وہ کب سے کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔۔بابا سائیں کے بارے میں کوئی غلط سوچ نہیں رکھنا چاہتا تھا۔۔پھر بھی اس کا دماغ اسے بھٹکا رہا تھا۔۔۔ باپ کے خلاف ورغلا رہا تھا۔۔وہ جانتا تھا کہ رشید کا رویہ تو شروع سے ہی سب کے ساتھ سرد رہا تھا۔۔۔زرنین کے رشتے کی بات بھی حازق نے بہت مشکل سے کی تھی۔۔۔اسے ڈر تھا کہ بابا سائیں انکار نہ کردیں۔۔لیکن رشید نے بہت آسانی سے ہاں کردی تھی۔
شاید بابا سائیں نے اسی وجہ سے ہاں کی تھی کہ جب زرنین ان کی بہو بن جائے گی وہ آسانی سے زمین پر قابض ہوجائیں گے۔۔اس کے دماغ نے ایک اشارہ کروایا
نہیں۔۔ بابا سائیں اس حد تک نہیں گر سکتے۔۔۔وہ اپنے دماغ کی نفی کرتا بولا
کیوں نہیں گر سکتے۔۔جب دولت کی حوس سوار ہوجائے تو انسان کچھ بھی کر سکتا۔۔۔اس کا ضمیر سامنے کھڑا اس کی نفی کرنے میں لگا ہوا تھا
وہ۔۔وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔۔؟حازق نے پریشان ہوکر خود سے سوال کیا
انہوں نے امی کی طلاق کا کہا تھا کیا یہ کافی نہیں جاننے کیلئے کہ وہ کسی بھی حد کو تجاوز کر سکتے ہیں۔۔۔اس کا عکس سامنے کھڑا ہنس رہا تھا۔۔۔مذاق اڑا رہا تھا
بس۔۔۔حازق بے بسی سے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتے چلایا
چہرے پر تھکن واضح تھی۔۔۔آنکھوں میں پڑتے لال ڈورے شب بیداری کی نشاندہی کر رہے تھے۔۔وہ پوری رات نہیں سو پایا تھا۔۔ کیا کہتا وہ زرنین سے کہ اس کے بابا رخصتی کیلئے زمین کا مطالبہ کر رہے ہیں۔۔۔سوچوں نے پھر سے اسے آن گھیرا۔۔۔
اُس نے بے چینی سے اپنے سینے کو مسلا۔۔۔۔۔اور بیڈ پر دونوں ہاتھوں کے سہارے تھکا تھکا سا بیٹھ گیا۔۔۔
میں کیا کروں۔۔کیا امی کو سب بتا دوں۔۔وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے میں لگا تھا۔۔۔
نہیں امی کو بہت دکھ ہوگا سب سن کر۔۔۔وہ خود ہی اپنی بات کو جھٹلا گیا
زرنین۔۔۔اس کے لبوں نے زرنین کو پکارا جیسے وہ اسی کمرے میں موجود ہو۔۔۔
موبائیل۔۔ وہ بڑبڑاتا ہوا جھٹکے سے اٹھا اور بیڈ پر نظر دوڑانے لگا۔۔سرہانے کے قریب موبائیل پڑا تھا۔۔۔اس نے موبائل ہاتھ میں لیا اور اون کرنے لگا
اوہ شٹ۔۔بیٹری بھی ڈیڈ ہے۔۔۔حازق ہاتھ میں موبائل پکڑتا خود کو کوس رہا تھا۔۔موابائیل آف تھا۔۔ اس نے جلدی سے چارجر ڈھونڈ کر موبائل چارجنگ پر لگایا
اور ٹیبل پر پڑے جگ سے گلاس میں پانی بھر کر حلق میں انڈیلا۔۔۔
وہ ہاتھ سے پیشانی مسلتا بیڈ پر لیٹنے کے انداز میں گرا۔۔دونوں ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹک رہیں تھی۔۔ایک بازو پر سر رکھے دوسری بازو کو آنکھوں پر فولڈ کرتا وہ آنکھیں بند کر چکا تھا
میں جاؤں گا اماں جان کے پاس۔۔انہیں سب بتاؤں گا بابا سائیں کا۔۔ایسا کوئی بھی مطالبہ زرنین کو مجھ سے کوئی الگ نہیں کر سکتا۔۔ میں کبھی اُس کا مان نہیں ٹوٹنے دوں گا۔۔۔وہ بیڈ پر بے ترتیب لیٹا زیرِ لب بڑبڑاتا سوچوں کے حصار میں گم ہوگیا تھا۔۔تھکاوٹ اور بے آرامی کی وجہ سے جلد ہی نیند نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا
وہ کچھ پل کو ہی صحیح دنیا سے بے خبر سکون کی نیند سو چکا تھا
#########
اماں جان میں آجاؤں اندر۔۔۔زرنین نے دروازے کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے زوجاجہ بیگم سے اجازت لی
زوجاجہ بیگم تسبیح کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔زرنین کی آواز پر تسبیح کے دانے گراتا ہاتھ رکا
ہاں زرنین آجاؤ۔۔۔وہ زرنین کو اجازت دیتی پھر سے تسبیح پڑھنے میں مشغول ہوگئی
زرنین کمرے میں داخل ہوکر دروازے کو بند کرتی آہستہ سے چلتی ہوئی زوجاجہ بیگم کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔۔اور خاموشی سے ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی
وہ پریشان تھی صبح سے۔۔حازق کا میسج تک نہیں آیا تھا اور کال کرنے پر موبائل نمبر بھی آف آرہا تھا۔۔شام کے پانچ بج رہے تھے۔۔وہ اماں جان سے حازق کی خیریت طلب کرنے آئی تھی۔۔شاید انہیں کچھ پتا ہو۔۔حمید کی موت کے بعد وہ خود سے جڑے ان چند رشتوں کو لے کر بہت حساس ہوگئی تھی۔ اب کسی کی محرومی نہیں چاہتی تھی وہ زندگی میں
زوجاجہ بیگم نے تسبیح مکمل کر کے زرنین پر ایک نظر ڈالی
وہ اپنے ہاتھوں کو گود میں رکھ کر گھور رہی تھی
کیا بات ہے زرنین۔۔۔ سب خیریت تو ہے نا۔۔۔زوجاجہ بیگم تسبیح رکھتی اُس کی جانب مڑی۔۔
اماں جان۔۔ وہ۔۔وہ حازق بات نہیں کر رہے۔۔۔وہ پریشانی سے منہ اٹھاتے بولی
کیا مطلب۔۔ کوئی لڑائی ہوئی ہے کیا تم دونوں کے درمیان۔۔ زوجاجہ بیگم نے ناسمجھی سے پھر پریشانی استفسار کیا
نن۔۔۔۔ نہیں اماں جان ہماری لڑائی کیوں ہوگی۔۔وہ بس ان کا موبائل بند جارہا ہے۔۔صبح فجر کے وقت بھی میں نے میسج کیا تھا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔بعد میں بھی کال کی تھی لیکن موبائل آف آرہا ہے۔۔۔۔وہ اپنی بات کو تفصیل سے سمجھاتے ہوئے بولی
اچھا۔۔۔تو کوئی بات نہیں اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔ہوسکتا ہے کسی کام میں مصروف ہو۔۔زوجاجہ بیگم نے مسکراتے ہوئے تسلی دینا چاہی۔۔پریشان تو وہ خود بھی ہوگئی تھی لیکن ہ زرنین کو مزید پریشانی سے بچانا چاہتی تھیں
زرنین شرمندہ سی ہوکر چہرہ جھکا گئی
اچھا ایک کام کرو فریحہ کو فون ملا کر دو۔۔میں اس سے پوچھتی ہوں۔۔زوجاجہ بیگم کچھ سوچتے ہوئے بولی
جی اماں جان ایک منٹ۔۔۔زرنین نے فوراً اپنا موبائل پکڑا اور گھر کے نمبر پر فون کرنے لگی
یہ لیں اماں جان۔۔اس نے ہاتھ میں فون پکڑے زوجاجہ بیگم کے سامنے کیا
ہاں لاؤ دو میں پوچھتی ہوں تم پریشان نہ ہو سب خیریت ہوگی انشاءاللہ۔۔۔زوجاجہ بیگم اس کی تیزی دیکھ کر ہنسنی دباتی ہوئی بولی اور فون کان کے ساتھ لگا لیا
افف۔۔یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔میں خود کرلیتی طائی امی کو کال۔۔۔زرنین نے اپنی عقل پر خود ہی ماتم کیا اور اماں جان کی باتیں سننے لگی
ہاں۔۔۔چلو ٹھیک ہے تم دیکھو بچے کی ططبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔اماں جان پریشانی سے بول رہی تھی
شاید دوسری طرف سے حازق کے بارے میں کچھ کہا گیا تھا
زرنین کا دل گھبرایا تھا اماں جان کی بات سن کر۔بے چینی پہلے سے ذیادہ بڑھ گئی تھی
اچھا۔۔۔ کبھی خود بھی یہاں دو گھڑی بیٹھنے آجایا کرو۔۔۔اب تو ویسے ہی رشید گیا ہوا ہے تو آجانا حازق کے ساتھ ہی۔۔۔۔زوجاجہ بیگم شکوہ کرتے بولی
فریحہ کا آنا جانا بہت کم تھا۔۔رشید کی وجہ سے اُس نے کہیں جانا ہی کم کردیا تھا۔۔۔جب سے زمینوں کا مسئلہ شروع ہوا تھا اُس کا جانا اور بھی کم کردیا گیا تھا۔۔اور وہ ہمیشہ سے ہی اپنے مجازی خدا کے حکم کی پابند رہی
وہ مجازی خدا جسے اپنے رتبے تک کا علم نہیں۔۔۔جسے اپنے حقوق تو یاد ہو لیکن فرائض کو سمجھنا تک گوارا نہ کرے۔۔۔
وہ مرد جو عورت کو اپنی جوتی کی مانند سمجھتے ہیں۔۔۔جو کسی کی بیٹی کو ازیت میں رکھتے ہیں وہ یہ مت بھولیں کہ اُن کی ایک نا ایک دن پکڑ ضرور ہوگی۔۔۔اگر اللہ نے اُن کی رسی دراز کی ہے تو وہ کھینچنے پر بھی قادر ہے۔۔اگر وہ خدا رحمان ہے رحم کرنے والا تو وہ قہار بھی ہے۔۔۔وہ اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے تو وہ کیسے برداشت کرے کہ کوئی اُس کے بندے کو تکلیف پہنچائے۔۔۔ہر ایک بات کا حساب دینا پڑے گا۔۔ کسی کی آنکھ میں آپ کی وجہ سے آنے والے آنسو کا حساب بھی وہ ضرور لے گا
ہاں وہ شخص جو راہِ راست پر آجائے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے رب کے حضور معافی کا طلبگار ہو تو اللہ بخشنے والا بھی ہے۔۔۔۔
زرنین۔۔۔۔زوجاجہ بیگم نے زرنین کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
جی۔۔جی اماں جان سب خیریت تو ہے نا۔۔ حازق کو کچھ ہو ہے کیا۔۔میں جاؤ اُن سے ملنے۔۔بلکہ ایک کام کریں آپ بھی چلیں میرے ساتھ ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔زرنین جلدی جلدی بولتی آخر میں سوالیہ نظروں سے زوجاجہ بیگم کو دیکھنے لگی جو اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی
زرنین میرا بچہ کچھ نہیں ہوا۔حازق ٹھیک یے بالکل وہ رات کو آئے گا فریحہ کے ساتھ۔۔۔فکر نہیں کرو۔۔۔ہمممم۔ زوجاجہ بیگم نے زرنین کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر تسلی دی
تو پھر وہ۔۔۔اُن کا فون کہاں ہے؟وہ پھر پریشانی سے بولی
اُس نے بس فون چارج نہیں کیا تھا۔۔ اور رات میں بھی کام کر رہا ہوگا آفس کا اسی لیے سو نہیں سکا۔۔ابھی سویا ہوا تھا۔۔میں نے فریحہ سے کہا ہے وہ اسے اٹھاتی ہے تو آجائے گا یہاں ملنے تم سے۔۔ اب ختم کرو اپنی فکر۔۔۔ زوجاجہ بیگم پہلے سنجیدگی سے سمجھاتے ہوئے بولتی گئی آخر میں شرارت سے کہہ کر ہنس دی
جی اماں جان۔۔۔۔۔ زرنین بس اتنا ہی کہہ سکی کیونکہ ابھی بھی وہ مطمئن نہیں ہوئی تھی۔۔جب تک وہ حازق سے خود بات نہ کر لیتی تب تک بےچینی لگی رہنی تھی
اچھا جاؤ اب جاکر پہلے نماز پڑھو عصر کی پھر کچھ کھانے میں اچھا سا بناؤ۔۔۔امی آرہی ہیں تمہاری کافی دنوں بعد۔۔ وہ بھی رشید گیا ہوا ہے تو اسی لئے۔۔۔ زوجاجہ بیگم نے اذان کی آواز سن کر زرنین کے گال تھتھپاتے ہوئے حکم دیا۔۔ وہ چاہتی تھی کچھ مصروف ہوجائے
جی اچھا۔۔ وہ سر اثبات میں ہلاتی مسکرا کر وہاں سے چلی گئی
یا اللہ میری بچی کو ہمیشہ خوش رکھنا۔۔اس کی خوشیاں برقرار رکھنا۔۔بری نظر سے بچائے رکھنا۔۔۔زوجاجہ بیگم نے لمبا سانس بھرتے ہوئے دل میں دعا کی اور نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئی
###########
حازق کی آنکھ شام چھ بجے کھلی تھی۔۔۔وہ کب سے لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔۔۔موبائل چارج ہوچکا تھا۔۔لیکن اُس میں ہمت نہ تھی زرنین سے بات کرنی کی۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ وہ پریشان ہوگی۔۔۔ اور وہ ایک بار ہی مل کر اُس کی پریشانی ختم کرنا چاہتا تھا
دروازے کے آواز پر وہ چونکا۔۔اور سستی سے اٹھ کر بیٹھ گیا
تھکاوٹ اب قدرے کم ہوچکی تھی۔۔آج وہ آفس بھی نہ گیا تھا
حازق بیٹا دروازہ کھولو۔۔۔۔دروازے کے عقب سے فریحہ کے آواز ابھری
جی امی ایک منٹ۔۔۔وہ اونچی آواز میں بولتا دروازے کی جانب بڑھا اور دروازہ کھول دیا
کیا ہوا ہے حازق بیٹا سب خیریت تو ہے۔۔طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔دروازہ کھلتے ہی فریجہ نے پریشانی سے حازق کا چہرہ چھوتے ہوئے پوچھا
جی امی میں ٹھیک ہوں آپ فکر مت کریں۔۔۔ وہ فریحہ کی شکل دیکھ کر مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا اور بیڈ پر بیٹھ گیا
فریحہ بھی خاموشی سے اُس کے ساتھ بیٹھ گئی
حازق۔۔۔ایک بار پھر فریحہ کی آواز نے خاموشی توڑی
جی امی۔۔۔ وہ محبت سے اُن کی طرف پلٹا
بیٹا تم آج آفس بھی نہیں گئے اور موبائل بھی بند کر رکھا ہے۔۔زرنین اور اماں جان کتنا پریشان ہورہی تھیں۔۔۔انہوں نے مجھے فون کر کے تمہاری خیریت معلوم کی ہے۔۔۔ فریحہ نے حازق کو بتایا اور کھڑی ہوکر کمرہ سمیٹنے لگی
جی امی بس رات کو سویا نہیں تھا تو اسی لیےصبح میں سو گیا اور موبائل آف تھا اسے چارجنگ پر لگا دیا تھا۔۔حازق کو خوشی ہوئی تھی سن کر۔۔۔۔وہ اپنی مسکراہٹ دباتا بولا
اچھا چلو ٹھیک ہے پھر ابھی اماں جان کے پاس چلتے ہیں مجھے بھی کافی دن ہوگئے ہیں ان سے ملے ہوئے۔۔۔تم جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔وہ بیڈ پر پڑے سرہانے درست کرتی مصروف سے انداز میں بولی
جی ٹھیک ہے مجھے بھی جانا ہی تھا۔۔اچھا ہوا آپ بھی چلیں گی ساتھ۔۔۔حازق کچھ سوچتے ہوئے بولا
حازق ایک بات تو بتاؤ۔۔۔۔ سچ بتانا بالکل۔۔۔فریحہ حازق کے پاس بیٹھتی بولی اور انگلی سے سچ بتانے کا وارن بھی کیا
حازق کو فریحہ کے انداز پر ہنسی آئی
جی پوچھیے۔۔۔وہ ماں کے ہاتھوں کو پکڑتے ادب سے بولا
تم نے بات کی تھی اپنے بابا سے زرین کی رخصتی کے بارے میں۔۔۔فریحہ نے عجلت میں حازق کو دیکھتے ہوئے پوچھا
حازق خاموش رہا۔۔وہ کیا بتاتا ماں کو کہ اس کی طلاق کی بات بھی کی گئی تھی جس سے وہ انجان تھیں
دیکھو حازق سب سچ بتانا۔۔۔اپنے بابا کے اور میرے رشتے کی سچائی اور کمزوری سے تم بخوبی واقف ہو۔۔صرف تمہاری خاطر اپنی عمر اس دلدل میں گزاری ہے میں نے تاکہ تم باپ کے سائے سے محروم سے نہ ہوجاؤ۔۔۔فریحہ آنکھوں میں نمی لئے بول رہی تھی۔رشید کے کیے ہر ظلم آنکھوں کے سامنے گھوم گئے
امی جان۔۔۔۔ حازق نے آگے بڑھ کر فریحہ کو اپنے حصار میں لیا
امی جان جب سے ہوش سمبھالا صرف آپ کی ہی محبت دیکھی ہے۔۔جتنی قربانیاں آپ نے میرے لیے دیں ہیں شاید ہی کسی نے دیں ہو۔۔آپ نے مجھے پالا ہے۔ میری تربیت کی ہے۔اور یہ آپ کی تربیت ہی ہے کہ میں آج تک بابا سائیں کے آگے بول نہیں سکا۔۔۔ آپ پر ہوا ہر ظلم مجھے یاد ہے امی جان۔۔لیکن اب بس۔۔آپ ہرگز کوئی بات برداشت نہیں کریں گی۔۔۔اب آپ کا بیٹا بڑا ہوگیا ہے۔۔ اپنے حق کیلئے لڑنا سیکھ گیا حازق کے ہر ایک لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی۔۔اُس نے عقیدت سے ماں کے ہاتھوں کو چوما
فریحہ کا سارا دکھ جیسے بہت پیچھے رہ چکا تھا۔۔اُس نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا اور محبت سے حازق کا ماتھا کے ماتھے پر بوسا دیا
حازق نے سکون سے اپنی آنکھیں بند کیں
اچھا چلو اب بتاؤ مجھے کیا بات ہوئی تھی بابا کے ساتھ۔۔اماں جان بھی منتظر ہوگی کہ زرنین کی رخصتی کی بات کی جائے۔۔۔فریحہ نے زرنین کے نام پر محبت سے کہا
حازق نے نا چاہتے ہوئے بھی ساری بات فریحہ کو بتا دی سوائے طلاق کے۔۔۔
حازق بیٹا تم جانتے ہو نا کہ تمہارے بابا اماں جان کی سگی اولاد نہیں ہے۔۔ ؟فریحہ نے حازق کا اترا چہرہ دیکھ کر سوال کیا
جی امی جان۔۔۔میں جانتا ہوں۔ آپ نے بتایا تھا مجھے۔۔لیکن بابا سائیں کو اِس بات کا علم نہیں ہے کہ میں یہ سب جانتا ہوں۔۔۔ حازق نے آسانی سے قبول کرتے ہوئے کہا
تو بیٹا بس شریعت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں اماں جان اور ابا جی نے پورا کیا تھا۔۔اور تمہارے بابا اِس بات کو ماننے سے انکاری رہے تھے ہمیشہ سے۔۔۔پہلے بھی بہت مرتبہ انہوں نے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔۔ لیکن اماں جان نے صاف انکار کردیا تھا۔۔۔اور پھر تمہارا زرنین سے شادی کا کہنا رشید نے آسانی سے قبول کرلیا شاید یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اِس طرح زمین پر قبضہ حاصل کر لیں گے۔۔۔لیکن تم زرنین کا ساتھ کبھی مت چھونا۔۔ ہمیشہ حق کا ساتھ دینا۔۔۔فریحہ پیار سے حازق کو سب سمجھا رہی تھی۔۔ بہت سے باتوں سے پردہ اٹھا تھا آج
حازق خاموشی سے گردن جھکائے سب سن رہا تھا۔۔۔۔رشید کے بارے میں بہت سے باتوں نے دل میں جنم لیا تھا۔۔بہت سے سوال اٹھے تھے ذہن میں جن کا وہ جواب چاہتا تھا
فریحہ کے خاموش ہوتے حازق نے اپنا سر اٹھایا۔۔۔
امی میں سب جاننا چاہتا ہوں۔۔ میں شریعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔۔ شاید کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔ بس اتنا جانتا تھا کہ بابا سائیں اماں جان کی سگی اولاد نہیں ہیں۔۔۔لیکن کبھی اماں جان کو زیادتی کرتے نہیں دیکھا۔۔۔میں جاننا چاہتا ہوں سب امی جان۔۔۔ حازق نے التجائیہ انداز میں کہا
اچھا ٹھیک کے جو جاننا ہے آج اماں جان سے پوچھ لینا۔۔اور دیکھو باتوں باتوں میں ٹائم کتنا ہوگیا یے سات بجنے والے ہیں۔۔فریحہ اور حازق دونوں نے گھڑی کو دیکھا
چلیں میں بس فریش ہوکر آتا ہوں آپ تیار رہیں پھر چلتے ہیں دونوں ۔۔حازق بیڈ سے اٹھتا بولا اور واش روم کی جانب قدم بڑھا لئے
فریحہ بھی دروازہ بند کرتی اپنی کمرے میں چلی گئی
##########
سب لوگ اِس وقت کھانا کھانے کے بعد باغیچے میں چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔۔ٹھنڈی ہوا نے ماحول کو اور زیادہ پرسکون بنا دیا تھا۔۔۔ ہوا کی وجہ سے پھول ہل رہے تھے ۔زرنین پودوں کے پاس کرسی پر بیٹھی تھی۔۔ کبھی پھولوں کو ہاتھ سے چھوتی کبھی ان کی خوشبو کو اپنے اندر اتارتی۔۔۔فریحہ اور زوجاجہ بیگم اپنے دکھ بانٹنے میں لگی ہوئی تھی۔۔ جبکہ حازق زرنین کو نظروں کے حصار میں لئے بیٹھا تھا۔۔ وہ کب سے زرین کو میسج کر رہا تھا لیکن زرنین نے جواب دینا تو دور کی بات ایک بار بھی حازق کی طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔۔وہ کب سے حازق کو اگنور کر رہی تھی۔۔اسے بھی تو حق تھا اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کا۔۔۔
حازق بیٹا۔۔ حازق زرنین کو دیکھنے میں مصروف تھا جب زوجاجہ بیگم نے اُسے پکارا
جی اماں جان۔۔۔۔وہ متوجہ ہوتے بولا
بیٹا میں چاہتی ہوں زرنین کی رخصتی کر دی جائے۔۔ لیکن اُس سے پہلے میں تمہیں کچھ باتیں بتانا چاہتی ہوں۔۔ مجھے امید ہے کہ تم ضرور سمجھو گے۔۔۔ زوجاجہ بیگم سنجیدگی سے بول رہی تھی
جی جیسا آپ کو بہتر لگے۔۔ کچھ حقائق میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھتا زوجاجہ بیگم کے پہلو میں بیٹھ گیا۔۔
میں سب کچھ بتاؤ گی۔۔لیکن میری زرنین کی زندگی پر۔ اس کی خوشیوں پر خوابوں پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئے۔۔۔۔ انہوں نے ایک نظر گم سم سی بیٹھی زرنین کو دیکھا
جی انشاءاللہ میں حق کا ساتھ دوں گا۔حازق نے مسکراتے ہوئے یقین دلانا چاہا
فریحہ نے پہلے ہی اماں جان کو سب بتا دیا تھا۔۔ رشید کے مطالبے کے بارے میں۔۔ اور اماں جان کو بھی شاید پہلے سے ہی یہی توقع تھی تبھی ان کا ردِعمل کچھ خاص نہ تھا
فریحہ تم زرا زرنین کو یہاں سے لے جاؤ میں نہیں چاہتی کہ زرنین کسی بھی بات کو جان کر فکر مند ہو۔۔۔زوجاجہ بیگم نے فریحہ سے کہا
جی اچھا۔۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی وہاں سے اٹھ گئی
زرنین۔۔۔۔ وہ اپنے نام پر چونک کر مڑی تھی۔۔ جہاں فریحہ کھڑی مسکرا رہی تھی
جی طائی امی۔۔ وہ ادب سے کھڑی ہوئی
طائی نہیں صرف امی۔۔۔ فریحہ نے پیار سے کہا
جی۔۔زرنین بھی جوابا پھیکا سا مسکرائی۔۔اُس کا موڈ ابھی خراب تھا البتہ حازق کو صحیج دیکھ کر فکر ختم ہوگئی تھی
حازق دور سے بیٹھا دلچسپی سے سب دیکھ رہا تھا
میں کچھ لائی ہوں تمہارے لیے۔۔اماں جان کے کمرے میں رکھا ہے آؤ دکھاؤ۔۔ وہ زرنین کا بازو پکڑتے بولی
جی لیکن اماں جان بھی تو دیکھیں گی۔۔وہ زوجاجہ بیگم کی طرف دیکھ کر بولی۔۔ ایک نظر پاس بیٹھے حازق پر پڑی جو مسکرا رہا تھا۔۔ زرنین نے فورا سے اپنی نظروں کو زاویہ بدلا
حازق نے اس حرکت پر بامشکل اپنی ہنسی دبائی
ارے نہیں بیٹا تم جاؤ بیٹھو کمرے میں۔۔ میں بھی بس ابھی آتی ہوں ویسے بھی تم دونوں کو بہت کم وقت ملتا ہے آپس میں بیٹھنے کا۔۔۔زوجاجہ بیگم نے اجازت دیتے کہا
اہمممم اہممم۔۔ میرے بارے میں کیا خیال ہے اماں جان۔۔۔ حازق نے کھانستے ہوئے اپنی جانب توجہ دلانا چاہی۔۔اور آنکھوں میں شرارت لئے زرنین کو دیکھنے لگا
زرنین سٹپٹاتے ہوئے نظریں جھکا گئی
چل شرارتی بچہ یہ تو اب ساری عمر تمہاری ہی امانت ہے۔۔۔زوجاجہ بیگم حازق کے کندھے پر ہاتھ مارتی پیار سے بولی
فریحہ پاس کھڑی مسکراتی نظروں سے دونوں کو دیکھ رہی تھی
طائی امی میں کمرے میں جاتی ہوں۔۔آپ آجائیے گا۔۔ زرنین بھاگنے کے سے انداز میں وہاں سے غائب ہوئی۔۔اُسے اپنے پیچھے سب کے قہقہے سنائی دیے جس سے وہ مسکرائی تھی