اور آج یعنی اس واقعے کے5سال بعد ایک دفعہ پھر ماہم قریشی کا ذکر خالدہ کے گھر میں چل پڑا تھا۔5سال پہلے کی طرح ایک بار پھر وہی ماہم قریشی اور وہی رشتے کی بات اس گھر میں تباہی لانے والی تھی ۔ پہلے اسی بات نے دو بہنوں کو ہمیشہ کے لیے جدا کیا تھا اور اب یہی بات دو بھائیوں عادل اور کاشف کے الگ ہونے کی وجہ بن سکتی تھی ۔
حالانکہ کاشف نے ان تمام حالات کے کچھ ہی مہینوں بعد شادی کرلی تھی اور اس کے اب2بچے بھی تھے مگر خالدہ اچھے سے جانتی تھیں کہ وہ اپنی بے عزتی نہ بھولا ہے اور نہ بھولے گا۔ کاشف کو عادل نے ہمیشہ اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار کیا تھا ۔ کم عمری میں ہی وہ یتیم ہوئے تھے اور عادل کو ان کے والد نے کاشف کی ذمہ داری بیماری کی حالت میں ہی سونپ دی تھی ۔
عادل نے ہمیشہ کاشف کو اپنی اولاد سے بڑھ کر مانا اور اپنے والد کو کیا گیا وعدہ نبھایا۔ کاشف اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور اس وقت بہت ہی کم عمر تھا جب اس کے والد کی وفات ہوئی تھی ۔ البتہ والدہ کچھ عرصہ حیات رہی تھیں مگر پھر وہ بھی وفات پاگئیں ۔ یوں کاشف ہمیشہ سے ہی عادل کے ساتھ رہا تھا اور شادی کے بعد بھی اس نے اپنے گھر کاحصہ عادل کو بیچ کرباقی بہن بھائیوں کی طرح علیحدگی اختیار نہیں کی تھی ۔
سب حالات میں خوامخواہ ہی خالدہ پسی تھی اور ایک دفعہ پھر خوامخواہ ہی اسے پسنا تھا۔ اپنے بیٹے کی خواہش کی خاطر اسے اپنے شوہر․․․․سے لڑنا تھا۔
کیف اب کچھ دن سکھر ہی رہنے والا تھا مگر اپنے گھر نہیں فائزہ کے گھر ۔ وہ عادل کے سامنے آکر ان کو طیش میں لانا نہیں چاہتا تھا۔خالدہ نے ساری صورتحال عادل کو بتادی تھی اور صاف صاف ہی بتائی تھی کہ کیف ماہم کو پسند کرتا ہے ۔
عادل یہ سنتے ہی آگ بگلولہ ہوکر خالدہ پر برسے تھے ۔
’’تمہارے بیٹے کی ہمت کیسے ہوئی اس گھر کا سوچنے کی ؟؟؟ ساری دنیا میں میرا ایک ہی دشمن ہے جس کی شکل میں نے 12 سال سے نہیں دیکھی اور کیف کو ساری دنیا میں میرے دشمن کی ہی بیٹی ہی ملی تھی ‘‘۔
’’اس نے تو اچھا ہی سوچا ہے ․․․․دشمنی کو ختم کرنے کا سوچا ہے ․․․آپ خود سوچیں ․․․․․ہم پہلے بھی تو ماہم لینا چاہتے تھے تو وہی ماہم اب لے لیتے ہیں ‘‘۔ خالدہ نے قائل کرنا چاہ ۔
’’خالدہ!!!․․․․․․․․ انہوں نے میری اور میرے بھائی کی بے عزتی کردی اور ایک بار بھی نہیں سوچا․․․․اسی گھر میں تم مجھے دوبارہ رشتہ کی بات کے لیے بھیجنا چاہتی ہو‘‘۔ وہ چلائے ۔
’’اولاد کی خوشی کی خاطر ․․․․․․والدین ہی قربانی دیتے ہیں ‘‘۔ خالدہ نے مدھم سی آواز میں کہا۔
’’کاشف بھی میری اولاد کی طرح ہی ہے ․․․میں اس کے ساتھ یہ زیادتی ہرگز نہیں کروں گا․․․اور اب اگر مزید تم نے کوئی بات کی تو میں تمہیں تمہارے بیٹے کے پاس کراچی بھیج دوں گا․․․․․‘‘۔ وہ اس بات سے انجان تھے کہ کیف کراچی سے آچکا ہے ۔ خالدہ نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ماہم کی خاطر انہیں منانے کی نیت سے سکھر آچکا ہے اور فائزہ کے گھر میں ہے ۔
لگاتار چار دن تک خالدہ وقفے وقفے سے عادل کو منانے کی کوشش کرتی رہی تھی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تھے ۔تھک ہار کر وہ فائزہ کے گھر کیف سے ملنے چلی گئیں اور جواب دے دیاکہ تمہارے ابو جی نہ مانے ہیں اور نہ مانیں گے ۔
’’پلیز ان کو منائیں امو․․․․․․ کچھ بھی کرکہ منائیں ان کو․․․․یا پھر میں جاکر ان سے بات کرتا ہوں․․‘‘۔اس نے منت کی ۔
’’کیف ان کے سامنے مت جاؤ․․․وہ تم پر ہاتھ ہی نہ اٹھادیں ۔ جوان بیٹوں کو ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے باپ ان پر ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہوجائیں ‘‘۔ خالدہ نے سمجھایا ۔
’’اٹھالیں ہاتھ․․․چاہے مجھے گولی ماردیں ․․․مجھے کوئی غم نہیں ہوگا․․․․مگر میں یوں ہی ماہم کا رشتہ کہیں اور ہوتے نہیں دیکھ سکتا․․․․اگر میں نے دیر کردی تو اس کا رشتہ کہیں اور پکا ہوجائے گا‘‘۔ انداز میں بے بسی اور جنون یکساں نظر آئے۔
’’افف کیف․․․․کیا ہوگیا ہے تمہیں ․․․‘‘۔ فائزہ بولی تھی ․․’’ہونے دو اس کا رشتہ اور تم بھی اسے بھول کر اپنی پڑھائی پر لگو‘‘۔
’’نہیں بھول سکتا․․․․․میں یہاں کھڑے رہ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرسکتا․․․․․میں ابوجی کے پاس جارہا ہوں ‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ جنونی سے انداز میں گھر سے باہر نکل گیا۔
’’خالدہ اور فائزہ نے بھی پریشانی کی عالم میں اپنی چادریں سنبھالیں اور اس کے پیچھے ہولیں۔
کیف گھر آتے ہی اپنے ابوجی کے قدموں پربیٹھ گیا۔
’’آپ نے ساری زندگی اپنے بھائی کو مجھ پر زیادہ اہمیت دی ․․․جب بھی کچھ خریدا پہلے چچا سے پسند کروایا․․․․جب بھی کوئی مشورہ کیا پہلے چچا سے کیا․․․․میں نے کبھی آپ سے کوئی شکوہ نہیں کیا۔کوئی شکایت نہیں کی ․․․․زندگی میں پہلی بار آپ سے صرف اتنا مانگ رہا ہوں کہ اس بار آپ میری خوشی کو چچا کی ضد پر اہمیت دے دیں ․․․․میں وعدہ کرتا ہوں یہ پہلی اور آخری بار ہوگا ‘‘۔ وہ گڑگڑایا۔
عادل خاموش رہے ۔ وہ ان کے سامنے آنسو بہارہا تھا․․․․عادل نے اپنے قدموں پر بیٹھے ہوئے کیف سے نظریں ہٹالیں ۔
’’آپ میرے حصے کی ساری جائیداد چچا کو دے دیں ․․․چاہے مجھے اس گھر سے بھی نکال دیں مگر میرے وارث بن کر صرف ایک بار میرا رشتہ لے کر ماہم کے گھر چلے جائیں ‘‘۔ وہ کسی بچے کی طرح سسکیاں لیتا ہوا کہہ رہا تھا۔
خالدہ اور فائز ہ بھی پہنچ چکی تھیں اور یہ منظر دیکھ رہی تھیں ۔
’’لے جاؤ اسے میری نظروں سے ․․․․اس سے پہلے کہ میں اپنا آپا کھودوں ‘‘۔ وہ گرجے ۔
فائزہ اور خالدہ دونوں کیف کی طرف لپکیں اور اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگیں ۔
’’جب تک ابوجی مان نہیں جاتے میں کہیں نہیں جاؤں گا‘‘۔ اس نے خود کو فائزہ اور خالدہ سے چھڑواتے ہوئے کہا۔
’’بچے مت بنو کیف․․․․اٹھو․․․‘‘۔ فائزہ نے نرمی سے کہا۔
’’میں مرجاؤں گا․․․آپ سب میری شکل دیکھنے کو بھی ترسیں گے ․․․‘‘۔ کیف بڑبڑایا․․․․․
عادل نے کیف کے الفاظ سنے تھے مگر وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے چلے گئے ۔
وہ گھٹنوں پر بیٹھا روتا رہا․․․جانے کتنی دیر ․․․․
فائزہ اور خالدہ نے اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں اٹھا․․․اسے بہلانے کی کوشش کی مگر وہ نہ بہلا۔
’’میں نے زندگی میں پہلی اور آخری خواہش کی تھی․․․پہلی دفعہ آپ سب سے کچھ مانگا تھا‘‘۔
’’میں اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوں ۔سب چھورنے کو بھی تیار ہوں ․․․․صرف ایک بار کوئی میرے ساتھ چلے ․․․کوئی اس کا ہاتھ میرے لیے مانگ دے ․․․میں کبھی کچھ نہیں مانگوں گا․․․یہاں تک کہ چچا کو اپنی یا ماہم کی کبھی شکل تک نہیں دکھاؤں گا‘‘۔وہ گڑگڑایا مگر بے سود۔.......................... فائزہ اپنے گھر نہیں گئی تھی ․․وہ تب تک اپنے گھر نہیں جانے والی تھی جب تک کیف واپس کراچی نہ چلا جاتا۔صبح ہوتے ہی کیف فائزہ کے پاس آیا تھا۔
’’آپ چچا سے بات کریں آپی ‘‘۔ وہ بنا کسی تمہید کے بولا تھا۔
’’میں ‘‘۔ وہ چونکی ۔
’’ہاں آپ ‘‘۔اس نے زور دے کر کہا۔
’’میں کیا بات کروں گی کیف ‘‘۔ اسے سمجھ ہی نہ آیا۔
’’جو بھی کریں ․․․وہ میں نہیں جانتا ․․․بس کچھ بھی کرکہ چچا کو اس بات پر منائیں کہ وہ میرے اور ماہم کے رشتے کے درمیان رکاوٹ نہ بنیں ‘‘۔اس نے منت سی کی ۔
’’ٹھیک ہے میں موقع دیکھ کر بات کروں گی ‘‘۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔
’’موقع دیکھنے جتنا وقت نہیں ہے آپی ․․․․ابھی اسی وقت چچا سے بات کریں ‘‘۔ اس کے انداز میں ہی جلد بازی تھی ۔اس نے فائزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا․․․․اسے جتنی جلدی تھی اس کا بس چلتا تو وہ فائزہ کو اٹھا کر ایک سیکنڈ میں چچا کے پاس پہنچا دیتا. کاشف کے کمرے تک جاتے ہوئے وہ یہی سوچتی رہی کہ وہ کیا بات کرے گی ؟ کیسے کرے گی ؟ شروع کہاں سے کرے گی ؟ اور ختم کہاں پر کرے گی؟
5سال پہلے جو کچھ ہوا تھا وہ سب فائزہ کے بھی سامنے ہی تو ہوا تھا۔ وہ بھی ہونے والے ہر حالات و اقعات سے واقف تھی ․․․․اس کے لیے یہ بات کاشف سے کرنا کتنا کٹھن تھا یہ صرف وہی جانتی تھی ۔
سہمی سہمی سی وہ کاشف کے کمرے میں گئی تھی ․․․اس کی چچی وہاں ہی بیٹھی تھیں البتہ بچے گھر میں کہیں کھیل کود رہے تھے ۔
کاشف نے فائزہ کو دیکھتے ہی بڑی سی مسکراہٹ دی ․․․․بڑی ہی گرم جوشی سے اس سے حال احوال لیے اور پھر اسی گرم جوشی سے ہی نادیہ کو چائے بنانے کا کہا۔نادیہ بھی مسکراتی ہوئی چائے بنانے کے لیے چلی گئی ۔ یہی وہ وقت تھا جب فائزہ با آسانی کاشف سے بات کرسکتی تھی ۔
’’چچا آپ سے کچھ بات کرنی تھی ‘‘۔ وہ کچھ سہم کے بولی ۔
’’کرو بچے ‘‘۔ کاشف نے اس کا سہما ہوا انداز محسوس کیا تھا۔
’’چچا جو کچھ بھی5سال پہلے خالہ فریدہ اور ہمارے درمیان ہوا کیا ہم اسے بھول نہیں سکتے ․․․؟؟ان سے ․صلح نہیں کرسکتے؟؟ ․․․‘‘ اسی سہمے ہوئے انداز میں اس نے کہا۔
’’کیسی بات کر رہی ہو فائزہ ․․․․یہ کیسے ممکن ہے ؟ میں اپنی بے عزتی کیسے بھول سکتا ہوں ‘‘۔ کاشف کا لہجہ یکدم ہی بدل چکا تھا․․․․وہ ماتھے پر تیوڑیاں چڑھائے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’کیا فائدہ چچا دشمنی کا․․․․معاف کردینا افضل ہے ․․․آپ بھی ان سب کو معاف کردیں اور صلح کرلیں ‘‘۔ وہ رک رک کر بول رہی تھی ۔
’’مگر میں اتنا افضل نہیں ہوں فائزہ کہ انہیں معاف کردوں ․․․․․رہا سوال دشمنی کا تو دشمنی وہ ہوتی ہے جہاں دو لوگ ایک دوسرے کے خلاف کوئی نا کوئی منصوبہ بناتے رہیں ․․․․․ہم تو صرف ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھتے نہ دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘۔ وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔
’’چچا میری خاطر ․․․․پلیز․․․پلیز آپ سب کچھ بھول جائیں ‘‘۔ اس نے جذباتی بلیک میلنگ کی کوشش کی
’’تمہاری خاطر اس بارے میں سوچ سکتا ہوں ․․․․سوچوں گا اس بارے میں ․․․․․وگرنہ مجھے ایسا کچھ سوچنا بھی گنوارا نہیں ․․․ہاں مگر کوئی وعدہ نہیں کرتا‘‘۔ ماتھے پر ڈالے بل ختم کئے اور صوفے پر ٹیک سی لگائی پھر کچھ تشویشی نظروں سے فائزہ کو دیکھا اور کہا۔
’’مگر اچانک یہ صلح صفائی کی باتیں کیوں ہونے لگیں ‘‘۔
اگر کیف کو اتنی جلدی نہ ہوتی تو فائزہ اس وقت چچا سے صرف سوچنے کی بات ہی منواتی ۔۔۔اس کے پاس وقت ہوتا تو وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی مگر ماہم کے کہیں اور رشتہ طے پاجانے کے ڈر سے کیف کچھ ہڑبڑا سا گیا تھا ۔
’’چچا میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گی ․․․دراصل ہم ماہم کا ہاتھ کیف کے لیے مانگنا چاہتے ہیں ‘‘۔ وہ ایک ہی سانس میں بول گئی ۔
’’کیا کہہ رہی ہو تم ․․․‘‘ کاشف یکدم ہی صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
’’اگر ایسا کیا تو میں تم سب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناطہ توڑ دوں گا‘‘۔ اس نے دھمکی دی ۔
’’جذباتی ہوکر مت سوچیں چچا․․․آپ دیکھیں نا آپ کو نادیہ چچی جیسی کتنی اچھی شریک حیات ملی ہے․․․‘‘۔ وہ کچھ جھجک کے بولی ۔
’’بات اچھی شریک حیات کی نہیں ہے ․․․بات عزت کی ہے ‘‘۔ دوٹوک جواب آیا۔
’’کیف ماہم کو پسند کرتا ہے ․․․‘‘‘۔ اس نے کاشف پر دھماکہ کیا․․․اس کے علاوہ اسے اب کوئی چارہ نہیں لگا․․․وہ خوامخواہ بحث کرنے کے بجائے اصل بات پر آئی تھی ․․․۔
کاشف کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور چلاگیا․․․․․․پھر کچھ سنبھلتے ہوئے وہ بولا۔
’’پسند تو میں بھی کرتا تھا․․․جب انہوں نے مجھے رشتہ نہیں دیا تو کیا کیف کودیں گے ؟؟ جو ابھی بچہ ہے کماتا تک نہیں ہے ‘‘۔ انداز میں مغروری نظر آئی ۔
’’وہ سب تو بعد کی بات ہے چچا․․․․پہلے آپ اجازت تو دیں کہ ہم کیف کے لیے بات چلائیں ‘‘۔ انداز التجائیہ تھا ۔
’’میں مرجاؤں گا مگر کبھی اس رشتے لے لیے ہامی نہیں بھروں گا‘‘۔ اس سے پہلے کہ فائزہ کچھ کہتی وہ بولے چائے آنے والی ہوگی ․․․چائے پی کر ہی جانا‘‘۔ یہ اس بات کا اشارہ تھاکہ وہ چائے پیئے اور وہاں سے چلتی بنے ․․․․مزید کوئی بات کرنے کی سوچے بھی مت ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’کیا کہا چچا نے ‘‘۔ وہ کمرے میں آتی ہوئی فائز ہ کی طرف لپکا تھا۔
’’وہی جس کی امید تھی ‘‘۔ وہ نظریں چرائے بولی ۔
’’مگر کیوں ؟؟ انہیں آخر مسئلہ کیا ہے ؟ دو بچوں کے باپ ہیں وہ ․․․․․․ابھی بھی انہیں پچھلا رشتہ ٹوٹنے کا غم ہے ․․․بلکہ رشتہ ہوا ہی کہاں تھا․․․ابھی تو رشتہ بھی نہیں ہوا تھا․․․․رشتہ کیا․․․ان کا نکاح بھی ہوجاتا اور پھر ٹوٹ جاتا تب بھی ماہم مجھ پر جائز تھی ․․․تب بھی میں اس سے نکاح کرسکتا تھا ․․․․ہمارا مذہب مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے․․․ ‘‘۔ اس نے اب مذہب کا سہارا لیا۔
’’جائز نا جائز کو بیچ میں مت لاؤ کیف ․․․․ایسا بہت کچھ ہے جو ہم مسلمان ہونے کے باوجود نہیں کرتے ․․․اور مسلمان ہونے کے باوجود کرتے ہیں ․․․․․․اگر ہم ہر معاملے میں اپنے مذہب کے احکام پر چلتے تو آج تمہاری یہ مشکل بھی آسان ہوجاتی ․․․‘‘وہ کمرے سے جانے کے لیے پلٹی ۔
پلٹنے پر اس کی نظر خالدہ پر پڑی جو اس وقت کمرے میں ہی داخل ہو رہی تھی ۔
’’امی یہ کیا بات ہوئی ․․․میں کیوں مذہب کا حوالہ نہ دوں ؟ کہاں لکھا ہے کہ ماہم چچا صاحب (چچا صاحب اس نے طنزیہ کہا تھا) کی منگیتر ہوتے ہوتے رہ گئی تو اب میری بھی نہیں ہوسکتی ․․․بتائیں آپ ‘‘۔ وہ خالد کی طرف بڑھ کر بولا۔
’’کہیں نہیں لکھا کیف ․․․․مگر تم اپنی یہ ضد چھوڑدو․․․․تم نے اپنے ابوجی سے بھی بات کرلی ہے اور اپنے چچا کا انکار بھی جان گئے ہو․․․اب بس کرو․․․․․․ختم کرو یہ ڈرامہ ‘‘۔ وہ جیسے اس کے اس پاگل پن سے زچ سی ہوگئی تھیں
’’یہ ضد نہیں ہے ․․․آپ سب کیوں نہیں سمجھ رہے ․․․․میں نے زندگی میں کبھی کسی لڑکی کو مڑکر بھی نہیں دیکھا ․․․․یہ آپ سب بھی جانتے ہیں ․․․نہ میری ایسی نیچر ہے کہ میں کسی کی طرف بھی بس یونہی اٹریکٹ ہوجاؤں ․پھر کیوں ؟؟ پھر کیوں آپ سب ․․․․․․ْ؟؟؟․․‘‘۔ آواز میں بے بسی تھی۔
خالدہ نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا․․․․اور اس کی پشت پر نرمی سے ہاتھ پھیر کر تسلی سی دی
چچا ‘‘۔لہجہ سرد تھا۔
کاشف نے سر اٹھا کر کیف کو دیکھا ․․اور پھر سے نظریں اخبار پر جھکالیں ․․․․․․وہ اس وقت لان میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔
کیف اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیااور گلہ کھنکار کر کہا۔
’’کل فائزہ آپی نے آپ سے میرے بارے میں بات کی تھی ․․․․میں اسی سلسلے میں آیا ہوں ‘‘۔
کاشف نے ایک دفعہ پھر اس کی طرف دیکھااور پھر اپنی اخبار کو لپیٹ کر میز پر رکھ دیا۔ اب وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی اس کی طرف کچھ جھکا اور لہجے میں نرمی لیے ہوئے کہا۔
’’بیٹا کیف․․فرض کرو میں مان بھی جاؤں تب بھی تمہارا ہی نقصان ہے ․․․․اور میں تمہارا نقصان نہیں چاہتا ‘‘۔
’’کیسا نقصان چچا‘‘۔ کاشف کے لہجے میں نرمی دیکھ کر کیف کا اعتماد کچھ بحال ہوا تھا․․․․وہ اب با آسانی اپنا موقف بیان کرسکتا تھا۔
’’ماہم گھر بسانے والی لڑکیوں میں سے نہیں ہے ․․․نہ ہی کسی ایک مرد پر ٹکنے والوں میں سے ہے ‘‘۔ وہ بڑی رسانیت سے کہہ گیا اور کیف کے دل میں سوئی سی چبھی مگر اس نے اپنے چہرے کے تاثرات نہیں بدلے تھے ۔
’’دیکھو کیف ․․․13سال کی عمر میں جو لڑکی اپنے سے دگنی عمر والے کو پھانس سکتی ہے․․․․․ اس کے لیے 26سال کی ہونے کے بعد تم جیسے نوجوان لڑکے کو پھنسانا کوئی مشکل بات نہیں․․․میں اس کے لیے تمہیں ہرگز قصوروار نہیں سمجھتا․․․․․جب میں ایک میچیور انسان اس کی اداؤں کے سامنے ہار گیا تو تم کیا چیز ہو ‘‘۔ اس بار کے الفاظ نے کیف کے اندر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا․․․کاشف اس کی غیرت کاامتحان لینے پر تلا تھا․․․جس لڑکی کو وہ اپنی بیوی بنانے کا سوچ رہا تھا․․․․․ اسی کا نام وہ اس بے دردی کے ساتھ بار بار اپنے ساتھ لے رہا تھا․․․․․ وہ بھی اتنے واہیات طریقے سے ۔
کاشف عالم اس پر یہ جتا رہا تھا کہ اس کی محبت اس سے پہلے اس کی محبت تھی ۔ کیف عالم نے غیر دانستہ طور پر نظریں جھکالیں اور اپنے دانتوں کو پیسا ․․․․۔
’’یہ تمہارے لیے بھی باعث شرمندگی کی بات ہوگی کہ اپنے چچا کی محبوبہ کو اپنی بیوی بنالو‘‘۔وہ اس کی جھکی نظروں کو دیکھ کر بولا۔
اب کی بار اس کی رگیں تنی تھیں ۔
’’تمہیں ایک مشورہ دیتا ہوں کیف․․․․اس لڑکی سے دل لگی کرنا چاہو، سو بار کرو․․․میں ایک حرف بھی کہہ گیا تو میرا نام کاشف عالم نہیں مگر اسے اپنی عزت بنانے کا سوچنا بھی نہیں ․․․․․․وہ اس لائق نہیں ہے ․․․․․․ویسے بھی تمہیں اور کیا چاہئے ․․․مزے کرو بس‘‘۔ بڑی ہی سہولت سے یہ کہہ کر اس نے میز پر پڑی ہوئی اخبار دوبارہ اٹھائی اور پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔
کیف عالم کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا․․․اس کا وجود تپنے لگا تھا․․․․۔
کچھ لمحے وہ وہاں ہی بیٹھا رہا کہ شاید ہمت کرکے وہ کوئی جواب دے سکے مگر اس کے پاس جواب تھا کہاں ؟؟؟۔ وہ یوں ہی سرخ چہرہ لیئے اپنے کمرے میں چلا آیا اور ایک زور دار پنچ دیوار پر دے مارا ۔
اس پنچ نے اس کو تسکین نہیں دی تھی․․․․اس نے پوری قوت سے ایک اور پنچ دیوار پر مارا․․․․شاید اب بھی کچھ کمی رہ گئی تھی ․․․․اس نے پھر سے ایک پنچ مارا․․․․دیوار پر خون کے نشان نظر آئے ․․․․اس نے اپنا ہاتھ دیکھا۔خون اسکی انگلیوں سے بہ رہا تھا۔ بے اختیار وہ ایک جنونی قہقہہ لگا کر زمین میں گرتا چلا گیا۔وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا اپنے ہاتھ دیکھنے لگا․․․خون میں لت پت ہاتھوں کی لکیریں دیکھنے لگا ․․․پھر کسی جنونی انداز میں اپنے دونوں ہاتھو ں کے پنچ بنا کر زمین پر مارنے لگا ․․․۔
اسے یہ غصہ کس پر تھا ؟؟؟ کاشف پہ ؟ ماہم پہ ؟ خود پہ ؟ یا اپنی قسمت پہ ؟ یہ وہ نہیں جان پایا تھا ․․․اس وقت جو چیز وہ جانتا تھا وہ وہی کر رہا تھا․․․والہانہ سے انداز میں زمیں پر لگاتار پنچز۔
’’کیف ․․․کیف ․․․یہ کیا کر رہے ہو کیف ․․․․‘‘۔ اس کے پنچز کی آواز باہر تک گئی تھی ․․․․جس پر فائزہ دوڑتی ہوئی اس کے کمرے میں آئی تھی ۔
کیف نے کچھ نہیں سنا تھا وہ اب بھی زمین پر والہانہ پنچز مار رہا تھا۔فائزہ اس کی طرف لپکی اور اس کے ہاتھوں کو مظبوطی سے تھاما․․․․وہ اب گھٹنوں کے بل اس کے دونوں ہاتھ تھامے اس کے مقابل بیٹھی تھی ․․․․
کیف کے زخمی ہاتھوں پر اس کے آنسو گرے تھے ۔
’’ہماری جان لوگے کیا کیف ․․․ہمارا کیا قصور ہے ‘‘؟۔اس نے اشک بار آنکھوں سے کہا ۔
کیف نے سر جھکالیا ․․․․اس کے اشک زمین پر گرے ․․․اس کے لیے یہی اس کے ضبط کی انتہا تھی ۔ورنہ اس کا بس چلتا تو اس وقت وہ پوری دنیا کو ہلادیتا ․․․سب کچھ زمیں بوس کردیتا․․․جلا دیتا․․․نست و نابود کردیتا․․․․یہاں تک کہ خود کو بھی ۔
خالدہ اور عادل بھی کسی خدشے کے تحت اسی پل اس کے کمرے میں پہنچ چکے تھے ۔
اس نے سر اٹھا کر ان دونوں کو دیکھا تھا․․․ ایک درد بھری مسکراہٹ اس کے لبوں پر ابھری تھی ۔
’’مبارک ہو آپ سب کو․․․آپ سب جیت گئے ․․․․․‘‘ اس نے فائزہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا․․․․زمین پر اس کے ہاتھ سے نکلنے والے خون کے قطرے گرنے لگے ۔
خالدہ اس کے ہاتھ دیکھ کر اس کی طرف بڑھنے لگی تھیں مگر کیف نے ہاتھ بڑھاکر انہیں پاس آنے سے روکا۔
’’آج کے بعد کیف عالم مرگیا․․․․مرگیا کیف عالم ․․․․جائیں آپ سب جشن منائیں ․․․خوشیاں منائیں ․․․چھوڑدیا کیف عالم نے اپنی خواہش کو اور زندگی کو بھی ‘‘۔
عادل جو اپنی کمر پراپنے دونوں ہاتھ باندھے کھڑے یہ سب کچھ خاموش سی دیکھ رہے تھے کچھ قدم کیف کی جانب بڑھنے لگے ۔۔
کیف نے ان کو بھی ہاتھ بڑھا کر روکا۔
’’کہا نا مرگیا کیف عالم․․․․مبارک ہو ابوجی ․․اب کبھی بھی آپ کے لاڈلے بھائی کو آپ کے اس نالائق بیٹے کی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی ‘‘۔ یہ کہتے ہی وہ جنونی انداز میں کمرے سے نکل گیا․․․․صرف کمرے سے ہی نہیں وہ گھر سے بھی نکل گیا تھا
**********
ادھر کیف گھر چھوڑ کے چلاگیا ادھر ماہم کے لیئے عرش کا رشتہ آیا تھا اور فریدہ کب سے ماہم کا اس رشتے کے بارے میں جواب جاننا چاہ رہی تھی اور ماہم ٹالے جارہی تھی اس امید پہ کہ شاید کیف کے گھر والے ماہم کے لیئے کیف کا رشتہ لے کے آجائیںکتنا وقت چاہئے تمہیں؟ میر اخیال ہے کہ اب تمہیں اپنا جواب دے دینا چاہیے ‘‘۔ فریدہ نے بریڈ پہ جام لگاتی ہوئی ماہم سے کہا۔
’’کیسا جواب ‘‘؟۔ وہ انجان بنتے ہوئے بولی تھی ۔
’’عرش کے بارے میں جواب ‘‘۔ انداز دو ٹوک سا تھا۔
’’ابھی میں نے سوچا نہیں ‘‘۔ لاپرواہی سے بریڈ کا بائٹ لیتے ہوئے بولی ۔
’’کب سوچو گی ؟؟ روز مجھے فرحت بھابھی کی کال آتی ہے ․․․کیا جواب دوں میں ان کو کہ میری بیٹی میرے کنٹرول سے ہی باہر ہوتی جا رہی ہے ‘‘۔ ان کا پارہ چڑھنے لگا ۔
’’آپ کوکیا جلدی ہے مما؟؟ اور ان کو کیا جلدی ہے ؟؟؟میں بھاگی تو نہیں جا رہی ․․․شادی تو ویسے بھی دیر سے ہی کرنی ہے ․․․․․تو اتنی جلدی رشتہ کس لیے؟ ‘‘۔ اس نے بے بسی سے بریڈ سلائس پلیٹ پہ رکھتے ہوئے کہا۔
’’اتنی دیربھی کس لیے ماہم ؟؟؟ لڑکا دیکھا بھالا ہے تمہارا سگا کزن ہے ․․سیرت اور صورت ․․․․ہر لحاظ سے اچھا ہے پھر آخر کیا بات ہے جو تمہیں اتنا سوچنے پہ مجبور کر رہی ہے ‘‘۔وہ اب اس پر سوالیہ نظریں جمائے بیٹھی تھیں ۔
’’جو بھی سیرت اور صورت کے لحاظ سے اچھا نظر آئے گا ․․․․کیا میں اس سے شادی کر لوں گی ‘‘۔ اس کے لہجے میں بے بسی تھی مگر فریدہ کو وہ بدتمیزی محسوس ہوئی ۔
’’ماہم‘‘۔ وہ رعب دار لہجہ میں بولیں ۔
’’مل جائے گا آپ کو جوا ب مما․․․․اور اگر جواب کی زیادہ جلدی ہے تو پھرمیرا جواب نہ ہے ‘‘۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور پیر پٹختے ہوئے وہاں سے چل دی ۔
فریدہ نے اپنا سر ہاتھوں میں لے لیا
آج4دن ہوگئے میرا کیف اب تک نہیں آیا ․․میں کچھ نہیں جانتی مجھے میرا کیف چاہیے ․․․․‘‘۔ وہ سسکتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔ عادل اور فائزہ انہیں کب سے چپ کروارہی تھی․․․ کیف کے سب دوستوں سے رابطہ کیا گیا تھا مگر کسی کو اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔
’’خدا کا واسطہ ہے مجھے میر اکیف لادو․․․․‘‘۔ وہ تڑپیں
فائزہ بھی مسلسل آنسو بہارہی تھی ․․․بہا تو عادل بھی رہے تھے مگر اپنے اندر ہی ۔
’’ماہم ․․․․وہ ماہم جانتی ہوگی کہ کیف کہاں ہے ․․․․اسے ضرور پتہ ہوگا․․․کیف اس کی خاطر ہی تو ہم سے روٹھ کے چلاگیا․․․اسے ضرور پتہ ہوگا‘‘۔ انہیں جیسے پھر سے ماہم کا خیال آیا۔
ان4دنوں میں وہ پہلے بھی ماہم کا نام لیتی رہی تھیں مگر کسی نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا۔ کوئی بھی ماہم یا اس کے گھر والوں سے رابطہ نہیں کرنا چا ہتا تھا۔
’’اس لڑکی کو اپنالیں ․․․․میرا بیٹا مجھے واپس مل جائے گا‘‘۔ خالدہ اچانک ہی عادل کے پیروں میں جاگری ۔
عادل پہ سکتہ طاری ہوا۔ یہ سب ان کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
انہوں نے خالدہ کو اٹھانا چاہا مگر خالدہ نے مظبوطی سے عادل کی ٹانگیں پکڑلیں
’’چلیں ابھی چلیں ماہم کا ہاتھ مانگنے ․․․․جیسے ہی کیف کو پتہ چلے گا کہ ہم نے اس کا رشتہ ماہم سے کردیا ہے وہ دوڑا چلا آئے گا․․․․‘‘۔ وہ سسکیاں بھرتے ہوئے کہہ رہی تھیں ۔
’’امی ٹھیک کہہ رہی ہیں ابو․․․کیف کا رابطہ ضرور ماہم سے ہوگا․․․بہتر یہی ہے کہ آپ پرانی باتیں بھول کر ماہم کا ہاتھ مانگنے پر راضی ہوجائیں ․․․کہیں یہ نا ہوکہ اپنی انا کے چکر میں ہم سب کیف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیں‘‘۔ فائزہ نے کہا تھا۔
’’میں کچھ نہیں جانتی ․․․ابھی اسی وقت ماہم کے گھر چلیں ․․․ہوسکتا ہے کہ کیف وہاں ہی ہو․․․․باقی تو ہر جگہ پتہ کرلیا آپ نے ․․․ایک ماہم کا گھر ہی تو رہتا ہے ‘‘۔ وہ اب بھی عادل کی ٹانگوں کو جکڑے ہوئے تھیں ۔
عادل نے مظبوطی سے خالدہ کو اپنی گرفت میں لیتے ہو ئے اٹھایا۔
’’بچکانہ باتیں مت کرو․․․․وہ ان کے گھر میں کیوں ہوگا‘‘۔
’’ماہم کو ضرور پتہ ہوگا ابو․․․پلیز ابو․․․․ہم سب کا اتنا امتحان مت لیں ․․․․اس طرح سسک سسک کر امی اپنا حال مزید خراب کرلیں گی ․․․․کیف کو کچھ ہو نہ ہو امی کو ضرور کچھ ہوجائے گا․․․اور امی کو اس حال میں دیکھ کر مجھے بھی ‘‘۔ فائزہ نے بھی روتے ہوئے کہا تھا۔
’’ٹھیک ہے ․․․․کال کرو اس ماہم کو․․․فریدہ سے بھی رابطہ کرو․․․․ہم ماہم لیں گے ․․․․کب تک کرلے گا کیف ماہم سے شادی ‘‘؟؟۔ انہوں نے فائزہ سے پوچھا۔
’’ابو جی2سال تو ماسٹرز میں لگ جائیں گے1سال اسے اچھی جاب اور پوسٹ حاصل کر نے میں لگ ہی جائے گا․․․آپ تو جانتے ہی ہیں وہ کتنا خوددار ہے ․․․اپنی شادی کے لیے ایک پیسے کی بھی مدد آپ سے نہیں لے گا․․․تو میرے حساب سے اسے3سال تو لگ ہی جائیں گے ‘‘۔ فائزہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے ․․․کہہ دو دفریدہ سے کہ 3سال بعد ماہم سے کیف کی شادی کردیں گے ․․․․مگر ان 3 سالوں میں یہ بات صرف ہم دو گھروں کے درمیان ہی رہے گی ․․․․کاشف یا کسی اور کو اس رشتے کے بارے میں پتہ نہیں چلنا چاہیے ․․․․3سال تک کاشف مزید ٹھنڈا ہوجائے گا․․․تب کی میں تب دیکھ لوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر اچانک ہی انہیں کوئی اور خیال بھی آیا۔
’’اس بار وہ ہاں کردیں گے کیا ؟؟․․․‘‘۔
’’ابو کیف اتنے یقین سے آپ سب کی منتیں کر رہا تھا․․․یقیناً دوسری طرف سے بات پکی ہی ہوگی ‘‘۔ اس نے اپنا اندازہ بتایا۔
’’ہمم․․․ٹھیک ہے․․․جلد از جلد ماہم اور فریدہ سے بات کرو․․․․․اور ہاں نرمی اور اخلاق سے ان پر یہ ضرور واضح کردینا کہ اس وقت ہم ان کے گھر باقاعدہ رشتہ لے کر نہیں آسکتے کیونکہ کسی کو بھی پتہ چل گیا تو بات کاشف تک جا پہنچے گی اور وہ وقت سے پہلے ہی فساد کھڑا کردے گا‘‘۔ انہوں نے ہدایت دی ۔
’’جی ابو جی ․․․میں ابھی صدف سے ماہم کا نمبر لیتی ہوں ‘‘۔وہ کہتے ہی فوراً اپنا سیل فون لیے اس پر کال ملاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی اور خالدہ تشکرانہ نظروں سے عادل کو دیکھنے لگیں ۔
عادل نے بھی خالدہ کو نظروں سے تسلی سی دی.....