ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
ایکسرے ہو گیا ہو میرے چہرے کا تو تم سو سکتی ہو۔۔اپنے چہرے پر اس کی نظروں کی تپش وہ حاصی دیر سے محسوس کر رہا تھا۔۔
ایک بات پوچھوں اساور۔۔اس کی بات کو نظر انداذ کر چکی تھی وہ۔۔۔
ہاں پوچھو۔۔لہجہ سپاٹ تھا نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر جمی ہوئ تھیں۔۔
اتنی نفرت کیسے کر لی تم نے مجھ سے۔۔اساور کی کی بورڈ پر چلتی انگلیاں تھمی۔۔کمرے میں کچھ پل کو سکوت چھا گیا۔۔اور پھر کی بورڈ پر اس کی انگلیاں چلنے لگیں۔۔۔
اساور ۔ ۔ کمرے کے سکوت میں دانین کی نرم سی آواز گونجی۔۔کانپتے وجود کے ساتھ وہ اٹھی اور سر اساور کے کندھے پر ٹِکا دیا۔۔اساور نے چونک کر اسے دیکھا مانو وقت چند پل کے لیئے ٹھہر گیا۔۔
کیوں کرتے ہو اتنی نفرت تم نے کہا تھا ہمیشہ محبت کرو گے۔۔۔دانین کے أنسو تواتر سے بہتے ہوۓ اساور کے کندھے کو بھگو رہے تھے۔اساور کی نفرت جواب دے گئ آخر کب تک وہ خود سے لڑتا۔۔
اس کی آنکھ سے بھی ایک آنسو نکل کر گال پر آ ٹِکا۔۔اپنی انگلی کی پوروں سے اس کے آنسو بھرا چہرہ صاف کیا۔۔دانین نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔اساور کی آنکھوں میں کتنے عرصے بعد اس نے اپنے لیئے محبت دیکھی تھی۔۔
آنسو بھری آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ دوبارہ سے سر اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔۔
گال پر بہتے آنسو کو صاف کرتے اساور نے مسکراتے ہوۓ اپنا سر دانین کے سر پر ہلکے سے ٹِکا دیا۔۔اسے اپنےدونوں بازوں کے گھیرے میں لیا۔۔۔۔۔دونوں کے آنسؤ تواتر سے بہہ رہے تھے۔۔۔دانین کے لیئے تو یہ سب خواب و خیال ہو گیا تھا جو آج ہو گیا تھا۔۔
مگر یہ اختتام تھوڑی تھا یہ تو اذیتوں بھرے ایک اور راستے کا آغاز تھا۔۔
محبت اور نفرت ہر گزرتے دن کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور ان دو جذبوں کے اختتام کے مراحل وقوع پذیر نہیں ہوتے۔۔۔
________________________________________________________
ہاں یاد ہے وہ دوستی کا ہر مزہ
محبتیں وہ رونقیں وہ مستیاں
لگا کے شرط وہ زندگی کی پھر کوئی
جو وعدے کر لیے نہ ہوں گے ہم جدا کبھی
او میرے یارا تیری یاریاں
دل کی صدا
میری خوشیاں تو ساریاں
ہونگے نہ جدا
دل كا دل سے ھوا ہے "عہدوفا"
اوۓ خبیث کدھر ہے تیری سنڈریلا۔۔۔۔وہ چلتے چلتے ریسٹورینٹ کے پاس پہنچ گۓ۔۔سردی کی شدت بڑھ رہی تھی۔۔
یہیں ہو گی یار دیکھتے ہیں نا۔۔امان اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچنے لگا۔۔۔۔۔
کوئ بہت ہی نکما انسان ہے تو۔۔
وہ رہی عینا وہ دیکھ۔۔تھوڑے فاصلے پر کھڑی لڑکی کی طرف امان نے اشارہ کیا۔لہجہ خوشی کا غماز تھا۔۔
چل مجنوں مل آ لیلا سے تب تک میں پیٹ پوجا کر لوں۔۔اسے دھکیل کر وہ ریستوران کے اندر چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
ہاۓ۔امان بھاگ کر عینا کے پاس پہنچا جو ہاتھ میں برگر پکڑے کھاتے ہوۓ اپنی دوست سے مسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔۔
ہاۓ۔۔عینا نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا۔۔۔کیسے ہو۔۔
ایک دم پرفیکٹ۔۔امان بلش کر رہا تھا ہوٹل کی گلاس ونڈو سے دیکھ کر سعدی مسکرا دیا۔۔
برگر کھاؤ گے۔۔عینا نے آدھا کھایا برگر اس کی طرف بڑھیا جسے اس نے مسکراتے ہوۓ پکڑ لیا۔اور آنکھ کے اشارے سے عینا کو کچھ کہا۔۔
اس کا مطلب سمجھ کر عینا نے پاس کھڑی اپنی دوست کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکراتے ہوۓ ہوٹل کی طرف بڑھ گئ۔۔۔
کیا تھا یہ ہاں کب سے کھڑی ہوں میں تم اب آ رہے پتہ نہیں ہے کتنی ٹھنڈ ہے جم گئ ہوں میں۔۔عینا اب اپنی جون میں لوٹ آئ تھی تیزی سے ہاتھ اٹھا کر امان کی طرف بڑھی۔۔۔
آئ ایم سو سوری یا وارڈن بہت کڑکدار انسان ہے اس لیئے دیر ہو گئ۔۔اس کے حملے سے بچنے کے لیئے وہ تھوڑا جھک کر سائیڈ پر ہو گیا۔۔
سوری مائ فٹ۔۔وہ غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی۔۔
عینا میری پیاری عینا معاف کر دو پلیز۔ ۔ امان نے معصوم سی شکل بنائ تو عینا کی ہنسی نِکل گئ۔۔
اچھا بس کرو اب ڈرامہ کنگ وہ میں کل اسلام آباد واپس جا رہی ہوں شفٹ ہو رہے ہیں ہم لاہور تو بہت کام ہے پیکنگ وغیرہ۔۔۔
واؤ مطلب ہمارے لاہور یاہو مزا آ گیا فاصلے ختم ہوۓ۔۔امان کی خوشی کی کوئ انتہا نہ تھی۔۔
ہاں نہ میں بھی تبھی بہت خوش ہوں اور لاہور شفٹ ہو جائیں پھر آپی کو تمہارے بارے میں بتاؤں گی۔۔۔عینا کے چہرے سے خوشی اور امان کے لیئے محبت صاف دِکھ رہی تھی۔۔۔
ہاں اور وہ۔ ۔ ۔ اوۓ مانی۔۔سعدی کی آواز پر اسے اپنی بات پیچ میں چھوڑنی پڑی۔۔
کیا ہے۔۔وہ کھا جانے والے لہجے میں بولا۔۔
مسٹر عاشق باقی کا ادھار رکھو قسطوں میں کر لینا ابھی چلو وارڈن کو لگ گیا پتہ تو ساری عاشقی ناک کے ذریعے بہہ جانی ہے۔۔۔۔سعدی چبا چبا کر بولا۔۔
آتا ہوں کباب میں ہڈی ۔۔۔امان نے آنکھیں نکال کر اسے غصے سے دیکھا۔۔۔
ٹھیک ہے عینا چلتا ہوں ۔۔۔بجھے چہرے کے ساتھ عینا کو اللہ خافظ کہہ کر سعدی کی طرف بڑھا۔۔
ویسے کسی بہت ہی نکمے عاشق کی روح گھس گئ ہے تیرے اندر یا پھر رانجھے کا دوسرا جنم ہے تو۔۔۔سعدی نے منہ پھلا کر چلتے سعدی کو مزید چھیڑا۔۔۔
عشق کے دشمن خود تجھے کوئ پسند نہیں آتی میری دال بھی نہیں گلنے دیتا۔۔۔امان نے اسے ایک زوردار مکہ مارا۔۔
افف کتنا بھاری ہاتھ ہے تیرا۔اور باۓ دب وے کس نے کہا مجھے کوئ پسند نہیں ہے۔۔۔اپنا کندھا سہلاتے ہوۓ وہ مسکرایا۔۔
ہیں یہ معجزہ کب ہوا اور وہ خوش قسمت ہے کون جو اس عشق بیزار انسان کو پسند آ گئ۔۔امان حیران ہوا تھا۔۔
ہر چیز کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے اور مقررہ وقت پر ہی ہر شے اچھی لگتی ہے دل کو دل کی طرح ٹریٹ کر کنٹرول بٹن نہ بنا۔۔۔اس کی بات کو اِدھر کرنے کی کوشش کی اس نے۔۔
بات مت گھما افلاطون کی اولاد کس کی بات کر رہا ہے وہ بتا۔۔امان کو تجسس ہو رہا تھا۔
کہا نہ ہر شے اپنے وقت پر بتائ جاۓ تو ہی اچھی لگتی ہے۔۔وقت آنے پر بتا دوں گا۔۔۔
چل دفعہ ہو سسپینس پیدا کر رہا ہے۔۔امان کو غصہ چڑھ گیا تھا۔۔
سسپینس کو چھوڑ جلدی چل جہاں داد صاحب کو پتہ لگ گیا نہ تو پھر وہ مار ماریں گے کہ ہم دوبارہ پیدا نہ ہو پائیں گے۔۔ سعدی نے اسے وقت کی نزاکت کا احساس دلایا اور حوف بھی۔۔
سہی کہہ رہا ہے جلدی کر۔۔۔امان کو بات سمجھ آ گئ تھی۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ تیز تیز چلنے لگے تا کہ جلد سے جلد پہنچ جائیں۔۔
________________________________________________________
کہانی گر!
بتاو ناں ،تمہیں کچھ ربط میں بخشوں__؟؟
خرابان محبت کی
غم ہجراں سے نسبت کا
اگر دوں آگہی تم کو
کہیں کچھ پھول کانٹے ،سیپ موتی،اشک میں سونپوں
دریدہ دل کی وحشت تک رسائی تم کو باہم دوں
کہو تم مان تو لو گے جو میرے روگ ہیں کاری
فراق یار میں الفاظ میں جو کہہ نہیں سکتا
میرے کچھ زخم ایسے ہیں جنہیں میں سہہ نہیں سکتا
میرے حرف عقیدت کو کوئی پھلواری بخشو گے___؟؟
میرے اس درد و درماں کو کہیں دلداری بخشو گے___؟؟
یہ تانے بانے لفظوں کے میرے بس میں نہیں آتے
مجھے لکھنا نہیں آتا،مجھے لکھنا اگر آتا
اسے میں قید کر لیتا،غزل کہتا ،نظم کہتا
میں کچھ بھی بحر چنتا مقطع و مطلع بنا لیتا
اسے دیتا غزل کا روپ ٹھمری سجا لیتا
نظم کہتا کوئی جس میں وصل جز لازمی ہوتا
سطور حد میں جذبوں ک تلاطم بیکراں ہوتا
سنو پیارے!
سنو محرم!
میرے پیارے کہانی گر
تم اب کی بار یوں کرنا
کہانی کچھ بھی لکھ دینا
قبل کچھ پل ختم شد سے
اسے میرا بنا دینا__!!
آپ ویٹ کریں میں آتا ہوں۔آ رہا ہوں نا بیٹا۔۔اے۔کے نے مسکراتے ہوۓ کال منقطع کر کے موبائل پاکٹ میں ڈالا کہ گاڑی ایک جھٹکے سے بند ہو گئ۔۔۔
کیا ہوا سعید ۔۔!! اس نے ڈرائیور سے پوچھا جو گاڑی سٹارٹ کرنے کی بھرپور کوشش میں تھا۔۔
پتہ نہیں صاحب لگتا ہے انجن بند ہو گیا ہے میں دیکھتا ہوں۔ڈرائیور گاڑی سے نکل کر انجن چیک کرنے لگا۔۔گلاسز پہنتے وہ بھی گاڑی سے نکلا اور سڑک پر اکا دکا جاتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔۔
صاحب انجن بند ہو گیا ہے مکینک کے پاس لے جانا پڑے گا۔۔۔ڈرائیور نے گاڑی چیک کر لی تھی۔۔۔
ہمم میں کیب منگوا لیتا ہوں تم ورکشاپ لے جانا گاڑی کو ۔۔اے۔کے نے کیب منگوانے کے لیئے موبائل پاکٹ سے نکالا۔ابھی وہ کال ملانے کی لگا تھا کہ اک گاڑی زن سے پاس سے گزری پھر ریورس لے کر پاس آ کر رُک گئ۔۔اے۔کے نے حیرانگی سے گاڑی کی طرف دیکھا۔۔
ہاۓ مسٹر اے۔کے ۔۔کھڑکی کا شیشہ نیچے ہوا تو سامنے حیا سدوانی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تھی۔۔
ہاۓ مِس حیا۔۔
Can I help you۔۔??حیا سدوانی اپنے محسوس پرغرور انداذ میں مسکرا کر بولی۔۔۔
No thanks,اے۔کے نے مسکرا کر کہا اور کیب کمپنی کو کال کرنے لگا ۔ ۔
یقیناً آپ کی گاڑی خراب ہو گئ ہے میں آپ کو چھوڑ دیتی ہوں پلیز منع مت کیجیئے گا۔۔۔
نہیں مِس حیا شکریہ آپ زحمت مت کریں۔۔۔
زحمت کیسی ہم بزنس پارٹنر بننے والے ہیں اتنا تو کر سکتی ہوں پلیز۔۔۔۔
اوکے ۔۔اے۔کے ڈرائیور کو کچھ ضروری ہدایات دیتا ہوا فرنٹ ڈور اوپن کر کے بیٹھ گیا۔۔اس کے بیٹھتے ہی حیا گاڑی زن سے آگے بڑھائ۔۔
آپ کو out of the way تو نہیں پڑے گا ناں۔۔
نہیں اے۔کے آپ کے گھر سے تین چار گھر چھوڑ کر ہی میرا گھر ہے۔۔حیا سدوانی مسکرائ تھی اے۔کے نے اس وقت اقرار کیا بےشک حیا سدوانی مسکراتے ہوۓ بہت دلکش لگتی ہے۔۔۔۔
اچھا پچھلے ماہ آپ لوگ شفٹ ہوۓ ہیں صدیقی صاحب کے گھر۔
یس باس۔۔
ہممم گُڈ۔۔کون کون ہے فیملی میں۔۔
ڈیڈ موم چھوٹی بہن اور میں بس مختصر سی فیملی ہے۔۔۔
اوکے۔۔ ۔
اور آپ کی فیملی میں کون کون ہے۔۔۔
میری۔ ۔ ۔ اسی وقت اے۔کے کا فون رِنگ کرنے لگا۔۔اے۔کے نے بات ادھوری چھوڑ کر کال پِک کی۔۔
ہیلو آفت کی پُریا۔۔۔وہ مسکرایا۔۔
ہاں نا آؤں گا ہر بار تو آتا ہوں پھر بھی بھروسہ نہیں کرتی ہو۔۔۔حیا نے دیکھا کال پر بات کرتے ہوۓ وہ ہمیشہ سنجیدہ رہنے والا شخص کھلے دل سے مسکرا رہا تھا۔۔اس کی خوشی بتا رہی تھی کسی بہت اپنے کا فون ہے۔۔حیا کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہوئ۔۔اسے شدید گرمی محسوس ہونے لگی دل حسد کی آنچ پر پک رہا تھا اس سا۔۔
اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی مگر مقابل کے پھیلتی مسکراہٹ میں کوئ فرق نہ آیا۔۔
وہ ابھی بھی مسکرا مسکرا کر بات کر رہا جو حیا سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔
میں اتنے سال سے اپنے دل میں پنپتی اس محبت کو اتنی آسانی سے کسی کو نہیں دے دوں گی کبھی نہیں۔۔وہ ضبط کرتی ہوئ سوچ رہی تھی۔۔
تم میرے ہو اے۔کے ازل سے ابد تک۔۔۔حیا نے فصے کی شدت سے موڑ کاٹتے ہوۓ گاڑی کو اک زوردار جھٹکا دیا۔۔گاڑی بےقابو ہوتی ہوئ درخت سے جا ٹکرائ۔اک زوردار آواز گونجی اور پھر سکوت چھا گیا ۔
موبائل اے۔کے کے ہاتھ سے دور جا گِرا تھا سر ونڈو کے شیشے سے ٹکرایا۔۔
حیا اسٹیرنگ پر سر سے بہتے حون کے ساتھ بےہوش ہو گئ تھی۔۔
ایکسیڈنٹ اتنا زوردار تھا کہ اے۔کے بھی توازن قائم نہ رکھ پایا تھا۔ سر شیشے سے اتنے زور سے ٹکرایا کہ کانچ اس کے سر میں لگے۔۔
بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے دیکھا گاڑی سے اتر کر کچھ لوگ پریشانی سے ان کی مدد کو پہنچے۔۔۔۔
________________________________________________________
تمہارے پاس ہونے سے
تمہارے پاس ہونے سے
میری دھڑکن میں یہ کیسی
عجب سی انتشاری ہے
عجب سی روح میں بیچینیاں ہیں
جانے کیوں ہر دم
تمہارے پاس ہونے سے
میرے لب
مسکراتے ہیں
یہ آنکھیں بولتی ہیں کیوں
صدا دھڑکن کی مجھ کو کیوں
عجب بے ربط لگتی ہے
تمہارے پاس ہونے سے
محبت جاگ اٹھتی ہے
رات کا اندھیرا غائب ہوا تو سورج نے اپنی کرنیں پھیلائیں۔صبح کی روشنی چار سو پھیل گئ۔۔سائیڈ ٹیبل پر پڑا الارم بجا تو اساور آنکھیں ملتے ہوۓ اٹھنے لگا تھا کہ نظر بازو پر سر رکھ کر سوئ دانین پر پڑی۔ہونٹوں پر بےاختیار ایک مسکراہٹ دور گئ۔نرمی سے دانین کے پٹی ہوۓ سر کو اپنے بازو سے ہٹا کر تکیہ پر رکھا۔
نظریں ٹھہر گئ تھیں اس پر وہ سوتے ہوۓ بہت اچھی لگتی ہے اتنے عرصے میں اس نے غور ہی نہیں کیا تھا۔
ٹائم دیکھتا وہ مسکراتا ہوا واش روم میں گھس گیا۔تھوڑی دیر نہا کر نکلا۔گیلے بالوں کو ٹاول سے سکھاتا وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تھا۔
شادی کے بعد آج پہلی بار وہ ہلکا پھلکا ہوا تھا آج اس کے دل میں نفرت بدلہ بغص کچھ بھی نہ تھا۔۔۔اور شادی کے بعد آج پہلی بار تھا اس نے دانین کو وخشیانہ انداذ میں نہیں اٹھایا تھا۔۔
آفس کے لیئے وہ تیار ہو چکا تھا۔جاتے جاتے وہ واپس پلٹا اور سوئ ہوئ دانین کے سائیڈ پر بیٹھ گیا۔۔
وہ شرمندہ تھا اس نے کیوں اتنا برا سلوک کیا اس کے ساتھ۔قصور اس کا توکچھ بھی نہ تھا۔۔
ہاتھ بڑھا کر چہرے پر پڑی اس کے بالوں کی لِٹ کو پیچھے کیا۔۔نظریں دانین پر ٹِکی ہوئ تھیں۔۔
کمرے کا سکوت موبائل کی رِنگ ٹون نے توڑا ۔اساور نے دانین سے نظریں ہٹا کر پاکٹ سے موبائل نکالا مگر اس کے موبائل پر کوئ کال نہیں تھی۔
اس نے خیرانی سے اِدھراُدھر دیکھا تو آواز ڈریسنگ کے دراذ سے آ رہی تھی۔۔وہ خیرانی سے ڈریسنگ کی طرف بڑھا۔۔دراز کھول کر موبائل نکالا ۔۔ موبائل کی سکرین پر سعدی کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔اساور کے چہرے کے تاثرات پتھر ہوۓ۔لب بھینچتے ہوۓ اس نے کال پِک کر کے موبائل کان سے لگایا۔
ہیلو دانی میری بات سنو بہت ضروری بات کرنی ہے مجھے تم سے۔فوراً پی سی ہوٹل پہنچو جہاں ہم پچھلی بار ملے تھے ۔کال پِک ہوتے سعدی بغیر یہ جانے کے سامنے کون ھے تیزی سے بولتا چلا گیا۔
سعدی کی آخری بات پر اساور نے غصے بھری نظروں سے سوئ ہوئ دانین کو دیکھا۔
تھوڑے دیر پہلے کی مسکراہٹ محبت سب کافور ہوئ۔ہاتھ میں پکڑا دانین کا موبائل زور سے دیوار پر دے مارا۔
آواز سن کر دانین ڈر کر اٹھ بیٹھی تھی اور ناسمجھی سے غصے سے لال پیلے ہوتے اساور کو دیکھ رہی تھی۔
تمہیں پتہ تھا کہ سعدی کہاں ہے۔۔اساور غرایا۔
نن نہیں مم مجھے تت تو نہیں پتہ۔دانین اٹک اٹک کر بولی۔
تمہیں پتہ تھا وہ کہاں ہے پھر بھی میں نے سارے جہاں کی خاک چھانی ہے اسے ڈھونڈنے کو ۔۔اب کی بار اساور زور سے چلایا تھا۔کھینچ کر گلے سے ٹائ کو نکال کر صوفے پر اچھال دیا۔
تو کیا کرتی تمہیں بتاتی کہ جاؤ مار دو میرے بھائ کو۔۔دانین سہمی سہمی سی بولی۔۔
تم میری آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی تم مل کر بھی آئ ہو اسے پی سی ہوٹل میں۔۔وہ غصے سے دانی کی طرف بڑھا ۔دانین کے کھلے بالوں کو اپنے ہاتھ کی مٹھی میں جھکڑا۔۔دانی کے سر میں درد کی شدید ٹیس اٹھی۔۔
اساور بخش دو اسے وہ بےچارا اپنی بےگناہی کے ثبوت ڈھونڈنے کو در در بھٹک رہا ہے میرا بھائ ہے وہ بخش دو اسے۔۔بےبسی سے کہتے ہوۓ دانین کی ہلکی سی سسکی نکلی مگر سامنے والے کو کوئ پرواہ نہیں تھی۔
نہیں ہے وہ بےگناہ اور اسے بخش دیا جاۓ اس لیئے کہ وہ تمہارا بھائ ہے جسے اس کمینے نے مارا تھا وہ نہیں تھا بھائ کسی کا اس سے کوئ پیار نہیں کرتا تھا کیا۔؟ہمارا امان تھا وہ دل کا ٹکڑا تھا وہ ہمارے۔۔اساور نے اس کے بالوں پر گرفت بڑھا دی ۔دانین درد کے مارے بےخال ہو رہی تھی۔۔
دانین کو زخم دے کر پھر انہیں زخموں کو ناسور کرنے والا اساور کاظمی تھا وہ۔۔
اساور مجھے درد ہو رہا ہے۔۔درد سے بےخال وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔۔
درد تمہارا درد مائ فُٹ۔۔بےدردی سے اسے دھکیل کر وہ الماری کی طرف بڑھا۔
آج امان کا قاتل مرے گا جس پی سی ہوٹل میں اپنی زندگی بچانے کی پلاننگ کرتا ہے اسی ہوٹل سے اس کی لاش نکلے گی۔الماری سے پسٹل نکالے وہ دروازے کی طرف بڑھا۔۔
نن نہیں اساور نہیں۔۔دانین نے بھاگ کر اس کا راستہ روکا ۔
دانین ہٹو میرے راستے سے۔ ۔۔وہ چلایا ۔
میں آئ ہوں نا قصاص میں ۔بدلے میں لاۓ ہو مجھے تم نا جو کرنا ہے مجھے کرو ۔مم مجھے مار دو۔۔دانین نے اس کے ہاتھ میں پکڑی پسٹل کا رخ اپنی طرف کیا۔۔جسے اساور نے کھینچ کر پیچھے کر دیا۔۔
مجھے مارو اپنے اندر جلتے اس بدلے کے الاؤ کو ٹھنڈا کرو مگر تمہیں رب کا واسطہ ہے سعدی کو بخش دو۔۔وہ اس کے قدموں میں بیٹھتی چلی گئ۔۔
مجھ پر اب نہ واسطے اثر کرتے ہیں نا تمہارے یہ آنسؤ۔مجھے فرق پڑتا ہے تو اس چیز سے کہ میرے امان کا قاتل ابھی تک زندہ کیوں ہے۔۔پاؤں کی ٹھوکر سے اساور نے اسے دھکیلا۔اور ہاں آنسو بچاؤ بھائ کی میت پر کام آئیں گے تمہارے۔۔جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہ باہر نکل گیا۔
دانین کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے کیسے بچاۓ وہ اپنے بھائ کو۔۔وہ خود کو بہت بےبس محسوس کر رہی تھی۔۔
اسے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔گھٹنوں پر سر رکھ کر وہ بےبسی سے روتی چلی گئ۔۔
________________________________________________________
زلفیں وہ نرم رات سی بکھری ہیں ناز سے
اور رات میں ستارے نگہ دلنواز کے
تاروں کے آس پاس ہیں چندا سے گال دو
چندا کے درمیان وہ نقطے سے خال دو
اور گال کے کنارے گلابی گلاب سے
دو ہونٹ تو نہیں ہیں، یہ پیالے شراب کے
اور ہونٹ یوں پیوستہ، زمین و فلک ملے
ہونٹوں کے بیچ گویا ہیں چمپا کے گل کھلے
مسکان سے چمن میں بھی پھولوں کے رس پڑے
چھو لے اگر یہ ہونٹ تو شبنم بھی ہنس پڑے
تعریف کیا بیان ہو قامت کی چال کی
موسم بہار چلتی ہوا ہے شمال کی
کیسی کلائی اس کی، چنبیلی کی ڈال سی
کیسی تپش ہے سانس میں، سردی میں شال سی
پیکر کا رنگ ایسا کہ ابٹن میں دودھ ہے
اور اس کی ہر طرف میں سلگتا سا عود ہے
نازک کمر کے خم سے ہواؤں میں بل پڑے
پاؤں کے چومنے کو تو پتھر بھی چل پڑے
سینے کی دھڑکنوں سے طلاطم فضا میں ہے
صندل مثال مہکا تنفس ہوا میں ہے
پلکوں کے زیر وبم سے نظاروں میں نور ہے
دیکھیں اگر وہ آنکھیں تو بڑھتا سرور ہے
ہر پرت کھل چکی ہے یوں پیکر جمال کی
تجسیم ہو رہی ہے وہ صورت خیال کی
اماں کیوں نہیں بتا رہیں آپ مجھے میرا دل بیٹھا جا رہا ہے اماں۔۔ڈی۔جے ہوسٹل میں تھی جب بسے اے۔کے کے ایکسیڈنٹ کی خبر ملی۔تب سے وہ روۓ چلی جا رہی تھی۔۔
بیٹا وہ ٹھیک ہے تھوڑی سی چوٹ آئ ہے اسے بس۔۔راشدہ بھیگم نے اسے تسلی دی۔۔
اماں ٹھیک ہے تو بات کروائیں میری اس سے۔۔ڈی۔جے بضد تھی جب تک اس سے بات نہیں ہوتی وہ روۓ چلی جاۓ گی۔
ڈی۔جے پتر ہر بات میں ضد نہیں کرتے وہ دوائیوں کے زیرِاثر ہے ۔آپ کی بچگانہ بات مان کر میں اس کی طبیعت خراب کر دوں کیا۔۔؟؟اس بار راشدہ بھیگم نے ذرا غصے سے کہا۔۔
اماں غصہ کیوں کر رہی ہیں۔۔
غصہ نہیں کر رہی میرا بچہ بس کچھ باتیں آپ سمجھتے ہوۓ بھی نہیں سمجھتیں۔آپ بڑی ہو گئ ہو اب بڑوں کی طرح ری ایکٹ کرنا سیکھو۔۔راشدہ بھیگم نے محبت سے اسے سمجھایا اب۔۔
اماں وہ جاگے تو میری بات کروائیں گی نا۔۔ڈی۔جے نے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا۔۔
ہاں میرا بیٹا ابھی آپ پڑھو وہ جاگتا ہے تو بات کرواتی ہوں ۔۔اس کے بچگانہ لہجے پر راشدہ بھیگم مسکرا کر رہ گئیں۔۔
اللہ خافظ اماں۔۔ڈی۔جے نے موبائل ٹیبل پر رکھا اور پھر سے زور زور سے رونے لگ گئ۔اب جب تک وہ اے۔کے سے مل نہ لیتی بات نہ کر لیتی اسے سکون نہیں ملنا تھا۔۔
________________________________________________________
ایکسیڈنٹ کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا۔۔ایکسیڈنٹ شدید تھا مگر معجزاتی طور پر حیا اور اے۔کے کو ذیادہ چوٹیں نہیں آئیں تھیں۔۔
سر پر چوٹ کے باعث وہ دونوں بےہوش ہو گۓ تھے۔۔
حیا سدوانی کو ڈسچارج کیا جا چکا تھا جبکہ اے۔کے ابھی تک ہسپتال میں ہی تھا۔معمولی سا ہاتھ کا فریکچر تھا۔جس کا علاج ہو رہا تھا۔۔
شام تک اسے بھی ڈسچارج کیا جا چکا تھا۔
________________________________________________________
آپی دھیان سے گاڑی ڈرائیو کرنی چاہیئے تھی آپ کو دیکھیں کتنی چوٹیں لگوا لیں آپ نے۔۔حیا کی چھوٹی بہن فکرمندی سے بولی۔۔
او پلیز تم چھوٹی ہو تو چھوٹی رھو ماں مت بنو میں ہر شے کو سمجھتی ہوں تم مت سمجھاؤ مجھے۔۔حیا بیڈ پر لیٹتے ہوۓ نخوت سے بولی۔۔
آپی مجھے فکر تھی آپ کی۔۔اس کا لہجہ بھرا گیا تھا۔۔
مجھے ضرورت نہیں ہے تمھاری فکر کی اور تنگ مت کرو دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔حیا نے تیز لہجے میں کہا تو وہ بےچاری آنکھوں سے بہتے آنسووں کو صاف کرتی کمرے سے نکل گئ۔۔
وہ حیا سدوانی تھی اپنے سامنے کسی کو ٹِکنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔تکبر فخر کا ملاپ تھی وہ۔۔
خود سے ہر شخص کو کمتر سمجھا اس نے۔
صرف ایک اے۔کے تھا جس کے سامنے وہ اپنی سیلف ریسپیکٹ تک کو داؤ پر لگا سکتی تھی۔
اے۔کے بقول اس کے محبت تھا اس کی شدید جنوں دیوانگی سے بھی بڑھتی ہوئ محبت۔ ۔
مگر وہ کسی اور کو چاہے یہ وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی تبھی تو خود کو اور اس کو زخمی کر پیٹھی تھی۔ ۔
تم میرے ہو اے۔کے صرف میرے تمہیں خاصل کرنے کے لیئے سب کچھ کروں گی سب کچھ۔چاہے مر جاؤں یا مار دوں۔۔وہ خطرناک ارداوں کے ساتھ مسکرائ۔۔
جس سے بات کرتے تمہارے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوتی اسے ذھونڈوں گی اور پھر تمہاری زندگی سے بہت دور بھیج دوں گی۔۔وہ خودکلامی کرنے لگی۔۔
آنکھوں میں اے۔کے کے لیئے شدت اور دیوانگی صاف دِکھ رہی تھی وہ دیوانگی جو خطرناک سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔۔
مسکراتے ہوۓ اس نے سر بیڈ سے ٹِکا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔
________________________________________________________
سومو سومو۔۔وہ گِرتے پڑتے سومو کے روم تک پہنچی۔۔رات بھر کی جاگی سومو اس کے اس طرح ہلانے پر ہربڑا کر اٹھ بیٹھی۔ ۔
چچی کیا ہوا آپ اتنا گبھرائ ہوئ کیوں ہیں۔۔دانین کو اس حال میں دیکھ کر وہ بھی ڈر گئ تھی۔۔
سومو وہ اسے مار دے گا۔۔دانین خواس باختہ سی بولی۔۔
کون کسے مار دے گا۔۔سومو ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔
مجھے اسے بتانا ہو گا۔۔
چچی آپ پہلے پانی پئیں ریلیکس ہوں پھر بتائیں۔۔سومو نے پانی کا گلاس بسے پکڑایا جسے وہ ایک ہی سانس میں پی گئ۔۔
اب بتائیں کیا ہوا ۔شب خوابی کے لباس میں ملبوس سومو نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور دانین کے برابر میں بیٹھ گئ۔۔
سعدی پی سی ہوٹل میں ہے۔اس نے مجھے بلایا تھا ملنے شاید ۔فون اساور نے اٹھایا ہے۔۔آنسو پونجتی وہ بولی۔ہچکیاں اب بھی جاری تھیں۔۔
پھر ۔
اساور کو پتہ چل گیا سعدی وہاں ہے۔۔
اوہ میرے خدایا پھر۔۔سومو کو لگا اس کا دل بند ہو جاۓ گا۔۔سر ہاتھوں میں گِرا کر بےبسی سے وہ دانین کو سننے لگی۔۔
اساور پسٹل لے کر گیا ہے۔کہہ رہا تھا آج پی سی ہوٹل سے لاش نکلے گی سعدی کی۔سعدی زندہ نہیں نکلے گا۔۔
واٹ ہمیں سعدی کو انفارم کرنا ہوگا اس سے پہلے کے چکس پہنچ جائیں وہاں۔۔سومو نے تیزی سے موبائل نکالا اور سعدی کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔۔مگر موبائل بند آ رہا تھا۔۔
دانین کے آنسوؤں نے گردن تک بسے بھگو دیا تھا۔۔سومو کے ہاتھ کانپ رہے تھے ماتھے پر گھبراہٹ کے مارے پسینے کے ننھے قطرے چمک رہے تھے۔۔۔
کیا ہوا سومو۔۔
فون بند آ رہا ہے اس کا۔۔
کہیں اساور پہنچ تو نہیں گیا۔۔دانین نے اپنا ڈر ظاہر کیا۔۔
ننن نہیں چچی اچھا اچھا بولیں۔۔میں ریسیپشن پر کال لگاتی ہوں۔سومو جلدی سے ہوٹل کا نمبر ملانے لگی۔۔
دو تین گھنٹیوں کے بعد فون ریسیو کر لیا گیا۔۔
اسلام علیکم۔۔؛!!
جی وہاں کوئ سعدی رانا آئے ہیں۔۔سومو پرامید تھی وہ سعدی کو بچا لے گی۔۔
کیا۔۔۔؟؟
______________________