"ایک دفعہ پھر سوچ لو کاشف ماہم بہت کم عمر ہے عادل نے کہا تھا۔
’’تو کیا ہوا بھائی جان عمر سے کیا فرق پڑتا ہے اور کم عمر لڑکیاں تو زیادہ اچھا گھر بساتی ہیں کیونکہ کم عمری میں ہی وہ سسرال آجاتی ہیں اور اپنے سسرال کے رنگ میں ہی رنگ جاتی ہیں ‘‘۔ کاشف نے جواب دیا۔
عادل ،کاشف ،اور خالدہ اس وقت لاؤنج میں بیٹھے کاشف کے رشتے کے حوالے سے باتیں کر رہے تھے ․․․․کیف اس وقت تقریباً سترہ سال کا بچہ تھا جو ان کی باتیں بڑے ہی غور سے سن رہا تھا․․․․آخر اس کے چچا کی شادی کا معاملہ تھا وہ کیسے باہر رہتا ۔
’’وہ بات تو ٹھیک ہے مگر یہ ماہم کے ساتھ ظلم نہ ہو‘‘۔ خالدہ نے کہا۔
’’ظلم کیسا بھابی ․․․وہ تو خود مجھے پسند کرتی ہے ․․․․جب بھی جاتا ہوں پہلے آکر چائے وہی پوچھتی ہے ․․․․․آپ لڑکی کی طرف سے بے فکر ہو جائیں ․․․وہ بہت خوش ہوگی ‘‘۔ اس نے ذرا چوڑے ہوکر کہا۔
’’ٹھیک ہے اگر تمہیں اتنا اعتماد ہے تو بھلا ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے ․․․․ہمیں تو جب کہو گے ہم تمہارا ہاتھ مانگنے چلے جائیں گے ‘‘۔خالدہ نے کہا۔
’’دیر کیا کرنا بھابی ․․․آپ کل پرسوں ہی چلیں جائیں ‘‘۔کاشف کا بس چلتا تو کہتا آج ہی چلیں جائیں ۔
اس کی جلد بازی دیکھ کر عادل اور خالدہ دونوں نے ہی اثبات میں سر ہلادیا
********
جانے کتنے گھنٹے رونے اورسسکنے کے بعد ماہم اس فیصلے پر پہنچی تھی کہ اسے اپنے بابا کی عزت سے بڑھ کر کچھ بھی پیارا نہیں ہے ․․․․․اس نے سوچا کہ اس نے تو کبھی کسی لڑکے کواس نظر سے نہیں دیکھا․․․نہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے ․․․․نہ کسی کو پسند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے․․․․جب اس نے اپنی پسند سے شادی کرنی ہی نہیں ․․تو پھر بحث کس بات کی ․․․․اس نے جب بھی کرنی تھی اپنے والدین کی مرضی سے ہی کرنی تھی اور جب اس کے والدین کو کوئی اعتراض نہیں تو وہ کیوں اعتراض کرے ان کی بددعائیں لے․․․اسے اندر ہی اندر اپنے برے انجام کا خوف بھی کھانے لگا تھا جیسا کہ اس کہ ماں نے اس سے کہا تھا کہ اس کو موت بھی گندی آئے گی ۔
وہ اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے فریدہ کے کمرے میں چلی گئی ۔۔فریدہ نے اسے دروازے پر دیکھتے ہی اس سے منہ پھیر لیا۔
ماہم کے آنسو پھر سے چھلک پڑے ․․․․وہ فریدہ کے قریب آئی اور کہا۔
’’آپ جیسا کہیں گی میں ویسا ہی کروں گی مما․․․․نہ مجھے کوئی پسند ہے اور نہ اس رشتے پہ اعتراض ہے‘‘
یہ سنتے ہی فریدہ کی باچھیں کھل گئیں اور انہوں نے فٹ سے ماہم کو گلے سے لگا لیا․․․․
’’میں جانتی تھی میری بیٹی نیک شریف ہے ‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اس کا سر سہلانے لگیں اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
’’تم دیکھ لینا ماہم․․․کاشف تمہارا بہت خیال رکھے گا ․․․․تمہارے ناز نخرے اٹھاتا نہیں تھکے گا․․․․لڑکی چھوٹی ہو تو شوہر غلام بن کر رہتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کے حسین مستقبل کے خواب دکھانا شروع کیئے ۔
ماہم کم عمر تھی اسے کوئی بھی پٹی پڑھانا کوئی مشکل کام نہ تھا․․․․انہوں نے دو گھنٹے لگا تار کاشف کی تعریفیں اور اسے اس کے حسین مستقبل کے خواب دکھا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔وہ اسے اس کے کم عمر ہونے پر ملنے والے بے شمار فوائد بتاتی رہیں․․․کاشف اسے کس قدر پسند کرنے لگا ہے وہ بھی بتاتی رہیں۔
وہ بھی کاشف کو اپنا شریک حیات تسلیم کرنے کی کوشش کرنے لگی تھی ۔.....
مٹھائی کا ایک ڈبہ اور کچھ فروٹ لیے کاشف پھر سے ان کے گھر آیا تھا۔
اس نے مٹھائی کا ڈبہ آتے ہی ماہم کو پکڑایا ․․․․اور کہا ۔
’’آج آپ کی پسند کی مٹھائی لایا ہوں ‘‘۔ وہ سر جھکائے کھڑی رہی ۔
’’مسکرا تو دیں ‘‘۔ اس نے مسکرانے کی فرمائش کی ۔
اپنے ہونے والے خاوند کی فرمائش پر وہ ذرا سا مسکرا دی اور مٹھائی کا ڈبہ لیئے جانے لگی ۔
’’کہاں جا رہی ہیں آپ․․․․میرے سامنے کھائیں بیٹھ کر ‘‘۔ فریدہ بھی یہ سن کر بیچ میں ہی بول پڑی ۔
’’مجھ سے اسپیشل فون کر کے پوچھا تھا کاشف نے کہ تمہیں کونسی مٹھائی اور فروٹ پسند ہیں ‘‘۔
’’میں نے تو نہیں کہا تھا کہ میرے لیے لائیں‘‘۔ اس نے کچھ زچ ہو کر جواب دیا جس پر فریدہ نے اسے گھورکر دیکھااور وہ کچھ سہم کر بولی ․․
’’میں اکیلی کیوں کھاؤں ․․․آپ سب بھی کھائیں ․․․․‘‘۔ یہ کہہ کر وہ سر جھکا کر وہاں سے چلی گئی ۔
’’شرما گئی ہے‘‘۔ فریدہ نے کہا․․․
’’اس کا مطلب آپ نے اسے میرا بتا دیا ہے ‘‘۔ کاشف نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بتا دیا ہے ․․․․اسے کوئی اعتراض نہیں ‘‘۔فریدہ نے بتایا۔
’’بس پھر کل ہی بھائی بھابی رشتہ بلوانے آ جائیں گے․․․․ویسے بھی میں یہی بتانے آیا تھا کہ ان کو آج کل میں لے کر آوں گا‘‘۔وہ پرجوش ہوا۔
’’ہاں ،ہاں کل ہی لے آؤ․․․․وہ خود ہی آ کر شہباز سے بھی بات کرلیں گے‘‘۔ وہ بولیں
**********
آپ خوامخواہ فکر کر رہی تھیں بھابی․․․میں نے کہا تھا نا ماہم بہت خوش ہو گی ․․․․․․وہ واقعی بڑی خوش تھی اس رشتے سے ‘‘۔ کاشف نے خالدہ سے کہا۔ وہ دیور تھا اور اپنی بھابی سے اپنے بڑے بھائی کی غیر موجودگی میں اپنے دل کی باتیں کر رہا تھا۔ البتہ کیف اس بار بھی وہاں ہی بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا۔ کیف کے ہونے نہ ہونے کو وہ اہمیت نہیں دیتے تھے․․․ اسے بچہ ہی سمجھا جاتا تھا۔
’’خوش ہے ؟؟؟․․․․․یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ‘‘۔ خالدہ کو بھی جیسے تسلی سی ہوئی ۔
’’وہ تو بار بار شرما رہی تھی ․․․کبھی چھپ چھپ کر دیکھ رہی تھی ․․․بار بار کان لگا کر ہماری باتیں بھی سن رہی تھی ․․․چائے بھی اس نے دو بار بنا کر بھیجی ‘‘۔ وہ فریدہ کے گھرمیں ہونے والے حالات بتا رہا تھا․․․و ہ چھپ کر دیکھ اور سن رہی تھی مگر اس کا مقصدکچھ اور تھا جو کاشف نے اور طرح سے لیا۔
’’مٹھائی تک اس نے مجھ سے پہلے اور اکیلے نہیں کھائی ․․․ ‘‘۔ وہ بڑا چہک کر بتا رہا تھا۔
اسی طرح ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو کاشف نے اپنے حساب سے ہی سوچ لیاتھاکہ ماہم نے اگر یہ کیا تو شرما کر کیا تھا اور وہ کیا تھا تو یہ پسندیدگی کا اظہار تھا۔ اور اپنی ساری سوچ وہ بڑے ہی اعتماد سے بیٹھا اپنی بھابی کو بتا رہا تھا جو خاموشی سے بیٹھا کیف بھی سن رہا تھا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ندا نے خاندان بھر میں کاشف اور ماہم کے رشتے کی بات پھیلا دی تھی ․․․․․کاشف نے بھی اپنی بہنوں کو اپنے ہونے والے رشتے کے بارے میں بتایا تھا۔ کوئی رشتے کی خبر سن کر خوش ہوتا تو کوئی اس بے جوڑ ڑشتے پر حیران۔
جس دن عادل اور خالدہ نے ماہم کے گھر رشتہ بلوانے جانا تھا اس دن کاشف نے بھی ساتھ ہی جانے کی ضد کی۔ لڑکے کے بھی ساتھ جانے کا رواج ان کے ہاں نہیں تھا مگر اس نے یہ کہا کہ وہ ماہم کو دیکھنا چاہتا ہے․․․․رشتہ کے بعد تو ان کا شادی تک پردہ ہو جائے گالہذا وہ آخری بار ماہم سے ملنا چاہتا ہے ۔ ان کے خاندان کا یہی رواج تھا کہ منگیتر ایک دوسرے سے پردہ کرتے تھے ۔
کیف نے یہ سب باتیں بھی سنی تھیں ․․․اپنے چچا کو خوش دیکھ کر وہ بھی خوش ہی تھا۔
عادل اور خالدہ اور کاشف ماہم کے لیے کپڑے اور جانے کیا کیا لے کرماہم کے گھر پہنچے تھے ۔ شہباز ان کو ڈھیر سارے سامان اور مٹھائی وغیرہ کے ساتھ آتا دیکھ کر حیران ہوا۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتے کچھ رسمی حال احوال کے بعد عادل نے مٹھائی کا ڈبہ شہبازکے آگے بڑھا کر کہا ۔’’ماہم تو اب ہماری بیٹی ہے ․․․․․․․ کاشف بہت خوش رکھے گا ماہم کو․․․․جلدی سے ہاں کر دو اور منہ میٹھا کرواؤ۔‘‘
عادل کو اس بات کا سرے سے اندازہ نہیں تھا کہ شہباز کو رشتے کے بارے میں ذرا سی بھی بھنک نہیں ہے․․․․․ان میں اتنی دوستی تھی کہ ان کو کسی فارمیلٹی کی ضرورت ہی نہیں تھی اسی لیے انہوں نے بڑی اپنائیت سے اس طرح بات چلائی۔
شہباز نے نا سمجھی کے تاثرات لیے فریدہ کو دیکھا جو فوراً مسکراتے ہوئے بولیں ۔
’’وہ جی یہ کاشف کے لیے ماہم کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں․․․․بلکہ ہاتھ کیا مانگنا ․․․یہ تو اپنے ہیں جی ․․․ماہم تو ہے ہی ان کی ․․․․بس سمجھیں دعائے خیر کے لیے آئے ہیں․․ ‘‘۔
یہ سننا تھا کہ شہباز یک دم ہی لال پیلے ہو گئے ․․․․انہوں نے عادل کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو ا پنے سامنے سے ایک جھٹکے سے ہٹایا․․․․․․اور عادل کے ہاتھ میں موجود مٹھائی کا ڈبہ زمیں بوس ہوا۔
’’میری پھول سی بیٹی کے لیے تم ایک بڈھے کا رشتہ لے آئے ہو؟؟ پاگل سمجھا ہے کیا مجھے ․․․․ہمت بھی کیسے ہوئی تم سب کی ایسا سوچنے کی؟؟ ․․․․اس لیے تم سب روز یہاں بھاگے چلے آتے تھے کہ․․․․․․․‘‘۔ وہ کچھ کہتے کہتے رکے اور تیز تیز سانس لینے لگے جیسے ان کا بس چلتا تو جانے کیا کیا کہہ دیتے ․․․․انہوں نے بچپن سے ہی ماہم کو بڑے لاڈ پیار سے پالا تھااور ارسلان کے بعد سے تو ان کا سب کچھ ماہم ہی تھی ․․․․ان کا بیٹا بھی وہی تھی اور بیٹی بھی وہی ۔ سارہ تو بہت چھوٹی تھی اس لیے ان کی ساری توقعات ماہم سے ہی تھیں ․․․․انہوں نے اپنی اس بیٹی کے لیے جانے کیا کیاخواب دیکھ رہے تھے ․․․․وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اپنی بیٹی کا ہاتھ و ہ اپنے کسی ہم عمر کو دیں گے ․․․․اس وقت ان کا خون کھول رہا تھا۔ رشتہ مانگنے تو کیا ․․․یہ تو مٹھائی لے کر دعائے خیر کرنے آئے تھے ۔
سب کے چہروں کے رنگ فق ہو چکے تھے ․․․․فریدہ نے بات سنبھالنے کی کوشش میں بولنا چاہ․․․․․
’’وہ جی ‘‘۔
’’چپ فریدہ ․․․․اگر تم نے ان کو رشتہ دینے کا سوچا بھی تو میں اپنی بیٹی کو لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلا جاؤ ں گا․․․یہ اپنی فائزہ کا ہاتھ دے دیں نا کسی بڈھے کو․․․یہ اس کاشف کے لیے ․․․․‘‘․․انہوں نے کاشف کی طرف انگلی سے اشارہ کر کہ کہا ۔’’اس ادھیڑ عمر کاشف کے لیے میری معصوم بچی لینا چاہتے ہیں ․․․․ارے اس سے اپنی بیٹی کی شادی کرنے سے اچھا ہے میں اپنی بیٹی کو زندہ دفن کر دوں ․․․․میں نے اتنے لاڈ پیار سے اپنی بیٹی کو اس لیے نہیں پالا کہ اس کو بچپن میں ہی کسی بڈھے سے بیاہ دوں ‘‘۔
شہباز قریشی کو گرجتا برستا دیکھ کر عادل عالم بھی طیش میں آئے تھے․․․․ مگر اس سے پہلے وہ کچھ کہتے خالدہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور گھر سے باہر لے گئیں۔ کاشف بھی ان کے پیچھے ہی ہو لیا تھا۔
’’اتنی بے عزتی کیوں کی جی ؟؟ رشتے تو آتے رہتے ہیں ‘‘۔ فریدہ نے ان کے جاتے ہی شہباز سے سوال کیا۔
’’تمہارا دماغ ٹھیک ہے فریدہ ؟ یہ لوگ میرے اپنے تھے ․․․․ان سے اس قدر گھٹیا سوچ کی مجھے امید ہی نہیں تھی ․․․․اس لیے آتے تھے میرے گھر کہ میری پھول سی بچی پر گھٹیا نظریں ڈالیں ․․․․اپنی بیٹی فائزہ کا رشتہ کریں گے کسی بڈھے سے ؟؟ بتاؤ؟ نہیں نہ․․․پھر میری بیٹی کے لیے ایسی سوچ کیوں رکھی ؟؟ کوئی غیر یہ حرکت کرتا تو شاید مجھے اتنا غصہ نہ آتا مگر اتنے قریبی ہو کر انہوں نے یہ کیا ‘‘۔ وہ واقعی دکھی بھی ہوئے تھے․․․․جتنا غصہ انہیں آیا تھا اس سے کئی زیادہ انہیں دکھ ہوا تھا
*********************
فریدہ نے ندا کو فون کرکے گھر بلوالیا اور سارا حال سنایا ۔ ندا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔
’’باجی میں نے تو دونوں گھروں کو قریب کرنے کا سوچا تھا یہ تو الٹا ہی ہو گیا․․․عادل بھائی تو اب کبھی خالدہ باجی کو آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنے دیں گے․․․․اتنی بے عزتی اب وہ کہاں برداشت کرنے والے ہیں ‘‘۔
’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ندا․․․انہوں نے بھی مجھے صاف صاف کہا ہے کہ اس گھر سے کوئی بھی تعلق رکھا تو مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں گے ․․․یہاں تک کہ لاکھوں روپے جو مشترکہ کاروبار میں لگائے ہیں وہ بھی بیچ میں ہی چھوڑ رہے ہیں ․․․․سار لگا ہوا سرمایہ بھی ضائع ہو جائے گا‘‘۔فریدہ نے شہباز کے کاروبار سے پیچھے ہٹنے کے بارے میں بتایا․․․․کاروبار میں سرمایہ تو لگ چکا تھا پیچھے ہٹنے کا مطلب پیسہ ڈوبونا تھا مگر شہباز قریشی نے پیسے کی ایک بار بھی نہیں سوچی ۔
’’باجی آپ پہلے ہی بتا دیتیں شہباز بھائی کو․․․․اچانک ان کے سامنے یہ سب لانے کی کیا ضرورت تھی ‘‘۔ندا بولی ۔
’’میں نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کاشف کا سن کر خوش ہونے کے بجائے طیش میں آ جائیں گے․․․․مجھے تو لگا تھا ان کی بڑی محبت ہے کاشف سے ․․․وہ تو مارے خوشی کے پھولے نہ سمائیں گے‘‘۔وہ بھی اپنا سر پکڑے بیٹھی تھیں ۔
’’ماہم کہاں ہے‘‘۔ ندا کو ماہم کا خیال آیا۔
’’اپنے کمرے میں ہے ․․․اسے سمجھایا ہے میں نے کہ جو ہوا اچھا ہوا․․․ویسے بھی لڑکا عمر میں بڑا تھا‘‘۔ انہوں نے بڑی آسانی سے اپنی سوچ بدل دی۔
’’میں اس سے مل کر آتی ہوں ‘‘۔ یہ کہہ کر ندا نے ماہم کے کمرے کا رخ کیا۔
ماہم اپنے کمرے میں اوندھے منہ بستر پر آنسو بہانے میں مصروف تھی ․․․․اس کو فریدہ نے خاص تیار کروا کر بٹھایا تھا ۔ وہ ہلکا میک اپ کیئے ، کام والے کپڑے اور کچھ جیولری پہنے ہوئے تھی ۔ندا کو کمرے میں آتا دیکھ وہ فوراً ہی اس سے جا کر لپٹ گئی ۔
’’خالہ یہ دیکھیں کیا ہوا میرے ساتھ ․․․․پہلے کہا گیا میرے لیے سب سے اچھا انسان وہ ہے ․․․․اور اب کہتے ہیں وہ تو تھا ہی بڈھا․․․․․میرا تو مزاق ہی بن گیا خالہ․․․یہ دیکھیں ․․․یہ مجھے سجا سنوار کر بٹھایا ہوا تھا․․․میری سہیلیاں بھی آنے والی ہوں گی ․․․․مما نے تو کہا تھا کہ ہاں ہوتے ہی دعائے خیر بھی ساتھ ہی کر دیں گے ‘‘۔ بندھی ہوئی ہچکیوں کے ساتھ وہ اپنی خالہ کو سار احال سنا رہی تھی ۔ اس وقت اسے کوئی دشمن بھی مل جاتا تو وہ اس کے بھی گلے لگ کر رونے لگتی ۔
اسے کاشف سے کوئی لگاؤ نہیں تھا مگر وہ اس طرح مزاق بننا نہیں چاہتی تھی ۔ اس کو اپنے بابا پر پیار بھی بہت آیا تھا جنہوں نے اپنی بیٹی کی ایک بے جوڑ رشتے سے حفاظت کی تھی مگر ساتھ ہی جس طریقے سے یہ سب ختم ہوا اس کا بے حد افسوس بھی تھا۔
ندا اسے تسلیاں دینے لگی ۔
’’حوصلہ رکھو ماہم․․․․جو ہوتا ہے اچھے کے لیئے ہوتا ہے․․․․تم بھی اب سب کچھ بھول بھلا کر کپڑے بدلواور اپنے روز کے کاموں میں لگ جاؤ․․․اور سہیلیوں کا کیا ہے ان سے کہہ دینا کے تم نے ان کو گھر بلانے کے لیے جھوٹ بولا تھا․․․مزاق کیا تھا․․․‘‘۔ وہ بڑی آسانی سے اسے مشورہ دے کر چلی گئیں
"""""""""""""""""""""""""""""""""""
فریدہ کے گھر سے نکلتے ہی ندا،خالدہ کے گھر جا پہنچی ․․․․وہاں پر کاشف کی بہنیں شگفتہ اور جویریہ یعنی خالد ہ کی نندیں اس کے سر پر سوار تھیں ۔دونوں ہی اسے باتیں سنانے میں مصروف تھیں کہ جی آپ کی بہن کے گھر والوں نے یہ کر دیا ،وہ کر دیا۔
خالدہ بیچاری سر جھکائے بیٹھی تھی ۔ عادل اور کاشف بھی خاموش بیٹھے تھے ۔کیف بھی انہی میں کہیں گھسا بیٹھا تھا۔
ندا کے آتے ہی سب ندا پر سوار ہو گئے ۔
’’یہ کیا طریقہ ہے باجی ․․․․․خود ہی بلایا اور خود ہی بے عزت کر ڈالا‘‘۔کاشف نے کہا ۔
’’پتہ نہیں مجھے تو خود بھی سمجھ نہیں آ رہا․․․انکی تو اپنی لڑکی بھی رو رو کر ہلکان ہوئی پڑی ہے پھر بھی جانے کیوں بھائی شہباز بھائی نے ایسا کیا‘‘۔ ندا نے جواب دیا۔
’’یہ ہمارے بھائی کے ساتھ اچھا نہیں کیافریدہ نے․․․․پہلے ہاں کہہ کر ہمارے بھولے بھالے بھائی کو پھنسایا اور پھر دھتکار دیا ‘‘۔ جویریہ تلملائی ۔
’’تو میں کب کہہ رہی ہوں کہ اچھا کیا․․واقع بہت برا کیا․․․انکار ہی کرنا تھا تو پہلے کرتے․․․ماہم کو بھی فریدہ یہ کہہ کہہ کر چپ کروا رہی ہے کہ جانے دو ویسے بھی کاشف بڑی عمر کا تھا ‘‘۔ ندامعصوم بنتے ہوئے بولی ۔
’’پہلے تو وہ ماہم بھی میرے آگے پیچھے تھی ․․․فریدہ باجی الگ میری خوشامدیں کرتے نہ تھکتی تھیں․․․․․․اب اچانک ہی ان کو میں بڑی عمر کا لگنے لگ گیاہوں ‘‘۔ کاشف کے لہجے میں کڑواہٹ گھلی ہوئی تھی۔
’’لڑکی بھی تمہارے پیچھے تھی کاشف؟؟؟‘‘۔ شگفتہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’اور نہیں تو کیا․․․․مگر جو ہوا اچھا ہی ہوا․․․․جو لڑکی تیرہ سال میں ادائیں دکھانے میں ماسٹر ہے․․․․ وہ اٹھارہ سال کی ہونے پر پتہ نہیں کیا کرتی ‘‘۔ کاشف نے اب بات کو نیا رنگ دیا۔
’’بالکل ٹھیک کہا تم نے ․․․بلکہ مجھے تو لگتا ہے لڑکی میں ہی کوئی خرابی ہو گی ․․․․․تبھی تو اتنی چھوٹی عمر میں ہی اس کی ماں تمہیں رشتہ دینے پر تیار ہو گئی․․․․․ ورنہ ایسی بھی کیا موت پڑی تھی ‘‘۔جویریہ نے کاشف کی بات میں مزید رنگ ڈالا ۔
’’ اس میں کوئی خرابی اگر نہیں بھی تھی تو اب ضرور ہو گی ․․․․․جن لڑکیوں کو کم عمری میں ہی لڑکے دکھا دیئے جائیں وہ پھر کسی ایک پر نہیں ٹکتیں ‘‘۔ کاشف نے کہا۔
’’بس کرو سب․․․․اب کوئی اس موضوع پر بات نہیں کرے گا اور نہ ہی اس گھر سے کوئی تعلق یا واسطہ رکھا جائے گا‘‘۔ عادل جو کافی دیر سے ماتھا مسلتے ہوئے سب کی الٹی پھلٹی باتیں سن رہے تھے یک دم ہی طیش میں آئے ۔
سب اس وقت توخاموش ہو گئے مگر کئی دن تک ماہم․․․ کاشف اور اس کی بہن کے زیر موضوع رہی تھی ۔ چونکہ خاندان بھر میں ان کے رشتے کی بات پھیل چکی تھی اس لیے تقریباً ہر روز ہی کوئی نا کوئی ان کے گھر خبر لینے کو آ جاتا کہ رشتہ کیوں ہو رہا تھا․․․․کیوں نہیں ہوا؟؟؟۔وغیرہ،وغیرہ۔اور ان سب کے آگے ماہم کو ہی خراب کہا جاتا اور دلیل یہ دی جاتی کہ آخر اتنی بھی جلدی کیاتھی فریدہ کو جو اتنی عمروالے لڑکے کے لیے راضی ہو گئی ۔کاشف بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا وہ بھی بڑھ چڑھ کر بتاتا کہ کیسے ماہم اس کے پیچھے لگی رہتی تھی اور اس کو پھنسانے کی کوشش کرتی تھی وغیرہ ،وغیرہ ۔
ان سب باتوں میں کیف ہمیشہ شامل رہا تھا․․․․وہ کہتا کچھ نہیں تھا مگر سب سنتا ضرور تھا۔ اس نے اپنے ذہن میں ہی جانے ماہم کے بارے میں کیا کیا سوچ لیا تھا مگر ان سب حالات اور واقعات کے تین سال بعدجب وہ ماموں اظہر کے گھر پر ماہم سے پہلی دفعہ ملا تھا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف کھنچا چلا گیا تھا․․․․اس نے اپنے دل ودماغ میں اس کے لیے جیسا امیج بنایا ہوا تھا․․․․․ وہ اسے بالکل بھی ویسی نہیں لگی تھی ․․․․اور اس کے بھی دو سال بعد جب وہ ماہم قریشی سے ملاتب بھی اسے معصوم اور سادہ سا پایا۔ وہ اکثر خود سے الجھ بھی جاتا تھا کہ ماہم قریشی کا اصلی چہرہ کون سا ہے ؟؟؟ وہ جو وہ بچپن سے سنتا آیا ہے یا وہ جو وہ اپنے سامنے دیکھ رہا ہے...