عنبر صاحبہ نے خوب تگ و دو کی کہ کسی بھی طرح اپنے سے انکار کردے ، مگر شائد اس کی قسمت میں وھی مرد لکھا جا چکا تھا ۔
" میں تمہیں دیکھ لوں گی رازی فاروقی...!"
وہ ٹہل ٹہل کر تھک گئی تو بس یہی سوچ کر رہ گئی ۔
اور پھر ہوا یہ کہ وہ' سب دیکھنے کے لیے رخصت ہو کر بذاتِ خود اس گھر میں آگئی تھی ۔
" میں بہت خوش ہوں کہ مجھے اتنی فرمانبردار بیٹی ملی ھے اور خوش نصیب بھی ۔۔۔ کہ اتنی پیاری بیٹی کے توسط سے ایک سعادت مند اور سلجھا ہوا بیٹا بھی مل گیا ھے ۔ مجھے یقین ھے کہ تم رازی کے ساتھ خوش رھو گی ۔۔" رخصتی کے وقت ڈیڈ کچھ اس طرح جذباتی ہو رھے تھے کہ وہ خود پگھل کر رہ گئی ۔ اس گھڑی احساس ہوا کہ محض تین دفعہ 'ہاں' کہنے سے وہ کہاں سے کہاں جا رھی تھی ۔
تصویروں اور مووی سیشن مکمل ہو چکا تھا ۔تمام مہمان بھی جا رھے تھے ۔
" احراز ، بابر بس کرو تم دونوں ، تنگ کر رکھا ھے تم دونوں نے بچی کو " دادو بدستور انکی شوخیوں پر انہیں سرزنش کر رہی تھیں ۔
" ھم کوئی تنگ نہیں کر رھے دادو ، ہاں مگر ۔۔۔۔ بگ برادر کے متعلق سوچا جا سکتا ھے ۔ صوفے پر یوں پھیل کر بیٹھے ہیں کہ بچی واقعی تنگ ہو رھی ھے " احراز نے رازی کے بہت ریلیکس انداز میں صوفے کی بیک پر بازو پھیلا کر بیٹھنے پر شرارت سے چوٹ کی تو سب کے ہنسنے پر وہ شرما کر فوراً سے سیدھا ہو بیٹھا ۔
" ارے بھائی۔۔ آپ ڈریں مت ، آپ کسی دوسری کی بیوی کے ساتھ تھوڑی بیٹھے ہیں جو گھبرا گئے ہیں ۔۔۔ کھل کے بیٹھیں" بابر نے فوراً بھائی کی حمایت کی تو رازی نے ہنس کر ھاتھ جوڑ دیئے۔
" معاف کردو مجھے تم لوگ ، کیسے قینچی کی طرح زبان چلتی ھے دونوں کی "
" بھائی انڈائریکٹ اٹیک مت کریں ، اب یہ ہماری بھابی ہیں "
" صالحہ ! ان دونوں کی باتیں تو ختم ہونی نہیں ہیں ، تم عنبر کو کمرے میں لے جاؤ"
دادو نے وہاں موجود عنبر کی چچی سے کہا ۔
چچی نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا ۔ عنبر نے انہیں ایسے دیکھا جیسے جانور قربان گاہ جاتے ہوئے دیکھتا ھے ، حالانکہ اس سے پہلے وہ سپاٹ سے تاثرات لیئے بیٹھی تھی ۔
وہ کمرے میں داخل ہوا ، بےحد اطمینان اور سکون اسکے مضبوط قدموں اور انداز سے جھلک رھا تھا ۔ اسنے ایک نظر سر جھکائے بیٹھی عنبر پر ڈالی تو لبوں پر شرارت بھری مسکراہٹ پھیلی ۔
وہ اسے یکسر نظر انداز کر کے فریج کی طرف بڑھا۔گلاس میں سیاہ مشروب انڈیل کر اسکی طرف بڑھا ۔
وہ اسکے مقابل آ بیٹھا مگر کچھ بولا نہیں ۔دو تین گھونٹوں میں گلاس خالی کیا اور اسکی طرف متوجہ ہوا ۔
" چچ چچ ۔۔۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔۔۔ اتنا انکار کرنے کا !"
سرخ مہندی سے سجے ہاتھ کو رازی نے اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا ۔
عنبر نے گہری سانس اندر کھینچی اور جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔
" اگر میں ڈیڈ کو سب کچھ بتا دیتی تو ۔۔۔۔۔ " وہ نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا کر رہ گئی ۔
" سب کچھ ۔۔۔! کیا ۔۔ یہ ؟ " اسنے بڑی شوخی سے گلاس اسکے سامنے لہرایا تو وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی مگر اگلے ہی پل عنبر نے چہرہ جھکا لیا ۔ کچھ تنہائی اور کچھ اس رشتے کا خیال ٹوٹ کر دھیان میں آیا تھا ۔ وہ مبہوت سا اسے دیکھنے لگا ۔ یہ وہ شوخ و شریر عنبر تو نہیں لگ رھی تھی جو اسے ہر وقت غصہ دلاتی تھی ۔
" آپ پھر سے کولڈرنک پی رھے ہیں " عنبر نے ہلکی سی خفگی سے اسکے گلاس کی طرف دیکھا تو ہنس دیا ۔
" نہیں یہ کولڈرنک نے نہیں ھے یہ تو بیئر ھے " رازی نے سنجیدہ سا چہرہ بنا کر کہا تو عنبر بھی مسکرا دی ۔
" آپکے ڈرامے کا دی اینڈ ہوچکا ھے ، کیونکہ یہ جو ڈرنک آپ پی رھے ہیں ۔۔۔ آپ کے آنے سے پہلے میں بھی پی چکی ہوں " وہ گویا اپنی ذہانت پر اترا کر بولی ۔
رازی شرارت آمیز مسکراہٹ سجا کر بولا ۔
" یعنی ۔۔۔ تمہیں بھی اتنا ھی نشہ ہو رھا ھے جتنا کہ مجھے ؟"
اسکی پرتپش سرگوشی پر وہ حق دق سی رہ گئی ، مارے شرم کے چہرے پر لالی چھا گئی تھی ۔
" آپ نے بہت برا کیا میرے ساتھ ، اگر میں انکار کر دیتی اس رشتے سے تو پھر ؟ "
"پھر ۔۔۔!!"
وہ اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑتے ہوئے دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا ۔
رازی کی نظروں کی تپش اپنے چہرے پر پا کر وہ اب لرز رھی تھی ۔ رازی خاصا محظوظ ہو رھا تھا اسکی حالت پر ۔
'" کیا ھے بھئی ! زبان میکے میں چھوڑ آئی ہو کیا ؟"
وہ اسے چھیڑ رھا تھا ، وہ خاصی بوکھلا گئی ۔
" آپ نے ٹھیک کہا تھا ، تنہائی میں کسی بھی مرد سے نہیں ملنا چاہیے"
رازی نے بے ساختہ قہقہہ لگایا کہ وہ اسکا منہ دیکھتی رہ گئی ۔
" پاگل لڑکی ۔۔۔ میں تمہارا محرم ہوں وہ بات میں نے غیر محرموں کیلیے سمجھائی تھی " ہنسی ابھی تک اسکے لبوں سے جدا نہیں ہو پا رھی تھی ۔
" ایسے سمجھاتے ہیں کیا ؟ جیسے آپ نے سمجھائی تھی ؟"
" تم جیسے بیوقوفوں کیلیے ایک جھٹکا ضروری ہوتا ھے " وہ شریر انداز سے بولا اور ساتھ ھی اسے ہاتھ سے پکڑ کر جو جھٹکا دیا ، اس سے وہ سنبھل نہیں پائی ۔ وہ اسے بانہوں میں سمیٹے ھر بات کی تلافی کرنے کی پوری کوشش کر رھا تھا ۔اور وہ زندگی میں پہلی بار اپنی بےترتیب ہوتی دھڑکنوں پر غور کرتے ہوئے شرما دی تھی ۔ گردن کی دائیں طرف کے تل پر آج رازی پورے حق سے اپنے لب رکھ رھا تھا ۔
_____________ اینڈ ____________