او لڑکی بتا کدھر چھپایا ہے اپنے بھائ کو__پولیس کانسٹیبل عورت نے اسے دھکا دیا اور کمرے میں گھس گئ۔ ۔ وہ سیدھی صوفے پر جا گری ۔ کُہنی صوفے سے لگی تو درد کی ایک تیز لہر اس کے رگ و جاں میں سرائیت کر گئ۔ ۔ ۔
نہیں ہے سعدی گھر پر۔ ۔ کُہنی کو دوسرے ہاتھ سے تھامے وہ پیچھے بھاگی۔ ۔ ۔ ۔
او لڑکی ابھی ہم جا رہے ہیں مگر پھر آئیں گے تیرا بھائ آ گیا تو خود ہی بتا دینا۔ ۔ بچنے والا نہیں ہے وہ۔ ۔ ۔ ۔ پولیس والا انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگا۔ ۔ وہ ڈری سہمی سی پیچھے کو ہوئ۔ بازوں ابھی تک درد کر رہا تھا۔ ۔ ۔
پولیس والے دروازہ دھڑام سے کھولتے چلے گۓ۔ ۔ ۔ اس کی رکی سانس بحال ہوئ۔ ۔ ۔ ۔
وہ گھٹنوں میں سر دے کر زمین پر بیٹھ گئ۔ ۔ ۔ آنسؤ روانی سے اس گے گالوں سے ہوتے ہوۓ گردن کو بھگو رہے تھے۔ ۔ ۔
دانی۔ ۔ بیٹا دروازہ کیوں کھلا ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی ماں جو مارکیٹ گئ ہوئ تھی۔ واپس آنے پر گیٹ کھلا دیکھ کر چونکی۔ ۔ ۔ مگر دانی کو یوں روتے دیکھ کر تو ان کی جان ہوا ہوئ۔ ۔
دانی میری بچی۔ ۔ ۔ وہ بھاگتی ہوئ اس کے پاس آ بیٹھیں۔ ۔
اماں۔ ۔ ۔ ماں کو سامنے پا کر وہ ان کے لگے لگ گئ۔ ۔ ذیادہ رونے کی وجہ سے اس کی ہچکی بند گئ تھی۔ ۔ ۔ ان کے گلے لگ کر اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ ۔ ۔ ۔
اماں وہ پولیس آئ تھی سعدی کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ۔ ۔ وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔ ۔ ۔
پھر کیوں آئ تھی سعدی نہیں ہے یہاں۔ ۔ ۔ ۔ ان کے اپنے آنسو بہہ نکلے تھے۔ ۔ ۔ ۔
بتایا تھا اماں وہ مان ہی نہیں رہے تھے۔ ۔ ۔ وہ یوں ماں سے چپکی تھی کہ جیسے کوئ الگ کر دے گا ان دونوں کو۔ ۔ ۔ ۔
بس تم چپ کر جاؤ میرا بیٹا۔ ۔ بس۔ ۔ وہ اسے تسلی دیتی تھیں چپ کرواتی تھیں مگر خود رو دیتی تھیں۔ ۔ ۔ تین ماہ سے سعدی غائب تھا اوپر سے پولیس نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔
اماں سعدی نے کیوں مارا امان کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنسوؤں سے لبریز سرخ چہرہ اٹھا ماں کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس نے نہیں مارا ۔ ۔ میرا بچہ قتل نہیں کر سکتا اور امان تو دوست تھا اس کا وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ ۔ وہ پریقین تھیں۔ ۔ ساری دنیا قصوروار ٹھہرا دے مگر ایک ماں کا دل کبھی اپنے بیٹے کو قصوروار تسلیم نہیں کرتا۔ ۔ ۔
اماں مجھے ڈرلگ رہا ہے ۔ ۔ ۔ واقعی وہ سہمی ہوئ تھی۔ ۔ جب جب پولیس گھر سے ہو کر جاتی تھی وہ ایسے ہی ڈری ڈری سی رہتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں اساور سے بات کروں گی وہ میری بات نہیں ٹالے گا۔ ۔ ۔ اس سے ذیادہ خود کو تسلی دی تھی انہوں نے۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوۓ وہ سوچنے لگیں کہ اساور کو کیسے راضی کریں کیس ختم کرنے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
____________________________
چچی۔ ۔ ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی بھاگتی ہوئ آ کر اس سے لپٹ گئ۔ ۔ ۔
کیا ہوا سومو۔ ۔ اس کے اس طرح لپٹنے پر وہ مسکرا اٹھی تھی۔ ۔ اک یہی تو تھی جس سے اس کا دھیان بٹ جاتا تھا اس گھر میں۔ ۔ ورنہ تو ہر کوئ اس کے خون کا پیاسا بنا پھرتا تھا ۔ ۔ ۔
چچی جان۔ ۔ ۔ میری دوستیں آ رہی ہیں کل تو وہی والا کیک بنا دیں گی جو بچھلے مہینے ہوسٹل جاتے ہوۓ بنا کر دیا تھا۔ ۔ ۔ ٹیبل سے سیب اٹھا بائٹ لیتے ہوۓ بولی۔ ۔ ۔
کیوں نہیں ضرور۔ ۔ ۔ وہ مسکرائ۔ ۔ ۔ کٹی ہوئ مرچیں فرائ پین میں ڈھلتے ہیں شوں شوں کی آوازیں آنے لگیں۔ ۔ ۔
ہاۓ چکس۔ ۔ ۔ سامنے سے آتے اساور کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ ہاتھ ہلایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری گڑیا گئ نہیں۔ ۔ ۔ وہ مسکراتے ہوۓ کچن میں ہی چلا آیا۔دانی نے رخ موڑ کر خود کو کام میں مصروف کر لیا۔ ۔
کل شام میں جاؤں گی چکس۔ ۔ وہ چاچو کی جگہ چکس کہتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔دانی کے دل کی دھڑکن تیز ہوئ۔ ۔
دانین چاۓ لاؤ میرے لیئے۔ ۔ ۔ وہ کچن سے چلا گیا۔ ۔ ۔
دانی کی تیز چلتی دھڑکنیں ٹھہری اور پھر معمول پر آئیں۔ ۔ ۔
اچھا چچی آپا نے بلایا تھا نہ گئ کچا چبا جائیں گی جانتی ہیں آپ ان کو۔ ۔ ۔ سومو سیڑھیاں پھلانگتی ہوئ چلی گئ۔ ۔ ۔
دانین نے جلدی سے چاۓ کا پانی چڑھایا کچھ شک نہیں تھا لیٹ ہونے پر وہ شخص چاۓ اس کے اوپر ہی پھینک دیتا۔ ۔ ۔
________________________________________________________
چاۓ لے کر وہ روم میں داخل ہوئ تو وہ جینز اور ٹی شرٹ پہنے گاڑی کی چابی پکڑے کہیں جانے کو تیار تھا۔ ۔ اک نظر اسے دیکھا اور پھر ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال بنانے لگا۔ ۔ ۔ ۔
آپ کی چاۓ۔ ۔ ۔ وہ خوفزدہ سی چاۓ لے کر آئ۔ ۔ ۔ ڈریسنگ کے سامنے کھڑے کھڑے ہی اس نے چاۓ پکڑی۔ ۔ اور سپ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اہ تھو۔ ۔ ۔ چاۓ کا سپ لیتے ہی اسے اچھو لگے۔ ۔
چاۓ بنانی نہیں آتی تو مت بنایا کرو۔ ۔خالہ لاڈ اٹھاتیں ہوں گی یہاں نہیں چلے گی یہ تباہی ۔ ۔ وہ غصے سے اس کی طرف مڑا کپ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ ۔ ۔ وہ سہمی سی پیچھے کھسکی۔ ۔
میں نے تو صیح بنائ تھی۔ ۔ ۔ اس کا لہجہ کانپ رہا تھا۔ ۔ چہرہ سے خوف واضح تھا۔ ۔ ۔ ۔
صیح بنائ ہے صیح ہاں یہ لو پیو پیو۔ ۔ ۔ وہ چاۓ لے کر اس کی طرف بڑھا۔ ۔ زبردستی کپ اس کے منہ سے لگایا۔ ۔ چاۓ چھلک کر اس کی ٹھوری کو جلا گئ پیو ناں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیو خود ہی۔ ۔ ۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھڑتا کمرے سے نکل گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سسکیوں میں رونے لگی۔ ۔ چاۓ کا کپ کارپٹ پر پڑا تھا۔ ۔ چاۓ چھلک کر اس کی ٹھوری کو جلا گئ تھی جاتے ہوۓ وہ کپ بھی اس کے ہاتھ پر گرا گیا تھا۔ ۔ ۔ دائیں ہاتھ کا آدھا حصہ جل گیا تھا۔ ۔ ۔
وہ وہیں کارپٹ پر بیٹھتی چلی گئ۔ ۔ ۔ ایسی زندگی تو اس نے نہیں سوچی تھی۔ ۔ اس کے پاس رونے کے علاوہ اب تھا بھی کیا۔ ۔ گھٹنوں میں سر دیئے وہ ہچکیوں میں رونے لگی۔ ۔ ۔ ۔
________________________________________________________
ناستہ بنا کر دو۔ ۔ ۔ ۔ وہ جو ڈسٹنگ کر رہی تھی۔ ۔ آواز پر چونک کر مڑی۔ ۔ سامنے اساور کی بڑی بھتیجی سائرہ کھڑی تھی۔ ۔ جو شادی شدہ ہونے کے باوجود ذیادہ تر وہیں پائ جاتی تھی۔ ۔ شادی کو تین سال ہونے کے باوجود ابھی تک حالی گود تھی۔ ۔ ۔ ۔
میں ڈسٹنگ کر لوں پھر بنا دیتی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ اس کا لہجہ نرم تھا کچھ خوفذدہ سا بھی۔ ۔ اس کا سارا اعتماد یہاں آ کر ختم ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لڑکی کتنی بار سمجھایا ہے تجھے میرے آگے زبان مت چلایا کر ۔ ۔ ۔ سائرہ نے اس کی کلائ زور سے مڑوڑ کر اسے اپنی طرف گھمایا۔ ۔ دانین کے منہ سے سسکی نکلی۔ ۔ ۔ اس کا ہاتھ پہلے ہی جلا ہوا تھا اسے مزید تکلیف ہونے لگی۔ ۔ ۔ ۔
سائرہ میرا ہاتھ چھوڑیں ۔ ۔ ۔ وہ تکلیف سے بلبلا رہی تھی۔ ۔ ۔ مگر اس گھر میں سفاک لوگ رہتے تھے کسی کے درد سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ۔ ۔
جان پیاری ہوئ تو آئندہ اپنی زبان کو منہ کے اندر رکھنا۔ ۔ ۔ جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا وہ لڑکھڑا کر ٹیبل کے پاس گری پاؤں ٹیبل کی پائنتی سے ٹکرایا انگھوٹے کا ناخن اکھڑ چکا تھا اور خون نکل رہا تھا۔ ۔ ۔ خون دیکھ کر وہ رو پڑی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹنکی ختم ہو گئ ہو میڈم دانین تو ناشتہ بنا دو۔ ۔ ۔ اس کے زخم کو نظرانداذ کر کے وہ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ گئ۔ ۔ ۔
درد کو برداشت کرتی آنسوؤں کو پیتی پاؤں گھسیٹتی وہ کچن میں گھس گئ۔ ۔ ۔
اساور کا وہ جملہ روز اس کے کانوں میں گونجتا تھا۔ ۔ ۔
"ونی میں آئ لڑکیوں کی یہی اوقات ہوتی ہے"اور اس کی تو کوئ اوقات رہی ہی نہیں تھی۔ ۔ ۔
اندر باہر سے وہ زحموں سے چور تھی کچھ دِکھتے تھے اور کچھ نہیں دِکھتے تھے۔اور یہ جو زخم دِکھتے نہیں ہے وہئ دُکھتے بہت ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
_______________________________________________________
صبح سے کام کر کر کے وہ ادھ موئ ہو گئ تھی مگر وہاں کس کو احساس تھا اس کا۔۔سب اپنا اپنا فرمائشی پروگرام لے کر چلے آتے تھے جیسے وہ تھکتی ہی نہ ہو جیسے وہ انسان ہی نہ ہو۔۔
وہ انکار کرتی تو دھمکیوں اور تشدد سے نوازا جاتا تھا۔۔۔
ابھی وہ اساور کی بھابھی فرمائش پر رات کے لیئے بریانی اور قورمہ سائرہ کی فرمائش پر اچار گوشت اور زائرہ کا فرمائشی کیک بنا رہی تھی۔۔۔
اس کا موبائل رِنگ کرنے لگا۔۔اس کی اماں کا فون تھا۔۔۔وہ مسکرائ تھی۔۔سارے دن کی تھکان لوگوں کی باتیں بس ماں کا فون دیکھ کر ختم ہو گئیں تھیں۔۔۔
اسلام علیکم اماں۔۔کال ریسیو کر کے کان سے لگاتی وہ وہیں ڈائنگ ٹیبل کی چیئر پر بیٹھ گئ۔۔۔
میں ٹھیک ہوں اماں جان۔۔آپ تو جا کر بھول گئیں مجھے۔۔۔وہ پرشکوہ انداذ میں بولی۔۔ایک بیٹی اپنی ماں سے ہی تو شکوہ شکایت ہر بات کہہ لیتی ہے ۔۔اور ماں سن لیتی ہے ورنہ دنیا تو بدلے میں ہنستی ہے تڑپاتی ہے مارتی ہے۔ ۔
نہیں میرا بچہ ایسی بات تو نہیں ہے پہلوٹی کے بچے میں تو والدین کی جان ہوتی ہے۔۔
اپیا کیسی ہیں اور چھٹکی مینا۔۔۔وہ بہن اور بھانجی کی حیریت دریافت کرنے لگی جو ترکی میں رہتے تھے۔۔۔۔۔۔اماں بھی اس کی شادی کے بعد وہیں چلی گئیں تھیں۔۔
وہ ٹھیک ہیں تم بتاؤ ٹھیک ہو اساور حیال رکھتا ہے تمہارا۔۔۔
جی اماں بہت ذیادہ۔۔۔آنسؤ آنکھوں سے بہنے کو تیار تھے مگر وہ پی گئ انہیں۔۔۔
بہت مشکل ہوتا ہے اس ہستی سے جھوٹ بولنا جو بِن کہے سب جان جاۓ۔۔اس سے بھی مشکل ہوتا ہے اذیتیں سہہ کر پھر بھی کہنا خوش ہوں میں۔۔۔
مجھے پتہ تھا وہ میرا مان نہیں توڑے گا بھانجا ہے میرا اتنا تو کر سکتا تھا وہ۔ ۔ ۔ ان کے لہجے میں اساور کے لیئے محبت ہی محبت تھی۔۔۔۔
جی اماں واقعی مان توڑنے والوں میں سے نہیں ہے وہ۔۔۔اک تلخ مسکراہٹ نے ہونٹوں کو چھوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو وعدوں سے پھر جانے والا حوابوں کو روند دینے والا انسان تھا۔۔اس نے سوچا مگر کہہ نہ پائ۔۔۔
وہ محبت بھی تو بہت کرتا ہے تجھ سے۔بس رخشندہ مزاج کی گرم ہے مگر بھابھی ہے تیری اس کی کسی بات کو دل پر نہ لینا۔اساور ہے نہ تیری ڈھال بس اس کی محبت میں برداشت کر جانا سب کچھ۔ ۔ ۔ وہ اب ساری ماؤں کی طرخ اسے نصیحت کرنے لگی تھیں۔۔۔
اب وہ کیا بتاتی ان کو جس شخص کی حاطر وہ برداشت کرنے کی تلقین کر رہی ہیں وہی شخص تو بےرحم بنا بیٹھا ہے۔۔۔آنسؤ کا گولا اس کے خلق میں پھنسا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا اماں کھانا بنا رہی تھی جل نہ جاۓ کہیں۔۔اس نے بات ختم کر کے فون بند کر دینا چاہا مبادا اس کی ماں جان نہ جاۓ کہ کس کرب میں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔
کیوں تو کیوں بناتی ہے کھانا ملازم کدھر ہیں۔۔۔اس کی ماں کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔
اماں میری پیاری اماں اساور کو میرے ہاتھ کا کھانا بہت پسند ہے اس لیئے ان کے لیئے میں بناتی ہوں۔۔باقی ملازموں کے ذمے ہیں۔۔۔بڑی مشکل سے لہجے کو بھیگنے سے روکا اس نے۔۔پھر بھی ایک آنسو گال بر بہہ نکلا۔۔ادھراُدھر دیکھتے ہوۓ اسنے آنسوپونجا اگر کوئ دیکھ لیتا تو پھر شامت آتی اس کی۔۔۔۔
ہاں وہ پتر وہ تیرے ہاتھ کے ذائقوں کا تو شروع سے دیوانہ ہے۔۔۔۔اماں ہنسی۔۔دانین کو جان نکلتی معلوم ہو رہی تھی۔۔۔
اچھا نہ اماں باتوں میں نہ لگائیں اللہ خافظ۔۔۔مسکرا کر کال کاٹ دی۔۔اتنی دیر سے رکے آنسو گالوں سے بہتے گردن پر پہنچ گۓ۔۔۔
چہرے کو دونوں ہاتھوں سے بےدردی سے رگڑ کر آنسو صاف کرتی وہ سالن چیک کرنے لگی۔۔
اماں کا حیال ہے یہاں ماہرانیوں کی طرح رکھا ہے مجھے کوئ انکو بتاۓ بدلے میں دی ہوئ ماہرانی بھی نوکرانی ہی ہوتی ہے۔۔۔
اس کے آنے کے بعد ملازموں کی چھٹی کر دی گئ تھی۔۔۔گھر کے سارے کام کولہو کے بیل کی طرح اس سے کراۓ جاتے تھے۔۔مارکیٹ سے کچھ لانا ہوتا اسے بیجھا جاتا تھا۔۔رات تک وہ تھکن سے چور ہو جاتی تھی۔۔
دن بھر سائرہ اور رخشندہ بھابھی اس کی جان کھا جاتیں۔۔رات کو اساور اس کی سانسیں روک دیتا۔۔۔اس کے طنز تشدد ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔۔ایسے میں اس کے پاس پھوٹ پھوٹ کر رونے کے علاوہ اور کیا بچتا تھا۔۔۔۔۔۔
________________________________________________________
آج ہفتہ تھا۔دو دن کے لیئے کالج بند ہو گۓ تھے۔سب سٹوڈنٹس اپنا اپنا سامان پیک کر رہے تھے۔ان چھٹیوں کا انتظار پورے ہاسٹل کو رہتا تھا۔ابھی بھی ہاسٹل سے سٹوڈنٹس ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے تھے ۔سب کے چہروں پر گھر والوں سے ملنی کے خوشی جھلک رہی تھی۔۔
وہ بھی اپنا سامان پیک کر کے تیار ہو گئ تھی۔۔۔اس کا موبائل رِنگ کرنے لگا۔۔۔
اچھا تو ندا میڈم اے۔کے مجھے لینے آ گیا ہے میں چلتی ہوں۔۔اپنی دوست ندا کے گلے لگتی ہوئ بولی۔۔۔۔
ایک اے۔کے ہے جو وقت سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور ایک میرے موصوف ہیں جو شرم کے مارے ڈوب نہ مریں سب لڑکیوں کے سامنے کر لیں اگر مجھے پک۔۔۔ہمیشہ کی طرح اس نے اپنا دکھڑا رویا۔۔
میرے اے۔کے جیسا ہر کوئ ہو اٹس ناٹ پوسیبل۔۔اس کے گال پر چٹکی کاٹتی وہ مسکراتی ہوئ بیگ اٹھا کر ہاسٹل سے نکل آئ۔۔
سامنے ہی بلیک تھری پیس سوٹ میں اے۔کے اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔۔اسے دیکھ کر مسکرایا اور ہاتھ میں پکڑی گلاسس آنکھوں پر لگا دیں۔۔۔
ہاۓ۔۔وہ بھاگتی ہوئ اس کے پاس پہنچی ۔۔اے۔کے نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اس کی طرف کہ کہیں وہ آ کر گلے ہی نہ لگ جاتی اس کے۔۔۔منہ بناتے ہوۓ وہ گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔۔
یہ ہاۓ کیا ہوتا ہے کتنی دفعہ سمجھایا ہے اسلام علیکم کہتے ہیں۔۔۔اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔۔۔
اسلام علیکم جناب اے۔کے صاحب۔۔وہ ہاتھ ماتھے پر لے جا کر جھک کر بولی تو اے۔کے کی ہنسی نکل گئ۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔اے۔کے نے اپنی ہنسی دبائ تھی۔۔۔
اے۔کے ایک سنجیدہ شخص تھا مگر اس لڑکی کا ساتھ اسے بہت ہنساتا تھا جو اس کی زندگی تھی۔۔۔
اے۔کے۔۔۔اس نے چہرہ اے۔کے کے کندھے پر ٹِکا دیا۔۔۔
ہوں۔۔۔گاڑی چلاتے ایک سرسری سےنگاہ اس پر ڈال کر وہ پھر سے ونڈو سکرین کو دیکھنے لگا۔۔۔
تم شادی کے بعد مجھ سے گھر کے کام تو نہیں کرواؤ گے۔۔۔اس کا سوال اتنا معصومانہ تھا اور لہجہ بھی وہ مسکرا اٹھا۔۔۔
ہو سکتا ہے سوچوں گا۔۔۔اے۔کے کو شرارت سوجھی۔۔۔۔
واٹ۔۔۔اسےہزار والٹ کا جھٹکا لگا وہ ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔میں تمہیں کچا کھا جاؤں گی پھر اے۔کے۔۔۔اسکا انداذ واقعی کسی ڈرائیکولا جیسا تھا۔۔۔۔
افف پاگل کرتی ہو تم ۔۔۔اے۔کے نے اس سے پنگا لے کر اپنا ماتھا پیٹا۔۔۔۔۔۔گاڑی سگنل پر رک گئ۔۔ٹریفک کا مسئلہ دن بدن طول پکڑ رہا ہے۔۔۔۔
ایک خواجہ سرا اس کی سائیڈ سے سامنے آیا۔۔وہ ایک دم بدک کر پیچھے ہوئ۔۔۔۔خواجہ سرا چونکا۔۔۔۔۔۔
کچھ دو باجی اللہ کے نام پر۔۔۔حواجہ سرا تالی بجا کر بولا۔۔وہ تو سہم کر پیچھے ہو گئ تھی۔۔اے۔کے نے والٹ سے پیسے نکال کر اسے تھماۓ۔۔خواجہ سرا جاتے جاتے پلٹا۔۔وہ جو سیدھی ہو کر بیٹھی تھی پھر سے حوفزدہ ہوئ۔۔۔
ڈر مت لڑکی خوف کو ختم کر اپنے اندر سے ابھی تو تم نے طوفانوں کے ایک جہاں کا سفر کرنا ہے۔۔حواجہ سرا شیشے پر جھکا ہوا تھا۔۔۔
آپ جائیں دیکھیں یہ ڈر رہی ہے۔۔۔اے۔کی تو جان ہوا ہوتی تھی وہ ڈر کر بھی تکلیف سہتی تو۔۔۔
ڈر مت بس یاد رکھ جو آپ کا درد برداشت نہیں کر پاتے وہی وہی پھر سارے دردوں کی وجہ ہوتے ہیں۔۔۔سگنل کھل چکا تھا۔۔گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔۔حواجہ سرا ساتھ ہی بھاگا آ رہا تھا۔۔۔
فریب اور دھوکے سلمانی ٹوپی پہن کر آتے ہیں،خبر ہی نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔۔سگنل کھلا گاڑیاں رفتار سے آگے بڑھنے لگیں۔۔وہ خواجہ سرا اب بھی ان کی گاڑی کے ساتھ بھاگتے بول رہا تھا۔۔
جوانی آزمائش ہے جوانی صدقہ چاہتی ہے۔اپنی جوانی کے بدلے اپنی دل لگی دان کر دے۔۔ورنہ حقیقت اور خواب کا فرق تاعمر رلاۓ گا۔۔۔حواجہ سرا کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔۔مگر اس کی آواز ابھی بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔وہ بہت سہمی سہمی سی لگ رہی تھی۔۔وہ بہت ڈر گئ تھی۔۔۔
کچھ نہیں ہوا ابھی ہم گھر پہنچ جائیں گے یہ لوگ تو روز کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں ۔۔۔اگنور کرو۔۔۔۔۔اے۔کے اسے تسلی دینے لگا۔۔مگر پسینہ اس کے ماتھے سے بہہ رہا تھا۔۔سردی کے موسم میں بھی وہ پسینے سے شرابور تھی۔۔اور یہ سب حوف تھا حواجہ سرا کی باتوں کا نہیں خواجہ سرا کا۔۔۔۔
________________________________________________________
سب کو کھانا دے کر اب وہ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی کہ نوالہ اس کے گلے میں اٹکا۔۔
اسے کھانے میں جو چیز پسند نہیں تھی اسے وہی دی جاتی تھی وہ بھی بچی کھچی۔۔اور وہ حیران ہوتی اتنے امیر تھے یہ اور اس کی روٹی تک کو زہر کر دیتے پھر بھی۔۔۔۔۔
صبر کا گھونٹ بھرتی وہ کھانا کھا رہی تھی آخر پیٹ کی آگ کو بھی تو بجانا تھا۔۔ماضی چھم سے اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں جان میں نہیں کھاوں گی یہ کریلا۔۔آپ کو پتہ پھر بھی بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھی وہ نعرے لگا رہی تھی۔۔۔
آج تو کچھ نہیں ملے گا اور بہت عادتیں خراب ہو گئ ہیں تمہاری۔۔۔۔۔۔۔ہاٹ پاٹ سے روٹی نکال کر اماں نے اس کے آگے رکھی۔۔سعدی فون پر مصروف ساتھ ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔۔۔
اماں ڈانٹ رہی ہیں مجھے۔۔۔اس نے رونی سی شکل بنائ۔۔اماں کو بےاختیار اس پر پیار آیا۔۔۔
نہیں میرا دانی بچہ۔ڈانٹ نہیں رہی۔لیکن بیٹا یہ بری بات ہے تمام چیزیں اللہ کی بنائ ہوئ ہیں ہم اس میں نقص نکالنے والے یا اللہ کی بناوٹ کو ناپسند کرنے والے کون ہوتے ہیں۔۔۔اور سبزیوں سے تو انسان فِٹ رہتا ہے۔۔۔اماں نے پیار سے اسے سمجھایا۔۔اتنے میں ڈور بیل بجی۔سعدی اک مسکراہٹ ان دونوں پر اچھال کر باہر چلا گیا۔۔
واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پزا تھا۔۔۔
اماں میری بہن کو مت ڈانٹا کریں۔جو کہے مان لیا کریں۔یہ لو کوئ ضرورت نہیں کریلے کھانے کی۔تمہارا پزا۔۔۔پزا اس کے ہاتھ میں تھما کر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔
یا ہو مان گئ تو جگر ہے میرا بھلے سے دو تین سال چھوٹا سہی پر جان ہے میری۔۔۔پزا کا پیس نکالتے ہوۓ وہ جوش سے بولی۔۔۔
اچھا اچھا تھوڑا بہنا مکھن کو بچا کر رکھو۔۔۔سعدی مسکرا دیا۔وہ اسے خوش ہی تو دیکھنا چاہتا تھا۔۔
آہم آہم۔۔اسے کھانسی لگی تو اس کا تسلسل ٹوٹا ماضی سے حال میں واپس آئ۔۔کتنا حسین ماضی تھا اس کا۔۔
اس کا گھر پرستان تھا اور وہ پری تھی پرستان کی،جو شہزادے کے انتظار میں دھوکہ کھا گئ اور اب وہی شہزادہ ظالم دیو کا روپ دھار چکا تھا۔۔۔
برتن سمیٹتی وہ اٹھی۔۔بچے ہوۓ برتن دھوۓ۔۔جلا ہوا ہاتھ درد کرنے لگا مگر وہ برداشت کر گئ۔۔۔
کھڑکی سے جھانک کر اس نے چاند کو دیکھا۔۔
اسکی۔ اور چاند کی دوستی بہت پرانی تھی اپنے دکھ پر چاند بھی دکھی لگتا اپنی حوشی پر خوش لگتا تھا۔۔مگر آج اسے لگا چاند بھی ہنس رہا ہے اس پر۔۔
کیوں کہ وہ چمک رہا تھا بہت غرور کے ساتھ۔۔
تم چمکو اور چمکتے رہو۔تمہاری دوست تمہاری مکین تو غروب ہو گئ اساور کاظمی کی کی حویلی میں۔۔۔اداسی اس کے چہرے پر پھیلی ہوئ تھی۔کھڑکی بند کرتی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔۔۔جہاں ظالم دیو ظلم کی تمام حدیں توڑے بیٹھا تھا۔۔۔
وہ بغیر آواز پیدا کیئے کمرے میں داخل ہوئ۔اسے لگا اساور سو گیا ہو گا۔۔مگر وہ ادِھراُدھر ٹہلتا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔۔۔
ڈھونڈو اسے ڈھونڈنا تمھارا کام ہے معاوضہ ملے گا تمہیں۔۔وہ غصے میں تھا۔۔سعدی رانا کی سانسیں میں اپنے ہاتھوں سے چھینوں گا۔۔۔سرسری سی نظر اس پر ڈالتے اساور نے کال منقطع کی۔۔آخری الفاظ پر دانین کا دل کانپا۔دھڑکن ساکت ہوئ۔۔بےجان نظروں سے مڑ کر اس نے اساور کو دیکھا۔۔
وہ اسے نظرانداذ کرتا بیڈ کی طرف بڑھا۔۔تکیہ اٹھا کر کارپٹ پر پھینکا۔۔۔۔وہ حیرانی سے اس کی کاروائ دیکھ رہی تھی۔۔۔
یہیں سوؤں گی تم آئندہ۔۔غصیلی مسکراہٹ کے ساتھ وہ بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔
اساور سردی ہے بہت میں کارپٹ پر کیسے سوؤں گی۔۔۔اس نے احتجاج کرنا چاہا مگر آواز التجا سی نکلی۔۔۔۔۔
آئ ڈونٹ کیئر مس دانین جمشید علی۔۔اساور نے کمبل اپنے اوپر اوڑھ لیا۔۔وہ اب کچھ نہیں سننے والا تھا۔۔دانین کو ساری رات یہیں گزارنی تھی ٹھٹھرتے ہوۓ سسکتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تکیہ رکھ کر لیٹ گئ جلے ہوۓ ہاتھ کا درد،سردی کی شدت،خواب اور خقیقت کا فرق اس کی روح تک کو زخمی کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک نظر سکون سے سوۓ اساور کو دیکھا۔۔وہ اس شخص سے نفرت کرنا چاہتی تھی اور وہ نفرت کرے گی یہ اس نے ٹھان لی تھی۔۔۔
بس یہ اذیت اور تکلیف کی جنگ اسے اپنے بھائ کے بےگناہ ثابت ہونے تک لڑنی تھی۔اسے اپنے بھائ کی زندگی کو بچانے کے لیئے اس جنگ میں مر جانا پڑتا وہ مر جاۓ گی۔۔ ۔۔۔۔
ساری رات اس کی آنکھوں میں کٹنی تھی۔سردی کی شدت نے کپکپی طاری کر دی تھی اس پر۔۔اس کا دل چاہا جا کر کمبل میں دبک جاۓ مگر وہ سوچ کر ہی رہ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔
________________________________________________________