فائل کو بند کرتے اس نے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔جو فولڈ ہوا تھا۔اسے کھول کر وہ پڑھنے لگا۔جیسے جیسے وہ پڑھ رہا تھا۔اس کی سر کی رگیں تن گئیں تھیں۔چہرے پر سختی در آئ تھی۔۔وہ پل میں تولا پل میں ماشا شخص تھا۔
ہونٹوں کو سختی سے بھینچے وہ اندر بڑھا۔۔
سامنے صوفے پر ڈری سہمی سی دانین بیٹھی تھی۔اساور کو دیکھ کر اس کا ڈر ختم ہوا تھا۔وہ دوڑ کر اساور کے چوڑے سینے سے آ لگی۔
اگر اساور کو یہ انویلپ نہ مِلا ہوتا تو وہ خود سے لگی دانین کو خود میں سیمٹ لیتا۔
مگر اس وقت اس بددماغ شخص کا دماغ غصے کی آگ میں جل رہا تھا۔۔
اس نے جھٹکے سے دانین کو خود سے الگ کیا۔یوں ایک دم دھکا دینے پر وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ پائ تھی اور لڑکھڑاتے ہوۓ صوفے کے پاس گِری تھی۔۔
آنسوؤں بھری آنکھیں اٹھا کر دانین نے اس شخص کو دیکھا جو تکلیف نہ دینے کا وعدہ کر کے اسے تکلیفوں کے سمندر میں پھینک دیتا تھا۔سامنے کھڑا شخص پتھر تھا پر وہ مخبت بھی نہیں تھا۔۔محبت نرم مزاج لوگوں کا شیوہ ہے پتھر دلوں کو زیب دیتی ہے نہ راس آتی ہے۔
یہ یہ کیا ہے۔۔ہاتھ میں پکڑی بوتل کو صوفے پر پھینکتا وہ فائل لے کر اس کی طرف بڑھا۔دانی جو اس کے آنے پر اپنے اندر سے ہر خوف کو مٹتا ہوا پا رہی تھی اب اس سے ہی شدید خوف محسوس کر رہی تھی۔۔
کک کیا ہے۔۔دانین دھیرے دھیرے پیچھے کو کھسکنے لگی مگر آج کوئ ایسی زمین نہ تھی جو اساور کاظمی سے بچاتی ہوئ دانین جمشید علی کے لیئے پھٹ پڑتی۔کوئ آسمان آج ایسا نہ تھا جو اساور کے عتاب سے دانین کو بچا پاتا۔۔
یہ پڑھو۔۔غصے سے کانپتی آواز کے ساتھ اساور نے کاغذ کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھمایا۔۔دانی نے جلدی سے اسے تھاما۔جیسے جیسے وہ تخریر پڑھ رہی تھی خوف کے مارے اس کی سانسیں بھی ختم ہو رہیں تھیں۔۔
وہ تم سے رابطے میں رہتا ہے ہر پل ہر گھڑی پھر کیوں تم مجھ سے جھوٹ بولتی ہو۔۔اساور کا شدید غصہ اس کے اونچے لہجے سے ظاہر ہو رہا تھا۔۔
وہ مم میں نے کہا تھا میرے ڈاکومینٹس لا دے وہ پیپرز ہونے والے ہیں۔۔
اوہ تو پیپرز کی تیاری کر رہے ہیں دونوں بہن بھائ۔کرئیر بنانا ہے گٹر کے کیڑوں نے۔۔اساور کا لہجہ انتہائ گھٹیا ہوتا جا رہا تھا۔دانی بس خیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ہر پل اس پر اساور کا نیا وخشیانہ روپ آشکار ہوتا تھا جس سے وو پہلے انجان رہی تھی۔۔
ہماری زندگیوں سے سکون ختم کر کے اپنا کرئیر بنانا ہے تم خودغرضوں نے۔۔وہ دانین کے پاس ہوتے ہوۓ بولا تو وہ ڈر کر ایک دم پیچھے ہوئ تھی۔۔
صیخ صیخ بنے گا اب کرئیر تمہارا دانین جمشید علی۔۔طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ دانین کے ڈاکومینٹس اٹھاۓ وہ کچن کی طرف بڑھا ۔۔دانین ناسمجھی سے اسے جاتے ہوۓ دیکھتی رھی۔۔تھوڑی دیر بعد جب بات اس کی سمجھ میں آئ وہ دوڑتے ہوۓ کچن کی طرف بھاگی ۔
مگر یہ کیا۔۔؟! اس کی زندگی کے بیس سال اساور نے چولہے میں جھونک دیئے تھے۔جن سے آگ بھڑک رہی تھی۔
دانین کو لگا کسی نے اس کے دل کو جلا دیا ہو۔وہ بھاگ کر چولہے کے پاس پہنچی لیکن تب تک اس کی مخنت اس کا کرئیر اس کے خواب جل کر راکھ ہو چکے تھے۔۔
دانین کی سانسیں تھم گئیں تھیں۔اس نے صدمے سے اساور کو دیکھا جو ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ اس کی بےبسی اور اذیت کو انجواۓ کر رہا تھا۔۔
اس پل دانین کو اساور سے شدید نفرت محسوس ہوئ اتنی نفرت کہ اس کا دل چاہا اساور کا قتل کر دے جو محت کا قاتل تھا۔جو اس کے خوابوں کے ڈھیڑ کو جلا کر راکھ کر چکا تھا۔۔
خواب کریئیر زندگی کے اتنے سال سب برباد چچچ بہت افسوس ہوا۔۔اساور نے اس کی بہتی آنکھوں کو اور بہنے کے نۓ جواز دینے چاہے۔۔دانین نے ایک نظر راکھ پر ڈالی اور پھر دونوں مٹھیوں میں بھر کر اساور کے چہرے پر مل دی۔۔
اساور کا میٹر مذید گھوما۔وہ حیران ہوا تھا اس کی ہمت پر۔۔
یہ یہ ڈیزرو کرتے ہو تم مسٹر اساورکاظمی یہ راکھ ۔اور تم جیسے دوغلے انسان کی اوقات نہیں ہے خوابوں کو جلا دینے کی۔۔وہ پوری شدت سے چیخی تھی۔غصے سے اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا۔اساور نے اسے کبھی اتنےغصے میں نہیں دیکھا تھا۔
جب خواب بےکسوں کی آنکھوں کے سامنے جلاۓ جائیں تو ہمت خود پیدا ہو جاتی ہے۔
میں محبت ڈیزرو نہیں کرتا تو تم کرتی ہو کبھی اپنےگریبان میں جھانکا ہے۔۔چہرے کو ایک ہاتھ سے صاف کرتے دوسرے ہاتھ سے زور سے اس کا بازو پکڑا۔۔
جھانکتی ہوں اور حیران ہوتی ہوں غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں مجھ سے ایسی کون سا گناہ ہو گیا تھا جس کی سزا میں تم ملے ۔وہ بھی اسی کے انداذ میں بولی تھی۔آنکھوں میں خوابوں کی راکھ آنسو لا رہی تھی۔۔
جان لے لوں گا میں تمہاری جو ایک لفظ بھی کہا تو۔۔دانین کے دوسرے بازوکو بھی اپنی گرفت میں لیتے وہ غرایا۔دانین کی تکلیف کے مارے سسکی نکلی۔۔
قصاص کے لیئے تیار رہنا۔۔آج دانی بےخوف تھی۔اس کے لہجے سے ڈر غائب تھا۔۔
شٹ اپ۔۔
یو شٹ اپ مسٹر اساور کاظمی۔۔
بہت زبان چل رہی ہے آج۔۔دونوں بازو ایک ہاتھ سے زور سے مڑوڑتے اس نے ایک ہاتھ سے دانین کا منہ دبوچ لیا۔۔بہت پٹر پٹر کرنے لگی ہو آج۔۔ایک جھٹکے سے اسے دھکا دیتا وہ کچن سے نِکل گیا۔۔وہ شیلف سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔البتہ ہاتھ شیلف پر رکھے کٹر پر لگ گیا جسکی وجہ سے ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔۔
اساور غصے سے مٹھیاں بند کرتے لاؤنج میں صوفے پر آ بیٹھا تھا۔غصے کے مارے برا حال تھا اس کا۔ایک دم وہ اٹھ کر اِدھراُدھر کے چکر کاٹنے لگتا۔پھر ایک دم سے بیٹھ جاتا ۔۔۔
ابھی اس کی نظر صوفے پر پڑی بوتل پر گئ۔اس نے ایک دم بوتل اٹھائ۔جسے کچھ منٹ پہلے حرام جان کر چھوڑ دیا تھا اب اسے ہی ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچ رہا تھا۔۔
بوتل کو ہاتھ میں لیتے اسے اپنے ٹیچر کے کہے الفاظ یاد آۓ۔۔
تو آج ہم بات کریں گے جگر اور اس کی بیماریوں پر اور یہ بیماریاں کیسے جنم لیتی ہیں وہ بھی جانیں گے۔۔۔ٹیچر نے سلام کے جواب کے بعد سبکو ٹاپک کا نام بتایا۔۔سب دلچسبی سے سر کو دیکھ رہے تھے۔
جگر کا سکڑنا یا اپنے قدرتی سائز سے چھوٹا ہو جانا یہ ایک نہایت خطرناک اور مہلک مرض ہے جو زیادہ تر شراب نوشی کے باعث پھیلتا ہے ۔ذیادہ تر یہ دوسرے ممالک کی بنسبت امریکہ اور یورپ میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔شراب نوشی کی وجہ سے جگر میں ریشہ دار مادہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے جگر کے اصلی خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اس کے ساتھ جگر میں چھوٹی چھوٹی یا بڑی بڑی گانٹھیں بننے لگتی ہیں یہ عمل جگر کی تمام حصوں میں پھیلا ہوا ہوتا ہے اور متواتر بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ جگر میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور جگر کی چربی گلنے لگتی ہے شروع میں تو جگر بڑھ جاتا ہے لیکن جب جگر کی چربی ختم ہو جاتی ہے اور گانٹھیں بڑھ جاتی ہیں تو وہ سکڑ کر چھوٹا ہو جاتا ہے اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتا مریض نقاہت اور کمزوری کے باعث موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اس بیماری کے دوران اور بھی پیچیدگیاں اور عارضے لاحق ہوجاتے ہیں مثلا پلورسی جریان خون جلندھر اور نمونیا وغیرہ__
ہاتھ میں پکڑی بوتل کو اس کے استاد کی آواز کھولنے سے روک رہی تھی۔مگر اس نے سر جھٹکا اور بوتل کھول دی۔
قرآن پاک میں اللہ کی طرف سے شراب نوشی کے بارے میں تین آیات کریمہ کا نزول فرمایا گیا ہے۔( تجھے پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کے متعلق انہیں فرما دو کہ ان دونوں میں ہی بڑا گناہ ہے اور فائدے ہیں خلق کےواسطے)۔۔کہیں سے اس کے قاری کی آواز گونجی جن سے وہ قرآن پڑھتا تھا۔اساور نے چونک کر اردگرد دیکھا کوئ نہیں تھا۔یہ اس کے اندر کی آوازیں تھیں علم تھا جو اسے اسلام کے دائرے سے نہ نکلنے کی تلقین کر رہا تھا۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔۔شراب حرام ہے۔
اس کی ماں کی آواز گونجی ۔منہ تک بوتل لے جاتے اس کے ہاتھ رکے مگر دوسرے ہی پل اس نے بوتل منہ سے لگا لی تھی۔
ذہن میں استاد،ماں،قاری سب کے پڑھاۓ جملے گردش کر رہے تھے مگر اس پل وہ سب کچھ فراموش کر دینا تھا۔کیونکہ وہ شدید غصے میں تھا۔
اسی لئیے تو غصے کو حرام کہا گیا ہے۔غصے میں انسان گر جاتا اپنے معیار سے ذات سے اور اسلام سے۔۔
غصہ نہایت خطرناک ہے اور اصل سمجھدار اور راسح مسلمان وہی ہے جو بروقت اس پر قابو پالیتا ہے۔۔
جبکہ غصے میں اپنا آپا کھو دینے والا اکثر سب کچھ کھو دیتا ہے۔۔
اس نے پہلے کبھی ڈرنک نہیں کی تھی اس لیئے اس پر نشہ جلدی اور بہت ذیادہ چڑھ گیا تھا۔۔
اپنے ہاتھ پر پٹی باندھتے آنسو پونجتے وہ کچن سے باہر آئ۔سامنے اساور لال آنکھوں، طنزیہ مسکراتے ہونٹوں، اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔
وہ حیرانی سے اس کی چال دیکھ رہی تھی۔ایسے لگ رہا تھا ٹانگوں میں چوٹ کے باعث ایسے چل رہا ہے۔۔
دانین کے پاس پہنچ کر اساور لڑکھڑایا۔دانین نے ایک دم دونوں ہاتھوں سے تھام کر اسےگرنے سے بچایا مگر اس کے پاس سے آتی بو پر دانین کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔وہ ایک دم اساور سے دور ہوئ۔وہ توازن قائم نہ رکھ پایا اور اوندھے منہ زمین پر گِر گیا۔۔۔
مم میں گِر گیا مم مجج مجھے اٹھاؤ۔اساور کا لہجہ بھی اس کے قدموں کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔
گِر تو تم گۓ ہو اور کتنا گِرو گے اساور۔۔دانین حیرت اور بےیقینی سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔
ہاہاہا یہی میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں۔۔وہ طنز بھڑے انداذ میں ہنستا ہوا خود ہی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
آج تم نے ساری حدیں پار کر دیں تم سے نفرت کرنے کا اک نیا جواز دے دیا تم نے مجھے۔۔
اور میں تم سے انتہائ نفرت کرتا ہوں سنا انتہائ نفرت۔۔وہ بھی بند ہوتی لال آنکھوں کے ساتھ غرایا۔۔
اور ایک بات تو بتاؤ سعدی کی اتنی طرف داری کیوں کرتی ہو۔لگتا کیا ہے وہ تمہارا۔۔اساور نے شکی انداذ میں اسے دیکھا۔۔
بھائ لگتا ہے وہ میرا۔۔
مجھے تو عاشق لگتا ہے۔۔
شٹ اپ اساور جسٹ شٹ اپ۔تم مینٹلی کتنے گِرے ہوۓ انسان ہو۔۔اساور کی بات پر دانین کا غصہ بڑھ گیا تھا۔۔
تمہاری ماں نے تو جنم نہیں دیا اسے نہ خون کا رشتہ ہے پھر بھائ نو نو مجھے دال میں کچھ کالا لگتا ہے۔۔
تم مر جاؤ اساور ایک گھٹیا انسان ہو تم رشتوں کو ان کی پاکیزگی کو نہیں سمجھتے تم کیونکہ تم انسان نہیں ہو تم وخشی درندے ہو تم۔۔ضبط سے مٹھیاں بھینچتی وہ بھاگ کرسومو کے کمرے میں آ گئ۔دروازہ لاک کرتے وہ دروازے کے سہارے بیٹھتی چلی گئ۔آنسو اس کی آنکھوں سے تیز بارش کی طرح برس رہے تھے۔۔
گھٹنوں پر سر رکھ کر وہ ہچکیوں کے ساتھ رو پڑی تھی۔۔
آج ساری حدیں تمام ہوئیں تھیں۔اس کے خواب اس کا کردار سب ملیا میٹ کر دیا تھا اساور نے۔۔۔
____________________________________________________________________________
موم یہ ڈیڈ کو پاس کریں انہیں پسند ہے نا۔۔عینا اپنے والدین کے ساتھ ڈِنر کر رہی تھی۔۔اس کی ماں نے مسکراتے ہوۓ ڈونگا تھام کر سالن اپنے شوہر کی پلیٹ میں ڈالا۔۔
جیتی رہو میری بچی۔۔اس کے ڈیڈ مسکراۓ اور کھانا کھانے لگے۔۔
تبھی باہر زور زور سے ہارن کی آواز آئ پھر تیزی سے گاڑی پارک کی گئ جس کی وجہ سے گاڑی کے ٹائر چرچراۓ۔۔
عینا کی دھڑکن ہوا ہونے لگی۔یہ سب طوفان آنے کے پہلے کے چھوٹے موٹے ڈیمو تھے۔۔
دروازہ کھلا اور پینسل ہیل کی ٹک ٹک پورے لاؤنج میں گونجی۔وہ تیز تیز چلتے ڈائینگ روم میں پہنچی۔
عینا بہت گھبرا گئ تھے۔اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے تھے۔عینا نے مددطلب نظروں سے ماں اور باپ کو دیکھا۔
جب جب وہ اس تیزی سے گھر میں داخل ہوتی تھی عینا کی شامت آتی تھی۔
ڈائینگ ٹیبل کے سامنے کھڑی وہ کھا جانے والی نظروں سے عینا کو دیکھ رہی تھی۔اور عینا بےبسی سے ماں باپ کو تکے جا رہی تھی جنہوں نے اپنی بڑی بیٹی کو اتنا سر چڑھا دیا تھا کہ اب وہ اس کے غصے سے ڈر جاتے تھے۔۔
مینو بیٹا کیا ہوا ہے۔۔اس کی ماں نے بےچارگی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔
یہ آپ اپنی اس لاڈلی ماہرانی سے پوچھیں۔ماں کا ہاتھ جھٹکتے مینو نے زور سے عینا کی چیئر گھمائ عینا توازن برقرار نہ رکھتے ہوۓ اوندھی منہ مینو کے قدموں میں گِری تھی۔۔
مینا بس کرو جان لو گی اس کی۔۔عینا کے بابا وہیل چیئر کو دھکیلتے عینا کے پاس پہنچے۔عینا جلدی سے اٹھ کر ان کے پیچھے چھپ گئ۔
آپ مت بولیں بیچ میں ڈیڈ میں آج کوئ لخاظ کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔
ہمارا لخاظ تم کرتی کب ہو۔اس کی ماں بھی عینا کے پاس جاکھڑی ہوئ ۔۔
لو بن گئ ٹولی۔واہ مجھے پرایا کر کے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کو خود میں سیمٹ لیتے ہیں واہ واہ بہت خوب۔۔مینو نے طنزیہ انداذ میں زوردار تالی ماری تھی۔
بہن ہے تمہاری کیوں اس کے پیچھے پڑی رہتی ہو ہر وقت بخش دو اسے۔۔اسے کے باپ نے اپنے کانپتے ہاتھ مینو کے سامنے جوڑے تھے۔۔
اپنی اس لاڈلی کے کرتوت پتا ہیں آپ کو زمین سے پوری طرح اگی نہیں اور میڈم صاحبہ محبت کررہی ہیں۔مینا کے لہجے میں خقارت ہی خقارت تھی۔۔
یہ اس کی زندگی ہے اپنی مرضی سے جینے کا خق رکھتی ہے وہ تم کون ہوتی ہو انٹرفئیر کرنے والی۔۔اس کے باپ کا لہجہ بھی اونچا ہو گیا تھا۔۔
پھر تو میری زندگی بھی میری اپنی تھی مجھے محبت کرنے کا خق کیوں نہیں دیا گیا۔میں کیوں محبت سےمحروم ہوں۔۔مینا بھی چلائ تھی ۔ڈائینگ ٹیبل پر ہاتھ مار سارے برتن اِدھراُدھر پھینک دییئے تھے۔
ٹوٹی کانچ کے ٹکڑے لاؤنج میں بکھرے پڑے تھے۔۔
محبت خودعرض لوگوں پر کبھی مہربان نہیں ہوتی۔اپنے اندر سے تکبر ،خقارت،خودغرضی کو نکالو تب تم جانو محبت کیا ہے۔۔اس کی ماں نے آگے بڑھ کر اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر سمجھانے کی کوشش کی۔۔مگر اسنے ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ ان کے ہاتھوں سے چھڑاۓ تھے۔۔
میں خق نہیں رکھتی محبت پر تو کسی انسان کو محبت کرنے کا خق بھی نہیں دوں گی۔یہ بات سا سمجھ لو تو بہتر ہے۔۔انگلی اٹھا کر وارن کرتی وہ باپ کے پیچھے کھڑی عینا کی طرف بڑھی۔اسے بازو سے کھینچتی وہ کمرے کی طرف لے جانے لگی۔۔
ماں باپ کی لاکھ مزاحمت پر بھی اسے کوئ فرق نہیں پڑا تھا۔۔عینا کو کھینچ کر اس نے کمرے میں پھینک کر دروازہ لاک کر دیا۔۔
کسی نے اس عشق زادی کو یہاں کے نکالا تو نتائج کا ذمہ دار خود ہو گا۔۔چبا چبا کر کہتے دروازے کی چابی بیگ میں ڈالتی ٹک ٹک کرتی ہیل کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔۔
____________________________________________________________________________
اسلام علیکم۔اماں!! وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کی اماں کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی۔وہ آہستہ سے چلتا ہوا آیا اور پیچھے سے ان کی کمر میں ہاتھ ڈالا۔۔
سعدی میرا بچہ۔۔وہ خوشی سے پیچھے مڑیں۔سعدی کے ماتھے پر بھوسہ دیتے ان کے آنسو بہہ نکلے۔۔
اماں رو کیوں رہی ہیں جہاد سے تو آیا نہیں۔ان کے رونے پر پریشانی نے سعدی نے ان کے آنسو پونجے۔۔
سعدی کتنے مہینوں بعد دیکھا ہے تجھے میرا بچہ خوشی کے آنسو ہیں۔۔
افف اماں یہ أنسو آخر ہیں کیا چیز غم اور خوشی دونوں میں نِکل پڑتے ہیں۔آئ ڈونٹ انڈرسٹینڈ دِز تھیوری۔۔شرارت سے کہتا وہ انہیں ساتھ لیئے کچن سے باہر نکلا۔۔
یہ دانی نظر نہیں آ رہی۔۔
ہاسٹل میں ہے نا۔چھٹی نہیں ہوتی اسے اور تم بھی چلے جاتے ہو پیچھے مجھے اکیلا چھوڑ کر۔۔۔انہوں نے اپنا دکھڑا رویا۔۔
اماں کچھ پانے کے لیئے یہ سب تو سہنا پڑتا ہے جس دن میں اور دانی مشہور شخصیت بن جائیں گے تب آپ فخر کریں گی اس وقت پر۔۔
چل شودے۔اللہ تم دونوں کے خواب پورے کرے یہی دعا کرتی ہوں میں۔۔
اچھا یہ اماں بی کہاں ہے۔۔نظریں اِدھراُدھر دوڑاتے اس نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔۔
طبیعت خراب رہنے لگی ہے ان کی آرام کر رہی ہیں کمرے میں۔۔
او اچھا آپ جلدی سے کھانا بنائیں میں اماں بی سے مل کر دانی کو لینے جاؤں گا جتنے دن میں یہاں ہوں چھٹی تو کرنی پڑے گی اسے۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں کرے گی بیٹا اپنی پڑھائ اور کرئیر کے لیئے بہت سیرئیس ہے وہ بھلے اور باتوں میں سیرئیس نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں لے آؤں گا اماں میری صلاحیتوں سے بھی آپ واقف نہیں۔۔انگلی سے ان کی ناک چھوتا وہ مسکراتا ہوا اماں بی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔
اسے جاتا دیکھ کر وہ سرشاری سے مسکرا اٹھیں۔وہ خدا کا شکر ادا کرتیں تھیں کہ اتنی اچھی اولادیں ملی ہیں انہیں۔۔
مسکراتے ہوۓ وہ کچن میں چلی گئیں ابھی انہیں دانین اور سعدی دونوں کی پسند کے کھانے بنانے تھے۔۔
____________________________________________________________________________
محبت وہ پنجرہ ہے
جس میں ایک محبت زدہ
کو دنیا قید کر کے رکھتی ہے
جن شکاریوں کی فہرست میں
سرِفہرست سنو جاناں۔!!
ہمارے کچھ اپنے آتے ہیں
مجھے کوئ نکالو یہاں سے موم ڈیڈ پلیز۔۔وہ تین دن سے کمرے میں قید تھی اس کی ماں میں اتنی ہمت نہیں تھی بڑی بیٹی کے خلاف جا کر چھوٹی کی مخافظ بنتی۔۔
وہ رو رہی تھی چلا رہی تھی۔مگر سب بےسود تھا۔اس کی فریادیں سنتے اس کے ماں باپ بھی ہلکان ہو رہے تھے۔۔
مجھے نکالو میں مر جاؤں گی یہاں۔۔دروازہ پیٹتے پیٹتے وہ تھک گئ تھی دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔
مجھے یہاں سے نکلنا کچھ بھی کر کے۔امان سے کیسے کانٹیکٹ کروں میں۔۔وہ مسلسل بڑ بڑا رہی تھی۔۔
کہاں جا رہی ہو مینا۔۔سوٹ کیس دھکیلتی وہ ایک ہاتھ سے ہینڈ بیگ پکڑے جینز کے ساتھ سلیولیس بازوؤں والی شرٹ پہنے ٹک ٹک کرتی ہیلوں کے ساتھ کہیں جانے کو تیار تھی۔۔
بزنس میٹنگ ہے موم سنگاپور جا رہی ہوں تین دن کے لیئے۔۔رک کر ماں پر ایک نظر ڈال کر وہ باہر کی ظرف بڑھی۔۔
مینا سنو۔!! ماں کی آواز پر بےزاری سے منہ بناتی پلٹی۔۔کتنی بار کہا ہے موم مت جاتے ہوۓ پیچھے سے آواز دیا کریں۔۔
اتنے دور جا رہی ہو تو دل ڈر گیا تھا۔۔وہ ماں تھیں اور اولاد جیسی بھی ہو ماں کا پریشان ہونا اولاد کے لیئے فکر مند ہونا فطری ہے۔۔
پہلی بار نہیں جا رہی میں موم اور ڈیڈ اس سب کو سنبھالنے کے قابل ہوتے تو میں نہ جاتی۔۔اور تیسری بات عینا کو باہر کسی نے نکالا تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہو گا۔۔انتہائ بدتمیزی سے کہتی وہ ٹک ٹک کرتی باہر نکل گئ۔۔
کچھ دیر بعد مینا کی گاڑی کی آواز آئ گیٹ کھلنے پر زن سے گاڑی باہر نکلی۔۔
اس کی ماں نے اسے جاتے ہوۓ دیکھا اور بھاگ کر عینا کے روم کے پاس پہنچی۔ڈوبلیکیٹ چابی سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئیں۔۔
سامنے عینا بکھرے بالوں اور ملگجے حلیے کے ساتھ بیڈ کے پاس نیچے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی ۔دروازے کی آواز پر سر اٹھا کر اس نے دیکھا۔اس کی آنکھیں شدتِ گریہ زاری کی وجہ سے سرخ ہو کر سوجھ گئ تھیں۔اس کی ماں کا دل کٹ کر رہ گیا تھا اپنی لاڈلی کی حالت پر۔۔
عینا میرا بچہ۔۔وہ روتی ہوئ اس کی طرف بڑھیں عینا بھی ماں کی آغوش پا کر ان میں سمٹ گئ تھی۔۔
ماں مجھے نکالیں یہاں سے ۔میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔ماں کے سینے سے لگی وہ سسکیاں لے رہی تھی۔۔
کیسے بیٹا مینا کو جانتی ہوں کہرام مچا دے گی۔۔وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہیں تھیں۔۔
ماں پھر مار دیں مجھے اس کے ڈر سے۔۔ماں سے دور ہوتی وہ پھٹ پڑی تھی۔میری کوئ زندگی نہیں ہے ماما۔۔؟؟ہر فیصلے پر میں نے آپی کی طرف دیکھا مگر اب بس ہو گیا میری زندگی میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔۔
جاؤ جی لو اپنی مرضی سے میرا بچہ۔۔وہیل چیئر دھکیلتے اس کے ڈیڈ روم میں داخل ہوۓ۔۔۔
ڈیڈ۔۔وہ بھاگ ان کے گھٹنوں سے لگ کر بیٹھ گئ۔۔
جاؤ بیٹا مینا لوٹ آئ تو تم نہیں جا سکو گی وہ قیامت ہے تمہیں برباد کر دے گی تمہیں آباد نہیں ہونے دے گی۔۔تم چلی جاؤ اس کا کہرام ہم دیکھ لیں گے۔۔ڈیڈ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔عینا نے حیرانی سے ماں کی طرف دیکھا جنہوں نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔۔
تھینکس موم ڈیڈ یو آر بیسٹ پیرنٹس اِن ورلڈ۔۔ماں کے گلے لگ کر باپ کے سر پر بھوسہ دیتی وہ واش روم کی طرف بڑھی۔۔
منہ ہاتھ دو کر وہ باہر نکلی بالوں میں برش کر کے کیچر میں جھکڑا جوتے پہنے اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔
عینا۔۔باپ کی آواز پر وہ پلٹی۔۔جی ڈیڈ۔ ۔ وہ ان کے پاس زمین پر آ بیٹھی۔۔
یہ فون اور پیسے رکھو ضرورت پڑیں گے اور کہیں سیف جگہ پر پہنچ کر ہمیں انفارم کرنا۔۔انہوں نے عینا کا گال تھپتھپایا۔۔آئ لو یو موم اینڈ ڈیڈ۔۔مسکرا کر کہتے وہ فون اور پیسے اٹھا کر جینز کی جیب میں رکھتی باہر نکل گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____________________________________________________________________________
رات کی تاریکی ختم ہوئ تو صبح کے سورج نے چاروں طرف روشنیاں پھیلا دیں۔۔
اساور کی آنکھ کھلی تو وہ لاؤنج کے صوفے پر ہی سویا ہوا تھا۔آنکھیں ملتا وہ اٹھا ٹیبل سے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا۔۔
آفس کے لیئے بہت دیر ہو گئ اتنی دیر میں کیسے سوتا رہ گیا۔۔منہ پر ہاتھ ملتے وہ اٹھا تب ہی اس کی گود سے بوتل نیچے گِری تب اسے اپنے اتنی دیر تک سونے کی وجہ سمجھ آئ۔۔
یہ کیا کر دیا میں نے ڈرنک اوہ گاڈ۔۔ماتھے پر آۓ پسینے کے ننھے کو صاف کرتا وہ پشیمان لگ رہا تھا۔فرش پر پڑی بوتل کو اٹھا کر دیوار کے ساتھ پڑے ڈسٹ بن میں پھینکا۔۔
گھر کافی خاموش تھا سومو لوگ ابھی واپس نہیں آۓ تھے۔آفس جانے کے لیئے تیار ہونے کے ارادے سے وہ کمرے میں آیا۔مگر چاروں طرف پھیلی خاموشی کو دیکھ کر چونکا دانی کمرے میں نہیں تھی۔۔
کندھے اچکاتے وہ باتھ روم میں گھس گیا فریش ہو کر باہر نکلا تب بھی دانی کو نہ پا کر پرن ھوا۔۔
دانین دانین۔۔!!! وہ پورے گھر میں اسے پکار رہا تھا مگر جواب ندارد تھا۔۔کہاں چلی گئ۔۔کہاں ڈھونڈوں۔شائد سومو کے کمرے میں ہو۔۔وہ سومو کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔سامنے بیڈ پر سوئ دانین پر نظر پڑی تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ ۔۔
دانین دانین اٹھو۔۔اساور نے بازو سے پکڑ کر دانین کو جھنجھورا۔وہ ذرا سا کسمسائ۔ایک آنکھ کھول کر اساور کو دیکھا اور کروٹ بدل کر پھر سے آنکھیں بند کر دیں۔۔
دانین تم سے کہہ رہا ہوں اٹھو ناشتہ بنا کر دو۔۔اساور نے اب کی بار ذرا زور سے اس کا بازو کھینچا۔۔
کیا تکلیف ہے تمہیں۔وہ اٹھتے ہی زور سے چیخی۔اساور نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔مینرز نہیں ہیں تمہیں۔۔
ناشتہ بنا کر دو آفس جا رہا ہوں میں۔۔
یہاں سے سیدھے جاؤ دروازہ کھولو آگے سیڑھیاں ہیں انہیں پھلانگ کر جاؤ تو نیچے دروازہ ہے اسے کھولو دائیں ہاتھ پر فقیراں بی کا کواٹر ہے وہ جھاگ گئ ہوں گی ان کو بولو بنا دیں گی۔۔کہہ کر وہ کمبل سر تک تان کر پھر سے سو گئ۔جبکہ اساور حیران پریشان کھڑا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ دانین ہی ہے۔۔
اسے آفس سے دیر ہو رہی تھی اس لیئے ضبط سے مٹھیاں بھینچتا وہاں سے نکل گیا۔۔
دروازہ بند ہونے کی آواز پر دانین سے کمبل سے چہرہ نکال کر دروازے کی طرف دیکھا۔۔
بہت ہو گیا مسٹراساور اور نہیں اب تم نے حد حتم کر دی ہے۔ میں سب کچھ سہتی گئ کیونکہ تم سے مخبت کرتی تھی۔۔
ایک لڑکی اپنے سپنوں کے قاتل سے کبھی محبت نہیں کرتی۔میں تم سے نفرت نہیں کر سکتی مگر اب محبت بھی نہیں۔۔
بدلے کے قائل ہو تم لوگ اب میں بھی یہی کروں گی۔۔مظلوم نہیں ہوں میں ظلم نہیں سہوں گی بس۔ ۔۔منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے وہ دوبارہ سے آنکھیں موند گئ۔۔۔
میں نے تو صرف یہ چاہا تھا
کہ کوئی لمبی مسافت ہم دونوں
ایک دوسرے کے سنگ
ہنستے کھیلتے طے کریں
راستے میں کہیں مجھے ٹھوکر لگے تو
تم آگے بڑھ کر مجھے نہ تھامو
اور وہیں پاس بیٹھ کر ہنستے چلے جاؤ
اور میں تم سے روٹھ جاؤں
تو تم گلاب میرے بالوں میں لگا کر
میرا ہاتھ تھامے مجھے کھینچتے ہوۓ
اپنے ساتھ لے چلو
اور پھر ایک لمبی مسافت یوں ہی
ہنستے کھیلتے طے کر لیں
میں نے تو صرف یہ چاہا تھا
تم اور میں ایک دوسرے پر ہنسیں
راستے کے کانٹے میرے بالوں کو
خراب کر کے رکھ دیں تو
تم میرا مذاق اڑاؤ
میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا کہ
تم یوں سرِعام میرا مذاق اڑاؤ
مجھے اذیت کے سمندر میں دھکیل دو
میں نے صرف یہی تو نہیں چاہا تھا
تم ہاتھ تھامتے میرا
میرے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں
کی پوروں پر نرمی سے چن لیتے
میں نے تو صرف یہ چاہا تھا۔۔
____________________________________________________________________________
اماں میری پیاری اماں۔۔امان رخشندہ بھیگم کے گلے میں بانہیں ڈالتا ہوا پیار سے بولا۔۔
کیوں اتنا پیار آ رہا ہے ماں پر دال میں کچھ کالا ہے۔۔رخشندہ بھیگم نے مسکرا کر اس کے سر پر بھوسہ دیا۔۔وہ ان کا لاذلا بیٹا تھا جس کے لیئے انہوں نے ہزاروں منتوں کے بعد پایا تھا۔
اماں شادی کروا دیں میری۔۔وہ کان کجھاتا بولا تو رخشندہ بھیگم ہنستی چلی گئیں۔۔کیوں ہنس رہی ہیں ماما۔۔وہ برا مان گیا تھا۔۔
عمر دیکھی ہے تم نے شادی کے خواب دیکھ رہے ھو ۔ ۔۔۔انیس کا ہو گیا ہوں اماں پڑھائ میں پیچھے ہوں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ شادی کے قابل نہیں ہوں۔۔۔
پڑھائی میں پیچھے تو دوستی کے چکر میں رھ گۓ تم۔۔ہلکی سی چپت اس کے سر میں لگاتے انہوں نے کہا۔۔
اب دوست دو سال چھوٹا ہے اس میں میرا تو کوئ قصور نہیں ہے سعدی کے بابا کا قصور ہے جلدی شادی کرتے تو وہ میرا ہم عمر ہوتا۔۔شرارت سے کہتے اس نے سر رخشندہ بھیگم کی گود میں رکھ دیا ۔۔
جو بھی ہے شادی کا حیال دل سے نکال دو سائرہ کی شادی طے کر دی ہے اس پر دھیان دو۔۔۔
اماں۔۔وہ شکوہ کناں تھا۔۔
بس امان اور کوئ بخث نہیں۔۔وہ سختی سے بولیں تھی۔وہ جتنا اس سے پیار کرتی تھیں اتنی ہی سختی بھی وہ اسے بگاڑنا نہیں چاہتی تھیں۔اور وہ بھی ڈر جاتا تھا ان کی سختی سے جیسے اب ڈر گیا تھا۔۔
جی ماما۔۔مایوس چہرے کے ساتھ وہ ان کے کمرے سے باہر نکلا۔۔اس کے فون نے رِنگ کیا۔ان نون نمبر تھا۔۔وہ اگنور کرتا ہوا گھر سے نکل آیا۔۔
گاڑی میں بیٹھا تھا کہ موبائل دوبارہ رِنگ کرنے لگا۔۔
کون ہے۔۔؛؟؟فون کان سے لگاتے وہ بیزاری سے بولا تھا۔۔
اچھا کہاں ہو تم ۔۔۔پہنچتا ہوں میں۔کال منقطع کرتے اس نے گاڑی فل سپیڈ سے گیٹ سے باہر نکالی۔۔۔
____________________________________________________________________________
گاڑی ائیر پورٹ کے باہر رکی تھی۔ڈرائیور نے دوڑ کر اس کی طرف کا دروازہ کھولا۔پینسل ہیل پہنے ایک پاؤں اور پھر دوسرا پاؤں گاڑی سے باہر رکھتی بالوں کو اک ادا سے جھٹکتی وہ گاڑی سے باہر نکلی۔
اردگرد پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں پر سن گلاسز لگاۓ وہ تکبر سے چلتی ائیرپورٹ کی طرف بڑھی۔۔
اسلام علیکم میم۔۔!! اس کی سیکٹری اس سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔۔اب کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔
مسٹر اے۔کے نہیں پہنچے ابھی تک۔۔وہ پرغرور انداذ میں بولی۔۔
میڈم ان کو انفارم کیا تھا ان کی سیکٹری کہہ رہی تھی ان کو تھوڑی دیر ہو جاۓ گی۔۔
ہمم رائٹ۔۔وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئ۔سیکٹری اس کے رویے پر حیران ہوئ۔حیاسددوانی نے کبھی کسی کا انتظار کیا ہو بغیر ہنگامہ کیئے۔۔
میم میں انہیں بتا دوں آپ کو انتظار کرنا بلکل پسند نہیں۔۔
تم سے جتنا کہا جاۓ اتنا کرو ورنہ فارغ ہو تم۔گلاسز اتار کر ہاتھ میں پکڑتے تیز نظروں سے سیکٹری کو دیکھا جو گھبرا کر اب چپ چاپ کھڑی تھی۔۔
ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اے۔کے آتا ہوا دکھائ دیا۔حیا بےحود سی اسے دیکھے گئ۔۔بلیک تھری پیس سوٹ میں بالوں کو ہمیشہ کی طرح خوبصورت سٹائل سے موڑے بیلک سن گلاسز پہنے ہمیشہ کی طرح کلائ میں پڑی رسٹ واچ کو دوسرے ہاتھ سے گھماتا وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا۔حیا تو کھو گئ تھی اس میں۔۔
اکسکیوزمی مس حیا۔۔اے۔کے نے اس کے چٹکی بجائ تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئ۔۔
اوہ سوری مسٹر اے۔کے ہاۓ۔۔معزرت کرنے کے بعد اس نے جلدی سے ہاتھ مصافحے کے لیئے بڑھایا۔۔
ہاۓ ۔۔!! ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اے۔کے نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ سرسری سا تھام کر چھوڑ دیا۔۔۔
تھوڑا لیٹ ہو گیا میں سوری۔فلائیٹ کا اعلان ہوا تو وہ سوٹ کیس ٹرالی میں ڈالے آگے بڑھ گۓ۔۔۔
_______________________________