ماہم کو کال کرنے کے بعد کیف واش روم میں جاکر اپنے چہرے پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر خود کو ریلیکس کرنے لگا پھر کپڑے بدلے۔ جینز کے اوپر وائٹ ٹی شرٹ اور ہلکی بڑھی ہوئی شیو میں وہ خاصا دلکش لگ رہا تھا مگر چہرے پر کئی شکنیں تھیں ۔
ماہم بھی کال کے بعد اپنے کمرے میں جاکراپنے کالج بیگ سے بکس نکالنے لگی ...کیف نے سکھر آنے سے پہلے اس سے کہا تھا کہ اسے پڑھائی میں جو کچھ بھی سمجھ نہیں آتا کیف اسے سمجھادے گا....وہ سارے سوالات ایک جگہ لکھ رکھے ...تو بس وہ اسی کام میں جت گئی تھی ۔ابھی وہ اپنی کتابوں میں ہی الجھی ہوئی تھی کہ عالیہ اس کے سر پر آپہنچی تھی ۔
’’خیریت تو ہے آج سنڈے کو بھی پڑھائی ہورہی ہے ‘‘۔ اس کی اچانک آواز پر ماہم نے کتابوں سے سر اٹھا کر دیکھا
’’تم یہاں ....تم کیوں آئی ..؟؟.‘‘۔ پھر کچھ سنبھلی ....’’میرا مطلب ہے تم نے بتایا ہی نہیں کہ تم آنے والی ہو‘‘۔
’’بتائے بغیر آنا منع ہے کیا....؟؟ آج سنڈے ہے ....میں اور عرش آج فری تھے اور نورین تو ہوتی ہی فری ہے...تو بس آگئے ‘‘۔ عرش کا سن کر ماہم کے چہرے کا رنگ اڑا....عرش بھی آیا تھا ....اور کیف ...کیف بھی آنے والا تھا ....کیف تو عرش کا نام سن کر بھی لال پیلا ہونے لگتا تھا اور آج جب اسے سامنے دیکھے گا تو ....ماہم نے سوچ کر ہی آنکھیں کس کے موند لیں ۔
’’مر گئے آج تو .‘‘۔..وہ منمنائی ۔
’’شاید نہیں آنا چاہیے تھا ...کوئی بات نہیں واپس چلے جاتے ہیں ‘‘۔ عالیہ نے اس کے چہرے کے بدلتے رنگ کو بھانپتے ہوئے اور اس کے عجیب و غریب رنگ ڈھنگ کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
’’نہیں ..نہیں ...بہت اچھا کیا...‘‘۔ وہ تقریباً اچھل پڑی تھی .....جیسے ابھی عالیہ کو پکڑکے روک لے گی وہ اتنی بد اخلاق بھی نہیں تھی کہ اسے یوں ہی ناراض کرکے بھیج دیتی ۔
’’میں خود بھی تمہاری طرف ہی آنے کا سوچ رہی تھی.... ‘‘۔ وہ چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی ۔
عالیہ بھی پھیکا پھیکا سا مسکرادی ۔
ماہم نے اس سے نارملی ہی گپ شپ شروع کردی ....وہ بھی مطمئن ہوگئی تھی کہ اس نے یہاں آکر کوئی غلطی نہیں کی ۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ وہاں عرش بھی آدھمکا تھا ...ہمیشہ کی طرح ۔
ماہم کے چہرے کی رنگت ایک دفعہ پھر بدلی .....۔
’’کتنی بے مروت ہو تم دونوں.....میں کب سے لاؤنج میں سارہ اور نورین کے ساتھ بیٹھا بور ہو رہا ہوں ...وہ دونوں پتہ نہیں کون سے کارٹون دیکھنے میں لگی ہیں ...اور تم دونوں یہاں الگ تھلگ بیٹھ گئی ہو...میں کہاں جاؤں اب ؟.......‘‘۔ اس نے آتے ہی شکوہ کیا ۔
’’ہم بھی بس آ ہی رہے تھے .......چلو وہیں چل کر بیٹھتے ہیں .....آج کرکٹ میچ بھی ہے ...وہ بھی دیکھ لیں گے ...‘‘۔ ماہم نے فٹ سے کہا...و ہ نہیں چاہتی تھی کہ کیف آئے اور عرش کو باقاعدہ اس کے کمرے میں جما دیکھے ۔
یہ کہتے ہی وہ عرش اور عالیہ سے بھی پہلے کمرے سے نکل گئی تھی ....عالیہ اور عرش نے ایک دوسرے کو دیکھا...عرش نے کندھے اچکائے اور لاؤنج کی طرف چل پڑا ...عالیہ نے بھی اس کی تقلید کی۔
لاؤنج میں سارہ اور نورین پہلے ہی براجمان تھیں ....ان دونوں سے ریموٹ لیکر چینل بدلنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا ......مانگنے سے تو وہ ریموٹ دینے نہیں والی تھیں ...کوئی اور ہی حربہ آزمانے کی ضرورت تھی ۔
ماہم نے بھی کیف کے آنے کی فکر کو ایک طرف رکھا........اور بڑے ہی نارمل سے تاثرات لیے سارہ کے کچھ قریب ہوکر بیٹھ گئی .....۔
سارہ کی نظریں مسلسل کارٹونز پر ہی جمی ہوئی تھیں ......ماہم نے کن اکھیوں سے سارہ کے ہاتھ کا بغور جائزہ لیا...ریموٹ پر گرفت اتنی مظبوط نہیں تھی .......بس پھر کیا تھا ..... اچانک ہی اس نے سارہ کے ہاتھ پر جھپٹا مارا تھا ..اب ریموٹ ماہم کے ہاتھ میں تھا
سارہ کا حیرت زدہ ...بلکہ شاک زدہ چہرہ دیکھ کر سب ہی ہنس پڑے تھے ....جو کچھ ہی دیر میں روتلو چہرہ بھی بن چکا تھا ۔ماہم بھی اس کی روتلو سی شکل دیکھ کر کھلکھلاکر ہنس ہی رہی تھی کہ سامنے سے کیف کونوید کے ہمراہ آتے دیکھا ۔یک دم ہی ہنسی اڑن چھو ہوئی ...جانے اب اسے کتنی وضاحتیں دینی پڑیں گی اپنے عرش کے سامنے اس طرح ہنسنے کی ۔
کیف کا موڈ بھی اسے بگڑا ہوا سا ہی لگا....سلام دعا کے بعد اس نے کیف کو بھی لاؤنج میں بٹھادیا اور خود فریدہ کو کمرے سے بلانے کے لیے چل دی .....کچھ دیر میں جب وہ فریدہ کے ساتھ لاؤنج میں واپس آئی تو وہاں کیف موجود نہیں تھا ...وہ ٹھٹک گئی ۔
کیف کہاں چلاگیا تھا ...کہیں ناراض ہوکر واپس تو ....؟؟وہ متفکر ہوئی ۔
’’کیف کدھر ہے؟؟ ‘‘۔ فریدہ نے اسے لاؤنج میں نہ دیکھ کر سوال کیا۔
’’وہ ماہم آپی کے کمرے میں گئے ہیں ‘‘۔ سارہ نے سادگی سے جواب دیا۔
’’مما آپ بیٹھیں ...میں بلا لاتی ہوں ‘‘۔ وہ حواس باختہ سی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ...۔
’’آپ یہاں کیوں آ گئے ...؟؟.‘‘۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے بیڈ پر نیم دراز کیف کو دیکھ کر کہا ۔
کیف نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا ۔
’’ایسے اچھا نہیں لگتا ناکہ ایک بندہ سب سے الگ جاکر بیٹھ جائے ...کیا سوچیں گے سب‘‘۔ وہ اس کی نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے بولی ۔
’’میں اکیلا نہیں بیٹھوں گا...تم بھی یہاں ہی بیٹھو گی ......‘‘۔ دو ٹوک جواب آیا ۔
’’ٹھیک ہے ...میں سب کو یہیں بلالیتی ہوں ‘‘۔ وہ اپنے غصے کو پیتی ہوئی بولی ۔
’’میں تم سے ملنے آیا تھا ...تمہارے رشتے داروں سے نہیں .....ان کو مجھ سے دور ہی رکھو‘‘۔ لہجے میں تلخی تھی ۔
’’وہ میرے کزنز ہیں ‘‘۔ اس نے جتایا۔
’’اور میں کیا ہوں ‘‘؟؟۔ لہجہ عجیب ہوا۔
’’ٹھیک ہے ...بیٹھے رہیں یہاں اکیلے ہی ....‘‘۔ وہ پیر پٹختی کمرے سے نکل گئی ۔
لاؤنج میں آئی تو خفت زدہ تھی ...صد شکر کہ سب کا دھیان میچ کی طرف تھا ...فریدہ بھی کچن میں جاچکی تھیں ....اس نے فرید ہ کو کچن میں جاکر کہہ دیا کہ کیف کی طبعیت اچانک کچھ خراب ہوگئی ہے ....بلڈ پریشر لو ہوگیا ہے شاید ...اس لیے وہ آرام کر رہے ہیں ...فریدہ نے بھی اسے کہہ دیا کہ وہ کیف کو سونے دے کچھ دیر ....تب تک لنچ بھی بن جائے گا ۔
وہ اڑی اڑی سی رنگت کے ساتھ لاؤنج میں سب کے ساتھ بیٹھ چکی تھی سپر لیگ کا میچ شروع ہوچکا تھا....سب بہت ایکسائیٹڈ تھے....سارہ اور نورین بھی اب کارٹون بھول چکی تھیں ....سب کی نظریں بس اسکرین پر جمی تھیں .....کسی نے ماہم کے چہرے کو نہیں دیکھا تھا ....وہ بھی بظاہر نظریں اسکرین پر ہی جمائے بیٹھی تھی مگر اس کا دھیان کہیں اور ہی تھا ۔
کچھ ہی دیر میں اس کے سیل فون پر میسج آیا ۔
(ابھی اور اسی وقت یہاں آؤ)
پڑھ کر اس کے اعصاب جواب دے گئے ۔
(آپ پلیز یہاں آجائیں ...سب جانے کیا سوچیں کہ آپ کیوں الگ ہوکر بیٹھے ہیں ) اس نے جواب دیا ۔
کچھ ہی لمحوں میں اگلا میسج آیا ۔
(میں نے کہا نا ابھی اور اسی وقت یہاں آؤ...ورنہ میں ہی چلا جاتا ہوں )
پڑھ کر وہ بے بس ہوئی ....نظریں چرانے کے سے انداز میں وہ اپنے کمرے تک گئی ....کس نے اسے جاتا دیکھا اور کس نے نہیں ....وہ انجان رہی ....مگر دل میں عجب سی شرمندگی لیے ۔
’’کیا مسئلہ ہے ‘‘۔ وہ آتے ہی بولی تھی ...آواز مدھم مگر لہجہ غصیلہ تھا ۔
’’تم نے مجھے گھر بلاکر میری یہ عزت کرنی تھی ....‘‘۔ جواب تلخ لہجے میں ملا۔
وہ شاکی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔
’’میں یہاں بیٹھا ہوں ....تمہارے لیے آیا ہوں....اور تمہیں اپنے ان کزنز سے فرصت نہیں ‘‘۔ لہجہ مزید تلخ ہوا...کزنز لفظ پر بھی خاصا زور دیا گیا تھا ۔
’’آپ کو خود ہی شوق چڑھا ہے یہاں بیٹھنے کا ..‘‘۔ اس نے بھی تلخی سے ہی جواب دیا
’’تم بھی یہیں بیٹھوگی ....کوئی ضرورت نہیں اپنے اس عاشق کے ساتھ بیٹھنے کی ‘‘۔اس کے لفظ پگھلتے سیسے سے اس کے کانوں میں گھلے ۔
’’وہ میرا عاشق نہیں ہے ....آئی سمجھ....اور میں یہاں اس طرح نہیں بیٹھوں گی .....‘‘ وہ دو ٹوک بولی مگر پھر لہجہ نرم کرتے ہوئے کہا ۔
’’کم از کم مجھے میرے ددھیال میں تو بدنام نہ کریں ...کیا سوچیں گے سب کہ میں اپنے ہی گھر میں الگ ہی ایک کمرے میں آپ کے ساتھ تنہائی میں بیٹھی ہوں .....اگر ان کو پتہ ہوتا کہ آپ میرے منگیتر ہیں تب شاید بے شرم بنتے ہوئے ان سب کو اگنور کرکہ میں یہاں بیٹھ بھی جاتی .....مگر اب ........‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رکی۔ ظاہر ہے وہ خود پر پھر سے کسی بھی افیئر کا لیبل لگوانا نہیں چاہتی تھی ۔
’’آج تمہیں میرے ساتھ تنہا بیٹھنے پرعتراض ہے جوکہ پہلے کبھی نہیں ہوا.....چل کیا رہا ہے سب ؟؟؟آخر مسئلہ کیا ہے تمہارا...تمہیں اس عرش کے سامنے اپنے امیج کی اتنی پرواہ کیوں ہے ؟ کیوں نہیں چاہتی تم کہ وہ تمہیں اور مجھے ایک ساتھ دیکھے...کس بات کی فکر ہے تمہیں ؟؟...کہیں تم ڈبل گیم تو نہیں کھیل رہی نا .‘‘؟؟ لہجہ زہریلا ہوا۔
تو کیا وہ دانستہ چاہتا ہے کہ عرش اسے اور کیف کو ایک ساتھ دیکھے ؟؟؟ ماہم کے ذہن میں ایک پل کے لیے سوال گونجا تھا...مگر یہ وقت کچھ بھی سوچنے کا نہیں تھا ۔
’’ پہلے مجھے کبھی کوئی فکر اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ میری نیت صاف تھی ....میں جانتی تھی ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں اس لیے میں نے کبھی پرواہ نہیں کی کہ لوگ کیا سوچتے ہیں مگر اب ہمارے درمیان واقعی کچھ ہے تو میں بھی کانشس ہوگئی ہوں ....پہلے میرے دل میں کوئی چور نہیں تھا ...میں دندنا کر آپ کے ساتھ بات کرتی تھی ...اب میرے دل میں ایک طرح سے چور ہی ہے ...اور ویسے بھی اپنی پہلے کی لاپرواہی کا انجام بھی میں دیکھ ہی چکی ہوں ......سب نے ہی جانے کتنے قصے افسانے گھڑ ڈالے تھے ....دوبارہ و ہ غلطی نہیں کرنا چاہتی‘‘۔
وہ کچھ ٹھنڈا پڑتے ہوئے اپنی طرف سے اپنی بات سمجھانے کی سعی کر رہی تھی ۔
کیف عالم کے تاثرات ایسے ہی رہے جیسے اس نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا ہو۔
اس نے لمبی سانس کھینچی اور پھر اس کو خاموش پاکر گویا ہوئی ۔
جہاں تک آ پ کی بات ہے ...آپ کو کمپنی دینے کی بات ہے ......آپ چلیں میرے ساتھ ...ہم سب کے ساتھ بیٹھیں گے...فن کریں گے .... مل کرمیچ دیکھیں گے ....‘‘۔
’’دیکھو ماہم ....تم نے شادی مجھ سے کرنی ہے ....کوئی کیا سوچتے ہیں تمہیں اس بات کی فکر نہیں ہونی چاہیے ....اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ میں کیا سوچتا ہوں ....تم اپنے اس عاشق کے ساتھ نہیں بیٹھوگی ......نہ مجھے اس کے ساتھ بٹھانے کی جتن کروگی ‘‘۔ وہ اب بھی جوں کا توں اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا ۔
’’دماغ تو ٹھیک ہے آپ کا کیف ....‘‘۔ اس کا پارہ بھی اب چڑھنے لگا ۔
’’میں اپنے کسی عاشق کے ساتھ تن تنہا جاکر کسی کونے میں نہیں بیٹھ گئی....میں سب کے ساتھ بیٹھی ہوں ....اور آپ بھی سب کے ساتھ ہی بیٹھیں گے ‘‘۔اس نے کیف پر سر سری نظر ڈالتے جیسے اپنا حتمی فیصلہ سنایا تھا....ساتھ ہی وہ اس کے جواب کے لیے رکی نہیں تھی ....وہ اپنے کمرے سے ہی جانے لگی تھی ۔
’’کہیں نہیں جاؤگی تم سمجھی ....‘‘۔ اس نے یک دم ہی بڑھ کر اس کی کلائی کو اپنے مظبوط ہاتھ کی گرفت میں لیا تھا ۔
’’چھوڑیں مجھے ...پاگل تو نہیں ہوگئے آپ ‘‘۔ وہ اپنی کلائی چھڑوانے کی سعی کرتے ہوئے منمنائی تھی ۔
وہ جیولری کی شوقین نہیں تھی ...آج کیف نے آنا تھا تو بس اپنے سوٹ سے میچنگ اس نے جو دو کانچ کی چوڑیاں پہن رکھی تھیں.... وہ ٹوٹ کر زمین پر بکھر چکی تھیں ...ایک آدھ خراش بھی آئی تھی مگر اتنی گہری نہیں تھی کہ خون نکل آتا ۔
’’کیوں چھوڑوں ؟؟ تاکہ تم اپنے اس عاشق کے ساتھ جم کر بیٹھ جاؤ....اور میں یہاں بن بلائے مہمان کی طرح سڑتا رہوں ‘‘۔اس کا انداز مزید جارحانہ ہوا تھا ...کلائی پر گرفت اور بھی مظبوط ہوئی ۔
وہ ماہم کے معاملے میں یونہی جنونی ہوجایا کرتا تھا ....مرد تو مرد وہ تو یہ بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا کہ وہ کسی لڑکی سے بھی کیف سے بڑھ کر بات کرے ....اور آج وہ یہ کیسے برداشت کرتا کہ ماہم اس کے رقیب کے سامنے بھی جائے ۔
کیف کہ ان الفا ظ نے ماہم کا پارہ مزید چڑھایا تھا ....ساتھ ہی اس کا جارحانہ انداز اور کلائی پر محسوس ہوتی گرفت جو مظبوط سے مظبوط ہوتی جا رہی تھی نے اسے تپایا تھا ۔
’’ہاں ...ہاں مجھے اپنے اس عاشق کے ساتھ بیٹھنا ہے ....اور جم کر بیٹھنا ہے .......دفع ہوجائیں آپ ....جان چھوڑدیں میری ‘‘۔ وہ چلا اٹھی تھی ۔
ماہم قریشی کے یہ الفاظ .......کیف کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑی ۔
ماہم نے غصیلی نظروں سے کیف کو دیکھا .....اور گرفت ڈھیلی محسوس ہوتے ہی جھٹکے سے اپنی کلائی کھینچ لی اور نم آنکھوں سے اپنی سرخ ہوتی کلائی کو دیکھنے لگی ۔
’’رہو تم اپنے عاشق کے ساتھ ....تمہاری جان چھوڑدی میں نے ہمیشہ کے لیے ......اب تم جان چھوڑدو میری ہمیشہ کے لیے‘‘۔وہ بھی پھنکارا تھا ....اور ایک تپتی نگاہ اس پر ڈال کر کمرے سے ہی نکل گیا۔
کمرے سے کیا وہ تو گھر سے ہی نکل گیا تھا ۔
ماہم اپنی ہی جگہ ساکت کھڑی رہی ...اس پل وہ منجمد لگی .....سرد لگی .... مردہ لگی .....جانے کتنے ہی پل اسے سنبھلنے میں لگے اور وہ زمین پر ڈھیر ہوتی گئی ....جذباتوں کا فوارہ پھوٹا اور وہ بلک بلک کر رونے لگی ۔
جب احساس ہوا کہ اس کے گھر میں مہمان بھی موجود ہیں تو اسے خود کو سنبھالنا پڑا ...اپنا بکھرا وجود سمیٹنا پڑا...چہرے پر ایک فریبی تبسم سجانا پڑا......اور سب کے سامنے ایک ہنستی مسکراتی ماہم قریشی بن کر آنا پڑا.سب کے جانے کے بعد جب ماہم نے اپنی ماں کو یہ بتایا تو ماہم کی ماں کو کیف پہ بہت غصہ آیا اور ساتھ ہی ماہم کے مستقبل کی فکر بھی ہونے لگی کہ ماہم کی شادی کیف سے طے تھی جسکی اتنی گھٹیا سوچ ہے
************
اس دن کے بعد ماہم نے عرش کے رشتے کے لیئے ہاں کردی ماہم نے جیسے ہی فریدہ کو عرش کے رشتے کے لیئے ہاں کی تھی ...فریدہ نے فوراً ہی شہباز سے بات کی تھی شہباز کو پہلے تو دھچکا لگا تھا مگر انہیں اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ تھا ان کے نزدیک اگر ماہم نے کوئی فیصلہ کیا تھا تو سوچ کر ہی کیا تھا
ان3سالوں میں یہ تبدیلی بھی آئی تھی کہ عرش پہلے شہباز کو امیچیور لگتا تھا انہیں لگتا تھا کہ وہ ابھی کم عمر ہے وہ ایک جگہ نہیں ٹک پائے گا ....مگر ان3سالوں میں عرش ذرا بھی نہیں بدلا تھا .....وہ آج بھی ماہم کے رشتے کے حوالے سے اتنا ہی سنجیدہ تھا جتنا3سال پہلے اور سچ تو یہ بھی تھا کہ و ہ ان تین سالوں میں سب کے دلوں میں اپنے لیے ایک خاص مقام تک بناچکا تھا یہاں تک کے چھوٹی سی سارہ کی نظر میں بھی ۔
اس معصوم سی بچی کو بھی بے حد خوشی ہوئی تھی جب اس کو پتہ چلا تھا کہ اس کا بہنوئی اب کیف نہیں عرش ہوگا ماہم کو ہر بار کیف کی وجہ سے اداس پریشان دیکھ کر وہ اندر ہی اندر کیف سے چڑنے لگی تھی مگر جتاتی نہیں تھی ۔
جب عرش اور اس کی فیملی کو پتہ چلا تھا کہ شہباز اور فریدہ نے رشتے کے لیے راضی ہیں تو ان کے گھر میں تو جیسے عید ہوگئی تھی عالیہ اور عرش پھولے نہیں سما رہے تھے
ماہم کے چچا نے بھی بار بار ٹرانسفر سے تنگ آ کر بہت پہلے ہی جاب چھوڑکر بڑے پیمانے پر اپنا بزنس شروع کرلیا تھا جس میں عرش بھی انہی کے ساتھ تھا اس لیے فوراً شادی کرنے میں بھی انہیں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا ۔ دعائے خیر کے بعد منگنی وغیرہ کے جھنجٹ میں پڑنے کے بجائے سیدھا شادی کی تاریخ بھی رکھ دی گئی تھی
دعائے خیر میں شہباز کے سب بہن بھائی شامل تھے مگر فریدہ کے خاندان سے کسی کو بھی نہیں بلایا گیا تھا اور یہ فیصلہ ماہم کا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ فی الحال کیف تک یہ بات کسی بھی صورت میں پہنچے اسے خدشہ تھا کہ کہیں وہ پھر سے آکر اپنا سر ہی نہ پھاڑلے (خودکش حملہ آور کہیں کا)
زینب نے اسے بہت خوبصورت سجایا تھا ....گہرے سبز رنگ کا شرارہ پہنے ..نفیس سی جیولری میں وہ بہت دلکش لگ رہی تھی عالیہ نے اسے دیکھتے ہی فٹا فٹ سے تصویریں کھینچنا شروع کردی تھیں حالانکہ وہ روکتی رہی جس پر عالیہ نے زینب کے سامنے ہی منہ پھٹ سے انداز میں کہا۔
’’ان میڈم کا یہ فیصلہ ہے کہ شادی تک یہ عرش سے پردہ کریں گی حالانکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی رواج نہیں ہے انہوں نے اپنا ہی رواج نکالا ہے مگر اب کم از کم میرے مظلوم بھائی کا اتنا تو حق بنتا ہے نہ کہ وہ اپنی ہونے والی ’’ ان ‘‘ کی تصویریں ہی دیکھ لیں ۔‘‘
اس کی بات پر زینب اور باقی تمام کزنز ہنس دی تھیں اور اس کی بات کی تائید بھی کی تھی ۔
عالیہ نے ڈھیر ساری تصویریں کھینچ کر سب بڑوں کے درمیان بیٹھے عرش کو چپکے سے دکھائی بھی تھیں اور عرش کی ستائشی نظروں کا حال واپس آکر سب کزنز کو سنایا بھی تھا ۔
سب کی ہنسی ...قہقہے .....اور سب سے بڑھ کر اس نے جو آج عزت محسوس کی تھی اس سب نے اسے ایک سکون سا دیا تھا ۔ رشتہ تو اس کا پہلے بھی ہوا تھا ...مگر نہ کوئی دعا دینے کے لیے آیا نہ سسرال سے کوئی جوڑے آئے نہ کسی نے اسے انگوٹھی پہنائی نہ کوئی مٹھائی بانٹی گئی ۔
دعائے خیر کے بعد وہ جانے کتنی ہی دیر اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی جو اس کی چچی نے اسے پہنائی تھی دیکھتی رہی تھی سب کچھ محبت ہی نہیں ہوتی کہ انسان اس کے پیچھے اندھا دھند بھاگ پڑے اور اپنا آپ گنواتا آئے کچھ احساس محبت سے بڑھ کر بھی ہوتے ہیں دیر سے ہی سہی مگر آج اس نے وہ سب احساسات محسوس کیے تھے
ماہم اپنا سیل نمبر بدل کر شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی تھی پھیلتے پھیلتے اس کے رشتے کی خبر اس کے سارے ننھیال تک پہنچ چکی تھی ....کچھ قریبی لوگوں کو فریدہ نے بھی خود ہی بتادیا تھا ظاہر ہے اب اچانک شادی کا کارڈ دینے سے تو رہے ...خبر عادل اور خالدہ تک بھی جاپہنچی تھی مگر انہیں کوئی شاک نہیں لگا وہ تو اپنی طرف سے بہت پہلے ہی ماہم سے کیف کا رشتہ توڑ چکے تھے تو ظاہر ہے اب ماہم کا کسی اور جگہ تو رشتہ طے پانا ہی تھا ۔کاشف نے بھی من ہی من عرش کو خوش قسمت جانا تھا بزنس پارٹیز میں وہ بہت دفعہ عرش سے مل چکا تھا مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہی ماہم کا منگیتر بن جائے گا پتہ ہی نہ چلا تھا کہ2ماہ گزرگئے اور وہ وقت بھی آپہنچا جب ماہم اپنے مایوں میں بیٹھی تھی یہ وہ وقت تھا جب واقعی اس کے دل میں ہو ل اٹھنے لگے تھے صرف ایک ہی ہفتہ بچا تھا اس کی شادی کو ....وہ پھر سے سوچوں میں رہنے لگی تھی ...کہیں اس نے واقعی کوئی جلد بازی تو نہیں کردی تھی
مایوں والے دن سے ہی صدف اور سعد بھی اس کے گھر شادی تک رہنے کے لیے آچکے تھے ۔صدف سے ماہم نے کبھی بھی اپنی اور کیف کی کوئی بات بھی شیئر نہیں کی تھی اس کے باوجود وہ کچھ نا کچھ جانتی تھی جوکہ اس کے ذاتی اندازے تھے اس کے دل میں سوال تو تھے مگر جواب وہ کس سے لیتی سو اس نے تمام سوالات کو جھٹکا تھا اور بڑی ہی گرم جوشی سے مایوں میں شامل ہوئی تھی ۔
ماہم قریشی اس بات سے مطمئن تھی کہ اس نے اپنی عزت نفس کی خاطر کیف کو چھوڑدیا ہے مگر جو بات اسے پریشان کرنے لگی تھی وہ تھی اس پر آنے والی ذمہ داریاں کیا وہ عرش کی اچھی بیوی بن پائے گی کیا وہ عرش کو محبت دے پائے گی کیا وہ اس کا خیال رکھ پائے گی؟ ان2ماہ میں بھی بہت کوشش کے باوجود وہ عرش سے رتی برابر بھی محبت نہیں کرپائی تھی وہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب محسوس ہی نہیں کرپاتی تھی جو اسے اپنے منگیتر کے لیے محسوس ہونا چاہیے تھا ۔
جب جب بھی اس نے اپنا دل کھولا مایوسی ہی ہوئی
اسے کسی حد تک اب لگنے لگا تھا کہ شاید واقعی اس نے جلد بازی کی ہے کیف سے الگ ہونے کے فوراً بعد ہی اسے کسی اور رشتے میں نہیں جڑنا چاہیے تھا خود کو تھوڑا وقت دینا چاہیے تھا مگر وقت دینے کا مطلب تو یہ بھی تھا کہ ایک دفعہ پھر کیف اس کی زندگی میں آسکے شاید تبھی اس نے خود کو وقت ہی نہیں دیا تھا ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
مہندی کا فنکشن بڑے ہی دھوم دھام سے جاری تھا ڈھولک اور تالیوں کی آواز نے ماحول کو خوشگوار بنایا ہوا تھا ہر آنے والے مہمان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ندا خالہ ،احسن ،امبر سبھی ہی تو آئے تھے ۔
مہندی سے سجے ہاتھوں میں مہندی سے ہی لکھا ہوا عرش کا نام جو زینب نے زبردستی اس کے ہاتھوں پر لکھا تھا بہت خوبصورت لگ رہا تھا وہ پیلے ،سبز،گلابی اور کچھ شوخ سے رنگوں کے امتزاج والے لہنگے میں ملبوس تھی اسے پراندہ پہنایا گیا تھا گلاب کے پھولوں کے خوبصورت گجروں سے سجایا گیا تھا جن کی مہک اسے مسحور کرنے کے بجائے جانے کیا کیا سوچنے پر مجبور کر رہی تھی ۔
آج آخری دن تھا اس کی آزادی کا کل سے وہ ایک رشتے میں بندھنے جارہی تھی ایک ایسا رشتہ جسے شاید اس نے مجبوری میں ہی جوڑا تھا خوشی سے نہیں اور مجبوریاں نبھانا کہاں آسان ہوتا ہے ۔
صرف محبت ہی کے لیے قیمت ادا نہیں کرنی ہوتی سکون اور عزت کے لیے بھی بہت سی قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں یہ تو بس ہر انسان کی ترجیحات پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیا چنتا ہے کچھ وقت پر سنبھل جاتے ہیں کچھ ٹھوکر کھانے کے بعد
عرش بھی کاٹن کے سفید شلوار سوٹ میں کافی پرکشش لگ رہا تھا ہلکی بڑھی ہوئی شیو اس کی شخصیت کو چار چاند لگا رہی تھی
ان کے ہاں شادیاں اپنے گھروں میں ہی کی جاتی تھیں اور سارے فنکشنز بھی میرج ہال کا رواج سخت ناپسند کیا جاتا تھا ان سب کا ماننا کہ میرج ہالز نے شادیوں کی وہ رونق چھین لی ہے جو گھروں میں ہوا کرتی ہے لہذا مہندی کا فنکشن بھی ان کے اپنے گھر میں ہی منعقد کیا گیا تھا ۔
اسٹیج پر آنے سے پہلے ماہم کے کمرے میں سارہ بھی فراک پہنے بار بار اس سے لپٹ رہی تھی ماہم بار بار اسے تسلیاں دیتی تھی ۔
’’اوہو سارہ میں کون سا دور جارہی ہوں ساتھ والے گھر میں ہی جارہی ہوں اتنا مت رو کیا کہیں گے سب کے دلہن کی بہن بھوتنی بنی ہوئی تھی ‘‘۔
’’اس گھر میں تو نہیں ہوں گی نہ آپی مجھے اب کون پڑھائے گا ‘‘۔ اسے پڑھائی یاد آئی تھی جو پہلے تو کبھی یاد نہیں آتی تھی ۔
’’میں ہی پڑھاؤں گی بلکہ میں اور تمہارے عرش بھائی مل کر تمہیں پڑھائیں گے عرش کا نام سن کر وہ چہک اٹھی تھی عرش سے تو وہ ضرور ہی پڑھتی ان5سال میں وہ اس کا فیورٹ جو بن گیا تھا ۔
فریدہ بھی آنکھوں میں نمی لیے اس کے کمرے میں آئی تھیں کہہ کچھ نہ پائی تھیں بس اس کے گلے ہی لگی تھیں شہباز بھی بس خود کو بظاہر سنبھالے ہوئے تھے مگر بیٹی کی شادی میں اندر ہی اندر باپ پر کیا گزرتی ہے وہ توصرف ایک باپ ہی سمجھ سکتا ہے ۔وہ تو ماہم سے مایوں کے بعد سے ہی نظریں چرانے لگے تھے اس سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں اسے دیکھ کر ان کی آنکھوں سے غم ہی نہ چھلک پڑ ے وہ گھر میں آئے مہمانوں کے سامنے کسی بچے کی طرح رونا بلکنا نہیں چاہتے تھے تبھی ظبط کیئے ہوئے تھے ۔
اسٹیج پر بٹھاکر اسے کیا رسوم ادا کی گئیں وہ کچھ نہیں جانتی تھی وہ مسلسل اپنے ہی خیالات میں ڈوبی رہی تھی کون آیا کون ملا کیا رسم ہوئی ہر بات سے انجان وہ بس ایک بت کی طرح ہی بیٹھی تھی
ہاٹ پنک اور پیچ کلر کے عروسی لباس میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی جب اس کے بغل میں اس کی زندگی کا ہمسفر بیٹھا تھا وہ مکلمل طور پر خالی الذہن تھی اس وقت سے ہی جب اس کا نکاح عرش قریشی سے پڑھایا گیا تھا ۔
قبول ہے ۔
قبول ہے ۔
قبول ہے۔
کتنی طاقت تھی ان لفظوں میں جنہوں نے ماہم قریشی کو ہمیشہ کے لیے صرف اور صرف عرش قریشی کا کردیا تھا ۔
اس کی سوچوں کی انتہا سے لیکر دل کی گہرائی تک ہر احساس کی شروعات سے لیکر ہر جذبے کی شدت تک سب عرش کے نام ہوچکا تھا ۔
نکاح کے وقت اس نے خود سے ایک عہد کیا تھا بھلے ہی وہ عرش کو محبت نہیں دے پائے گی جس کا وہ حق دار تھا اس معاملے میں اس کا بس نہیں چل سکتا تھا یہ اس کے اختیار میں ہی نہیں تھا مگر وہ ہمیشہ عرش کی وفادار بیوی بن کر رہے گی یہ اس کے اختیار میں تھا اس کی فرمانبرادر بیوی بن کر رہے گی یہ بھی اس کے اختیار میں تھا۔
اس پل اس نے فقط ایک ہی دعا مانگی تھی اپنے رب سے کہ وہ اسے اتنی ہمت اور حوصلہ ضرور دے کہ وہ اپنا خود سے کیا ہوا وعدہ نبھا پائے زندگی میں کبھی بھی اس کے قدم نہ ڈگمگائیں....