فنی اعتبار سے انشائیہ موضوعی اور داخلی صنف اظہار ہے۔ انشائیہ اشیاء اور مظاہر کی خارجی سطح کو مس کرنے کے بجائے ان کے بطون کو کھنگالتا اور جذبے کو برانگیختہ کرنے کے بجائے اس کی تہذیب کرتا ہے اور یوں ہمارے سامنے مظاہر کی نئی نئی صورتیں اور تاثر کی نئی نئی کیفیتیں اجاگر کر دیتا ہے۔ انشائیہ انقباض فکر کے بجائے شگفتن ذات کا مظہر ہے اور منفی رد عمل کو ابھارنے کے بجائے مثبت جذبوں کی افزائش کرتا ہے، انشائیہ میں مصنف کی ذات کا عمل دخل چونکہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس صنف میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انشائیہ نگار نے موضوع کو کس حد تک اپنی ذات میں ضم کیا ہے، اس صنف میں ادیب کے شخصی اور کسی حد تک نجی تجربے کا کوئی نہ کوئی گوشہ ضرور منعکس ہوتا ہے، اس لیے انشائیہ اور انشائیہ نگار کے درمیان جو رشتہ موجود ہے وہ کاروباری نوعیت کا نہیں بلکہ باپ اور بیٹے کے رشتے کے مماثل ہے اور اس کا قاری وہ دوست ہے جو باپ کی محفل میں شریک ہوتا ہے تو بیٹے پر بھی محبت کی نظر ڈالتا ہے۔ بادی النظر میں ’پرسنل ایسّے‘ کی اصطلاح بھی اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اس صنف کا خالق تخلیق کو اپنی ذات کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے لکھا ہے کہ:
’’انشائیہ میں جو بات کی جاتی ہے اپنی ذات کے حوالے سے کی جاتی ہے یا کم از کم اپنی ذات کو اس میں دخیل ضرور کیا جاتا ہے۔‘‘ (اردو کا بہترین انشائی ادب، ص: ۲۲)
تاہم یہ وضاحت ضروری ہے کہ انشائیہ نگار کا مقصد نمائش ذات نہیں ہوتا۔ مونتین نے جب اعلان کیا تھا کہ ’’اپنی کتاب کا موضوع میں خود ہوں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ وہ خود مرکزیت کا شکار یا نفرت انگیزنرگسیت میں گرفتار تھا (رشید امجد نے خیال ظاہر کیا ہے: ’’انشائیہ اظہار ذات کی ایک صورت ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انکشاف ذات کا ایک ایسا عمل ہے جس میں روحانیت کا ذائقہ بھی ہے اور ما دیت کی مٹھاس بھی۔‘‘ ماہنامہ اردو زبان، سرگودھا، نومبر دسمبر۱۹۸۲ء، ص: ۳۷) اور وہ انشائیہ کے وسیلے سے اپنی ذات کے کوائف مرتب کرنے کا آرزومند تھا۔ بلکہ وہ تو اس حقیقت کو آشکار کرنا چاہتا تھا کہ مختلف اشیاء اور مظاہر اپنی داخلی بوقلمونی سے اس کی ذات پر کس نوع کے اثرات مرتب کرتے ہیں اور اس کی ذات ان اشیاء اور مظاہر کے مخفی مفاہیم کو اپنے اوپر وارد کرتی ہے تو کیسی کیسی نئی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ انشائیہ کا موضوع مصنف کی ’میں‘ نہیں ہوتا اور وہ صیغہ واحد متکلم میں آزادانہ گفتگو کرنے کے باوجود اپنی انائے کاذب کی تسکین نہیں کرتا۔ انشائیہ نگار تو تراشیدہ ہیرے سے رنگا رنگ عکس اجاگر کرتا ہے اور قاری کو روشنیوں، سایوں اور رنگوں کے اس نئے کیمیائی امتزاج سے لطف اندوز ہونے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔ انشائیہ میں مرکزیت مصنف کی زندگی کے کوائف کو حاصل ہوتی تو انشائیہ آپ بیتی یا خود نوشت قسم کی چیزیں بن جاتا اور اس کی ترقی کا گراف آگے بڑھنے کے بجائے مونتین پرہی رک جاتا۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ واحد متکلم کے استعمال فراواں کے باوجود انشائیہ میں شخصیت کی نمود مقصود بالذات نہیں بلکہ محض ایک وسیلہ ہوتی ہے۔ موضوع کتنا ہی غیر اہم کیوں نہ ہو جب یہ انشائیہ نگار کی شخصیت کے گداز لمس سے آشنا ہوتا ہے تو خود بخود انشائیہ میں ڈھل جاتا ہے۔ چنانچہ انشائیہ کے باطن سے کسی ادیب کی شخصیت کی دلنواز جھلکیاں تو دیکھی جا سکتی ہیں لیکن اس سے ادیب کی سوانح عمری مرتب نہیں ہو سکتی۔ خالد اقبال نے لکھا ہے کہ ’’انشائیہ آزاد ترنگ کی پیداوار ہے۔ اس میں ذات کے حوالے بھی آزاد لہروں اور موجوں کی شکل میں مرتعش ہوئے ہیں۔‘‘ (انشائیے میں حوالۂ ذات، امروز لاہور، ادبی ایڈیشن) ۔ اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی مصنف کے اندر جھانکنے کے لیے انشائیہ سے بہتر کوئی کھڑکی نہیں۔ شمیم حیدر ترمذی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’انشائیہ کے مواد اور ہیئت میں انشائیہ نگار کی روح جلوہ گر ہوتی ہے اس نثر لطیف میں مصنف کی ذات سارے رنگوں کے ساتھ منعکس ہوتی ہے۔‘‘ (رسالہ آہنگ، کراچی، ۱۶؍ اپریل ۱۹۸۳ء، ص: ۱۳)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موضوع انشائیہ نگار کی ذات کو مس کیونکر کرتا ہے؟ اور جب یہ مس کرتا ہے تو اس سے انکشاف ذات کیسے ہوتا ہے؟ یہ سوال بنیادی طور پر ادیب اور شخصیت کے اہم مسئلے کو منظر پر ابھارتا ہے۔ ہر فن پارے میں اس کے خالق کا پرتو کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی ملحوظِ نظر رہے کہ ادب کی دوسری اصناف میں شخصیت کا اظہار بالواسطہ ہے، بیشتر ادبا نے تو ادب کو شخصیت کی نفی قرار دیا ہے۔ بعض ادبا نے اسے شخصیت کا پردہ سمجھ کر قبول کیا ہے۔ افسانہ اور ناول میں ادیب اپنے کینوس کی حدود میں پابند ہے۔ شاعری میں ردیف، قافیہ، وزن اور بحر وغیرہ کی موجودگی شاعر پر ایسی پابندیاں عائد کر دیتی ہے جس سے اس کے تخلیقی ابال کے اظہار میں جگہ جگہ رکاوٹیں سی پیدا ہو جاتی ہیں، بعض اوقات مصرعوں کی تعداد اور ارکان کی کمی بیشی بھی شاعر کے مستقیم اظہار میں رکاوٹ پیدا کر دیتی ہے اور وہ پوری تخلیقی سرگرمی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہتا ہے اور فن پارے میں اس کی تخلیقی شخصیت کا پورا انعکاس نہیں ہو پاتا۔ اس کے برعکس انشائیہ ایک ایسی صنف ادب ہے جو کسی واسطے سے بھی پردے کو قبول نہیں کرتی، یہ تمام رسمی پابندیوں سے آزاد ہے اور اکثر اوقات موضوع کے حوالے سے ادیب کی شخصیت کے کچھ ایسے گوشوں کو بھی آشکار کرتی ہے جنھیں رسمی انداز میں اہل جہاں کے سامنے پیش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل چند اقتباسات ملاحظہ ہوں جن میں انشائیہ نگاروں نے شخصیت کے بعض ایسے گوشوں کی نقاب کشائی کی ہے جنھیں کوئی عنوان نہیں دیا جا سکتا:
’’میں نہ صرف بھورے رنگ کے کاغذ کو پسند کرتا ہوں بلکہ کاغذ میں بھورے پن کے وصف کا مداح ہوں، بعینہٖ جیسے مجھے اکتوبر کے جنگل میں، جو کی شراب میں یا شمالی علاقے کی ندیوں میں بھورے رنگ کا وصف اچھا لگتا ہے۔ بھورا کاغذ تخلیق کی پہلی ضرب سے پھوٹنے والی ابتدائی شفقی روشنی کا مظہر ہے اور ایک یا دو تیز رنگ کے چاکوں سے آپ اس میں آپ کی اس تمازت کو بھی نمایاں کر سکتے ہیں جس میں سونے ایسی چنگاریاں لہو کی طرح سرخ اور سمندر کی طرح سبز ہوتی ہیں، جیسے ان کی حیثیت ان تندستاروں کی سی ہو جو روز ازل تاریکی سے لپک کر باہر آ گئے تھے۔‘‘ (جی کے چسٹرٹن، چاک کا ٹکڑا) (اوراق، افسانہ و انشائیہ نمبر، مارچ اپریل ۱۹۷۲ء، ص: ۲۵۹، ترجمہ وقار النساء آغا)
’’میرے خیال میں غلطیوں کی سب سے بڑی شان یہ ہے کہ ان سے پڑھنے والوں میں احساس برتری پیدا ہو جاتا ہے اور وہ کسی نہ کسی بہانے اپنے آپ کو ادیب و شاعر سے بڑا اور پر از معلومات محسوس کرتے ہیں۔ مشہور ادیب ڈاکٹر جانسن نے جب اپنی ڈکشنری میں ایک غلطی کر دی اور ایک عام عورت نے ڈرتے ڈرتے جانسن کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو جانسن نے بڑی فراخ دلی سے اس غلطی کو تسلیم کر لیا۔ اس وقت اس عورت کو کتنی خوشی ہوئی ہو گی، جانسن کی تحریروں میں ایسی ہی غلطیاں آج بھی نفسیانی طور پر پڑھنے والوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔‘‘ (رابرٹ لنڈ، کچھ غلطیوں کی شان میں) (اردو زبان، سرگودھا، انشائیہ نمبر، مارچ اپریل ۱۹۸۳ء، ص: ۱۱، ترجمہ احمد جمال پاشا)
’’مسکراہٹ اور تہذیب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مجھے سنجیدہ قوم سے بڑا ڈر لگتا ہے کیونکہ یہ پلک جھپکنے میں ہٹلر اور قیصر ایسے جانباز پیدا کر لیتی ہے اور ہنستی ہوئی قوم سے مجھے نفرت ہے کہ یہ نرگسیت کے برملا اظہار کا ایک نہایت قبیح نمونہ ہے اور اس میں خوجی اور ڈان کہوٹے ایسے عاشق زار آناً فاناً پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر ایک مسکراتی ہوئی قوم ضبطِ نفس، تہذیبی نکھار جاننے اور پہچاننے کے مراحل سے شناسائی کا ایک کھلا ثبوت ہے، مسکراہٹ اپنی ملائمت اور نرمی کے باعث دلکش اور دلنواز توہے ہی تاہم اس میں اگر خدا نخواستہ زہر ناکی شامل ہو جائے تو بھی یہ فریق مخالف کو ہنسی کی طرح ذلیل نہیں کرتی بلکہ اسے محض ذرا سا کچوکا لگا کر اور یوں اسے دوبارہ با ادب با ملاحظہ ہوشیار رہنے کی تلقین کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔ کیسی عمدہ بات ہے۔‘‘ (وزیر آغا، کچھ مسکراہٹ کے بارے میں) (دوسرا کنارہ، ص: ۷۶، سرگودھا، ۱۹۸۲ء)
’’چھڑی کی معیت میں مجھے اپنی غیر متوازی حالت سے چھٹکارا ملا ہے اور یوں محسوس ہوا ہے جیسے میں کسی آشرم میں پہنچ گیا ہوں، یا میرا جہاز کسی چھوٹی سی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے بعد خراب ہو گیا ہے یہی نہیں بلکہ چھڑی ہاتھ میں لیتے ہی مجھے اپنے اندر ایک عجیب سے جذبۂ افتخار کی کلبلاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ میں اپنے آپ کو سب سے الگ تھلگ اور جدا ایک اونچے سنگھاسن پر کھڑا پاتا ہوں اور کوئی شے مجھے ایک زوردار تقریر کرنے پر اکساتی ہے۔ (مشتاق قمر، چھڑی) (ہم ہیں مشتاق، ص: ۱۵، سرگودھا، ۱۹۷۰ء)
’’نیم پلیٹ پڑھنا میری محبوب ترین ہابی ہے۔ یہ بات جب میں نے ایک انٹرویو میں صاحب صدرسے کہی تو وہ ایک طنز آمیز ہنسی پر لب دہن لا کر بولے: ’’بھئی یہ تو کوئی ہابی نہیں …‘‘ ان کا خیال تھا کہ نیم پلیٹ پڑھنے کا شغل ایک غیر دانشمندانہ اور احمقانہ فعل ہے۔ مگر میرا آج بھی یہ خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر دلچسپ، فکر انگیز اور مفید شغل اور کوئی نہیں کہ بغیر افراد کو ملے ہم ان کی شخصیت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، ان کے شعور اور تحت الشعور میں تیراکی کر سکتے ہیں اور ان کے حمام میں جھانک سکتے ہیں۔‘‘ (جمیل آذر، نیم پلیٹ) (شاخ زیتون، ص: ۵۵، سرگودھا، ۱۹۸۱ء)
مندرجہ بالا مثالوں میں انشائیہ نگاروں نے اشیاء اور مظاہر کے بعض غیر رسمی گوشوں کو اپنی شخصیت کے حوالے سے اجاگر کرنے اور ایک نیا مدار حقیقت دریافت کرنے کی کاوش کی ہے۔ تاہم یہ سوال شاید ابھی تک لا ینحل ہے کہ موضوع انشائیہ نگار کی ذات کو کس طرح مس کرتا ہے۔ اردو ادب میں تا حال کسی ادیب نے ’میں انشائیہ کیونکر لکھتا ہوں‘ قسم کا جواب مضمون تحریر نہیں کیا۔ تاہم اے سی بینسن نے یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ انشائیہ میں موضوع اہم نہیں ہوتا۔ (اے سی بینسن، آرٹ آف وی ایسے اسٹ، ص: ۱۴، لندن، ۱۹۵۴ء)
انشائیہ توکسی بھی موضوع پر بھی لکھا جا سکتا ہے۔ اہم چیز تو مصنف کی ذات ہوتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے کہ ’’انشائیے کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی، اپنی ذات کے بارے میں لکھئے۔ کائنات کے بارے میں لکھئے۔ کسی ایک نقطے پر زور دیجئے یا بہت سے نقاط کو مربوط کر دیجئے۔ آپ جو چاہیں کیجئے یعنی اپنے خیالوں، جذبوں، تجربوں اور مشاہدوں کے ساتھ کھل کھیلئے۔‘‘ (ممکنات انشائیہ، فلیسپ)
رشید امجد نے لکھا ہے کہ:
’’انشائیہ کی ساری بحث شخصیت کی نفاست و شرافت کی بحث ہے۔ اچھے انشائیہ کے لیے بڑی شخصیت یا یوں کہہ لیجئے کہ شخصیت کی نفاست اور شرافت کا ایک خاص معیار ہونا ضروری ہے۔ ورنہ موضوع جو بھی ہو، اسلوب جیسا بھی ہو، انشائیہ میں فلسفیانہ عظمت، روحانی شگفتگی اور ارفع مسرت پیدا نہ ہو سکے گی۔ ایک کھردری شخصیت اچھا انشائیہ لکھ ہی نہیں سکتی۔‘‘ (رشید امجد، کچھ انشائیہ کے بارے میں، اردو زبان، نومبر دسمبر ۱۹۸۲ء)
چنانچہ انشائیہ میں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ انشائیہ نگار کی ذات جب موضوع کو مس کرتی ہے تو کس طرح کھلتی ہے۔ شگفتن ذات کا یہ عمل پھول کھلنے کے عمل سے مشابہ ہے جس طرح پھول کے داخل سے ابھرنے والی خوشبو پنکھڑیوں کو نا معلوم طور پر نکھار دیتی ہے اسی طرح انشائیہ نگار کی ذات موضوع کے لمس سے اپنی ذات کی گرہیں کھولتی اور خود کو قاری پر منکشف کرتی چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس عمل کی طرف بامعنی راہنمائی کی ہے اور لکھا ہے کہ:
’’انشائیہ نگاری کا مخصوص رویہ … زندگی سے بیک وقت مربوط ہونے اور اس سے منقطع ہونے کی دو گونہ کیفیات سے عبارت ہوتا ہے۔ یعنی سمندر کے لمس کو محسوس کرنے مگر سمندر کے سارے خروش کو ایک متبسم نگاہ سے دیکھنے کا رویہ … میں اب اسی مقام پر ہوں جہاں سے میں زندگی کو پہلی بار ایک ایسے تناظر میں دیکھ رہا ہوں کہ مجھے کائنات کے بڑے بڑے مظاہر کے علاوہ اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور چیزوں میں بھی ایک جہان معنی نظر آنے لگا ہے۔ مثلاً پرسوں کی بات ہے کہ کتابوں کا ایک پیکٹ بنانے کے لیے مجھے رسی کی ضرورت پڑی مگر جب رسی ملی تو اس میں ایک مضبوط سی گرہ پڑی ہوئی تھی۔ میں کتنا ہی عرصہ اپنے ناخنوں کی مدد سے اسے کھولنے کی کوشش کرتا رہا۔ جب کامیاب نہ ہوا تو اپنے دانتوں سے مدد طلب کی۔ کتنا ہی عرصہ دانتوں نے پیچھے ہٹ ہٹ کر گرہ پر حملے کیے تب کہیں جا کر گرہ کھلی، میں نے دیکھا کہ جہاں گرہ تھی وہاں رسی میں ایک سلوٹ سی پڑ گ ئی تھی، میں نے رسی کو ذراسا کھینچا، سلوٹ کو چند سے سہلایا اور گرہ رسی کے اندر پوری طرح جذب ہو گئی۔ اچانک میں رک گیا اور سوچنے لگا کہ گرہ کہاں گئی؟ اور تب ایک خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ میرے ذہن میں آیا کہ میں خود بھی تو زندگی کی دوڑ میں محض ایک گرہ ہوں اور میری طرح ہر شخص ایک گرہ ہے۔ جب گرہ کھل جاتی ہے تو وہ زندگی کی ڈور میں جذب ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ کے لیے ایک سلوٹ ہیں مگر سلوٹ سی ضرور باقی رہتی ہے جس پر لوگ از راہ محبت پھول بھی بچھاتے ہیں مگر پھر آہستہ آہستہ وہ بھی غائب ہو جاتی ہے۔ تب میں نے اپنے چاروں طرف ایک نظر دوڑائی۔ ساری خلق خدا، سیاہ، سفید، پتلی، موٹی، کسی ہوئی یا ڈھیلی ڈھالی گرہوں کی صورت میں بکھری پڑی تھی اور زندگی اور موت کا ڈرامہ یکایک مجھے ایک اور ہی روشنی میں دکھائی دینے لگا تھا۔‘‘ (وزیر آغا، دوسرا کنارہ، ص: ۱۰-۱۱، سرگودھا، ۱۹۸۲ء)
آپ نے دیکھا کہ رسی کی ایک چھوٹی سی گرہ نے کس طرح انشائیہ نگار کی توجہ اپنی طرف کھینچی اور پھرکس طرح پوری زندگی ایک ڈور کی طرح نظر آنے لگی اور اس کی اپنی ذات بھی محض ایک گرہ بن گئی جو سلجھ جائے تو زندگی اسے کلی طور پر جذب کر لے اور نہ سلجھے تو اس کی انفرا دیت کی مظہر بن جائے اور دل یزداں میں کانٹا بننے سے بھی گریز نہ کرے۔ اسی سے انشائیہ نگار نے زندگی اور کائنات کے درمیان ربط باہم تلاش کیا، موت اور حیات کے فلسفے کی طرف پیش قدمی کی اور پھر زندگی کا ڈرامہ روشنیوں اور سایوں کا نیا منظر پیش کرنے لگا۔ انشائیہ نگار نے ایک چھوٹی سی بات کو نئی حقیقت میں تبدیل کر دیا بلکہ اسے شگفتہ بیانی سے پیش کیا اور اس پر اپنی ذات کا مثبت تاثر بھی یوں منقش کر دیا کہ اب اس سے ایک نئی روشنی چھن چھن کر اطراف و جوانب میں بکھرنے لگی اور گرہ کھولنے کے ناخوش گوار عمل نے بھی ہمارے ذہن میں ایک نئی کھڑکی کھول دی جس سے زندگی کی نئی معنویت بلا روک ٹوک ہماری جانب سفر کرتی نظر آتی ہے۔ چنانچہ رشید امجد نے انشائیہ کے سفرکوخلوص کے تقدس اور فن میں ڈوب کر زندگی کی نئی معنویت پانے کا سفر قرار دیا ہے۔ (رشید امجد، کچھ انشائیہ کے بارے میں، اردو زبان سرگودھا، نومبر دسمبر ۱۹۸۲ء، ص: ۳۷)
انشائیہ میں انکشاف ذات کا عمل فنکار کو اپنی ’ایغو‘ کے اظہار اور ذات کی نمائش کے بے جا مواقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔ مغرب میں انشائیہ کے بانی مانتین کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہ بے حد اناپسند تھا اور جب اہل جہاں سے اکتا گیا تو اس نے اپنے گاؤں کے ایک کونے میں پناہ حاصل کر لی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ گاؤں کی اس معطر تنہائی میں جب اس کی ملاقات اپنے اندر کے انشائیہ نگار سے ہوئی اور اس نے مانتین کو بے نقاب کرنا شروع کر دیاتو اس عمل میں ایک ایسی شخصیت ابھر کرسامنے آئی جس کی پرورش تہذیب کے اعلیٰ گہوارے میں ہوئی تھی اور جس میں نخوت، تکبراور خودپسندی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ جے بی پریسٹلے نے لکھا ہے کہ ’’اگر انشائیہ نگار اناپسند نہیں ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ (J. B. Priestley: "Essay ??????? and Present, Page: 10) وجہ یہ کہ اناپسند دنیاکے ہجوم میں اپنی شخصیت کو گم نہیں ہونے دیتا۔ وہ دنیا کو انبوہ کی نظرسے دیکھنے کے بجائے اپنی ذاتی آنکھ سے اور اکثراوقات تیسری آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان گوشوں تک رسائی حاصل کرتا ہے جنھیں ایک عام انسان ہجوم افکار میں دیکھ ہی نہیں سکتا۔ انشائیہ نگار انہیں منفرد گوشوں کو قاری کے سامنے آشکار کرتا ہے لیکن اس عمل میں اس کی ’ایغو‘ کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے اور وہ زندگی، کائنات اور معاشرے کے سامنے ایک منکسر، مخلص اور عبادت گزارانسان کی صورت میں ہی آتا ہے اور قاری کو مرعوب کرنے یا احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے بجائے اسے اپنادوست بنا لیتا ہے۔ چنانچہ مانتین کے انشائیے محض اس کی تحریریں ہی نہیں بلکہ مانتین کی ذات کا عکس بھی ہیں۔ لیمب کے انشائیے صرف اشیاء اور مظاہر کے بارے میں اس کے ذاتی بیانات ہی نہیں بلکہ اس میں چارلس لیمب کی شخصیت کا جوہر بھی موجود ہے۔ غلام جیلانی اصغر اپنے انشائیوں میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ، وزیر آغا ایک طویل و عریض خطۂ اراضی کے کاشتکار اور جمیل آذر علم و دانش کے بوجھ تلے لدے ہوئے بھاری بھرکم پروفیسر نظر نہیں آتے بلکہ زندگی کے ایسے خوش فکر ناظر دکھائی دیتے ہیں جو اپنے من کی موج کا ساتھ دے کر ہر قسم کے اعتراضات کرنے اور اپنی ذات کو بے نقاب کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ کے فن کی جزئیات میں انکشاف ذات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس کے بغیر اچھا انشائیہ تخلیق نہیں ہو سکتا۔
اسلوب
اسلوب شخصیت کا ہی عکس ہوتا ہے اور یہ اپناجلوہ ہرتحریر میں دکھاتا ہے تاہم انشائیہ میں اس کی اہمیت دوسری اصناف ادب سے نسبتاً زیادہ ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو جب تک اسے اسلوب کی تازگی شگفتگی اور بہجت آفروزی صحت مندانداز میں سہارا نہیں دیتی قاری اس کی طرف محبت سے دیکھناگوارا نہیں کرتا۔ ایف ایل لوکس نے لکھا ہے کہ:
’’اسلوب وہ طریق کار ہے جس سے فنکار دوسروں کو متاثر کرتا ہے، اسلوب کا مسئلہ در اصل شخصیت کا مسئلہ ہے۔‘‘ (ایف ایل لوکس، بحوالہ سید عابد علی عابد، اسلوب، ص: ۵۸، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۱ء)
انشائیہ میں ادیب کی شخصیت چونکہ بانداز دگرشامل ہوتی ہے اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ انشائیہ میں اسلوب شخصیت کے بعض نامعلوم منطقوں تک رسائی حاصل کرنے میں معاونت کرتا ہے، اور یہی وہ سحرجمال ہے جس سے انشائیہ نگار قارئین کے وسیع طبقے کو اپنے دام خیال میں لپیٹ لیتا ہے۔
اسلوب، ہیئت اور خیال کے باہمی اشتراک سے ترتیب پاتا ہے، یہی دو چیزیں ادب کا ظاہر اور باطن ہیں، لفظ ان دونوں کے اشتراک باہم کا وسیلہ ہے۔ لفظ کا درست اور برمحل استعمال خیال میں قوت پیدا کرتا ہے، اس کی گہرائی میں اضافہ کرتا ہے، معنویت بڑھاتا ہے اور بالآخر ان سب کی امتزاجی صورت سے اس اسلوب کو جنم دیتا ہے جوہر تخلیق کار کا اپنا اور یکسر جداگانہ ہوتا ہے اور جس سے اس کی تخلیقی اور تہذیبی شخصیت کے گوشے آشکار ہوتے ہیں۔ لفظ وہ جسم ہے جسے خیال کی روح تحرک اور تازگی بخشتی ہے۔ فنکار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی غواصی کے عمل سے الفاظ کی مرمریں مورتیوں میں زندگی کی لہر اس طرح دوڑائے کہ لفظوں کا اعجاز گویائی حاصل ہو جائے اور وہ قاری سے اس طرح باتیں کرنے لگیں جس طرح فنکار تخلیقی لمحے میں خوداپنے آپ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ انشائیہ میں چونکہ تخاطب کے بجائے خودکلامی کا زاویہ نمایاں ہے اور انشائیہ نگار کائنات میں بکھرے ہوئے عناصر اور ان کے بارے میں اپنے ذاتی تاثر کو ایک نئے آہنگ اور ایک نئی تنظیم سے پیش کرتا ہے اس لیے اسلوب اس قسم کے فن پارے میں زیادہ اہم کردارادا کرتا ہے۔ ’’انشائیہ میں کہا گیا ہے؟ کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس سے بھی ضروری امریہ ہے کہ کیسے کہا گیا ہے؟ ‘‘ وجہ یہ کہ انشائیہ بھاری بھرکم دلائل وبراہین اور بوجھل استدلال کا متحمل نہیں ہوتا بلکہ اکثراوقات تو انشائیہ غیر اہم اشیا اور مظاہرکوبھی اہم ترحیثیت دے دیتا ہے۔ اس قسم کے موضوعات میں انشائیہ نگار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ موضوع کے نئے زاویے نکھارے تو انہیں اسلوب کی تازہ کاری سے ہی پیش کرے تاکہ انشائیہ نگارنے ایک عام موضوع کو مضمون عالی کی حیثیت دی ہے تو یہ ابلاغ کامل کو ہی سر نہ کرے بلکہ معنی و صورت کے ربط باہم سے قاری کو اپنے جادوئی اثر میں بھی محیط کرے۔
جے بی پریسٹلے نے لکھا ہے کہ ’’انشائیہ نگارکی کامیابی اس کے انداز اور اسلوب کی مرہون منت ہے۔‘‘ (ڈاکٹر وزیر آغا، دوسراکنارہ، ص: ۸) اور وجہ یہ بتائی ہے کہ انشائیہ نگار لکھے ہوئے لفظ سے بولے ہوئے لفظ کا کام لیتا ہے اور ہرقدم پر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ وہ جب ایک کیفیت سے دوسری کیفیت کی طرف پیش قدمی کرتا اور ایک حقیقت سے کسی سابقہ حقیقت کی طرف مراجعت کرتا ہے تو اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ، آنکھوں کی چمک اور دل میں پیدا ہونے والی جذباتی صورت سب لفظوں کے پیکر میں سما جاتی ہے اور ہم ایک ناظرکی حیثیت میں نہ صرف ان سب کیفیات کا مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ اس نئے مدار میں خودبھی سفر کرتے ہیں، چنانچہ اگرانشائیہ نگارکا اسلوب آئینے کی طرح لونہیں دیتا تو اس کی بنائی ہوئی تصویریں دھندلی پڑ جائیں گی، قاری پر اپنی جزئیات کا پورا انعکاس کرنے سے قاصر رہیں گی اور انسانی فطرت کے وہ نیم تاریک گوشے جنھیں دائرۂ نور میں لانے کی کاوش کی گئی تھی پوری طرح سامنے نہیں آ سکیں گے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیہ سے بنیادی نوعیت کا یہ تقاضا کیا ہے کہ:
’’انشائیہ شے یا مظہر کے چھپے ہوئے ایک نئے معنی کو سطح پر لائے۔‘‘ (ڈاکٹر سید محمد حسین، صنف انشائیہ اور انشائیے، ص: ۳۷)
لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس تقاضے کے ساتھ انشاء کی تازہ کاری اور زبان کے تخلیقی استعمال کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین نے لکھا ہے کہ:
’’(تحریریں) انشاء نہ ہو تو تحریر لکیربن جاتی ہے اور عبارت مجہول النسب ہو جاتی ہے۔ انشائیہ اور انشاء میں وہی تعلق ہے جو کرۂ ارض اور آفتاب میں ہے۔ یعنی اس کی شعاعیں روشنی دیتی ہیں اور حرارت بھی۔‘‘ (ڈاکٹر سید محمد حسین، صنف انشائیہ اور انشائیے، ص: ۳۷)
سید احتشام حسین کا ارشاد ہے کہ:
’’ایسّے (انشائیہ) کو تو ایک ایسی فلسفیانہ شگفتگی کا حامل ہوناچاہیے جو پڑھنے والے کے ذہن پر منطق اور استدلال کے ذریعے نہیں بلکہ محض خوشگوار استعجاب اور بے ترتیب مفکرانہ انداز بیان کے ذریعہ اپنا تاثر قائم کرے۔‘‘ (سید احتشام حسین، اردو انشائیہ، ازصفی مرتضیٰ، پیش لفظ، ص: ۷)
چنانچہ دنیا کے معروف انشائیہ نگاروں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اس صنف ادب میں کامیابی نے صرف انہیں انشائیہ نگاروں کے قدم چومے جو اپنا منفرد، تخلیقی اور تازگی سے معمور اسلوب تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ اسلوب ان کی تحریر کا آئینہ ہی نہیں تھا بلکہ اس کے عقب سے اس تہذیب وتمدن کی جھلکیاں بھی نظر آتی تھیں جس میں ان انشائیہ نگاروں نے زندگی بسرکی تھی اور جو ان کے گرد و پیش میں پھیلی ہوئی تھی۔ چنانچہ مانتین کے اسلوب میں داخلیت کا عنصر زیادہ ہے۔ وہ زندگی پر سیر حاصل اور طمانیت سے بھرپور نظرڈالتا ہے اور قاری کو حقیقت کی نئی نہج سے آشنا کر دیتا ہے۔ ابراہم کاؤلے کی سادگی میں پر کاری نظر آتی ہے اور وہ معمولی جملوں سے بڑے بڑے نتائج کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ بیکن کے اسلوب پر زندگی کا فلسفہ غالب ہے اور وہ عقل وشعور کے وسیع مدار کو بڑی خوش اسلوبی سے چند لفظوں میں سمیٹ ڈالتا ہے۔ ہیزلٹ کے اسلوب پر معنوی کیفیت طاری ہے اور وہ اپنی خلوت سے دنیاپرایک سیاح کی نظر ڈالتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ چسٹرٹن کے اسلوب میں لفظ چہچہانے لگتے ہیں اور قاری ان کے باطن میں موجود شوخ دنیا کی جھلک بھی دیکھ لیتا ہے۔ اردو انشائیہ نگاروں میں سے وزیر آغا نے لفظ کو ادراک حقیقت کا وسیلہ بنایا ہے، ان کے اسلوب میں نکتہ آفرینی کا عنصر نمایاں ہے۔ مشتاق قمر کا اسلوب اس کے ذوق سلیم کا آئینہ دار ہے اور وہ خیال کے ہنڈولے اس طرح جھلاتا ہے کہ اس کی ہرلہر کے ساتھ ایک نئی کیفیت اجاگر ہوتی چلی جاتی ہے۔ غلام جیلانی اصغر کے اسلوب میں مزاح کی ایک شوخ کرن ہرقدم پر سر ابھارتی ہے اور افق حیات کو پھلجھڑی کی طرح جگمگا دیتی ہے۔ جمیل آذر نے لفظ و معنی کے امتزاج سے بلاغت پیدا کی ہے۔ احمد جمال پاشا کا اسلوب ایک مثبت ذہن کی نشاندہی کرتا ہے۔ کامل القادری نے استعارے کو حقیقت کے مدار میں گردش کرنے کا موقعہ دیا ہے۔ شمیم ترمذی کا اسلوب حواس خمسہ کامتزاجی مظہر ہے اور وہ رنگوں کو بکھیرنے کے بجائے انہیں سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نظیر صدیقی کے اسلوب میں ان کی سنجیدگی پر غیر سنجیدگی شعوری غلبہ پاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ سلیم آغا قزلباش نے ایک ایسا اسلوب وضع کیا ہےج و خیال کے ایک ہی آئینے سے متعدد نئی تصویریں دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مشکورحسین یاد کے اسلوب میں بعض جانوروں کی آوازیں ابھرتی سنائی دیتی ہیں اور وہ لفظ کی مضحک صورت ابھارنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ نئے انشائیہ نگاروں میں سے جان کاشمیری کے اسلوب میں حلاوت، اکبر حمیدی کے اسلوب میں صباحت اور محمد اسد اللّٰہ کے اسلوب میں حقیقت کا نقاب الٹنے کا انداز نمایاں ہے۔ اکبرحمیدی کا اسلوب لفظ کا دوسرا زاویہ ابھارنے کی استعداد رکھتا ہے۔ محمد اقبال انجم اور محمد یونس بٹ حقیقت کی نئی پرت کو اپنے اسلوب کے بل بوتے پر اجاگر کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا انفرادی اوصاف کے علاوہ یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ بیشتر انشائیہ نگاروں نے اپنی نثرکی کشتی کو بند پانیوں میں تیرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ جب وہ نئے بر اعظموں کی سیاحت پر نکلتے ہیں توکھلے پانیوں میں سفر کرتے ہیں۔ اس تخلیقی سفر میں انھوں نے جو شگفتہ نگاری کی ہے اس میں مزاح اور طنز سے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس عمل سے بلاشبہ انشائیہ کے اسلوب میں کشادگی، پھیلاؤ اور روانی پیدا ہوئی ہے لیکن نقصان یہ ہوا کہ اسلوب کی شگفتگی کو طنز و مزاح کامترادف تصور کر لیا گیا۔ چنانچہ انشائیہ اور طنز و مزاح کی حدود کو آپس میں گڈمڈ ہونے کاموقعہ مل گیا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مزاح در اصل ایک مضحک فعل اور طنز غیر معمولی سنجیدہ عمل ہے۔ انشائیہ ان دونوں عوامل سے فائدہ تو اٹھاتا ہے لیکن انہیں اپنے اصل مزاج پر غالب نہیں آنے دیتا۔ انشائیہ کا مزاج غیر رسمی ہے اور یہ سنجیدگی اور تضحیک دونوں کی تلافی کر ڈالتا ہے۔ شخصیت کے حوالے سے بات کی جائے توطنزارفع شخصیت کا، مزاح انفعالی شخصیت کا اور انشائیہ متوازن شخصیت کا مظہر ہے۔ طنز میں ادیب ایک مصلح کاروپ اختیار کر لیتا ہے اور فراز پر کھڑے ہو کرنشیب کی ہر چیز پر استہزائی نظرڈالتا ہے۔ (ڈاکٹر وزیر آغا، اردو ادب میں طنز و مزاح، اکادمی پنجاب، لاہور)
مزاح میں ادیب استہزا اور ہیئت کذائی کا نشانہ خودبنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ نشیب میں گر کرناظر کے جذبۂ ترحم کو بیدار کرنے کی سعی کرتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ پہلے ناظرکے لبوں پر قہقہہ بیدار ہوتا ہے اور پھردل کی کسی اندرونی گہرائی میں رحم کا جذبہ …انشائیہ میں ادیب ایک ہموار سطح پر ناظر کے دوش بدوش کھڑاہو کر منظر سے تحصیل مسرت کرتا ہے اور پھراپنا تجربہ بھی رواں دواں انداز میں بیان کرتا جاتا ہے۔ مزیدوضاحت کے لیے میں اس کی مثالی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے آدمی سے دوں گا۔ صنف مزاح میں کیچڑ میں لتھڑا ہوایہ آدمی خودمزاح نگار ہے جو پاس کھڑے ہوئے صاف ستھرے تماشائیوں کو لطف تماشافراہم رہا ہے۔ دوسری طرف طنز میں شاہد کا کردارخود طنزنگار ادا کرتا ہے۔ یہ صاف ستھرے کپڑے پہنے فاصلے پر کھڑا ہے اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے آدمی کی ہیئت کذائی پر نہ صرف قہقہہ زن ہے بلکہ اپنی صاف بدنی پر تفاخر کا اظہار بھی کر رہا ہے۔ ان دونوں کے برعکس انشائیہ نگار اس انبوہ سے ہٹاہوا شخص ہے جو فٹ پاتھ پر سے اتر کر کیچڑ میں سے گزر رہا ہے لیکن زہر خند یا ہنسی کو جنم دینے کے بجائے کیچڑ سے اکتساب سرور کر رہا ہے اور اپنے دوستوں کو ایسی شگفتہ باتیں بتارہا ہے جو اسے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سونگھنے، زمین کے لمس سے آشنا ہونے اور کیچڑ کا ذائقہ چکھنے سے پہلے معلوم نہیں تھیں۔
عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ طنز و مزاح میں زندگی کے موجودزاویے پر مثبت یا منفی تبصرہ ہوتا ہے جبکہ انشائیہ موجود کی کایا کلپ کر دیتا ہے اور ناظر کو معلوم حقیقت سے ہٹا کر زندگی کی نامعلوم ڈگرپرڈال دیتا ہے اور یہ ڈگراتنی انوکھی ہوتی ہے کہ ہمیں اس پر چلتے ہوئے مسرت اور سرخوشی کی ایک انوکھی نہایت حاصل ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغانے لکھا ہے کہ ’’انشائیہ فراز یا نشیب کی نہیں ہموار سطح کی پیدا وار ہے۔‘‘ (ڈاکٹر وزیر آغا، نئے مقالات، ص: ۲۳۲، سرگودھا، ۱۹۷۲ء) مرادیہ کہ فراز آپ کے احساس برتری کو ابھارتا ہے اور نشیب احساس کمتری کو لیکن ہموار سطح سے رفاقت اور دوستی کو تحریک ملتی ہے اور انشائیہ نگار کا اندازپیش کش اتنا دوستانہ ہوتا ہے کہ قاری اس کے خلوص میں شامل ہو کرطمانیت سی پا لیتا ہے۔ بالفاظ دیگر انشائیہ میں طنز و مزاح کے استعمال کی بس اتنی ہی گنجائش ہے جتنی ایک دوستانہ محفل کی یک شگفتگی اور تازہ کاری کو قائم رکھنے کے لیے قبول کی جا سکتی ہے۔ انشائیہ نمائش، تصنع، آرائش اور تکلف کی فضا کے برعکس دوستانہ اور غیر رسمی ماحول میں پروان چڑھتا ہے۔ اس عمل کو آزماتے ہوئے انشائیہ نگار اپنی ذات کی بارہ دری کے سب دروازے کھول دیتا ہے اور وہ نہ صرف صاف ستھری ہوا، منزہ چاندنی یا نکھری ہوئی اجلی دھوپ کو ہی اندر آنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ قاری کو بھی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اندرلے آتا ہے، اسے اپنے ساتھ کھاٹ پر بٹھا لیتا ہے اور دوئی کے تمام پردے ہٹا کرایک اچھے میزبان کی طرح زندگی کے ایسے موضوعات پر گفتگو کرتا ہے جن میں مہمان کے لیے تازگی، مسرت اور بہجت کے تمام عناصر موجود ہیں۔ اس تمام گفتگو میں اس کے پیش نظرصرف ایک ہی بات رہتی ہے کہ مہمان کو کوئی بات ناگوار نہ گزرے اور وہ اس کی شگفتہ باتوں سے مزید اس کے قریب آ جائے۔ اس میں قبل از طعام طنزاور بعد از طعام مزاح کا زاویہ بھی مناسب حدوحساب کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ لہجے میں درشتی کی بجائے حلاوت، سنگینی کی بجائے نرمی اور عدم اعتدال کے بجائے توازن ہو۔ چنانچہ بیشترنقادوں نے طنز کی سمیّت اور مزاح کی بوالعجمی کو انشائیے کے مزاج پر غلبہ پانے کی اجازت نہیں دی۔ اس ضمن میں مشتاق قمرنے لکھا ہے کہ:
’’اسلوب کی شگفتگی انشائیے کا ایک لازمی جزو ہے۔ لیکن شگفتگی اسلوب کو ’چہل‘ ، ’ٹھٹھ‘ یا ’مزاح‘ کے ہم پلہ گرداننادرست نہیں۔ کیونکر یہ اصطلاحیں مقصود بالذات کے زمرے میں آتی ہیں جبکہ انشائیہ نگار کا مقصد مزاح پیدا کرنے کی جبری یا شعوری کوشش ہرگز نہیں ہوتا۔‘‘ (مشتاق قمر، انشائیہ نگاری، اوراق لاہور، اپریل مئی ۱۹۷۵ء، ص: ۲۴۶)
مرزاحامدبیگ نے خیال ظاہر کیا کہ:
’’انشائیہ موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے سراسر مزاحیہ نہیں، یہ انسان سے تعلق کے باوجود زندگی اور زندگی کرنے والوں کی خصلت میں ناہمواریوں کی تلاش نہیں کرتا۔ نہ ہی اس کا چلن satire کا ہے جس کا جنم جھنجھلاہٹ سے ہے اور جس میں طنزنگارکی شخصی برتری کا پہلو نمایاں ہو کرتلخ اندیشی، نفرت اور حقارت اگلتا ہے۔ یہ پیروڈی بھی نہیں ہے۔ اس طرح طنز اور تحریف کی پاپسندیدگی کی حدود میں لانے کی خواہش بھی دم توڑ دیتی ہے۔ irony سے بنیادی ضروریات کی سطح پر انشائیہ کا کوئی علاقہ نہیں۔‘‘ (مرزا حامد بیگ، انشائیہ کی کونپل، اوراق، جنوری فروری ۱۹۸۷ء، ص: ۲۰۹)
مشتاق قمراور مرزاحامد بیگ کے مندرجہ بالا تجزیے کے پس پشت یہ حقیقت کار فرما نظر آتی ہے کہ طنز میں خیال یا واقعے کا شوخ رنگ ابھرتا ہے، مزاح موضوع کا چہرہ مسخ کر دیتا ہے جبکہ انشائیہ موضوع، خیال اور مظہر کو شگفتہ خیالی سے منور کر ڈالتا ہے۔ انگریزی انشائیوں کے ایک نقاد ارل آف برکن ہیڈ نے جب دیکھا کہ انگریزی انشائیہ اپنی اس مخصوص شخصیت سے محروم ہو چکا ہے جو اسے مانتین نے عطاکی تھی اور اب یہ صنف ہر قسم کی ذہنی قلابازیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو اس نے بڑے تاسف کا اظہارکیا۔ وجہ یہ کہ ادبا کے اس عمل سے انشائیہ نگار اپنی اس معطر تنہائی سے محروم ہو گیا تھاجہاں وہ فراغت کی کیفیت میں خود اپنے ہی افکار سے محظوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔ (بحوالہ تنقید اور مجلسی تنقید، ص: ۷۲-۷۳) برکن ہیڈ نے لکھا ہے کہ ’’انگریزی میں اچھے ’ایسیز‘ کی تعداد بہت کم ہے۔‘‘ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ برکن ہیڈ کے دور میں انگریزی انشائیے پر صحافیانہ قسم کی طنز اور سہل نگارانہ قسم کے مزاح نے یلغار کر دی تھی جس سے خالص انشائیہ کا مزاج مجروح ہوا اور ہموار سطح سے ابھرنے والی شگفتگی دب کر رہ گئی۔
بادی النظر میں طنز و مزاح کے چھینٹے ادب کی دیگر اصناف مثلاً ناول، افسانہ، ڈرامہ، نظم، غزل، مثنوی حتیٰ کہ مرثیہ تک میں مل جاتے ہیں اور انشائیہ کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طنزیہ، مزاحیہ اور انشائی رویے میں بنیادی فرق موجودہے۔ طنزیہ رویے میں ہمدردی کا شدید فقدان ملتا ہے۔ مزاحیہ رویے کا بنیادی مقصد ہنسی کو تحریک دینا ہے اور اکثراوقات حصول مقصد کے لیے چہرہ بگاڑنے اور مظاہر کی شکل مسخ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ان دونوں کے برعکس انشائی رویہ نئے نکتے کی دریافت، طمانیت اور مسرت کی امتزاجی صورت کو جنم دیتا ہے۔ اول الذکر دونوں صورتوں میں قاری منظر سے دور کھڑارہتا ہے لیکن موخرالذکر صورت میں قاری خودبھی ناظر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل انشائیہ اور طنز و مزاح کے اس امتیازی فرق کو واضح کرنے کے لیے سلیم آغا قزلباش نے مشہور طنز و مزاح نگار کنہیالعل کپورکامضمون ’بڑھاپا‘ چنا اور اس کا موزانہ اسی موضوع پر لکھے گئے مشتاق قمر کے انشائیہ سے کیا اور یہ نتیجہ اخذا کیا کہ کنہیا لعل کپور نے بڑھاپے کی ناہمواریوں کو اجاگر کیا ہے۔ وہ خودبھی ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں اور اس مزاحی عمل میں موضوع کے داخل میں چھپی ہوئی تہہ در تہہ کیفیات سے سروکار نہیں رکھتے، اس کے برعکس مشتاق قمر نے بڑھاپے کی مضحک صورت کو ابھارنے کے بجائے ہمیں ایک بالکل نئی انوکھی صورت حال سے دو چار کیا، موضوع کو تخلیقی سطح پر محسوس کیا اور اس کے مخفی مفاہیم کو سطح پر لانے میں کامیابی حاصل کی۔ (سلیم آغا قزلباش، روبرو، اوراق، جولائی اگست ۱۹۷۸ء، ص: ۷۱ تا ۷۸) آگے بڑھنے سے قبل کنہیا لعل کپور کے مضمون سے مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے جس میں بڑھاپے سے پیدا ہونے والی بوالعجبی کو ہمارے سامنے قہقہہ آور انداز میں پیش کیا گیا ہے:
’’کل شام ایک عجیب واقعہ ہوا، شہر کے بہترین سنیما ہال میں شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ’رومیو جیولیٹ‘ کی فلم دکھائی جا رہی تھی۔ لاکھ کوشش کے باوجودہم سے صبرنہ ہو سکا۔ چنانچہ نوجوانوں کی آنکھ بجاتے ہوئے سنیما ہال میں داخل ہو گئے۔ ابھی فلم شروع ہونے میں کچھ دیر تھی۔ اب دیکھتے کیاہیں کہ ہرنوجوان ہماری طرف دیکھ دیکھ کر گھور رہا ہے جیسے ہم سے کسی ناقابل معافی جرم یا گناہ کا ارتکاب ہو گیا ہو، پیچھے سے آواز آئی ’بال سفید ہو گئے ہیں لیکن ابھی دم خم باقی ہے۔‘ ہم نے یہ سنا اور جل بھن گئے۔ خداجانے ابھی اور کیا کچھ سنتے کہ فلم شروع ہو گئی۔ انٹرول میں جب روشنی ہوئی توتین چارنوجوان جنھیں ہم جانتے تھے ہمارے آس پاس بیٹھے ہوئے پائے گئے۔ وہ حیران ہو کرپوچھنے لگے ’قبلہ آپ یہاں کیسے؟ ‘ ہم نے شرمندہ ہو کرجواب دیا ’یونہی بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبراگئی تھی، یہاں چلا آیا۔‘ وہ ہمیں بنانے لگے ’کہیے جیولیٹ پسندآئی۔ در اصل ایسی فلمیں آپ جیسے بزرگوں کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں، ہم چھوکرے تویونہی آدھمکتے ہیں‘ وہ دن اور آج کا دن ہم کبھی فلم دیکھنے نہیں گئے۔‘‘ (کنہیالعل کپور، اقتباس از اوراق، جولائی اگست ۱۹۷۸ء، ص: ۷۵)
مشتاق قمر نے مضحک صورت واقعہ ابھارنے اور خضّت سمیٹنے کے بجائے بڑھاپے کے خارجی اور داخلی پہلوؤں پر عمیق نگاہ دوڑائی اور وہ اس دورحیات کی ظاہری اور باطنی تبدیلیوں سے ہی واقف نظر نہیں آتے بلکہ اس کی طرف محبت کا ہاتھ بھی بڑھاتے ہیں اور اسے پرے نہیں جھٹکتے، اس ضمن میں مشتاق قمر کے متذکرہ انشائیہ کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے:
’’بڑھاپادوطرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق آپ کے داخل سے ہے اور جو خود رد پودے کی طرح آپ کی داخلی سطح پر اگ آتا ہے۔ اس قسم کا بڑھاپا آپ کا دوست نہیں جانی دشمن ہے جو دنیائے آب وگل میں قدم رکھتے ہی آپ کو دبوچ لیتا ہے اور پھر لمحہ بہ لمحہ آپ پر اس کی گرفت مضبوط ہوتی جاتی ہے، حتیٰ کہ حیات کا ہرابھرا درخت ٹنڈ منڈ ہو جاتا ہے … دوسری قسم کے بڑھاپے کا تعلق آپ کے خارج سے ہے کیونکہ ہرچندظاہری طور پر آپ بڑھاپے کی ردازیب تن کر لیتے ہیں لیکن آپ کے داخل کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں ہوتا… یہ بڑھاپا (جسے میں اصلی اور فطری بڑھاپاکہوں گا) ماہ و سال کے پربت سے پھسلتا ہوا دور نیچے ڈھلوان میں دبے پاؤں آپ کو ا لیتا ہے اور ہولے سے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے ’امید ہے کہ آپ نے مجھے پہچان لیا ہو گا‘ … بچپن آپ کا دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے … لڑکپن آپ کے ناک میں نکیل ڈال کر گلی گلی نچاتاپھرتا۔ جوانی آپ سے آپ کا سب کچھ چھین لیتی ہے … یہ بڑھاپا ہی ہے جو آپ کا چھنا ہوا سارا سرمایہ مع سود لوٹا دیتا ہے …‘‘ (مشتاق قمر، اقتباس از اوراق، جولائی اگست ۱۹۷۸ء، ص: ۷۲- ۷۳)
واضح رہے کہ سلیم آغا کا مقصد مشتاق قمر کو کنہیا لعل کپور سے بہتر لکھنے والا ثابت کرنا نہیں تھا، بلکہ انھوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’جہاں تک طنز و مزاح کے میدان کا تعلق ہے کنہیالعل کپور کی حیثیت منفرد اور یکتا ہے۔‘‘ (سلیم آغا قزلباش، ایضاً ، ص: ۷۳)
سلیم آغا کا مقصد تو اس بات کی صراحت کرنا تھا کہ متذکرہ دو ادباکی تخلیق کاری کے میدان ہی مختلف ہیں۔ لہٰذا ان کی تخلیقات سے مختلف نوعیت کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ کپور نے اپنی مخصوص افتادطبع کے باعث ’بڑھاپا‘ پر ایک طنزیہ مزاحیہ مضمون لکھا اور مشتاق قمر اسی موضوع پر انشائیہ لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ (سلیم آغا قزلباش، ایضاً )
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طنز و مزاح انشائیہ کے لیے نہ شجر ممنوعہ ہے اور نہ اس کا جزو لاینفک ہے۔ چنانچہ نظیرصدیقی نے ان لوگوں سے اختلاف کیا ہے جو انشائیہ کو مزاح اور طنزنگاری کامترادف سمجھتے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ:
’’انشائیہ عموماً طنز و مزاح سے خالی نہیں ہوتا۔ پھراسے طنزیامزاح نگاری کا مترادف سمجھنا درست نہیں۔‘‘ (نظیرصدیقی، بحوالہ ادبی دنیا، شمارہ نہم، دورپنجم)
انشائیہ میں جو شگفتگی ملتی ہے وہ اولاً انشائیہ نگارکے داخل کی فطری شگفتگی ہے اور یہ موڈ (mood) کی بشاشت کے ساتھ ہی انشائیہ میں خودبخود سما جاتی ہے۔ انشائیہ نہ زندگی کی منطق کی تفسیر ہے اور نہ تنقید۔ چنانچہ اس کا خالق اپنی ذات کو تہذیب وتمدن کی جکڑ بندیوں میں قید نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو پنچھی کی طرح کھلی ہواؤں میں اڑنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ وزیر آغانے خیال ظاہر کیا ہے کہ:
’’انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفترسے چھٹی کے بعد اپنے گھرپہنچتا ہے، چست اور تنگ سالباس اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ موڑھے پر نیم دراز ہو کراور حقے کی نے ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے مصروف گفتگو ہو جاتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر وزیر آغا، بحوالہ خیال پارے)
چنانچہ اس تفریحی ماحول میں وہ آزادہ فکری اور بشاشت طبعی سے کسی موضوع پر جو کچھ سوچتا ہے وہ لاشعوری طور پر شگفتگی کا حامل اور انشائیہ کے مزاج کے مطابق ہو گا۔ انشائیہ میں شگفتگی کا ایک اور سبب وہ زاویۂ نگاہ بھی ہے جس سے انشائیہ نگار اشیا اور مظاہر پر محبت اور ہمدردی کی نظرڈالتا ہے۔ اس عمل میں تخلیق کار چونکہ خیال کے نئے منطقوں کی سیاحت کرتا اور فکر و خیال کے نئے نئے گوشے دریافت کرتا ہے اس لیے ہرنئی دریافت اسے شگفتگی کی ایک نئی نہایت سے دوچار کرتی اور اس کے فطری تجسس کو مسرت اور طمانیت عطا کر دیتی ہے۔ انشائیہ میں ہرنکتہ پکے ہوئے تجربے کی طرح ظاہرہوتا ہے، اس میں نا ہضم یا کچی باتوں کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس کے پیکر میں توصرف وہی باتیں سما سکتی ہیں جو انشائیہ نگار کے مشاہدے سے سالہاسال تک چھنتی رہتی اور لاشعور کے پاتال میں منہ بند سیپ کی طرح محفوظ ہوتی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ تخلیق کا وہ لمحہ آ جاتا ہے جب انشائیہ نگار اس سمندر میں ایک گہرا غوطہ لگاتا ہے اور اس گوہر ناسفتہ کو برآمد کر لیتا ہے۔ رابرٹ لنڈ نے لکھا ہے کہ:
’’اچھا انشائیہ نگارہرغوطے کے ساتھ ایک خزانہ لے آتا ہے۔ لیکن ناپخت انشائیہ نگار بار بار کے غوطے کے باوجود بھی خالی ہاتھ ہی لوٹتا ہے۔‘‘ (رابرٹ لنڈ، بحوالہ ذکر اس پری وش کا)
لاشعورکے سمندر سے خزینے کی دریافت داخلی طور پر جو مسرت انشائیہ نگار کو عطا کرتی ہے وہ انشائیہ نگار کے پیکر میں شگفتگی کی روبھی دوڑا دیتی ہے، پس انشائیہ نگار کی شگفتگی محض مسکراہٹ کی نمود سے عبارت نہیں بلکہ یہ اکتساب علم، نکتۂ نو کی افزائش، خیال کی جدت تخلیق کی سبک روی، مزاح کی لطافت، حیرت کی افزائش اور طنزکی لطیف چابکدستی سے بھی پیدا ہوتی ہے اور ایک انشائیے کی یہی خوبی اسے دوسری اصناف سے ممیز اور ممتاز کرتی ہے۔
انشائیہ اور تسلسل خیال
انشائیہ کے لیے جس آزادہ روی کا ذکر گزشتہ اوراق میں کیا گیا ہے وہ بالعموم انشائیہ میں تسلسل خیال کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔ انشائیہ کا وہ مخصوص مزاج جسے ڈاکٹر جانسن نے ذہن کی آزادترنگ (A loose sally of the mind) کہا ہے اور جس کے لیے وزیر آغانے ایک ’غیر رسمی طریق کار‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ در اصل تسلسل خیال کے مسئلے کو ہی سطح پر ابھارتی ہے۔ اردو کی دوسری تخلیقی اصناف مثلاً افسانہ، ناول، داستان اور مضمون وغیرہ میں تخلیق کارکواپنا ذہن آزادچھوڑ دینے کی اجازت نہیں۔ وہ ابتدائے سفر میں ہی اپنی منزل کا تعین کر لیتا ہے اور پھر قدم بہ قدم اس منزل کی طرف لپکتا چلا جاتا ہے لیکن انشائیہ اتنے کڑے نظم وضبط کامتحمل نہیں ہو سکتا اور یہ دوسری اصناف کی طرح فنی رکھ رکھاؤ کو بھی قبول نہیں کرتا۔ یہ واحد صنف ادب ہے جس میں ادیب کو ادھرادھر تانکنے جھانکنے اور مسرت کشید کرنے کے لیے زندگی کو انوکھے زاویوں سے دیکھنے کی اجازت ہے اور یہ اس آزادی کا ہی ثمرہ ہے کہ انشائیہ نگار کے ہاں خیال کی روبھی کسی معین سمت میں سفر نہیں کرتی۔ دوسری اصناف میں منزل مقصودادیب کے سامنے ہوتی ہے اور وہ سید ھی سڑک پر سفر کرتا ہے لیکن انشائیہ نگار پگڈنڈی پر سفر کرتا ہے اور پگڈنڈی کی کیفیت یہ ہے کہ یہ کبھی منزل نمابن جاتی ہے اور کبھی مسافر کو راستے میں ہی گم کر دیتی ہے۔ اس سب کے باوجود پگڈنڈی کا سفر نہ صرف خیال کی ردکومہمیز لگاتا ہے بلکہ یہ نئے تجربات سے آشنا بھی کرتا ہے اور راستے کو اسرار کو نئے انداز میں منکشف بھی کرتا ہے۔
انشائیہ میں خیال کی روبھی آزادی کامظاہرہ کرتی ہے۔ انشائیہ نگار اپنے آپ کو موضوع اور خیال کا قیدی بنالینے کے بجائے اس سے ایک آزادہ فکر فنکار کی طرح کھیلنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ فطری انداز میں اٹھکیلیاں کر سکے اور وہ کیفیت پیدا کر دے جسے آپ شگفتن ذات کی کیفیت کہتے ہیں۔ سعداللّٰہ کلیم نے لکھا ہے کہ:
’’انشائیے میں خیالات کی بھیڑ بھاڑکے اندرسے اصل موضوع ڈھونڈھنا نہیں پڑتا۔ موضوع سامنے رہتا ہے اگرچہ دور چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ذراسا نقطہ رہ جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ قریب آنے لگتا ہے۔‘‘ (سعداللّٰہ کلیم، انشائیہ مقبولیت کی راہ پر، اوراق، افسانہ وانشائیہ نمبر، ۱۹۷۲ء، ص: ۲۳۸)
بالفاظ دیگر انشائیہ میں ادیب موضوع کی ڈور کو اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے لیکن خیال کی پتنگ کو یوں اڑاتا ہے کہ وہ ہوامیں ہرچہارجانب لپکتی چلی جاتی ہے۔ کبھی یہ پتنگ براق کی طرح آپ کے سامنے رقص کرتی ہے، کبھی یہ تارہ سی بن جاتی ہے۔ (ڈاکٹر وزیر آغا نے اس تمثیل کو کبوتر کی پرواز سے واضح کیا ہے۔ بحوالہ اوراق، حوالہ ایضاً ، ص: ۲۳۸) اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ڈورٹوٹ جاتی ہے اور اڑتی ہوئی پتنگ زمین کے ساتھ ٹکرا کر ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جاتی ہے۔
اس مثال سے میں در حقیقت یہ بات باور کرانا چاہتا ہوں کہ جس طرح انشائیہ کے لیے موضوع کی قید نہیں اور زندگی کے معمولی سے معمولی موضوع پر بھی ایک غیر معمولی انشائیہ تخلیق کیا جا سکتا ہے اسی طرح انشائیہ میں خیال کی روکے آگے بند باندھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور یہ جس سمت میں چاہے بے تکان اڑان کر سکتی ہے۔ انشائیہ میں خیال خودرو ہوتا ہے۔ یہ ایک آزادندی کی طرح موڑ کاٹتا ہے لیکن پھر بڑے دھارے کے ساتھ جا کر مل جاتا ہے اور یہ صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار ہوتا ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انشائیہ نگار کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ وہ اختصار لفظی، کفایت خیالی، شائستگی اظہار اور تازگی فکرکوتج کرانشائیہ کے ساتھ کھلنڈرے بچوں جیسا سلوک کرنے لگے اور اس پگڈنڈی کو جس کا سفر مسرت کی ایک نئی نوعیت کو جنم دیتا ہے سرابوں میں یوں گم کر دے کہ اس سے بوریت، اکتاہٹ اور بے رنگی پیدا ہو جائے۔ انشائیہ میں تسلسل خیال کی آزادی در حقیقت اس صنوبر کی آزادی کے مترادف ہے جس کے پاؤں گہری زمین میں گڑے ہوئے ہیں اور جس کی پھننگ کھلی فضا میں جھوم سکتی ہے۔ چنانچہ انشائیہ نگار متعدد آزادیوں کے باوصف مرکزی پابندی کو خود اپنے لیے قبول کرتا ہے اور تھوڑی سی آزادہ خرامی کے بعد ہمیشہ اپنے بنیادی موضوع کی طرف لوٹ آتا ہے اور یوں خیال کی مرکزیت کو نہ صرف قائم رکھتا ہے بلکہ اسے آوارہ ہونے سے بھی روکتا ہے۔ اس نقطے کی وضاحت کے لیے میں ڈاکٹر وزیر آغاکے انشائیہ ’فٹ پاتھ‘ کا ابتدائی پیراگراف پیش کرتا ہوں۔ مطالعے سے قبل یہ گزارش ضروری ہے کہ انشائیے کے عنوان کو ملحوظ نظر رکھئے اور دیکھئے کہ انشائیہ نگار ’فٹ پاتھ‘ میں خیال کی روکوآزادہ روی کی اجازت دینے کے باوجود کس طرح اپنے قلم کو آوارہ ہونے سے بچاتا ہے۔ وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’جب سرخ ساڑھی میں لپٹی ہوئی شام آسمان کے بام ودر سے لحظہ بھر کے لیے جھانکتی ہے تو میں چھڑی ہاتھ میں لیے گنجان سڑک سے لپٹے ہوئے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کے لیے نکل آتا ہوں … اس امید کے ساتھ کہ شاید میں آج اس حسینۂ فلک کے درشن کر سکوں لیکن آسمان سے آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی دیواروں کے اس شہر میں میری نظریں اس تک پہنچ ہی نہیں پاتیں، اس کے بجائے میں اس سیاہ پوش، بپھرے ہوئے جم غفیر کامطالعہ کر کے لوٹ آتا ہوں جو میرے دائیں ہاتھ بہتی ہوئی سڑک پر سائیکلوں، ٹانگوں، موٹروں اور رکشاؤں میں رواں دواں ہے، اس وقت مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں کسی تیزرفتار پہاڑی دریا کے کنارے یا متلاطم سمندر میں گھرے ہوئے کسی خاموش اور تنہا جزیرے میں کھڑا سرکش موجوں کا نظارہ کر رہا ہوں۔ یہ منظر اس محرومی کی بدرجۂ اتم تلافی کر دیتا ہے جو شام کے درشن نہ ہو سکنے کے باعث میرے دل میں پیدا ہو گئی تھی۔‘‘ (ڈاکٹر وزیر آغا، فٹ پاتھ)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ وزیر آغانے موضوع توفٹ پاتھ کو بنایا ہے لیکن اپنے خیال کی روکو صرف فٹ پاتھ کے ساتھ چسپاں نہیں ہونے دیا بلکہ انھوں نے موضوع کو اس آئینے کی طرح استعمال کیا ہے جس کے ساتھ خیال کی لہریں ٹکراتی اور پھر واپس آتی ہیں تو ایک نئی قوس قزح پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ فٹ پاتھ پر چہل قدمی، حسینۂ فلک کے درشن اور خیال افروزشام سے ملاقات کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ خیال کی روموٹروں، تانگوں اور سکوٹروں کے سیلاب سے ٹکراتی ہے تو انشائیہ نگار کے سامنے تلاطم سمندر کا تصورابھرتا ہے اور فٹ پاتھ ایک ایسا جزیرہ بن جاتا ہے جہاں انشائیہ نگار تنہا کھڑا سرکش موجوں کا نظارہ کر رہا ہے اور ان سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔
اس انشائیے سے مزید اقتباسات پیش کرنا شایدطول کلام کا باعث ہو گا۔ تاہم آپ ذرا آگے بڑھیں تو انشائیہ نگار سڑک اور فٹ پاتھ کے فرق پر ایک اچٹتی ہوئی نگہ ڈالتا ہے، پھراس فرق کی توضیح ادب کے حوالے سے کرتا ہے اور یوں کئی ایسی گرہیں کھول دیتا ہے جن کی طرف ہم نے اس سے قبل توجہ دینے کی یا تو ضرورت محسوس نہیں کی اور اگر توجہ دی بھی تو نہایت سطحی اور مضحک انداز میں۔
عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ انشائیہ میں خیال کی روکسی ایک مخصوص جہت میں نہیں لپکتی بلکہ یہ انشائیہ نگار کے ذوق اور فطرت کے مطابق متعدد سمتوں میں سفر کرتی اور بہت سی اشیا اور مظاہر کو مس کرتی ہے اور ہمیشہ بہجت اور مسرت کی ایک نئی کیفیت کو جنم دیتی ہے۔ خیال کے تسلسل کی یہ آزادی کسی اور صنف میں اس طورموجود نہیں جیسے انشائیہ میں دستیاب ہے۔ چنانچہ یہ انشائیہ کی ایک اور امتیازی خوبی تصورہوتی ہے۔
غیر رسمی طریق
تسلسل خیال کی متذکرہ بالاخصوصیت نے انشائیہ کے مزاج کو ایک غیر رسمی طریق سے بھی آشنا کیا ہے اور اس کی یہ خوبی اسے مقالہ یا مضمون سے الگ نوعیت کی منفرد صنف ادب ثابت کرنے میں بھی معاونت کرتی ہے۔ ڈاکٹر سید محمد حسنین نے لکھا ہے کہ:
’’مقالہ کی امتیازی خصوصیت سنجیدگی ہے، عالمانہ اور فکر خیز سنجیدگی، مقالہ نگار کسی موضوع پر سنجیدگی سے روشنی ڈالتا ہے۔ یہ روشنی براق ہوتی ہے، ایسی براق کہ نفس تحریر کا ہرگوشہ منور ہو جاتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر سید محمد حسین، صنف انشائیہ اور انشائیے، ص: ۱۵)
بالفاظ دیگر مقالہ ہماری دانش اور معلومات کے خزینے میں اضافہ کرتا ہے۔ نا آگہی کے اندھیروں کو آگہی کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ مقالے کا اپنا ایک مضبوط منطقی نظام ہے اور یہ لاسے الا اللّٰہ کی منزل تک بتدریج پہنچتا ہے۔ بصیرت کو مزید تابناک بنانے کے لیے انسان کے سامنے نہ صرف ٹھوس حقائق کے انبار جمع کرتا چلا جاتا ہے بلکہ معین منزل کی طرف راہنمائی بھی کرتا ہے۔ مقالے کا اسلوب سائنسی اور استخراجی ہے۔ موضوع کے حسن وقبح کی بحث میں ٹھوس دلیل اس کی سب سے بڑی معاون ثابت ہوتی ہے۔ مقالہ نگار کبھی زندگی کے رازہائے سربستہ کو آشکار کرتا ہے، کبھی آفاق پر کمندیں ڈالتا ہے اور کبھی اخلاق جلالی کے انداز میں وعظ و نصیحت پر اترآتا ہے۔ چنانچہ مقالہ نگار دوست کے بجائے مصلح کا اور یار آشنا کے بجائے راہنما کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ وہ ہمیں اپنی علمی فضیلت اور فکری بصیرت سے متاثر اور مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے، فکر و فلسفہ کے نئے نئے سوال اٹھاتا ہے اور انہیں عالمانہ خرد افروزی سے حل کرنے کی سعی کرتا ہے۔
مقالہ کے برعکس مضمون کی اصطلاح نسبتاً بیضوی ہے اور یہ ہرقسم کی نثری تحریر پر بآسانی چسپاں کر دی جاتی ہے۔ ابتدائی باب میں عرض کیا جا چکا ہے کہ مضمون کی نوعیت درسی قسم کے سوالوں کے واضح اور مستقیم جواب کے مماثل ہے۔ سید احتشام حسین، ڈاکٹر آدم شیخ، صفی مرتضیٰ، ڈاکٹر سید ہ جعفر اور عرش صدیقی نے انشائیہ کو انگریزی اصطلاح ’ایسے‘ کے مترادف سمجھتے ہوئے اسے مضمون کے قریب ترلانے کی سعی کی ہے۔ محمد ارشاد صاحب نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ:
’’صنف انشائیہ کے اردو نقاد کے پاس ایسی کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی جس کے مطابق انشائیہ کے مضمون ہونے سے انکار کر سکیں۔‘‘ (محمد ارشاد، مانتین، انشائیہ اور انشائیہ نگار، فنون، جولائی اگست ۱۹۸۲ء)
انھوں نے دلیل یہ دی ہے کہ ’پرسنل ایسے (انشائیہ) اس ’ایسے‘ (مضمون) کو کہا جاتا ہے جو ’پرسنل‘ (شخصی) ہونے کی صنعت سے متصف ہو… اس صفت کی بناپر وہ اپنی جنس (مضمون) سے خارج نہیں ہوتا۔ ہرانشائیہ مضمون ہی ہوتا ہے۔ (محمد ارشاد، مانتین، انشائیہ اور انشائیہ نگار، فنون، جولائی اگست ۱۹۸۲ء)
محمد ارشاد صاحب کی متذکرہ بالادلیل اس لیے قابل قبول نہیں کہ مغرب میں ’پرسنل ایسے‘ کو بہت عرصہ پہلے ’ایسے‘ سے الگ کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ لوک (locke) کے عظیم فلسفیانہ مضامین ’انسانی دانش کے بارے میں مضمون‘ (Essay ?????ing the Human Understanding) مالتھس کے مضمون ’آبادی کے اصول‘ (Essay of the ??????? Population) مل کا وہ مقالہ جو اس نے ’آزادی‘ پر لکھا تھا اور لارڈمیکالے کے تین گرانقدر مجموعۂ مضامین کو ’ایسے‘ کے سابقے کے باوجود ان معانی میں ’ایسے‘ شمار نہیں کیا گیا جیسے مانتین، ایڈیسن، رابرٹ لنڈاور چسٹرٹن وغیرہ کے مضامین کو ’ایسے‘ قرار دیا جاتا ہے۔ غلام جیلانی اصغر نے درست کہا ہے کہ:
’’ماضی میں ادیب جب اپنے غیر متعین مضمون کے لیے کوئی اور موزوں لیبل تجویز نہ کر سکتا تو اسے ’ایسے‘ کہہ دیتا۔‘‘ (غلام جیلانی اصغر، ادبی دنیا، لاہور، دورپنجم، شمارہ نہم، ص: ۲۵۶)
چنانچہ والٹیر کی ایک تاریخی نوشت جسے وہ ’ایسے‘ کہتا ہے دوسوابواب پر مشتمل ہے۔ انشائیہ کو مضمون میں ضم کرنے کے عمل کو ڈاکٹر وزیر آغا، غلام جیلانی اصغر، سجاد نقوی، جمیل آذر، ڈاکٹر سلیم اختراور متعدد دوسرے ادبانے قبول نہیں کیا۔ غلام جیلانی اصغر نے واضح کیا ہے کہ:
’’میں نے (انشائیہ کی) اس مختصر بحث میں ’ایسے‘ کی صرف اس نوع کو مد نظر رکھا ہے جسے ہماری اصطلاح میں انشائیہ یا ’پرسنل ایسے‘ کہا جاتا ہے۔ تنقیدی یا نیم تنقیدی مقالے، سنجیدہ یا علمی مضامین جنھیں عام طور پر ’ایسے‘ کہا جاتا ہے ایک الگ مبحث ہیں۔‘‘ (غلام جیلانی اصغر، ادبی دنیا، لاہور، دورپنجم، شمارہ نہم، ص: ۲۵۶)
ڈاکٹر سلیم اخترنے خیال ظاہر کیا کہ:
’’انشائیہ کو بالعموم خلط ملط کرتے ہوئے مزاحیہ، طنزیہ یا پھر تاثراتی قسم کی شے سمجھ لیا جاتا ہے جو کہ قطعی غلط ہے۔ مضمون ایک عمومی اصطلاح ہے۔ نہ ہی اپنی انفرادی حیثیت میں مضمون کوئی جداگانہ صنف ہے۔‘‘ (ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کیوں؟ ، اوراق، انشائیہ نمبر، مارچ اپریل ۱۹۷۲ء، ص: ۲۳۳)
سجاد نقوی نے وضاحت کی کہ:
’’انگریزی ادب میں جو صنف ’لائٹ ایسے‘ سے موسوم ہے اردو ادب میں اس کے لیے انشائیہ کی اصطلاح مستعمل ہے۔‘‘ (سجاد نقوی، اردو انشائیہ اور اس کے خد و خال، اوراق، جنوری فروری ۱۹۷۷ء، ص: ۲۷۷)
مندرجہ بالا اجمال سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انگریزی ادب کی طرح اردو میں بھی انشائیہ کو مضمون سے الگ صنف قرار دیا گیا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انشائیہ کے صنفی نقوش، مقتضیات اور محاسن میں انفرا دیت موجودہے۔ مضمون اور انشائیہ کا آپس میں رشتہ ضرور ہے لیکن یہ رشتہ ویساہی ہے جیسا کہ غزل اور قصیدے کے اشعار کے درمیان ہے۔ یہ دونوں نہ صرف شاعری کی اصناف سے متعلق ہیں بلکہ ان میں ہیئت کا اشتراک بھی موجودہے لیکن مزاج دیکھئے تو ان دونوں میں کوئی قدرمشترک نظر نہیں آتی بلکہ زمین اور آسمان کا فرق ملتا ہے۔ جس طرح نظم اور غزل، قصیدہ اور مرثیہ، ہائیکواور قطعہ وغیرہ اصناف سب شاعری کے زمرے میں توشامل ہیں لیکن صنفی اعتبار سے اپنی الگ الگ پہچان بھی رکھتی ہیں۔ اسی طرح انشائیہ اور مضمون کارشتہ یہ نہیں کہ دونوں مضمون کے دائرے میں آتے ہیں بلکہ یہ کہ دونوں نثرکے نمونے ہیں، اس امتیازی فرق کو واضح کرنے کے لیے ڈاکٹر وزیر آغا نے ادب کا ایک مختصر ساشجرہ مرتب کیا تھا۔ وضاحت احوال کے لیے میں اسے یہاں پیش کرتا ہوں۔ (ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کا سلسلۂ نسب)
ادب
نثر
شاعری
داستان
ناول
افسانہ
ڈرامہ
سوانح عمری
سفرنامہ
انشائیہ
مضمون
طنزیہ مضمون
مزاحیہ مضمون
تنقیدی مضمون
تحقیقی مضمون
علمی مضمون
فلسفیانہ مضمون
اس شجرے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ’انشائیہ‘ مضمون کی شیلی نہیں بلکہ ایک الگ صنف ادب ہے۔ (وزیر آغا، حوالہ ایضاً ) اور یہ ضروری نہیں کہ انشائیہ مضمون کے اسلوب میں ہی لکھا جائے بلکہ بعض اوقات انشائیے کے لیے افسانوی یا شاعرانہ اسلوب بھی اختیار کر لیا گیا مگرانشائیہ پھربھی انشائیہ ہی رہا۔ افسانہ یا شاعری نہیں بنا۔
متذکرہ بالابحث میں عرش صدیقی صاحب کے موقف کو کلیۃ تسلیم کر لیا جائے تو اردو ادب میں انشائیہ کا لفظ مروج کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اور اگر اس لفظ کی موجودہ ترویج کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے توطنزیہ انشائیہ، مزاحیہ انشائیہ، فکری انشائیہ اور خیالی انشائیہ وغیرہ متعدد نئی تراکیب بھی وضع کرنالازم ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ طنز سے مناسب استفادہ کے باوجود انشائیہ رہ سکتا ہے۔ اسی طرح مزاح کو استعمال میں لائے بغیر اور طنزیہ مضمون طنزکے بغیر اپنی حیثیت قائم نہیں کر سکتا۔ بالفاظ دیگر مضمون اپنی وضاحت کے لیے کسی مخصوص سابقے کامحتاج ہے جبکہ انشائیہ ایک خودمختار اور خودکفیل صنف ادب ہے اور یہ اپنے مخصوص امتیازی خد و خال سے پہچانی جاتی ہے۔ آخری بات یہ کہ ایک مقالے کی طرح مضمون میں بھی منطقی اور استخراجی رویہ غالب رہتا ہے اور غیر رسمی طریق کار اس کے مضبوط داخلی نظام استدلال کو شکستہ کر ڈالتا ہے۔ مضمون اپنی ہیئت کو جامد رکھتا ہے جبکہ انشائیہ کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ سرگشتۂ خمار رسوم نہیں بلکہ رسمی قیود سے آزاد ہے اور انشائیہ نگار کی ذہنی پرواز کے ساتھ زندگی اور زمانے کی ہرجہت کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے آمادہ رہتا ہے۔ رسمی طریق کارکے مطابق ہم شے، مظہر اور موضوع کومعینہ زاویوں اور موجود صورت میں دیکھتے ہیں جبکہ غیر رسمی طریق عمل میں نہ صرف معینہ ترتیب بدل جاتی ہے بلکہ انشائیہ نگار اشیا اور مظاہر کو الٹتا، پلٹتا ہے یا پھر اپنے مشاہدے کا زاویہ تبدیل کر لیتا ہے۔ مرزاحامد بیگ نے ایک اچھا انشائیہ تخلیق کرنے کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ:
’’انشائیہ نگار شے، تجربہ یا واقعہ کواکہری معنویت کے محدوددائرے سے باہرنکالے … جہاں وہ عمومی تجربے اور مشاہدے میں جڑیں پکڑ گ یا ہے۔ یا پھر خوداس عمومی نظرکوخیرباد کہے جو موضوع میں دوہری معنویت پیدانہیں ہونے دیتی۔‘‘ (مرزاحامد بیگ، انشائیہ پر ایک نوٹ، اردو زبان، انشائیہ نمبر، مارچ اپریل ۱۹۸۳ء، ص: ۱۵)
انشائیہ کے اس غیر رسمی طریق کار سے بعض ناقدین نے یہ نتیجہ اخذکر نے کی کاوش بھی کی ہے کہ انشائیہ نگار سنجیدہ باتیں غیر سنجیدہ انداز میں کہنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ موضوع کے مضحک زاویوں کو ابھارتا اور دائم قدروں کو مجروح کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر رسمی اندازعمل انشائیہ نگار کو اظہار کی بہت سی آزادیاں عطا کر دیتا ہے لیکن وہ موضوع کی استقامت کو نہ تو مجروح کرتا ہے اور نہ قدروں کی صداقت پر ضرب لگاتا ہے۔ انشائیہ نگار توپہلے موضوع کی آلائش دور کرتا ہے اور پھراس کے باطن سے نکھرے ستھرے اور نایاب پہلوؤں کو دریافت کر کے قاری کی داخلی مسرت کو ایک نئی کروٹ دیتا ہے۔ انشائیہ نگار اس نہاریے کی طرح ہے جو دریائی ریت کو اتناچھانتا ہے کہ برتن کی تہہ میں صرف چمکتا ہوا سونا رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عمل زیادہ صبرآزمائی، محنت اور جاں ماری کا عمل ہے اور سنجیدگی کار کے بغیر کامیابی کی منزل سر نہیں کر سکتا۔ غیر رسمی طریق کار سے مراد صرف یہ ہے کہ انشائیہ نگار آپ کے سامنے بھاری بھرکم دلیلوں اور بوجھل مسائل کے انبار لگانے سے گریز کرتا ہے۔ وزیر آغا نے اس کی توضیح کی ہے کہ:
’’اس (انشائیہ نگار) کا کام محض یہ ہے کہ چندلمحوں کے لیے زندگی کی سنجیدگی اور گہماگہمی سے قطع نظر کر کے ایک غیر رسمی طریق کار اختیار کرے اور اپنے شخصی ردعمل کے اظہار سے ناظر کو اپنے حلقۂ احباب میں شامل کر لے۔‘‘ (وزیر آغا، خیال پارے، ص: ۱)
غلام جیلانی اصغرنے غیر رسمی طریق کار کی مثال ایک انشائیہ ’گرمی‘ سے تلاش کی اور اس انشائیے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’یہ انشائیہ بہارکی رخصت سے شروع ہوتا ہے اور پھولوں کی لاشوں سے گزرتا ہوا اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جب کہ آپ محسوس کرتے ہیں کہ پہاڑ اور درخت خاموش ہیں، عظیم اور ہیبت ناک ستارے اپنی ہی آگ میں جل رہے ہیں۔ جب یہ سیال اور متحرک جذبہ رواں دواں آگے بڑھتا ہے تو فوراً انشائیہ نگار نہایت چابکدستی سے آپ کے خیال کے ایک غیر معروف سے گوشے میں چٹکی لیتا ہے اور آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے ذہن پر انکشاف کا ایک نیا در وا ہوا ہے، ویسے ہی جیسے مہاتما بدھ کو ایک نئی روشنی نظر آئی تھی۔‘‘ (غلام جیلانی اصغر، انشائیہ ایک بحث، ادبی دنیا، شمارہ نہم، دورپنجم، ص: ۲۵۵)
بالفاظ دیگر انشائیہ نگار ماچس کی تیلی سے قندیل روشن نہیں کرتا بلکہ یہ بکھری ہوئی شعاعوں سے روشنی کی کرن ڈھونڈتا ہے اور آپ کے داخل کے اندھیرے کو نئے نکتے سے منور کر ڈالتا ہے۔ اور وہ بھی یوں کہ ’’عوامی نقطۂ نظر بالکل بودا یا غلط نظر آنے لگتا ہے۔‘‘ (ایضاً ) اس عمل میں انشائیہ نگار صادق قدروں کی تکذیب نہیں کرتا، وہ حقیقت کی نفی بھی نہیں کرتا بلکہ حقیقت کے اثبات کے لیے نیازاویہ تراشتا ہے اور قدرکی نئی جہتوں کو ابھارتا ہے۔ چنانچہ جھوٹ اس کے نزدیک بھی جھوٹ ہی ہے اور بے حدقابل نفرت، اسی طرح سچ کی فوقیت مسلم ہے اور لیکن سچ کے پس پردہ ایک اور حقیقت بھی توچھپی ہوئی ہے جس تک کم کوش قاری کی نظر نہیں جاتی۔ انشائیہ نگار غیر رسمی انداز میں اس چھپی ہوئی انوکھی حقیقت کو ہی دریافت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انشائیہ ’جھوٹ کی حمایت میں‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کی خاطردس (اغلباً گیارہ) جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، ممکن ہے نیک لوگوں نے یہ بات جھوٹ کی مذمت میں کہی ہو لیکن اس سے توتعریف کا پہلو نکلتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی یہ کہے کہ ایک کتاب لکھنے کے لیے دس کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں یا ایک غزل کے لیے بیس شعراکی چوری کرنا پڑتی ہے (میرا مطلب ادبی سرقے سے ہے) اس بات سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ تخلیق ادب کے لیے سخت محنت، ریاضت، گیان دھیان، تحقیق و تدقیق وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ ایک معمولی اور بے ضرر ساجھوٹ کہنے کے لیے بھی بے پناہ محنت اور فکری کاوش کی ضرورت ہوتی اور جھوٹ بولنے والے میں بلا کی دور اندیشی بلکہ دوربینی ہوتی ہے۔ وہ ابتدا میں ہی اس کے تمام سابقے اور لاحقے سوچ لیتا ہے، اس لحاظ سے وہ ماہر لسانیات کا ہم زلف ہوتا ہے کیونکہ دونوں ایسے ایسے صوتی اور لغوی رشتے تلاش کر کے لاتے ہیں کہ خود لفظ کو اپنی پیدائش پر ندامت ہونے لگتی ہے۔‘‘ (غلام جیلانی اصغر، انشائیہ جھوٹ کی حمایت میں)
مندرجہ بالا اقتباس کا طریق اظہارغیر رسمی اور انشائیہ کے مزاج کے مطابق ہے لیکن دیکھئے کہ عنوان میں اعلان با الجہر کرنے کے باوجود انشائیہ نگار نے جھوٹ کو پسندیدہ عمل ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ جھوٹ بولنے والاجن عملی مشکلات سے دوچار ہوتا ہے ان کا بہجت آفریں اظہار جداگانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ اب کوئی شخص اگر اس انشائیے کو پڑھ کر جھوٹ بولنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تونتائج وعواقب کی ذمہ داری خوداس پر عائد ہو گی تاہم اگرکوئی شخص جھوٹ کے تمام سابقے اور لاحقے سوچ سکتا ہے اور اپنی دور اندیشی اور دور بینی، بے پناہ محنت اور فکری کاوش کو عمل میں لا سکتا ہے توفاضل نقادکا بھی فرض ہے کہ وہ اسے جھوٹ بولنے سے منع نہ فرمائیں بلکہ اس کی ذہانت کی داددیں۔
مزیدوضاحت کے لیے یہ عرض کرنابھی ضروری ہے کہ سچ اور جھوٹ عالمگیر موضوعات ہیں، غلام جیلانی اصغرسے قبل صدہا مفکروں اور فلاسفروں نے ان اقدار کی ضرورت اور اہمیت متعین کرنے اور سچ کے فروغ میں حصہ لینے کی کاوش کی ہے لیکن حصول مقصد کے لیے بیشتر نے رسمی اور تبلیغی اندازاختیار کیالیکن جب انشائیہ نگار نے اس موضوع کو مس کیاتواپنے غیر رسمی طریق اظہارسے اس کی کایا پلٹ دی اور سچ جسے صحف سمادی سے رائج کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اب فرد کی داخلی ضرورت بن کرنمودار ہو گیا۔
بالفاظ دیگر رسمی طریق کارقواعد و ضوابط کی پابندیاں عائد کرتا ہے اور قاری کو دلیل و برہان کی تنگنائے سے گزارتا ہے اور بعض اوقات تو وہ ایسی بندگلی میں بھی پھنس جاتا ہے جس سے نکلنے کاراستہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس انشائیہ اپنے غیر رسمی طریق کار سے لطف و انبساط اور انکشاف معانی کا ایک نیا جہان مرتب کرتا ہے اور قاری کو خیال کی ان پگڈنڈیوں پر چلنے کی دعوت دیتا ہے جن کی دونوں اطراف پر انواع واقسام کی جھنڈیاں اور قمقمے آویزاں ہیں اور قاری رنگ ونور کی اس دنیاسے حیرتوں اور مسرتوں کا وسیع ذخیرہ سمیٹتا چلا جاتا ہے۔
انشائیہ کے متذکرہ غیر رسمی طریق کار کی طرف زیادہ راہنمائی ڈاکٹر جانسن کی وضع کردہ اس تعریف سے بھی ہوتی ہے جس کے تحت انشائیہ کو ایک بے قاعدہ اور غیر منظم کمپوزیشن، نا ہضم مواد کا بے ترتیب ٹکڑا اور دانش کی ڈھیلی ڈھالی اختراع قرار دیا گیا ہے۔ اس تعریف کی خوبی یہ ہے کہ ڈاکٹر جانسن نے انشائیہ کو ہر قسم کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دے کر اسے فطرت کے بالکل قریب کر دیا ہے۔ شایداسی لیے انگریزی ادب کے ایک نقاد کا قول ہے کہ ’’انشائیہ لکھنا اتنا ہی فطری ہے جتنا سانس لینا۔‘‘ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انشائیہ نگار کو بے پر کی اڑانے یا بے سر و پا باتیں کرنے کی کھلی چھٹی ہے۔ اظہار کی اس وسیع رسمی آزادی کے باوجود انشائیہ سانیٹ کی طرح ایک نازک صنف ادب ہے۔ (فکر و خیال، مکتبہ اردو زبان سرگودھا، ص: ۳۶) اور مصنف کی ذراسی بے احتیاطی سے اس کا پیکر ڈول جاتا ہے۔ انشائیہ کی بنت میں نا ہضم یا کچی باتیں سما نہیں سکتیں بلکہ اس کے پیکر میں صرف وہی باتیں جگہ پا سکتی ہیں جو انشائیہ نگار کے بطون میں طویل عرصے تک محفوظ تھیں، حتیٰ کہ تخلیق کا وہ لمحہ آ گیاجب انشائیہ نگار نے اپنے لاشعور میں غوطہ لگا کر انہیں برآمد کر لیا۔ مرزا حامد بیگ نے درست لکھا ہے کہ ’’loose sally توبے ربطی کا باعث بنتی ہے۔ انشائیہ خواہ کتنا ہی سبک اندام کیوں نہ ہواس میں بہرطور ایک ربط ہوتا ہے۔‘‘ (مرزا حامد بیگ، انشائیہ کی کونپل، اوراق، جنوری فروری ۱۹۷۸ء، ص: ۲۱۰)
چنانچہ انشائیہ میں غیر رسمی عمل بے راہ روی کا نام نہیں بلکہ ایک منظم آزادی کا آئینہ دار ہے اور مغرب ومشرق کے اعلیٰ پائے کے انشائیوں میں ایک مخصوص قسم کی داخلی تنظیم ضرور ملتی ہے جس سے خیال کی ڈور پھیلنے کے باوصف مرکزی نقطے کے گرد سمٹتی ہوئی بھی دکھائی دیتی ہے۔
کفایت لفظی
غزل اور سانیٹ کی طرح انشائیہ لفظوں کے فالتو بوجھ کو قبول نہیں کرتا، غیر معمولی طوالت یا بے جا تفصیلات اس کے داخلی مزاج کو درہم برہم کر ڈالتی ہیں۔ چنانچہ انشائیہ کے فنی تقاضوں میں اختصار اور کفایت لفظی کو بھی نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے اختصار کو انشائی ادب کا بنیادی وصف قرار دیا ہے۔ (ڈاکٹر وحید قریشی، اردو کا بہترین انشائی ادب، ص: ۲۲) پیٹرویسٹ لینڈ نے لکھا ہے کہ:
’’انشائیہ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جو موضوع کو محدود انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔‘‘ (پیٹرویسٹ لینڈ، انشائیہ کیا ہے؟ ، مفاہیم، ادب نمبر، ۱۹۸۰ء، ص: ۲۱۰، ترجمہ مسعود ہاشمی)
چنانچہ اچھا انشائیہ نہ اتنا گتھا ہوا ہوتا ہے کہ قاری مسرت کشید کرنے کے عمل سے گزرنے ہی نہ پائے اور لفظوں کی تنگناؤں میں ہی الجھا رہے اور نہ اس میں اتنا پھیلاؤ ہوتا ہے کہ مرکزی خیال کی پتنگ فضا میں ابھرے توہوا اسے اپنے ساتھ بہا کر ایسی وادیوں میں لے جائے کہ واپس آنے کا امکان ہی باقی نہ رہے۔
عام طور پر کسی مضمون یا مقالے کے اختصار یا طوالت کا اندازہ صفحات کی تعداد اور لفظوں کی مقدارسے لگایا جاتا ہے۔ لیکن انشائیہ کے باب میں یہ پیمانہ کچھ زیادہ کار آمد ثابت نہیں ہوا۔ انشائیہ دو ایک صفحات کا بھی ہو سکتا ہے اور یہ پندرہ بیس صفحات کو بھی محیط کر سکتا ہے۔ بیکن کا انشائیہ ’سفر کے بارے میں‘ صرف دو صفحات میں سما گیا ہے جبکہ ہنری ڈیوڈ کا انشائیہ ’بغیر اصول کے زندگی‘ باریک ٹائپ کے انیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے ابتدائی انشائیے مثلاً پگڈنڈی، آندھی اور بے ترتیبی وغیرہ خاصے مختصر ہیں لیکن کتابوں کی معیت میں اور حقہ پینا نسبتاً طویل انشائیے ہیں۔ جمیل آذر اور احمد جمال پاشا انشائیہ کے موضوعات کو اختصار سے پیش کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں لیکن غلام جیلانی اصغر، مشتاق قمر اور سلیم آغا قزلباش جب تک موضوع کے تمام گوشوں پر سیر حاصل روشنی نہ ڈال لیں انہیں اطمینان نہیں ہوتا، چنانچہ ان ادبا کے انشائیے نسبتاً طویل ہوتے ہیں۔
انشائیہ چونکہ انوکھے پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے اس لیے اس میں الفاظ جتنے کم اور چنیدہ ہوں گے، انوکھے پہلو اتنی ہی شدت سے ابھریں گے۔ طویل انشائیوں میں بعض اوقات غیر ضروری تفصیلات کا درآنا لابدی ہے جو نہ صرف تاثر کی گہرائی کو کم کر دیتی ہیں بلکہ اکثر اوقات انشائیہ کے بنیادی خیال پر بھی گرد کی دبیز تہہ جما دیتی ہیں۔ چنانچہ چابکدست انشائیہ نگار موضوع کو پھیلانے کے بجائے ارتکاز خیال کو عمل میں لاتا ہے اور مرکز گریزی کی صورت اختیار نہیں کرتا اور یوں پورے خیال کو چند لفظوں میں سمیٹنے کی سعی کرتا ہے۔
یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ انشائیے میں اختصار یا طوالت کے بارے میں کوئی مضبوط قاعدہ یا معین قانون وضع نہیں کیا گیا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ انشائیہ نگار کو مجبور کرنا ممکن نہیں کہ وہ موضوع کو صفحات کی ایک مخصوص تعداد میں سمیٹ ڈالے، کچھ موضوعات ہی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اظہار کی وسعت کا تقاضا کرتے ہیں اور محدود الفاظ یا صفحات میں سمیٹے نہیں جا سکتے۔ اسی طرح بعض اوقات انشائیہ نگار کا مشاہدہ اتنا بوقلموں اور شخصیت اتنی توانا ہوتی ہے کہ موضوع کے ساتھ مس کرتے ہی بے شمار نئے نکتوں کو جنم دے ڈالتی ہے۔ جس طرح بے جا طوالت مضمون کو پھیلا دیتی ہے اسی طرح بے اختصار بھی انشائیہ نگار کی غرابت فکر کو عریاں کر ڈالتا ہے۔ وزیر آغانے درست کہا ہے کہ:
’’انشائیہ نہ اتنا گھٹا ہوا ہو کہ احساس کے پر قطع ہو جائیں اور نہ اتنا پھیلا ہوا کہ یہ ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جائے۔ (ڈاکٹر وزیر آغا، نئے مقالات، ص: ۲۲۹)
بلکہ مقصد یہ ہے کہ انشائیہ نگار موضوع کی مناسبت کو ملحوظ نظر رکھ کرہی اس کی قدو قامت کا تعین کرے اور جونہی اس میں غیر ضروری باتیں درآنے لگیں وہ انشائیہ کو اچانک نقطۂ اختتام پر لا کر کسی نئی حیرت کو جگا دے اور یوں اپنے فکر و خیال کی افتادگی کو الفاظ کی موزوں ترین ضرورت سے متجاوزنہ ہونے دے۔
عدم تکمیل
انشائیہ کے فن کی ایک اور امتیازی خصوصیت اس کی ’عدم تکمیل‘ ہے۔ انشائیہ موضوع پر حرف آخر کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ جس طرح میزبان اپنے کسی مہمان کے ساتھ تمام باتیں ایک ہی نشست میں ختم نہیں کر ڈالتا بلکہ ’یار زندہ صحبت باقی‘ کے مصداق کچھ اگلی ملاقات کے لیے بھی اٹھائے رکھتا ہے اسی طرح انشائیہ کی خوبی بھی یہ ہے کہ اس میں کسی ضابطہ کی تکمیل کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایک گونہ تشنگی برقرار رہتی ہے۔ واضح رہے کہ مقالہ یا مضمون لکھتے وقت مصنف ایک مخصوص ضابطے کو پیش نظر رکھتا ہے اور اس کی مثبت اور منفی نکات کو ایک مخصوص ترتیب کے مطابق یوں ضابطۂ تحریر میں لاتا ہے کہ اس کا نقطۂ نظر کماحقہٗ طور پر ظاہر ہو جائے اور وہ قدم بہ قدم قاری کو ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ چنانچہ اس قسم کی تحریروں میں موضوع پر تحلیلی یا تجزیاتی انداز میں نظر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مقصد اپنی ذات کے بجائے موضوع کے مختلف علمی اور فکری گوشے اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یہاں مصنف ایک دانشور کا فریضہ سر انجام دیتا ہے اور بالعموم اپنے آپ کو اونچی سطح پر رکھتا ہے اور اپنی تمام باتیں ایک ہی صحبت میں سمیٹ ڈالتا ہے، چنانچہ مقالہ اور مضمون جس تکمیل کا متقاضی ہوتا ہے انشائیہ کا مزاج اس تکمیل کا روا دار نہیں۔ انشائیہ تو زندگی کے غیر مختتم کل میں سے صرف ایک ٹکڑے کو گرفت میں لیتا ہے اور اسے ایک ایسا شرار بنا دیتا ہے جس سے زندگی کے متعدد دوسرے گوشے روشنی کے ایک نئے مدار میں آ جاتے ہیں اور قاری کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔
انشائیہ ماضی اور حال سے شروع ہوتا ہے اور اپنی گرفت مستقبل پر قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پگڈنڈی کا راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے اس کی گردش قدرے منحنی ہے لیکن یہ آگے بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ انشائیہ کے مزاج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ غزل کے مزاج کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ وزیر آغا نے لکھا ہے کہ:
’’غزل کے شعر کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ایک نکتہ کو اجاگر کیا جاتا ہے، لیکن اس کے تمام تر پہلوؤں کو ناظر کے فکر و ادراک کے لیے نامکمل صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر وزیر آغا، خیال پارے، ص: ۱۳)
بالفاظ دیگر جس طرح غزل کا شعرایک غیر مکمل صورت حال کو سامنے لاتا ہے اسی طرح انشائیہ بھی شے یا مظہر کے چند گوشوں کی ہی رونمائی کرتا ہے اور اس کے بہت سے پہلو تشنۂ تکمیل رہ جاتے ہیں۔ یہ نا مکمل زاویے ہی قاری کی فکر کو مہمیز لگاتے اور اس کے رہوار خیال کو نئے جادوں کی سفر پیمائی پر آمادہ کرتے ہیں۔
انشائیہ کی زبان
انشائیہ نگاری رچی ہوئی شائستہ زبان کا عمل ہے۔ انشائیہ چونکہ خیال کی لطیف صورت اور جذبے کی سبک کیفیت کو پیش کرتا ہے اس لیے کمزور یا سپاٹ زبان اسے مناسب معاونت فراہم نہیں کرتی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ:
’’انشائیہ نویسی کی روش اس وقت وجود میں آتی ہے جب زبان ارتقا کے بعض مراحل طے کر لیتی ہے۔‘‘ (ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کیا ہے؟ ، اوراق، ستمبر اکتوبر ۱۹۸۰ء، ص: ۱۳۰)
چنانچہ اردو زبان میں انشائیہ کے فروغ میں تاخیر کا ایک باعث یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں یہ زبان گھٹنوں کے بل چل رہی تھی اپنی اس ابتدائی منزل پر اس کی نثر لطیف کیفیات اور نادر مفاہیم کو جملہ دلالتوں سے بیان کرنے سے قاصر تھی۔
مزیدبرآں ایک طرف تو انتظامی سطح پر انگریزی کو فوقیت حاصل تھی اور دوسری طرف سیاسی سطح پر برصغیر کی دو بڑی زبانوں کے درمیان کشیدگی اور آویزش کی فضاپیدا کر دی گئی تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ اردو زبان کا فطری ارتقامدھم پڑ گ یا اور نقطہ کے نئے قرینے سامنے نہ آ سکے۔ علاوہ ازیں اس دور میں زبان کو اصلاحی اور تبلیغی مقاصد اور معاصرانہ چشمکوں کے لیے زیادہ استعمال کیا گیا جس سے اس کا کاروباری روپ تونکھرتا چلا گیا لیکن تخلیقی روپ پوری طرح ابھرنہ سکا۔ اس دور میں جو مضامین لکھے گئے ان میں بھی اصلاحی تبلیغی یا ہجویہ انداز تو نمایاں تھا مگر ان میں زبان کی وہ لطافت اور خستگی نہیں تھی جو انشائیہ نگاری کے لیے ناگزیر ہے۔
بیسویں صدی بلاشبہ اردو زبان کے فروغ وارتقا کی صدی ہے اور اس میں سجاد انصاری رشید احمد صدیقی، نیازفتح پوری،ل احمد ، امتیازعلی تاج، پطرس بخاری اور کرشن چندر وغیرہ نے معرکے کی چیزیں تخلیق کیں اور ان میں رومانی لپک بھی موجود ہے۔ دوسری طرف اردو ادب کو انگریزی ادب سے مس کرنے کا موقعہ ملا تو زبان کی بہت سی دلالتیں سامنے آئیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ غلامی کے ایک طویل دور نے اردو زبان کو فطری انداز میں آزادی سے پھلنے پھولنے نہیں دیا۔ چنانچہ انشائیہ کی ضرورت کو تو محسوس کیا گیا لیکن مروجہ زبان انشائیے کی مقتضیات اور اس کے محاسن کو پوری طرح گرفت میں نہ لے سکی۔
آزادی کے بعد اردو زبان نے پاکستان کے نئے ماحول میں آنکھ کھولی، اس ملک میں اسے قومی زبان کا درجہ دیا گیا تو یہ زبان پاکستانی قوم کی آرزوؤں، تمناؤں اور تخلیقی سرگرمیوں کا مظہر بھی قرار دی گئی۔ اردو کے ارتقاء کے سفر میں جو رکاوٹیں قدم قدم پر پیش آ رہی تھیں وہ آہستہ آہستہ دور ہوتی چلی گئیں اور اب الفاظ کے داخل میں معافی کی جوالا کو دریافت کرنے کی سعی ہونے لگی، لفظ کے جامد خول کو توڑ ڈالا گیا، اضافتوں سے نجات حاصل کرنے اور لفظ کی مجرد صورت کو اہم قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ اشیاء کو الٹنے پلٹنے اور ان کے باطن میں چھپے ہوئے نئے یا انوکھے زاویوں کو تلاش کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ مادی ضروریات کے پہلو بہ پہلو روحانی قدروں کو فروغ حاصل ہوا، ادیب نے افقی جہت میں سفر کیا تو عمودی سمت کو بھی نظر انداز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں اس دور میں پرانی اصناف کی تجدید ہوئی وہاں بعض نئی اصناف کو آزمانے کی ضرورت بھی محسوس کر لی گئی۔ اس ضمن میں وزیر آغا کا یہ تجزیہ درست ہے کہ اس دور میں اردو زبان میں لطیف کیفیات اور مفاہیم کو گرفت میں لینے کی جو استعداد پیدا ہوئی یہی انشائیہ کے فروغ کا اصل سبب ہے۔ (ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کیا ہے؟ ، حوالہ ایضاً ) اور اسے اردو زبان کے ارتقا کا ایک شیریں ثمرقرار دیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت بے حدمعنی خیزہے کہ بھارت میں جہاں اردو کو فطری طور پر پنپنے کا موقعہ نہیں ملا انشائیہ نگاری پوری طرح ابھر نہیں سکی، اس طرح ترقی پسند تحریک کے ادبا جو زبان کو تبلیغی مقاصد اور ادب کو نعرہ بازی کے فروغ کا وسیلہ بناتے ہیں نہ صرف انشائیہ نگاری کی صنف میں نمایاں اہمیت کی کوئی چیزپیش نہیں کر سکے بلکہ بیش تر ترقی پسند ادبا کے ہاں تو انشائیہ کو پسند کرنے کامیلان بھی عنقا ہے اور کئی ایک ادبا جو فن پارے ترقی پسند رسائل میں انشائیہ کے نام سے پیش کر رہے ہیں وہ خالص مزاحیہ اور طنزیہ مضامین ہی نظر آتے ہیں اور ان کا انشائیہ سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ (انور سید ید، پہلا پتھر (مقدمہ) ، ہم ہیں مشتاق، ص: ۲۵، مکتبہ اردو زبان، سرگودھا، ۱۹۷۰ء)
انشائیہ کی ہیئت
انشائیہ کے فن میں یہ حقیقت بے حددلچسپ ہے کہ اس کی سیال صورت ہر ہیئت کو آسانی سے قبول کر لیتی ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر وحیدقریشی صاحب کا یہ خیال مبنی برحقیقت ہے کہ ’انشائیہ کی خارجی شکل کسی ایک تیکنیکی سانچے پر مبنی نہیں۔ (ڈاکٹر وحید قریشی، بحوالہ اختلافات، ص: ۹۲، مکتبہ اردو زبان، سرگودھا، ۱۹۷۵ء) ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ:
’’انشائیہ کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ اسے لازمی طور پر مضمون کے اسلوب میں ہی لکھا جائے۔‘‘ (ڈاکٹر وزیر آغا، دوسراکنارہ، ص: ۸۴)
مسعود انورنے انشائیہ کی ہیئت کو ایک ایسے غبارے سے مشابہ قرار دیا ہے جس کے اندرہوابھری ہو توٹھوس نظر آتا ہے لیکن جب ہاتھ لگائیں تواحساس ہوتا ہے کہ یہ ٹھوس نہیں بلکہ لچکدار ہے۔ (مسعود انور، انشائیہ کی تیکنیک، اردو زبان، انشائیہ نمبر، ۱۹۸۳ء، ص: ۶۴) پرٹچرڈ نے لکھا ہے کہ ’’انشائیہ میں زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی نلائی کی جاتی ہے لیکن اس کی کوئی مخصوص وضع نہیں۔ (P. H. Fritshard, Essays of Today, Page 12) بالفاظ دیگر ہیئت کے اعتبار سے انشائیہ کسی خاص وضع کو قبول نہیں کرتا۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نثر کے ہرفن پارے کو جس کی کوئی خارجی شکل ہوانشائیہ قرار دیاجا سکتا ہے۔ فن پارہ اپنی صنف کے اعتبارسے مختلف اجزا کو ایک تکنیکی سانچے میں ڈھالتا اور ایک کل کی صورت میں مرتب کرتا ہے۔ جبکہ انشائیہ کے تمام اجزا مرکزی ڈورسے منسلک ہونے کے باوجود آزاد ہوتے ہیں، ان اجزامیں ایک لچکدار ساتعلق ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ یوں انشائیہ نگار کو پوری آزادی ہے کہ وہ موضوع کے نکھار کے لیے صرف بیانیہ پر ہی انحصارنہ کرے بلکہ اگرفن کا تقاضا اور انشائیہ کی ضرورت ہو توافسانے کی ہیئت اور ڈرامے کی تکنیک کو بھی وسیلے کے طور پر استعمال کرے۔ مثلاً انشائیہ نگار مکالموں سے بھی کام لے سکتا ہے اور کرداروں کے حوالے سے بھی مظاہر اور اشیا کو پیش کر سکتا ہے۔ وہ مسکرانے پر آمادہ ہو تو مزاح سے استفادہ کرتا ہے اور اگر اس کا موڈ سنجیدہ ہو تو موضوع پر فکری زاویے سے بھی نظرڈالتا ہے۔ تاہم انشائیہ نگار کا بنیادی مقصدڈرامہ پیدا کرنا یا کہانی بیان کرنانہیں افسانوی یا ڈرامائی عناصر انشائیے کی تکنیک میں قیمتی اجزاکا کام دے کر اس کے مزاج پر غلبہ پانے کی اجازت نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ افسانہ، ناول یا ڈرامہ اپنے موضوع، صورت واقعہ اور پلاٹ کے لحاظ سے ایک خاص وسعت کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ انشائیہ ایک ایسی صنف ہے جس میں الفاظ کا ہوشمندانہ استعمال ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کی عدم تکمیل اس کا حسن شمارہوتی ہے۔
انگریزی ادب میں انشائیہ کو مختلف ہئیتوں میں لکھنے کے کامیاب تجربے کیے جا چکے ہیں، ورجینیا وولف کا انشائیہ ’پتنگے کی موت‘ (death of the moth) افسانوی پیرائے میں لکھا گیا ہے۔ ایلفا آف وی پلو (alpha of the plough) نے چند ایک انشائیوں میں مکالمے کی ہیئت خوبی سے استعمال کی ہے۔ جارج ہربرٹ نے کرداروں کے بیانیہ سے انشائیہ کا تاثر ابھارا ہے، چسٹرٹن کے انشائیوں میں ڈرامائی عناصر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔
ہیزلٹ کے انشائیوں میں اکثراوقات تنقید کا اسلوب در آتا ہے۔ اردو زبان کے انشائیہ نگاروں میں سے وزیر آغا نے ہیئت کے نسبتاً زیادہ تجربے کیے ہیں، ان کے انشائیہ ’ٹھنڈابرف ہاتھ میں‘ افسانے کے ہیئت استعمال کی گئی ہے لیکن خوبی کی بات یہ ہے کہ انشائیہ افسانہ نہیں بنتا بلکہ انشائیہ ہی رہتا ہے۔ ’چوری سے یاری تک‘ میں ڈرامے کے عناصر موجودہیں۔ انشائیہ ’لاہور‘ پر تمثیلی ہیئت کا گمان ہوتا ہے۔ جمیل آذر، مشتاق قمراور غلام جیلانی اصغر نے بھی ہیئت کے متعدد تجربات کیے ہیں۔ سلیم آغا قزلباش نے نکتے کو تمثیل سے اجاگر کرنے کا انداز اپنایا ہے۔ رام لعل نابھوی ڈرامائی مکالمے کو خوبی سے استعمال میں لاتے ہیں۔ احمد جمال پاشا کے انشائیے میں مزاح کیمیائی طور پر ہیئت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ان سب انشائیہ نگاروں نے انشائیہ کے داخلی نظام کو زیادہ اہمیت دی ہے اور خارجی ہیئت اس نظام کا جزولاینفک نظر آتی ہے۔ چنانچہ ان ادبا کے انشائیوں سے جو مزاج سامنے آتا ہے وہ انہیں دیگرہمہ اقسام مضامین سے ممیز وممتاز کر دیتا ہے اور ان کے داخل سے خالص انشائیے کی ایسی مہک اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جو کسی مخصوص ہیئت کی محتاج نہیں ہے۔
انشائیہ کے موضوعات
انشائیہ کے داخلی نظام میں موضوع کو ایسی گراں قدر اہمیت حاصل نہیں جیسی مضمون یا مقالہ میں حاصل ہوتی ہے۔ بلاشبہ موضوع ہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد انشائیہ نگار اپنے تصورات کے غبارے اڑاتا ہے۔ تاہم انشائیہ نگار کا ذہن اگر رسا ہے تو وہ جس موضوع کو بھی مس کرے وہ موضوع لودینے لگتا ہے۔ وجہ یہ کہ انشائیہ نگاری کے لیے ہر موضوع ایک زرخیز موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ موضوع نہ توعظیم ہوتا ہے اور نہ حقیر، دوسری بات یہ کہ انشائیہ میں موضوع کے پہلوبہ پہلوانشائیہ نگار کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ اس کا علمی، فکری، تہذیبی رویہ اور موضوع کو برتنے کا شائستہ انداز ہی اس کے گرد ایک روشن ہالے کو حرکت میں لاتا ہے۔ چنانچہ موضوع رسمی، معمولی، پیش پا افتادہ، عام اور بار بار رگیدا ہوا بھی ہو توایک خوش فکر انشائیہ نگار اس کے باطن سے نور کی جوالا اور معنی کی پھلجھڑی برآمد کر سکتا ہے، اس کے برعکس موضوع نیا اور تازہ ہولیکن اس پر اظہارخیال پٹے پٹائے، غیر تخلیقی، سپاٹ اور بدرنگ اسلوب میں کیا جائے توموضوع اپنی تازگی اور رعنائی کھودے گا۔ چنانچہ انشائیہ نگاری میں اعلیٰ اور ادنیٰ موضوع کا اختصاص موجود نہیں، مسعود انور کا یہ خیال درست ہے کہ انشائیہ نگار موضوع کو سامنے رکھ کر جو اب مضمون قسم کی چیز نہیں لکھتا… بلکہ انشائیہ نگار موضوع کو اپنی ذات کے مدار میں داخل کرتا ہے اور پھراس کی گردش سے اس موضوع سے اپنی ذاتی وابستگی کے مختلف زاویے ابھارتا ہے۔ (مسعود انور، انشائیہ کی تکنیک، اردو زبان، انشائیہ نمبر، ۱۹۸۳ء، ص: ۶۳)
دوسرے لفظوں میں اس صنف میں اصل تخلیقی عمل تو انشائیہ نگار آزماتا ہے۔ چنانچہ جن انشائیوں کو شہرۂ آفاق اہمیت حاصل ہوئی ہے انہیں علمی یا عظیم مورخ قرار دینا شاید موضوع کے ساتھ زیادتی ہے۔ دنیا کے بیشتر انشائیہ نگاروں نے اظہارخیال کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیاجن پر پہلے کبھی نہیں لکھا گیا تھا اور جن کا انوکھا پن قاری کو بے اختیار اپنی طرف راغب کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر ورجینیا وولف کا ’پتنگے کی موت‘ (the death of the moth) ، لیہہ ہنٹ کا ’مشعل بردار‘ (the lantern bearers) ، چسٹرٹن کا ’چاک کا ٹکڑا‘ (in praise of mistakes) ، جے بی پریسٹلے کا ’کچھ نہ کرنا‘ (on doing nothing) ، وزیر آغا کا ’چوری سے یاری تک‘ ، غلام جیلانی اصغرکا ’مکان بنانا‘ ، جمیل آذر کا ’مانگے کا سکریٹ‘ ، کامل القادری کا ’سریش کا درخت‘ ، محمد اسد اللّٰہ کا ’لحاف‘ ، احمد جمال پاشا کا ’شور‘ ، سلیم آغا قزلباش کا ’دوربین‘ ، سلمان بٹ کا ’بدصورتی‘ ، مشرف احمد کا ’قرض‘ ، جان کاشمیری کا ’ایش ٹرے‘ ، محمد اقبال انجم کا ’پلیٹ فارم‘ ، اکبرحمیدی کا ’دوسری منزل‘ وغیرہ چند ایسے انشائیے ہیں جن کے موضوع کی ندرت ان کے عنوان سے ہی ظاہر ہے اور قاری کو بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
مونتین اگرچہ زبان و ادب کا پہلا انشائیہ نگار تھا اور اس نے بعض علمی موضوعات کو مس کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم اس نے بہت سے انشائیے نئے اور انوکھے موضوعات پر بھی لکھے ہیں۔ مثال کے طور پر گفتگو کافن (on the art of conversation) ’علالت پر‘ (on illness) ، ’جھوٹوں کے بارے میں‘ (on liars) ، ’خوشبوؤں پر‘ (on saells) وغیرہ چند ایسے ہی موضوعات ہیں جنھیں نوعیت کے لحاظ سے علمی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن مونتین نے ان معمولی موضوعات کے بعض غیر معمولی پہلوؤں کو اپنے مخصوص غیر رسمی پیرایۂ اظہار سے ابھارا اور قاری پر خیال کی ایک نئی دنیا منکشف کر دی۔
واضح رہے کہ انشائیہ میں موضوع کی ندرت ہی سب کچھ نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ انشائیہ نگار نے اس موضوع کو کس انداز میں برتا ہے اور پھرکس طرح وہ موضوع کو پہلے جملے سے آخری جملے تک ریشمی تار کی طرح کھولتا اور لپیٹتا ہے۔ پیٹرویسٹ لینڈ نے یہ بات بڑے پتے کی کہی ہے کہ ’’انشائیہ نگار کامقصد تاثیر کی تربیت وتخلیق ہے چنانچہ موضوع کو ابتدا سے اختتام تک قاری کے ذہن نشین رہناچاہیے۔ وجہ یہ کہ سنیما کی عمارت خواہ کتنی ہی خوبصورت ہو توجہ اسکرین کی طرف ہی چاہیے۔‘‘ (پیٹرویسٹ لینڈ، انشائیہ کیا ہے؟ ، مفاہیم، ادب نمبر۱۹۸۰ء، ص: ۲۶۱، ترجمہ مسعود ہاشمی)
(ماخوذ: انشائیہ اردو ادب میں، ڈاکٹر انور سدید، لاہور، ۱۹۸۵ء)
٭٭٭