میرے شفیق استاداردو کے مشہورمحقق اور نقاد پروفیسر نجیب اشرف ندوی مرحوم نے انشائیہ سے بحث کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے ایسّے (essay) یا انشائیہ کی اتنی متنوع مختلف اور بعض اوقات متضاد تعریفیں ہوئی ہیں کہ خود انشائیہ چلا اٹھتا ہے کہ:
شد پریشاں خواب من، از کثرت تعبیر ہا
ندوی صاحب کا فرمانا سو فیصد بجا ہے۔ ایک انشائیہ پر کیا منحصر ہے ادب کی مختلف اصناف مثلاً غزل، افسانہ، ڈرامے، ناول اور آخر میں خودادب کی کوئی حتمی اور قطعی تعریف امرمحال کی حیثیت رکھتی ہے۔ مغرب میں افلاطون اور ارسطو نیز مشرق میں امام غزالی اور ابن خلدون سے لے کر ہمارے زمانے تک مختلف فلسفیوں، مفکروں، ادیبوں اور شاعروں نے اپنے اپنے زمانے میں اور اپنے اپنے انداز میں مختلف اصناف ادب کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں ہرتعریف اپنی جگہ پر صحیح ہے۔ لیکن کسی بھی تعریف کو آخری یا قطعی نہیں کہا جا سکتا۔ بات در اصل یہ ہے کہ زندگی کی طرح ادب بھی ایک سیال، متحرک اور ہمیشہ آگے بڑھتی رہنے والی قوت ہے۔ ادب یقیناً زندگی اور سماج کا آئینہ ہی نہیں بلکہ اس کی پیداوار (product) بھی ہے۔ چونکہ ادب کی تخلیق افراد کے ذریعہ عمل میں آتی ہے اور ہرفرددوسرے فرد سے کسی نہ کسی حد تک اور کسی نہ کسی سطح پر مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے ادب میں انفرادی تبدیلیوں کا پایا جانا ناگزیر ہے۔
مختصریہ کہ دیگراصناف ادب کی طرح انشائیہ کی صنف بھی مختلف ادوار میں نت نئی تبدیلیوں کی مظہر اور نت نئے اسالیب کی آئینہ دار نظر آتی ہے۔ فن انشائیہ کے موجداور باوا آدم مون ٹین سے لے کر جدیددور کے مشہورمغربی انشائیہ نگار تک مثلاً چسٹرٹن اور ورجینیا ولف کے انشائیوں کامطالعہ بعض مرکزی خصوصیات کے ساتھ ساتھ ادیبوں کے انفرادی اسالیب بیان وذہنی کیفیتوں moods اور ردعمل کی نشان دہی کرتا ہے۔ جہاں تک اردو کا تعلق ہے، مختصرافسانہ کی طرح انشائیہ بھی خاصی نوعمر اور کم عمر صنف ادب ہے۔ پرانے لوگوں میں محمد حسین آزاد، سجادانصاری، میرناصرعلی اور مولانا ابو الکلام آزاد کی بہت سی تحریریں انشائیہ نگاری کے زمرہ میں آتی ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر وزیر آغا، نظیرصدیقی، محمد زماں آزردہ، مشتاق قمر اور انورسدید کے یہاں انشائیہ کی طرف خصوصی شغف ملتا ہے۔ ان تمام لوگوں میں ڈاکٹر وزیر آغا کو اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ انھوں نے اس دور میں نہ صرف زیادہ تعداد میں انشائیے لکھے ہیں بلکہ وہ صنف انشائیہ کے سب سے نظریہ ساز بھی ہیں۔ وزیر آغا خالص انشائیہ کے ماننے والے ہیں اور اس صنف کو دوسرے اصناف سے گڈمڈ کرنے کے رجحان کے سخت خلاف ہیں۔ وہ اپنے مضمون انشائیہ کی پہچان میں سرسید سے لے کر رشید احمد صدیقی، کنہیالال کپور، کرشن چندر اور مشتاق احمد یوسفی تک انشائیہ نگار سمجھنے والے نقادوں کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’اصل بات یہ ہے کہ انشائیہ کی صنف اردو ادب میں توآ گئی ہے لیکن تاحال اس کی پہچان کا مسئلہ کھٹائی میں پڑاہوا ہے۔‘‘
مجھے وزیر آغا کے اس خیال سے پورا اتفاق ہے کہ ہر طرح کے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین پر انشائیہ کا لیبل چسپاں کرنا کوئی مناسب اور قابل قدر بات نہیں ہے، لیکن جب وزیر آغا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اردو میں انشائیہ نگاری کی عمر دس بارہ سال سے زیادہ نہیں یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہ خودوزیر آغا صاحب اردو کے پہلے انشائیہ شمار ہیں تو میں خود کو پوری طرح ان سے متفق نہیں پاتا۔ اگریہ مان بھی لیا جائے کہ دس بارہ برس پہلے تک اردو میں انشائیہ نگاری بطور تحریک موجود نہیں تھی توسوال یہ ہے کہ کیا آج یہ فن بطور تحریک آگے بڑھ رہا ہے یا بڑھایا جا رہا ہے؟ اور کیا کسی بھی زمانے میں کوئی صنف ادب باقاعدہ تحریک کی صورت میں موجود رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ تحریکوں کا تعلق اصناف ادب سے نہیں بلکہ ادیبوں اور شاعروں کے ذہنی رجحانات سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سرسید کی تحریک، ترقی پسند تحریک یا جدے دیت کی تحریک کا تعلق اور دائرۂ سفرکسی ایک صنف ادب تک محدود نہیں ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں ہمارے یہاں دوسری کئی جدید اصناف کی طرح انشائیہ کی صنف بھی مغرب سے آئی ہے۔ اس لیے بہترہو گا کہ انشائیہ کی پہچان کے سلسلے میں مزید گفتگو کرنے سے پہلے ہم مغربی انشائیہ نگاروں پر ایک سرسری نظرڈال لیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ مغرب میں اس صنف کو کن مختلف سطحوں پر برتا گیا ہے۔ یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ صنف انشائیہ کے تعلق سے جہاں ایک طرف وزیر آغا کا متذکرہ بالا انتہا پسند نقطۂ نظر ہے اور جس کی روسے یہ صنف ابھی اپنے سن بلوغ کو بھی نہیں پہنچی، وہیں دوسرا انتہا پسند رویہ جاوید وشسٹ کا ہے جو ملا وجہی کو اردو ادب کا سب سے پہلا انشائیہ نگار قرار دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جاوید وشسٹ نے خود جا بجا مغربی ادیبوں کے خیالات سے استفادہ کیا ہے۔ وہ اردو انشائیوں کو مغربی اصول انتقادیات کے معیار پر پرکھنے اور جانچنے کے مخالف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افراد کی ذہنی اپج اور تفریق مزاج کے ساتھ ساتھ سماج، ماحول، دور اور ثقافت کی تبدیلیاں بھی اصناف ادب پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں اور انہیں تبدیلیوں نیز انھیں اثرات کے سبب بحیثیت مجموعی ادب برابر ترقی پذیر رہتا ہے اور آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ادبیات عالم کی تاریخ کے مطالعہ سے اس حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے کہ ہر صنف ادب انسانی تقاضوں اور معاشرتی ضرورتوں کے پیش نظر وجود میں آئی ہے۔ ظہوراسلام سے قبل کا عربی معاشرہ جسے دورجاہلیت کا معاشرہ بھی کہتے ہیں شخصیت پرستی اور بت پرستی میں یقین رکھتا تھا۔ چنانچہ فطری طور پر اس معاشرہ میں قصیدہ گوئی اور مرثیہ گوئی کو رواج اور فروغ حاصل ہوا۔ ایران کی رومان پرور اور جذباتی فضا نے ’نسب‘ اور ’نشیب‘ کو انفرا دیت کا رنگ دے کر غزل کی دنیا روشن کی رزم وبزم کی کیفیتوں اور حسن و عشق کی رنگینیوں کو مثنوی کے دامن میں پناہ ملی۔ کہانیاں سننے اور سنانے کے شوق نیز فلسفیانہ شغف نے ناول کو اور پھر صنعتی انقلاب کے بعد کی عمومی عدیم الفرصتی نے مختصر افسانہ کو جنم دیا۔ رزمیہ، المیہ، فکاہیہ، تنقید، رپورتاژ، سوانح غرض کہ ہرصنف ادب کسی نہ کسی تاریخی ضرورت یا پھر مخصوص ادوار میں انفرادی اور اجتماعی رجحانات میلانات کی اختراع ہے۔ معاشرتی تبدیلیوں اور پھر ان تبدیلیوں کی وجہ سے افراد کے نجی ردعمل کی تبدیلیوں نیز ان کے توسط سے علم و ادب میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے میاں محمد شریف نے اپنی کتاب جمالیات کے تین نظریے میں لکھا ہے، معاشرہ متحجرہو جاتا ہے، عقائد، رسمیات اور تعصیبات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے اصول وآداب زنجیر پاہو جاتے ہیں۔ نازک حرکی، معاشرتی توازن بگڑ جاتا ہے۔ موادنامافیہ صورت میں اور صورت تجرید میں بدل جاتی ہے۔ زندگی پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور فن بے جان، عامیانہ اور رسمی بن جاتا ہے۔
تاہم یہ صورت حال تادیر باقی نہیں رہتی۔ زندگی میں بھی بہاروخزاں کے دور ہوتے ہیں۔ جامدمعاشرے کے بطن سے انقلاب کا چشمہ ابل پڑتا ہے اور تاریخ ایک نئے موڑ پر آ جاتی ہے۔ قدامت کے بت پاش پاش کر دیے جاتے ہیں، رسوم وروایات کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ نئے تصورات اور بنیادی جذبات اپنی پوری تازگی کے ساتھ نمو پانے لگتے ہیں، معاشرہ سانپ کی طرح اپنی کینچلی اتار دیتا ہے اور ایک نئی روح جاگ اٹھتی ہے، پرانے اصول، اسالیب اور معیار بدل جاتے ہیں۔ آزادی کا احساس ابھرتا ہے۔ زندگی ہنگاموں اور جد و جہد سے آشناہو جاتی ہے۔ معاشرتی توازن متزلزل ہونے لگتا ہے۔ فنی تجربات کا آغاز ہوتا ہے جن میں بعض تجربات کامیاب اور بعض ناکام رہتے ہیں۔ (جمالیات کے تین نظریے، ص: ۱۸-۱۹)
زندگی، معاشرہ اور علوم وفنون کے بارے میں یہ عمومی تبصرہ اپنی جگہ پر صحیح ہے لیکن جہاں تک ادب کا تعلق ہے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی ہر صنف مختلف زبانوں میں مختلف افراد کے ہاتھوں تمام ترتبدیلیوں سے دوچار ہونے کے باوجود کچھ ایسی بنیادی خصوصیتیں رکھتی ہے جن کی بناپر اس کی اپنی ایک الگ پہچان اور شناخت ہوتی ہے اور جن کی بناپراسے دوسرے اصناف ادب سے ممیز کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے چارسو برسوں میں انشائیہ کی صنف نہ جانے کتنی تبدیلیوں سے دوچار ہوئی ہے لیکن یہ سب کچھ مواداور اسلوب کی سطح پر ہوا ہے۔ ادبی ہیئت (literary form) کی حیثیت سے ظاہر ہے کہ ناول اور ڈرامہ کی طرح انشائیہ کی بھی کچھ بنیادی اقدار اور بنیادی خصائص ہیں۔ اب اگرکوئی شخص اس فنی ہیئت کو جبراً توڑ کر اسے دوسرے اصناف ادب سے گڈمڈ کرنے کی کوشش کرے یا پھر اسے فقیر کی جھولی سمجھ کر حسب مرضی اس میں ادھرادھر کا سارامال انڈیلنے کی کوشش کرے تو یہ اس کی غلطی ہے نہ کہ انشائیہ کی۔ یہاں ضرورتاً اس بات کا اعادہ کر دوں کہ ایک تو ادب کو پرکھنے کے اصول عام طور پر عالمی ہوتے ہیں، نہ کہ ملکی اور صوبائی اور دوسرے چونکہ انشائیہ کی صنف اردو میں مغرب سے آئی ہے۔ اس لیے اس کی پہچان کے لیے ہمیں مغرب سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ اہم انشائیہ نگاروں اور ان کی تحریروں سے اخذکیے گئے انشائیہ نگاری کے اہم اصولوں سے بحث کرنے سے پہلے مختصراً یہ دیکھ لینا مناسب ہو گا کہ انشائیہ کن حالات میں اور عموماً کن ذہنی کیفیات سے جنم لیتا ہے۔ انشائیہ نگاری کا آغاز فرانس میں موٹین montaigne سے ہوا، جسے عام طور پر اس صنف کا موجداور باوا آدم کہا جاتا ہے۔ انگلستان میں یہ سلسلہ سرفرانسس بیکن سے شروع ہوتا ہے۔ مونٹین کے ساتھ ساتھ انشائیہ نگاری کے میدان میں بیکن کی حیثیت آج بھی ایک اہم متوازی رویہ کی حیثیت ہے۔ چارلز اسمتھ نے مونٹین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بڑے سے بڑا انشائیہ نگار بھی مونٹین کے اثرات سے نہیں بچ سکتا۔ یہی بات بیکن کے بارے میں بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے۔ مغرب کا کوئی بھی ایسا انشائیہ نگار نہیں ہے جو بیکن کے اثرات سے یکسر آزاد ہو۔ خواہ وہ خود چارلز لیمب ہی کیوں نہ ہو۔ مونٹین اور بیکن دونوں عہدوسطی کے اختتام یعنی سولہویں صدی عیسوی کی پیداوار تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغرب میں لوگوں کو اچانک یہ احساس ہوا کہ انھیں اب قدیم داستانوں، پندناموں اور رزم ناموں کی مزید ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ اس طرح اب ادب، متعلقہ ادیب کے ذاتی غم یا خوشی یا محبت یا نفرت کا اظہار بن گیا۔ تاریخ اور داستانوں کو الگ رکھ دیا گیا اور فن کار مختلف مسائل پر خود اپنی بات کہنے کے لیے یعنی دوسرے لفظوں میں اظہار ذات کے لیے بے چین ہو اٹھا۔ essay یا فرانسیسی essais کے لغوی معنی ہوتے ہیں کوشش کرنا (to try) یا تولنا (to weigh) یہ بے چینی جو بعد میں انشائیہ کا جزو لاینفک بنی انسان کی فطرت کے زیر و بم کا نتیجہ تھی جسے کوئی بھی فنی اصول یا ادبی مسلک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابند نہیں بنا سکتا۔
ازل سے قدرت کے طاقتور عوامل اور خودساختہ رسوم وقوانین میں جکڑا ہوا انسان شعوری اور غیر شعوری طور پر آزادی کی ایک ایک سانس کے لیے جد و جہد کرتا ہے۔ انشائیوں میں در اصل فن کار کے اسی جذبۂ حریت کی تسکین ہوتی ہے۔ انشائیہ کی نوعیت اور ماہیت کے پیش نظرانشائیہ نگار کو رومانی مفکر بھی کہا جاتارہا ہے۔ کیوں کہ وہ زندگیک و دماغ اور دل نیز جذبہ اور ادراک کے الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ رومانویت سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ انشائیہ نگار محض تخیل میں پرواز کرتا ہے اور فضاؤں کی سیر کرتا ہے۔ برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ انشائیہ نگار اڑان توچاہے جتنی اونچی بھرے اس کے قدم ہمیشہ زمین پر مضبوطی سے ٹکے رہتے ہیں۔ انشائیہ نگار اس سارے فنی عمل کو نہایت ہی نپے تلے compact انداز میں، بے تکلف طور پر اور اپنی ذات کو مرکز بنا کر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اختصار، غیر رسمی طریق کار اور انکشاف ذات انشائیہ نگاری کی اہم خصوصیات ٹھہریں۔ لیکن اس سلسلہ میں ڈاکٹر وزیر آغا اعتراض کرتے ہوئے اور بڑی حد تک صحیح اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات کم وبیش دوسرے اصناف ادب میں بھی مل جاتی ہیں۔ پھر انشائیہ کی اپنی پہچان یعنی تعریف کیا ہوئی…؟
انشائیہ کی ایک بے حدمقبول اور مشہور تعریف ہمیں ڈاکٹر جانسن کے یہاں ملتی ہے۔ اس کے خیال میں:
"is a loose solly of the mind on irrgular indigested piece not a regular and orderly constrewartion."
یعنی یہ کہ انشائیہ ایک ایسی ذہنی یا دماغی ترنگ ہے جس کے لیے کوئی مربوط فکری نظام اور ترتیب کی ضرورت نہیں اور جس کا بنیادی تعلق نسبتاً اشیاء کی اوپری سطح سے ہوتا ہے۔
ایک مخصوص حد تک یقیناً جانسن کی یہ تعریف فن انشائیہ کا احاطہ کرتی ہے اور وہ اس لیے کہ جب ڈاکٹر جانسن نے انشائیہ کی یہ توصیح کی تو ان کے سامنے فطری طور پر اٹھارویں صدی تک کے انشائیے تھے گذشتہ دوسوبرس میں انشائیہ کی صنف برابرتغیر پذیر اور ارتقاء پذیر رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے میں اشارہ کر چکاہوں شروع سے ہی فن انشائیہ دوستونوں یعنی دو رویوں کے درمیان سفر کرتارہا ہے۔ ایک رویے کا تعلق مونٹین سے ہے جن کے تحت انشائیہ نگار مظاہر حیات و کائنات کے تعلق سے اپنے خالص نجی اور انوکھے تجربات یا رد عمل کو ہلکے پھلکے شگفتہ انداز اور نسبتاً پر بھرے لہجے میں پیش کرتا ہے۔ اسی بناء پر بعض لوگ انشائیہ کو light literature بھی کہتے ہیں۔ یہ روایت چارلز لیمب اور گولڈ اسمتھ سے ہوتی ہوئی آر ایل اسٹیوینسن سے بیسوی صدی کے زبردست انشائیہ نگار بیربوم (beer - bohm) اور پھر جدیدترین انشائیہ نگار پال جنگز (paul genning) تک پہنچتی ہے اور آج بھی بحیثیت مجموعی انشائیہ نگاری کی غالب روایت ہے۔ دوسرے رجحان کا آغاز جیسا کہ پہلے عرض کر چکاہوں بیکن (bacon) سے شروع ہوتا ہے۔ اڈیسن اور ہیزلٹ سے ہوتا ہوا بیسویں صدی میں بیلوک (bellock) اور چسٹرٹن تک آتا ہے۔ اڈیسن نے جو بیکن اور مونٹین کی روایتوں کا بہترین مزاج داں اور موثر ترین امتزاج تھا اپنے انشائیوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے:
(۱) سنجیدہ انشائیے (serious essays) جن میں اولین فلسفہ، منطق، تاریخ اور تحقیق سے دامن بچاتے ہوئے پر تکلف اور عالمانہ انداز میں موت، دوستی، شادی اور تعلیم جیسے اہم مسائل پر اپنے ذاتی تاثرات کا اظہار کرتا ہے۔
(۲) لمحاتی انشائیے (occasional papers) جن میں اڈیسن بے حد بے تکلف، پر مزاح موڈاور نجی ترنگ میں نظر آتا ہے۔
لیمب کے وہ غیر معمولی جوشیلے مداح جو اسے انگریزی کا پہلا حقیقی انشائیہ نگار قرار دیتے ہیں در اصل بھول جاتے ہیں کہ بیکن اور اس کے بعد اڈیسن نے ہی لیمب کے لیے راستہ بنایا تھا۔ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو محض مونٹین کے طرزتحریر کوہی انشائیہ نگاری بھی کہتے ہیں ! غالباً ایسے ہی لوگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوزن کوپر (suson cooper) اپنی حالیہ کتاب ’انشائیہ نگاری کے پانچ دور‘ کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ ’’انشائیہ، نثر میں سانیٹ کا نعم البدل نہیں ہے کہ اس کی ہیئت میں کسی قسم کی تبدیلی ہی نہ ہو سکے اور جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک روایتی اور جامد ڈھانچے سے بندھا رہے۔ انشائیہ ایک ایسا فنی ڈھانچہ ہے جو زبان و ادب کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خودبھی بدلتارہتا ہے۔ جو لوگ اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتے ان کے یہاں ناقابل برداشت یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے۔
اس طرح انشائیہ نگاری زبان و ادب کی تبدیلیوں کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ناطہ براہ راست زندگی سے جوڑ لیتی ہے۔ ناول نگار، افسانہ نویس، محقق اور نقاد جب کچھ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے سامنے واضح مقاصد ہوتے ہیں، فن پارہ کی ابتدا اور اختتام کا واضح نقشہ ہوتا ہے۔ نیزوہ اپنے قاری کو دلائل وبراہین کے ذریعہ قائل کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زندگی میں اس قسم کے کسی نظم وضبط کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں مشہور جدید امریکی انشائیہ نگار اسٹوورٹ پر یٹ شرمن (stuart pratt sherman) نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ ’’زندگی بجائے خود ایک انشائیہ ہے۔ نہ تو کسی مخصوص نقطے سے اس کا آغازسفرہوتا ہے اور نہ ہی مدت سے پہلے تک اس کی طے شدہ منزل ہوتی ہے۔ انشائیہ کاراستہ ایک بہتے ہوئے دریاکی طرح ہے، جس کی رفتارکبھی بے حدتیز اور کبھی بے حد سبک اور نرم روہو جاتی ہے۔ یہ میدانوں میں بھی بہتا ہے اور اوبرکھابڑچٹانوں کے بیچ اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ یہ مختلف راستے در اصل انشائیہ نگار کی وہ بدلتی ہوئی ذہنی کیفیتیں ہیں جن سے دھوپ چھاؤں والی کیفیت کا جادو پیدا ہوتا ہے۔ اپنے غیر متوقع اور غیر معین انداز کی وجہ سے ہرلمحہ بدلنے والی زندگی ہوبہو انشائیہ کے مشابہ ہے۔ زندگی سے اسی مشابہت کے سبب بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگاروں میں سے بعض نے انشائیہ کے دامن کو وسیع کرنے نیز اسے ہم عصرزندگی کے مطابق بنانے کی وکالت اور عملی کوشش کی ہے۔ مثلاً بیلوک (bellock) نے صنف انشائیہ میں مذہبی مسائل کو اور چسٹرٹن نے اخلاقی اور معاشی مسائل کو داخل کرنے کی زبردست حمایت کی ہے۔ اس طرح اب ہم اگرقدیم و جدید انشائیہ نگاری کامکمل احاطہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انشائیہ در اصل ایک ایسا مثلث ہے جس کا ایک زاویہ ذاتی اور خودسوانحی ہے۔ دوسرا معروضی یعنی ٹھوس حقائق بیان کرنے والا اور تیسرا تجریدی اور آفاقی۔ یہ تینوں زاویے در اصل انشائیہ کے تین بنیادی اوصاف بیان کرتے ہیں جو یوں ہیں: (۱) نقطۂ نظر، (۲) موضوع، (۳) اسلوب۔
کامیاب ترین انشائیے وہ ہوتے ہیں جن میں کسی ایک یا دو خصوصیتوں کے بجائے تینوں خصوصیتوں کو بیک وقت اور خوشگوار تناسب کے ساتھ برتا جائے، اسی مسئلے کی اگر مزید وضاحت کرناچاہیں تویوں کہہ سکتے ہیں کہ نقطۂ نظر انشائیہ کی متعلقہ فن کار کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ انشائیہ کاموضوع خواہ کچھ بھی ہو موضوع کے برتاؤ پر نجی انشائیہ نگار کو یوں نگاہ ڈالنی چاہیے کہ پڑھنے والے اپنے آپ کو اس کے تجربے میں شریک سمجھنے کے باوجود حیرت واستعجاب میں پڑ جائیں اور یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ اگرچہ انھوں نے ان اشیاء کو پہلے بھی دیکھا تھا، ان کے بارے میں پہلے بھی سوچا تھالیکن اشیاء کا آپسی تعلق جو اس مخصوص فن پارہ میں نظر آتا ہے۔ اس تک ان کی نگاہ نہیں گئی۔ اس عمل میں انشائیہ نگار ہرتجربے کو پہلے خود حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے، اور پھراپنے احساسات وجذبات کی لہروں کو مناسب ترین پیرایہ میں قاری تک منتقل کرتا ہے۔ یہ مناسب ترین پیرایہ در اصل اسلوب کا مسئلہ ہے۔ انشائیہ میں ضروری طور پر ایسا اسلوب اختیار کیا جاتا ہے کہ قاری فن کار کے ساتھ ساتھ سفر بھی کرتا رہے اور دوران سفر لطف اندوز بھی ہوتا رہے۔ انشائیہ نگاری میں شدت تاثر کا بہت کچھ دارومدار اسلوب پر ہی ہوتا ہے۔ فرانسیسی نقاد بفن (buffon) اسلوب اور شخصیت کو جب ایک دوسرے کا آئینہ قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اسلوب کے ذریعہ فنکار کی حقیقی اور انفرادی شخصیت قاری تک پہنچ سکے۔ جب ہم شخصیت کی منتقلی یا اظہار ذات کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ فنکار انشائیہ کے ذریعہ اپنے ذاتی مسائل و افکار یا ذاتی تعصبات کوپیش کرے۔ یہ کام توخودنوشت سوانح میں کیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے انشائیے خودسوانحی اندازلیے ہوتے ہیں لیکن اس انداز میں متعلقہ فنکار کی خودی یا انانیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ انشائیہ کا فن اپنے خالق سے اس کی کشید کی ہوئی distilled شخصیت کامطالبہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں لیمب کے بہت سے انشائیوں میں اس کی عمومی زندگی کا دردناک پس منظر نظر آتا ہے لیکن کہیں بھی خود ترحمی یا رحم طلبی کے جذبات دکھائی نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انشائیہ نگار زندگی کے مقاصد اور ان کے حصول کے ذرائع سے نہیں بلکہ زندگی کی رنگارنگی سے سروکار رکھتا ہے۔ مشہور نقاد اے سی بینسن (a. c. benson) کا خیال ہے کہ مختلف انشائیہ نگاروں کے انفرادی مزاج اور افتادطبع کے فرق کی وجہ سے ان کے انشائیے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن تمام انشائیوں کی روح ایک ہی رہتی ہے۔ یعنی وہ ذاتی احساس اور ذاتی تاثر جو کسی عجیب وغریب، دلچسپ، خوبصورت، انوکھے یا پرلطف واقعے، مشاہدے یا تجربے سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر انشائیے استعجاب اور انبساط کی دولت سے مالامال رہتے ہیں۔ انشائیہ نگار مزاح نویس نہیں ہوتا چونکہ استعجاب وانبساط کا تعلق ذہنی آزاد روی سے ہوتا ہے۔ اس لیے انشائیہ میں فن کار کی حس مزاح زیرین لہر کے طور پر موجود رہتی ہے۔ صنف انشائیہ کی انہیں خصوصیتوں یعنی اختصار، اظہار ذات، استعجابی کیفیت، مسرت، انبساط کا اچانک تجربہ وغیرہ کی بناء پر الکزینڈراسمتھ نے اسے غنائی شاعری سے تشبیہ دی ہے۔ ناچیز کے خیال میں انشایۂ کو شاعری نہ سمجھ کر انشائیہ ہی سمجھناچاہیے۔ کیوں کہ اس کی اپنی ایک آزاد حیثیت اور ہیئت ہے۔
(ماخوذ: فکروفن، ڈاکٹر آدم شیخ، اردو انشائیہ سفرمنزلیں اور رہنما، ممبئی، ۱۹۸۸ء)
٭٭٭