مغربی معاشرے کی کچھ روایات ہیں، کچھ اقدار اور طور طریقے ہیں، کچھ معروف و منکر ہیں جو یقیناً ہم سے مختلف ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے اہل مغرب کی یہ اقدار و روایات خاموشی سے ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ویلنٹائن ڈے، ہیلوئن ڈے، مادر اور فادر ڈے وغیرہ جو کچھ خاص ایام ہی نہیں بلکہ اپنے پیچھے ایک پورا تہذیبی اور معاشرتی پس منظر لیے ہوئے ہیں اب ہمارے ہاں باہتمام منائے جاتے ہیں۔ جس کے ساتھ آہستہ آہستہ ان کا پس منظر بھی اپنی جگہ بناتا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ا س طرح کی روایات کے فروغ میں اس کیبل کلچر کا بھی بڑا عمل دخل ہے جو اب ہماری اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ کی دو ایک ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر عام لوگوں کو ان ایام میں براہِ راست شامل ہونے اور انہیں منانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کے ذریعے مفت میں کسی کو بھی بہت اچھے کارڈز بھیجے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ ان دنوں پر انٹر نیٹ استعمال کرنے والے تمام لوگ کارڈز کا تبادلہ کرتے ہیں اور عملاً ان دنوں کے منانے میں حصہ لیتے ہیں۔ دوسرے انٹرنیٹ پر چیٹنگ(chatting) لڑکے لڑکیوں کی دوستی کا ایک بہت موثر اور آسان ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی دوستی اوراس کے یومِ تجدید یعنی ویلنٹائن ڈے کا ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مغرب کی قدر ہے جہاں آزاد صنفی تعلق کوئی معیوب بات نہیں بلکہ اس کی حوصلہ افرائی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کسی مرد و عورت کے درمیان صنفی محبت کی واحد قابلِ قبول شکل نکاح ہے۔ تاہم اب اس طرح کے دنوں کے ذریعے ہمارے لیے یہ بات قابلِ قبول ہوتی جارہی ہے کہ ایک مرد و عورت شادی کے بغیر بھی محبت اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر صنفی تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ نوجوانی کا Love Affair اصل میں Lust Affair ہوا کرتا ہے، ویلنٹائن ڈے مناتے مناتے ایک روز ہم بھی اس بات کو قبول کر ہی لیں گے۔ اسی طرح ہیلوئن ڈے جس پر بچے بھوتوں اور چڑیلوں کا روپ اختیار کرتے ہیں، مغربی پس منظر کا ایک تہوار ہے۔
مادر اور فادر ڈے مغرب کی دریافت ہے جہاں خاندان ٹوٹ چکے ہیں اور اس کی تلافی کے لیے لوگ سال میں ایک دفعہ بوڑھے والدین کو یاد کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ہر دن مادر اور فادر ڈے ہوتا ہے۔ مغربیت کا یہ عمل غیر محسوس طور پر میاں، بیوی، اولاد اور والدین کے باہمی رشتوں کو بھی کمزور کرتا چلا جائے گا کیونکہ یہ تہوار معاشرتی رویوں کے علامتی اظہار ہوتے ہیں ۔ اہل مغرب نے انہیں سوچ سمجھ کر، اپنے فلسفۂ زندگی کے تحت قبول کیا ہے جبکہ ہم ان کی نقل میں اپنی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔