"ہیلو !" غیر متوقع آواز پر وہ چونک گیا اور چہرہ موڑ کر دیکھا ۔ عنبر صاحبہ تھوڑا سا گیٹ کھول کر اندر جھانک رھی تھی۔
رازی سفید شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیے، پینٹ کے پائنچے گھٹنوں تک موڑے دوبارہ گاڑی دھونے کے شغل میں مصروف ہوگیا ۔ عنبر پورچ میں پھیلے پانی سے بچتے بچاتے دروازے کے قریب بنی سیڑھیوں کی طرف آ گئی ۔ وہ کوفت ذدہ سا ہو کے رہ گیا ۔
"اس دفعہ تو لاھور بلکل مری بنا ہوا ھے ، بس اسنوفالنگ کی کمی ھے " وہ پہلی سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بڑی بے تکلفی سے کہنے لگی ۔
وہ پیشانی پہ ہلکی ہلکی شکنیں لیےگاڑی پر پائپ سے پانی ڈالنے میں مصروف رھا ، جواب دینے کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کی۔
"یہ گاڑی آپکی اپنی ھے ؟" وہ یقیناً مسلسل بولنے کی عادت میں مبتلا تھی ۔وہ گہری سانس لے کر رہ گیا ۔
"آپ اتنی سردی میں اسے کیوں دھو رھے ہیں؟" وہ اتنی مستقل مزاجی کا ثبوت دے رھی تھی کہ وہ تنگ آکر اپنی بدمزاجی کا ثبوت دے بیٹھا ۔بھنا کر اسکی طرف مڑا اور چڑ کر بولا ۔
" اس لیے کہ میں پاگل ہوں " اسکے اتنے سچے اعتراف پر عنبر کی آنکھیں ذرا پھیلیں ، پھر وہ بڑے تاسف سے بولی ۔
"چچ چچ __ مجھے تو پہلے دن ھی شک ہوا تھا مگر میں نے سوچا شاید میرا وھم ہو ۔ آئی ایم رئیلی سوری "
اسکی اس ہمدردی پر رازی کا دماغ گھوم گیا۔ اس نے پائپ ایک طرف پھینکا اور دونوں ہاتھ پسلیوں پر جما کر اسے گھورنے لگا ۔
" آپ کو کوئی کام ھے کیا ؟" وہ بمشکل تمیز سے بولا ۔
وہ دیکھ رھی تھی کہ وہ گھر میں اکیلا ھے پھر بھی اتنی بےخوف و خطر بیٹھی تھی اور یہی بات رازی کو بہت تلاش رھی تھی۔
"نہیں۔۔۔" اس نے معصومانہ انداز میں نفی میں سر ہلایا۔
" تو پھر یہاں کیوں بیٹھی ہیں ؟" اب کی بار رازی کے لہجہ غصے سے بھرا تھا ۔
"ارے واہ ۔۔" وہ اسکی بات پر حیران ہوئی اور پھر ہنس دی ۔
" ان سیڑھیوں پر بیٹھنے کے لیے کام کا ہونا ضروری ھے کیا ؟" اسنے ہنستے ہوئے کہا ۔وہ تو مزید تپ گیا ۔
" دیکھیے میں مزاق کے موڈ میں قطعی نہیں ہوں ، آپ برائے مہربانی اپنے گھر تشریف لے جائیں"
وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رھی تھی ۔
" افف اللّٰہ ! آپ کتنی مزے کی باتیں کرتے ہیں ۔ ہوں لگتا ھے جیسے اردو ادب کا کوئی کردار بول رھا ہو " وہ آنکھوں میں شرارتی سی چمک لیے اس کی شستہ زبان کی تعریف کرنے لگی ۔
" دیکھیے..'" وہ بولنے لگا ھی تھا کہ وہ بول اٹھی ۔
" ہاں جی __ دیکھ رھی ہوں " اسنے سر سے پاؤں تک رازی کے سراپے پر نظر ڈال کر مستعدی سے کہا تو وہ گہری سانس لیکر غصہ ضبط کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگا ، اسکا جی چاہ رھا تھا کہ اس بدتمیز اور فضول لڑکی کو اٹھا کر باھر روڈ پر پھینک دے ۔
" دیکھیے میں لڑکیوں سے بےتکلف ہونا پسند نہیں کرتا" وہ ناگواری سے بولا تو عنبر نے کھٹ سے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
" ہونا بھی نہیں چاہئے۔ یہ کوئی اتنی اچھی بات نہیں، میں خود اس بات کی قائل ہوں "
" خوب __" وہ استہزائیہ انداز میں اسے دیکھتے ہوئے طنزاً بولا " اور پچھلے آدھے گھنٹے سے آپ یہاں کیا کر رھی ہیں ؟"
وہ حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے کھڑی ہوئی۔ پھر بڑی سادگی سے بولی " آپ شائد سمجھے نہیں، میں لڑکیوں کی بات کر رھی ہوں "
اب بات اس کے بس سے باھر تھی ۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر اس کی طرف بڑھا اور انگلی سے گیٹ کی طرف اشارہ کیا ۔
" آپ بول کیوں نہیں رھے ! کیا آواز ختم ہوگئی ھے ؟ "
رازی نے جواباً تمام تو اخلاقیات اور شرافت کو سائڈ پہ رکھا اور آگے بڑھ کر اسے بازو سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے گیٹ تک لایا ۔
" جب تک دادو نہیں آجاتیں ، تب تک یہاں مت آئیے گا " رازی نے اس کی کچھ سننے سے پہلے ھی کھٹاک سے گیٹ کا دروازہ بند کیا ۔
" دماغ خراب کر کے رکھ دیا ھے اس فضول لڑکی نے " وہ بڑبڑاتے ہوئے گاڑی پر خشک کپڑا پھیرنے لگا ۔اس تکرار نے واقعی اسکا دماغ گھما دیا تھا ۔اب تو اسے شک ہونے لگا تھا کہ یہ لڑکی واقعی کوئی مینٹل پیس ھے ۔ اس نے سر جھٹک کر گویا 'اسے' جھٹکا ۔
بابر اور احراز کالج سے واپسی پر جیسے ھی گھر میں داخل ہوئے تو اسے دیکھا ، جو تندھی سے وائپر لگا کر پورچ کا فرش خشک کر رھا تھا " آپ نے کیا دھلائیاں شروع کر رکھی ہیں بگ برادر !"
" میں 'اپنے' حصے کا کام کر رھا ہوں " وہ اطمینان سے بولا تو ان دونوں کے کان میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔انہوں نے بے ساختہ ایک دوسرے کا منہ دیکھا ۔
" اپنے حصے کا ___ یعنی __!!" احراز ہکلایا۔
" یعنی کہ تم دونوں کے حصے کا کام کچن میں ھے " وہ آرام سے بولا ۔
" نہیں__" بابر نے صدمے سے سر احراز کے کندھے پر ٹیکا ۔
میں تو لنچ کرچکا ہوں " رازی کو گویا انکی آہ و زاری سے کوئی شغف نہیں تھا سو ' بےنیازی سے شانے اچکا کر بولا ۔
احراز تڑپ اٹھا بڑے بھائی کی بےحسی پر ۔
" اور ھم !!! ھم جو قوم کے معمار ہیں ' ہمارا کیا ہوگا ؟؟؟ آج ہمیں اچھا کھلائیں گے تو ہماری نشونما اچھی ہوگی ، تبھی ھم تعمیر ء وطن میں حصہ لے سکیں گے ۔"
اس کی فضول سی تقریر پر رازی کو خوب ہنسی آئی ۔
" اچھا معمار ء قوم صاحبان __ جاؤ اندر کھانا پڑا ھے ، وہ کھا کر اپنی نشوونما پوری کرو __ لیکن _" وہ سنجیدگی سے بولا تو ان دونوں نے اندر بھاگنے کو پر تولے مگر اس کی ' لیکن ' نے لرزا دیا ۔انہوں نے مسکین سی شکلیں بنا کر اسے دیکھا۔
" بگ برادر پلیز ___"
" رات کا کھانا اچھے سے مینیو کے ساتھ ملنا چاہیے مجھے " اس نے تنبیہ کی تو وہ دونوں منہ لٹکا کر اندر چلے گئے۔ وہ سر جھک کر مسکرا دیا۔
_________
وہ کمبل اچھی طرح اوڑھے سو رھا تھا جب عجیب سے شور سے اسکی آنکھ کھل گئی۔ کھڑکیوں پر دبیز پردوں کی وجہ سے کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسنے کروٹ بدلی اور ہاتھ آگے بڑھا کر سیل فون پر ٹائم دیکھا تو شام کے سات بج رھے تھے ۔ اتنی سردی میں وہ کتنی دیر پانی میں شغل کرتا رھا تھا تو اب بدن جیسے ٹوٹ رھا تھا ۔اس نے اٹھ کر جیکٹ پہنی اور کمرے سے باہر نکل آیا ۔ کچن کے دروازے پر پہنچ کر وہ ٹھٹھک گیا ۔ احراز چلایا تھا ۔
" افف عنبر ! کیا کر رھی ہیں ، بھائی کو اتنی تیز مرچوں والے کھانے پسند نہیں ہیں "
جواباً وہ بڑی شرارت سے بولی ۔
" تو پھر وہ ھر وقت کیا چبائے رہتے ہیں !!"
"کہاں __ کوئی نہیں، اتنے سویٹ سے تو ہیں بھائی" بابر کو اختلاف ہوا تو وہ جواباً بہت زور دے کر بولی ۔
" اچھا تبھی ___ میں بھی کہوں کہ ان کی زبان سے ھر وقت شیرہ کیوں ٹپکتا رہتا ھے "
اس وقت احراز نے بڑی سی چیخ ماری تو وہ اسکی طرف متوجہ ہوئی ۔
" بدتمیز __ ڈھکن کیوں کھولا ، میں نے چاول دم پہ رکھے تھے " وہ ناراض ہوئی ۔
" اب کوئی فائدہ نہیں ... وہ بیچارے دم دے گئے ہیں " وہ انتہائی دکھی لہجے میں بولا ۔
وہ پریشان ہو کر دیگچے میں جھانکنے لگی ۔" اب میرا تو کوئی قصور نہیں ناں ! میں نے تو اتنے پیار سے انہیں دم پہ رکھا تھا ، مگر یہ تو خود ھی بکھر گئے"
وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولی تو وہ اسکے انداز پر ہنس دیئے۔
" اب __ بھائی یہ چاول کیسے کھائیں گے ؟" احراز کو فکر لگ گئی۔
" نو پرابلم " وہ فریش انداز میں بولی " رات کے کھانے میں تمہیں پیش کردیں گے "
" بھائی آدم خور نہیں ہیں " بابر خفگی سے بولا ۔
" تو پھر لگتے کیوں ہیں ؟" وہ معصومیت سے سوال کرنے لگی اور ساتھ ھی چولہے پر جلتی دھیمی آنچ بند کردی ۔
" عنبر آپ لڑائی والی باتیں مت کریں " وہ چڑ کر بولا تو وہ اسے چڑانے کے لئے مزید ہنسی ۔ جواباً وہ منہ پھلا کر واک آؤٹ کرنے لگا ، ابھی دروازے تک واک ھی کی تھی کہ آؤٹ ہوگیا ۔ رازی سینے پر بازو لپیٹے ، پیشانی پر بل ڈالے ، سیاہ آنکھوں میں غصہ لیے اور ہونٹوں کو ایک دوسرے میں مضبوطی سے پیوست کیے کھڑا تھا۔اس کے انداز سے شدید ناگواری جھلک رھی تھی۔
" بھائی....!!!" بابر ہکلایا۔
" بھائی نہیں __ آدم خور" وہ مسکراتے ہوئے پلٹی تو پہلی نظر رازی پہ پڑی ، اس کے لب سکڑ گئے ، ہلکا سا کھنکار کر احراز کی طرف دیکھا ۔
" اس کی تو عادت ھے منہ پھلانے کی ، آپ کے کہنے سے بھلا بھائی آدم خور تھوڑی بن جائیں گے! اسے دفعہ کریں ۔۔ آپ میرے سامنے کہہ سکتیں ہیں " احراز بڑے شاہانہ انداز میں بولا تھا ۔
" رازی ۔۔۔ بھائی۔۔۔ !" بابر نے منحنی آواز میں گویا احساس دلانا چاہا۔
" چپ رھو تم ۔ بھائی کے چم ۔۔۔چم۔۔۔۔" اس نے ہاتھ ہوا میں ہلا کر کہتے ہوئے منہ اسکی طرف کیا تو ' چمچہ ' منہ میں ھی رہ گیا ۔عنبر کو بڑی زور سے ہنسی آئی۔
" بھائی کی محبت نے منہ میں شیرینی بھر دی ھے اس لیے ہونٹ چپک گئے ہیں " وہ گویا رازی کو تسلی دیتے ہوئے بولی تو وہ دونوں کو نظر انداز کر کے اس سے مخاطب ہوا ۔
" آپ اس وقت یہاں کیا کر رھی ہیں ؟"
" کھڑی ہوں " جواب سادگی سے دیا گیا تھا۔
" کیوں ؟" وہ شائد اسے شرمندہ کرنے پہ تلا تھا مگر عنبر کا موڈ نہیں تھا اس لیے بڑے اطمینان سے بولی ۔
" کیونکہ بیٹھنے کے لیے یہاں کوئی چیز نہیں ھے "
" میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ یہاں تب آئیے گا جب دادو گھر پہ موجود ہوں ، آپ پر اثر نہیں ہوا میری بات کا !!!"
وہ تلخ لہجے میں بولا۔
" ظاھر ھے تبھی تو یہاں موجود ہوں " وہ شانے اچکا کر بےنیازی سے بولی ۔
" انتہائی ڈھیٹ واقع ہوئی ہیں آپ..." رازی نے تاسف سے کہا تو وہ تنک کر بولی
" تو آپ اتنے دکھی کیوں ہو رھے ہیں ! خدا کے فضل سے بہت رشتے آرھے ہیں میرے اس خوبی کی وجہ سے " دوسرا جملہ اتنے فخر سے کہا کہ احراز اور بابر سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہوگیا ۔
" آپ یہ فضول کی ڈرامے بازی چھوڑیں اور اپنے گھر جائیں " وہ غصے کہتا ہوا ان دونوں کی طرف پلٹا جو اس کی پشت پر ہونے کا فائدہ اٹھا کر بے آواز ہنسنے میں مشغول تھے .
" تم دونوں میرے کمرے میں آؤ" یہ کہتے ھی وہ اپنے کمرے کی جانب چل پڑا جبکہ وہ دونوں وہیں پتھر کے ہو گئے ۔
عنبر نے اطمینان بھری سانس لی اور انہیں ہمدردی سے دیکھا ۔
" یہ سب آپکی وجہ سے ہوا ھے " بابر نے منہ پھلایا۔
" آہا___ ایک تو میں ، تمہاری منتوں پر کھانا پکانے آئی ہوں اور اوپر سے الزام بھی مجھے ھی دے رھے ہو " اس نے بھی صاف صاف سنائی۔
" اچھے بھلے تعلقات چل رھے تھے بگ برادر کے ساتھ ، مگر مجال ھے جو آپ اپنی قینچی جیسی زبان پر قابو پا لیں " احراز نے سیدھا اسکی زبان پر اٹیک کیا تو وہ تلملا اٹھی ۔
" خدا کرے مرغا بنائیں وہ تم دونوں کو یا ۔۔ یا پھر ٹانگیں اوپر اور سر نیچے کروا کے دو گھنٹے کھڑے رکھیں "
" وہ بھائی ہیں ، مداری یا جادوگر نہیں " بابر اکتا کر بولا تو اسنے منہ بنا لیا ۔
" جارھی ہوں میں __ ہنہ , احسان فراموش" وہ منہ پھلائے پیر پٹختی باھر نکل گئی ۔
" کاشششش میں بھی ایسے ھی جا سکتا تم پہ لعنت بھیج کے اور تم اکیلے بھائی کو فیس کرتے ___"
احراز کی اس بدتہذیبانہ اور بدتمیزانہ حسرت پر بابر نے اسے ایک عدد جھانپڑ رسید کیا اور پھر دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہوتے ہوئے رازی کے بیڈروم تک آئے ۔وہاں پہنچ کر دونوں نے ہاتھ ملا کر دوستی کی اور آخری دم تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کی قسم کھائی اور اندر داخل ہوگئے ۔ وہ بستر پر نیم دراز تھا ، انہیں دیکھ کر سیدھا اٹھ بیٹھا ۔
تاثرات خاصے سرد تھے ۔" میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ آئندہ وہ لڑکی اس گھر میں نہ آئے " سخت لہجے میں کہا گیا ۔
" وہ بھائی کھانا ۔۔۔" بابر نے منمنانے کی کوشش کی تو احراز نے گڑبڑا کر زور سے اسکے پیر پر اپنا پیر رکھ کر دبایا ۔
رازی نے دونوں کو گھورا ۔
" وہ کھانا کھانے آئی تھی بھائی" احراز نے پردہ ڈالنے کی پوری کوشش کی اور وہ مان بھی لیتا اگر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا ۔
" شٹ اپ.." وہ سختی سے بولا ۔" نہ تم دونوں بچے ہو اور نہ ھی وہ ، اگر وہ دادو کی موجودگی میں یہاں آئے تو اور بات ھے لیکن اس طرح صرف ہماری موجودگی میں اسکا منہ اٹھا کر چلے آنا اور بدتمیزی کرنا مجھے بلکل پسند نہیں ھے "
" بھائی وہ ہماری دوست ھے اور دوست تو آتے رہتے ہیں گھر میں یہ کوئی بری بات تو نہیں ھے " بابر نے احتجاج کیا۔
" تو میں نے کب کہا کہ بری بات ھے ، لیکن یوں دادو کی غیر موجودگی میں اسکا یہاں آنا بھی تو مناسب نہیں ھے ناں ۔ سب محلے والے بھی جانتے ہیں کہ یہاں صرف لڑکے ھی رہتے ہیں ، ایک لڑکی کا یہاں آنا غلط ھے "
وہ کافی محتاط الفاظوں میں انہیں سمجھا تھا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان دونوں کو ہرٹ کرے یا کوئی ایسی بات کردے جس سے وہ دوستی جیسے سچے جذبے پر بھی شرمسار ہو جائیں ۔
" بھائی ان کی عادت بن چکی ھے یہاں آنے کی ، اور پھر وہ کیا کریں ۔۔۔ دادو تو جانیں کب آئیں گی "
احراز نے اکتاہٹ آمیز لہجے میں کہتے ہوئے دادو کو یاد کیا۔
" پرسوں آرھی ہیں دادو " رازی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
" سچچی بگ برادر__" بابر کو زیادہ خوشی ہوئی کیونکہ کچن اسی کے کندھوں پہ تو چل رھا تھا ۔
"چلیں پھر اسی خوشی میں چل کے کھانا کھاتے ہیں " احراز نے خوشی سے کہا تو رازی نے ناچاہتے ہوئے بھی سر ہلا دیا اور اٹھ گیا ۔