انشائیہ ادب کی ایک خاص صورت ہے یا صنف۔ ادب کے دیگر اصناف میں اس کا رشتہ مقالہ سے قریبی ہے۔ کہانوی اصناف یعنی تمثیلیہ، حکایت، داستان، ناول، ڈراما اور افسانہ اور مثنوی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بہ اعتبارِ صنف اس کا موازنہ مقالہ سے کیا جا سکتا ہے۔
مقالے کی روح سنجیدگی اور متانت ہے، مقالہ نگار کسی امر پر سنجیدگی سے روشنی ڈالتا ہے۔ یہ روشنی صاف و شفاف ہوتی ہے۔ اس کی تیز شعاؤں سے نفسِ تحریر کے مختلف گوشے منورو نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ہم اس تحریر کو پڑھتے ہیں اور موضوعِ تحریر یا نفسِ مضمون سے اچھی خاصی واقفیت حاصل کر لیتے ہیں۔ انشائیہ نگار بھی کسی امر پر روشنی ڈالتا ہے لیکن یہ روشنی رنگا رنگ ہوتی ہے۔ اس میں دھند لکا اور برّاقی دونوں ہوتی ہیں۔ یہ روشنی ہماری توجہ کو ایک ہی راستے پر نہیں لگاتی، بلکہ یہ اسے اٹھکھیلیاں کراتی ہے۔ مقالہ پڑھنے کے بعد ہم کچھ سیکھتے یا پاتے ہیں۔ ایسی بات یا ایسا خیال جس سے ہماری علمیت میں گوں ناگوں اضافہ ہوتا ہے جس سے ہماری شخصیت میں علم کی تابندگی آتی ہے۔ انشائیہ پڑھنے کے بعد ہم کوئی گم کردہ شے پا لیتے ہیں۔ ایسی شے جو روزانہ کی سادہ اور سپاٹ زندگی میں آنکھوں سے روپوش رہتی ہے۔ ایسی شے جو ٹھوس اور ناقابلِ انکار حقیقتوں میں اوجھل رہتی ہے۔
آپ جانتے ہیں یہ دنیا حیوانوں سے بھری پڑی ہے۔ اس میں شیطان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ زندگی اور خوش گوار زندگی کو، لیکن انسانوں کی حاجت ہے اور انسان کا انسان بن کر انسانیت کا انداز کرنا بڑا دشوار ہے۔ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ انسانی قدروں کی تمیز اور پہچان کے لیے فرزانگی کی ضرورت ہے اور یہ فرزانگی تھوڑی سی حیوانیت سے بڑے مزے میں حاصل ہو جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے انشائیہ بہت مفید ہے۔ یہ لمحے بھرکے لیے ہمیں حیوان بنا دیتا ہے جس سے ہماری انسانیت میں چستی اور توانائی آ جاتی ہے۔
مقالہ ہمیں سنجیدگی بخشتا ہے۔ اس سے ہم میں متانت، ضبط اور سلیقہ آتا ہے۔ انشائیہ ہمیں غیر سنجیدہ بناتا ہے۔ اس سے ہم میں رِندی اور آوارہ خیالی آتی ہے۔ مقالوں کی سنجیدگی اور نری سنجیدگی سے خشکی اور بے رنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس بے کیفی یا انجماد کو انشائیہ کی آوارگی یا بد مستی ہی دور کر سکتی ہے۔ مقالوں میں معنویت کا دخل رہتا ہے اور انشائیوں میں تاثرات کا۔ مقالوں کا کام فکر خیزی ہے اور انشائیوں کا کیف انگیزی۔
مقالہ نگار ایک معلمِ ادب ہوتا ہے، اس کا کام درس و تدریس ہے اس کی باتیں عالمانہ اور حکیمانہ ہوتی ہیں، وہ سنجیدہ بات کہتا ہے اور بڑی سنجیدگی سے کہتا ہے۔ اس میں متانت کے ساتھ دیانت بھی ہوتی ہے۔ اس کا شیوہ لفّاظی نہیں۔ وہ جو جانتا ہے، کہتا ہے اور جتنا جانتا ہے، سناتا ہے۔ وہ ہمیں گمراہ نہیں کرتا… انشائیہ نگار گپ باز ہوتا ہے۔ وہ غیر سنجیدہ بات کہتا ہے اور غیر سنجیدہ طریقے پر کہتا ہے۔ وہ جتنا جانتا ہے، اس سے زیادہ سناتا ہے لیکن اس کی باتیں بکواس نہیں۔ یہ مفید اور کارآمد ہوتی ہیں۔ یہ ہماری فہم و ادراک کو منجمد ہونے سے بچاتی ہیں۔ اس سے ہمارے طائرِ تخیل کو پر لگتے ہیں۔ انشائیہ نگار کی گپیں ہماری قوتِ تمیز پر ٹھوکریں لگاتی ہیں۔ یہ ہم پر ان تازیانوں جیسا کام کرتی ہیں جن کی نرم چوٹیں سہہ کر ہم زیادہ ہوش مند اور زیادہ چوکس ہو جاتے ہیں۔
قصہ گوئی اور انشائیہ نگاری
انشائیہ میں قصہ گوئی کا مطلق گزر نہیں۔ اس کی شرتیعت میں ’کہانویت‘ کفر ہے۔ کچھ انتظامیہ نگاروں کے یہاں یہ خیال اب بھی رائج ہے کہ انشائیہ کسی پر لطف ہلکے پھلکے قصے یا دو چار پھڑکتے ہوئے واقعات کا بیان احسن ہے۔ یہ خیال قطعاً درست نہیں۔ نثری ادب میں یہ صنف ’مضمون‘ کے دائرے میں سما سکتا ہے پر کہانی کے حلقے میں جگہ نہیں پا سکتا ادب میں قصہ گوئی اور یا واقعہ نگاری کے لیے مختلف اصناف مقرر ہیں۔ یہ اصناف کہانی کی مختلف بھر پور مکمل اور خوشنما صورتیں ہیں جن کی تشکیل و تعمیر میں فنی ضوابط و قیود کا لحاظ لازمی ہے اور جو تمثیلیہ، حکایت، داستان، ناول، ڈراما، افسانہ اور مثنوی سے موسوم ہیں۔ کہانی لکھنے یا پڑھنے کے لیے ہمارا ان اصناف سے رجوع کرنا لازمی ہے۔ ادب میں ان کے علاوہ کہانی یا قصہ کے لیے مزید صنفی شکل کا کوئی وجود نہیں۔
انشائیہ کہانی کی شکل قطعاً نہیں۔ اس کی مقبولیت اور دلکشی کا سبب نہ قصہ گوئی ہے اور نہ واقعہ نگاری۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جو محض غیر سنجیدہ خیالات اور ذاتی تاثرات کی ترجمانی کے لیے وقف ہے۔ کہانی یا قصہ یا واقعہ کی پیشکش کے لیے یہ صنف بالکل ناموزوں ہے۔ اس صنف میں کہانی کو جگہ دینا گویا لوٹے میں چائے پینی یا پلانی ہے۔
روایتی طور پر کہانی کی تشکیل و تعمیر کے لیے چند اجزا کا استعمال لازمی سمجھا جاتا ہے، ادبی اصطلاح میں یہ ’اجزائے ترکیبی‘ ، ’اجزائے ثلاثہ‘ کہے جاتے ہیں۔ (جدے دیت کے نقطۂ نظر سے اب ان اجزا کو غیر ضروری ہی نہیں ان کے استعمال کو عبث قرار دیا جاتا ہے) یہ تین اجزا پلاٹ، کردار اور مکاں و زماں ہیں۔
انگریزی میں ان کے لیے Character, Space and Time جیسے الفاظ مستعمل ہیں۔ کہانوی اصناف کی تعمیر اجزائے ثلاثہ کے بغیر نا ممکن ہے …انشائیہ میں مگر اجزائے ثلاثہ کا استعمال کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ انشائیہ کی روح تا ثرات ہیں۔ غیر سنجیدگی، ذاتی تاثرات، کہانی کا مغز پلاٹ یا ماجرا ہے۔ طویل یا مختصر پلاٹ۔ انشائیہ میں خیالات کی بے ربطی اور بے ترتیبی ہوتی ہے۔ قصہ گوئی یا واقعہ نگاری سے انشائیہ میں وہ تنظیمی وحدت پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے لیے عیب ہوتی ہے۔ کہانی میں اس کے برعکس، خیالات کا گزر نہیں۔ یہاں قصہ یا واقعہ کا دخل ہے اور اس قصہ یا واقعہ میں بھی ربط، ترتیب اور توازن اولین شرط ہے۔ انشائیہ کی دلکشی کی اصل وجہ انتشار خیال یا ذہنی آوارگی ہے۔ کہانی کی کامیابی کا راز اس کے بر خلاف، اتحادِ خیال میں مضمر ہوتا ہے۔ انشائیہ میں خیالات کی بوقلمونی نظر آتی ہے اور کہانی میں واقعاتی اجزا کا تنوع ملتا ہے۔
انشائیہ میں واقعہ سے مصرف لیا جا سکتا ہے مگر واقعہ نگاری جائز نہیں کی جا سکتی۔ انشائیہ نگار واقعات کے چھینٹے اڑا سکتا ہے، واقعات کے گھروندے نہیں بنا سکتا۔ آپ جانتے ہیں ہر واقعہ میں خواہ وہ چھوٹے سے چھوٹا کیوں نہ ہو، بے شمارناہموار، سالم و غیر سالم ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہ ٹکڑے بے کار ومہمل نہیں کہ انفرادی طور پر ان کا کوئی وجود نہیں، ادب میں ان کی جزوی اہمیت سے انکار مشکل ہے۔ ان واقعاتی ننھے ننھے ٹکڑوں کو ہم عام طور پر لطیفوں اور چٹکلوں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ادب میں ان کا اصطلاحی نام محاظرات ہے۔ انشائیہ میں محاظرات کی قدر و قیمت بڑی اہم ہے۔ یہ اسی قدر اہم ہے جتنی پر تکلف دسترخوان پر انواع و اقسام کی چٹنیاں۔ محاظرات کے استعمال، مناسب استعمال سے انشائیہ کی رنگارنگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ محاظرات سے لگے لپٹے جو نہایت خفیف و لطیف اثرات ہوتے ہیں اور ان کی ناہمواری میں جو دلکشی مگر حیرت فزا کیفیتیں ہوتی ہیں، قلبِ انشائیہ میں سما کر یہ باتوں کو زیادہ شگفتہ اور زیادہ دلگیر بنا دیتی ہیں۔ ان کے مصرف سے انشائیہ کی بہار میں بھی ایک نکھار آ جاتا ہے۔
اس صنف میں سیرت نگاری کا بھی موقع نہیں۔ تخلیقِ شخصیت یا مرقع نگاری انشائیہ نگار کا کام نہیں، اس مقصد کے لیے ہمارے سامنے خاکہ نگار کی ذات آتی ہے۔ انشائیہ میں شخصیت یا انفرا دیت کے نقوش و جلووں سے کام نکالا جا سکتا ہے گر انھیں مرکزی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ یہ نقوش و جلوے یہاں ذیلی مقام رکھتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ کہانوی اصناف میں ایک نہایت ہی قوی مگرخفیف مادہ ہوتا ہے جسے اصطلاح میں مر کزی خیال، بنیادی خیال یعنی themeکہتے ہیں۔ ہر افسانہ، ڈراما یا ناول میں کسی نہ کسی مر کزی خیال کا ہونا ضروری ہے۔ مطالعہ سے پہلے ہم اس سے لا علم ہوتے ہیں، مگر مطالعے کے بعد یہ ہم پر عیاں ہو جاتا ہے۔ یہ اسی بنیادی خیال کی کشش کا نتیجہ ہوتا ہے کہ کہانی کے اجزائے ثلاثہ میں ایک گہرا ربط قائم ہو جاتا ہے۔ پلاٹ، کردار اور مکاں و زماں میں اس سے ایسی ایکائی پیدا ہو جاتی ہے جو مجموعی طور پر اجزا ثلاثہ کے اتحاد کا سبب بن جاتی ہے …انشائیہ میں اس ایکائی یا اتحاد کا مطلق گزر نہیں کیونکہ اس میں بنیادی خیال سے قلم کارکا کو ئی واسطہ نہیں ہوتا۔ انشائیہ ذہن کی آوارہ خیالی کا نتیجہ ہوتا ہے یہ کسی بنیادی خیال کی پھولی ہوئی شکل نہیں۔ اس کی کامیابی کا راز تاثرات کا اتحاد نہیں ان کی بوقلمونی ہے۔
(ماخوذ: صنف انشائیہ اور انشایئے، ڈاکٹر سید محمد حسنین، لکھنو، بار سوم، ۱۹۷۲، ص: ۱۱)
٭٭٭