سات بج چکے تھے لیکن کالی گهنگهور گهٹائوں نے سارے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا موسم نے بندروں کا موڈ بهی خوشگوار کردیا تھا اور اب گودے دار پهل ایک بار پھر ایک تواتر سے ان کی جانب اچھا لے جارہے تهے۔ ۔۔تمہارے ہمسایوں کا مہمانوں کو رخصت کرنے کا انداز خاصا غیر شریفانہ اور کچھ کچھ دل دکھانے والا ہے ایزد نے پهر تی سے ایک پهل کیچ کرتے ہوئے رائم سے شکایتآ کہا تو وہ ہنسنے لگی تهی۔ ۔۔
ویسے مجھے موسم کے تیور اٹهیک نہیں لگ رہے ہمارا یہاں مزید رکنا مناسب نہیں اس لیے بوریا بستر سمیٹ کر روانہ ہونا چاہیے اب۔ ۔۔کاش میں یہ پل یہ لمحے اپنی مٹھی میں قید کر سکتی وہ اپنی بہت ساری یادیں یہاں چهوڑ کر جارہے تهے اور اس سے کہیں زیادہ اپنے ساتھ لے کر جارہے تهے۔ ۔
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جهگڑا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعوا کیوں کریں ہم۔ ۔۔۔۔
رائم نے کسی قیمتی متاع کی طرح ایزد کا دیا کارڈ اپنے ہاتھ میں دبوچا ہوا تھا۔ ۔وہ پتھرائی آنکھوں سے خود سے دور جاتے
اس شخص کو دیکه رہی تھی جس کی سنگت نے اسے احساس دلایا تها کہ زندگی اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے جتنی کہ نظر آتی ہے۔ ۔۔
ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی گرینی اس کے زندہ وصیحع سلامت لوٹنے پر بےحد خوش تهیں۔ ۔۔۔انہیں رائم کچھ چپ چپ اور
اداس سی لگی اور وہ اسے اس کی تهکا وٹ پر محمول کرتی رہیں وہ یہ نہ جان سکیں کہ اس بار سیکڑوں میل دور ایک جنگل میں ان کی پوتی اپنی سب سے قیمتی متاع اپنا دل ہار آئی ہے۔ ______جلیلیا سنگاپور سے واپس آنے کے فوراً بعد اس کے سر پر پہنچ گئی تهی۔ ۔۔سنو وہاں جنگل میں ایسا کیا تها کہ تم پہلے سے بهی زیادہ خوب صورت ہو کر لوٹی ہو وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔ ۔۔۔لیکن تمہاری آنکھیں تمہاری آنکھوں میں اتنی اداسی کیوں ہے رائم۔ ۔۔
رائم نے راز فاش ہونے کے ڈرسےجلدی سے پلکوں کی سنہری جهالر گرادی یہ بهی غنیمت تها کہ جلیلیا کسی بات کے پیچھے نہیں پیچھے نہیں پڑتی تھی۔ ۔۔۔سر ڈیوڈ رائم کے کامیاب لوٹنے پر جتنا خوش ہوتے اتنا کم تها وہ رائم کو دی وائلڑ کی بیک بون کہا کرتے تھے اور اب اس ڈاکومنٹری کی پر یزنٹیشن کی زوروشور سے تیاریاں چل رہی تھیں۔ ۔۔۔۔۔۔
رائم نہیں جانتی تھی کہ جس شخص کی سنگت میں اس نے گنتی کے محض چند دن گزارے تھے وہ اس طرح اس کے روم روم میں بس جائے گا وہ موجودہ نہ ہوتے ہوئے بھی ہر جگہ موجود تھا اس کی آواز لہجہ انداز اور ڈارک براءون آنکھیں وہ چاہنے کے باوجود کچھ بھی تو نہیں بهول پارہی تهی۔ ۔۔۔کاش میں اپنے کیمرے میں یہ خوبصورت منظر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر سکتا کسی بات پر بے ساختہ ہنستے ہوئے وہ ایک دم ایک دم چپ ہو جاتی۔ ۔ہاہا تم اتنی بہادر ہو نہیں جتنا میں تمہیں سمجھ رہا تھا وہ تهک ہار کر دی وائلڑ میں پناہ ڈهونڈنے کی کوشش کرتی تویہ آوازیں اسے پهر سے وہیں پر لاکر کهڑا کر دیتیں۔ ۔
نہیں ہو میں بہادر ایزد تم جانتے ہو میں بہادر نہیں ہوں مجھے انسانوں سے ڈر لگتا تھا مجھے اسی نارسائی سے ڈر لگتا تھا۔ ۔۔۔مجھے ہجر کی طویل راتوں سے ڈر لگتا تھا مجھے اپنا آپ کهو دینے سے ڈر لگتا تھا اور تم نے میرے سارے ڈر سچ سابت کردیے اسے آج شیکسپیئر کا فلسفہ محبت سمجھ میں آیا تھا۔ ۔۔۔محبت انسان کو پاگل کردیتی ہے محبت دماغ کا ایک خلل ہے کہ اگر کوئی انسان اس خلل میں مبتلا ہو جائے تو اس کا علاج مشکل ہے سارے خواب سارے مناظر آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں صرف ایک چہرہ آنکھوں میں منجمد ہو جاتا ہے محبوب کا چہرہ۔ ۔۔گرینی نے کافی پهینٹتے ہوئے کچن کی کهڑکی
سے اسے بہت دکھ سے دیکها وہ کتنی دیر سے ٹهوڑی گهٹنوں پہ ٹکا ئے ایک ہی زاویے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ۔۔میں یہ تو نہیں پوچھو ں گی کہ وہ کیسا تها کیونکہ جس نے میری پوتی کے دل کی دنیا فتح کی ہو وہ کوئی عام انسان تو نہیں ہو سکتا انہوں نے کافی کا مگ رائم کی طرف بڑها دیا اور رائم کو لگا جیسے وہ ان سے کوئی بات نہیں چهپاپائے گی اور اس نے گرینی کو ایزدناصر کی ایک ایک بات اس کے ساتھ گزارا ایک ایک پل سب بتادیا۔ ۔۔۔۔گرینی کی پر سوچ نظریں اس قوح بکھیرتے چہرے سے الجھ رہی تھی۔ ۔۔
رائم تمہیں اس پریزینٹیشن کے موقع پر ایزد کو بلانا چاہیے گرینی کی بات سن کر وہ لمحہ بھر کو چپ رہ اگر وہ نہ آیا تو۔ ۔۔تم بلاو وہ ضرور آئے گا۔ ۔رائم نے ایک نظر کارڈ پر درج فون نمبر اور پتا اسے ازبر ہو چکا تھا۔ ۔۔وہ پہلی بار ایزد کے گهر جارہی تھی اور اپنی تیاری سے حددرجہ غیر مطمئن تھی۔ میں پہلی بار کنفیوز ہو رہی ہوں گرینی__زندگی میں بہت کچھ پہلی بار ہی ہورہا ہوتا ہے ہمارے ساتھ۔ ۔۔۔۔۔سر سبز بیلوں سے ڈهکاوہ چهوٹا سا گهر اندر سے کہیں زیادہ خوبصورت تها جتنا کہ باہر سے نظر آرہا تها پہلا قدم اندر رکھتے ہی اس کا دل عجیب کیفیات میں گهر گیا تھا رائم نے آہستگی سے قدم اندر رکھ دیا آگے بڑهی میں رائم۔ ۔۔۔اسے اپنا تعارف کروانا بہت دشوار لگا تها۔ ۔۔۔۔۔اوہ دی وائلڑ والی رائم۔ ۔ایزد کے پاپا گرم جوشی سے کہتے اٹه کهڑے ہوئے بیئر کے بعد مجھے تمہاری بہادر ی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے رائم مسکرا دی۔
کم آن بیٹے کهڑی کیوں ہو ایزد کی ممی اسے اپنے ساتھ لے کر صوفے کی جانب بڑه گئیں۔ ۔۔
ایزد اس کی متلاشی نگاہوں نے ایزد کو تلاشا تھا ایزد کے پاپا کی کال آگئی تو وہ معزرت کرتے وہاں سے اٹھ گئے۔ ۔۔
ایکچیولی آنٹی میں ایزد کو اپنی پریزینٹیشن سرمنی کا انو ٹیشن دینے آئی تھی رائم کچھ جهجک کر بولی تھی۔ ۔ایزد آفس ورک کے سلسلہ میں اٹلی گیا ہوا ہے میں اسے تمہارا میسج دے دو ں گی۔ ۔تقریب کب ہوگی ۔۔۔۔اس تهرسڈے کو۔ ۔۔
پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا معصب ہمارا ایسا کام کرے گا۔ ۔۔دهڑا دهڑا سیڑھیاں اترتا وہ یقیناً معصب ہی تها آخری سیڑھی پر قدم رکھتا وہ ٹهٹک کر رائم کو تکنے لگا۔ ۔۔۔۔رائم آپی وہ اسے پہچاننے کی سعی کر رہا تھا اور رائم اس کے تخاطب پر ہی گم سم ہوگئی تھی رائم آپی اس نے زیرلب دہرایا تها اور لگا منہ میں مٹھاس سی گهل گئی ہے۔ ۔آپ دی وائلڑ والی ہیں نا جو جنگل میں بهائیان۔ ۔۔۔۔۔۔رائم نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا یا تها اوہ گریٹ نجانے اسے زیادہ خوشی کس بات پر ہوئی تھی رائم کو اپنے گھر دیکه کر یا اپنے انداز ے کی درستگی پر بہرحال رائم کو یہ سب بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ۔۔۔۔ان کے ساتھ گپ شپ کرنے میں کافی وقت بیت گیا تو رائم جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی معصب اسے دروازے تک چهوڑ نے آیا تھا۔ ۔۔۔۔
رائم آپی ایک بات پوچھوں رائم رک کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکهنے لگی۔ ۔
بهائیان کی جب دائیں ٹانگ زخمی تهی تو وہ لنگڑا کر کس طرح چل رہے تھے اس طرح یا اس طرح۔ ۔۔۔رائم پہلے تو منہ پهاڑے
نا سمجھی سے اسے لنگڑا کر چلنے کی ایکٹنگ کر تا دیکهتی رہی مگر جب اصل بات سمجھ میں آئی تو کهلکهلا کر ہنس پڑی اسے ایزد کی بات یاد آگئی تھی۔ ۔۔۔ارے آپ ہنس کیوں رہی ہیں میں تو یونہی پوچھ رہا تھا کہیں بهائیان نے آپ کو، ۔۔اوہ نو
ہنسی روکنے کی کوشش میں رائم کی آنکھوں میں آنسو اگئے تهے جبکہ وہ چور کی داڑھی میں تنکے کے مصداق منہ پهیلا ئے کهڑا تها۔ ۔۔۔مصعب ڈارلنگ میں ابھی تهوڑی دیر پہلے حیران ہورہی تھی کہ کسی کی باڈی لینگویج اپنے بهائی سے اتنی بهی مل سکتی ہے بهلا تمہارا ٹانگ پہ ٹانگ چڑھا کر بیٹھنے کا انداز کپ کو یوں دو انگلیوں میں اسٹائل سے پکڑ نا یہاں تک کہ چلنے کا انداز بهی سیم ٹو سیم ایزد جیسا ہے مجھے تو شک ہو رہا ہے کہیں تمہارے بهائیان چوری چپکے تمہاری اسٹائل کاپی تو نہیں کرتے وہ مسکرا ہٹ دباتے ہوئے خاصی سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ۔۔
ہائے سچ مصعب ساری خفگی بهلا ئے خوشی سے اچھل پڑا۔ ۔۔۔۔ایک سو بیس فیصد سچ رائم اس کی سلکی بال بکھیرتی ہوئے باہر نکل آئی
**********************