ڈپریشن کی وجہ سے یہ بیہوش ہوگئی تھی۔۔ابھی کچھ دیر میں ہوش آجائے گا میں کچھ دوائیاں لکھ کر دے رہا ہوں یہ انہیں پابندی سے کھلانی ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کیجیے۔۔ورنہ طبیعت مزید بگڑ سکتی ہے۔۔۔ڈاکٹر نے زرنین کا چیک اپ کرتے ہوئے ہدایت دی
حازق اور زوجاجہ بیگم غور سے ڈاکٹر کی بات سن رہے تھے
جی بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔۔۔ حازق نے ایک نظر بے خبر لیٹی زرنین پر ڈالی اور ڈاکٹر کو لے کر کمرے سے باہر چلا گیا
نسرین مجھے زرا پنج سورہ پکڑا دے الماری میں سے۔۔۔زوجاجہ بیگم نے زرنین کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ملازمہ سے کہا
یہ لیں اماں جان۔۔۔نسرین نے احتیاط سے غلاف میں لپٹا پنج سورہ پکڑایا
زوجاجہ بیگم سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونک مار رہی تھیں۔۔۔
حازق کمرے میں داخل ہوا اور آہستہ سے بیڈ کے قریب لگی کرسی پر بیٹھ گیا
اس نے پریشانی سے زرنین کے چہرے کو دیکھا۔۔۔ جو زرد پر چکا تھا
چھوڑ آئے ہو ڈاکٹر کو۔۔۔۔ زوجاجہ بیگم نے عینک کے نیچے سے دیکھتے ہوئے پوچھا
جی اماں جان۔۔۔وہ آہستہ سے بولا
حازق کی جان بستی تھی زرنین میں۔۔۔نکاح میں رہنے کے باوجود بھی زرنین حازق سے بہت کم بات کرتی تھی۔۔وہ شروع سے ہی ایسی تھی۔۔اپنے خول میں سمٹ کر رہنے والی۔۔حازق کا ساتھ پانے کے بعد وہ کافی حد تک نارمل ہوگئی تھی۔۔
حازق بیٹا تمہیں کچھ بات کرنی تھی مجھ سے۔۔۔زوجاجہ بیگم نے پنج سورہ ملازمہ کو پکڑایا اور جانے کا اشارہ کیا
جی اماں جان پھر کبھی صحیح۔۔۔حازق نے فی الوقت بات کرنا مناسب نہ سمجھا
بب۔۔۔۔ بابا۔۔۔زرنین نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں
ہاں میرا بچہ۔۔۔زوجاجہ بیگم نے زرنین کی پیشانی پر بوسا دیا
اماں جان۔۔۔زرنین نے محبت سے زوجاجہ بیگم کو دیکھا۔۔۔اور اٹھ کر بیٹھنے لگی
ارے لیٹی رہو ابھی۔۔۔ڈاکٹر نے کہا کہ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔۔۔حازق نے آگے بڑھ کر زرنین کو روکنا چاہا
آپ۔۔۔زرنین نے چونک کر حازق کو دیکھا۔۔ وہ حازق کی موجودگی سے بے خبر تھی۔۔حازق کو دیکھتے ہی اپنا ڈوپٹہ درست کرنے لگی
جی میں۔۔۔آپ کا شوہر۔۔۔حازق نے شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا
زرنین نے حازق کی بات پر سٹپٹا کر نظریں جھکا دی
زوجاجہ بیگم نے مسکراتی نظروں سے دونوں کو دیکھا
اماں جان مجھے بیٹھنا ہے۔۔۔زرنین نے التجائیہ انداز میں کہا
اچھا میری جان بیٹھ جاؤ۔۔۔ زوجاجہ بیگم نے زرنین کو سہارا دے کر بٹھایا
اچھا میں اب چلتی ہوں اپنے کمرے میں۔۔عشاء کا وقت ہورہا ہے۔۔اور حازق تم۔۔حازق جو زرنین کو دیکھنے میں مصروف تھا اپنے نام پر چونکا
جی۔۔جی اماں جان
میرے ساتھ آؤ کچھ کھانے کیلئے دیتی ہوں۔۔زرنین کو کھلا دینا۔۔۔حازق سر اثبات میں ہلاتا زوجاجہ بیگم کو سہارا دے کر نظروں سے اوجھل ہوگیا
ہاں جیسے میں خود نہیں کھا سکتی۔۔۔زرنین منہ بگاڑ کر بولی
######
کہاں تھے تم دوپہر سے؟حازق کے گھر میں داخل ہوتے ہی مہر رشید نے پوچھا
اماں جان اور زرنین سے ملنے گیا تھا۔۔حازق نے اطمینان سے جواب دیا
گھر ساتھ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تمہارا جب دل چاہے تم منہ اٹھا کر چلے جاؤ۔۔۔مہر رشید نے چبھتی نظروں سے حازق کو دیکھا
بابا سائیں وہ دونوں اکیلی ہوتی ہیں گھر میں۔۔چچا جان کی وفات کے بعد ہم ہی ان کا سہارا ہیں۔۔اور میں شوہر ہوں زرنین کا۔۔کبھی بھی مل سکتا ہوں اس سے۔۔حازق نے نرم لہجے میں کہا
اچھا شوہر ہو تم۔۔۔رشید طنزیہ ہنسا
حازق نے ناسمجھی سے اپنے باپ کو دیکھا
یہ مت بھولو کہ شوہر ہونے سے پہلے تم ایک بیٹے ہو۔۔۔۔اب کی بار رشید کا لہجہ کچھ سخت ہوا
جی بابا سائیں میں اچھے سے جانتا ہوں کہ میں ایک بیٹا بھی ہوں۔۔لیکن شاید آپ یہ بھول چکے ہیں کہ آپ بھی کسی کے بیٹے ہیں۔۔کیا کبھی آپ نے اماں جان کا حال پوچھانا گوارا کیا۔۔کیا آپ کو ان کا جھڑیوں سے بھرا چہرہ دیکھ کر ترس نہیں آتا۔۔کبھی دو پیار کے بول بولے ہیں آپ نے اُن سے۔حازق دکھ سے بول رہا تھا
یہ میرا اور اماں کا معاملہ ہے تمہیں کوئی ضرورت نہیں مجھے سمجھانے کی۔۔۔رشید نے لاپرواہی سے کہا اُسے برا لگا تھا حازق کا اس طرح سے بولنا
حازق نے خاموشی سے گردن جھکا لی
اور تم نے بات نہیں کی تھی زرنین سے زرمین کے بارے میں۔۔۔رشید نے بے دھڑک ہوکر پوچھا
بابا سائیں میں آپ کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب پھر کہہ رہا ہوں زرنین اپنی زمین ہرگز آپ کے نام نہیں کرے گی۔۔۔اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔۔حازق رشید کی آنکھوں میں دیکھتا اعتماد سے بولا
رشید کی آنکھوں سے لالچ ٹپک رہی تھی جس نے حازق کو الجھن میں ڈال دیا
اب یہ وقت آگیا ہے کہ تم اس لڑکی کی خاطر اپنے باپ کے سامنے زبان چلاؤ گے۔۔۔رشید غصے سے حازق کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔اس کا دل چاہا حازق پر تھپروں کی برسات کر دے
سوری بابا سائیں۔۔اور وہ کوئی لڑکی نہیں بیوی ہے میری۔۔۔حازق ندامت سے سر جھکاتا اپنے کمرے کی جانب چلا گیا
میں بھی دیکھتا ہوں کیسے نہیں ہوتی زمین میرے نام۔۔۔رشید نے جل کر کہا
########
زرنین کھلی کھڑکی سے آسمان کا نظارہ دیکھ رہی تھی۔۔ہوا سے پردے ہل رہے تھے۔۔ اسے خاموشی بہت تھی۔۔۔چاند کی مدھم سی روشنی میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔۔بڑی بڑی آنکھوں میں نمی چھپی تھی۔۔۔زرنین نے آہستہ سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔ہوا سے اس کے ریشمی بال بکھر کر گالوں کو چھو رہے تھے
بابا جان مجھے نہیں کرنی شادی۔۔۔زرنین نے منہ پھلا کرکہا اور حمید کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی
کیوں نہیں کرنی شادی میری گڑیا کو۔۔۔بیٹیوں کو ایک نا ایک دن اپنے گھر جانا ہی ہوتا ہے۔۔۔حمید نے پیار سے زرنین کو سمجھانا چاہا
تو کیا یہ میرا گھر نہیں ہے بابا جان۔۔۔زرنین کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے
یہ بھی آپ کا ہی گھر ہے لیکن شادی کرنا سنت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں تمہیں کسی مخلص شخص کو سونپ دوں اور حازق ہی وہ شخص ہے جس پر میں پوری طرح سے مطمئن ہوں۔۔اور ابا جان کی بھی یہی خواہش تھی کہ آپ دونوں کو ایک دوسرے کی دسترس میں باندھ دیا جائے۔۔حمید نے زرنین کے معصوم چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
لیکن بابا جان میری تعلیم ابھی مکمل نہیں ہوئی۔۔زرنین نے ایک اور بہانہ تلاش کیا
بیٹا جی اماں جان چاہتی ہیں کہ ابھی آپ دونوں کا نکاح کر دیا جائے۔۔۔تعلیم تو نکاح کے بعد بھی پوری ہوسکتی ہے۔اور حازق بھی تو شہر جاتا ہے تعلیم کی غرض سے۔۔ اس کے بھی ابھی دو سال ہے۔۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وہ گاؤں آجائے گا اور کوئی کام شروع کردے گا تو آپ کی رخصتی کردی جائے گی۔۔تب تک آپ کی بھی تعلیم مکمل ہوجائے گی۔۔حمید نے اپنی بات مکمل کر کے زرنین کی جانب دیکھا جو خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی تھی
زرنین۔۔حمید نے پیار سے پکارا
جی بابا جان۔۔۔زرنین نے اپنی جھکی پلکیں اٹھائی
آپ کو کوئی اعتراض ہے حازق سے شادی کرنے میں۔۔حمید نے اپنا خدشہ دور کرنا چاہا
نہیں بابا جان۔۔بس میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔زرنین نے اپنے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے کہا
تو بیٹا جی ابھی صرف نکاح ہوگا رخصتی نہیں۔۔۔حمید نے مسکرا کر کہا
جی ٹھیک جیسا آپ سب کو صحیح لگے۔۔ زرنین نے حمید کے کندھے پر سر رکھ دیا
شکریہ بیٹا جی ہمارا مان رکھنے کیلئے۔۔حمید نے شفقت سے زرنین کے سر پر ہاتھ پھیرا
زرنین نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیے اور موبائل پر نظر ڈالی جہاں حازق کا میسج آیا تھا
وہ کھڑکی بند کرتی بیڈ پر آکر لیٹ گئی
گڈ نائٹ۔۔۔حازق کا میسج پڑھ کر زرنین کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی
######
الارم کی آواز نے اس کی نیند میں خلل پیدا کیا۔۔اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی اور الارم بند کرتا دوسری کڑوٹ لیٹ گیا
اللہ ھو اکبر اللہ ھو اکبر۔۔دور کہیں اذان کی آواز آرہی تھی۔۔ وہ اٹھ کر بیٹھا اور خاموشی سے اذان کا جواب دینے لگا
اللھم رب ھذہ ادعوتہ التامتہ۔۔۔۔۔ اذان کے بعد دعا پڑھ کر اپنا موبائل پکڑا
اسلام علیکم بیگم صاحبہ۔۔۔اٹھ کر نماز پڑھ لیجیے۔۔حازق نے میسج ٹائپ کیا اور موبائل کو بیڈ پر پھینکتا واش روم کی جانب چل دیا
ہلکی بڑھی ہوئی داڑی پر وضو کے قطروں سے اس کا چہرہ پر نور لگ رہا تھا
وعلیکم اسلام۔۔ جی میں اٹھ گئی ہوں۔۔ زرنین کا میسج پڑھ کر اُس کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے
حازق نے ٹوپی پہنی کر الماری سے جائے نماز نکالی
جائے نماز بچھا کر وہ اپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہوگیا تھا
########
سورج کی کرنیں پردوں کو پھلانگتی کمرے میں داخل ہورہی تھی۔۔۔پرندوں کی چہچہانے کی آوازیں خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔۔ہر شخص اپنی زندگی کی تگ و دو میں مصروف تھا
صبح کے دس بج رہے تھے
زرنین اپنی الماری درست کرنے میں مصروف تھی۔وہ خود کو کافی حد تک سنبھال چکی تھی۔۔
حازق نے بہت سمجھایا تھا اُسے اور اب وہ مزید کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی
آجاؤ۔۔۔۔زرنین جو اپنے کپڑے تہہ کرنے میں مصروف تھی دروازے کی آواز پر پلٹی
زرنین بی بی اماں جان آپ کو بلا رہی ہے۔۔نسرین نے کمرے میں داخل ہوتے ادب سے کہا
اچھا تم ایک کام کرو یہ میری الماری درست کر دو میں اماں جان کی بات سن لوں۔ زرنین نے اپنا ڈوپٹہ پکڑتے ہوئے کہا
جی اچھا۔۔۔نسرین کام میں مصروف ہوگئی
زرنین نے اماں جان کے کمرے کی جانب قدم بڑھا دیے
اسلام علیکم۔۔۔زرنین نے زوجاجہ کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا
وعلیکم اسلام کیسی ہے میری گڑیا۔۔۔ زوجاجہ نے پیار سے زرنین کے چہرے پر ہاتھ پھیرا
جی اماں جان میں بالکل ٹھیک ہوں اب۔۔زرنین نے مسکرا کر کہا اور زوجاجہ کی گود میں سر رکھ دیا وہ زوجاجہ بیگم کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی
زرنین تم کیوں رو رو کر خود کو ہلکان کرتی ہو۔۔۔رونے سے کیا ہوگا۔۔حمید واپس آجائے گا کیا۔۔۔نہیں نا۔۔ تو پھر کیوں اپنی دادی کو بھی پریشان کرتی ہو میری جان۔۔۔زوجاجہ بیگم نے زرنین کے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے کہا
میں کیا کروں اماں جان۔۔مجھے صبر نہیں آرہا میں نا چاہتے ہوئے بھی رونے لگتی ہوں۔۔مجھے ایسے لگتا ہے میرا سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔۔ یہ۔۔یہ دکھ مجھے اندر ہی اندر کھا رہا ہے اماں جان۔۔زرنین نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں پر قفل باندھا
کیا مجھ سے بڑا دکھ ہے تمہارا۔۔میں نے اپنی جوان بہو کو مٹی کے سپرد کیا تھا۔۔ اپنے شوہر کو خدا کے امان میں دیا تھا۔۔اپنے بیٹے کی درد ناک موت دیکھی ہے میں نے۔۔کیا مجھ سے بھی بڑا غم ہے تمہارا۔۔۔زوجاجہ کرب سے بول رہی تھی
زرنین نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا۔۔زوجاجہ بیگم بے آواز آنسو بہا رہیں تھیں
اماں جان۔۔اُس نے آگے بڑھ کر زوجاجہ کے آنسو صاف کیے
اماں جان مت روئے نا آپ۔۔زرنین نے پریشانی سے کہا
تمہیں میرے آنسو تکلیف دے رہے ہیں کبھی سوچا ہے مجھ پر کیا گزرتی ہے جب میں تمہیں روتا دیکھتی ہوں کبھی سوچا ہے حازق کا کیا حال ہوتا ہے۔۔۔ وہ مرد ہوکر ترپتا ہے تمہارے لئے۔۔۔زوجاجہ بیگم نے زرنین کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے پیار سے کہا
زرنین نے اپنا سر جھکا دیا۔۔اس کے تصور میں حازق کا چہرہ آیا پریشان سا
رونے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ دعا کیا کروں اپنے پیاروں کیلئے کہ اللہ ان کی آخرت آسان کرے۔۔یہ دنیا فانی ہے بیٹا ایک نا ایک دن سب نے جانا ہے۔۔ہمیں چاہیے کہ ہم صبر سے کام لیں اور جانے والوں کے حق میں دعا کریں۔۔۔
زرنین خاموشی سے سر جھکائے سن رہی تھی زوجاجہ نے زرنین کو اپنے کندھے سے لگا لیا
جی اماں جان میں دعا کروں گی سب کیلئے۔۔لیکن جس شخص نے بھی مجھ سے میری دنیا چھینی ہے میری بدعا ہے کہ وہ کبھی سکون سے نہ رہے۔۔۔ زرنیں نے نفرت سے کہا اور اپنی آنکھیں موند لی
اماں جان کے آغوش نے ڈھیرو سکون اس کے اندر اتار دیا
##########
حازق نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد گاؤں میں فیکٹری کھول لی تھی۔۔ جہاں مختلف قسم کے پروڈکٹس اور کھانے پینے کی اشیاء بنتی تھی۔۔جن کی سپلائی شہر میں کی جاری۔۔۔ حازق کو شہر میں بھی جاب ملی تھی لیکن وہ اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑنے میں مطمئن نہیں تھا۔۔ اسی لیے گاؤں آکر اپنی محنت اور کاوش کے بل بوتے پر کام شروع کر دیا جو دن بہ دن ترقی اختیار کرتا گیا
حازق فیکٹری کے حساب کتاب میں مصروف تھا جب آفس کا دروازہ نوک ہوا
کم ان۔۔وہ مصروف سے انداز میں بولا
سر یہ آپ کیلئے آیا ہے۔۔۔چپراسی نے آفس میں داخل ہوتے ادب سے کہا اور ہاتھ میں پکڑا لفافہ ٹیبل پر رکھ دیا
اچھا ٹھیک ہے آپ جایئے
جی۔۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا باہر چلا گیا
حازق نے اپنا کام ختم کر کے گردن کرسی پر جھکا فی۔۔۔تھاکاوٹ کے باعث اس نے اپنی آنکھیں موند لی
ٹرن ٹرن۔۔۔۔فون کی گھنٹی پر اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی
اسلام علیم۔۔۔
جی امی میں بس آرہا ہوں گھر
جی۔۔جی مجھے پتا ہے آٹھ بج رہے ہیں بس نکلنے ہی لگا تھا۔۔۔ حازق نے مسکرا کر کہا
اللہ حافظ۔۔۔ اس نے فون رکھا اور کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا
حازق کی نظر ٹیبل پر پڑے خاکی لفافے کی جانب اٹھی۔۔اُس نے آگے بڑھ کر اسے ہاتھ میں تھاما اور کھول کر پڑھنے لگا
جیسے جیسے وہ پڑھ رہا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بدل رہے تھے۔۔غصے سے حازق کی رگیں تن گئی۔۔ وہ زور سے دروازے کو بند کرتا گھر کی جانب چل دیا