رات کے سیاہ چادر آہستہ آہستہ سرکنے لگی تھی۔۔۔سورج کی روشنی نے آسمان کو روشن کرنا شروع کیا اور کرنیں آسمان سے گرتی زمین کے ہر زرے زرے کو روشن کرنے لگیں۔۔۔یہ رب کا انصاف تھا۔۔ وہ کسی امیر یا غریب میں فرق نہیں کرتا۔۔۔روشنی غریب کے گھر اور امیر کے گھر دونوں کو روشن کرتی ہیں۔۔۔۔اسی طرح مینہ ہر ایک پر برستا ہے۔۔پھر چاہے کوئی نیک ہو یا پھر بدکار۔۔۔سانس لینے کیلئے ہوا بھی سب کو میسر ہے۔۔۔اُس کی نعمتوں کا کوئی شمار نہیں۔۔
حازق اور فریحہ پرسو رات کو واپس چلے گئے تھے۔۔ وہ اب کافی حد تک پرسکون تھا۔۔اماں جان سے بات کر کے بہت حوصلہ ملا تھا۔۔۔لیکن دل میں کہی ڈر تھا۔۔ماں کی طلاق کا۔۔چاہے اِس رشتے نے انہیں کبھی کوئی سکھ نہ دیا ہو لیکن وہ (فریحہ) اِس رشتے کی دل سے قدر کرتی تھیں۔۔ وہ رب کی رضا میں راضی تھیں۔۔حازق اپنی وجہ سے ماں کو تکلیف نہیں پہنچا سکتا تھا۔۔۔
وہ فجر پڑھ کر قرآن کی تلاوت کرنے لگا۔۔قرآن کے ایک ایک حرف میں بستا سکون اُسے اپنے اندر اترتا محسوس ہوا۔۔۔وہ کچھ دنوں سے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پڑھتا تاکہ سمجھ سکے کہ قرآن کیا کہتا ہے۔۔۔وہ کس بات کا حکم دیتا ہے۔۔اور کس سے روکتا ہے
حازق نے قرآن کی تلاوت مکمل کی اور اُسے غلاف میں لپیٹا اور دعا کیلئے ہاتھ بلند کیے۔۔۔۔وہ پاک ذات کے سامنے عاجزی سے سر جھکائے اپنے خالی ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا اور اپنے اور زرنین کے رشتے کی سلامتی مانگ رہا تھا۔۔۔
بندہ جب جب رب کے سامنے جھکتا ہے اپنے مطلب کیلئے۔ کبھی سکون کیلئے۔۔ کبھی رب کو راضی کرنے کیلئے۔۔ کبھی اپنے کسی کام کی تکمیل کیلئے۔۔۔اور وہ مالکِ دو جہاں ضرور نوازتا ہے۔۔۔
حازق بھی بیٹھا اپنے اور زرنین کے رشتے کی بھیک مانگ رہا تھا۔۔
یا اللہ کوئی ایسا سبب بنا دے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے اور میری ماں کا بھرم برقرار رہے۔۔آمین ثم آمین۔۔۔حازق آخری الفاظ ادا کرتا منہ پر ہاتھ پھیر کر جائے نماز سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔اور قرآن کو مسجد میں بنی الماری میں رکھتا وہاں سے باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔۔۔
دن کا اجالا ہر سو پھیل گیا تھا
اوہ آج تو کافی لیٹ ہوگیا ہوں۔۔ پتا ہی نہیں چلا کب اتنا ٹائم ہوگیا۔۔حازق مسجد سے باہر نکلتا چاروں طرف پھیلی روشنی کو دیکھ کر بڑبڑایا۔۔۔
اب گھر جاکر ناشتہ کرتا ہوں پھر فیکٹری بھی جانا ہے آج۔۔ دو دن ہوگئے ہیں نہیں گیا۔۔۔وہ ہاتھ پر بندھی گھڑی دیکھ کر خود سے مخاطب ہوتا گھر کی جانب چل دیا۔۔
رشید کی غیر موجودگی میں وہ فریحہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتا تھا۔۔دو دن سے وہ فیکٹری نہیں گیا تھا۔۔۔آج رشید کی واپسی تھی۔۔ یہ سوچ کر ہی ایک خوف سا دل میں اتر آتا۔۔لیکن اللہ بہتر جاننے والا ہے۔۔جو آپ کے حق میں بہتر ہو اور جس کیلئے آپ نے شدت سے دعائیں کیں ہو وہ کبھی رد نہیں کرتا۔۔ وہ ضرور نوازتا ہے۔۔وسیلے اور سبب بھی بناتا ہے۔۔ایسی ایسی جگہوں سے نوازتا ہے جہاں سے آپ کا گمان بھی نہیں ہوتا۔۔
###########
صبح کے نو بج رہے تھے۔۔۔ زرنین آنکھوں میں نیند لئے زینے اترتی باغیچے میں پودوں کو پانی دینے آئی۔ وہ ہمیشہ سے ہی قدرت کی بنائی گئی چیزوں سے محبت کرنے والی تھی اور خاص طرف طور پر پودوں کی دیکھ بھال کرنے والی۔۔۔گیلی مٹی کو سونگھنا اور اُس میں مگن ہوجانا معمول کا کام تھا۔۔۔
نسرین۔۔ مجھے زرا پانی کا پائپ لگا دو۔۔۔ زرنین نے اپنے بکھرے بالوں کو کیچر میں باندھتے ملازمہ کو آواز لگائی اور خود پودوں کا جائزہ لینے لگی۔۔۔
اماں جان نے اُس سے بات کی تھی رخصتی کے حوالے سے۔۔اُسے کوئی اعتراض نہ تھا لیکن وہ چاہتی تھی کہ اماں جان بھی اُسی گھر میں آجائیں تاکہ سب مل کر رہیں۔۔لیکن زوجاجہ بیگم نے ابھی کوئی حامی نہ بھری تھی۔۔
بی بی جی یہ لیں لگا دیا ہے پائپ۔۔۔نسرین نے اپنی طرف توجہ دلائی۔۔وہ پانی کا پائپ ہاتھ میں تھامے کھڑی تھی
ہاں لاؤ۔۔ میں پانی دوں پودوں کو۔۔ وہ مڑی اور پانی کا پائپ ہاتھ میں پکڑ کر سارے پودوں کو سیراب کرنے لگی۔۔۔
گلاب کے پودے کے پاس آکر وہ کچھ دیر رکی۔۔ اور پھر آہستہ سے گھٹنوں کو زمین پر رکھتی جھکی اور ہاتھ سے گلاب کے پھول کو پکڑ کر اپنے ناک کے قریب لے گئی۔۔۔۔
وہ گلاب کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگی۔۔۔۔گیلی مٹی اور گلاب کی خوشبو نے ہوا کو مہکا دیا تھا۔۔۔
خوشبو کے سحر میں ڈوبی اُس نے اپنی آنکھیں دھیرے سے موند لیں۔۔۔ پانی کا پائپ ایک طرف گرا ساری گھاس گیلی کر رہا تھا۔۔۔۔
کچھ فاصلے پر کھڑا حازق اُسے دیکھ کر مسکرا دیا۔۔۔وہ فیکٹری جانے سے پہلے زرنین اور اماں جان سے ملنے آیا تھا۔۔۔اور اب وہ دلچسپی سے اُسے دیکھنے میں مصروف تھا۔۔
وہ آہستہ آہستہ بنا چاپ کیے اُس کے قریب آیا۔۔زمین پر پڑے پائپ کو دیکھا۔۔حازق کے دماغ میں شرارت سوجھی۔۔
اُس نے اچانک گھاس پر پھیلے پائپ کو اٹھایا اور زرنین پر حملہ کر دیا۔۔
زرنین جو پودوں میں گم تھی گڑبڑا کر اٹھی اور جیسے ہی وہ مڑی حازق نے پائپ کو دونوں انگلیوں سے دبا کر زرنین کو پورا گیلا کر دیا۔۔۔
اور اب وہ پائپ کو چھوڑتا اونچی آواز میں قہقہے لگانے لگا۔
زرنین آنکھوں میں خفگی لیے اُسے گھور رہی تھی۔۔۔
حازق۔۔۔۔۔ وہ اونچی آواز خود کو دیکھتی جھنجلا کر بولی۔۔۔۔وائٹ ٹراؤزر پر پنک شرٹ پہنے۔ اور گلے میں وائپ ڈوپٹہ لیے وہ بھیگی ہوئی اُسے غصے سے دیکھ رہی تھی۔۔بال گال کے ساتھ چپک گئے تھے۔۔۔
حازق نے کچھ دیر خاموش ہوکر اُس کا جائزہ لیا اور پھر سے ہنسنے لگا۔۔۔
زرنین کو مزید غصہ آیا حازق کے چڑانے پر۔۔۔اب کی بار اُس نے پائپ اٹھایا اور حازق کو بھی گیلا کردیا۔۔
حازق کی ہنسی کو ایک دم بریک لگی۔۔ اور وہ حیرت سے خود کو دیکھنے لگا۔۔۔آفس جانے کیلئے تیار ہوا تھا اور اب وہ بھی گیلا کھڑا تھا۔۔ جبکہ زرنین اطمینان سے اُسے دیکھ دیکھتی اپنی ہنسی دبانے لگی تھی
افف۔۔ زرنین۔۔وہ چلایا تھا
زرنین کا دل دھڑکا تھا حازق کے چلانے پر
اُس نے سہم کر دیکھا
یار میں تیار ہوکر آیا تھا آفس جانے کیلئے اور دیکھو تم نے سارا گیلا کردیا مجھے۔۔ وہ اپنا لہجہ نارمل کرتا زرنین کے قریب آتا بولا
ہاں تو مجھے بھی تو گیلا کیا ہیں آپ نے۔۔اور اپنی باری مجھ پر غصہ ہورہے ہیں۔وہ آنکھوں میں نمی لئے بولی۔۔
نہیں نہیں۔۔ میری کیا مجال میں آپ پر غصہ ہوں۔۔۔۔حازق نے فوراً محبت سے کہا۔۔۔
زرنین کا چھوٹی چھوٹی باتوں پر سہم جانا وہ جانتا تھا۔۔
ابھی پرسو تو منایا تھا اُس نے زرنین کو۔۔ پھر سے ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا۔۔
زرنین نے ایک خفا نظر اُس پر ڈالی اور خاموش ہوگئی
اچھا یار پلیز اب ناراض مت ہونا۔۔
میں کپڑے بدل لوں گا گھر جاکر۔۔۔۔ وہ زرنین کو کندھوں سے تھامتے ہوئے بولا
جی ٹھیک ہے۔۔نہیں ہوتی ناراض۔۔ زرنین نے مسکرا کر کہا۔۔ وہ آسانی سے مان جاتی تھی۔۔
لیکن آپ وعدہ کریں مجھے آئندہ کبھی ڈانٹیں گے نہیں۔۔۔۔اور غصہ تو بالکل بھی نہیں ہوگے۔۔ اُس نے بچوں کے انداز میں ہاتھ آگے بڑھا کر وعدہ لینا چاہا۔۔
زرنین کے انداز پر حازق کا دل چاہا پھر سے قہقہہ لگائے۔۔ لیکن اب کی بار وہ اپنی ہنسی دباتا زرنین کا ہاتھ تھام لیا
پکا وعدہ۔۔کچھ نہیں کہوں کا۔۔ وہ محبت پاش نظروں سے زرنین کو دیکھتا بولا
زرنین کی آنکھوں میں چمک بکھر گئی تھی۔۔۔
اور یہ بچوں کی طرح کون بیٹھتا ہے پودوں کے پاس۔۔ دیکھو سارے گھٹنوں پر نشان پر گئے ہیں۔۔ حازق نے ہنستے ہوئے کہا
زرنین نے گردن جھکا کر اپنا ٹراؤزر دیکھا جو وائٹ کی بجائے کوئی اور ہی رنگ کا لگ رہا تھا۔۔۔
ہاں تو کچھ نہیں ہوتا۔۔ دھل کے صاف ہوجائے گا۔۔
اور میں جارہی ہوں اندر اماں جان انتظار کر رہی ہوں گی۔۔ وہ لاپرواہی سے کہتی اپنا ڈوپٹہ سمبھالتی اندر کی جانب چلی گئی۔۔
حازق بھی مسکراتا ہوا اُس کے پیچھے چل دیا۔۔۔۔
#############
حازق آفس میں بیٹھا کام کررہا تھا۔۔ جب اُس کا موبائل بجا۔اُس نے لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر سائیڈ پر پڑے موبائل کو دیکھا۔۔
گھر سے کال آرہی تھی۔۔۔۔اُس نے گھڑی کی جانب دیکھا۔۔ رات کے 8 بج رہے تھے۔۔
یقیناً رشید واپس آچکا تھا۔۔ اور اسی لیے فریحہ نے کال کی تھی۔۔ وہ موبائل سائلٹ پر لگاتا دوبارہ کام میں مصروف ہوگیا۔۔
کام کافی زیادہ تھا اِسی لیے اُسے آج دیر ہوگئی تھی۔۔
وہ جلدی جلدی کام ختم کرتا اٹھا اور گاڑی میں بیٹھتا گھر کی جانب جانے لگا۔۔۔
########
دیکھو رشید تم جو کر رہے ہو ناجائز کر رہے ہو۔حازق رخصتی چاہتا ہے زرنین کی۔۔ اور میں نہیں چاہتی اُس کی رخصتی میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ آئے۔۔۔زوجاجہ بیگم نے ایک بار پھر رشید کو سمجھانا چاہا
میں کچھ غلط نہیں کر رہا اماں۔۔۔۔زمین میرے نام کردیں حازق کی رخصتی کی میں اجازت دے دوں گا۔۔۔ رشید اطمینان سے اپنی بات مکمل کرتا صوفے پر بیٹھ گیا۔۔
زوجاجہ بیگم رشید سے بات کرنے آئیں تھی۔۔ زرنین گھر میں اپنا کمرہ درست کر رہی تھی۔۔۔اور اپنی قیمتی چیزیں ایک بیگ میں ڈالنے لگی۔۔زوجاجہ بیگم نے کہا تھا کہ کسی بھی وقت اُس کی رخصتی ہوسکتی ہیں۔۔فریحہ بھی زرنین کے پاس چلی گئی تھی۔۔
خدا کے عذاب سے ڈرو رشید۔۔۔جو زمین تم مانگ رہے ہو وہ حمید کی اپنی محنت کی کمائی ہے۔۔اُس نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے بنائی تھی وہ زمین تاکہ زرنین اپنا خواب پورا کرسکے۔۔وہ زمین ہرگز تیرے نام نہ ہوگی۔۔زوجاجہ بیگم نے افسوس سے رشید کو دیکھتے کہا
جو ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے سکون سے بیٹھا تھا
بس کر جا اماں۔۔ بس کرجا۔۔۔رشید غصے سے اٹھا اور اماں کے سامنے کھڑا ہوگیا
میں تیری سگی اولاد نہیں ہونا اِسی لئے تو یہ سب کہتی ہے۔۔ اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو کبھی ایسا نہ ہوتا۔۔ وہ نخوت سے کہتا اماں کو دیکھنے لگا
زوجاجہ بیگم کا دل گھبرانے لگا تھا رشید کی باتوں سے۔۔ وہ ہر روز اُنہیں طعنے دیتا ایک نہ کردہ گناہ کے
کاش رشید۔۔ تو کچھ پڑھ لکھ جاتا۔۔ قرآن کو سمجھ لیتا تو آج یوں نہ کہتا۔۔ تو ہمیشہ سے شریعت کو جھٹلاتا آیا ہے۔۔۔اور جو شریعت کو جھٹلا دے اُس کا ایمان کمزور پر جاتا یے۔۔۔زوجاجہ بیگم نے خوف سے کہا
رشید اماں کی بات ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکالتا سگریٹ سلگانے لگا
اماں کو حمید کی یاد آئی۔۔۔۔ہمیشہ سے ماں باپ کی عزت کرنے والا۔۔ بچوں سے پیار کرنے والا۔۔۔۔
اُن کی آنکھیں بھیگنے لگی۔۔۔
اسلام علیکم۔۔۔حازق کمرے میں داخل ہوتا اونچی آواز میں بولا تاکہ رشید اُس کی جانب متوجہ ہوجائے
رشید نے مڑتے ہوئے حازق کا جائزہ لیا اور سر ہلا کر جواب دیا
وعلیکم اسلام آجاؤ میرے بچے۔۔زوجاجہ بیگم نے محبت سے کہا
اماں جان آپ۔۔حازق تیزی سے زوجاجہ بیگم کے پاس گیا۔۔ اور پیار سے اُن کے ہاتھ تھام لیے۔۔
اماں جان آپ یہاں۔۔ سب خیریت ہے۔۔؟وہ رشید کی موجودگی کو نظر انداز کرتا بولا
ہاں میں بات کرنے آئی تھی رشید سے۔۔ زوجاجہ بیگم نے اطمینان سے کہا
رشید چلتا اُن دونوں کے قریب آیا۔۔۔
حازق بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا
تم نے اماں جان سے بات کی تھی۔۔ رشید نے تیکھی نظروں سے اُسے دیکھا
جی۔۔ حازق نے مختصر سا جواب دیا
اور تمہیں لگتا ہے کہ میں اپنا فیصلہ بدل دوں گا۔۔۔وہ حازق کو مطمئن کھڑا دیکھتا پھر سے بولا
نہیں مجھے ایسا بالکل نہیں لگتا۔۔ لیکن اماں جان کو امید تھی۔شاید تبھی وہ آپ سے بات کرنے آئی ہیں۔۔۔حازق نے پھر آرام سے جواب دیا۔۔ وہ خود کو مضبوط بنا کر آیا تھا۔۔۔اب وہ پہلے کی طرح کسی بات پر ڈرنے والا نہیں تھا۔۔
زوجاجہ بیگم دونوں کی باتیں سن رہی تھیں
رشید نے جل کر حازق کو دیکھا۔۔
تم نے شاید میری اگلی بات اماں جان کو نہیں بتائی۔۔وہ طلاق والی بات کی جانب اشارہ کرتا بولا
حازق نے باپ کو دیکھا۔ کتنا بے باک تھا وہ ایسی باتوں میں۔۔ زرا سی جھجک بھی محسوس نہیں کرتا تھا
حازق نے مجھے سب بتایا ہے۔۔۔اور تم سے اِسی گھٹیا پن کی امید تھی مجھے۔۔ تم اور کر بھی کیا سکتے ہو۔۔ زوجاجہ بیگم نے غصے سے کہا
حازق خاموش سا دوبارہ بیٹھ گیا
میں جو کہہ رہا ہوں وہ کر کے بھی دکھا دوں گا۔۔ رشید وارن انداز میں بولا
وہ کب سے دونوں کا اطمینان دیکھ کر اندر ہی اندر جل رہا تھا۔۔۔۔ وہ تو سوچ کر آیا تھا شاید یہ لوگ طلاق کی بات سے ڈر جائیں گے۔۔ لیکن یہاں تو کوئی اور ہی معاملہ تھا
تو کر دکھاؤ۔۔ فریحہ نے تمہارے ساتھ رہ کر کون سا سکھ دیکھیں ہیں۔۔ کیا پتا تم سے الگ ہوکر وہ پرسکون زندگی گزار لے۔۔۔ زوجاجہ بیگم شاید سارے جواب سوچ کر آئیں تھی۔۔
اماں جان۔۔ حازق نے زوجاجہ بیگم کی بات پر پریشانی سے انہیں دیکھا۔۔
انہوں نے حازق کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اُسے تسلی دی۔۔ وہ جانتی تھیں کہ رشید اتنی آسانی سے طلاق نہیں دے گا۔۔ آخر پورے گاؤں میں اُس کے بےعزتی ہوں کہ اِس عمر میں بیوی کو طلاق دے دی
آپ لوگ بہت پچھتائیں گے۔۔ میں کبھی زرنین کو اِس گھر میں آنے نہیں دوں گا۔۔۔ رشید غصے سے آواز اونچی کرتا بولا
اِس بات کا اختیار میرے پاس ہے بابا سائیں۔۔زرنین میری منکوحہ ہے۔۔اور اُس کی رخصتی کیلئے میں خود مختار ہوں۔۔ جب چاہو زرنین کو یہاں لا سکتا ہوں اور آپ مجھے روک نہیں سکتے۔۔۔ وہ بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا بولا
واہ پتر۔۔ ویسے تو بڑی اسلام کی باتیں کرتا ہے۔۔باپ کے حقوق بھول چکا ہے کیا۔۔ رشید سے کوئی بات نہ بنی تو اسلام کو درمیان میں لے آیا
مجھے اپنے سارے حقوق و فرائض یاد ہیں۔۔۔اور پوری کوشش کرتا ہوں انہیں نبھانے کی۔۔آپ سے ایک بار نہیں بہت مرتبہ بات کر چکا ہوں رخصتی کی۔۔ لیکن آپ کی بے جا ضد کی وجہ سے ہی میں آج یہ سب کہنے پر مجبور ہوا ہوں۔۔ وہ بے بسی سے باپ کو دیکھتا بولا
رشید نے مٹھیاں بھینچ کر اماں اور حازق کو دیکھا۔۔ کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔ اُس کے سارے منصوبوں پر پانی پڑ چکا تھا
اور مت بھولیں اللہ نے آپ کی رسی دراز کی ہے چھوڑی نہیں۔۔ وہ جب چاہے کھینچ سکتا ہے۔۔ اللہ کی پکڑ سے ڈریں۔۔ وہ بہت بڑا انصاف کرنے والا ہے۔۔
چلیں اماں جان۔۔ حازق اپنی بات مکمل کرتا زوجاجہ بیگم کی طرف بڑھا جو آنکھوں میں نمی لئے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔ وہ انہیں سہارا دیتا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔
رشید خالی دماغ سے شکست خوردہ سا بیڈ پر بیٹھ گیا