وہ کچن میں لگی رات کا کھانا بنا رہی تھی ، اماں جی سے بہروز کی پسند کا پوچھ کر وہ لگی اسی کی پسند کا کھانا بنانے میں مشغول تھی۔ کھانا بنا کر فارغ ہوئ تو نہا دھو کر اسنے سادہ سا بادامی رنگ کا سوٹ پہنا ، ساتھ ہی ہونٹوں پہ ہلکی سے پنک کلر کی لپ اسٹک بھی لگالی۔
وہ کمرے میں بیٹھی اسکے آنے کا انتیظار کررہی تھی۔ کچھ وقت بیتا تو باہر سے اسکی گاڑی کی آواز آئ ، وہ ایک دم کھڑی ہوگئ ، وہ کمرے میں ایک سمت سے دوسری سمت چکر کاٹتی اسکے آنے کا انتظار کرنے لگی۔
وہ کمرے میں آیا تو اسے پچھلے ایک ہفتے کی طرح آج بھی تیار دیکھا۔ وہ اس سے نظریں پھیرتا بیڈ کی سمت جانے لگا تھا کہ وہ یکدم اسکے مقابل آئی تھی ۔ بہروز کے اسے دیکھنے پہ وہ نرمی سے مسکراتی اسکے قریب آئ تھی، اپنے ہاتھوں کا ہار اسکی گردن کے گرد بنا کر اسنے اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قدرے قریب کرکے مدھم سی آواز میں اسے مخاطب کیا۔
" آج دیر کردی آپ نے آنے میں ، آپکو پتہ ہے میں نے آپ کے لیئے آج اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا ہے"۔ وہ لاڈ اٹھانے والے انداز میں بولی۔
" تم میری بیوی بننے کی کوشش مت کرو کہہ رہا ہوں دور رہو مجھ سے نہیں تو مجھے دل توڑنے کا ہنر خوب آتا ہے"۔ وہ اسے خود سے دور کرتا سنجیدگی سے بولا تھا۔
وہ اسکی بات پہ منہ بنا کر رہ گئ تھی۔
" آپ کتنے سنگ دل ہیں وہ مجھے پتہ ہے ، اور رہی بیوی بننے کی بات تو میں آپکی بیوی ہوں ، اور سب سے اہم بات مجھے بھی ٹوٹے دل جوڑنے کا ہنر خوب آتا ہے"۔ وہ اسکے قریب ہوتی اس سے پہلے ہی اسکے الفاظ اسکی ہمت ختم کر گئے تھے۔
" جانتا ہوں بہت خوب آتا ہے تمہیں ٹوٹے دلوں کو جوڑنا وہی تو کرتی تھی تم شادی سے پہلے"۔ وہ سنجیدگی سے کہتا بیڈ پہ بیٹھا تھا۔
" بھاڑ میں جائیں آپ میں پاگل تھی جو آپکے لیئے لگ کر اس حالت میں ، میں نے کھانا بنایا ، آپکے لیئے تیار ہوئ آپکے آنے کا پورا دن انتظار کیا"۔ وہ غصہ سے بھڑکی تھی۔
" اس میں کونسی بڑی بات ہے کیا عورتیں اس حالت میں کام نہیں کرتیں۔۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے عورتیں پورے پورے گھر سنبھالتی ہیں"۔ وہ جوتے اتارتا مصروف سے انداز میں بولا۔
وہ دھپ سے اسکے برابر بیٹھی تھی۔ وہ گردن موڑ کر محض اسے بری نظروں سے گھور کر رہ گیا تھا۔
"ہاں کرتی ہونگی پر مجھ سے نہیں ہوتا"۔ وہ منہ بنا کر کہتی اسکے کندھے پہ سر رکھ گئ تھی۔
" تو نا کرو میں نے نہیں کہا"۔ وہ اسکا سر اپنے کندھے سے ہٹاتا دوٹوک لہجہ میں کہتا اٹھا تھا۔ وہ الماری کھول کر کھڑا اپنے کپڑے نکال رہا تھا کہ وہ یکدم اسکے پیچھے گئی تھی۔ اسکی کمر پہ اپنا سر ٹکا کر کھڑی ہوتی وہ دھیرے سے منمنائی تھی۔ پر اسکی منمناہٹ وہ بخوبی سن چکا تھا۔
" پیار سے بناتی ہوں ، دل کرتا ہے آپکا خیال رکھوں آپکے لیئے کھانا بناؤں"۔ وہ اسکی کمر پہ سر ٹکائے کھڑی تھی کہ وہ یکدم مڑا وہ سیدھی۔کھڑی ہوئ۔
" میرب پلیز مجھ سے دور رہو ایسا نا ہو کہ میں تمہیں سچ میں کچھ ایسا دے دوں جو تمہیں اور تمہارے بچے کو نقصان پہنچا دے"۔ اسکے لہجہ میں بلا کی سنجیدگی تھی۔
" کیا یہ بچہ اور میں آپکے کچھ نہیں لگتے کیا ہماری تکلیف پہ آپ کو تکلیف نہیں ہوگی؟"۔ اسکی پلکیں پل میں بھیگیں تھیں۔
" نہیں جن چیزوں سے میرا کوئی سروکار نہیں مجھے انکی پرواہ بھی نہیں۔۔!!"۔ سنگدلی کی حد وہ تمام کر گیا تھا۔
" ہم دنوں سے آپ ہی کا تو سروکار ہے"۔ اسنے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا۔
پر وہ اپنا ہاتھ اسکی پہنچ سے دور کر گیا۔
" آخری بار کہہ رہا ہوں دور رہو مجھ سے"۔ وہ اسکی نم آنکھوں میں اپنی سرد بے تاثر آنکھیں گاڑھ کر بولا۔
" اب تو ممکن ہی نہیں"۔ اسنے ہمت کرکے بکھرے ہوئے لہجہ میں کہا۔
" اپنی اوقات مت بھولو تمہاری حیثیت ہمارے گھر کے ملازموں سے بھی بدتر ہے"۔ اسنے تلخی سے کہا۔
" اچھا تو کیا جو اس رات آپ نے میرے ساتھ کیا وہ آپ اپنی ملازماؤں کے ساتھ بھی کرتے ہیں"۔ نجانے کیسے اسکی زبان سے یہ بات نکلی اسے خود خبر نا ہوئ۔
" آخری بار کہہ رہا ہوں اپنی زبان کو لگام دینا سیکھو"۔ وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتا اپنے کپڑے الماری سے جھپٹنے کے انداز میں لیتا واشروم میں بند ہوا۔
وہ نم آنکھیں لیئے وہیں کھڑی رہی۔
" اب تک یہیں کھڑی ہو ، اب جو کھانا بنایا ہے لاکر دو بھی گی کہ نہیں"۔ وہ باتھروم سے باہر نکلا اسے وہیں کھڑے دیکھ کر بھڑکا۔
اسنے چونک کر اسے دیکھا۔۔ خاموشی سے مشینی انداز میں کمرے سے نکل گئ تھی۔ وہ محض اسے جاتا دیکھ کر رہ گیا۔
کچھ دیر بعد وہ دوبارہ کمرے میں آئ تھی۔ کھانے کی ٹرے ہاتھ میں تھامے اپنے ہلکے سے بھاری سراپے سمیت نجانے کیوں وہ چوہدری بہروز کے دل میں گھر کر رہی تھی۔ اسنے اسکے سراپے سے نظریں چرائیں۔
میرب نے کھانا لاکر بیڈ پہ اسکے سامنے رکھا۔ وہ کھانا کھانے لگا ، تو وہ صوفہ پہ جا کر بیٹھ گئ ، میرب نے کوئی بات نا کی خاموش بیٹھ گئ۔
بہروز کے لیئے اس خاموشی میں نوالے نگلنا مشکل سا ہوگیا۔ پر خیر وہ کھانا کھا کر ہی ہٹا۔
وہ دوبارہ اسی انداز میں آئی برتن اٹھائے اور کمرے سے نکل گئی۔
اور بہروز محض لب بھینچ کر رہ گیا۔
♡♡♡♡♡♡
وہ ایسے ہی اسے منانے کے جتن کرتی رہی ، پر وہ شاید کوئ پتھر تھا جس میں دراڑ کر پانا مشکل سی بات تھی۔
اسکا آٹھواں مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ اسکا سراپا پہلے سے زیادہ بھاری ہونے لگا تھا۔ اسے ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اسکے جڑوا بچے ہیں پر اسنے یہ بات بہروز کو نہیں بتائی۔ جتنے دن بیتتے جا رہے تھے اتنی اسکی حالت بد تر ہوتی جارہی تھی۔
اب بھی وہ اپنا سوجا وجود لیئے باغ میں کرسی رکھے بیٹھی تھی۔ کہ نجانے وہ کہاں سے بر آمد ہوا۔ موبائل پہ لگا وہ کسی سے تیز لہجہ میں بات کر رہا تھا۔
میرب نے اسے دیکھ کر سر جھٹکا۔
بہروز کی اسپہ نظر پڑی تو وہ چلتا اسکے پاس آیا ،
" اماں جی بتا رہی تھیں ، طبیعت ٹھیک نہیں تمہاری کیا ہوا ہے؟"۔ وہ اسکے سامنے دوسری کرسی کھینچ کر بیٹھتا مصروف سے انداز میں مستفسر ہوا۔
" ایسی حالت میں طبیعت ویسے ہی بیزار رہتی ہے اماں جی ایسے ہی پریشان ہوجاتی ہیں"۔ وہ دھیرے سے بولی۔
بہروز نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اسکی حالت سچ میں بظاہر بھی بہت عجیب ہورہی تھی۔ وہ حسین و نازک نقوش دب سے گئے تھے۔ اسکا ناک بھی شدید قسم کا سوجا ہوا تھا۔
وہ اسکی ناک دیکھ کمینگی سے ہنسا تھا۔
" اپنی ناک دیکھو تم۔۔۔ہاہا۔۔۔۔ توبہ پوری نمونی لگ رہی ہو"۔ وہ اپنا بے ساختہ امڈتا قہقہہ روک نہیں پایا تھا۔
" کیا ہوا ہے میری ناک کو"۔ اسنے اپنی ناک پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
" کچھ نہیں۔۔۔۔ہاہاہا"۔ وہ بہ مشکل بولا۔
" آپ کیوں ہنس رہے ہیں مجھ پہ"۔ وہ روہانسی ہوئ۔
" کچھ نہیں میں نے تو کہا تھا ایبارٹ کروا لو بچے کو پر تم نا مانی اب بھگتو"۔ وہ پل میں سنجیدہ ہوا تھا۔
" آپ کو شرم نہیں آتی ایسی بات کرتے"۔ اسے افسوس ہوا۔
" بلکل نہیں"۔ اسنے رخ موڑ کر کہا۔
" آپ پلیز یہاں سے آٹھ جائیں اسوقت مجھے شدید غصہ آرہا ہے"۔ وہ بگڑے تنفس سمیت گویا ہوئ۔
" پھر کہوں گا اوقات مت بھولو"۔ وہ سنجیدگی سے کہتا تن فن کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ میرب اپنے سر کی پشت کرسی کی پشت سے لگا گئی تھی۔
♡♡♡♡♡♡
اور پھر وہ دن آیا جب اسنے دو بچوں کو جنم دیا اسکے گھر ایک بیٹی اور بیٹا پیدا ہوا۔
اماں جی اور ابا جی بے حد خوش تھے ، وہ خود بھی بے حد خوش تھی۔
اسکو سب نے بہت فون کیا پر وہ نا آیا۔
میرب کو اگلے دن ہاسپٹل سے ڈسرچارج کیا گیا۔ وہ گھر آگئ۔ وہ اپنے بچوں کو ساتھ بستر پہ لٹائے خود بھی انکے برابر پڑی تھی۔
بہروز کمرے میں آیا بچوں پہ نظر تک ڈالنا بھی ضروری نا سمجھا اسنے ، میرب کا حلق سوکھا ، اسکی آنکھیں نم ہوئ تھیں۔ وہ صوفہ پہ بیٹھا موبائل میں ایسے گم تھا جیسے نجانے اسکے کونسے خزانے اسکے موبائل میں پڑے ہوں۔