دور دور تک پھیلے میدانوں میں بکھری ہوئی ان کوہ پیکر سنگی عمارتوں کے بننے میں صدیاں لگ گئی تھیں اور ان کو کھنڈر ہوئے بھی صدیاں گذر گئی تھیں۔ خیال پرست سیاح ان کھنڈروں کے چوڑے دروں، اونچے زینوں اور بڑے بڑے طاقوں کو حیرت سے دیکھتے اور ان زمانوں کا تصور کرتے تھے جب گذشتہ بادشاہوں کے یہ آثار صحیح سلامت اور وہ بادشاہ بھی زندہ رہے ہوں گے۔ ان عمارتوں میں لگے ہوئے پتھر کی سلوں پر کندہ تصویروں کو زیادہ غور اور دل چسپی سے دیکھا جاتا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ تصویریں اپنے زمانے کی تاریخ بیان کر رہی ہیں۔ ان میں تاج پوشیوں، جنگوں، ہلاکتوں، فاتح بادشاہوں کے دربار میں شکست خوردہ بادشاہوں کی حاضری اور دوسرے موقعوں کے منظر دکھائے گئے تھے جن سے ان پرانے زمانوں کی بہت سی باتوں کا کچھ اندازہ ہوتا تھا اور ان علاقوں کی پرانی تاریخ اور تمدن کے بارے میں کچھ غیریقینی سی معلومات حاصل ہوتی تھیں۔
انھیں کھنڈروں کے پتھروں پر بہت سے کتبے بھی کھدے ہوئے تھے اور سیاح ان کو بھی دل چسپی سے اور دیر دیر تک دیکھتے تھے، لیکن ان تحریروں کو کوئی پڑھ نہیں سکتا تھا۔ دیکھنے میں صرف ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے قطاروں کی صورت میں مختلف زاویوں سے تیروں کے پیکان بنا دیے ہیں، لیکن اس میں کسی کو کوئی شک نہیں تھا کہ پتھر کی سلوں پر پیکانوں کی یہ قطاریں در اصل لمبی لمبی عبارتیں ہیں جنھیں اگر پڑھ لیا جائے اور سمجھ بھی لیا جائے تو ان کی مدد سے ان تصویروں کو بھی اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے اور بہت سی ایسی باتیں بھی معلوم ہو سکتی ہیں جن کا تصویروں سے معلوم ہونا ممکن نہیں۔
ہمارے عالم ایک مدت سے ان تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے اور ناکام ہو رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ اسی زبان کی تحریریں ہیں جس کے کچھ نمونے ساسانِ پنجم نے فراہم کیے تھے، لیکن ان نمونوں کی مدد سے ان کتبوں کو پڑھنا ممکن نہ ہوا اس لیے کہ وہ نمونے پیکانی تحریر میں نہیں تھے، اور ساسانِ پنجم کو گذرے ہوئے زمانہ ہو گیا تھا، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کس زمانے میں تھا۔
آخر ایک مدت کی کاوشوں کے بعد جب مردہ زبانوں کو پڑھنے کا فن کافی ترقی کر گیا تو کھنڈروں کی انھیں تصویروں کی مدد سے اور کچھ دوسرے طریقوں سے ہمارے عالم پیکانوں کی شکل کی یہ تحریریں پڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور ان تحریروں کی مدد سے ان تصویروں کو بھی پوری طرح سمجھ لیا گیا۔ اس طرح گویا تحریروں نے تصویروں کا احسان اتار دیا۔
ایک ایک کر کے سارے کتبے پڑھ لیے گئے اور اس خبر کا عام طور پر خیرمقدم کیا گیا کہ ہماری زبانوں میں ایک نئی زبان کا اضافہ ہوا ہے جو ہزاروں سال پرانی ہے۔
لیکن اس زبان کا ساسان پنجم کے فراہم کیے ہوئے نمونوں کی زبان سے کوئی تعلق نہیں نکلا بلکہ ان دونوں زبانوں میں کوئی اتفاقی مشابہت بھی نہیں پائی گئی، اور یہ بات ہمارے عالموں کے گمان میں بھی نہیں تھی اس لیے کہ ان کی کئی پشتوں نے ان نمونوں کی زبان کا بڑی سنجیدگی سے مطالعہ کیا تھا اور اس کے بارے میں عالمانہ خیال ظاہر کیے تھے۔ اب انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ ساسانِ پنجم زبانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا فریب یا سب سے بڑا مذاق تھا، جس کا شکار ہونا ظاہر ہے انھیں پسند نہیں آ سکتا تھا، اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ ساسانِ پنجم اور اس کی زبان کو بھلا دیا جائے۔
ماننا پڑتا ہے کہ ساسانِ پنجم کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ ایک تو اس کے وجود ہی کا انکار کر دیا گیا، اور انکار کی دلیل یہ دی گئی کہ چار ابتدائی ساسانوں کے بغیر پانچویں ساسان کا وجود قائم نہیں ہو سکتا، اور تاریخ میں ایک ساسان کے سوا ساسانِ دوم، ساسانِ سوم اور ساسانِ چہارم کا سراغ نہیں ملتا، لہٰذا ساسانِ پنجم بھی نہیں تھا؛ اسی کے ساتھ اس کی پیش کی ہوئی زبان کو بھی باطل کر دیا گیا۔
لائق عالموں نے بڑی محنت سے ثابت کیا ہے کہ ساسانِ پنجم نے جس زبان کے اصلی اور قدیمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس زبان کا کبھی وجود نہ تھا، اور ساسانِ پنجم نے اس موہوم زبان کے جو الفاظ درج کر کے ان کے جو معنی لکھے ہیں وہ سب لفظ خود اس کے گھڑے ہوئے ہیں اور اس سے پہلے نہ کسی زبان سے ادا ہوئے تھے نہ کسی قلم نے انھیں لکھا تھا۔ اور اس زبان کی جو قواعد ساسان پنجم نے ظاہر کی ہے وہ بھی سراسر اس کے ذہن کی اختراع ہے، حقیقتاً کسی بھی زبان کے جملوں میں لفظوں کی ترتیب اس طرح نہیں تھی جس طرح ساسان پنجم کی اس مفروضہ قواعد میں ملتی ہے۔
عالموں نے یہ تمام باتیں ثابت کرنے میں حیرت خیز مطالعے اور ذہنی کاوش کا ثبوت دیتے ہوئے علم اور منطق دونوں سے کام لیا ہے اور اس سلسلے کی ہر نئی دریافت ان کے دعووں کو مزید مستحکم کرتی جاتی ہے۔ تاہم انھیں دریافتوں کی بنیاد پر یہ عالم اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ایک عرصے تک ساسانِ پنجم کو حقیقی اور اس کی زبان کو اصلی سمجھا جاتا رہا اور گذشتہ عالم اس زبان کے لفظوں کا فخریہ استعمال کرتے تھے، لیکن ان لفظوں کی مدد سے ایک مستقل اور قائم بالذات زبان بولنے اور لکھنے میں ان گذشتہ عالموں کو کامیابی نہیں ہو سکی اگرچہ ان میں سے کئی اس زبان سے واقفیت کے مدعی بتائے جاتے تھے۔
آج کا عالم بتاتا ہے کہ گذشتہ زمانے میں کچھ لفظ استعمال ہوتے تھے جن کا حقیقی وجود نہیں تھا، وہ اس طرح کہ یہ لفظ جن معنوں میں استعمال کیے جاتے تھے در اصل ان کے معنی وہ نہیں تھے، در اصل ان کے معنی کچھ بھی نہیں تھے، تاہم ان میں کا ہر لفظ ایک مخصوص معنی کے لیے استعمال ہوتا تھا، یعنی بولنے والا ایک لفظ بولتا تھا اور اس سے ایک معنی مراد لیتا تھا اور سننے والا اس کے وہی معنی سمجھتا تھا جو بولنے والا مراد لیتا تھا، لیکن حقیقتاً اس لفظ کے وہ معنی نہیں ہوتے تھے جو بولنے والا مراد لیتا اور سننے والا سمجھتا تھا، اس لیے کہ در اصل وہ کوئی لفظ نہیں ہوتا تھا اور چونکہ وہ کوئی لفظ نہیں ہوتا تھا اس لیے اس کے کوئی معنی بھی نہیں ہوتے تھے۔ اور یہ بے معنی لفظ جس زبان کے سمجھے جاتے تھے اس زبان کا بھی حقیقی وجود نہیں تھا، اگرچہ عالم اس امکان کا انکار نہیں کرتے کہ کسی زمانے میں کہیں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہو، تاہم در اصل یہ کوئی زبان تھی نہیں۔
عالموں کی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ کوئی ساسانِ پنجم تھا، نہ اس کی پیش کی ہوئی کوئی زبان تھی، نہ اس زبان کا کوئی لفظ تھا اور نہ اس لفظ کے کچھ معنی تھے۔
لیکن اسی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ ایک وقت میں کچھ معنی تھے جو بعض لفظوں سے ادا ہوتے تھے، اور یہ لفظ ایک زبان سے منسوب تھے، اور اس زبان کا تعارف ایک شخص نے کرایا تھا، اور وہ شخص خود کو ساسانِ پنجم بتاتا تھا۔
٭٭٭