" آپ آئے نہیں ہسپتال"۔ اسنے گہری خاموشی توڑتے کہا۔
وہ بنا جواب دیئے ہنوز اپنے موبائل میں گم تھا۔
اسنے دوبارہ ہمت کر کے اسے مخاطب کیا۔
"بہروز۔۔۔!! میں آپ سے بات کر رہی ہوں"۔ اسنے اسے تکتے نم لہجہ میں کہا۔
" مجھے تنگ کرنا بند کرو یہ بات اول روز ہی طے ہوچکی تھی کہ اس بچے سے میرا کوئ سروکار نہیں"۔ وہ بنا نگاہ اٹھائے بیزار سے لہجہ میں بولا۔
" بہروز بس بھی کردیں آپ مجھ سے نفرت سمجھ آتی ہے کے میں آپ کے بھائی کے قاتل کی بیٹی ہوں ۔۔۔۔ پر۔۔۔ یہ تو آپکا اپنا خون ہے ، آپکی اپنی اولادیں ، انکو کس بات کی سزا دے رہے ہیں آپ۔۔؟؟"۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بھل بھل بہنے لگے تھے۔
" پلیز اپنا لیکچر بند کرو ، سر میں درد کرکے رکھ دیا ہے"۔ سرد مہری کی دیوار پہلے سے زیادہ اونچی ہوچکی تھی۔
وہ خاموش رہی اس سے آگے تو اس سے ایک لفظ بھی نا کہا گیا۔
دن تیزی سے گزر رہے تھے ، آج اسکے بچے پورے ایک ماہ اور دس دن کے ہوچکے تھے۔
اسنے انکو نہلا دھلا کر صاف ستھرا کیا۔ بہروز بیڈ پہ ہی بیٹھا تھا۔ پر بے نیاز ۔۔۔ میرب نے اپنے بچوں کو کپڑے پہنائے اچھے سے لپیٹ کر دونوں کو بیڈ پہ لٹایا۔ میرب کی ایک چور نظر بہروز پہ گئ۔ غلطی سے بھی اسکی نگاہ اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیئے نہیں اٹھی تھی۔
وہ انکو باری باری فیڈ کروا کر کمرے میں بستر پہ لٹا کر چلی گئ۔ بہروز نے ایک آنکھ اٹھا کر کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا وہ کہیں نہیں تھی۔
بہروز نے یکدم موبائل سائڈ پہ رکھا ، دونوں بچوں کے ماتھے پہ یکدم جھک کر اپنے لب رکھ گیا تھا۔ انکے ننھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامتا باری باری انکے ہاتھوں پہ پیار کرنے لگا کہ اسے کسی کے قدموں کی چاپ محسوس ہوئ وہ ان سے دور ہوکر واپس خود کو موبائل میں غرق کر گیا۔
میرب جلد بازی میں کمرے میں آئ الماری کھول کر کچھ سامان نکال کر وہ واپس کمرے سے نکل گئی۔
اسکے جاتے ہی وہ واپس اپنے بچوں کیطرف متوجہ ہوگیا۔
کافی وقت بیتنے کے بعد بھی جب وہ واپس نا آئی بچوں کے پاس تو اسے تشویش ہوئی۔ وہ کمرے سے نکل کر لاؤنج کیطرف آیا سامنے صوفے پہ بیٹھا شہروز چہک چہک کر میرب اور اماں جی سے بات کر رہا تھا۔
وہ شروع سے ایسا تھا۔ ہر کسی سے جلدی گھل مل جانے والا۔
" تم کب ائے"۔ بہروز نے اندر آتے کہا۔
" میں ابھی آیا مجھے پتہ چلا میرے یار نے مجھے یاد کیا اور میں جھٹ سے چلا آیا"۔ اسکا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
" نوٹنکی انسان کبھی تو انسان بنو"۔ بہروز ہنستے ہوئے اسے بغلگیر ہوا۔
" ابے انسان ہی ہوں بس تیری طرح آدم بیزار نہیں ہوں"۔ شہروز قہقہہ لگا کر بولا۔
" ہاں وہ تو دکھ رہا ہے"۔ وہ مسکان دبا کر کہتا شہروز کو جلا گیا تھا۔
" زیادہ بک مت"۔ شہروز نے منہ بنایا۔
" بیٹھ جا"۔ بہروز نے صوفہ پہ بیٹھتے اسے بھی بیٹھنے کو کہا۔
" بیٹھ رہا ہوں بیٹھ رہا ہوں ، تیرے بچوں کو دیکھنے آیا ہوں اتنی دور سے "۔ وہ خوش اخلاقی سے بولا۔
بہروز کے چہرے پہ یکدم سنجیدگی طاری ہوئ۔
" ہمم "۔ اسنے محض اتنا ہی کہنے پہ اکتفا کیا۔ کہ یکدم میرب کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
" میں لے کر آتی ہوں دونوں کو "۔ وہ چہک کر کہتی کمرے کی سمت رخ کر گئ۔
اماں جی بھی انکو مسکرا کر دیکھ رہی تھیں۔
" اور سنا کیا حال ہیں"۔ بہروز نے اسے مخاطب کیا۔
" ایک دم مست حال ہیں"۔ بہروز نے قہقہہ لگا کر بتایا۔
" وہ دکھ رہا ہے کمینے"۔ شہروز نے کمینے پن سے آنکھ ماری۔
دونوں کی نظر ایک ساتھ میرب کی طرف اٹھی تھی۔ میرب کی گود میں دونوں بچے تھے۔ بہروز ایک نظر دیکھ نظریں پھیر گیا تھا۔ شہروز یکدم پرجوش ہوتا اٹھا تھا۔ اسنے میرب کی گود سے دونوں بچوں کو لیا۔ شہروز بچوں کو لے کر بہروز کے پاس آیا اسی کے برابر بیٹھ گیا۔
" حیرت کی بات ہے ویسے بھابی لڑکی کون ہے لڑکا کون ؟؟"۔ شہروز دونوں کے گول مٹول سے چہروں کو دیکھ حیرت سے بولا۔
" یہ بیٹی ہے اسکا نام اماں جی نے دانین رکھا ہے اور یہ بیٹا ہے اسکا نام ابا جی نے زلقرنین رکھا ہے"۔ وہ چہک کر شہروز کو بتا رہی تھی۔
" واہ بڑے ہی ایک جیسے نام ہیں بلکل ان دنوں جیسے"۔ وہ اسے دیکھ ہنسا تھا۔
میرب بھی ہنسی تھی۔ دونوں کے انداز سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ دونوں پہلی بار مل رہے ہیں۔
" ویسے میرب تم نے یونی میں ایڈمیشن کیوں نہیں لیا ۔۔؟؟"۔ شہروز نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" وہ میں لینا چاہتی تھی ایڈمیشن پر اچانک سے یہ سب کچھ ہوگیا پھر میرا نکاح ہوگیا اور اب بچے ہیں تو اب تو بلکل ہی مشکل بات ہے"۔ وہ دھیمے لہجہ میں گویا ہوئ۔
" ارے پاگل مجھے پتہ ہوتا ناں تم یہاں ہو مطلب میرے اپنے چاچو کے گھر تو میں تمہیں خود لینے آتا اور تمہارا یونی میں ایڈمیشن کرواتا ، اور اب بھی میں ایسا ہی کرونگا اپنی پڑھائی چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ، بچوں کا کیا ہے کچھ گھنٹے یہ نکما سنمبھال لیا کرے گا ناں"۔ شہروز نے چہک کر تمام بات ختم کی میرب محض دھیرے سے گردن ہلا گئی تھی۔
اور رہی بات بہروز کی تو اسکا حال غصہ سے برا تھا یہ بات برداشت کر پانا مشکل ہو پا رہا تھا اسکے لیئے کے کوئ اسکی بیوی سے ایسے حق جتاتے لہجہ میں بات کیسے کر سکتا ہے۔
" تم دونوں جانتے ہو ایک دوسرے کو؟"۔ بہروز نے سوکھے لبوں پہ زبان پھیر کرکہا۔
" ہاں بہت اچھے سے"۔ شہروز نے چہک کر کہا۔
" اچھا ۔۔۔۔ !! کیسے جانتے ہو تم دونوں ایک دوسرے کو"۔ بہروز کے انداز پہ میرب کی ریڑھ کی ہڈی سنسنائی تھی۔
" ارے یہ فرشتے کی بیسٹ فرینڈ ہے یہ ہاسٹل میں رہا کرتی تھی کراچی میں اور فرشتے بھی وہیں رہتی تھی ، اب حیدرآباد سے کراچی جانے میں بھی دو گھنٹے تو لگ ہی جاتے ہیں ناں"۔ وہ مگن سے لہجہ میں بچوں کو پیار کرتا بولا۔
" اچھا۔۔"۔ بہروز نے میرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے اچھا کہا کہ میرب کا حلق کچھ غلط نا ہوتے ہوئے بھی سوکھ گیا۔
" میں انکو روم میں لے جاتی ہوں سو رہے ہیں دونوں جاگ گئے تو پھر روئیں گے کوئی کام نہیں کرنے دیں گے "۔ وہ بچے شہروز سے لے کر اپنے کمرے میں چلی گئ تھی۔
بہروز نے شہروز کو چینج کرکے فریش ہونے کا کہا اور اسکے پیچھے کمرے میں گیا تو وہ بستر پہ پریشان سی بیٹھی تھی۔
اسنے یکدم اسے کلائ سے تھام کر اپنے مقابل کھڑا کیا تھا۔ وہ کٹی پتنگ کی مانند اسکے سینے سے لگی تھی۔
" تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تم جانتی ہو شہروذ کو"۔ اسکے لہجہ میں شعلوں کی لپک تھی۔
" جی وہ مجھے خود آج پتہ چلا کہ شہروز۔۔"۔ وہ سہمے ہوئے لہجہ میں بات ادھوری چھوڑ گئ۔
" نام مت لو شرم نہیں آتی کسی غیر مرد کا میرے سامنے نام لیتے"۔ وہ اسے دیوار سے لگاتے غرایا۔
پ پلیز مجھ سے دور رہیں"۔ اسنے خشک ہوتا حلق تر کرکے کہا۔
" کیوں دور رہوں حق رکھتا ہوں تم پر بھی اور تمہارے اس دل پہ بھی"۔ اسنے خون آشام نظروں سے گھورتے کہا۔
" پلیز میرے منہ سے غلطی سے نکل گیا"۔ وہ سسکی۔
" پرائے مرد کا نام میرے سامنے اپنے " شوہر" کے سامنے غلطی سے نکل گیا"۔ اسکا بازو جنونیت سے دبوچا۔
" معاف کر دیں "۔ بے اختیار نکل آنے والی سسکی کو دبا کر کہا۔
" کیسے کردوں معاف؟"۔ اسنے سر جھکا کر اسے گھورتے کہا۔
" آپ کو کیا ہوگیا ہے اچانک سے"۔ وہ حیرت سے سہمی ہوئ نظریں اسکی طرف اٹھا کر بولی۔
" ہمم بہت خوب اب تو تمہیں مجھ میں فالٹ ہی دکھیں گے ناں۔۔۔ ایک بات کان کھول کر سن لو سوچنا بھی مت کہ میں تمہیں چھوڑوں گا"۔ وہ اسکی گردن دبوچتا جنونیت سے کہتا میرب کو مزید سہما گیا تھا۔
یکدم کمرے کی خاموش فضا میں بچوں کے رونے کی آواز گونجی۔
" وہ بچے رو رہے ہیں ، دور ہٹیں"۔ وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور کرتی کپکپائے لہجہ میں گویا ہوئ۔
" تمہیں کیا لگتا ہے تم بچوں کا بہانا بنا کر مجھ سے بچ جاؤ گی سوچنا بھی مت "۔ وہ اسکے بازو پہ اپنی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کر گیا تھا۔
" بہروز وہ رو رہے ہیں"۔ وہ نم پلکیں اٹھا کر گویا ہوئ۔
" ٹھیک ہے قسم کھاؤ تمہیں شہروز سے محبت نہیں "۔ بہروز نے اپنا دایاں ہاتھ دیوار پہ رکھ کر مزید اسپے جھکتے کہا۔
" میں قسم کھاتی ہوں ، مجھے ان سے محبت نہیں پر ۔۔۔"۔ وہ نظریں جھکائے مضبوط لہجہ میں کہتی بات ادھوری چھوڑ گئ تھی۔
" پر ۔۔کیا؟؟"۔ وہ بے تابی سے مستفسر ہوا۔
" پر۔۔۔ مجھے آپ سے محبت ہے بے حد"۔ اسنے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تو اسکے چہرے پہ نرمی کے بجائے سختی تھی۔ چہرہ کے تاثرات کرخت تھے۔
" مزاق بنا رہی ہو میری بے بسی کا"۔ وہ اسکا چہرہ دبوچتا بھڑکا تھا۔
" کیسی بے بسی کیا ہوا ہے آپکو پلیز چھوڑیں ۔۔"۔ وہ بہ مشکل خود کو اسکی گرفت سے آزاد کروا پائی تھی۔
" جاؤ اپنے بچوں کو دیکھو مجھ سے تمہیں ویسے بھی کوئ سروکار نہیں"۔ وہ اسے بیڈ کی سمت دھکیلتا اکھڑے لہجہ میں گویا ہوا۔
" یہ بچے آپکے بھی ہیں بہروز ۔۔۔۔ !!"۔ وہ دانین کو اٹھاتی پیار کرنے لگی تھی۔
اسے دھیرے سے اپنے سینے سے لگائے وہ چپ کروا رہی تھی۔
" پر مجھے نہیں چاہیئے تھے۔۔!!"۔ ٹوٹے ہوئے لہجہ میں کہا گیا۔
" تو پھر اس رات میرے قریب ہی نا آتے"۔ اب کے وہ بھی بھڑکی تھی۔ تنگ آچکی تھی وہ ہر وقت کی اسکی اس گردان سے کہ اسے بچے نہیں چاہیئے تھے۔
" کیا مطلب نا آتے ۔۔۔ کیوں نا آتا ہاں بیوی ہو میری حق ہے میرا اور میرا اب بھی جب دل کرے گا میں آؤں گا تمہارے قریب"۔ وہ بھڑکا تھا۔
" میں نے یہ نہیں کہا کہ آپکا حق نہیں جیسے مجھ پہ آپکا حق ہے ناں بہروز ویسے ہی آپ پہ میرا بھی حق ہے میرے حقوق کا کیا۔۔۔؟؟؟ کبھی سوچا آپ نے میرے حقوق کے بارے میں یا بس ۔۔۔۔ اپنے ہی حقوق یاد رہتے ہیں آپکو۔۔!!!"۔ اسکی آنکھیں پل میں بھیگیں۔
" کیا چاہیئے تمہیں اور اچھا کھاتی ہو پیتی ہو پہنتی ہو ، بچے تک ہیں تمہارے اس۔۔۔ گھر کی مالکن بن کر پھرتی ہو اور کیا چاہیئے ۔۔۔۔ ؟؟؟"۔ وہ اسکی بات پہ بھڑک ہی تو اٹھا تھا۔
" کیا بس ایک عورت کی ضرورت یہ ہی سب ہوتا ہے"۔ اسنے دانین کو بستر پہ لٹاتے کہا۔
" تو اور کونسی ضرورتیں ہوتی ہیں جو پوری نہیں ہو رہی ۔۔۔ ہاں ۔ ۔۔ سب سے اہم ضرورت تو کافی عرصہ ہوا پوری ہی نہیں کی میں نے شاید تم اسی کی بات کر رہی ہو۔۔ چلو آج وہ بھی پوری کر ہی دیتا ہوں"۔ وہ اسکے قریب آتا بیڈ پہ اسکے مقابل بیٹھا تھا۔
" ہاتھ بھی نا لگایئے گا مجھے افسوس ہے مجھے آپکی ذہنیت پہ ، شرم آنی چاہیئے ایسی باتیں کرتے ہوئے آپ کہہ رہے تھے ناں ۔۔۔!! اور کیا ضرورت ہوگی ایک عورت کی۔۔۔۔ عورت کا تو پتہ نہیں پر ایک بیوی کو محبت ، عزت ، مان، بھروسے ۔۔۔۔ کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔ جن میں سے آپ مجھے کچھ بھی نا دے سکے"۔ وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے لہجہ میں گویا ہوئ۔
" وہ تو شاید میں کبھی نہیں دے سکتا"۔ وہ نظریں پھیر کر بولا۔
" کیوں نہیں دے سکتے۔۔۔؟؟"۔ وہ جنونی ہوئی۔
" مجھے نہیں پتہ کیوں۔۔۔ پر بس نہیں دے سکتا"۔ اسکے لہجہ میں بلا کی سختی تھی۔
وہ دو پل کے لیئے بے بسی اور خاموشی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
" آپ کیوں ہے اتنے سنگ دل بہروز ۔۔۔ یہ دیکھیں یہ ہمارے بچے ہیں ، اگر ہم ایسا کرینگے تو انکی زندگیوں کا کیا ہوگا یہ تو معصوم بکھر کر رہ جائیں گے"۔ وہ اسکے قریب ہوتی اسکے ہاتھ تھام کر محبت سے گویا ہوئی۔
" مجھے پتہ ہے یہ بکھر جائیں گے پر ۔۔۔ میں خود بکھرا ہوا ہوں انکو کیسے سمیٹوں گا؟؟"۔ اسکے گہرے سوال پہ وہ دھیرے سے مسکرائ۔
" میں آپکو سمیٹ لونگی اور پھر ہم دونوں مل کر کبھی اپنے بچوں کو بکھرنے نہیں دینگے"۔ وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نم لہجہ میں گویا ہوئ۔
" تمہیں نہیں پتہ میرب پر میں بے حد بکھرا ہوا ہوں"۔ وہ دھیرے سے اپنے ہاتھ اسکے گال پہ رکھتا اسکے گال سہلانے لگا تھا۔
" کیوں ہیں آپ اسقدر بکھرے ہوئے؟؟"۔ وہ اسکے مزید قریب ہوئی تھی۔
" میری ماں ۔۔۔۔ ایک بد کردار عورت تھی ۔۔۔۔ دنیا کی نظروں میں میرے باپ کی نظروں میں پر وہ بد کردار نہیں تھی ، وہ تو ایک عظیم عورت تھی ، ابا جی کے کسی دوست نے ان سے کہا کہ انکی حویلی سے ابھی کوئی کود کر نکلا ہے یقیناً انکی بیوی ۔۔۔ کا۔۔۔۔ عاشق ہوگا"۔ اسکی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کر گرا تھا۔
میرب نے اس انمول موتی کو اپنی انگلیوں کی پوروں پہ چن لیا۔
" ابا جی گھر شدید غصہ میں آئے اور میری ان آنکھوں کے سامنے میری ماں کے سینے میں گولیاں اتار دیں میری ماں مر گئی میں ۔۔۔ تنہا ہوگیا۔ تم جانتی ہو ساری زندگی میں نے اپنے اماں ابا کو لڑتے دیکھا اور پھر انہوں نے میری ماں کو مار دیا ایک بار بھی انکا دل نا کانپا انکے ہاتھ نا کانپنے، اور پھر ابا نے میری خالہ یعنی اماں جی سے شادی کرلی ساری زندگی انکی بھی کوئی میری ماں سے مختلف نا گزری طعنے تشنہ مار پیٹ ہی دیکھی انہوں نے تم بتاؤ میرب ۔۔۔۔ جس انسان نے کبھی خوشحال گھرانا خود نا دیکھا ہو وہ اپنے بیوی بچوں کو کیسے خوش رکھ سکتا ہے بہت مشکل ہے یہ"۔ وہ بکھرے ہوئے لہجہ میں گویا ہوا۔
" آپ جانتے ہیں آپ بکھرے ہوئے ہیں اسی لیئے آپ کبھی چاہ کر بھی اپنی اولاد کو بکھرنے نہیں دیں گے"۔ وہ نم لہجہ میں گویا ہوئی۔
" پر تمہیں تو بکھیر چکا ہوں ناں میں جانے انجانے میں "۔ وہ اسے تکتا گویا ہوا۔
" پر میں نہیں بکھری ۔۔۔ ، مجھ میں آج بھی بہت امید اور ہمت ہے میں آج بھی ویسے ہی دامن بکھیرے کھڑی ہوں ، بس چاہیئے تو محض مان، بھروسہ ، عزت اور محبت"۔ اسکی آنکھ سے آنسو لڑیوں کی مانند بہہ نکلے تھے۔
وہ اسے خود میں بھینچتا اپنے سینے سے لگا گیا تھا ،
" تم جانتی ہو ۔۔۔ ہماری پہلی ملاقات ۔۔۔۔ یاد ہے تمہیں مجھے تو تم سے تب ہی محبت ہوگئی تھی "۔ وہ اسکے ماتھے پہ اپنے لب رکھتا محبت سے گویا ہوا۔
" اپنے بچوں کو تو دیکھ لیں"۔ اسنے مسکرا کر کہا۔
" دیکھ چکا ہوں بہت بار"۔ وہ اسکے گال سہلاتا لب دبا کر گویا ہوا۔
" کب ۔۔؟؟"۔ وہ حیران ہوئی۔
" جب جب تم انہیں تنہا چھوڑ کر کمرے سے باہر جاتی تھی میں انہی کے ساتھ اپنا وقت بتاتا تھا"۔ وہ نرمی سے گویا ہوا۔
" آپ کتنے بد تمیز ہیں میں کتنی پریشان رہتی تھی یہ سوچ سوچ کر کہ آپ نے اپنے بچوں کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا اور۔۔۔ آپ ۔۔ تھے کہ۔۔۔"۔ وہ برا مناتی اسکے پاس سے اٹھنے لگی تھی۔ کہ یکدم اسنے اسے کھینچ کر خود میں قید کیا تھا۔
" مجھے بد تمیز کہنے کی ہمت کسی میں نہیں"۔ وہ اسے تکتا مصنوعی غصہ چہرہ پہ لاتا بولا۔
" معاف۔۔۔"۔ وہ اس سے معافی مانگنے لگی تھی کی وہ اسکے لبوں پہ اپنی شہادت کی انگلی رکھتا اسکے الفاظ گم کر گیا تھا۔
" تم ناں ۔۔۔۔ بہت بدھو ہو"۔ وہ ہنستا ہوا اسپہ جھکنے لگا تھا کہ وہ یکدم اسے خود سے دور جھٹکتی قہقہہ لگاتی کمرے سے نکلنے ہی والی تھی کہ بہروز نے اسے لپک کر اسکی پشت سے اسے اپنی بانہوں میں بھرا۔
" کہاں بھاگ رہی ہو ۔۔ "۔ اسکی گردن پہ لب رکھتے پوچھا گیا۔
" کھانا بنانا ہے چھوڑیں"۔ وہ گلنار چہرہ لیئے لب کاٹتی گویا ہوئی۔
" پر میں تو کچھ اور ۔۔۔"۔ وہ اسے خود میں مزید بھینچ کر گویا ہوا۔
" پلیز ہٹیں"۔ وہ اس سے خود کو چھڑاتی بھاگی تھی۔
وہ قہقہہ لگاتا ۔ اپنے بچوں کیطرف متوجہ ہوگیا تھا۔
ہاں اسکی زندگی کٹھن رہی تھی پر آپ اسکی زندگی بہت آسان ہونے والی تھی۔ اسنے اپنے بچوں کو گود میں اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ وہ کمرے کے دروازے کے پیچھے سے کھڑی اسے دیکھتی آسودگی سے مسکرائی تھی۔
♡ ختم شد ♡