انشائیہ اور انشائیہ نگاری کے فن پر مختلف حوالوں سے لاتعداد مضامین لکھے جا چکے ہیں، جن سے انشائیہ کے خد و خال اور اس کے مزاج کو متعین کرنے میں بڑی مددملی ہے اور اب یہ پھبتی قریب قریب اپنی موت آپ مرچکی ہے کہ ’چونکہ انشائیہ‘ ایک نزاعی صنف نثر ہے لہٰذا اس کو پڑھنا اور سمجھنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ یہاں میں ایک دلچسپ حقیقت کی طرف اشارہ کرناضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ پچھلے بیس سال میں جو نام انشائیہ نگاری کے افق پرطلوع ہوئے ہیں ان میں زیادہ تعداد نوجوانون قلم کاروں کی ہے۔ اس کی اغلباً وجہ یہ ہے کہ نوجوان بڑی حد تک لبرل اندازفکر رکھتے ہیں، نیز انھیں خود پرپہلے سے چڑھے ہوئے کسی روایتی خول کو بھی توڑنا نہیں پڑتا۔ اس کے مقابلے میں پرانے قلم کارچونکہ مبتلائے رسوم و قیود ہیں، اس لیے شعوری طور پر اس صنف نثر کی مخالفت کرتے ہیں تاکہ ان کی ’وضعداری‘ کا بھرم قائم رہے۔ بہرحال بزرگ اہل قلم کے اس سخت گیر رویے سے جہاں انشائیہ کو قدم جمانے میں کافی زورآزمائی کرنا پڑی وہاں نوجوان نسل نے اسے بطور چیلنج قبول کیا اور مختصرمدت میں مضامین نوکے انبار لگادیے۔ اب اردو انشائیہ ایک ایسے ’مرکزی نقطہ‘ پر کھڑا ہے جس کے ایک طرف منجھے ہوئے انشائیہ نگاروں کا تجربہ ہے تو دوسری طرف نوجوان انشائیہ نگاروں کا جوش وخروش اور جب عقل اور جذبہ ایک دوسرے سے مصافحہ کر لیں تو پھر برسوں کا فاصلہ دنوں میں طے ہونے لگتا ہے، لہٰذا میں نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اب تک انشائیہ نگاری کے ضمن میں جو مباحث ہو چکے ہیں ان کو سامنے رکھ کر انشائیہ نگاری کے فن کا اجمالی جائزہ پیش کروں تاکہ ادب کا ایک عام قاری انشائیہ کے بارے میں زیادہ وثوق سے غور و فکر کر سکے اور اس قسم کی ’بالک ہٹ‘ کامظاہرہ نہ کرے جو بعض ادبی حلقوں میں اکثردیکھنے، سننے کو ملتی ہے۔
انشائیے کی تعریف کے سلسلے میں "great essays" کے مرتب ہاوسٹن پیٹرسن یوں رقم طراز ہیں:
’’ایسّے کامطلب تحریرکا ایک ایسا چھوٹاسا ٹکڑا ہو گا جس میں کسی بھی موضوع سے بحث کی گئی ہو، مگر شخصی، غیر رسمی اور غیر مصنوی انداز میں ’ایسّے‘ مفکرانہ ہو گالیکن سنجیدہ نہیں، وہ فلسفے سے قریب ہو گالیکن فلسفے کی طرح باقاعدہ نہیں اس میں ایک قسم کی ڈھیلی ڈھالی وحدت ہو گی لیکن اس میں اصل موضوع سے مسرت بخش انحراف بھی ہو گا۔ وہ ہمیں مصنف کی رائے سے اتفاق کی ترغیب دے سکتا ہے لیکن وہ ہمیں اتفاق رائے پر مجبورنہ کرے گا، ’ایسّے اسٹ‘ چاہے اور جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارادوست اور لفظوں کا فنکار ہوتا ہے۔‘‘
اپنی اس رائے میں پیٹرسن نے نہایت خوش اسلوبی سے صنف انشائیہ کے اجزائے ترکیبی کو بیان کیا ہے، پھریہ کہ اس تعریف میں انشائیہ نگاری کے وہ تمام بنیادی پہلو یکجا ہو گئے ہیں جن کا ہر اچھے انشائیے میں موجود ہوناضروری ہے اور جن میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی سے انشائیہ کی تکمیل میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر یہ تعریف ان حضرات کے لیے سوچ کا وافر سامان مہیا کرتی ہے جو انشائیہ کے عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک کو ہی تمام تر اہمیت تفویض کرتے ہیں اور یوں انشائیہ کی ہمہ گیری کو ختم کرنے کی سعی فرماتے ہیں:
’’سب سے تسلی بخش essays وہ ہیں جن میں قلم کار اپنی ذات سے لے کر کائنات تک، مجرد سے لے کر محسوس تک اور خارجی سے لے کر باطنی دنیاؤں کے مراحل طے کرجائے۔‘‘
آلڈس ہکسلے کے اس بیان سے یہ نتیجہ نکالناکہ انشائیہ وحدت الوجودی یا وحدت الشہودی مزاج رکھنے والی کوئی شے ہے بالکل ناسمجھی والی بات ہو گی۔ اس بیان میں انشائیہ نگار کی وسیع المشربی اور اس کے غور و فکر کے پھیلاؤ کو واضح کیا گیا ہے، نیزیہ بتانے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ اگرانشائیہ نگار کی شخصیت میں عالمگیری موجزن ہو توزبان و مکان کے فاصلے خودبخود طے ہونے لگتے ہیں۔ نیازفتح پوری صاحب فرماتے ہیں:
’’یہ ہے ایک قسم کی solioquy زیادہ تر subjective قسم کی جسے ہم self communication بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک خاص قسم کے فکروتصورکا نتیجہ ہے، جس میں تجزیہ جذبات، نفسیاتی مطالعہ، منطقی استدلال، فلسفیانہ تفکر، متصوفانہ استقراء اور انشاء عالیہ کا جمالیاتی اسلوب سب کچھ پایا جاتا ہے۔‘‘ (اعتراف و تعارف اردو ایسیرز)
اگرچہ نیازفتح پوری صاحب کے زمانہ میں انشائیہ نگاری کے خطوط پوری طرح اجاگر نہیں ہوئے تھے، تاہم انھوں نے انشائیہ فہمی کا اچھامظاہرہ کیا ہے۔ خاص طور پر متصوفانہ استقراء اور فلسفیانہ تفکر کے پہلوان قلم کاروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں جو انشائیے کو گڈی گڈے کا کھیل سمجھتے ہیں اور لفظی اچھل کود اور چہل کو انشائیہ کا امتیازی وصف قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین کرناضروری ہے کہ فلسفیانہ تفکر کامطلب افلاطون یا ارسطوکے اقوال زریں نہیں ہیں اور متصوفانہ استقراء کے معنی تصوف کے بارے میں کوئی علمی بحث چھیڑ کر خود کو منفرد کرنابھی نہیں ہے بلکہ ان دونوں اصطلاحوں کامطلب اگر pure wisdom لیا جائے تومجھے نیازفتح پوری صاحب کی رائے سے مکمل اتفاق ہے البتہ منطقی استدلال کا عنصر انشائیے کے مزاج کے منافی ہے گونفسیاتی مطالعہ والی بات انشائیے کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ احتشام حسین کا فرمانا ہے کہ:
’’انشائیہ کو ایک ایسی فلسفیانہ شگفتگی کا حامل ہونا چاہیے جو پڑھنے والوں کے ذہن میں استدلال کے ذریعے نہیں بلکہ محض خوشگوار استعجاب اور بے ترتیب انداز بیان کے ذریعے اپنا تاثر قائم کرے۔‘‘ (اردو انشائیہ، مرتبہ سید صفی مرتضیٰ)
احتشام حسین صاحب کی یہ رائے بڑی دلچسپ ہے، اس میں انھوں نے استدلال انداز کو رد کر کے فلسفیانہ شگفتگی کے حوالے سے اپنی بات کو واضح کیا ہے۔ ایک اچھے انشائیے میں فلسفیانہ شگفتگی ضروری ہے جو خوشگوار استعجاب کو تحریک دے کرقاری کو غور و فکر پر مائل کر سکے۔ جہاں تک ’بے ترتیب اندازبیان‘ کامعاملہ ہے تو اس ضمن میں گزارش ہے کہ بے ترتیبی یعنی disorder کی اصطلاح کا جو بے محابا استعمال انشائیہ کی تکنیک کے سلسلے میں کیا گیا ہے اس نے اکثرقارئین اور بیشتر ناقدین کی سوچ کو بے ترتیب کر دیا ہے۔ وہ نجانے کیوں اس بات کو فراموش کربیٹھے ہیں کہ بے ترتیبی میں بھی ایک اندرونی ترتیب مضمر ہوتی ہے جسے انشائیہ نگار اپنی تیسری آنکھ سے ڈھونڈ نکالتا ہے اور پھراپنے طرز تحریر کے ذریعے delight in disorder والی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ جس سے تحریر کی معنویت نکھرآتی ہے۔ وہ لوگ جو disorder کی اصطلاح کو بالکل ڈھیلی ڈھالی اور غیر مربوط کے معنوں میں لیتے ہیں وہ انشائیے کے مزاج سے بخوبی آشنا نہیں ہیں۔
محمد ارشاد صاحب اپنے مضمون ’مونتین انشائیہ اور انشائیہ نگار‘ فنون، لاہور، جولائی اگست ۱۹۸۲ء میں لکھتے ہیں:
’’انشائیہ وہ صنف نثر ہے جس میں کسی بھی علمی اور سماجی اہمیت کے حامل موضوع پر استقرائی طور پر حاصل کردہ معلومات اور ان پر مبنی آراء کو شخصی نقطۂ نظرکے طور پر گھریلو پیرایۂ بیان میں اس طرح پیش کیا جائے کہ موجودہ ترتیب میں نظم وضبط اور معلومات میں اضافے کی صورت میں آراء پر نظر ثانی کی گنجائش موجود ہو۔‘‘
یہ رائے اس لیے محل نظر ہے کہ اس کے مطابق علمی اور سماجی اہمیت کے حامل موضوعات اور معلومات کو شخصی پیرائے میں بیان کرنے کو انشائیہ نگاری متصور کیا گیا ہے، حالانکہ انشائیہ کے لیے ضروری ہے کہ موضوعات اور ان سے متعلق معلومات کی قلب ماہیت ہو، یہ چیز ظاہر ہے کہ انشائیہ نگار کی تخلیقی اپج کے بغیر ممکن نہیں۔ محمد ارشاد صاحب کی رائے کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو پھرانشائیہ ایک میکانکی انداز میں لکھی گئی ایسی تحریرقرار پائے گا جس میں معلومات کو واحد متکلم کے انداز میں بیان کر دیا گیا ہویاموضوع کو اس کی علمی بلندی سے نیچے اتار کرمحض گھریلو زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہو، ایسی تحریر انشائیہ کی پیروڈی تو کہلا سکتی ہے مگراسے انشائیہ کہنا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر آدم شیخ کے خیال میں:
’’خودساختہ رسوم وقوانین میں جکڑا ہوا انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر آزادی کی ایک سانس کے لیے جد و جہد کرتا ہے۔ انشائیوں میں ایک انسان یا فنکار کے اسی جذبۂ حیرت کی تسکین ہوتی ہے۔ انشائیہ نگار ہمیشہ ایک حقیقت کی طرف لوٹنا چاہتا ہے۔ وہ بت پرست نہیں بلکہ بت شکن ہے۔‘‘
آگے چل کرمزیدلکھتے ہیں:
’’وہ (یعنی انشائیہ نگار) تواپنے پڑھنے والے کو دوستانہ انداز میں زندگی کے انوکھے اور دلچسپ پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے جو عام نظروں سے پوشیدہ رہے ہوں۔‘‘ (انشائیہ، بمبئی، ۱۹۶۵ء)
ڈاکٹر آدم شیخ نے انشائیوں کو جذبہ حریت کی تسکین کا وسیلہ قرار دے کر ان حضرات کو لاجواب کر دیا ہے جو کہتے ہیں کہ انشائیہ ایک غیر مقصدی صنف ادب ہے اور کسی چیز کے حصول کا وسیلہ نہیں بنتی۔ دوسرے یہ کہ ڈاکٹر آدم شیخ نے انشائیہ نگار کو بت پرست نہیں بت شکن قرار دیا ہے اور یہ بات واقعی درست ہے کہ انشائیہ نگار رسوم وقیود میں جکڑے ہوئے انسان کی اس انفعالی حالت کے خلاف ایک کھلا احتجاج ہے جو اسے بت پرستی پر مجبور کر دیتی ہے۔ آرنلڈٹائن بی کا کہنا ہے کہ تہذیب جب روبہ زوال ہوتی ہے تو وہ کئی طرح کے بت گھڑ لیتی ہے جن میں پرانی رسوم و روایات کا بت بھی شامل ہوتا ہے، لہٰذا انشائیہ نگار کا بت توڑنا اس زوال آمادہ ذہنیت کے خلاف واضح اعلان جنگ ہے جو کسی نئے تجربے یا خیال کو اپنے اردگرد پھٹکنے نہیں دیتی اور پیش پا افتادہ ڈگرپر آنکھیں بندکر کے چلنا چاہتی ہے، یہ چیز انشائیہ کی فعا لیت کی تصدیق بھی کرتی ہے، ڈاکٹر آدم شیخ کی دوسری بات بھی سوفی صد درست ہے کہ انشائیہ زندگی کے انوکھے اور دلچسپ پہلوؤں کی نقاب کشائی کرتا ہے اور یوں ان مخفی پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جو عام قاری کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ پہلو انشائیہ کی سب سے بڑی پہچان ہے اور ڈاکٹر آدم شیخ نے ایک اچھے نباض کا ثبوت مہیا کیا ہے۔
انشائیہ میں ایجازواختصار کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے مگرشرط یہ ہے کہ اس سے انقباض کی صورت پیدانہ ہوبلکہ اس کے اختصار کا دامن وسیع نظر آئے چنانچہ بعض ناقدین نے اسی بات کے پیش نظر انشائیہ کو غزل سے مماثل قرار دیا ہے مثلاً ڈاکٹر وزیر آغا کے دیباچے کے مطابق:
’’انشائیہ اردو غزل کے ایک شعر میں گہری مماثلت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ غزل کے شعر کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ایک نکتہ کو اجاگر تو کیا جاتا ہے لیکن اس کے تمام پہلوؤں کو ناظرکے فکرو ادراک کے لیے نامکمل صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے، یہی حال انشائیہ کا ہے اس میں موضوع کے صرف چندایک انوکھے پہلوؤں کو پیش کر دیا جاتا ہے اور اس کے بہت سے دوسرے پہلوتشنہ اور نامکمل حالت میں رہ جاتے ہیں۔‘‘
غلام جیلانی اصغرصاحب کے مطابق:
’’مزاج کے لحاظ سے غزل اور انشائیہ میں کوئی فرق نہیں لیکن ہیئت کے لحاظ سے یہ دونوں اصناف جداگانہ خاصیتوں کی حامل ہیں۔‘‘ (ادبی دنیا، بحث، انشائیہ کیا ہے؟ ، خاص نمبر۹)
جب کہ جمیل آذرصاحب کے خیال میں:
’’انشائیہ میں غزل کا سا ایجاز، افسانے کا تاثر، ناول کا سا فلسفۂ حیات اور ڈرامے کے انتظار یہ لمحات اور اس کے پس منظر میں طنز و مزاح کی دھیمی دھیمی سمفنی ہوتی ہے اور ان سب پر مستزاد انکشاف ذات جو انشائیے کے لیے مختص ہے۔‘‘ (اوراق، ۱۹۶۶ء، انشائیہ ایک لطیف صنف نثر)
مندرجہ بالا آراء میں ایک چیزقدر مشترک ہے اور وہ ہے انشائیہ میں شاعرانہ عناصر کی موجودگی۔ مگرمیرے خیال میں انشائیہ غزل کے شعرسے نہیں بلکہ غزل مسلسل سے مشابہ ہے جس کا ہر شعر دوسرے شعریعنی خیال کو کروٹ دیتا ہے، جس سے معنی کا پیکر قدم بہ قدم ایک داخلی آہنگ کے زورپر پھیلتا چلا جاتا ہے اور قاری elevation کی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ غزل کی طرح انشائیہ میں کئی پہلوتشنہ بھی رہ جاتے ہیں مگراس تشنگی کو قاری اپنی سوچ بچارسے پورا کر لیتا ہے۔ ایک اور پہلو بھی غورطلب ہے کہ انشائیے میں دیگر اصناف نثر کی خو بوپائی جاتی ہے۔ مگراس سے یہ قطعاً مراد نہیں ہے کہ انشائیہ محض دیگر اصناف کا مرکب ہے اور اس کی الگ پہچان نہیں ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر انور سدید صاحب کی یہ رائے بہت وزنی ہے:
’’افسانوی یا ڈرامائی عناصرانشائیے کی ترتیب میں قیمتی اجزاء کا کام تو دے سکتے ہیں لیکن اس کا مجموعی مزاج نہیں بن سکتے۔‘‘ (اوراق، افسانہ وانشائیہ نمبر، ۱۹۷۲ء)
ڈاکٹر سلیم اخترصاحب لکھتے ہیں:
’’انشائیہ در اصل مہذب ذہن کی ترجمانی کا نام ہے۔ اسے مہذب معاشرے میں لکھا جا سکتا ہے اور اس سے مہذب قاری لطف اندوز ہوتا ہے، لیکن انشائیہ ہرذہن کے لیے نہیں ہے، یہ تو بالغ ذہن کے حامل مرد کے لیے ہے۔‘‘
وہ مزیدلکھتے ہیں:
’’بلکہ میں تو اس حد تک جانے کو تیار ہوں کہ صرف انشائیہ ہی خالص نثری صنف ہے ورنہ کہانی اور ڈراما تک سبھی کچھ منظوم ہو سکتا ہے۔ اچھی نثر کے بغیر انشائیہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (اوراق، افسانہ وانشائیہ نمبر، ۱۹۷۲ء، مضمون: انشائیہ کیوں)
ڈاکٹر سلیم اخترصاحب نے اپنے اس بیان میں انشائیہ کو مہذب ذہن کی ترجمانی قرار دے کراس بات کی ضرورت پر زوردیا ہے کہ انشائیہ نگار کے لیے polished ہونا ازبس ضروری ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ انھوں نے انشائیہ کو خالص نثری صنف قرار دے کراس کی توقیر اور اہمیت کا وا شگاف اقرارکیا ہے اور یہ بیان انشائیہ کی اثرپذیری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ البتہ ان کا یہ کہنا کہ انشائیہ صرف بالغ ذہن کے مرد کے لیے ہے محل نظر ہے۔ خودمرد کے ہاں anima اور animus کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ نفسیات اور پھر ادب میں اس قسم کی صنفی برتری یا تخصیص کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں توجہ طلب رائے مرزاحامد بیگ کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مجھے اعلیٰ انشائیہ میں جذباتی سطح پر مادر سری اصول کی کارفرمائی اور پدرسری اصول کا ٹھہراؤ اور بردباری کا ایک توازن نظر آیا ہے۔‘‘ (اوراق، انشائیہ کی کونپل، جنوری فروری ۱۹۷۸ء)
میرے خیال میں وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ انشائیہ فعا لیت اور انفعا لیت کا سنگم ہے، گویا یہ سونے جاگنے کی ایک ایسی درمیانی کیفیت ہے کہ جب آنکھ پوری طرح کھلتی ہے تو آدمی حیرت زا مسرت سے دو چار ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے چلا تھا اور کہاں پہنچ گیا یا پھر دوسرے لفظوں میں یہ جان لیجئے کہ مادر سری اور پدر سری اصول کا مطلب افقی اور عمودی دونوں زاویوں کا انشائیہ میں شامل ہونا ہے۔
اب آئیے ایک اور مسئلے کی طرف!
مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم ایسّے کے ساتھ light کا سابقہ لگاتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے کیا light کامطلب محض ہلکا پھلکا ہونا ہے یا کچھ اور ؟ اس سلسلے میں یہ بات غور طلب ہے کہ انشائیے کو مضمون essay یا جو اب مضمون سے متمیز کرنے کے لیے جب light essay کی اصطلاح برتی جاتی ہے تو اس سے عموماً یہ بات اخذ کر لی جاتی ہے کہ light کے معنی ہلکا پن، ہلکا پھلکا happy بمعنی خوش ہونے اور خوش کرنے کے ہیں۔ اس لیے انفرادی سوچ بچار، انکشاف ذات، نکتہ آفرینی اور پاسبان عقل کی موجودگی انشائیہ میں جائز نہیں ہے۔ جیسے نظیر صدیقی صاحب کا یہ ارشاد کہ:
’’انشائیہ کسی نہ کسی اعتبار سے غیر سنجیدہ یعنی لائٹ ہوتا ہے۔‘‘ (انشائیہ کیا؟ بحث ادبی دنیا، شمارہ نہم)
چنانچہ اس بات کو ذہن میں رکھ کراچھے بھلے قلم کاراپنی تحریروں میں لطیفے، چٹکلے اور ہنسی ٹھٹھے اور چہل ایسے اجزا کو یکجا کر کے کہتے ہیں کہ ہم نے انشائیہ لکھ لیا ہے، حالانکہ لائٹ کے معنیknowledge aspect اور thing to ingnite something وغیرہ کے بھی ہیں اور یہ انشائیہ کی مروجہ صورت میں زیادہ قرین قیاس ہیں، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ تینوں عناصر باہم یکجا ہو کرانشائیے میں enlightenment کا جوہر پیدا کرتے ہیں جو فی الحقیقت انشائیے کی جان ہے۔ یہاں اس بات کو جاننا ازبس ضروری ہے کہ ’نالج‘ سے مراد منطقی استدلال، ٹھوس فلسفیانہ مباحث، تحقیقی موادجمع کرنایاترتیب سے پیش کرنا نہیں ہے بلکہ موضوع کے بارے میں عمیق مشاہدہ مرادہے۔ aspect کا مطلب کسی چیز، تجربہ میں پنہاں ان مختلف پہلوؤں کی تخلیقی پیرائے میں نقاب کشائی ہے جو بظاہر مخفی معلوم ہوتے ہی، نیز انشائیے میں شگفتہ یا پر مسرت ہونے کا مطلب intellectual pleasure اور جمالیاتی حظ کا حصول ہے نہ کہ ہنسی مذاق سے پیدا ہونے والی وقتی قسم کی تفریح کی تحصیل!
اور اب ہم انشائیہ کی اس definition کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کے بارے میں خاصی بحث وتمحیص ہو چکی ہے۔ یہ تعریف ڈاکٹر جانسن کی پیش کردہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"A loose sally of the mind, an irregular indigested piece, not a regular and orderly composition." (The English Essays and Essayists)
میرے نزدیک جانسن نے جس طرح اس تعریف میں انشائیہ کو ایک بے قاعدہ اور غیر منظم کمپوزیشن قرار دیتے ہوئے ناہضم موادکا بے ترتیب ٹکڑا اور دانش کی ڈھیلی ڈھالی اختراع کہا ہے۔ ساری گڑبڑاس تعریف کو محدود معنوں میں لینے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ڈاکٹر جانسن کی اس تعریف میں indigested کامطلب غیر ہضم شدہ مواد ہرگز نہیں۔ در اصل جانسن primordial images کی بات کرنا چاہتا ہے جو اصلاً ایک طرح کا کچا یا خام مواد ہوتے ہیں۔ اسی طرح regular نہ ہونے سے اس کی مراد یہ ہے کہ انشائیہ پیش پا افتادہ اسالیب اور کلیشیز کی قید و بند سے آزاد ہو، گویا وہ loose talk کی سفارش ہرگز نہیں کر رہا۔ دوسری جانب ہمارے ہاں یہ صورت ہے کہ ہم مغرب والوں کی ہر بات کو من وعدن قبول کر لیتے ہیں، چنانچہ یہی رویہ ہم نے جانسن کی تعریف کے سلسلے میں بھی برتا اور کہاکہ انشائیہ بالکل آزاد ہے اور ہم اس صنف کے لیے کسی قسم کی پابندی کے قائل نہیں ہیں یعنی ’آزاد صنف نثر‘ کی اصطلاح نے اردو کے متعدد ناقدین اور بیشتر قارئین کو غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے اور انھوں نے اس کامفہوم مکمل آزادی یا با الفاظ دیگر مادر پدر آزادی کے معنوں میں قبول کر لیا ہے۔ درآنحالیکہ آزاد صنف نثر کے معنی یہ بھی توہو سکتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص قسم کے اصلاحی رنگ، نظریات، تصورات و تعصبات یا سسٹمز systems کا پرچار کرنے کی مجبوریوں سے ’آزاد‘ ہو، نیزاسے اختیار حاصل ہوکہ وہ جملہ علوم وفنون سے حسب منشا اکتساب کرے اور پھرانھیں ایک نئے زاویے اور ذاتی حوالے سے موضوع کی بنت میں کچھ اس طور شامل کر دے کہ ایک ایسا نیاپرت اجاگر ہو جائے جو مسرت اور فکری حظ کے حصول کا ذریعہ بھی بن سکے۔ آزادصنف نثرکامطلب آزادی فکر بھی ہو سکتا ہے نہ کہ اس کامفہوم منتشر خیالی یا غیر منضبط ہوناسمجھ لیا جائے۔ اسی طرح پابندی سے مراد اگر پلاٹ ’تھیم‘ کردار یا وحدت زمانی و مکانی یا ٹھوس منطقی رویے کی پابندی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ انشائیہ اس قسم کی پابندی کامتحمل نہیں ہو سکتا۔ ویسے جانسن کی مہیا کردہ انشائیہ کی تعریف نے مغرب میں بھی خاصا رد عمل پیدا کیا ہے۔ چنانچہ C. H. Lockitt رقم طراز ہے:
"We have travelled a long way ..... from Johnson's "loose salley of the mind; his undigested meal has become a light digestible and his disorderly composition a carefully constructed and elaborately designed work of art." (The Art of the Essayist)
انشائیہ کی دوسری توجہ طلب ’تعریف‘ ڈاکٹر وزیر آغاکی ہے۔ وہ رقم طرازہیں:
’’انشائیہ اس تحریر کا نام ہے جس میں انشائیہ نگاراسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء یا مظاہرکے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہرآکر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوتا ہے۔‘‘ (پیش لفظ، دوسراکنارہ)
پیش کردہ تعریف کی وضاحت کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں:
’’اس تعریف میں یہ بات مضمر ہے کہ انشائیہ ایک تو اسلوب یا انشاء کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرے یعنی زبان کو تخلیقی سطح پر استعمال کرے۔ دوسرے شے یا مظہر کے اندرچھپے ہوئے ایک نئے معلی کو سطح پر لائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی بت تراش پتھر کی سل پر سے فاضل بوجھ اتار کر اس کے اندرسے وہ شبیہ برآمد کرے جو ظاہری آنکھ سے توپوشیدہ تھی لیکن جسے بت تراش کی باطنی آنکھ نے گرفت میں لے لیا تھا۔ تیسرے انشائیہ ذہن کو بیدار اور متحرک کرے یعنی شعور کی توسیع کا اہتمام کرے۔ جب تک یہ تینوں یکجانہ ہوں انشائیہ وجود میں نہیں آ سکتا۔‘‘ (پیش لفظ، دوسراکنارہ)
اکثرلوگوں کا خیال ہے کہ یہ ’تعریف‘ اردو انشائیہ کے مزاج کو سمجھنے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سارے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انشائیہ کے اجزائے ترکیبی کے تعین کی حد تک تقریباً نقادایک دوسرے سے بڑی حد تک اتفاق کرتے ہیں تو پھر نزاع کس بات پر ہے !اس سلسلے میں ایک مثال سے بات واضح کرناچاہوں گا۔ مثلاً اگر آپ کسی سے کہیں کہ ہرانسان کے دوہاتھ، پاؤں اور دو آنکھیں دو کان ایک منہ اور ناک ہوتا ہے تو وہ فوراً کہے گا کہ مجھے اس سے اتفاق ہے مگرجب ان تمام اشیاء کامجموعہ یعنی گوشت پوست کا جیتا جاگتا آدمی اس شخص کے سامنے آ جائے تو وہ کہے گا صاحب میں تو اسے نہیں پہچانتا، بالکل یہی مسئلہ انشائیہ کے ساتھ درپیش ہے کہ اس کے salient features پر تو تقریباً سبھی نقادوں کا اتفاق ہے یعنی اسے شخصی ہوناچاہیے، اس کا اسلوب شگفتہ ہوتا ہے۔ یہ غور و فکر پر ابھارتا ہے اس میں عدم تکمیل کا احساس ہوتا ہے وغیرہ۔ مگرجب ان تمام اجزائے ترکیبی کا مرکب ’انشائیہ‘ سامنے آتا ہے توبعض نقاداور اکثر قارئین کرام اسے پہچاننے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ گویاسارامسئلہ اس کی پہچان کا ہے نہ کہ اس کی تعریف اور دائرہ کار کا!
مختلف نقادوں کی آراء کا تجزیہ کرنے کے بعد اب میں مجموعی حوالے سے انشائیہ نگاری کے فن کامحاکمہ پیش کرناچاہوں گاتاکہ ایک متحرک تصویر نظروں کے سامنے آ جائے اور ہم انشائیے کے ہمہ جہت مزاج کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔
انشائیہ ذہن کی آزاد ترنگ ان معنوں میں ہرگز نہیں ہے کہ اسے ’شعور کی رو‘ سے ملتی جلتی تکنیک جیسی کوئی تحریر سمجھ کرجب چاہیں ماضی کے واقعات، حال کے تجربات یا مستقبل کے سہانے سپنوں کو آپس میں گڈمڈ کر کے کاغذ پر منتقل کرناشروع کر دیں اور پھر دعویٰ کریں کہ انشائیہ جس قسم کے آزادتلازمۂ خیال کا تقاضا کرتا ہے وہ ہم نے پورا کر دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انشائیہ ایک گتھی ہوئی تحریر ہے جس میں ایک نقطۂ خیال دوسرے نقطۂ خیال سے پھوٹتا ہے اور پھیل کر دوبارہ پہلے نقطہ میں سمٹ آتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ جب یہ دوبارہ مرکزی نقطے کو چھوتا ہے تو معنی کا ایک نیاپرت، فکر کا ایک انوکھا زاویہ اور خیال کی ایک تازہ لہر نمودار ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ انشائیہ کا مرکزی خیال ’باؤلر‘ کے ہاتھ میں پکڑی گیند ہے وہ جب چاہتا ہے اسے ایک زوردار ٹھپے کی صورت میں ابھری ہوئی وکٹوں کی طرف اچھالتا ہے، مگر یہ گیند تھوڑی دیر بعد مختلف ہاتھوں میں سے ہوتی ہوئی دوبارہ باؤلر کے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ یہی حال انشائیے کے مرکزی نقطے کا ہے کہ وہ مختلف پہلوؤں کو چھونے کے بعد دوبارہ انشائیہ نگار کے ہاتھ میں آ جاتا ہے بلکہ انشائیہ لکھتے ہوئے اگرکسی واقعہ یا منظر کا ذکر آ جائے تو وہ بھی مرکزی نقطے کے ساتھ پیوست ہوتا ہے، نہ کہ مرکزی نقطے سے پہلو تہی کرنے کے لیے برتا جاتا ہے۔ ایسانہیں کہ ایک بات کو بیان کرنے کے بعد یہ لکھا جائے کہ ’یہ توجملہ معترضہ تھا‘ اس روش نے موجودہ دور کے متعدد قلم کاروں کو غلط ڈگرپرڈال رکھا ہے اور وہ انشائیہ کے مرکزی خیال سے منقطع ہو کر غیر متعلق باتیں کرنے لگتے ہیں یا لطائف کی آمیزش کے مرتکب ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مضحک صورت واقعہ کو نمایاں کرنے میں ہی انشائیہ کی کامیابی ہے جب کہ انشائیہ کا بنیادی جوہر نکتہ آفرینی ہے۔ جب تک اس پہلوسے روگردانی کی جاتی رہے گی اس وقت تک انشائیہ لکھا نہیں جا سکے گا اور یہ ساری کارگزاری محض چیز، تجربہ یا خیال کی بالائی سطح تک کی الٹ پلٹ یا موضوع کی ناہمواریوں پر استہزائی نظر ڈالنے اور پھر خندۂ دنداں نماکامظاہرہ کرنے تک محدود رہے گی۔ سنگ تراش کی طرح انشائیہ نگاربھی موضوع کے ٹھوس پتھر میں سے مخروطی صفات کو تراش خراش سے اجاگر کرتا ہے نہ کہ پتھر کی کھردری سل پر چاک سے الٹی سیدھی لکیریں، کارٹون یا خاکہ نماچیزیں بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جسے ملحوظ خاطر رکھ کرانشائیہ اور طنزیہ، مزاحیہ مضامین کے فرق کو مزید سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ قلم کار کسی چیز، خیال یا تجربہ کے سطحی پہلوگنواتے چلے جانے کو بات میں سے بات نکالنے کے عمل کے مماثل جانتے ہیں مثلاً نمک کے موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے کچھ اس قسم کے طرزعمل اختیار کریں گے۔ ایک نمک حرام ہوتا ہے اور پھرنمک حراموں کے کرتوت بیان فرمادیں گے۔ پھر ارشاد فرمائیں گے کہ ایک نمک کی کان ہوتی ہے اور رعایت لفظی کا استعمال کر ڈالیں گے پھر یوں رقم طراز ہوں گے کہ ایک نمک دانی ایک نمک پارہ ہوتا ہے اور اس حوالے سے کوئی لطیفہ، چٹکلہ پیش کر دیں گے اور یوں لفظی بازی گری کامظاہرہ کرتے ہوئے تحریر کو پایۂ تکمیل تک پہنچادیں گے اور کہیں گے کہ دیکھئے جناب ہم نے نمک کے حوالے سے کتنے نکات اور صورتیں آشکارکی ہیں۔ حالانکہ آشکارکچھ نہیں کیا، محض چیزیں گنوائی ہیں اور وہ بھی نہایت سطحی طریقے سے۔ دوسری طرف اگرانشائیہ نگارنمک کو اپنا موضوع بنائے گاتو وہ انسان کی ذات میں مضمر نمکین پانی کے سمندر کا ذکر چھیڑے گا۔ نمک اور انسانی جسم کے ربط باہم پر ایک نظرڈالے گا اور شاید نمکینی کو انسان کی فطرت ثانیہ قرار دینے کی بھی جسارت کرے گا۔ نمک سے انسان کے رشتے کو پل صراط ایسانازک رشتہ قرار دے گا کہ ذراسی کمی بیشی بھی اس کے توازن کو متزلزل کر سکتی ہے اور شاید آخرآخر میں وہ پانی اور نمک کے رشتے کو کسی صوفیانہ مسلک کی توضیح کے لیے بھی استعمال کر ڈالے۔ غرضیکہ انشائیہ نگار کے سامنے معانی کا ایک جہان ہو شربا ہے جو نمک کے موضوع کو محض ذراساچھولینے پر متحرک ہو سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میں کوئی کلیہ قاعدہ مرتب کر رہا ہوں کہ اتنے گرام شاعرانہ و متصوفانہ عناصر یا فلسفیانہ موشگافیاں یا معاشرتی وسیاسی اجزاء جب تک ایک دوسرے میں اچھی طرح حل نہ کیے جائیں انشائیہ کامحلول تیار نہیں ہو سکتا۔ در اصل یہ وہ تمام وسیلے ہیں جن کو بروئے کار لا کر انشائیہ نگاراپنے موضوع میں گہرائی اور وسعت پیدا کرنے پر قادر ہوتا ہے، مگران تمام عوامل کا غیر معتدل استعمال انشائیہ سے انشائیہ پن چھین لے گا اور اسے ایک ثقیل قسم کے جواب مضمون یا طنزیہ یا مزاحیہ مضمون میں مبدل کر دے گا۔ یہاں میں سعداللّٰہ کلیم صاحب کی اس بات کا ذکر ضرور کروں گا کہ:
’’خیال ایک پتنگ کی صورت کتنی ہی بلندیوں میں پرواز کرے مگر اس کی ڈور ہر حال میں انشائیہ نگار کے ہاتھ میں رہتی ہے۔‘‘ (انشائیہ مقبولیت کی راہ پر، اوراق، انشائیہ و افسانہ نمبر، ۱۹۷۲ء)
ان کی اس بات میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب طنزنگاردو سروں کو پتنگ اڑاتے ہوئے دیکھتا ہے توجملے کستا ہے اور طعن و تشنیع کا حربہ استعمال میں لاتا ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ نگاراپنے اردگرد کے ماحول کو اپنی ذات میں پنہاں ایک جہان معنی کے حوالے سے جانچنے اور پرکھنے کی سعی کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ مجموعی خوبیوں اور خامیوں پر ہمدردانہ طریقے سے غوروخوض بھی کرتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ:
’’انشائیہ کا ایک داخلی عنصر انشائیہ نگارکا وہ ہمدردانہ رویہ ہوتا ہے جو مثبت سوچ کا ثمر ہے۔‘‘ (انشائیہ نگاری، مشتاق قمر، اوراق، سالنامہ، اپریل مئی ۱۹۷۵ء)
میرے خیال میں صرف یہی نہیں بلکہ انشائیہ نگارزندگی کے منفی اور مثبت داخلی و خارجی پہلوؤں کا ژوف نگاہی سے مطالعہ کرتا ہے۔ با الفاظ دیگر انشائیہ بنے بنائے قاعدوں اصولوں اور سانچوں کو جب توڑتا ہے توپہلے داخلی طور پر تصادم (conflict) سے دوچار ہوتا ہے جس سے منفی چیزیں مثبت اور مثبت چیزیں منفی دکھائی دینے لگتی ہیں اور یوں chaos کی صورت نمایاں ہو جاتی ہے، مگرپھر انشائیہ نگار ایک تخلیقی جست بھرتا ہے اور یوں وژن، میڈیم اور آہنگ کو بروئے کارلا کربے ہیتی کو ہیئت میں بدل دیتا ہے، جس سے تحریر میں وحدت تاثرپیدا ہو جاتی ہے۔ جمیل آذرصاحب نے اپنے مضمون ’ایک لطیف صنف نثر‘ میں منفی اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں جان حے کی یہ مثال دی ہے:
’’خوش بختی ایک نٹ کھٹ دوشیزہ ہے، جس کے لیے کسی ایک جگہ رکنا نا ممکن ہی نہیں، وہ کرسی کی پشت پر سے تمہارے بالوں کو انگلیوں سے چھیڑتی ہے۔ تمہارے ہونٹوں پر ایک اڑتا ہوابوسہ ثبت کرتی ہے اور پھر شرما کر کھلکھلاتی ہوئی بھاگ جاتی ہے لیکن بدبختی بڑے وقار کے ساتھ تمہاری جانب آتی ہے، تمہارے بستر پر اطمینان سے بیٹھ جاتی ہے اور پھر اون کی سلائیوں سے تمہارے لیے ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سویٹر بننے لگتی ہے۔‘‘ (جمیل آذر بحوالہ ایک لطیف صنف نثر، اوراق، ۱۹۶۶ء)
اس مثال سے جمیل آذر صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انشائیہ نگار کے لیے خوش بختی اور بدبختی یعنی مثبت اور منفی دونوں پہلو جاذب نظر ہیں اور ان کو نئے زاویے سے پرکھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ میرے خیال میں یہاں اس بات کا ذکر نے میں بھی حرج نہیں ہے کہ انشائیہ نگار نہ تواپنی انا ego کو اتنی وسعت دیتا ہے کہ پوری زندگی کو خود میں جذب کر لے اور نہ ہی اپنی ذات کی اس حد تک نفی کرتا ہے کہ ہر شے اسے اپنے اندر مدغم کر لے بلکہ وہ دونوں صورتوں کو ملا جلا کر ایک امتزاجی صورت پیدا کرتا ہے۔ انشائیہ نگار کے مقابلے میں مزاح نگار اپنی ذات کو ہدف بنا کر اس کا تمسخر اڑاتا ہے اور یوں دوسروں کے لیے سامان تفنن مہیا کرتا ہے۔ ایسا کرنا کوئی عیب نہیں بلکہ یہ تومزاح نگار کی تکنیک ہے۔
انشائیہ نگار کی حتیٰ المقدور کوشش اس بات میں ہوتی ہے کہ جس چیز، خیال یا تجربے کو وہ بیان کر رہا ہو وہ خودبخود اپنی نقاب کشائی کرتا چلا جائے۔ اس سے قطع نظر ’غیر معمولی سنجیدگی‘ کو صرف اس وقت ہی اپنے پیکر میں جگہ دے سکتا ہے جب یہ آسوب آگہی سے پیدا ہوئی ہو۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ جب غیر معمولی سنجیدگی اپنی آخری رکاوٹ کو عبور کرتی ہے توایسی معنی خیز غیر سنجیدگی وجود میں آتی ہے جس کا دوسرا نام خودشناسی ہے اور انشائیہ اسی کیفیت کو خود میں سمونے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ ایک اچھے انشائیے کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ سہ ابعادی three dimensional ہوتا ہے یعنی وہ چیزخیال اور تجربے کے مقر رہ مفہوم میں مستور نئے معانی کو منکشف کرتا ہے، جس سے وہ چیز، خیال اور تجربے کے مقر رہ مفہوم کی دیوار پر فریم میں لگی تصویر کی طرح محض دوابعادی نہیں رہتا بلکہ فاصلہ، گہرائی اور اونچ نیچ کا احساس اسے ایک سچ مچ کے منظر میں تبدیل کر دیتا ہے اور ناظر اس سارے منظرنامے میں چلتا پھرتا اور اس کی نزاکتوں اور لطافتوں سے براہ راست لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
کفایت لفظی انشائیہ کے اسلوب نگارش میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر اچھے انشائیہ کا ایک ایک لفظ چنیدہ ہوناچاہیے۔ اس کی عبادت میں مترادفات کا کم سے کم استعمال ہوناضروری ہے تاکہ لفظوں کے ضیاع سے بچاجا سکے۔ انشائیہ کی انشا کا ’خیال‘ کی ندرت سے بھی بڑھ کراہتمام کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ خیال کی باریکیوں اور لطافتوں کو تخلیقی اور منجھی ہوئی انشاء ہی سنوار کرپیش کر سکتی ہے۔ چنانچہ ایک معیاری انشائیہ وہی شمار ہو گا جس میں اسلوب رواں دواں، مترنم اور کفایت لفظی کا حامل ہو گا۔ یہاں اس چیز کی صراحت بھی ضروری ہے کہ بعض قلمکار انشائیہ میں غیر معمولی سنجیدگی کو غلط طریقے سے درآنے دیتے ہیں اور اس پر مستزاد instrumentalism کے انداز کو اختیار کرنے سے، جس کے مطابق instruments for social action ہوتے ہیں، ان کی تحریروں میں تکرار بازی اور افا دیت پسندی کے علاوہ خطیبانہ استدلالی اندازاور ناصحانہ اندازفکر کو دخل اندازی کی کھلی اجازت بھی مل جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ انشائیے جیسی کومل صنف نثراس قسم کے طرزنگارش کی قطعاً متحمل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اس نوع کا پیرایۂ اظہار اپنانے والوں کو انشائیہ نگار کہنابہت مشکل ہے، انھیں زیادہ سے زیادہ مضمون نگار یعنی essayist ہی کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اگریہ کہا جائے کہ انشائیے کے infra structure میں انشاء اور اسلوب کو اساسی اہمیت حاصل ہے اور اس کے super structure میں احساس، مشاہدہ اور تجربہ کلیدی رول ادا کرتے ہیں توغلط نہ ہو گا، اس کے ساتھ ہی ساتھ انشائیے میں تجربے کی دونوں صورتوں کا امتزاج بھی مل جاتا ہے یعنی ایک وہ تجربہ جو اشیاء کے مشاہدے سے عبارت ہے اور دوسرا وہ جو اشیاء کے مفہوم کو گرفت میں لیتا ہے۔ جہاں تک تشبیہاتی، تلمیحاتی، استعاراتی اور تمثیلی انداز بیان کا تعلق ہے تو یہ چیز یقیناً زبان کی ترو تازگی اور نفاست میں گوناگوں اضافہ کرتی ہے لیکن ان محاسن کا غیر معتدل استعمال خیال کی دھار کو کندکر کے اسلوب کی گل کاری اور مرصع سازی euphistic style کا موجب بن سکتا ہے اور قاری کا ذہن تشبیہ اور استعارے کی ندرت اور طراوت کی داددینے کی طرف زیادہ مائل ہو جاتا ہے۔ یہ چیز شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔ مگرانشائیے کے سلسلے میں یہ محض اضافی خصوصیت ہے جس کا برمحل استعمال ہوناچاہیے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نوجوان انشائیہ نگاروں میں یہ پہلو نسبتاً نمایاں ہے، وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کے ہاں جذباتیت کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، چنانچہ وہ نت نئی تشبیہات کے ذریعے اپنی بات کو نئی نویلی شکلیں دیتے ہیں جس سے شاعرانہ عناصر اور اضافتوں کا استعمال ان کی تحریروں میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہو جاتا ہے، مگر در حقیقت یہ عمر کی مجبوری ہے جیسے جیسے ان کی عمر، علم اور تجربے کا دائرہ وسیع ہو گایہ اجزاء بھی بتدریج مدھم پڑنے لگیں گے تا آنکہ تحریر کی وہ صورت ابھرآئے گی جو ہر لحاظ سے پختہ اسلوب نگارش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ انشائیے کے اسلوب کے ضمن میں رشید امجد کی اس رائے میں بڑاوزن ہے، لکھتے ہیں:
’’انشائیہ میں اسلوب کی دو باتیں خصوصی ہیں، اول یہ کہ اشیاء کو لفظوں اور لفظوں سے اشکال میں ڈھالنے کی وہ قدرت جس سے ان کی داخلی اور خارجی تصویریں بنتی چلی جاتی ہیں۔ دوسرے وہ اعلیٰ درجہ کی روبھی جو سلاست و بلاغت کے ساتھ ایک ادبی معراج اور حسن بھی رکھتی ہے۔‘‘ (ڈاکٹر رشید امجد، اردو زبان انشائیہ نمبر، ۱۹۸۳ء، انشائیوں کی ایک نئی کتاب)
مزاحیہ طرز اظہار کا استعمال انشائیے میں ایک بڑی حد تک انشائیہ نگار کے خاص موڈ پر مبنی ہوتا ہے۔ بلکہ انشائیہ نگار توناہمواریوں کے بجائے ناہمواریوں کے بطون میں کار فرما ابدی سچائیوں کو بیان کرتا ہے۔ یہاں ’مزاحیہ لب ولہجے‘ اور ’مزاح نگاری‘ کے مابین فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس نوع کے انشائیے جن میں مزاحیہ لب ولہجہ اختیار کیا جاتا ہے بعض دفعہ ایک عام قاری کو مزاحیہ تحریریں نظر آتے ہیں، لیکن اگروہ ان کا بغور مطالعہ کرے تو وہ دیکھے گا کہ مزاحیہ لب ولہجے کے حامل جملوں میں کوئی دوسری نسبتاً گہری بات بیان کی گئی ہے، ایک نیا انکشاف ہوا ہے، یہی وہ نقطۂ تقاطع (nodel point) ہے، جہاں سے طنزیہ مزاحیہ مضمون اور مزاحیہ لب ولہجہ رکھنے والے انشائیے کی حدود اور سمتیں ایک دوسرے سے بالکل جداہو جاتی ہیں، مگر اس مقام پر اکثر قارئین ان کے باہمی فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور یوں بات الجھ کر رہ جاتی ہے۔ بقول ڈاکٹر انورسدید:
’’انشائیہ کی بحث میں عموماً شگفتگی کو طنز و مزاح کامترادف تصور کر لیا جاتا ہے اور اس طرح انشائیہ اور ظرافت کی حدود کو آپس میں گڈمڈ ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔‘‘
اس فرق کے ادراک کے لیے یہ چندمثالیں دیکھئے۔ مزاحیہ اندازکی ایک مثال:
’’صاحب، سائیکل کیا ہے یہ توچوں چوں کامربہ ہے۔ اس پر بیٹھتے ہی انسان سرکس کا کوئی مسخرہ نظر آنے لگتا ہے بعض اوقات تویوں لگتا ہے کہ عامل پر معمول سوار ہو کرجا رہا ہو۔‘‘
طنزیہ انداز کی مثال
’’معاشی نظام کے سائیکل کی گدی بیٹھ گئی ہے اور اخلاقی روایات کا ایکسل ٹوٹ چکا ہے جب کہ باقی ماندہ روایات مڈگارڈوں کی طرح کھڑکھڑ کر رہی ہیں اور معاشرے کے بریک کبھی کے فیل ہو چکے ہیں۔‘‘
انشائیہ کا انداز
’’زندگی ایک ایسا سال خوردہ سائیکل ہے جس پر سوار ہو کر میں راستے کے نشیب و فراز اور راہ میں آنے والے ہرگڑھے کو بصورت ایک حادثہ اپنے جسم وجاں پر براہ راست محسوس کرتا ہوں اور یوں گویا زندگی کے مختلف دھچکوں سے مسلسل روشناس ہوتا چلا جاتا ہوں۔‘‘
انشائیہ میں ’انکشاف ذات‘ سے مرادمحض لکھنے والے کی ذات کا اظہار نہیں ہے، بلکہ اس میں اس چیز، خیال یا تجربے کی مکمل اکائی بھی شامل ہے جس پر وہ طبع آزمائی کرتا ہے اور یوں ان تمام صورتوں کو ان کے مقر رہ اور مخصوص معانی سے الگ کر کے ان میں نئی معنویت اور نئے امکانات کو ذاتی وابستگی کے حوالے سے اجاگر کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ صورت سامنے آتی ہے جسے ہم شخصی حوالہ personal touch کا نام دیتے ہیں۔ مگر یہ شخصی حوالہ کسی ذاتی ڈائری کی صورت میں نہیں ہوتاکہ اسے ہم لکھنے والے کے شخصی معاملات، نجی مسائل یا خودکلامیوں تک محدود کر دیں۔ اس کے علاوہ انشائیہ کے موضوعات کے انتخاب میں بھی انشائیہ نگار کی ذاتی دلچسپی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ مثلاً آئس کریم کھانا، اخبار پڑھنا، بچہ پالنا یا حقہ پینا وغیرہ یہ تمام موضوعات بالواسطہ اور بلاواسطہ انشائیہ نگار کی وابستگی کو نمایاں کرتے ہیں اور قاری کو ان کامطالعہ کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک اچھا انشائیہ فرد کی وجدانی ضرورتوں کو پورا کرنے کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔ بقول مرزا حامد بیگ:
’’انشائیہ تو meditation سے جنم لیتا ہے۔‘‘ (انشائیہ کی کونپل، اوراق، جنوری فروری ۱۹۷۸ء)
یعنی یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ انشائیے کارخ بصارت سے بصیرت کی طرف ہے۔ وہاں بصیرت سے بصارت کی طرف بھی ہے۔ گویا انشائیہ نگار double vision کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسی طرح انشائیہ نگار کسی ایکسپریشینسٹ expressionist کی طرح نہ تودن میں خواب دیکھتا ہے اور نہ ہی علامت پسندوں کی طرح خارج کو فقط inner absolute کا عکس سمجھنے لگتا ہے بلکہ وہ توجوہر اور وجود کو بیک وقت اہمیت دیتا ہے اور انھیں ایک ہی سکے کے دورخ سمجھتا ہے، چنانچہ انشائیہ نگار کے نزدیک خیال idea اور ہیئت form ایک نامیاتی وحدت رکھتے ہیں اور یوں خارج و باطن کا سنگم فکر کو بیک وقت شامل کر دیتا ہے جس سے اس کی اثرپذیری میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ موضوع سے انشائیہ نگار کی ذاتی وابستگی کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈاکٹر آدم شیخ کے خیال کے مطابق:
’’انشائیہ نگار فرد کو جماعت یا جزو کو کل پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انشائیہ نگار کسی ivory tower کا باسی ہے اور اردگرد کی زندگی اور اس کی اجتماعیت سے اسے کوئی علاقہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فرد کے بھی دو پہلوہیں۔ ایک اس کا شخصی پہلو اور دوسرا اجتماعی پہلو۔ اجتماعی پہلواس کی ذات میں مضمر ہوتا ہے۔ چنانچہ انشائیہ نگار جب فرد کی ترجمانی کرتا ہے تو اس کے اجتماعی پہلو کے حوالے سے زندگی اور معاشرے کے کل کو بھی پیش کر دیتا ہے مگر لطف یہ ہے کہ وہ محض زمانۂ حال کے معاشرے سے کہیں زیادہ اس معاشرے کو درخور اعتنا سمجھتا ہے جو اس کی ذات میں مستور ہوتا ہے اور اس معاشرے کو بھی اہمیت دیتا ہے جو اس کے خوابوں کی آماجگاہ ہے اور جس کے مستقبل میں طلوع ہونے کے واضح امکانات موجودہیں۔ دوسرے لفظوں میں انشائیہ کسی محدود مقصدیت کا نہیں بلکہ ایک وسیع ترانکشافی اور غیر فانی رویے کا علمبردار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہراچھے انشائیے کی یہ خوبی ہے کہ اس کا آخری جملہ یا پیراگراف موضوع کے سارے بکھرے ہوئے دھاگوں کو جوڑ کرایک ایسی مکمل صورت تشکیل دے ڈالتا ہے جس کو دیکھتے ہوئے loose sally of the mind والی بات محض انشائیہ کا ایک پہلو ہی دکھائی دیتی ہے۔ گویا فنی تکمیل انشائیہ کی سب سے بڑی خوبی ہے بصورت دیگر انشائیہ stray thoughts کی سطح سے اوپر ہی نہ اٹھ سکے۔ اس سلسلے میں چندانشائیوں کے اختتامی جملے ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ ان کی مدد سے انشائیہ نگارنے کس طرح انشائیہ کی فنی تکمیل کی ہے:
مثال نمبر۱ ’’ویسے احباب واقربا کی سہولت کے لیے بھی قبرپرنیم پلیٹ کا ہونا ضروری ہے لیکن نیم پلیٹ وہی ہو گی جو مجھے پسند ہے۔ مجھے یہ بات ہرگز گوارانہیں کہ مرنے کے بعد عزیز واقارب اپنی پسند کی نیم پلیٹ میری قبر پر لگائیں۔ (انشائیہ: نیم پلیٹ، جمیل آذر)
مثال نمبر۲ ’’جب میرا مکان بالکل تیار ہو جائے گا تومیں اس کے سائے میں بیٹھ کر اپنے رشتۂ ازدواج پر غور کروں گا اور سوچوں گا کہ کیا دھرتی یعنی مکان سے وابستہ رہنا بہتر ہے یا مکان کی ’مکانیت‘ سے نکل کر غیر محدود فضا میں چہل قدمی کرنا؟ ‘‘ (انشائیہ: مکان بنانا، غلام جیلانی اصغر)
مثال نمبر۳ ’’لیکن اس حقیقت سے انکارمشکل ہے کہ شخصیت کی تکمیل آندھی کے بے رحم تھپیڑوں ہی کی رہین منت ہے اور جس شخص کی زندگی میں کبھی آندھی نہیں آئی، اس کی حالت قابل رحم اور اس کی ذہنی پختگی محل نظر ہے۔‘‘ (انشائیہ: آندھی، ڈاکٹر وزیر آغا)
مشکور حسین یاد نے انشائیہ کو ’ام الاصناف‘ کہا ہے۔ اس سے اگران کی یہ مراد ہے کہ اصناف ادب میں سب سے پہلے انشائیہ نے جنم لیا تھا تو یہ بات قرین قیاس نہیں ہے۔ ان معنوں میں صرف شاعری ہی کو ام الاصناف کہناواجب ہے۔ البتہ انشائیہ کو ایک حد تک امتزاجی صنف کہہ لیجئے کہ اس میں افسانہ کی علامتی گہرائی، ڈراما کا تجسس، ناول کی ہمہ گیری، فلسفہ کی زیرکی اور مشاہدہ پسندی، شاعری کی معنی آفرینی اور جدت خیالی اور نفسیات کی دروں بینی یہ سب لکھنے والے کے ذاتی تجربے اور شعور کا حصہ بن کر ایک نئے افق کو سامنے لانے کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ انشائیہ نگارکے دائرہ کار کے ضمن میں آرتھر کرسٹو فربنس رقم طراز ہے:
"He does not see life as the historian, or as the philosopher, or as the poet, or as the novelist, and yet he has touch of all these." (The Art of the Essayist) . (مرتبہ سی ایچ لاکٹ)
یوں بھی انشائیہ نگار اس سارے جہان کا ادراک the world is my idea کے حوالے سے کرتا ہے۔ اس لیے یہ تمام گوشے بصورت واردات اس میں ازخود شامل ہو جاتے ہیں اور اسے حسی ادراک سے آگے کی چیزبنا دیتے ہیں۔ آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ وہ لوگ جو صنف انشائیہ کی مقبولیت اور اثرپذیری کو انشائیہ پڑھنے اور لکھنے والوں کے گراف کی کمی بیشی سے جانچنے کی سعی فرماتے ہیں۔ میرے خیال میں درست نہیں کرتے۔ کیونکہ انشائیہ جس قسم کا مزاج رکھتا ہے اس کو سمجھنے اور اس سے لطف کشید کرنے کے لیے تربیت اور ریاضت کی اشد ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ باطنی دنیا سے نشر ہونے والے پیغامات کو receive کرنے کے لیے انشائیہ لکھنے اور پڑھنے والے کے ذہنی چینل کا ذکی الحس ہونا بھی ضروری ہے، تبھی وہ ایک اچھا receiving set بن سکتا ہے۔ لہٰذا گنتی کر کے کہنا کہ چونکہ انشائیہ نگاروں کی تعدادبہت زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ ہردلعزیز صنف نثرکا درجہ نہیں رکھتی، فی الحقیقت زوداندیشی کامظاہرہ کرنا ہے۔ مختصریہ کہ اردو ادب میں انفرادی سوچ جس خون کی کمی کا شکار تھی انشائیے نے اس کو حتی المقدور پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور میں اسے انشائیے کی ایک دین متصور کرتا ہوں۔ باقی رہا انشائیے کی ترویج کامعاملہ تو اس ضمن میں انشائیہ کی خودکار نموپذیری نے اس کے خد و خال کو واضح کیا ہے اور اسے برترمقام کی طرف لے جا رہی ہے۔ میں رشید امجد صاحب کے ان کلمات کے ساتھ ہی اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں:
’’جدیدانسان کبھی اپنے حوالے سے کائنات کو اور کبھی کائنات کے حوالہ سے اپنے آپ کو سمجھنے کی جستجو کر رہا ہے، یہ دوہرا سفرپیچیدہ بھی ہے اور قدم قدم پر نئے نئے انکشافات اور اسرار سے بھی بھرا ہے۔ اس پیچیدگی کشف اور اسرار کا بہترین اظہارانشائیہ ہی کے ذریعہ ممکن ہے اس لیے میرے خیال میں انشائیہ ہی مستقبل کا سب سے اہم پیرایۂ اظہارہو سکتا ہے۔ انشائیہ اب ایک رجحان نہیں، تحریک بن چکا ہے۔ ایک ایسی تحریک جو بتدریج مستقبل کے اظہار کا ذریعہ بنتی چلی جا رہی ہے۔‘‘ (انشائیوں کی ایک نئی کتاب، انشائیہ نمبر۱۹۸۳ء، اردو زبان)
(ماخوذ: اشارے، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش، روالپنڈی، ۲۰۱۱ء)
٭٭٭