" بکواس نہیں ہے یہ سچ ہے جسے آپ جھٹلا نہیں سکتے ارے آپ سے بہتر تو سہیل تھا۔ وہ میری عزت پہ تاک لگائے بیٹھا تھا جانتے ہو کیوں ۔۔؟؟ کیونکہ میں اسکی عزت نہیں تھی پر آپکی تو عزت تھی ناں۔۔۔!!"۔ وہ اسے دیکھ افسوس سے کہتی اسکے غصہ کو مزید ہوا دے گئ تھی۔
" کیا بکواس کر رہی ہو ہاں ، میں نے کوئ گناہ نہیں کیا سمجھی"۔ وہ یکدم بھڑک تھا اسنے اسکی گردن کو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑا تو اسکی سانسیں بند ہونے لگیں۔ اسنے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔ اپنی گردن آزاد کرانی چاہی پر وہ تو شاید غصہ میں آپے سے ہی باہر ہوجاتا تھا۔
" آج تو کی ہے یہ بکواس آئیندہ کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت اور کون ہے یہ سہیل ؟"۔ وہ اسکی گردن چھوڑتا اسے بازو سے دبوچ گیا تھا۔
" کوئ نہیں ہے"۔ وہ اپنی سانسیں بہال کرتی اسے خود سے دور جھٹک گئ تھی۔
" مجھے اپنی چلانے والے لوگ بلکل پسند نہیں سمجھی تم"۔ وہ اسے جھنجھوڑ کر بولا۔
" پر میں اپنی ہی چلاؤں گی میں کسی کے ہاتھ کی گڑیا نہیں بن سکتی"۔ وہ اپنا آپ اس سے چھڑاتی پھنکاری۔ اسکے یہی انداز بہروز کے غصہ کی وجہ بن رہے تھے۔ وہ اسے بیڈ پہ جھٹک کر خود الماری سے کپڑے لیٹا واشروم میں بند ہوچکا تھا۔ اور وہ محض سسک کر رہ گئ تھی۔
وہ بھی کمرے سے نکل کر باہر آئ تو اماں وہیں بیٹھی تھیں وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی انکے پاس آکر بیٹھی تھی۔
" اسنے ہاتھ تو نہیں اٹھایا نا تم پہ"۔ انہوں نے اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیرتے کہا۔
اسنے گردن کو ذرا سا ترچھا کرکے انہیں دیکھا اور پھر خاموشی سے سر کو نفی میں ہلادیا۔ اماں جی نے گہرا سانس خارج کیا۔ اور اسے بغور تکا۔
" جانتی ہو تم ونی ہو جبھی تمہیں یہ سب سہنا پڑھ رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ سہہنا پڑتا ہے ونی میں آء عورتوں کو پر تم جانتی ہو ایسی بھی عورتیں ہیں جو ونی نہیں ہوتیں ، انہیں دھوم دھام سے خوشی خوشی گھر کی بہو بنا کر لایا جاتا ہے اور پھر انکے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے جیسا تمہارے ساتھ ہو رہا ہے"۔ وہ اسکا ہاتھ تھامتی نرمی سے گویا ہوئیں۔
" اماں جی اگر انکے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے ناں تو وہ اپنے میکے جا کر بیٹھ جاتی ہیں ، طلاق لیتی ہیں اور اپنی زندگی آسان کردیتی ہیں ، پر مجھ جیسی ونی ہوئ عورتیں تو صبر اور برداشت کے کچھ کر ہی نہیں سکتیں"۔ اسنے شوخی ہوئ نظریں جھکا کر کہا۔
" سو فیصد میں سے پچھتر فیصد عورتیں برداشت کرتیں ہیں ، یہ کہنا بلکل غلط ہے کہ وہ طلاق لے لیتی ہیں یا پھر میکے چلی جاتی ہیں ، ایسا نہیں ہوتا انکے بچے انکے پیروں کی زنجیر بن جاتے ہیں ، وہ اپنے بچوں کی خاطر خود کو مار دیتی ہیں اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ دیتی ہیں"۔ انہوں نے قدرے افسوس سے کہا۔
" کاش اماں جی میں ونی نا ہوتی ایسے سلوک پہ نا میں آپ کے بیٹے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی"۔ اپنے بے بسی پہ اسے ایک بار پھر رونا آیا۔
آنچل اسکا ہلکا سا ڈھلکا تو گردن پہ اسکی انگلیوں کے نشان اماں کی نظر سے پوشیدہ نا رہ سکے ابھی وہ اسے کچھ کہتیں اسنے اپنا آنچل درست کیا۔ سامنے وہ نک شک سا تیار لاؤنج میں آیا، صوفہ پہ بیٹھ کے اسنے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر دوبارہ نظر جھکا کر اپنے موبائل میں مشغول ہوگیا۔
" تم نے اس پہ ہاتھ اٹھایا ہے؟"۔ اماں نے سخت گیر لہجہ میں پوچھا۔
اسنے نا سمجھی سے سر اٹھایا۔
" جی اماں جی"۔ اسنے کچھ الجھن کا شکار ہوکر پوچھا۔
" تم نے میرب پہ ہاتھ اٹھایا ہے"۔ انہوں نے سختی سے دریافت کیا۔
میرب اسکی گھوری خود پہ دیکھ یکدم سٹپٹائ تھی۔
" نہیں اماں جی ایسا تو کچھ نہیں کیا میں نے"۔ اسنے بہ مشک الفاظ ترتیب دیئے۔
" تم نے نہیں کیا تو کش نے کیا ہے اسکی گردن پہ تمہاری انگلیوں کی نشان باقاعدہ پڑے ہیں"۔ اماں کے لفظ لفظ میں سختی تھی۔
" اماں جی وہ غصہ آگیا تھا"۔ اسنے نگاہیں جھکا کر کہا۔
" یہ کیا بت ہوگئ غصہ آگیا ، تو کیا بیوی کے ساتھ ایسا سلوک کروگے"۔ انہوں نے اسے گھرکا۔
" ممعذرت اماں جی آئندہ خیال رکھوں گا"۔ اسنے نگاہیں جھکا کر کہا۔
" اگر آئیندہ ایسا کچھ ہوا توبہروز میں نے تم سے بات نہیں کرنی"۔ وہ خفگی سے بولیں۔
وہ یکدم تڑپ ہی تو گیا تھس۔
" اماں جی آپ دوسروں کی خاطر مجھ سے ایسے برتاؤ نہیں کرسکتیں ، آپ میری ماں ہیں آپکا کہا پتھر پہ لکیر کی مانند ہے ، آپ ایسے ناراضگی کی دھمکی نا دیا کریں"۔ وہ اٹھ کر انکے قدموں میں آبیٹھا تھا۔
اور وہ محض دیکھ کر رہ گئی تھی کہ اسے اپنی ماں سے اسقدر عقیدت تھی۔
" آپ ہمیں شرمندہ نہیں کریں گے کبھی کچھ ایسا کرکے جس سے ہماری تربیت پی حرف آئے تو ہم کیوں خفا ہونے لگے آپ سے"۔ انہوں نے نرمی سے اسکے چہرے پہ ہاتھ بھیرا۔
" اماں جی میں وعدہ کرتا ہوں اب تک جو کچھ ہوا وہ ہوگیا پر اسکے بعد میں کچھ بھی غلط نہیں کرونگا"۔ وہ ادب سے نگاہیں جھکا کر بولا۔
او پھر جو اسنے کہا تھا اسنے وہی کیا ، وہ حیران ہوئی تھی کوئی شخص اپنی بات کا اتنا پکا کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ کمرے میں ہوتی تو وہ اس سے کلام تک نا کرتا۔ چاہے اچھا ہو یا برا یہ سلسلہ پچھلے چار ماہ سے ایسے ہی چل رہا تھا۔ اسکی بھی روٹین کافی بدل گئ تھی۔ وہ صبح اٹھ کر شنو کے ساتھ لگ کر گھر کے کاموں میں حصہ لینے لگی تھی پھر باقی کا دن اماں جی اور پودوں کے ساتھ گزرتا اور اس سے کبھی سامنا ہوتا تو وہ اسپے سے نگاہ پھیر کر نکل جاتا۔
ابھی وہ لگی باہر لگے پودوں کو پانی دے رہی تھی ، کالے رنگ کا لان کا پرنٹڈ سوٹ پہنے بالوں کی لمبی چوٹی بنائے کھڑی تھی۔ پائپ لے کر وہ دوسری پیاری کی طرف مڑی کہ یکدم پائپ کے سامنے نمودار ہوتا وجود پورا کا پورا بھیگ گیا ۔ اسنے بے ساختہ ہاتھ منہ پہ رکھے اور پائپ زمین پہ پھینکتی دو قدم اچھل کر پیچھے ہوئ اور یکدم بھاگتی ہوئ اماں جی کے پاس پہنچی تھی۔ وہ کافی دیر تک انتظار کرتی رہی کہ اب وہ اسکی بیستی کرے گا پر ایسا نا ہوا۔ اسے کچھ تسلی ہوئ۔ شام کی چائے پی کر وہ اماں جی کی ٹانگیں دبا رہی تھی کہ وہ اماں جی کے پاس آیا انہیں سلام کرکے پاس پڑی کرسی قریب کھسکائ اور بیٹھا۔ میرب نے چور نظر سے اسے دیکھا۔
" وہ اماں جی کی طرف متوجہ تھا ،
" اماں جی آپ نے بلایا تھا"۔ اسنے اماں جی کو تکتے پوچھا۔
" ہاں بیٹا بلایا تھا"۔ انہوں نے اٹھتے ہوئے میرب کے ہاتھ تھام کر روکے۔ میرب نے آٹھ کر کمرے سے نکل جانا چاہا پر اماں نے اسے روک لیا ، وہ جانتی تھی اماں کیا بات کرنے والی ہیں اسکا دل دھڑکا، وہ بات جو تقریباً چار ماہ سے پوشیدہ تھی وہ بات آج اماں جی اسے بتانے والی تھیں۔ وہ بے حد خوفزدہ تھی اسکا ری ایکشن سوچ کر۔
اسکی بھی بے ساختہ نظر اسپہ پڑی تو اسے اسمیں نجانے کیوں پر پہلے کے مقابلے میں کافی تبدیلی محسوس ہوئ۔
" بہروز تم باپ بننے والے ہو"۔ اماں جی نے سنجیدگی سے کہا۔
" جی۔۔!!"۔ اسے حیرت ہوئ۔
" ہاں تمہیں چار مہینے پہلے اس لیئے نہیں بتایا کیونکہ تم کافی غصہ میں رہتے تھے ان دنوں"۔ اماں جی نے نرمی سے کہا۔
میرب نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ بہروز کو تو سمجھ ہی نا آئے کیا کرے ، عجب سی بے بسی تھی۔ اسنے ایک میرب کو دیکھا ، وہ بیٹھی نظریں جھکائے انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ کمرے میں گہری خاموشی تھی۔ وہ گہری سانس لے کر اٹھا۔
" اماں جی چلتا ہوں کچھ کام ہے رات میں ملاقات ہوگی"۔ وہ سنجیدگی سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔
اور وہ محض بھیگی نظروں سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔
" اماں جی اب کیا ہوگا"۔ اسنے اماں کی طرف رخ کیا۔
" اللہ خیر کرے گا"۔ انہوں نے اسے پریشان دیکھ کر کہا۔
" اماں جی وہ غصہ تو نہیں کریں گے ناں"۔ اسنے اماں جی کو تکتے پریشانی سے کہا۔
" نہیں"۔ اماں جی نے یک لفظی جواب دیا وہ بھی خاموش ہوگئ ۔ اس سے بھی آگے مزید کچھ کہا نا گیا۔
♡♡♡♡♡
رات میں وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔ گھٹنے پہ سر ٹکائے بیٹھی پیلے رنگ کا جوڑا پہنے بیٹھی تھی۔ بہروز کمرے میں گھسا اسے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح نظر انداز کرتا وہ کمرے کی بالکنی میں گیا۔ سگریٹ سلگا کر پینے لگا کہ وہ بے چینی سی محسوس کرتی خود ہی اسکے پیچھے آٹھ کر گئ۔ اسکی پشت پہ کھڑے ہوکے اسنے بہ مشکل الفاظ کو ترتیب دیا۔
" آپ خوش نہیں اس خبر سے"۔ اسنے دھیرے سے کہا۔
وہ مذاق اسنے سیگریٹ کا گہرہ کش لے کر دھواں ہوا کے سپرد کیا اور اسے دیکھ تمسخر سے ہنسا۔
" بلکل بھی نہیں "۔ اسنے آدھ جلا سگریٹ زمین پہ پھینک کر اپنے جوتوں تلے مسلا۔
" کیوں ؟"۔ اسے اپنے حلق میں کانٹے چھبتے ہوئے محسوس ہوئے۔
" کیونکہ میں یہ بچہ نہیں چاہتا میں چاہتا ہوں اسکو ختم کردو"۔ اسنے سفاکی کی حد تمام کردی۔
" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں"۔ وہ خوف کے مارے دو قدم پیچھے ہوئ۔
" وہی جو تم نے سنا"۔ وہ اسکے سراپے کو بغور تکتا گویا ہوا۔
اسکے سراپے میں ہلکا سا بھاری پن وہ دیکھ کر سر جھٹک گیا۔
" پر میں ایسا کچھ نہیں چاہتی ، آپ پلیز ایسی باتیں نا کریں"۔ اسکی رنگٹ پل میں زرد پڑی تھی۔ پورا وجود لمحے میں پسینے سے شرابور ہوا تھا، گھبراہٹ کے مارے اسکے وجود پہ ایسا لرزش طاری ہوا کہ ایک پل کو تو بہروز بھی ستپٹا گیا۔ اسنے یکدم لپک کر اسے تھاما۔
" کیا ہوا تمہیں "۔ اسنے اسکے گال تھپتپائے۔
" پانی۔۔پانی"۔ اسنے گہرے سانس لے کر کہا۔
" ہاں صبر "۔ وہ اسے خود کے ساتھ لگائے ، بیڈ پہ لاکر بٹھاتا گویا ہوا۔
سائڈ ٹیبل پہ رکھے جگ سے پانی اسنے گلاس میں انڈیل کر اسکے لبوں سے لگایا تو کچھ دیر بعد اسکی حالت سنمبھلی۔
" اب بہتر محسوس کر رہی ہو"۔ اسنے اسکے بال سہلاتے کہا۔
" جی"۔ اسنے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر کہا۔ اور نظریں اسکے چہرے پہ گاڑھ کر بے بسی سے اسے دیکھا۔
" آپ کیوں نہیں چاہتے کہ۔۔"۔ اسنے بات ادھوری چھوڑی۔
" تم اور میں ایک ہیلدی ریلیشن شپ میں نہیں ہیں ، بچے کا آنا مطلب اسکی زندگی خراب کرنا ، ماں باپ کے تعلقات کا فرق اولاد کی شخصیت پہ بہت پڑتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ۔۔۔ کسی معصوم کی زندگی خراب ہو"۔ وہ سنجیدگی سے بولا۔
" ہم ٹھیک کریں گے ناں اپنا تعلق ، ہمارے بیچ سب ٹھیک ہوجائے گا"۔ وہ بے قراری سے بولی۔
" کیسے۔۔۔ ؟"۔ اسنے آئبرو آچکا کر کہا۔
" آپ بھول جائیں نا یہ کہ میں ونی ہوں پلیز"۔ وہ جیسے منٹ پہ اتر آئ۔
" ایسا نہیں ہوسکتا میرب تم میرے بھائ کے خون بہا میں آئ ہو ہمارے بیچ کبھی کچھ بھی درست نہیں ہوسکتا"۔ وہ سنجیدگی سے بولا۔
" کیوں نہیں ہوسکتا کوشش تو کریں"۔ اسنے روتے ہوئے کہا۔
" کبھی کبھی کچھ چیزیں کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتیں"۔ وہ اسکے پاس سے اٹھتا گویا یوا۔
" آپ اتنے سنگ دل نا بنیں"۔ وہ سسکی۔
" کبھی کبھی سنگ دل بننا پڑھتا ہے"۔ وہ بے رخی سے کہتا اسکا دل دکھا گیا تھا۔
" پلیز۔۔۔ ہم ایک کوشش کر سکتے ہیں ناں"۔وہ اسکے پیچھے اٹھی تھی اسکا آنچل بیڈ پہ ہی رہ گیا تھا وہ دوپٹے سے بے نیاز بکھری سی حالت میں اسکے مقابل کھڑی ہوئ۔ اسکی نظر اسپہ پڑی تو وہ سانسیں لینا بھول گیا۔ اسکی روئ روئ آنکھیں بکھرے سے بال ، کپکپانے لب نجانے کیا تھا اس لمحہ میں کہ وہ کمزور پڑ گیا۔ وہ دھیرے سے اسے اپنی بانہوں میں قید کرتا اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ وہ یک دم سٹپٹائ ، اسنے اسے خود سے دور کرنا چاہا ، اسکی گرفت مزید سخت ہوئ ، میرب کو اپنی سانسیں رکتی ہوئ محسوس ہوئیں۔ وہ اس سے دور ہٹا اسنے اسکی کمیز کو تھاما ، وہ اسے کھڑا دیکھتا رہا یکدم اسنے گہری سانس خارج کی۔
" کل تیار رہنا ڈاکٹر کے پاس چلیں گے اماں جی کو نا بتانا"۔ وہ اسے خود سے دور کرتا سنجیدگی سے کہتا۔ خود باتھروم میں بند ہوگیا اور وہ بکھری سی حالت میں بے جان وجود لیئے زمین پہ بیٹھتی چلی گئ۔