا طائل سے جو اذیتیں دلِ صفا منزل کو ہوئیں، وہ اس صدمے کے مقابل ہیچ تھیں کہ اس حماقت مآبی کو مجھ حقیر بے تقصیر کی خوبی بتایا گیا ہے، اور اربابِ نقد کے نزدیک اسی خوبی کی وجہ سے جانِ عالم کو جیتا جاگتا پایا گیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
بر ایں عقل و دانش بباید گریست
جواب ان امور کا تفصیل طلب ہے، یہاں اتنی فرصت کب ہے۔ المختصر کہتا ہوں کہ میں ایک محبوب پری رو کی ترغیب سے حوضِ مصفّا میں کود پڑا، لوگ تو ان مقدموں میں آگ جہنم کی اپنے اوپر گوارا کرتے ہیں۔ میں نے نقشِ سلیمانی کو ہاتھ سے دیا تو اسی پری رو کی ناسازیِ مزاج سے گھبرا کر۔ وزیر زادے پر اگر میں نے اعتبار کیا، تبدیلیِ قالب کا راز اسے بتا دیا، تو کیا آپ اپنے کسی جگری دوست پر اعتبار، اس کو اپنا راز دار نہیں کرتے ؟ اگر انجمن آرا اور مہر نگار مجھ کو کم عقل جانتی ہیں تو کون سی انوکھی بات ہے، خاوند کو بے عقل سمجھنا تو منجملۂ صفاتِ مستورات ہے۔ اور ہاں جو میں نے اپنے تئیں حمق میں گرفتار کہا، وہ از راہِ انکسار کہا۔ اعترافِ نادانی نہ کرتا تو کیا ہمہ دانی کا دم بھرتا؟
خیال فرمائیے گا کہ جب میں وزیر زادے کے فریب میں آ کر روح اپنی بندر کے قالب میں لے گیا اور وہ نمک حرام میرے قالب پر متصرف ہوا، خود جانِ عالم بن بیٹھا اور میرے درپے ہو کر تمام بندروں کو پکڑوانے اور بلا فرق سب کے سر پھڑوانے لگا، تو میں خوفِ جاں سے درختوں میں چھپتا پھرتا تھا۔ بارہا یہ تدبیر خیال میں آئی کہ بندر کا قالب چھوڑ روح اپنی کسی اور جانور کے قالب میں لے جائیے اور وزیر زادۂ بد نہاد کے جوروں سے جان بچائیے، مگر میرے جملہ امور مرزا سرور کے حوالے تھے، وہ بھلا کہاں ماننے والے تھے۔ انھیں تو میری جان ملکہ مہر نگار کے ہاتھوں بچانی تھی، مجھ سے زیادہ اس کی فراست دکھانی تھی۔ پس جب اس نے مجھے توتا دکھا کر اس کی گردن مروڑی، تب میں نے بندر کے جسم کی جان چھوڑی، توتے کے قالب میں سمایا، خواہی نخواہی ملکہ کا بارِ احسان اٹھایا۔
اب اصل قصہ مجھ سے سنیے اور ناسازیِ بختِ ناساز و کج بازیِ فلکِ حقّہ باز پر سر دھنیے۔ ہوا یوں کہ مرزا سرور داستان سنانے چلے تھے میری اور انجمن آرا کی، جب دیکھا کہ یہ داستان جلد ختم ہو جائے گی اور گروہِ سامعین میں شرفِ قبول نہ پائے گی، بیچ میں ملکہ مہر نگار کو کھینچ لائے۔ وہ عورت بلا کی دماغ دار، تیز طرار، آئے تو کہاں جائے۔ میری اس کی پہلی ملاقات ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ پری زادوں کے جھرمٹ میں ’’ہوادار پر ایک آفتابِ محشر سوار، تاجِ مرصّع سر پر، لباسِ شاہانہ پُرتکلف در بر، نیمچۂ سلیمانی ہاتھ میں، سیماب وَشی بات بات میں، بندوقِ چقماقی طائرِ خیال گرانے والی برابر رکھے، شکار کھیلتی، سیر کرتی چلی آتی ہے۔‘‘ اس پر نظر پڑتے ہی منھ سے تو نکلا:
کیا تنِ نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے
کیا بدن کا رنگ ہے تہہ جس کی پیراہن پہ ہے
مگر جی میں سوچا، مرزا نے غضب کر دیا۔ کس برق جہندہ کو مہمان کیا، میری رسوائی جگ ہنسائی کا سامان کیا۔ کیا جانِ عالم بے چارہ اور کیا شاہ زادی انجمن آرا، یہ دم کے دم میں سب پر غالب آ جائے گی، دیکھتے دیکھتے پورے فسانے پر چھا جائے گی، پھر کسی سے کچھ بن نہیں آئے گی۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اور خود مرزا بھی اس کو داستان میں لا کر ایسے مدہوش ہوئے کہ دوسرے افرادِ قصہ یکبارگی فراموش ہوئے۔ واللہ اعلم مجھ روسیاہ میں اس ملکۂ ذی جاہ نے کیا بات پائی کہ صورت دیکھتے ہی متاعِ صبر و ہوش لٹائی۔ روبرو جس آن ہوئی، عاشق بہ ہزار جان ہوئی۔ عشق اور عقل میں بیر مشہور ہے مگر اسے دیکھا کہ سراپا عشق اور مجسم شعور ہے۔ میں نہ اس کے مقابلے پر آ سکتا تھا نہ اس زبردست سے پیش پا سکتا تھا۔ وہ ملکۂ تجربہ رسیدہ، جہاں دیدہ، انصرامِ امور میں مرد انکار سے زیادہ، میں نازوں کا پلا نا آموز شاہ زادہ۔ جب دیکھا کہ وہ ہر مہم کو سر کر سکتی ہے اور مجھ سے بہتر کر سکتی ہے، اور مرزا سرور بھی اسی کی جانب نگراں، مجھ سے روگرداں ہیں، سب کچھ اسی پر چھوڑ دیا، یہ شعر شاعر کا اپنے حسب حال کیا:
ما اختیارِ خویش بہ دستِ تو دادہ ایم
دنیا و دیں بہ نرگس مستِ تو دادہ ایم
آخر میں مرزا سرور کی ایک اور ستم ظریفی کا مذکور ضرور ہے۔ وہ کیا کہ فسانۂ عجائب کے ختم پر یہ جملہ مسطور ہے : ’’جس طرح جانِ عالم کے مطلب ملے اسی طرح کل عالم کی مراد اور تمنائے دلی اللہ دے۔‘‘ سبحان اللہ، ہم ایک شادی کے بندھن سے گھبرا کے، جان چھڑا کے وطن سے نکلے، خراب و خوار ہوئے، مرزا کے لطفِ داستان کی خاطر دو اور شادیوں سے دوچار ہوئے۔ اب ہر ثانیہ شش و پنج میں گرفتار ہیں، حواسِ خمسہ یکسر بے کار ہیں۔ تین بی بیوں کے درمیان عمر بسر ہوتی ہے، اور اربابِ نقد میں سے ایک نہیں پوچھتا کہ کیونکر ہوتی ہے۔
٭٭٭