دانین کچن میں کھڑی زارا کے لیئے نوڈلز بنا رہی تھی تبھی وہ ٹک ٹک کرتی ہیلوں کے ساتھ منہ پر ڈھیروں میک اپ لگاۓ کچن میں داخل ہوئ۔۔
اک ناگوار نظر دانین پر ڈالی جس نے اس کے آنے کا کوئ حاص نوٹس نہیں لیا تھا۔۔
سنو۔۔!! اس نے دانین کو پکارا تو اک پل کو دانین نے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر سے مصروف ہو گئ ۔۔
میں اور اساور لانگ ڈرائیو پر جا رہے ہیں تو مجھے کہیں بھی جانے سے پہلے چاۓ پینے کی عادت ہے تو جلدی سے بنا دو۔۔اس نے حکم صادر کیا تھا۔۔
"اکسکیوزمی۔۔دانین نے آئ برو اوپر کر کے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
میں نے کہا چاۓ بنا کر دو۔۔مقابل پر اس کی تیکھی نظر کا کوئ اثر نہ ہوا تھا۔۔
میڈم ہاتھ پیر سلامت ہیں تمہارے خود بناؤ مجھ سے بنوانی ہے تو پہلے معذور ہونا پڑے گا ۔اوہ ذرا سمجھاؤ اسے سائرہ مجھ سے جی خضوری کی توقع رکھنے والے کئیں کئیں مہینوں تک چل نہیں پاتے۔۔دانین نے سامنے سے آتی سائرہ کو دیکھ کر طنزیہ انداذ میں کہا۔۔
سائرہ پہلو بدل کر رہ گئ۔۔
چھوڑو اسے تم ملازمہ سے کہہ دو بنا دے گی ویسے بھی تم سے جلن اس کی آنکھوں میں دِکھ رہی ہے اور بھلا سوتن کو بھی کوئ چاۓ بنا کر دیتا ہے۔تم نے اس سے میاں چھینا ہے اس کا چچچ بےچاری ٹوٹی ہوئ ہے۔۔۔سائرہ نے بھی کوئ ادھار نہ رکھا تھا۔۔
افف جو چیز آپ کے استعمال میں رہ چکی ہو بعد میں چاہے کسی کی بھی ہو جاۓ فرق نہیں پڑتا اور یہ انسانی فطرت کی مسلمہ حقیقت ہے جو چیز دسترس میں رہی ہو اس سے حاصل شدہ تسکین ختم ہوتے ہوتے ختم ہو ہی جاتی ہے۔۔
جلنا تو اسے چاہیئے دانین کی اترن ہے اس کے پاس۔
اور ویسے بھی دانین بزدل لوگوں میں انٹرسٹ نہیں رکھتی۔۔۔
جواب دانین کی بجاۓ سومو نے دیا تھا جو اب کچن ٹیبل کے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھی سیب کی بائٹس لے رہی تھی۔
آخری بات اس نے سیڑھیوں سے اترتے اساور کو دیکھ کر کہی تھی۔۔
جسے اس نے بآسانی سنا تھا۔۔
سائرہ نے ایک نفرت انگیز نظر دانین اور سومو پر ڈالتی وہاں سے چلی گئ۔۔
چلیں۔۔اساور کا بازو پکڑ کر اس نے پوچھا۔۔دانین رخ موڑ چکی تھی جبکہ دانین آنکھوں میں تمسخر لیئے اساور کو ہی گھور رہی تھی۔۔
ایک اچٹتی نظر رخ موڑے کھڑی دانین پر ڈالتا وہ اپنی بھیگم کا ہاتھ تھامے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔
اساور سمیت سب کو لگتا تھا دانین کو اب بھی فرق پڑتا ہے مگر دانین کو پتھر بنانے والے وہ سب ہی تھی اب تو پتھر دلی کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ لوگ اس کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر جاتے اسے رتی بھر پرواہ نہ ہوتی۔۔
___________________________________________________________________________________________________
ماما ماما۔۔!! ایک چھ سالہ بچہ عنودگی میں جاتی اپنی ماں کو پکار رہا تھا۔۔
رو رہا تھا وہی تو اس قید میں اس کا سہارا تھی وہ اسے کیسے کچھ ہونے دے سکتا تھا۔۔
اذان بیٹا ۔ ۔۔۔اس کی آنکھیں نقاہت سے بند ہو رہی تھیں مگر وہ آنکھیں بند نہیں کرنا چاہتی تھی اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی وہ آج سو گئ تو کبھی اٹھ نہیں پاۓ گی۔۔
ماما میں نے باہر کا راستہ تلاش کر لیا ہے اب ہم یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔چھوٹے بچے کا سانس پھول گیا تھا جیسے وہ کہیں دور سے بھاگ کر آیا ہو۔۔
سچ۔۔اس کی آنکھوں کی جوت جل اٹھی تھی۔۔
جی ماما آپ خود کو سنبھالیں پھر ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔۔اذان اپنی ماں کو سہارا دے کر اٹھا رہا تھا۔۔
وہ اٹھ گئ تو وہ بھاگ کر اس کے لیئے جگ سے پانی ڈال کر لے آیا جو وہ موٹی عورت صبح ہی رکھ کر گئ تھی۔۔
میرا بہادر بیٹا۔۔اس نے اذان کی آنکھوں سے نیچے تک آتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے اس نے اذان کے ماتھے پر بھوسہ دیا۔۔۔۔
ماما میں موٹی آنٹی کو دیکھتا ہوں پھر ہم نکلتے ہیں یہاں سے۔۔اذان کہتا دروازے سے جھانک کر باہر دیکھنے لگا۔۔
"وہ اسے دیکھ کر نقاہت سے مسکرا دی تھی۔۔وہ اس کا بہادر بیٹا تھا جو راستے کی مشکلوں سے گبھرانے کی بجاۓ راستے تلاش کرتا تھا اور اسے راستے تلاش کرنے آتے تھے۔۔۔
___________________________________________________________________________________________________
آج کا سورج نکلتے ہی کاظمی خویلی میں معمول سے ذیادہ گہماگہمی تھی۔۔آج رخشدہ بھابھی کی کچھ دوستیں اساور کی نئ نویلی دلہن سے ملنے آنے والی تھیں۔ان کے لیئے بھرپور اہتمام ہو رہا تھا کچن سے اشتہاانگیز خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔۔
اساور کی شادی کو ایک مہینہ ہو چلا تھا۔۔
رخشندہ بھابھی کو سارے مسئلے دانین سے تھے نئ دلہن پر وہ بچھی چلی جاتی تھیں۔۔
رخشندہ بھابھی کی دوستوں کے آنے میں کچھ وقت تھا تو سب لاؤنج میں بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔۔
اور اکثر ہی ایسی محفلیں کاظمی خویلی کے لاؤنج میں سجتی تھیں بس سومو اور دانین آؤٹ سائیڈر تھیں۔۔
دانین کچن میں گھسی زارا اور سارہ کے لیئے سینڈوچز بنا رہی تھی ۔سومو کچن ٹیبل پر بیٹھی ناشتہ کرتی ترچھی نظر ان ہنستے مسکراتے نفوس پر ڈال دیتی تھی۔۔
ابھی بھی وہ سب کسی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے کہ زوردار آواز سے دروازہ کھلا تھا۔۔
بہت سے پولیس اہلکار آگے پیچھے گھر میں داخل ہوۓ ساتھ لیڈیز کانسٹیبل بھی تھیں۔
پولیس کو دیکھتے سب کی ہنسی پر بریک لگی تھی۔سب ایکدم کھڑے ہو گۓ تھے۔۔
ایس۔ایچ۔ او صاحب یہ کون سا طریقہ ہے کسی شریف انسان کے گھر گھسنے کا۔۔اساور کو تو آگ لگ گئ۔۔
سوری مسٹر اے۔کے مگر ہمیں ہماری ڈیوٹی کرنے دیں۔آپ کی وائف کے خلاف قتل اور اغواہ کی ایف آئ آر ہے اور پکے ثبوت بھی ۔اور اریسٹ وارنٹ بھی۔۔ایس۔ایچ۔او نے ایک انویلپ اساور کی طرف بڑھایا۔۔
اساور نے حیرانی سے اسے تھاما۔۔
سب پریشانی سے اساور کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھ رہے تھے۔۔
ناشتہ ادھورا چھوڑ کر سومو بھی لاؤنج میں چلی آئ۔دانین نے اشارے سے سارہ اور زارا کو وہاں سے ہٹنے کو کہا تو وہ دونوں کمرے میں چلی گئیں۔۔
کس نے کروائ ہے یہ ایف۔آئ۔آر وارنٹ دیکھ کر اساور نے سوال کیا۔سب ابھی تک سمجھ نہ پا رہے تھے کہ یہ کیا چل رہا ھے۔۔
ہم نے۔۔وہ دونوں ایک ساتھ بولتے اندر داخل ہوۓ۔
سعدی کو دیکھ کر دانین اور سومو کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئ جبکہ باقی سب ناسمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔
میرےشوہر امان اللہ کاظمی کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کیا تھا اس مکار اور فریبی عورت نے اور پھر مجھے بھی ایک کمرے میں بند کر دیا تھا اسی قید میں میرے بیٹے اذان امان اللہ کاظمی کا جنم ہوا تھا اور آج میرا بیٹا چھ سال کا ھے مجھے پورے سات سال اغواہ کر کے رکھنے والی کوئ اور نہیں میری اپنی بہن حیا سدوانی ہے جو کہ اب حیا کاظمی کہلائ جاتی ہے۔۔۔عینا نے اذان کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑے اپنا مکمل تعارف کے ساتھ حیا کا گھناؤنا چہرہ بھی دکھایا تھا۔۔۔
اساور پر تو گویا آسمان ٹوٹا تھا اس نے بےیقینی سے حیا کی طرف دیکھا۔۔
رخشندہ بھیگم اور سائرہ کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا تھا۔۔
اور بہت چالاکی سے تم نے تمام ثبوت میرے خلاف کر کے مجھے امان کا قاتل ٹھہرا دیا جس کی سزا میری پوری فیملی نے ان سات سالوں میں بھگتی ہے اب تمہاری باری ہے حیا سدوانی۔۔۔سعدی نے ٹھنڈے لہجے میں مگر چبا چبا کر کہا تھا۔۔۔
تم تم وہاں سے نکلی کیسے کیسے۔۔حیا ہسٹریانی کیفیت میں عینا کی طرف لپکی۔۔لیڈی کانسٹیبل نے حیا کے دونوں ہاتھ زور سے پکڑے مگر وہ پھر بھی بےقابو ہو رہی تھی کانسٹیبل نے ایک زوردار تھپڑ اسے رسید کیا تو وہ سیدھی صوفے پر جا گِری۔۔
تم نے پورا انتظام کیا تھا مگر میرا اذان میرے امان کی نشانی مجھے وہاں سے نکال لایا تاکہ تمہارا گھناؤنا چہرہ پوری دنیا کو دِکھا سکوں میں۔۔عینا نفرت سے بولی۔۔
یہ سب کیا ہے حیا میں نے تمہیں اس گھر کا فرد بنایا اور تم میرے امان کی قاتل نکلیں۔۔رخشندہ بھیگم کو تو صدمہ لگ گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کو سر آنکھوں پر بِٹھا رہی تھیں۔۔
تم نے کیوں کیا یہ سب حیا جواب دو۔۔اساور غصے کی شدت سے چلایا تھا۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا امان تمہارا بھتیجا ہے ورنہ مم میں کبھی نہ مرواتی اسے آئ سوئیر اساور میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں سچ میں اساور۔۔حیا ایک دم اساور کی طرف لپکی تھی۔اساور نے زور سے دھکا دے کر اسے خود سے دور کیا۔۔
کیوں کیا تو نے یہ سب بدبخت عورت۔۔اب کے بھڑکنے کی باری سائرہ کی تھی حیا کو بالوں سے پکڑ کر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔۔۔
آپ نے جو پوچھنا ہے بنا تششد کے جلدی پوچھیں باقی سب پولیس کی ذمہ داری ہے۔۔لیڈی کانسٹیبل نے سائرہ سے حیا کو بچایا ورنہ وہ اسے مار ہی ڈالتی۔۔۔
مجھے نہیں مل سکتی تھی میری محبت تو اور کسی کو کیوں ملتی۔مجھے جب ٹھکرا دیا گیا تھا تو اس میں کون سے ایسے سرحاب کے پر لگے تھے جو اسے اپنایا جاتا اسی لیئے میں نے اس سے خوشیاں چھین لیں اس کی محبت اس کا امان چھین لیا مار دیا اسے۔۔حیا گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چلائ تھی وہ اپنے آپے میں نہیں لگ رہی تھی۔۔
اور اس سب کے ذمہ دار تم ہو اساور کاظمی تمہیں یاد نہیں ہو گا ہم ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے میں تم سے پاگلوں کی طرح محبت کرتی تھی مگر تم نے میری محبت کے جواب میں مجھے بری طرح سےدھتکار دیا تھا۔۔
ٹھکراۓ جانے کا دکھ سمجھتے ہو ۔۔نہیں میں سمجھتی ہوں کئیں سالوں تک میں خود کو ہی جوڑتی رہی تھی۔ ۔
میں اس بات کو قبول نہیں کر سکتی تھی کہ مجھے یعنی کہ حیاسدوانی کو ٹھکرا دیا گیا۔۔۔
میں سالوں بعد پھر سے لوٹی تھی تمہیں پانے کے لیئے مگر تم نے پھر مجھے رد کر دیا اس دانین کے لیئے۔میرے اندر اک آگ جل اٹھی جس میں دانین کو جلانا چاہتی تھی میں تمہاری محبت کی میت کی راکھ کرنا چاہتی تھی میں اور دیکھو میں کامیاب رہی اس سب میں۔۔
چلا کر کہتے آخر میں وہ دانین کی طرف دیکھتی فاتخانہ انداذ میں مسکرائ تھی۔۔
اس وقت حیا کوئ شدید پاگل معلوم ہو رہی تھی۔۔
ایک شخص کے لیئے آپ نے اپنے آپ کو کتنا گرا دیا اتنا کہ گندی نالی کا کیڑا معلوم ہوتی ہیں آپ۔۔عینا نے افسوس سے اسے دیکھا۔۔
مجھے برباد کرنے کے لیئے اور آپ کو پانے کے لیئے انہوں نے خود کو گندا کر دیا نومی کی ہوس کی پیاس بجھاتی رہیں یہ افسوس آپ نے کیا کر دیا مینا آپی۔۔
آپ حیا تھیں آپ بےحیائ کی داستاں بن گئیں۔۔
قانون کا مزید وقت برباد نہیں کیا جاسکتا ہمیں انہیں لے کر جانا ہو گا۔۔
پولیس والے چلاتی ہوئ روتی ہوئ حیا کو گھسیٹتے لے کر چلے گۓ تھے۔۔
سعدی میرے بھائ۔۔!! ان کے جانے کے بعد دانین سعدی کی طرف دوڑی اور آکر اس کے سینے سے لگ گئ وہ اس سے چھوٹا تھا مگر اب وہ کافی بڑا ہو گیا تھا۔۔
ان گزرے ماہ و سال میں وہ ایک نوجوان سے مظبوط مرد بن گیا تھا۔۔
ٹھیک ہو تم سعدی اللہ کا شکر ہے۔۔دانین اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیئے رو رہی تھی اور آج برسوں بعد اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکلے تھے۔۔۔
بہت انتظار کروایا آپ نے سعدی بہت۔۔سومو کی آنکھیں بھی بہنے لگیں تھیں۔۔
رخشندہ بھیگم صوفے پر ڈے گئیں تھیں۔سائرہ کمرے میں بھاگ گئ تھی۔۔
اساور خود سے ہی نظریں چرا رہا تھا۔
سامنے کھڑے تین نفوس ایک دوسرے سے مل کر کتنے خوش تھے۔۔
ایک پچھتاوا سا پچھتاوا تھا جو اساور پر چھا رہا تھا۔۔
اس نے نظر اٹھا کر سامنے کھڑی دانین کو دیکھا ایک پل کو دانین نے بھی اسے دیکھا اور فاتخانہ انداذ میں مسکرا دی۔۔
اس کی یہ ہنسی اساور کو بہت کچھ یاد دلا رہی تھی۔۔
اساور کے کانوں میں ماضی کی آواز گونجی تھی۔۔
جس دن سعدی بےگناہ ثابت ہو گا وہ دن اس گھر میں میرا آخری ہو گا""
ایک تکلیف اس کی رگوں میں اتری تھی۔آنکھیں بہنے کو بےتاب تھیں۔
___________________________________________________________________________________________________
حیا آپی کو جب میں نے بتایا کہ مجھے محبت ہو گئ ہے تو انہوں نے مجھے کمرے میں بند کر دیا۔۔
وہ مجھے کہیں آنے جانے نہیں دیتی تھیں اور یہ شروع سے ہی چلتا آیا تھا وہ اپنی ہر محرومی کا بدلہ مجھ سے لیتی تھیں۔۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ انتہا پسند ہو گئیں اور ضدی بھی۔۔ڈیڈ کے ایکسیڈنٹ کے بعد ڈیڈ وہیل چیئر تک محدود ہو گۓ تو حیا نے سارا بزنس سنبھال لیا۔۔پھر وہ پہلے سے ذیادہ اکڑو ہو گئ تھی خود سے آگے کسی کو نہیں دیکھتی تھی ۔۔
آپ نے انہیں دو بار ٹھکرا دیا تو ان کی ضد آگ بن گئ ایسی آگ جس میں وہ ہر ایک کو جلا دینا چاہتی تھیں۔۔اور اس آگ میں وہ خود بھی جل جاتی ان کو پرواہ نہیں تھی۔۔
پھر موم اور ڈیڈ نے مجھے گھر سے بھگا دیا تو میں امان کے پاس آ گئ امان نے بتایا تھا ان کی بڑی بہن کی شادی ہے اور اس کی اماں ابھی اس کی شادی نہیں کروائیں گی۔۔
اور میرے واپسی کے سارے راستے بند تھے پھر سعدی اور شامین نے ہماری شادی کروا دی تھی ایک سادہ سی مگر بہت خاص شادی۔۔
دوست نعت ہوتے ہیں اور خدا نعمتیں اپنے بندوں پر اتار کر بتاتا ہے کہ وہ ہے اور کامل ہے۔۔سعدی اور شامین بھی وہی نعمت تھے۔
وہ جلد مجھے آپ سب سے ملوانا چاہتا تھا مگر لیکن پھر ایک دن حیا آپی آ ٹپکیں۔۔
انہوں نےمجھے کہا وہ مجھے معاف کر چکی ہیں اور موم ڈیڈ میرا انتظار کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا وہ مجھے ہی ڈھونڈ رہی تھیں۔۔
وہ اتنے پیار سے ملیں کہ میں بھول گی سب کچھ مجھے یاد تھا تو بس یہ کہ وہ میری بہن ہے اور مجھ سے خار رکھ سکتی ہیں نفرت تو نہیں کر سکتیں۔۔
امان بھی مجھے خوش دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔۔
میں ماں بننے والی تھی اور امان بہت خوش تھا مری سے واپسی پر وہ مجھے یہاں لانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اچانک آپی کی کال آئ کہ ڈیڈ کی طبیعت بہت خراب ہے تو ہم نے لاہور کی بجاۓ کراچی کی فلائیٹ پکڑی اور حیا آپی کے گھر پہنچ گۓ۔۔
وہاں جا کر پتہ لگا کہ موم اور ڈیڈ تو آپی کے کارناموں کے باعث پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔۔
مجھے کچھ ٹھٹھکا ۔ہم وہاں سے نکلنا چاہتے تھے کہ حیا آپی اور ان کے بواۓ فرینڈ نے ہمیں گھیر لیا۔۔پھر میری آنکھوں کے سامنے میرے امان کو بےدردی سے مار ڈالا تھا۔۔
عینا سر جھکاۓ بیٹھی بتاتے ہوۓ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔اک تکلیف سی تکلیف تھی ۔کرب تھا جو شدت سے خون میں گردش کر رہا تھا۔۔
ایف۔ایس۔سی میں جو میرے ساتھ ہو چکا تھا اس کے بعد مجھے اچھے رزلٹ کی امید نہیں تھی۔۔میرے دوست کے فادر کی ایجنسی تھی کراچی میں ۔۔ان دنوں میں پھی وہیں گیا ہوا تھا ۔امان سے میرا کوئ رابطہ نہیں تھا نہ مجھے معلوم تھا وہ کراچی آیا ہوا ھے۔۔
پھر مجھے ایک کال موصول ہوئ وہ عینا کی کال تھی وہ مدد کے لیئے مجھے پکار رہی تھی۔۔
میں ساری خفگی بھلاۓ عینا کے بتاۓ ایڈرس پر پہنچا مگر اندر صرف اور صرف خون تھا اور اس میں لت پت امان۔۔
میں نہیں سمجھ پایا یہ سب جال بچھایا گیا تھا جس میں مجھے پھنسا دیا گیا تھا۔تھوڑی دیر میں پولیس آ گئ۔۔
میری کوئ بات پولیس نے نہیں سنی اور مجھے لے گئ۔۔
جب آپ سے پوچھا گیا کہ اور کس پر شک ہے تو آپ نے میرا نام لیا وجہ میری اور امان ہونے والی لڑائ تھی جس سے آپنے میری امان کو دی جانے والی دھمکی یاد رکھتے ہوۓ مجھے قاتل قرار دے دیا۔۔
جال ایسے بچھایا گیا تھا کہ سارے ثبوت میرے خلاف تھے۔۔
دانین آئ پھر ایک دن میرے پاس جیل۔۔سعدی نے بات کرتے نظر صوفے کے پاس کھڑی دانین پر ڈالی۔۔
اساور کو بھی حیرت ہوئ تھی۔۔
یہ قصاص کے بارے میں جانتی تھی اور اس نےمجھے جیل سے بھاگ جانے کا کہا تھا۔۔اس نے کہا آپ لوگ قصاص مانگیں گے اور قصاص دانین ہو گی۔۔دانین نے ویسے بھی آپ ہی کی زندگی میں آنا تھا اس لیئے اس نے خوشی خوشی قصاص کے لیئے آمادگی ظاہر کی۔۔
اور اماں وہ بھی جانتی تھیں مجھ سے نفرت کر سکتے ہیں آپ مگر دانین کو تکلیف نہیں دیں گے اور پھر میں اپنی پےگناہی کے ثبوت بھی ڈھونڈ لوں گا۔۔
سعدی کی بات پر دانین کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دور گئ۔تمسخر اور طنز سے بھری مسکراہٹ۔۔
اساور نے آنکھیں میچ کر تکلیف کی شدت کو اپنے اندر اتارا تھا۔۔
یہ میرے امان کا بیٹا ہے۔۔رخشندہ بھیگم نے پیار سے اذان کی طرف دیکھا۔۔
جی۔۔جاؤ اذان دادی کے پاس۔۔عینا نے روتی آنکھوں کے ساتھ اثبات میں سر ہِلایا۔اور اذان کو اشارہ کیا تو وہ مسکراتا ہوا رخشندہ بھیگم کے پاس چلا گیا۔۔
میرا امان لوٹ آیا دیکھو سومو دیکھو سائرہ اساور دیکھو نا یہ بلکل میرا امان ہے۔۔رخشندہ بھیگم اذان کا منہ بار بار چوم رہی تھیں۔۔
ماما باہر آ جاؤں میں۔۔دروازے میں سر نکال کر سارہ نے آواز لگائ تو دانین نے مسکراتے ہوۓ سر ہلایا۔۔
دانین یہ تمہاری بیٹی ہے۔۔سعدی حیرانی سے سارہ کو دیکھنے لگا۔۔
ہاں جڑواں بیٹیاں ہیں میری۔۔زارا باہر آؤ۔۔دانین نے کمرے کی طرف دیکھ کر آواز لگائ۔۔تو سنجیدہ سی دانین سب کو سرد نظروں سے دیکھتی باہر آئ۔
زارا سارہ ماموں کے پاس آؤ یہ آپ کے ماموں ہیں۔۔۔
آؤ میرے پاس۔۔سعدی نے بازو پھیلاۓ تو زارا سعدی کے گلے لگ گئ جا کر جبکہ سارہ حیرانی سے دیکھتی اساور کی گود میں بیٹھ گئ۔۔
سارہ ماموں کے پاس آو بیٹا ۔۔سعدی نے سارہ کو پکارا تو وہ اساور کی طرف دیکھنے لگی۔اساور نے سر اثبات میں ہلایا تو وہ چھلانگ لگا کر سعدی کے پاس چلی گئ تھی۔۔
ماشاءاللہ بہت پیاری ہیں بلکل اپنے ماموں پر گئیں ہیں۔۔سعدی نے دونوں کے گال پر بھوسہ دیا۔۔سومو اور دانین سعدی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں ۔آج برسوں بعد وہ کھل کر مسکرا رہی تھیں۔۔
رخشندہ بھیگم اور سائرہ اذان سے باتیں کر رہی تھیں۔۔عینا اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی جو ان ماہ و سال میں آج لگتا تھا جی رہا ہے۔۔
اساور کی نظریں کبھی دانین پر جاتی اور کبھی زارا اور سارہ پر ٹھہر جاتی تھیں۔۔
اس نے خود ہی سب کچھ اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا دیا تھا۔۔
وہ محبت کا مجرم تھا اور محبت کا مجرم بخت کے تخت کا خقدار نہیں ہوتا۔وہ بھی نہیں تھا۔
وہ پچھتا رہا تھا بہت ذیادہ ۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
آج کے دھچکے سے سب تھوڑے سنبھل چکے تھے۔مگر دن کو ہونے والی زلزلے کی گونج ابھی تک کاظمی خویلی کے درودیوار سے سنائ دے رہی تھی۔۔
سب بنا کچھ کھاۓ اپنے اپنے کمروں میں چلے گۓ تھے۔عینا کو سومو نے امان کے کمرے میں پہنچا دیا تھا۔۔
وہ جو عشق پیشہ تھے
دل فروش تھے مر گۓ
وہ ہوا کے ساتھ چلے تھے
اور ہوا کے ساتھ بکھر گۓ
وہ عجیب لوگ تھے
برگ سبز برگ زرد کا
روپ دھارتے دیکھ کر
رُخ زرد اشکوں سے ڈھانپ کر
بھرے گلشنوں سے مثال سایٔہ ابر
پل میں گزر گۓ
وہ قلندرانہ وقار تن پہ لپیٹ کر
گھنے جنگلوں میں گھِری ہوئ
کھلی وادیوں کی بسیط دُھند میں
رفتہ رفتہ اتر گۓ
عینا اب وہ عینا نہ تھی سات سال کی قید نے اسے بھری جوانی میں بوڑھا کر دیا۔۔
آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ ہلکے پڑ چکے تھے۔۔۔
اب وہ فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھی مگر آج وہ اپنے امان کے گھر تھی اس کا بیٹا اپنے میں تھا یہ سوچ اسے سکون دے رہی تھی۔۔
سعدی اپنے گھر چلا گیا تھا۔آخر کو وہ بہت سالوں بعد اپنے گھر کی شکل دیکھ سکتا تھا جہاں اس کا اور دانین کا بچپن تھا۔اس کے ماں باپ کی یادیں تھی بہت کچھ تھا اس گھر میں اور وہ بہت کچھ سکون تھا۔۔
دانین زارا اور سارہ کو لیئے کمرے میں چلی آئ تھی۔۔انہیں کھانا کھلا کر سلانے کے لیئے لٹایا اور خود بھی لیٹ گئ تھی ۔آج وہ سکون میں تھی برسوں بعد وہ سرخرو ہوئ تھی۔۔
وہ آزاد ہوئ تھی۔۔
زارا اور سارہ کو سلاتے وہ بھی آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔آج تو نیند بنتی تھی برسوں جاگی تھی وہ۔۔
دروازے پر آہٹ ہوئ پھر ہلکی سی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا مگر دانین نے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا تھا ۔وہ جانتی تھی وہ کون ہو سکتا ہے۔؟؟
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بیڈ کے پاس جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔نظریں دانین کے چہرے پر ٹِک گئیں تھیں۔۔
ان آنکھوں میں پچھتاوا ملال دکھ اذیت کچھ کھو دینے کا کرب افسوس خوف کیا کچھ نہیں تھا۔۔
دانین۔۔!! اس نے ہولے سے دانین کو پکارا تھا لہجے میں ڈھیروں خوف تھا۔۔
دانین جاگ رہی ہو۔۔دانین کی طرف سے کوئ جواب نہ پا کر اس نے پھر سے پکارا تھا۔۔
اب کہ دانین نے آنکھیں کھول کر اساور کو دیکھا۔سردمہری سے برف سی نظر تھی اس کی جو منجمند کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔
بات کرنی ہے تم سے۔۔وہ واقعی بہت ٹوٹ گیا تھا پچھتاوا اس کے لہجے میں بول رہا تھا۔۔
میں نے کہا تھا تم جب ہارو گے تو صرف انتقام کی جنگ نہیں ہارو گے ساتھ ہم تینوں کو بھی ہار دو گے۔۔
ت
زارا کے سر پر بھوسہ دیتے اس کی نظریں اب معصوم سی سارہ پر تھیں۔۔
میں جانتی ھوں تمہیں کیا بات کرنی ہے مگر میں اس موضوع پر کوئ بات نہیں کرنا چاہتی جو چھ سالوں میں بارہا میں تمہیں بتا چکی ہوں۔۔
تم نے چھ سالوں میں جو کچھ دیا ہے میرے پاس اس کا بدلہ لوٹانے کو بھی کچھ نہیں ہے انفیکٹ میرے پاس تمہیں دینے کو اب کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں اور اس کچھ بھی نہیں میں محبت سرِفہرست آتی ہے۔۔
وہ یوں ہی چِت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔۔
دانین معافی بنتی نہیں ہے یار پھر بھی میں معافی چاہتا ہوں یار میں کمظرف ھوں یار تم تو اعلیٰ ظرف ہو معاف کر سکتی ہو مجھے پلیز۔ ۔۔اس کاانداذ التجائیہ تھا۔۔
معاف نہ کرنے والی معافی مانگیں تو بڑا عجیب لگتا ہے مجھے لیکن پھر بھی میں نے تمہیں معاف کیا اساور کاظمی۔۔نظریں ابھی تک چھت پر تھیں اس نے ایک نظر بھی اساور پر نہ ڈالی تھی۔۔
اساور نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔اسے اپنی سماعت پر شک گزرا تھا۔۔
سچ یار تم نے معاف کر دیا۔۔اساور نے تصدیق چاہی تھی۔۔
میں جن سے تعلق نہ رکھنا چاہوں ان پر بلاوجے کے ملبے ڈالتی ہوں نہ شکوے کرتی ہوں اس لیئے بات ختم میرا تم سے کوئ لینا دینا نہیں ہے تم اور میں دو اجنبی ہیں جو ریلوے ٹریک پر ٹرین چھوٹ جانے پر غلطی سے ملے تھے اور اب ٹرین آ چکی ہے ہم دونوں کو اپنے اپنے ڈبے میں سوار ہو جانا چاہیئے۔۔دانین کا لہجہ دو ٹوک تھا۔۔۔۔۔۔
مگر دانین۔۔!!۔ ۔ ۔ ۔ اساور نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔
لائٹ آف کر دو مجھے نیند آ رہی ھے اپنے کمرے میں مجھے ایک پھرپور نیند لینے دو گے ۔۔۔دانین نے قطیعت سے کہتے کروٹ بدلی تھی۔۔
اساور کے اندر بہت کچھ ٹوٹا تھا جس میں سرِفہرست اساور خود تھا۔۔
اور اس ٹوٹنے کی چبن آنکھوں میں ابھری تو آنسو بےاختیار اس کے گالوں پر بہہ نکلے تھے۔۔
جنہیں اس نے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔۔دانین جانتی تھی وہ رو رہا ہے مگر دانین کو پتھر کرنے والا بھی وہ خود تھا۔۔اس مقام تک لانے والا بھی وہ تھا جہاں اساور کا مر جانا بھی اس پتھر کو توڑ نہیں سکتا تھا۔۔
میں کیسے تم کو سمجھاؤں
محبت اب نہیں ہو گی
میرے اندر میرے من میں
میرا حصّہ نہیں باقی
سبھی کچھ وحشتوں کا ہے
میرے دل میں محبت یہ سنو باقی جو رہتی تھی
محبت وہ کہیں دل کے کناروں پر دفن ہے اب
دفن چیزیں کبھی زندہ نہیں ہوتیں
میں کیسے تم کو سمجھاؤں
محبت اب نہیں ہو گی
میرے اب جسمِ خاکی میں
اندھیرا ہی اندھیرا ہے
کہیں آہ و بکاری ہے
کہیں یادیں سسکتی ہیں
کہیں خاموش لمحے ہیں
کہیں ویران رستے ہیں
کہیں پر خون بہتا ہے
کہیں پر آنسو گرتے ہیں
بہت سے خواب ہیں آنکھوں میں جو آنے سے ڈرتے ہیں
میں کیسے تم کو سمجھاؤں
محبت اب نہیں ہو گی
چلو اب چھوڑ دو نا ضد
محبت کو جگانے کی
ذرا سا مسکرانے کی
سنو دل کو لبھانے کی
چلو اب چھوڑ دو نا ضد
دفن چیزیں کبھی زندہ نہیں ہوتیں
کبھی واپس نہیں آتیں
چلو اب چھوڑ دو نا ضد
میں کیسے تم کو سمجھاؤں
محبت اب نہیں ہو گی۔
بےبسی سے دانین کی پشت کو گھورتا وہ ٹیرس پر چلا آیا۔۔
اندر اس کا سانس گھٹ رہا تھا اور آج اس نے ان پانچ سالوں میں دانین پر گزری ہر اذیت کو محسوس کیا تھا جو وہ اتنے سالوں میں وہ محسوس نہیں کرتا تھا۔۔
"جب مُحِب اپنے محبوب کی تکلیف نہ محسوس کر سکے تو ایسی محبت کے دُر فٹے منہ"۔۔
____________________________________________________________________________________________________________________________________
اماں۔۔!! سائرہ لیٹی ہوئ ماں کے پیروں کی طرف آ بیٹھی تھی۔۔
ہوں۔۔رخشندہ بھیگم نقاہت سے بولیں۔۔
اماں خالہ کو کال کرو طیب کو بولے مجھے آ کر لے جاۓ۔۔سائرہ رخشندہ بھیگم کی ٹانگیں دبانے لگی۔۔
یہ اچانک تمہیں کیا دورہ پڑ گیا۔۔رخشندہ بھیگم نے حیرانی سے بیٹی کو دیکھا جس کی کایا پلٹ رہی تھی۔۔
اماں مجھے اپنے گھر چلے جانا چاہیئے مجھے احساس ہو رہا ہے میں نے اپنے اتنے سال یونہی برباد کر دیئے میں اپنے گھر میں طیب کے ساتھ خوش بھی تو رہ سکتی تھی۔۔سائرہ کو بھی آج عقل آئ تھی۔۔
میں کروں گی کل طیب سے بات تو تیاری کر لینا۔۔رخشندہ بھیگم کروٹ لے کر لیٹ گئیں۔۔
اماں طیب لے جاۓ گا مجھے معاف کر دے گا نا۔۔سائرہ نے آس اور امید سے ماں کی طرف دیکھا۔۔
امید رکھیں اپیا امید پر دنیا قائم ھے ۔۔طیب بھائ اور آپ کی ارینج میرج تھی جب اساور کاظمی جیسا محبت کا دعویدار مخبت کرنا چھوڑ سکتا ہے تو طیب بھائ سے بلکل چھوڑنے کی امید رکھیں۔اماں یہ آپ کی دوائ۔۔سومو ڈبہ سائیڈ ٹیبل پر رکھتی جانے کے لیئے پلٹی۔۔۔
اچھا اچھا بولو سومو بہن کے لیئے اچھا ھی ہو گا اس کے ساتھ۔۔رخشندہ بھیگم نے سائرہ کی پھیکی پڑتی رنگت دیکھی اور پھر سومو کو ڈانٹا۔۔
برا کرنے والوں کے ساتھ اچھا نہیں ھوتا اماں۔ماضی میں برائ بو کر مستقبل میں اچھائ کی توقع رکھنے والے نیم پاگل ہوتے ہیں۔۔۔
سومو کہتی ہوئ پلٹ کر جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔
پیچھے کمرے میں ایک گہری خاموشی چھوڑ گئ تھی۔۔
سائرہ نے ماں کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں تھیں۔۔
رخشندہ بھیگم کو بھی ہول اٹھنے لگے تھے ۔بچھلی بار جو سائرہ نے طیب کو بےعزت کر کے بیجھا تھا اس کے بعد وہ پھر لوٹا تھا نہ یہاں سے کسی نے پتہ کیا تھا۔۔
کہیں وہ سائرہ کے ساتھ رہنے سے انکار ہی نہ کر دے۔کہیں یہ کہیں وہ ایسی بہت سی سوچیں رخشندہ بھیگم کے دماغ میں گھومنے لگیں تھیں۔۔
سائرہ سر جھکاۓ ماں کی پاؤں دباتے اپنے آنسوؤں کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
اپنے انجام کے ڈر گئ تھی وہ آخر کو بہتان تراشی کی تھی اس نے۔۔ایک پاکیزہ عورت پر بدکرداری کا۔۔
________________
""خدا کی ذات تکتی ہے عجب الزام تراشی بھی
تماشہ بنا کر دنیا نے خدا پہ ڈال رکھا ہے۔
تہمت الزام تراشی اور بہتان ہمارے معاشرے کے لئے ناسور ہے۔یہ روئیے ہماری خوشیوں کو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔ہر گھر اور فرد ان سے متاثر ہوتا ہے۔دوسروں کے بارے میں منفی سوچ اور غلط رویہ ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جاتا ہے۔بعض اوقات کسی پر ایسا الزام لگا دیا جاتا ہے کہ سننے والا ششدر رہ جاتا ہے۔۔
""حضرت علیؓ نے فرمایا
"کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے""""
کسی پر بے جا تہمت اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیا ہے۔
ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔
الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے؛ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔
''عن علي قال: البهتان على البراء أثقل من السموات۔ الحكيم''۔ (كنز العمال (3/ 802)، رقم الحدیث: 8810)
'' لا ینبغي لصدیق أن یکون لعانًا''۔ (مشکاة المصابیح۲؍۴۱۱
نیز شریعت میں دعوی اور حق کو ثابت کرنے لیے یہ ضابطہ ہے کہ مدعی ( دعوی کرنے والے ) کے ذمہ اپنے دعوی کو گواہی کے ذریعہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے، اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تو مدعی علیہ (جس پر دعوی کیا جائے اس) پر قسم آئے گی ، اور اگر وہ قسم کھالے تو اس کی بات معتبر ہوگی، لہذ ا کسی شخص کو محض الزام لگاکر اس کے جرم کے ثابت ہوئے بغیر سزا دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔اگر سزا نافذ نہ کی گئی ہو تو سچی توبہ اور صاحبِ حق سے زبانی معافی کافی ہوگی۔ اگر سزا نافذ بھی کردی گئی اور اس سے مالی نقصان اٹھانا پڑا ہو تو صدقِ دل سے توبہ اور زبانی معافی کے ساتھ مالی تاوان بھی ادا کرنا ہوگا۔
__________________________________________