وہ اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں بینج پر بیٹھا ہوا تھا وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا اس کے ہاتھوں پہ ہلکا ہلکا خون لگا ہوا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کے ہتھیلی پہ جذب ہورہے تھے
اسے اپنی ہر غلطی پر پچھتاوا تھا لیکن اب صرف پچھتاوے ہی رہ گئے تھے وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ قسمت اسے معافی مانگنے کا ایک موقعہ دے گی بھی یا نہیں
وہ تو ہمیشہ اسے قید کرکے رکھنا چاہتا تھا اپنی قید میں تڑپتے سسکتے دیکھنا چاہتا تھا لیکن شاید اسے یہ قید منظور نہیں تھی تبھی تو اس نے اس قید سے رہائی حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو موت کے منہ میں جھونک دیا!
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
تہجد کا وقت تھا نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ ہمیشہ کی طرح الارم بجتے ہی اٹھ گئی تھی وضو کرکے تہجد کی نماز ادا کی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں میں بےاختیار آنسو آگئے
"ﷲ پاک آپ تو جانتے ہیں نا میں نے انہیں کبھی دعاؤں میں نہیں مانگا تھا میں تو قسمت کے ہر فیصلے پر مطمئن تھی میں نے کبھی بھی انہیں اپنا نصیب کرنے کی دعا نہیں مانگی پھر کیوں آپ نے مجھے ان سے منسوب کردیا یہ جانتے ہوئے بھی میں ان کی محبت نہیں ہوں ان کی محبت کبھی ہو ہی نہیں سکتی میں کچھ بھی تو نہیں ہوں ان کے لئے کچھ بھی نہیں!
میرا ہونا نا ہونا ان کے لے ایک جیسا ہے"آنکھوں سے آنسو بہہ کے ہتھیلی پر گر رہے تھے وہ اپنا منہ اپنے ہاتھوں میں چھپائے بلک بلک کر رو دی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اس وقت حویلی کے ایک کمرے کے باہر بہت سارے لوگ جمع تھے اور کب سے دراوزہ پیٹ رہے تھے لیکن آندار موجود وجود شاید کچھ سن ہی نہیں رہا تھا
"دروازہ کھولو!!!"
"بیٹا دروازہ کھولو!!!"دروازے کے باہر کھڑی خاتون نے آواز لگائی
"میرا دل حول رہا ہے کوئی دروازہ توڑو"کسی نے دروازے کو دھکے دیئے تو دروازہ کھول گیا
دروازہ کھولتے ہی سب کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا
کمرے میں بائیس سالہ لڑکی سرخ رنگ کا لہنگہ پہنے زمین پر گری ہوئی تھی
"بیا!!!!"اس کی ماں نے اس کا سر اپنے گھٹنوں پر رکھا اور بلک بلک کر رونے لگی
لڑکی کے دونوں ہاتھوں سے خون بہہ رہا تھا اور سانسیں!!
سانسیں ہمیشہ کے لئے رک گئی تھی!!
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
جون کا مہینہ تھا ہر طرف گرمی کا راج تھا اسے یونی جوائن کیے کچھ ہی دن ہوئے تھے کلاس ختم ہوتے ہی وہ کسی کو ڈھونڈتی ہوئی کینٹین پہنچی
"افففففففف اتنی گرمی ہے..................اور میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی تھی مگر مجال ہے آپ آسانی سے مل جائے"وہ کسی کے پاس کھڑی بیزاری سے کہہ رہی تھی اس شخص کی پیشت مہرماہ کی طرف تھی
"سوری میم آپ کو کوئی غ........."وہ کہتے ہوئے پلٹا تھا لیکن الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے اس کے مقابل کھڑی لڑکی کو دیکھ کر کہی کہ شہزادی کا تصور ہو رہا تھا چہرے پر معصومیت اور بیزاری سموئے وہ اس کی منتظر تھی
مہرماہ کی مقابل کو دیکھ کر ہوائیاں ہی آڑ گئی
"او٥٥٥..........سوری وہ"مہرماہ نے گھبراتے ہوئے کہا
"تم یہاں ہو"پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کا کزن عباد تھا
"یہ کون ہے؟"عباد نے شاہ زین کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
"کہاں تھے تم؟کب سے ڈھونڈ رہی تھی...............میں سمجھی تم بیٹھے ہوئے ہو اور بولنا شروع ہوگئی"مہرماہ نے غصے سے دھیمی آواز میں کہا
"او٥٥٥"عباد نے بات سمجھ آنے پر کہا
"کیا او٥٥٥؟معذرت کرو ان سے"مہرماہ نے رازداری سے کہا
"سوری میری کزن کو غلط فہمی ہو گئی تھی دراصل اتفاق سے ہماری شرٹس کے کلر سیم ہیں"عباد نے مسکراتے ہوئے معذرت کی
"اٹس اوکے"شاہ زین نے مسکراتے ہوئے کہا
"نائس ٹو میٹ یو"عباد نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا
"می ٹو"شاہ زین نے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کہا پھر وہ دونوں وہاں سے چلے گئے کچھ دیر تک شاہ زین کی نظروں نے مہرماہ کا پیچھا کیا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"تم نے اس سے کہی اظہارِ محبت تو نہیں کرلیا تھا"عباد نے شرارت سے کہا
"فضول بکواس نہیں کرو"مہرماہ نے تپ کر کہا وہ دونوں ابھی ابھی یونی سے گھر آئے تھے مہرماہ کا گرمی کی وجہ سے ویسے ہی برا حال تھا اوپر سے عباد بار بار اسے تنگ کررہا تھا
"بتاؤ نا تم نے کیا کہا تھا اسے؟یہ تو نہیں کہا تھا جانو بات سنو"عباد نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے آئستہ سے کہا
"امییییی"مہرماہ چیخی
"کیا ہوا مہرماہ؟"وہ جلدی سے کچن سے آئی اور فکرمندی سے پوچھا
"کیوں روکا ہوا ہے ابھی تک آپ نے اسے"مہرماہ نے عباد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"شرم کرو مہرماہ ایسے بولتے ہیں"فائزہ بیگم نے اسے گھورتے ہوئے کہا
"سمجھالیں آپ انہیں کب سے مجھے پریشان کررہے ہیں"مہرماہ نے طنزیہ کہا
"ممانی اب میں چلتا ہوں"عباد نے اجازت چاہی
"بول تو ایسے رہے ہیں میں چلتا ہوں جیسے ہمیں پتہ ہی نہیں ہے کہ آپ بھی چلتے ہیں ظاہر سی بات ہے پاؤں ﷲ پاک نے چلنے کے لیے ہی دیئے ہیں"مہرماہ نے دھیمی آواز میں کہا تاکہ صرف عباد ہی سن سکے کیونکہ فائزہ بیگم سن لیتی تو پھر اس کی کلاس لگ جاتی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
حمید صاحب کے صرف دو بچے تھے بڑا بیٹا زوہیب اور چھوٹی بیٹی تحمینہ ان کے گھروں میں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کا رواج نہیں تھا تحمینہ کے میٹرک کے امتحان کے بعد انہوں نے تحمینہ کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے کردی اور زوہیب کی شادی اپنی بھانجی فائزہ سے
فائزہ اور زوہیب کا صرف ایک بیٹا تھا شعیب ان دونوں کو بیٹی کی بہت خواہش تھی پھر ﷲ پاک نے شعیب کی پیداہش کے پندرہ سال بعد انہیں اپنی رحمت سے نوازا جس کا نام انہوں نے مہرماہ رکھا مہرماہ کی پیداہش کے دو سال بعد ان کے گھر ایک اور رحمت آئی حمنہ
تحمینہ کم عمری میں ہی بیوہ ہوگئی تھی ان کا صرف ایک ہی بیٹا تھا عباد
عباد مہرماہ سے دو سال بڑا تھا حمید صاحب کی خواہش پر مہرماہ اور عباد کی منگنی کردی گئی تھی
شعیب بیرون ملک رہتا تھا
مہرماہ اور عباد ایک ہی یونی میں تھے مہرماہ کا پہلا سال جبکہ عباد کا آخری سال تھا
زوہیب صاحب کو اپنی بیٹیوں کو پڑھانے کا شوق تھا اس لیے انہوں نے مہرماہ کا ایڈمیشن یونی میں کروا دیا تھا تحمینہ بیگم نے بہت رولا ڈالا تھا کیونکہ انہیں کالج میں بھی ایڈمیشن لینے کی اجازت نہیں ملی تھی
عباد نے مہرماہ کو لانے لے جانے کی ذمہ داری لی تھی
حمنہ ابھی کالج میں تھی اسے ارٹس کا بہت شوق تھا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
"اسلام علیکم کیسی ہیں چھوٹی مما"شاہ زین نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
"وعلیکم اسلام بالکل ٹھیک"انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا
"تم یہاں ہو میں پورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں"صباء نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"چھوٹی مما اسے سمجھا دیں مجھ سے زیادہ فری نا ہوا کرے"شاہ زین نے غصے سے کہا
"صبا جاؤ اپنے کمرے میں............اور ہزار بار کہا ہے بڑا بھائی ہے پریشان نا کیا کرو"جویریہ بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا
"بھائی مائے فوٹ"صبا پیر پٹکتی وہاں سے چلی گئی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••
شاہ زین کے والد علی خان کی شادی ان کی کزن عاصمہ سے ہوئی تھی شادی کے چند سال بعد عاصمہ کا انتقال ہو گیا تھا ان دونوں کی صرف ایک بیٹی تھی زوبیہ
گھر والوں کے اسرار پر انہوں نے اپنی چھوٹی سالی سے شادی کرلی تھی ان دونوں کا ایک بیٹا ہوا شاہ زین زوبیہ سے بارہ سال چھوٹا تھا
جویریہ نے زوبیہ اور شاہ زین میں کبھی فرق نہیں کیا تھا انہیں جتنا شاہ زین عزیز تھا اتنی ہی زوبیہ
علی خان کے چھوٹے بھائی حاشم خان کی صرف ایک ہی بیٹی ہے صبا انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی جب سے شاہ زین اور زوبیہ کے ساتھ ساتھ صبا کی تربیت بھی جویریہ بیگم نے کی تھی لیکن جویریہ اپنے باپ کی طرح خود سر تھی
شاہ زین جب اٹھ سال کا تھا اس کے والد اور بہن اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے
شاہ ویلہ اسلام آباد میں مقیم تھا لیکن شاہ زین اور صبا کراچی کی یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے شاہ زین کا اپنا اپارٹمنٹ تھا جہاں وہ رہائش پذیر تھا جبکہ صبا ہاسٹل میں رہتی تھی وہ دونوں چھٹیوں میں اسلام آباد آتے تھے)