ماہم قریشی کا خون اب تک کھول رہا تھا....اس دھوکے باز نے اس کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کیا تھا..... اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیف عالم کا منہ نوچ ڈالے ۔
دوپہر کے دو بج رہے تھے .....اب تک وہ جانے کتنے میسجز اسے کرچکی تھی مگر اس کی بھڑاس تھی جو ختم ہی نہیں ہورہی تھی ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ نمبر آف ہے یا آن....اسے بس اتنا پتہ تھا کہ وہ پاگلوں کی طرح میسج پر میسج کررہی ہے اور سامنے والا خاموش ہے ....۔
دن کے دو بجے تک کرن جاچکی تھی اور کیف اپنے سم کارڈ کو دیکھنے لگا تھا.....جانے اسے کیا سوجھی کہ اس نے اپنی سم آن کرلی ....شاید اندر ہی اندر سے وہ ماہم کے غصیلے میسج پڑھنا چاہتا تھا۔
سم کارڈ آن ہوتے ہی لگا تار بیس پچیس میسج آچکے تھے .....وہ بے اختیار مسکرایا۔اس نے باری باری سارے میسج پڑھنا شروع کیے اور ہر میسج کے بعد وہ بے ساختہ ہنسنے لگتا۔
لچا، لفنگا، دو ٹکے کا لوفر، سڑک پر پڑا ہوا کچڑا اور جانے کون کون سے القابات سے اسے نوازا گیا تھا۔ سارے میسج پڑھ لینے کے بعد وہ سم دوبارہ آف ہی کرنے والا تھا کہ ایک میسج آیا جو اسی وقت ماہم نے اسے کیا تھا جس پر وہ چونک سا گیا۔ کچھ تو گڑ بڑ ضرور تھی ....وہ ایسے کیسے کہہ سکتی تھی ۔
میسج میں لکھا تھا کہ ( بھاڑ میں جائیں آپ...میں آپ سے اپنا رشتہ توڑتی ہوں ...مجھے اب تک امید تھی کہ شاید مجھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو یا آپ مجھے کوئی صفائی دیں گے...مگر آپ نے ثابت کردیا کہ جو میں سوچ رہی تھی وہی سچ تھا....میں ابھی فائزہ آپی کو کال کر کہ بتارہی ہوں کہ میں یہ رشتہ توڑ رہی ہوں ....گڈ بائے )۔
وہ کس رشتے کی بات کررہی تھی ؟؟؟۔ پہلے اس نے منگیتر کہا خود کو....اور اب ؟؟ اب میسج میں بھی رشتے کی بات ؟؟؟ اور فائزہ آپی سے اس کا رابطہ کب ہوا جو وہ اتنے اعتماد سے ان سے بات کرنے کا کہہ رہی تھی ۔
ماہم میسج کرکے غصے میں لال پیلی ہوکرکمرے میں ٹہل رہی تھی ....اپنی طرف سے اس نے آخری حربہ آزمایا تھا....اگر کیف رشتہ توڑ دینے کی دھمکی پر بھی خاموش رہتا ہے تو مطلب صاف تھا....اس کا دل ہچکولے کھانے لگا تھا....بے بسی سے وہ غصے میں پیر پٹخ پٹخ کر چل رہی تھی ۔
کیف کچھ دیر سوچتا رہا .....سمجھنے کی کوشش کرتا رہا....وہ اپنی انہی سوچوں میں اپنا نمبر آف کرنا ہی بھول گیا....کچھ ہی دیر میں اس کے سیل پر فائزہ کی کال آنے لگی.....اگر اس نے ماہم کا میسج نہ پڑھا ہوا ہوتا تو یقیناًوہ فائزہ کی کال کاٹ کر سیل آف کر دیتا مگر اس کی چھٹی حس نے کام کیا....اور اس نے کال اٹینڈ کر لی ۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا فائزہ نے بھرائی ہوئی آواز میں اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ....
’’کہاں ہو تم...ہو کدھر ....کیسے ہو...نمبر آف کیوں تھا.....بولو ...جواب دو...بولتے کچھ نہیں ‘‘۔
’’مجھے بولنے دیں گی تو بولوں گا نا‘‘۔ لہجہ میں اطمینان تھا۔
اس کی آواز سن کر فائزہ اب باقاعدہ رونے لگی تھی ....وہ سارا ہی دن کیف کا نمبرٹرائے کرتی رہتی تھی ....اور اتنے دن بعد آج جا کر قسمت نے اس کا ساتھ دیا تھا۔
’’آپی روئیں نہیں ....‘‘۔ اس نے فائزہ کو چپ کروانا چاہا۔
’’سمجھتے کیا ہو خود کو....یہ کون سا طریقہ ہے کیف؟؟؟ تمہیں ذرا فکر نہیں ہماری ؟؟ جانتے بھی ہو امی کتنا روئی ہیں ...اور ابو جی ؟؟؟ ان کے اندر تو جیسے جان ہی نہیں ہے ....کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تمہیں ....اتنی فکر ہو رہی تھی تمہاری کہ جانے تم کس حال میں ہو....تمہارے ہر دوست ہر جان پہچان والے سے رابطہ کیا ...کسی کو تمہاری کچھ خبر نہیں تھی ....‘‘۔لہجہ میں سختی تھی ....اس وقت وہ رو نہ رہی ہوتی تو یقیناً اسے اچھی خاصی ڈانٹ پلاتی ۔
’’امی اور ابو سے کہہ دیں کہ میں بالکل ٹھیک ہوں ‘‘۔ اس نے کہا ۔
’’گھر کب آوگے کیف ....ہم سب تمہیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں ...تسلی کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔ وہ اب اپنے رونے پر قابو پاتے ہوئے بولیں ۔
’’کون سا گھر آپی ...میرا اب کوئی گھر نہیں ہے ‘‘۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم ...‘‘
’’میں سب سے ناطہ توڑ چکا ہوں ‘‘۔
’’تمہاری خاطر ہم سب نے چچا سے چھپ کر تمہارا رشتہ کر دیا پھر بھی تم یہ سب بکواس کر رہے ہو‘‘۔ وہ طیش میں آئی ۔
’’رشتہ ؟؟ کس سے ؟؟کب ؟؟‘‘۔اس نے سوالات کیئے ۔
فائزہ سمجھ گئی کہ وہ ہر بات سے بے خبر ہے ....اس نے کیف کے گھر سے جانے کے بعد کے تمام حالات بتا دیئے ۔
کیف کو سن کر شاک لگا تھا.....جب وہ ماہم قریشی کے لیے سب کی منتیں کرتا پھر رہا تھا....تب کسی نے اس کی بات نہیں مانی ....اس کے صبر کا امتحان لیا.......اور اب جب وہ اسے چھوڑ دینے کا حتمی فیصلہ کرچکا تھا ....بلکہ چھوڑ ہی چکا تھا تو ایک بار پھر اس کا رشتہ کرکہ اس کے صبر کا امتحان لیا جارہا تھا.....وہ کب تک اور کیسے چچا کی باتوں کو برداشت کرے گا۔
کیف کا سر اس پل واقعی چکڑایا تھا....وہ بے ساختہ کہہ بیٹھا۔
’’میں رشتہ کرنا نہیں چاہتا تھا‘‘۔
فائزہ کو اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا۔
’’کیا کہا تم نے ؟؟‘‘۔
’’آپی ....وہ .....کچھ نہیں ‘‘۔وہ کچھ کہتے کہتے رکا۔ اب وہ کچھ کہتا تو اس کی خیر نہیں تھی ۔
’’کچھ نہ ہی ہو تو بہتر ہے ....پہلے ہی تم بہت تماشہ کرچکے ہو‘‘۔ اس نے تنبیہ کی۔
’’جلد از جلد گھر آو....اور فی الحال امی کو سیل فون دے رہی ہوں ان سے بات کرلو‘‘۔فائزہ نے کہتے ہوئے خالدہ کے کمرے کا رخ کیا۔
خالدہ نے کیف سے بہت جذباتی باتیں کی تھیں ....اس کو ڈانٹا بھی تھا....رشتے کی مبارک بھی دی تھی .....اپنا سارا دکھ سنایا.....اور جلد گھر آنے کا حکم دیا۔
کیف نے بھی جلد از جلد گھر واپس آنے کا وعدہ کردیا.....خالدہ نے عادل سے بھی بات کروانا چاہی مگر کیف نے ٹال دیا....اس وقت اس میں عادل سے بات کرنے کی ہمت نہ تھی ....نہ وہ ان کے سوالوں کے جواب دے پاتا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہم بیچاری غصہ کر کر کے تھک چکی تو اب حسب عادت آنسو بہانے میں مصروف ہوگئی ۔ فائزہ کو کال کر کہ رشتہ توڑ دینے کی ہمت اس میں نہ تھی....وہ اظطراب کی سی کیفیت میں اب تک ٹہل رہی تھی ۔
فائزہ کی کال کے بعد کیف نے بہت سوچا.....اس کے پاس اب کوئی آپشن نہیں تھا.....خود با خود ہی راستہ بن گیا تھا اور اس کا رشتہ ماہم قریشی سے ہوگیا تھا.....اسے اب اپنی غیرت کو مارکر یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی تھا۔
اس نے اپنے دل کو ہر طرح سے سمجھایا کہ اس میں ماہم کا کیا قصو ر ہے ؟؟؟جو کچھ کہا چچا نے کہا....اور وہ ماہم کے ساتھ شادی کرتے ہی اپنے چچا سے سارے تعلقات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا ....کبھی ان کے سامنے خود آئے گا نہ ماہم کو آنے دے گا۔وہ انہی سب سوچوں میں گرفتار تھا کہ کسی خیال نے اس کے چھکے اڑائے تھے .....ماہم .....وہ جانے اب کیا سمجھ بیٹھی تھی ....اب وہ اسے یقین کیسے دلوائے گا کہ اس کی زندگی میں کوئی اور نہیں ....اس نے ماہم کا خیال آتے ہی فوراً اسے کال کردی ۔
ماہم جو ابھی تک آنسو بہانے میں مصروف ہی تھی اس کی کال پر یک دم اٹھ بیٹھی تھی .....پلک جھپکتے ہی اس نے کال اٹینڈ کرلی تھی مگر خاموش رہی ....کال اٹینڈ کرتے ہی اسے یہ خیال گزرا کہ جانے یہ کیف ہی ہے یا وہ رات والی چڑیل ۔
’’کیسا لگا تمہیں میرا مزاق‘‘۔ اس کے کال اٹینڈ کرتے ہی کیف نے کہا۔
’’مزاق.....؟؟؟‘‘۔وہ حیرت زدہ ہوئی ۔
’’ہاں نا مزاق....تم مجھے کتنا تنگ کرتی تھی ....بس میں نے سوچا تھوڑ ا سا تنگ تمہیں بھی کرلوں ‘‘۔لہجہ میں شرارت تھی ۔
’’جھوٹ مت بولیں...کوئی مزاق نہیں تھا وہ....میں نے آپکا اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے ‘‘۔ وہ برہم ہوئی ۔
’’oh come on کہا نا مزاق تھا.....اگر ایسا ویسا کچھ ہوتا تو یقین مانو تم سات جنم میں بھی نہ جان پاتی ....‘‘۔ لہجے میں اعتماد تھا۔
’’مگر اب تو جان گئی ہوں نا ‘‘۔وہ قائل نہیں ہوئی تھی ۔
’’جان گئی ہو کیوں کے میں نے جاننے دیا ....ورنہ خود سوچو میں کیوں کسی اور کو تمہاری کال اٹینڈ کرنے دیتا ‘‘۔ وہ ماہم کو سچ بتاکر الجھانا نہیں چاہتا تھا ....نہ ہی اسے کوئی لمبی چوڑی اپنے گھر چھوڑ جانے کی تفصیل سنانا چاہتا تھا....یہ سب باتیں کال پر مناسب نہیں لگتیں ....۔
’’چلو مان لیا کہ مزاق تھا مگر اتنے دن سے کہاں غائب تھے آپ ‘‘۔ وہ کچھ نرم پڑی ۔
’’اچھا ....ممم...مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم مجھ سے بات کرنے کے لیے اتنی بے چین ہوگی ...اب جب پتہ لگ گیا ہے تو بندہ حاضر ہے"
اس نے چھیڑا وہ بھی مسکرادی
*********
***************** 12 دن بعد کیف مسکراتا ہوا گھر میں داخل ہوا تھا مگر سامنے ہی لان میں کاشف کو ٹہلتا دیکھا ۔
کاشف اسے دیکھتے ہی اس کی جانب بڑھا ...کیف کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی ۔ کاشف نے اس کے قریب آ کر اس کو گلے لگایا .....کیف نے بھی رسماً ہلکا سا ہاتھ کاشف پر رکھ دیا تھا ۔
’’بھابی نے بتایا کہ تم گھر آئے ہو ورنہ تم نے تو آ کر ملنا ہی چھوڑ دیاہے ‘‘۔ وہ خوش اخلاقی سے شکوہ کر رہا تھا ۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ...میں چند گھنٹے پہلے ہی آیا ہوں ‘‘۔ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا...۔
’’آتے ہی آرام کرتے...سفر کی تھکاوٹ اتارتے .....کہاں چل پڑے تھے ‘‘۔ کاشف نے جانچتی نظروں سے کیف کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’دوست سے ملنے گیا تھا ‘‘۔ کیف نے اپنا ماتھا ہلکا سا کھجاتے ہوئے کہا۔
’’اور سناؤ بھئی ...کیا حال چال ہیں ....‘‘۔ کاشف نے کیف کے کندھے پر اپنا بازو ڈال لیا....اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلنے لگا ۔
کیف کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ پھر سے بولا ۔
’’بڑا پریشان کیا تم نے...بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے .....یوں لا پتہ ہو کر بڑی بچکانی حرکت کی تم نے ...مگر خیر جانے دو.....اب بتاؤ....کچھ عقل آئی یا نہیں ....لڑکیوں کی پہچان ہوئی یا نہیں ‘‘۔وہ اسے کریدنے لگا تھا ۔
’’مجھے لوگوں کی پہچان ہو گئی ہے چچا‘‘۔ اس نے ذومعنی جواب دیا۔
کاشف ذرا سا ہنس پڑا ۔
’’شکر ہے....اب اپنی پڑھائی پر دھیان دو....اور اب کسی ایسی ویسی کے چکر میں پڑ کر ہمیں خوار نہ کرنا ‘‘۔ اپنی بات کہتے ہی اس نے خود ہی ہلکا سا قہقہہ لگا دیا ۔
کیف نے رک کر کاشف کو دیکھا ...پھر نرمی سے اس کا بازو اپنے کندھے سے ہٹا یااور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لے کر نرمی اور چہرے پہ ہلکی سی مسکان کے ساتھ بولا۔
’’آپ میری بالکل بھی فکر نہ کریں چچا.....آپ اپنے بیوی بچوں کی طرف دھیان دیں ...ان کو آپ کی زیادہ ضرورت ہے ‘‘۔
اسی طرح مسکراتے ہوئے ہی اس نے کاشف کا ہاتھ چھوڑا اور نرمی سے کہا ۔
’’میں تھکا ہوا ہوں ...آرام کرنے جا رہا ہوں"
جواب کا انتظار کیے بغیر وہ آگے بڑھ گیا اور کاشف کسی سوچ میں ڈوب گیا
’’امو...میں خالہ کے گھر جا رہا ہوں ....شاید آج کچھ دیر ہو جائے ....‘‘۔وہ خود پر پرفیوم سپرے کرتے ہوئے بولا ۔
’’کیف!!! ‘‘۔ وہ حیرت زدہ ہوئیں ۔
’’کل ہی تو گئے تھے تم....آج پھر ؟؟‘‘۔ وہ متفکر تھیں۔
’’کل انہوں نے بہت کہا کہ میں کھانا کھا کر جاؤں ....مگر مجھے جلدی تھی .....ان سے وعدہ کیا تھا کہ دوبارہ ڈنر کرنے آؤں گا....کل تو واپس کراچی جا رہا ہوں اس لیے سوچا آج ہی چلا جاؤں ‘‘۔اس نے بتایا۔
’’مگر میں نے تم سے کہا تھا کہ پہلی اور آخری بار جاؤ گے ‘‘۔ انہوں نے جتایا۔
’’امو...آج آخری بار ....ویسے بھی میں تو یہاں ہوتا ہی نہیں....تو بس یہی میرا آخری ڈنر ہو گا ‘‘۔ وہ لاپرواہی سے بولا تھا ۔
’’مگر ابھی تو شام کے چار بج رہے ہیں ....یہ ڈنر کا کون سا وقت ہے ؟؟‘‘۔ وہ تیوریاں چڑھائے بولیں ۔
’’اب عین کھانے کے وقت جا کر بیٹھ جانا اچھا لگتا ہے کیا ؟؟؟ پہلے جاؤں گا نا تاکہ خالہ سے حال احوال بھی کر لوں ‘‘۔ وہ اسی ہی انداز میں کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا تھا ۔
خالدہ کچھ کہتے کہتے رہ گئی ...۔
کیف نے صبح اٹھتے ہی ماہم سے کال کر کے پوچھ لیا تھا کہ کہیں ان کے گھر ان دونوں کے ننھیال میں سے کوئی ہے تو نہیں ؟؟ یا کسی کا آنے کا ارادہ تو نہیں جس پر ماہم نے ہنس کر یہی کہہ دیا کہ ننھیال میں سے خالہ ندا کے علاوہ کوئی اتنا فارغ نہیں کہ ہر وقت سر پر سوار رہے .....اور خالہ ندا بھی فی الحال اپنے سسرال میں کسی شادی پر گئی ہیں
کیف کو تسلی ہوئی تو اس نے ماہم کے گھر جانے کا پلان بنالیا تھا.....