"نہیں میں ایسا نہیں کرسکتی میں اتنی خودغرض نہیں ہوسکتی"اس نے اپنے خیال کو جھٹکا اور عباد کو کال ملانے لگی
"عباد کہاں ہیں آپ؟"حمنہ کب سے عباد کو کال کررہی تھی تین بار رنگ جانے کے بعد اس نے کال رسیو کرلی
"راستے میں گاڑی خراب ہوگئی ہے میں کچھ دیر میں آرہا ہوں تم مامو سے کہہ دو"عباد نے تفصیل سے بتایا
"آپ کچھ بھی کرکے جلدی یہاں پہنچے ورنہ مہرماہ آپی ہمیشہ کے لئے آپ سے دور چلی جائیں گی"حمنہ نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا
"کیا ہوا حمنہ مجھے کچھ بتاؤ؟"عباد نے فکرمندی سے کہا
"آپ بس جلد سے جلد یہاں سے پہنچیں"حمنہ نے کہا
عباد نے مزید سوال پوچھنا مناسب نا سمجھا اور اپنی گاڑی وہی پارک کردی اور خود ٹیکسی روکے گھر کی طرف روانہ ہوگیا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
مولوی صاحب آ چکے تھے زوہیب صاحب مولوی اور گواہوں کے ساتھ نکاح کے لیے کمرے میں داخل ہوئے
"بابا____!!"اس نے بےبسی سے ان کی جانب دیکھا
"مولوی صاحب نکاح پڑھائیں"زوہیب صاحب نے گہرے سنجیدگی سے کہا
"میں نہیں کروں گی یہ نکاح"مہرماہ نے آخر ہمت کرکے کہا
زوہیب صاحب نے زوردار تھپڑ اس کے نازک گال پر رسید کیا
"اور کتنا بےعزت کرنا چاہتی ہو ہمیں؟چپ چاپ یہ نکاح کرو اور چلی جاؤ ہماری نظروں سے دور"انہوں نے اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا
"بابا پلیز______!!"اس نے التجائیہ نظروں سے انہیں دیکھا
"مر گیا تمہارا باپ تمہارے لیے"زوہیب صاحب نے بناء اس کی طرف دیکھے کہا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
عباد جس وقت گھر میں داخل ہوا ایک عجیب سا ہی سناٹا پورے گھر میں چھایا ہوا تھا چند عورتیں آپس میں مہرماہ کے کردار کا جنازہ نکال رہی تھی جیسے ہی ان کی آواز عباد کے کانوں میں پڑی اسے بہت غصہ آیا لیکن وہ خاموشی سے کمرے کی طرف چل دیا کیونکہ اسے پہلے یہ جاننا تھا یہاں کیا ہوا ہے
"مہرماہ کہاں ہے؟"عباد کی نظریں مہرماہ کو ڈھونڈ رہی تھی
حمنہ نے سارا واقعہ تفصیل سے عباد کو بتایا اسے محسوس ہوا تھا آسمان اس کے سر پر آ گرا ہو
"مامو ایسا کیسے کرسکتے ہیں مہرماہ کے ساتھ؟کسی بھی انجان لڑکے کے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت کردیا"عباد بےیقینی کے عالم میں کہہ رہا تھا
"حمنہ اور تمہارا نکاح ہے مقرر وقت پر ویسے ہی کچھ مہمانوں کے سامنے بہت تماشہ ہو چکا ہے مزید کوئی تماشہ نا ہو تم دونوں کی طرف سے"تحمینہ بیگم حتمی فیصلہ سنا کر چلی گئی
کچھ ہی دیر میں حمنہ عباد کے نام سے منسوب ہوچکی تھی اس نے اس ہی دن کے تو خواب دیکھے تھے لیکن ایسے نہیں!!
زوہیب صاحب کے کہنے پر حمنہ کی رخصتی بھی آج ہی ہوگئی تھی
زوہیب صاحب نے اپنی دونوں بیٹیاں جو ان کے دل کا ٹکڑا تھی انہیں بناء اپنے سینے سے لگائے رخصت کردیا تھا مہرماہ پر تو شدید غصہ تھا لیکن حمنہ سوچ رہی تھی اس کا کیا قصور تھا اس سب میں؟اس کے باپ نے اسے رخصت کرتے وقت ایک بار بھی اسے نہیں دیکھا تھا اور نا ہی اپنی دعاؤں میں رخصت کیا تھا
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ اس وقت شاہ زین کے ساتھ اس کی کار میں بیٹھی ہوئی تھی آنسو رخسار کو بھگو رہے تھے دماغ ماؤف ہوچکا تھا گویا اس سے کسی نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہو
گاڑی ایک عالیشان محل نما حویلی کے سامنے روکی تھی
شاہ زین اسے اسلام آباد لایا تھا انہیں پہنچنے میں کافی رات ہوگئی تھی وہ جانتا تھا اس وقت گھر میں کوئی نہیں جاگ رہا ہوگا
اس نے مہرماہ کی طرف کا دروازہ کھولا اور اس کا ہاتھ پکڑے گھر میں داخل ہوا وہ کسی کٹی پتنگ کی طرح اس کے ساتھ چلی آرہی تھی
شاہ زین نے اپنے کمرے میں آ کر اس کا ہاتھ چھوڑا
مہرماہ نے اپنے چاروں جانب نگاہ ڈالی وہ بہت بڑا کمرا تھا اور بہت ہی نفاست سے سیٹ تھا پورے کمرے میں سفید رنگ تھا پردے صوفے بیڈ بیڈشیٹ ہر چیز سفید رنگ کی تھی
"تم نے کیوں کیا میرے ساتھ ایسا بولو میں نے کیا بگاڑا تھا تمہارا میری زندگی برباد کردی تم نے"مہرماہ چیخ رہی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے
"آواز دھمی رکھو"شاہ زین نے اس کا بازو دبوچتے ہوئے کہا
"تمہیں کیا لگ رہا ہے مجھے تم سے محبت ہے اس لئے تم سے شادی کی"شاہ زین نے اس دیکھتے ہوئے قہقہہ لگایا
"مہرماہ تمہاری اوقات میری زندگی میں بلکل ویسی ہے جیسے عالیشان حویلی میں کباڑخانے کی"شاہ زین نے اسے حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا
وہ حیرت سے اسے تک رہی تھی
"ابھی تو انتقام شروع ہوا ہے"شاہ زین نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا مہرماہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا جہاں اس کے لئے صرف نفرت تھی وہ مہرماہ کو زمین کی طرف دھکا دیتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
آج ان کی مایوں تھی بیا چھت پر کھڑی ہوئی اس کا انتظار کررہی تھی
"آپ نے مجھے بلایا تھا"اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا
"جی, مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے"بیا نے جھجھکتے ہوئے کہا
"جی کہیں"اس نے بیا کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا
"میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں اور اس سے ہی شادی کروں گی"بیا نے ایک ہی سانس میں کہا
کتنا تکلیف دہ لمحہ تھا اس کی محبت اس کے سامنے کسی اور کی محبت کا اعتراف کر رہی تھی
"میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں"بمشکل الفاظ ادا ہوئے
"بابا نہیں مان رہے آپ پلیز کل عین وقت پر بارات لانے سے انکار کر دیجئے گا پھر بابا کے پاس کوئی راستہ نہیں رہے گا وہ مجبوراً میری شادی ضیاء سے کروا دیں گے"بیا نے اسے تفصیل سے بتایا
"آپ فکر مت کریں میں کل بارات نہیں لاؤں گا اور نا ہی اس سب میں آپ کا نام آئے گا"شیزی نے تلخی سے مسکراتے ہوئے کہا اور چلا گیا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"حمنہ میں جانتا ہوں سب کچھ بہت جلدی میں ہوا ہے تم نے مامو کی خاطر یہ شادی کی ہے لیکن تم پریشان مت ہو میں معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی تمہیں طلاق دے دونگا"عباد نے کمرے میں آتے ہی بناء کوئی تہمید باندھے کہنا شروع کیا
"لیکن میں طلاق نہیں لینا چاہتی"وہ بس دل میں ہی کہہ سکی
"نا انصافی ہم تینوں کے ساتھ ہوئی ہے مامو کو کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے تحمل سے سوچنا چاہئے تھا ناجانے مہرماہ کس حال میں ہوگی؟"عباد نے دکھ اور فکرمندی کے ملے جلے تاثر میں کہا
"میں نہیں جانتا شاہ زین نے ایسا کیوں کیا لیکن مجھے یقین ہے مہرماہ مجھ سے کبھی بےوفائی نہیں کرسکتی بس ایک بار مجھے مہرماہ کا پتہ چل جائے میں سب کچھ ٹھیک کردونگا!!! تم سوجاؤ تھک گئی ہوگی"عباد کہتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
مہرماہ اپنے مہندی والے ہاتھوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھی جہاں مہندی سے عباد کا نام لکھا ہوا تھا ایک ہی پل میں اس کی پوری زندگی پلٹ کر رہ گئی تھی سارے منظر بدل چکے تھے وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ منسوب ہوچکی تھی جو اس سے صرف نفرت کرتا تھا اور اپنے انتقام کی خاطر اسے سب کے سامنے رسوا کردیا تھا
"مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی مہرماہ تم تو میرا مان تھی تم نے میرا مان توڑ دیا!!!!! آج سے تم ہم سب کے لئے مرگئی میں سمجھوں گا ہماری صرف ایک ہی بیٹی ہے حمنہ"
"اور کتنا بےعزت کرنا چاہتی ہو ہمیں؟چپ چاپ یہ نکاح کرو اور چلی جاؤ ہماری نظروں سے دور"
"مر گیا تمہارا باپ تمہارے لیے"مہرماہ کی سماعت سے زوہیب صاحب کی آواز ٹکرائی
وہ جنونیت میں آکر اپنا سرخ رنگ کی چوڑیوں والا ہاتھ زور زور سے زمین پر مار کر اپنی چوڑیاں توڑنے لگی!!!
ساری چوڑیاں ٹوٹ کر اس کی نازک کلائی کو زخمی کر چکی تھی اس کے ہاتھ میں سے خون رس رہا تھا لیکن یہ تکلیف اس تکلیف سے کم تھی جو اس کے دل میں ہورہی تھی!!!!
وہ تھک ہار کر وہی زمین پر سوگئی
صبح شاہ زین کمرے میں داخل ہوا تو اس کی نظر مہرماہ پر پڑی جو دنیا جہاں سے بےخبر نیند کی وادیوں میں گم تھی
وہ وہی مہرماہ کے پاس بیٹھ گیا مہرماہ کے زخمی ہاتھ اس کی نظر سے پوشیدہ نا رہ سکے اس کے دونوں ہاتھ زخمی تھے خون خشک ہوچکا تھا
چہرے سے صاف نمایاں تھا کہ وہ پوری رات روتی رہی ہے
اس کی نظروں کے سامنے مہرماہ کا کھلکھلاتا ہوا چہرہ لہرایا
ایک پل کے لیے اسے ندامت نے آن گھیرا
لیکن پھر دوبارہ ندامت کی جگہ نفرت نے لے لی
وہ اٹھا اور سائیڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا جگ اٹھایا اور سارا پانی مہرماہ پر انڈیل دیا
مہرماہ فوراً گھبرا کر آٹھ گئی غائب دماغی سے اپنے اطراف میں دیکھنے لگی
کل کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا
"نیند پوری ہوگئی ہو تو تیار ہو کر میرے ساتھ نیچے چلو"شاہ زین نے حکم دینے والے انداز میں کہا
"میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور ڈریس نہیں ہے"مہرماہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
"اوہ ہاں تمہیں تو تمہارے ماں باپ نے ایسے ہی گھر سے رخصت.........نہیں بلکہ گھر سے نکال دیا تھا"شاہ زین نے طنزیہ کہا
"اس میں ہی آجاؤ نیچے"شاہ زین نے کہا
مہرماہ جانے لگی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا
"ہاں ایک اور بات سب کے سامنے اپنا منہ بند رکھنا"شاہ زین نے وارننگ دی
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••