ماہم اور کیف آہستہ آہستہ دوبارہ ایک دوسرے سے فرینک ہوگئے ۔سعد اور صدف کے ساتھ ملکر بہت اچھل کود کرنے لگے۔ وہ چاروں سارا دن ہی شغل میلہ لگائے رکھتے تھے ۔ کبھی وہ چاروں واک پہ چلے جاتے تو کبھی کوئی گیم کھیلنے لگتے ۔یوں ہی ایک رات وہ چاروں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے ۔کافی دیر بعد سعد کو نیند آنے لگی تو وہ سونے کے لیئے چلاگیا۔صدف بھی کچھ دیر بعد سونے کے لیئے چلی گئی ۔ ماہم کو نیند آئی تھی نہ کیف کو۔دونوں نے لڈو کھیلنے کا سوچا۔
ایک گیم لگائی ...کیف ہارنے والا تھا...ماہم کی اکلوتی گوٹی ایک نمبر کے انتظار میں بیٹھی تھی ...مگر قسمت ۔ اسے وہ ایک نمبر ہی نہ آیا اور کیف جیت گیا۔ وہ بس منہ بناکے رہ گئی۔اسے اب بدلا لینا تھا۔گیم دوبارہ شروع ہوئی ۔ماہم جانے کیسے پھر سے ہارگئی ۔اسے اب انسلٹ سی فیل ہوئی ...کیف بھی اسے چڑانے لگا تھا۔اس نے پھر سے گیم کھیلنے کو کہا۔ کیف نے بھی ہامی بھری۔وہ تیسری گیم بھی ہارگئی ۔اس نے غصے میں لال پیلی ہوکر لڈو اٹھا کہ نیچے پٹخ دی۔
وہ لان میں گھاس پر جابیٹھی اور غصے سے لمبی لمبی گھاس کھینچنے لگی ۔ کیف بھی اسکے پیچھے باہر لان میں آگیا ۔وہ ماہم کے سامنے بیٹھ گیا....اس کے ساتھ پڑی ٹوٹی گھاس کے ڈھیر کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔ ماہم نے اسے اگنورہی کیا اور سرجھکائے لمبی لمبی گھاس کھینچتی رہی ۔
کیف نے گلہ کھنکارا ...اس نے کوئی رسپانس نہ دیا۔
’’تمہیں پتہ ہے ماہم شیکسپئیرکیا کہتا ہے ؟‘‘۔انداز شرارتی تھا۔
’’کیا کہتا ہے‘‘۔ منہ پھلائے ،سر جھکائے بولی۔
’’شیکسپئر کہتا ہے کہ ہار کرغصہ کرنے والوں کی ناک دو فٹ لمبی ہوجاتی ہے‘ ‘ ۔ماہم نے سر اٹھایا اور گھور کر کیف کو دیکھا ۔
’’نہیں ،نہیں تم غصہ کرسکتی ہو ....... تمہاری ناک کافی چھوٹی ہے نا....تھوڑی سی لمبی ہوجائے گی تو اچھی ہی لگے گی ‘‘۔ وہ اسے چڑانے کے موڈ میں تھا۔
’’اور آپکی ناک بھی تو سموسے جیسی ہے‘ ‘۔ وہ چڑکر بولی ۔
’’ویل پکوڑے جیسی ناک تو سنا تھا پر یہ سموسے جیسی ......‘‘وہ بول ہی رہاتھا کہ ماہم فوراً بات کاٹتے ہوئے بولی۔
’’اب بھئی جیسی ناک ہوگی ویسی ہی بولوں گی نا‘‘۔
کیف اس بھولے انداز پرمسکرایا۔
’’پھر تو آج سے تمہارا نام پھینو ہے ‘‘۔
’’ہائیں ؟؟وہ کیوں ‘‘۔
’’اب بھئی پھینی سی ناک والی کو پھینو ہی بلائیں گے نا‘‘۔ وہ زور سے اس کی ناک کھینچتے ہوئے بولا۔وہ بھی مسکرا دی۔
’’اچھا ماہم ایک بات پوچھوں ‘‘ ۔کیف اب ذرا سنجیدہ ہوکر بولا ۔
’’دو پوچھ لیں ‘‘ ۔وہ شرارت سے بولی ۔
’’ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پسند کرتا ہو اور وہ یہ بات بھی جانتا ہوکہ اسکے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے تو وہ کیا کرے ؟۔‘‘ اس نے اچانک ہی عجیب سا سوال کرڈالا۔پہلے تو وہ کچھ حیران ہوئی کہ اچانک یہ ٹاپک کہاں سے آگیا...پھر لاپرواہی سے بولی۔
’’گھر والوں کو منائے اور کیا ‘‘۔
’’گھر والوں کے مان جانے کی کوئی امید نہ ہو تو ؟۔‘ ‘وہ مزید سنجیدہ ہوکر بولا ۔
’’تو وہ اس لڑکی کو بھول جائے ‘ ‘۔وہ اب بھی لاپرواہی سے بولی تھی ۔
’’اور اگر وہ بھول نہ سکتا ہو تو ؟۔‘ ‘کیف نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ ایک پل کے لیئے ماہم کو لگاکہ وہ اپنی اور اسکی بات کررہا ہے..... پھر وہ اسے اپنا وہم ہی سمجھی۔
(بھلا وہ کیوں ایسا سوچیں گے... ہمارے درمیان تو ایسا کچھ ہے ہی نہیں ....نہ ہوسکتا ہے...ضرور امبر کی طرف اشارہ ہے انکا...مجھے خود ہی تو روکا تھا ذکر کرنے سے ...اب خود ہی اشاروں میں اس کو پانے کے لیئے مشورہ مانگ رہے ہیں مجنوں میاں....ہونہہ...ابھی مزہ چکھاتی ہوں مامی نہ یاد دلادی تو میرا بھی نام ماہم نہیں )
’’ہمم...نہیں بھول سکتا تو وہ مجنو بن جائے ....اپنا گریبان چاک کرے...اور صحرا میں امبر امبر چلانے لگے ‘‘۔وہ دبی مسکراہٹ سے بولی ۔
’’امبر ‘‘؟؟؟ اس نے ماتھے پہ بل ڈالا۔
’’میرا مطلب ہے لیلیٰ .... لیلیٰ لیلیٰ چلائے ۔‘‘وہ ایسے بولی جیسے امبر غلطی سے کہہ بیٹھی ہو۔
’’میں سیریس ہوں ماہم‘‘۔لہجہ سنجیدہ تھا۔
’’ہممم....ہممم....ہممم.....تو سیریس سولوشن بھی ہے میرے پاس .....وہ رانجھا کی طرح نیلا تھوتھا کھالے ....اور تھوڑا اسے بھی کھلادے‘‘۔ وہ من ہی من اپنے الٹے مشوروں پر ہنس رہی تھی۔کیف کے چہرے کا اڑتا رنگ اسے اچھا لگ رہا تھا۔
’’نیلا تھوتھا‘‘؟؟ اس نے ابرو چڑھائے ۔
’’نیلے تھوتھے کا نہیں پتہ؟؟ ارے با با زہر اور کیا‘‘۔ شوخ سے انداز میں بولی۔
’’تم یہاں بیٹھ کے جگتیں مارو...میں چلا‘‘۔ناراض لہجہ میں بولا۔
’’ارے بابا...سوال ہی ایسا تھا جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.....اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ....لوگ تو روزِ محشر تک کو بھول جاتے ہیں...پھرکسی انسان کو کیا ساری زندگی یاد رکھا جائے یاد رکھنا ہی ہے تو انسان اپنے اعمال کی جزأ و سزأ کو یاد رکھے اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گذارنے کے لیئے اسلامی احکامات یاد رکھے کلمہ نماز زوزہ زکٰوة و حج کو یاد رکھے اس فانی دنیأ کی فانی خوبصورتی کے پیچھے اپنی آخرت کیوں برباد کریں آپ ہی ذرا سوچیئے'' اب کی بار وہ لاپرواہی سے نہیں بلکہ سنجیدگی سے بولی تھی ۔
وہ خاموش رہا... اسے جواب مل چکا تھا۔
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
صدف اور ماہم دونوں ملکر صدف کے کمرے کی صفائی کرنے میں لگے تھے ۔صدف شیشے کی میز صاف کررہی تھی اورماہم بستر کی چادر سیٹ کر رہی تھی .......تبھی دروازے کے سامنے سے کیف گزرا .....وہ شایدکچن کی طرف جارہا تھا ۔
’’یا خدا .....آج کیف بھائی کتنے پیارے لگ رہے ہیں نا ‘‘۔ صدف نے کیف کو آنکھیں پھاڑ کے دیکھتے ہوئے کہا ۔
ماہم کا رخ دروازے کی مخالف سمت تھا وہ فوراً پیچھے مڑکر دیکھنے لگی.... مگر تب تک کیف جاچکا تھا ...وہ پھر سے چادر سیٹ کرنے لگ گئی۔
’’جاکے دیکھتے ہیں انکو ‘ ‘۔صدف نے ڈسٹنگ والاکپڑا میز پر ہی پھینک دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔
’’تم پاگل ہو صدف ؟۔ وہ سوچیں گے کہ یہ دونوں ہر وقت میرے پیچھے ہی لگی رہتی ہیں ‘‘۔ ماہم نے چڑکر کہا ۔
’’ارے یار...ہینڈسم لگ رہے ہیں ...تعریف سننے کا حق بنتا ہے انکا.....ہم تھوڑی تعریف کر آئیں گے بس‘ ‘۔صدف نے کندھے اچکائے۔
’’نہیں ..... زیادہ سر پر نہ چڑھاؤ انکو....ویسے بھی ان کی تعریف کرنے والی آجائے گی ‘ ‘۔اس کا اشارہ امبر کی طرف تھا۔
’’کون آجائے گی ‘‘۔صدف متجس سی اسے گھوڑنے لگی۔ وہ بات کر کے پھنس گئی...اب بات کو ٹالنا لازم تھا۔
’’چلو ..چلو...تعریف کرکے آئیں ‘‘۔ بولتے ہی وہ کمرے سے باہر نکل آئی ...صدف بھی پیچھے ہی ہولی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کیف مامی کوثر کے ساتھ گپیں لگارہا تھا اور مامی اسکے لیئے اسٹرابری ملک شیک بنارہی تھیں۔ وہ واقعی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ فل بلیک سوٹ شاید ہی کسی پر اتنی اچھا لگتا ہوگا .... تازہ کلین شیوکی وجہ سے رنگ بھی نکھرہ نکھرہ سا تھا۔وہ واقعی غضب کا لگ رہا تھا۔ ایک لمحے کو ماہم کے دل میں خیال آیا کہ بہت خوش نصیب ہوگی وہ جس کے نصیب میں کیف ہے۔
’’کیا بات ہے کیف بھائی ...آج تو بڑے کمال لگ رہے ہیں ‘‘۔ صدف بولی۔
’’کمال لوگوں کے گھر میں رہ کر میں بھی کمال ہوگیا ہوں ‘‘۔وہ مسکرایا۔
صدف ہنس دی۔ ماہم کچھ کہنے لگی لیکن کیف نے منہ پھیر لیا۔ وہ اب مامی سے باتیں کرنے لگا ۔اس نے ماہم کو ایسے اگنور کیا جیسے وہ ہے ہی نہیں جبکہ صدف کے ساتھ وہ نارمل ہی رہا شاید نارمل سے بھی زیادہ۔ وہ بار بار صدف کی پتلی سی چٹیا کھینچ لیتا ....جس پر وہ بار با ر چڑ رہی تھی اوروہ چڑا رہا تھا۔
ماہم نے وہاں خود کو غیر ضروری سمجھا...... سو وہ کچن سے باہر نکل آئی..... کچھ دیر یہاں وہاں پھرتی رہی پھر لاؤنج میں ایل ۔ای۔ڈی پر شان کی فلم وار لگا کردیکھنے لگی۔اسے کیف کا یوں اگنور کرنا بہت برا لگاتھا۔وہ ہرٹ بھی ہوئی تھی۔وہ اپنی سوچوں میں کھوئی کھوئی وار فلم دیکھ رہی تھی کہ اس نے لاؤنج کے باہر کیف کی آواز سنی ۔غالباً وہ موبائل پرکسی سے بات کر رہا تھا ....اس نے فوراً ریموٹ اٹھایا اور آواز آہستہ کی ...اب وہ کان لگا کر سننے لگی ۔
’’جی امی ....ہاں جی بس آنے ہی والا ہوں ،شایدآج ہی آجاؤں ...جی اپنابہت خیال رکھ رہا ہوں .... اوکے امی ....اللّٰه حافظ....‘‘
کیف کی آواز اب نہیں آرہی تھی...غالباً کال بند ہوچکی تھی۔
(وہ چلے جائیں گے ..... وہ کیوں جارہے ہیں ....).اس کے جانے کا سن کر وہ مزید اداس ہوگئی تھی۔
’’تم بغیر آواز کے فلم دیکھتی ہو کیا ‘ ‘صدف لاؤنج میں آچکی تھی ۔
’’ہاں‘‘۔ماہم بے خیالی میں بولی ۔
’’ہاں؟‘‘ صدف نے نا سمجھنے والے اندازمیں کہا۔
’’ہاں ....میرامطلب نہیں تو ۔‘ ‘وہ اب خیالوں سے باہر آچکی تھی ۔
’’کیف بھائی ہینڈسم لگ رہے تھے نا ۔‘‘صدف نے ہمیشہ کی طرح کیف کا موضوع اٹھا لیا ۔
’’ہاں اچھے لگ رہے تھے ویسے کہاں ہیں وہ ؟۔‘ ‘
’’وہ تو سعد بھائی کے ساتھ اپنے کسی دوست کے پاس جارہے ہیں بول رہے تھے کہ اب رات کو واپس آئیں گے..... دوپہر کے کھانے پر انکا انتظار نہ کیا جائے‘ ‘۔صدف نے بتایا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہم کا دن آج گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا....وہ بار بار گھڑی کی جانب دیکھتی ...کبھی چہل قدمی کرنے لگتی۔ وہ اس انتظار میں تھی کہ شاید کیف دن میں ہی آجائے ۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا واقعی کیف اسے اگنور کررہا تھا یا یہ اس کا وہم ہے ۔ وہ اگر کر رہا تھا تو آخر کیوں ؟ ایسا کیا ہو گیا؟ کل تک تو وہ بالکل ٹھیک تھا۔اور اچانک سے اس نے جانے کا ارادہ کیسے کرلیا۔کل تک تو اس کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔پھر کیوں؟ وہ بہت سے سوالات میں گھری ہوئی تھی۔وہ ان ہی سوچوں میں تھی کہ رات کے8بج گئے...اب وہ اور بھی بے چین ہوگئی تھی۔رات ہوچکی تھی اب تک تو کیف کو آجانا چاہیے تھا ...مگر وہ اب تک نہیں آیا تھا۔ اپنا دل بہلانے کو جب اسنے ریڈیو لگایا تو ریڈیو سے نورجہاں کا گانا آج بھی سورج ڈوب گیا ہے آج بھی تم نہیں آئے آرہا تھا جسے سن کے اسکی پریشانی اور بڑھ گئی.وہ کیوں پریشان ہے یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔پورے10بجے ڈور بیل بجی تھی۔اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ماموں دروازہ کھولنے جاہی رہے تھے پر وہ ان سے بھی پہلے جاپہنچی اور فٹ سے دروازہ کھول دیا ۔سامنے سعد اور کیف تھے۔ سعد نے اسے سلام کیا .....اور کیف اسے اگنورکیئے آگے بڑھ گیا۔اس کا رویہ ایسا تھا جیسے دروازہ کھولنے کوئی آیا ہی نہیں..... جیسے وہاں کوئی تھا ہی نہیں ۔
ماہم کیف کے اس رویہ پہ اتنی حیران تھی کہ وہ سعد کے سلام کا جواب بھی نہ دے سکی۔وہ بس گم صم سی ہوکر رہ گئی ۔اس کا دل دکھ رہا تھا کیف کے ایسے رویے پہ۔ سعد نے اسے کھویا ہوا دیکھ کر اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی ۔
’’ارے میڈم دروازہ کھولنے سے پہلے کم از کم پوچھ تو لیتی کہ کون ہے ؟ ‘‘۔
’’میں جانتی تھی کہ کون ہے ‘‘۔
سعد نے ہوا میں ہاتھ اٹھائے اور کمال ہے کہہ کر چلا گیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
لاؤنج میں سب گھر والے اکٹھے چائے پی رہے تھے ۔ کیف سب سے باتیں کرتا رہا مگر ایک نظر بھی ماہم کو نہیں دیکھا۔
’’میں کل ہی چلا جاؤں گا ماموں....میں توآج ہی جارہا تھا پر سعد نے جانے نہیں دیا‘‘۔کیف نے ماموں کو بتایا۔
’’اتنی جلدی بھی کیا ہے بیٹا۔ کچھ دن اور یہاں رک جاؤ...جب یونیورسٹی اوپن ہو جائے تب ایک ہی بار چلے جانا۔‘‘ اظہرنے جواب دیا۔
’’امی بہت یاد کر رہی ہیں ..ان کی کافی دنوں سے کالز آرہی ہیں ....میں اب تک تو ٹالتا ہی آیا ہوں ....پر اب نہ گیا تو امی نے گھر داخل ہوتے ہی جوتوں سے استقبال کرنا ہے ‘‘۔ اس نے ہنس کر کہا تھا۔
ماہم بس اسے ہی دیکھ رہی تھی....وہ دیکھ رہی تھی کہ سب کے ساتھ ہی وہ ویسا ہی ہنستا... بولتا کیف ہے ...پھر اس سے کیوں بے رخی برت رہا ہے۔
’’ بیٹا اب تو تم ویسے بھی کراچی چلے جاؤگے ایم۔ایس ۔سی کرنے ...اپنی امی سے کہو کہ عادت ڈال لیں...تمہارے بغیر زیادہ دن رہنے کی‘‘ ۔کوثر نے کہا۔
کیف جواب میں بس مسکرادیا .....تب سعد بولا ۔
’’یار کچھ دن رہ جاؤ ....جب تمہاری یونیورسٹی کھل جائے گی تب تم ویسے بھی عید کا چاند ہوجاؤگے ۔‘‘
’’ارے یار میں سکھر سے کراچی جارہا ہوں امریکہ نہیں ....چندگھنٹوں کا فاصلہ ہے ...جب دل کیا بس پکڑوں گا اور آجاؤں گا اور ویسے بھی.....‘‘کیف ابھی بول ہی رہا تھا کہ صدف نے بات کاٹ دی ۔
’’جانے بھی دیں کیف بھائی .....کراچی جاکر آپ کا دل ہی نہیں کرنا سکھر آنے کا‘‘۔
’’ارے کیوں دل نہیں کرے گا کیف کا..... اپنا شہر اپنا ہوتا ہے ‘‘۔کوثر بولی۔
’’امی سمجھا کریں نا ‘‘۔صدف نے سمجھا پر زور دے کر کہا ۔’’اب وہاں کی رونق دیکھنے کے بعد کیف بھائی واپس تھوڑا آئیں گے ‘‘۔
’’رونق سے کیا مراد ہے بتانا زرا ‘‘۔ سعد صدف کے کان کھینچتے ہوئے بولا ۔
’’آہ بھیا .....کان چھوڑیں ...‘‘۔صدف نے سعد کا ہاتھ پکڑ کے پیچھے کیا اور شرارت سے بولی۔
’’عقلمندوں کے لیئے اشارہ کافی ہے ‘‘۔سب اس بات پر ہنس دیئے سوائے ماہم کے۔وہ مسلسل خاموش ہی تھی۔
’’کردی نا پینڈو والی بات ۔بڑے شہروں میں انسان کچھ بننے جاتا ہے رونقیں دیکھنے نہیں ۔‘‘ٖکیف بولا۔
’’ابھی تو آپ کراچی گئے نہیں اور ہم سکھر والے پینڈو لگنے لگ گئے ۔‘‘ اب کی بار ماہم بولی تھی...وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیف اس کی بات کا جواب دیتا ہے یا نہیں ....اس کی طرف دیکھتا ہے یا نہیں ۔
’’باقی سب باتیں ایک طرف ...ماموں آج آپ نے کوئی سیاسی موضوع نہیں چھیڑا‘‘۔وہ اظہر کی طرف دیکھ کر بولا۔ اس نے ماہم کی بات کو ایسے اگنور کیا جیسے کچھ سنا ہی نہیں ۔اب اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی....اس نے خالی چائے کے کپ اٹھانا شروع کیئے اور کچن میں رکھنے کے لیئے چلی گئی۔وہ اب وہاں مزید بیٹھ کر اپنا دل نہیں دکھانا چاہتی تھی ۔
’’ابھی چھیڑے دیتے ہیں ‘‘۔اظہر قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔
وہ سب اب سیاست کو لےکر بیٹھ گئے تھے۔پھر جانے کیا کیا گپیں لگاتے رہے تھے۔ماہم پھر واپس نہیں آئی تھی ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
وہ بستر پر سونے کی غرض سے لیٹی تھی پر نیند تھی کہ کوسوں دور تھی۔وہ اپنے خیالوں میں کسی بھٹکے مسافر سی اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے لگی.کوئی بتائے کوئی کسی کا کیوں دل دکھاتا ہے کوئی بتائے کہ کوئی کیوں کسی کے دل کے اتنے قریب آتا ہے کہ دل میں بس سا جاتا ہے کوئی بتائے کہ کوئی کیوں دل چراتا ہے کوئی کیوں دل کو بھاتا ہے
اس نے دہرایاکل سارے دن کے واقعات کو...سب کچھ نارمل تھا....ایسا تو کچھ نہیں تھا جس پر وہ یوں ناراض ہوجائیں ۔ کیا اب بھی وہ بدنامی کے ڈر سے اسے avoidکر رہے ہیں ..پر ایسا کیسے ہوسکتا ہے ...باتوں کو غلط رنگ دینے والے لوگ تو اس گھر سے جاچکے تھے ۔ اب تو ایسا کوئی بھی نہ تھا جو ایسی الٹی باتیں سوچتا اور پھیلاتا۔ سعد تو بیسٹ فرینڈ ہے کیف کا ...اور صدف بھی تب تک نہیں کچھ کہتی جب تک کہ کوئی اور اس طرف دھیان نہ دلائے ....پھر آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے اس بے رخی کی۔ ویسے بھی اگر وہ بدنامی کے ڈر سے اس سے دور جاتے تو اسے بتادیتے.....جیسے پہلے بتایا تھا۔ہزاروں سوال پر جواب کوئی نہیں ۔اب وہ مزید سوچنے لگی تھی۔
کل رات میرے الٹے مشورورں کا برا تو نہیں منالیا؟ لیکن نہیں.... وہ کیوں برا منائیں گے۔وہ تو سب مزاق تھااور وہ اتنے بھی امیچیور نہیں کہ مذاق سے منہ پھلالیں۔ کہیں یہ میری غلط فہمی تو نہیں کہ وہ مجھے اگنور کر رہے ہیں.... پر نہیں ....غلط فہمی ایک بار ہوسکتی ہے ..بار بار نہیں۔
پر میں کیوں اتنا سوچ رہی ہوں؟؟ مجھ سے نہیں بولتے تو نہ بولیں ....بھاڑ میں جائیں ۔پر وہ مجھ سے بول کیوں نہیں رہے ۔
انہی سوالوں جوابوں میں الجھتے الجھتے جانے کب نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
۰۰۰۰ماہم صبح کچھ جلدی اٹھ گئی تھی۔اس نے جلدی جلدی نہا دھو کر ہلکے سبز کلر کا کرتا اور جینز پہن لی۔اب وہ کچن میں گھس گئی جہاں پہلے سے ہی کوثر سب کے لیئے ناشتہ بنانے میں مصروف تھی۔
’’صبح بخیر مامی‘‘۔ اس نے مسکرا کر صبح کا سلام کیا تھا۔
’’صبح بخیر...صبح بخیر...آج کچھ جلدی کیوں اٹھ گئی؟ خیریت تو ہے نا ‘‘۔ان کو واقعی اسے صبح صبح دیکھ کر حیرت ہوئی تھی ۔کیونکہ ان سب کی تو روٹین تھی دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سونا۔
’بھوک سے آنکھ کھل گئی مامی..... دل چاہ رہا تھا کہ آج آلو کے پراٹھے کھاؤں تو بس آ گئی کچن میں ‘‘۔ اس نے وجہ بتائی۔
’’ابھی بنائے دیتی ہوں ....جی بھرکے کھانا‘‘۔ انہوں نے پیار سے کہا تھا۔
’’نہیں ..نہیں مامی ۔پراٹھے میں بناؤں گی ....وہ بھی آپ سب کے لیئے اپنے ہاتھوں سے...ذرا میرے ہاتھ کے بھی تو پراٹھے آپ سب کھاکر دیکھیں‘‘۔کوثر اس کی بات سن کر مسکرانے لگی۔
کیف نے اسے ایک بار بتایا تھا کہ آلو کے پراٹھے اسے ناشتے میں بے حد پسند ہیں ...بس اسی لیئے وہ آلو کے پراٹھے بنانے آگئی تھی تاکہ اگر کیف کسی بات سے ناراض بھی ہے تو مان جائے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
صبح ناشتے کے لیئے سب اکٹھا ہوچکے تھے۔ماہم بس اسی انتطار میں تھی کہ جلدی سے کیف اس کے ہاتھ کے پراٹھے کھائے ۔
’’آج آلو کے پراٹھے ماہم نے بنائے ہیں ...میں نے کچن میں چکھ کے دیکھے تھے بہت مزیدار ہیں ‘‘۔ کوثر نے سب کو بتایا۔
ماہم اب کیف کو دیکھنے لگی ...مگر کیف نے اس بات پر کوئی رسپانس نہ دیا تھا۔
’’دیکھنے میں ہی بہت لذیز ہیں ‘‘۔ صدف نے اپنی پلیٹ میں پراٹھا ڈالتے ہوئے کہا۔
’’تم بس دیکھ کر ہی پیٹ بھرا کرو موٹی ....کھانے کے لیے ہم ہیں نا‘‘۔ سعد نے اس کی پلیٹ چھینتے ہوئے کہا۔
’’اب تم دونوں بلیوں کی طرح لڑنے مت بیٹھ جانا....ماہم نے بہت سارے بنائے ہیں .....دونوں جی بھر کے ...بغیر لڑے کھاؤ...ارے کیف تم بھی لونا...ورنہ یہ دونوں تمہارا حصہ بھی کھاجائیں گے‘‘۔کوثر اپنے کپ میں چائے ڈالتے ہوئے بولیں۔
’’مامی مجھے آلو کے پراٹھے تو کیا ....آلو ہی نہیں پسند‘‘۔ کیف نے اپنی بریڈ پر جام لگاتے ہوئے کہا۔
ماہم جو بڑی پر جوش تھی کہ کیف پراٹھے کھائے گا...پھر اس میں نقص نکال کر ماہم کی کھنچائی کرنے لگے گا.....ایسا کچھ بھی نہ ہوا تھا۔بلکہ اس نے تو ماہم کے ہاتھ کے بنے آلو کے پراٹھے چکھنا تک گنوارا نہ کیا تھا۔
’’ارے بھئی ...تمہیں پسند ہوں نہ ہوں ...مجھے تو بڑے پسند ہیں ...اور ماہم بیٹی کے ہاتھ کے بنے کی تو کیا ہی بات ہوگی...لاؤ بھی کوثر تم کیف کا حصہ بھی مجھے ہی دے دو‘‘۔اظہر نے کہا تھا۔
’’آپ پراٹھوں پر نہیں ...اپنے کولیسٹرول پر دھیان دیں....‘‘ کوثرفکریہ انداز میں بولی...پھر کھانے کی ٹیبل سے جاتے ہوئی ماہم کو دیکھ کر بولیں ۔
’’تم کہاں جا رہی ہو...اتنے شوق سے بنائے تھے تم نے اور کھائے بھی نہیں ‘‘۔
’’بناتے بناتے ہی پیٹ بھرگیا تھا مامی ....کچھ دیر تک پھر بھوک لگے گی تو کھالوں گی....آپ کھائیں نا‘‘۔ وہ کس لیئے کھاتی؟ جس کے لیئےاس نے بنائے تھے جب اس نے ہی نہیں کھائے تو وہ کھاکر کیا کرتی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
وہ صدف کے کمر ے میں چہل قدمی کرنے لگی۔سوچنے لگی کہ اب وہ ایسا کیا کرے کہ جس سے کیف اس سے بات کرے....کم از کم اسے اپنی بے رخی کی وجہ ہی بتادے۔اس نے فیصلہ کیا کہ کیف کے جانے سے پہلے وہ اس سے ضرور بات کرے گی...اس سے اس کے ایسے رویے کی وجہ ضرور پوچھے گی۔اور اسے بتانا ہی ہو گا کہ آخر کیوں وہ اسے اگنور کر رہا ہے؟ آخر کیوں ایک ہی رات میں اس کا رویہ سرے سے ہی بدل گیا۔ کل تک جو اس سے بہت فرینک تھا ...آ ج وہ کیوں اجنبی سا بنا ہوا ہے ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
کیف اپنا سامان پیک کر رہا تھا ....وہ اس وقت کمرے میں اکیلا تھا.....موقع دیکھ کر ماہم بھی کمرے میں چلی آئی ۔
’’آپ ناراض ہیں مجھ سے ؟۔‘ ‘وہ بہت سہم کر بولی تھی۔سامنے سے کوئی جواب نہیں آیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ اسے غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا...اس کا دل تو چاہ کہ کیف کو کہہ ڈالے کہ ’’بھاڑ میں جائیں آپ‘‘۔
پر اسے وجہ جاننی تھی ....اس لیئے اس نے اپنے غصے کو سائیڈ پر رکھا اور پھر سے بولی۔
’’میں آپ سے بات کر رہی ہوں کیف...کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے ‘‘۔
’’نہیں ‘‘۔کیف اب بھی اپنی پیکنگ میں ہی لگا ہوا تھا۔ اس نے ماہم کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا۔اوراب اس مختصر سے جواب پر ماہم کا دل مزید دکھا تھا۔پر کم از کم اب وہ جواب تو دینے لگا تھا نا۔
’’پھر آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہے ؟ میں کل سے دیکھ رہی ہوں آپ کا رویہ میرے ساتھ عجیب ہے ...جیسے میں existہی نہیں کرتی۔‘‘ وہ کچھ تلخی سے بولی تھی۔
’’چلی جاؤ ماہم..‘‘۔وہ بھی تلخی سے بولا تھا۔
’’اچھا مذاق ہے کیف عالم ...جب دل چاہ کسی سے فرینکنس بڑھا لی ...جب دل چاہ منہ پھیر لیا...میں یہاں آئی تھی کہ شاید میرا ایک بہت پیارا کزن مجھ سے کسی بات پر ناراض ہے ...مجھے اسے منانا چاہیئے.....پر اب لگ رہا ہے کہ آپ ہیں ہی ایسے ...نہایت ہی فضول انسان‘‘۔ وہ اب غصے میں آچکی تھی۔
وہ اب اپنا بیگ پیک کرچکا تھا....اس نے ماہم کی اس بات پر کوئی رسپانس نہ دیا اور بیگ اٹھائے کمرے سے جانے لگا۔ وہ اس کی بات کو ایک دفعہ پھر سے اگنور کرکے جارہا تھا...ماہم کو اپنی انسلٹ سی فیل ہوئی جیسے اس کی کسی بھی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ...جیسے وہ واقعی existہی نہیں کرتی ۔
’’بھاڑ میں جائیں آپ‘‘۔آخر اس نے غصے میں کہہ ہی ڈالا۔ کیف نے یہ سن کر اپنے قدم روک لیئے....پیچھے مڑکر بولا۔
’’لوگ تو خدا کو بھول جاتے ہیں .....میں تو بس ایک انسان کو بھولنے کی کوشش کر رہا ہوں ‘‘۔
کیف نے ایک ہی جملے سے ماہم کے سر پر بمب پھوڑا تھا۔وہ دھماکہ کرکے جاچکا تھا۔کچھ دیر اس نے وہاں رک کر دیکھا بھی نہیں کہ اسکے بمب نے کیا تباہی مچائی ہے۔
ماہم اب سب سمجھ چکی تھی....اسے اس کے سارے سوالوں کے جواب مل چکے تھے .... اس رات کیف اسی کو پسند کرنے کی بات کررہا تھا اور اسی کے لیئے ہی مشورہ مانگ رہا تھا....اور اب اسی کے مشورے پر عمل کررہا تھا ...پر وہ کم عقل سمجھی ہی نہیں اسنے ٹی وی آن کیا تو اس میں اکشے کمار کی فلم انداز کا گانا جو بھی یہاں پیار کرے جینا دشوار کرے آرہا تھا جسے سن کے وہ اپنے حسین و دلفریب خیالوں کی دنیأ میں کھوگئی
اظہر کے گھر سے آئے اب اسے پورے پندرہ دن ہو چکے تھے اور پندرہ دن کسی کے احساس و جذبات بدلنے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔
ماہم کو بھی ان پندرہ دنوں میںیہ احساس ہو گیا کہ اس کے لےئے کیف اب خاص ہو چکا ہے ۔خاص تو وہ پہلے بھی تھا پر اب اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل سا ہے ۔
کیف پر اسے جو غصہ تھا وہ اب قدرے کم ہو چکا تھا....اس غصے کی جگہ اب کیف کی یاد نے لے لی تھی۔ اس کا دل بھی کسی اور ہی راہ چل پڑا تھا....وہ سارا دن کیف کے ساتھ گزارے لمحوں کے بارے میں سوچتی رہتی تھی ۔ وہ خود سے الجھ بھی پڑتی کہ مت سوچے اس کے بارے میں ...مگر دل کہاں کسی کی سنتا ہے ...دل تو اپنی ہی کرتا ہے۔
ان پندرہ دنوں میں پہلے وہ کیف عالم کو اپنی بگڑی عادت سمجھی ...پھر کشش ...اور اب محبت۔
ہر نئے دن کے ساتھ اس کی سوچوں پر کیف پہلے سے بھی زیادہ بسنے لگا تھا۔
’’یہ تم ہر وقت اپنے سر پر موجود دو ،چار بالوں کو باندھے کیوں رکھتی ہو‘‘۔ وہ اس کی فرینچ چوٹی کھینچتے ہوئے بولا تھا۔
’’تو کیا میں ہر وقت ہوا میں اپنی زلفیں لہراتی پھروں‘‘۔ وہ کچھ خفیف سی بولی تھی۔
’’ایسا کرنے میں حرج بھی نہیں ‘‘۔اس نے جتایا تھا۔
’’مجھے بال کھول کر زلفیں لہرا ،لہرا کے چلنا پسند نہیں ہے ....میرے بال ایسے بھی بہت اچھے دکھتے ہیں ‘‘۔ انداز فخریہ تھا۔
کیف اس کے کالے سیاہ بالوں کی فرینچ چوٹی کو بغور دیکھنے لگا تھا....پھر چند ہی لمحوں میں قہقہہ لگاتے ہوئے بولا تھا۔
’’یہ لہرانے والی ہیں بھی نہیں ....ریشمی زلفیں لہراتی ہیں ....اجڑے جھاڑنہیں ‘‘۔
’’جھاڑ ہیں یہ ؟؟؟ یہ ...یہ ... جھاڑ ہے؟؟؟ آپ کو یہ سلجھے ہوئے بال جھاڑلگ رہے ؟؟؟ وہ بھی اجڑے جھاڑ ‘‘۔ اس نے اپنی چوٹی کو پکڑ کے کیف کو دکھاتے ہوئے کہاتھا۔وہ بری طرح سے چڑی تھی ۔
’’کتنے چھوٹے ہیں تمہارے بال.....دیکھو ذرا....کوئی دہی ،شہی لگاؤ ....کوئی انڈا ،ونڈا لگاؤ....جیسے صدف لگائے پھرتی ہے اور ہم سب کو ناک بند کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے ‘‘۔ ماہم کے بال بالکل بھی چھوٹے نہیں تھے۔ وہ ماہم کو یوں بری طرح سے چڑتا دیکھ کے بات کو سنبھالنے کی کوشش میں تھا۔
’’کمر تک ہیں میرے بال.....فرینچ چوٹی کی ہوئی ہے....... اس لیے کچھ چھوٹے لگ رہے ہیں ‘‘۔ اس نے جتایا تھابڑے ہی فخریہ اندا ز سے۔اسے لگا وہ اس کے بالوں کی لمبائی سے امپریس ہو گا....اور اجڑے جھاڑ کا خطاب معذرت کے ساتھ واپس لے لے گا۔
’’صر ف کمر تک ؟؟؟کم از کم گھٹنوں تک تو ہوں ...کمر تک تو ہر چوتھی لڑکی کے ہیں....اس میں تو کچھ خاص نہ ہوا‘‘۔
جواب اس کی امید کے برعکس تھا....وہ بس گھوڑ کر ہی رہ گئی تھی.....بھلا کہتی بھی تو کیا۔
اپنے بالوں کو سلجھاتے اور ان کی چوٹی بناتے ہوئے اسے سب یاد آیا تھا۔ اسے یوں ہی ہر چھوٹی بڑی بات پر کیف سے جڑی کوئی نا کوئی بات ،کوئی نا کوئی یاد،یاد آیا کرتی تھی ۔
کبھی کبھار زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے بچھڑنے کے بعد ہی ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے کیا تھا....ہمارے دل نے اسے کس مقام پہ بٹھائے رکھا تھا۔
یہی حال ماہم کا تھا...جب تک کیف کے ساتھ تھی سمجھ ہی نہ پائی تھی کہ کیف اس کے لیے کیا ہے
کیف کراچی آ گیا تھا....روشنیوں کا شہر کراچی...پاکستان کاسب سے بڑا اورسب سے زیادہ آبادی رکھنے والا کراچی.... جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے شہروں میں ساتویں نمبر پر آتا ہے ...جہاں زندگی اتنی مصروف اور بے نیاز ہے ۔اسے لگا تھا کہ وہ کراچی آ کر بزی ہوجائے گا تو ماہم کو بھی بھول جائے گا۔وہ بزی ضرور ہوا تھا...پر ماہم کو بھولا نہیں تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس کی یادیں بھی کراچی آ پہنچیں ہیں ....روشنیوں کا شہر بھی اس کے اندر کی ویرانی کو کم کرنے میں ناکام ہو رہا تھا۔
کراچی میں اس کے بہت سارے دوست بن چکے تھے...لیکن سب سے اچھا دوست اب تک ایک ہی بنا تھا...عابد... جو اس کا کلاس فیلو اورروم میٹ بھی تھا۔ ان دونوں نے اکٹھے رینٹ پرکسی گھر میں ایک کمرہ لیا تھا۔
کمرہ نہ زیادہ بڑا تھا نہ ہی چھوٹا... اس میں دو سنگل بیڈ ،دو ہی کرسیاں بمعہ ایک چھوٹی میز تھے ۔ایک جانب الماری تھی جس کو وہ دونوں مشترکہ استعمال کرتے تھے اور ایک جانب الیکٹرک اسٹوووغیرہ تھا۔
کیف رات کو دیر تک جاگتا رہتا تھا.... وہ نیند کی غرض سے ہمیشہ ہی اپنے وقت پر بستر پر لیٹ جاتا تھا مگر سو نے سے قاصر رہتا۔جب بھی اپنی نیلی آنکھیں بند کرتا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے ماہم کا چہرہ گردش کرنے لگتا تھا۔اس کی معصوم حرکتیں... ذرا ذرا سی بات پر زیادہ سارا خوش ہو جانا....اس کا شوخ سا لہجہ ... ..سب کچھ ایک آسیب کی طرح اس پر سوار ہونے لگتا تھا۔
عابد نے بہت دفعہ نوٹس کیا تھا کہ کیف کئی دفعہ یہاں ہو کر بھی یہا ں نہیں ہوتا۔ اس نے ہر رات کیف کو عجیب سی الجھی ہوئی ذہنی حالت میں پایا تھا...وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا کہ کچھ ہے جو اسے اندر ہی اندر دکھی کر دیتا ہے ....کچھ ہے جو اندر ہی اندر اسے دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے ۔
اس نے کئی دفعہ باتوں باتوں میں پوچھا بھی مگر کیف نے کبھی کچھ نہ بتایا...وہ بتاتا بھی تو کیا ؟؟؟ بتانے کو تھا بھی تو کیا ؟؟؟
کراچی آئے ہوئے اسے بہت دن تو نہیں ہوئے تھے لیکن پھر بھی اس نے اپنا دل بہلانے کی بار ہا کوشش کی تھی ۔وہ صر ف پڑھائی تک محدودنا تھا....وہ دوستوں کے ساتھ تقریباً روز ہی کہیں نا کہیں گھومنے نکل جاتا تھا۔ ویک اینڈزپروہ ساحل سمندرپر بھی ضرور جاتا تھا۔ اسے سمندر کی لہریں کچھ سکون سادیتی تھیں....اسے لگتا تھا کہ ان لہروں کا شور اس کے اندر کے شور کو دبا رہا ہے ۔ان لہروں کو وہ بڑی امید سے دیکھاکرتا تھا کہ شاید یہ لہریں اپنے ساتھ اس کے اندر کے درد کو بھی لے جائیں گی ...
.....