بابا سائیں کیسے یہ سب کر سکتے ہیں۔۔حازق بڑبڑاتے ہوئے غصے سے گھر میں داخل ہوا۔۔خاکی لفافوں میں پڑے کاغذوں نے اس کا دماغ ایک پل کو پورا گھما دیا تھا۔۔۔
ریلیکس۔۔۔حازق نے دونوں ہاتھوں کو سینے پر رکھ کرخود کو نارمل کرنا چاہا۔۔
لیکن کیا وہ بات نارمل رہنے والے تھی؟اس کے دماغ نے اُس کی نفی کی
وہ پاؤں کے زور سے دروازہ کھولتا کمرے میں داخل ہوا اور ہاتھ میں پکڑے پیپرز تقریباً پھینکنے کے انداز میں مہر رشید کے پاس بیڈ پر رکھے
رشید نے ایک نظر حازق کی جانب دیکھا اور دوبارہ ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہوگیا
یہ سب کیا ہے بابا سائیں۔۔؟حازق نے پیپرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
میرے خیال سے تم ایک پڑھے لکھے انسان ہو۔۔ جو آسانی سے مطالعہ کرسکتا ہے کہ یہ پیپرز کس چیز کے ہیں۔۔۔رشید ٹی وی دیکھتے مصروف انداز میں بولا
میں ان پیپرز کا کیا مطلب سمجھو۔؟ایک پیپر طلاق کے ہیں اور ایک جائیداد کے۔۔آخر کیا مطلب ہوا ان سب کا۔۔حازق نے الجھی نظروں سے رشید کو دیکھا
طلاق کے پیپرز کا وہ مطلب نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔۔۔ہاں البتہ جائیداد کے کاغذات کا مطلب صحیح ہے تمہارا۔۔رشید ٹی وی بند کرتا بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا
حازق نے نا سمجھی سے دیکھا۔۔۔ وہ تو سمجھ رہا تھا کہ بابا سائیں زرنین کی طلاق کا مطالبہ کریں گے۔۔۔اگر یہ پیپرز زرنین کیلئے نہیں تھے تو کس کیلئے تھے
زیادہ دماغ لگانے کی ضرورت نہیں ہے بیٹا جی۔۔ رشید نے خاموش کھڑے حازق کے کندھے پر ہاتھ رکھا
حازق نے غائب دماغی سے باپ کو دیکھا۔۔اسے جائیداد سے زیادہ طلاق کے کاغذات نے پریشان کیا تھا
تو بابا سائیں ان سب کا پھر کیا مقصد ہوا۔۔حازق جھنجلا کر بولا
دیکھو بیٹا مطلب صاف ہے۔۔رشید نے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند اور ایک نظر پریشان کھڑے حازق کو دیکھا
یہ دو کاغذات ہیں اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تم دونوں میں سے کس کو چنتے ہو۔۔ رشید خاکی لفافے کو ہاتھ میں پکڑتے بولا
لیکن کیوں بابا سائیں۔۔حازق نے اب کی بار قدرے بلند آواز میں پوچھا
کیونکہ اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔۔ تو تم زرنین کی ساری زمین میرے نام کروا دو۔۔۔رشید بولتے بولتے رکا اور مڑ کر حازق کو دیکھا جو اگلی بات سننے کیلئے کھڑا تھا
یا تو میں تمہاری ماں کو طلاق دے دوں گا۔۔
رشید کی بات پر حازق نے بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا۔۔
آپ کو شرم آنی چاہئے بابا سائیں اس عمر میں ایسی باتیں کرتے ہوئے ایک زمین کی خاطر آپ اپنے رشتے کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔۔۔ وہ غصے سے بولتا باپ کے مقابل کھڑا ہوگیا۔۔حازق کی رگیں تن چکی تھی۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو مٹھیوں میں بھینچ کر اپنا غصہ کم کرنا چاہا
رشید نے خوف سے حازق کی آنکھوں میں دیکھا جہاں بے یقینی۔۔دکھ اور غصے کے ملے جلے تاثرات تھے
مجھے شرم دلانے کی ضرورت نہیں تمہیں۔۔میری نظر میں اس رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔وہ خود کو بیٹے کے سامنے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا
فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔ یا تو وہ پوری زمین میرے نام کرنی ہوگی یا پھر اس عمر میں اپنی ماں کی طلاق کیلئے تیار رہنا۔۔ رشید کسی بھی قسم کا لحاظ رکھے بغیر بولا اور جیب سے سگریٹ نکالنے لگا
آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔حازق نے جیسے خود کو تسلی دینا چاہی ورنہ ماں باپ کےرشتے کی کمزوری وہ اچھے سے جانتا تھا
میں ایسا کر سکتا ہوں اور اگر زمین میرے نام نہ ہوئی تو میں ایسا کر کے دکھاؤں گا۔۔رشید حازق کو چیلینج کرتا بولا اور سگریٹ کا دھواں اڑانے لگا
یہ نا انصافی ہے بابا سائیں۔۔آپ کیوں ایک زمین کے پیچھے یہ سب کر رہے ہیں۔۔حازق نے دکھ سے کہا اور پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔پپچھلے دو دنوں سے یہ کیسا روپ دیکھ رہا تھا وہ باپ کا
رشید آرام سے سگریٹ پینے میں مشغول تھا جیسے اسے کوئی فرق نہ پڑتا ہو ان سب سے
میں۔۔میں خود بنا کر دوں گا آپ کو زمین۔ ایسی بہت سی زمینیں میں آپ کے نام کر دوں گا۔۔ وہ اپنی طرف انگلی سے اشارہ کرتا بولا
یہ نا انصافی نہیں حق ہے میرا جس سے مجھے محروم کیا گیا تھا۔۔۔۔اور میں اسے کسی بھی قیمت پر حاصل کرکے رہوں گا۔۔ میں نہیں مانتا شریعت کے کسی تقاضے کو۔۔رشید کے دل کی بات زبان پر آرہی تھی۔۔ جھوٹ کہا تھا اماں ابا نے مجھ سے۔۔اور وہ زمینیں حمید کے نام کردی۔۔ رشید نے لہجہ میں نفرت سموئے کہا
کیسا جھوٹ۔۔حازق کے کان کھڑے ہوئے تھے کیا وہ کسی بات سے انجان ہو۔۔ انجان تو وہ بہت سی باتوں سے تھا جسے وہ اماں جان سے جاننا چاہتا تھا
کک۔۔۔کچھ نہیں۔رشید ہکلاتے ہوئے بولا اور نظر چرا گیا
آخر اب ہی کیوں آپ کو زمین یاد آئی جب حمید چچا وفات پاچکے ہیں؟پہلے تو آپ نے کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا۔۔حازق کو رشید کی باتیں الجھا رہی تھی
پہلے بھی کی تھی یہ بات ابا سے لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا تھا۔۔اسی لیے میں نے تم سے امید لگائی تھی کہ تم مجھے میرا حق دلاؤ گے۔۔۔۔رشید نے خود کو مظلوم دکھانا چاہا
لیکن۔۔۔۔ حازق نے کچھ کہنے کیلئے ہونٹ کھولے ہی تھے کہ رشید نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ کروادیا
حازق نے غصے سے اپنے لب بھینچے
میں مزید بحث نہیں کرنا چاہتا تم بس زمین میرے نام کرواؤ پھر تمہاری شادی۔۔ نہیں تو تیار رہنا اپنی ماں کی بربادی کیلئے۔رشید نے بات ختم کرتے کہا
حازق خاموشی سے گردن جھکائے بیٹھ گیا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا
اور ہاں اب مجھے پوری زمین چاہئے۔۔رشید سگریٹ کا کش بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا
حازق بمشکل خود پر کنٹرول کر کے بیٹھا تھا وہ اپنے باپ سے بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا تھا اس کی ماں نے ایسی تربیت نہ کی تھی
اور اب ماں کی طلاق کا سن کر وہ بے چین ہوگیا تھا
وہ کرسی سے اٹھا۔۔اس کی نظر بیڈ پر پڑے کاغذات پڑ پڑی
اس نے آگے بڑھ کر کاغذات کو اٹھایا اور انہیں پھاڑ کر وہی پھینکتا اپنے کمرے کی جانب چل دیا
########
رات کے پچھلے پہر زرنین کی آنکھ کھلی
سرہانے کے نیچے سے موبائل نکالا اور آنکھوں کو ملتے ہوئے ٹائم دیکھنا چاہا جہاں رات کے دو بج رہے تھے۔۔زرنین کو اپنا گلا خشک ہوتا محسوس ہوا
بیڈ کی دائیں جانب نظر گھمائی اور جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر حلق کو تر کیا
کیا ہوگیا ہے اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے مجھے۔۔ زرنین نے اپنا گلا مسلا اور منہ میں بڑبڑاتی بیڈ سے نیچے قدم اتار دیے
کھڑکیوں کو کھولتی وہ ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرنے لگے۔۔کتنے ہی پل ایسے گزر گئے
بابا جان آپ رات کو کیوں جاگ جاتے ہیں۔۔۔زرنین نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا اور حمید کے بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں لیٹی
بیٹا جی میں تو تہجد پڑھنے اٹھا تھا۔۔آپ اس ٹائم یہاں کیا کر رہی ہیں۔۔حمید نے وضو کرنے کی غرض سے اپنے بازو فولڈ کیے اور بیڈ پر لیٹی زرنین کو دیکھ کر مسکرایا
اچھا میں بس پانی پینے اٹھی تھی تو آپ کے کمرے کی لائٹ آن دیکھی بس اسی لیے آگئی یہاں۔۔زرنین سستی سے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی
چلو اب اٹھ گئی ہو تو تہجد پڑھ کر سونا۔۔حمید نے زرنین کے پاس بیٹھتے پیار سے کہا
اچھا بابا جان۔۔۔زرنین نے سستی سے کہا اور حمید کے کندھے پر سر رکھ دیا
بابا جان۔۔اس نے محبت سے پکارا
جی میرا بچہ۔۔محبت سے جواب دیا گیا
آپ کو پتا ہے میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔۔آپ میرا سب کچھ ہیں۔۔پھر آپ کے بعد میں اماں جان سے پپار کرتی ہوں۔۔زرنین پہلے سنجیدگی پھر میں شرارت سے بولی
آہاں لیکن ان سب میں حازق تو کہیں بھی نہیں ہے۔۔ حمید نے آبرو اچکاتے ہوئے شرارت سے پوچھا
کیا بابا جان زرنین سٹپٹائی
وہ اماں جان کے بعد آتے ہیں نا۔۔ اُس نے شرمندہ سی ہو کر اپنا چہرہ جھکا لیا
بیٹا جی کوئی بھی پہلے یا بعد نہیں ہوتا۔۔ ہر شخص کا اپنا اپنا مقام ہوتا ہے زندگی میں۔۔کوئی بھی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا۔۔حمید پیار سے سمجھا رہا تھا
زرنین کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔۔وہ ایسے ہی حمید کی باتوں کو غور سے سنتی تھی
اچھا چلو اب اٹھو اور جاکر نماز پڑھو اپنے کمرے میں۔۔یہ نماز پڑھنا کسی کسی کو نصیب ہوتی ہیں صرف انہیں جو خوش قسمت ہو۔۔ جو رب کے خاص بندے ہو وہی پڑھتے ہیں یہ نماز۔۔۔۔وہ زرنین کے گال تھپتھپا کر بولا
اوکے بابا۔۔زرنین بیڈ سے نیچے اتری اور باپ کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک دلکش چمک چھپی تھی
بابا جان آپ بہت خوش نصیب ہیں اللہ آپ کے بہت قریب ہے۔۔ زرنین نے حمید کے نورانی چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
بیٹا جی اللہ تو سب کے دلوں میں بستا ہے بس کچھ لوگ اپنے دل میں جھانکنا بھول جاتے ہیں اور دنیاوی کاموں میں پڑ کر خود کو رب کی ذات سے دور کر دیتے ہیں۔۔حمید مسکرا کر کہتا وضو کرنے چلا گیا
بابا جان آپ واقعی اللہ کے بہت قریب تھے تبھی تو آپ کو اللہ پاک نے جلدی اپنے پاس بلا لیا
زرنین خیالات کی دنیا سے باہر آئی اُس نے کھڑکی سے باہر باغیچے کی جانب دیکھا جہاں پھول ہوا سے جھلملا رہے تھے جیسے رات کے پچھلے پہر رب سے باتیں کر رہے ہو۔۔ ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اس کے چہرے کو چھوا تھا وہ کھڑکی کے آگے پردے کرتی واش روم کی جانب بڑھی
ڈوپٹے کو سر پر باندھے اس نے بسم اللہ پڑھی اور وضو کرنے میں مشغول ہوگئی
جیسے جیسے وہ ہر اعضاء کو دھو رہی تھی خود کو ہلکا ہوتا محسوس کرتی
اس نے چہرہ اٹھا کر سنک پر لگے شیشے میں دیکھا
وضو کے چھوٹے چھوٹے قطروں میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔۔۔
بابا جان آپ باکل ٹھیک کہتے ہیں تہجد کی نماز پڑھنا خوش قسمت کو ہی نصیب ہوتا ہے اور آج میں بھی انہیں خوش قسمتوں میں شامل ہوگئی ہوں۔۔وہ بابا جان کو یاد کر کے مسکرائی تھی اور آنکھوں میں آنے والی نمی کو صاف کرتی الماری سے جائے نماز نکالنے لگی
زرنین نے سر پر نفاست سے ڈوپٹہ باندھا اور جائے نماز پر کھڑی ہوکر نیت باندھ لی
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ۔۔۔ اس نے پہلے دائیں اور پھر بائیں جانب سلام پھیرا
زرنین نے دعا کیلئے ہاتھوں کو بلند کیا اُس کی نگاہیں اپنے خالی ہاتھوں کی طرف تھیں
اے میرے رب تجھ سے کیا مانگوں۔۔تو نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر نوازا ہے۔۔پیار کرنے والے بابا جان لٹانے والی اماں جان اور محبت کرنے والا شوہر عطا کیا۔۔زرنین کا دل چاہا اتنی ساری نعمتوں کیلئے رب کے آگے سجدے میں گر جائے
یا اللہ میرے بابا کو جنت میں جگہ عطا فرماء اور اماں اور حازق کو لمبی عمر سے نواز سے۔۔ اب یہ دونوں ہی میرا سہارا ہیں انہیں مجھ سے مت چھیننا۔۔ ورنہ تری گنہگار بندی مر جائے گی۔۔آنسو پلکوں کے راستے باہر نکل کر اس کا چہرہ بھگو رہے تھے ۔۔اُس نے اپنے آنسوؤں کو بہنے دیا
جائے نماز پر بیٹھے اسے اپنا وجود بہت بھاری لگ تھا
وہ پاک رب کے سامنے بیٹھی تھی اپنے سر کو جھکائے خالی ہاتھوں کو پھیلائے گناہوں سے لتھرے وجود کے ساتھ
ناجانے کتنے دن اس نے اپنے رب سے ناراض رہ کر گزارے تھے۔۔وہ شرم سار تھی اپنے شکووں پر جو اس نے رب سے کیے تھے۔۔ ان سوالوں پر جس کا جواب مانگا تھا۔۔اُسکی کیا اوقات تھی وہ رب کے فیصلوں کو قبول نہ کرتی۔۔ اس کی مرضی کے آگے سر نہ جھکاتی۔۔۔وہ جب چاہے جسے چاہے چھین لے۔۔سب اسکی امانت ہے۔۔ہمارا وجود اس کی امانت ہے۔۔ زرنین بے آواز آنسو بہا رہی تھی۔۔ اس کے بابا بھی تو امانت تھے رب کی۔۔زرنین کے لب کانپنے لگے۔۔ اس کا وجود لرز رہا تھا۔۔۔زرنین دنیا سے بے خبر کسی اور دنیا میں مصروف تھی۔۔ یہ گھڑیاں بہت عظیم تھی جس میں وہ رب کے سامنے بیٹھی تھی
بے شک ہر جان نے ایک نا ایک دن ضرور موت کا مزہ چھکنا ہے۔۔ کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہا۔۔ہمیں چاہئے کہ اپنی زندگی کو مسافر کی طرح گزاریں اور اپنی منزل کو یاد رکھیں۔۔۔اپنی آخرت کیلئے اچھے اعمال ذخیرہ کریں اور جانے والوں کے حق میں بہتری کی دعا کریں
ایک میٹھی آواز زرنین کے کانوں میں پڑی جس سے وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی
مسجدوں میں اذان کی صدا بلند ہوئی۔۔
زرنین نے منہ پر ہاتھ پھیرا اور جائے نماز پر بیٹھی اذان سننے لگی
رب سے معافی مانگ کر اس کی روح تک سیراب ہوگئ تھی۔۔ اس کے اندر سکون اتر گیا تھا
زرنین نے کمرے میں لگی گھڑی دیکھی۔۔فجر کا وقت ہورہا تھا۔۔
وہ خوش نصیب لوگ جنہیں اللہ نے اپنی حمد کیلئے اپنے محبوب کی تعریف کیلئے اور مسلمانوں کو کامیابی کی طرف بلانے کیلئے چنا تھا محبت سے اذان دینے میں مصروف تھے۔۔۔ہاں وہ محبت جس نے بلال حبشی کو محبوب کی آنکھوں کا تارا بنا دیا تھا۔
اذان۔۔۔کانوں میں رس گھولتی۔۔خاموشی میں ارتعاش پیدا کرتی۔۔ موحول کو سکون بخشتی۔۔فرحت بخش
بے شک نماز نیند سے بہتر ہے
مؤذن مسلمانوں کو بلا رہا تھا۔۔فلاح کی طرف۔۔کامیابی کی طرف
اذان اپنے اختتام کو پہنچی۔۔زرنین نے درود شریف اور دعا پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیرا
اسلام علیکم۔۔ نماز کا وقت ہوگیا ہے اٹھ جایئے۔۔ زرنین نے حازق کے تصور کو نظروں کے حصار میں لئے مسکراتے ہوئے میسج ٹائپ کیا اور موبائل رکھتی نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئی
############
حازق فجر کی نماز پڑھ کر واک کرنے چلا گیا تھا
اور اب وہ ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے تھکا تھکا سا گھر میں داخل ہوا تھا۔۔ پوری رات اس نے سوچ سوچ کر گزاری تھی۔۔موبائل بند ہونے کی وجہ سے زرنین سے بھی بات نہیں کر سکا۔۔۔وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ آج اماں جان سے ضرور بات کرے گا۔۔
اتنی صبح صبح کہاں گئے تھے۔۔ رشید نک سک سا تیار ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔۔حازق کو گھر داخل ہوتا دیکھ کر پوچھا
فریحہ(حازق کی ماں) صحن میں لگے نلکے سے ہاتھ دھو رہی تھی وہ ابھی رشید کیلئے ناشتہ بنا کر لائی تھی
واک کرنے گیا تھا۔۔ حازق آرام سے جواب دیتا ایک نظر ماں پر ڈالتا اپنے کمرے میں جانے لگا
رکو۔۔۔رشید نے رعب دار آواز لگائی
حازق نے اپنے قدموں کو روکا البتہ وہ مڑا نہیں
فریحہ ہاتھوں کو ڈوپٹے کے پلو سے صاف کرتی چارپائی پر بیٹھ گئی
میں دو دن کیلئے شہر جا رہا ہوں کسی کام کے سلسلے میں۔۔ دو دن بعد مجھے تمہار جواب چاہیے امید ہے تم سمجھ گئے ہوگے۔۔۔رشید مصروف سے انداز میں بولا اور رومال سے اپنے ہاتھ صاف کرنے لگا
حازق نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچیں اور بنا جواب دیے تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
فریحہ نے پریشانی سے حازق کو جاتے دیکھا۔۔ وہ دو دن سے نوٹ کر رہی تھی حازق کا چپ رہنا۔۔
تھو۔۔یہ لسی بنائی ہے تم نے۔۔ رشید لسی کا گلاس زمین پر پھینکتا دھاڑا تھا
فریحہ نے سہم کر رشید کو دیکھا جو آنکھوں میں نفرت لئے اُسے دیکھ رہا تھا۔زمین پر لسی پھیل چکی تھی
جج۔۔ جی میں نے ٹھیک بنائی تھی۔۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولی
کیا خاک صحیح بنائی ہے چینی اتنی تیز کردی ہے۔۔ ایک کام تو صحیح سے ہوتا نہیں اس عورت سے۔۔ رشید زمین پر پڑے گلاس کو ٹھوکر مارتا وہاں سے چلا گیا
فریحہ نے اپنے آنسو صاف کیے اور زمین صاف کرنے لگی