رومان بھائی حیا ادھر ہی تھی میں نے اسے کہا تھا
کہ یہی رکو میں اپنی فرینڈ سے مل کے آتی ہوں "۔نیہا جب واپس آئی تو حیا کہیں نہیں تھی اتنے میں رومان بھی آگیا تھا۔۔۔
تمہیں ضرورت کیا تھی اسے اکیلا چھوڑکے جانےکی۔" فرینڈ سے کل بھی مل ہی لینا تھا۔۔۔
رومان غصے سے بولا تھا۔
اگر حیا کو کچھ ہو گیا رومان بھائی۔ وہ مل جائے گی ناں "۔نیہا نےیکدم رونا شروع کر دیا تھا۔
میرے خیال میں وہ اس طرف ہی گئی ہو گی کیونکہ میری فرینڈ اس طرف ہی تھی
لیکن پھر ہم لوگ اس کی بھابھی سے ملنے بیک سائیڈ پر چلے گئے تھے۔۔ نیہا نے روتے ہوئے رومان کو ساری تفصیل بتا ئی تھی۔۔ اوکے تم گا ڑی میں بیٹھو میں دیکھتا ہوں رومان نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود حیا کی تلاش میں نکل پڑا۔ رومان کی خود کی حالت بھی عجیب ہو رہی تھی۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔ اس سے آ گے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
اسے تو یہاں کے راستوں کا علم بھی نہ تھا۔
_____________________________________________
حیا کو لگا اگر وہ مزید کچھ منٹ ایسے ہی کھڑی رہی تو وہ گر جائے گی ۔اسکا اپنی جان نکلتی محسوس کو رہی تھی۔یہ اسکا ابراڈ نہیں تھا ۔یہاں پہ وہ کبھی اکیلی نہیں آئی تھی۔
"اللُّہ تعالی پلیز رومان بھائی کو ہی بھیج دیں ۔"اب اسکے لبوں پہ یہ ہی دوا تھی۔اب حیا کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے ۔
چند سکینڈ میں اسے رومان آتا دکھائی دیا ۔وہ لرز رہی تھی۔
"حیا ۔تم ٹھیک ہو۔ہم تمہیں ڈھونڈ۔"رومان نے پاس آکے اس کے بازو پکڑ کے پوچھا لیکن وہ تو کسی اور ہی دنیا میں تھی۔رومان کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔وہ اسکے سینے سے لگی بلک بلک کے رو رہی تھی۔ اگر وہ نہ آتا۔اور وہ ان اجنبیوں میں ۔۔۔یہ سوچ کے ہی اسکے جان نکل رہی تھی۔
حیا کو دیکھ کے رومان کی جان میں جان آئی تھی کہ وہ ٹھیک ہے۔رومان کو اپنی پوزیشن اور جگہ کا خیال آیا تو نرمی سے حیا کو الگ کیا ۔اور اسکے دونوں بازوؤں کو پکڑے نرمی اور توجہ سے بولا تھا۔
"حیا ۔ادھر دیکھو میں ہوں ناں ۔کچھ بھی نہیں ہوا۔چلو گھر چلتے ہیں۔"وہ اسے ساتھ لیے گاڑی کی طرف چل دیا جو ابھی بھی گم صم تھی۔
اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا مگر وہ ابھی بھی خوف کے حصار میں تھی۔۔۔ چلو گھر چلتے ہیں۔۔ رومان نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا اور آگے بڑھ گیا تھا۔۔
_____________________________________________
حیا کی تو جیسے دنیا ہی بدل گئی تھی۔ اس کے احساسات سب ہی بدل گئے تھے۔ ابھی تک اسے اپنے ہاتھ پہ اس کا لمس محسوس ہو رہا تھا۔ جتنے بھی شکوے، گلے، ناپسندیدگی کے جذبات تھے سب خودبخود ختم ہو گئے تھے۔ حیا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ بس ایک انوکھا سا احساس تھا اور حیا اس کی لپیٹ میں تھی۔ حیا نے تھک کر آنکھ مندی اور بیڈ کی کراؤن پہ سر ٹیک دیا۔۔۔
_____________________________________________
"حیا آج ہم نے شاپنگ پر جانا ہے یاد ہے ناں تمہیں۔۔ "نیہا نے حیا سے کہا جو ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی۔۔
"یاد ہے بابا۔ رومان بھائی آئیں گے تو تب ہی چلیں گے ناں۔۔ "حیا نے کہا تھا۔ کیونکہ آج انہیں رومان کے ساتھ جانا تھا۔
"نہیں حیا ہم ڈرائیور کے ساتھ جائیں گے۔ رومی بھائی آج کافی مصروف ہیں۔ وہ صبح کہ کر گئے تھے ہم لوگ خود ہی چلے جائیں۔۔نیہا نے حیا کو بتایا تھا۔
"ٹھیک ہے۔ "حیا نے کہا تھا۔ اس دن کے بعد حیا کا رومان سے ایک دو دفعہ ہی سامنا ہوا تھا۔ حیا جان بوجھ کر اس کے سامنے آنے سے کتراتی تھی۔۔
_____________________________________________
"نیہا بس بھی کرو مجھ سے مزید نہیں چلا جا رہا ہے۔ میں سامنے آئس پارلر میں جا رہی ہوں ۔"حیا نے تنگ آ کر کہا تھا۔
"حیا ادھر آؤ۔یہ دیکھوکیسا پرنٹ ہے ۔"نیہا نے حیا کی بات سنی ان سنی کر دی۔
"دیکھو مجھ سے مزید نہیں چلا جا رہا مجھے چکر آرہے ہیں۔ بس کرو اب کیا سارا شاپنگ مال خرید کر لے جانا ہے۔۔ ۔"حیا نےنیہا کو گھورا تھا۔۔
"ٹھیک ہے تم چلو میں ابھی آئی۔۔ "نیہا کو اس کی حالت پر ترس آگیا تھا۔۔
"جلدی آجانا۔ "حیا تاکید کرنا نہ بھولی تھی۔ جیسے ہی حیا نے آئس پارلر کا گلاس ڈور کھولا تھا وہ گھوم کر رہ گئی تھی۔ اسے لگا سارے رنگ پھیکے پڑ گئے ہوں۔ کچھ بھی باقی نہ رہا ہو۔
"نیہا پلیز گھر چلو۔ "حیا روتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔ نیہا بھی پریشان سی اس کے پیچھے چل دی تھی۔
_________________________
گھر آکر وہ سیدھی اپنے روم گھس گئی تھی۔ نیہا بھی اندر ہی آگئی تھی گھر والے سب ہی اپنے کمروں میں تھے اس لئے کسی کو بھی خبر نہیں ہوئی تھی۔
"حیا بتاؤ تو ہوا کیا ہے۔ "نیہا نے پوچھا تھا۔
"پلیز مجھے تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ دو۔ میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گی۔ پلیز ابھی جاو۔ "نیہا چپ چاپ آٹھ کر باہر آگئی تھی ۔
اور حیا نے آنکھیں مندی تھی وہ منظر یکایک اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔
بلیک کلر کے تھری پیس میں ڈاکٹر رومان احسن کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھے تھے اور رومان کسی بات پر ہنس رہا تھا اور لڑکی اسے محبت پاس نظروں سے دیکھ رہی تھی۔اور ہاتھ اسکے ہاتھوں پہ رکھے تھے۔
حیا یہ سب کیا ہے کیوں ایسے کر رہی ہو۔ وہ تمہیں ناپسند کرتا ہے۔ کیوں ایسے شخص کی خاطر اپنی جان ہلکان کر رہی ہو۔ کیوں؟۔۔ حیا کے اندر سے کوئی چیخا تھا۔۔۔
ابھی تو میرے اندر محبت کا احساس پوری طرح جاگا بھی نہیں تھا۔ ابھی تو تمہاری محبت کا تاج محل بھی مکمل نہیں ہوا تھا ابھی تو میں۔۔۔۔۔ تم نے سارا کچھ توڑ دیا میرا مان، میرا اعتماد۔۔۔۔ میں کیا کروں اب۔۔ حیا زور سے چیخ رہی تھی۔۔۔
تمہیں نے ڈاکٹر رومان احسن حیا کو جیتے جی مار ڈالا ہے۔۔ حیا رو رو کر بےحال ہو رہی تھی۔۔ مجھے اب پہلے والی حیا ہی بننا پڑے گا۔وہ حیا جو تمہیں ناپسند کرتی تھی نفرت کرتی تھی تم سے۔۔۔۔ حیا زور سے بولی تھی۔ مگر اس کی آواز میں اعتماد نہیں۔
وہ خود سے ہی ہار گئی تھی۔
اگلے روز حیا اپنی پھوپھو کی طرف جانے کو تیار بیٹھی تھی۔
"ممانی جان میں ماما سے بات کر لی ہے ایک دو دن میں واپس آجاؤں گی۔"حیا نے پاس بیٹھی ممانی سے کہا۔
"چلو جلدی آنا ۔سب آ کے پوچھیں گے۔"وہ بولیں تھیں۔
"میں کون سا ذیادہ دنوں کے کیے جا رہی ہو پرسوں آ جواب گی۔"وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
یہ سب وہ رومان کی ضد میں کر رہی تھی ۔اب وہ پھر پہلی والی حیا بن جانا چاہتی تھی ۔ایک بار پہلی بھی حیا کا اس طرح اسکی پھوپھو کے گھر جانے پہ اچھا خاصا جھگڑا ہوا تھا رومان سے۔
کیونکہ حیا کی پھوپھو نے اسے اپنی بیٹے کے لیے مانگا تھا مگر حیا کے پاپا نے صاف انکار کر دیا تھا انکو اسکی عادات کا اچھے سے پتہ تھا وہ بلکل بھی سنجیدہ نہ تھا اپنے کیرئر کے بارے میں ۔عجیب فطرت کا تھا۔
اور اب بھی حیا یہ سب رومان کو تپانےکے واسطے کر رہے تھی۔
کیسی ہو میری جان؟" بلقیس بیگم جو حیا کی پھوپو تھیں انہوں نے حیا کو کہا۔
"آج کیسے میری یاد آگئی؟ ورنہ تیرے باپ نے تو مجھ سے رشتہ داری ہی توڑ دی تھی" حیا کی پھوپو نے طنز کیا تھا۔
"نہی پھوپو ایسی کوئی بات نہی ہے میں پہلے بہت چھوٹی تھی اور۔۔۔۔"
"اس کا مطلب ہے اب میری تم سے شادی ہو سکتی ہے" زین حیا کی پھوپو کا بیٹا جو نجانے کب سے اس کی بات سن رہا تھا حیا کی بات کاٹ کر یکدم ہی بولا۔
حیا شرمندہ ہو گئی تھی۔ "میرا یہ مطلب نہی تھا زین بھائی" حیا نے وضاحت کی تھی۔
"تو کیا مطلب تھا؟" زین نے بے باکی سے حیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔حیا بری پھنسی تھی۔
"چلو چھوڑو اسے! یہ بتاو کیا حال چال ہیں؟ ہماری یاد کیسے آگئی؟؟؟" زین بولا تھا اور ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔
"ارے زین تم تو آتے ہی شروع ہو گئے ہو۔۔۔چلو جا کر پروین سی کچھ کھانے پینے کے لیے لانے کا کہو۔۔ورنہ اس کی ممانی کہے گی کہ پھوپو نے کچھ نہی کھلایا"
انہوں نے اس بار ممانی کو بھی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔
"جی امی!۔۔میں ابھی آیا سویٹ کزن!۔۔۔"زین دونوں سے کہتا ہوا کچن کی طرف گیا۔
حیا کو دونوں ماں بیٹے کی باتوں سے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔
"مجھے یہاں نہی آنا چاہیے تھا" حیا نے سوچا تھا
"کیوں نہ آتی! اس ہلاکوخان کو بھی تو پتا چلے۔۔ میں کیوں اسکا حکم مانوں" حیا نے اپنی سابقہ سوچ کی تردید کی تھی۔
"اور سناو تمہاری ماں کیسی ہے؟" پھوپو کی آواز سے اسکی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا۔
"جی سب ٹھیک ہے آپ سنائیں؟" بظاہر تو وہ پھوپو کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی پر دل میں انجانا سا ڈر کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔
"پتا نہی ہلاکوخان کیسے ری ایکٹ کرے گا؟" حیا کو رومان کا سوچ کر ہی ڈر لگا۔
"اسے اپنی محبوبہ سے فرصت ملے گی تو میرا ہوچھے گا نا۔۔۔اسے میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہی پڑتا"ایکدم ہی آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔
__________________
"میں دس منٹ میں گھر کے باہر آرہا ہوں۔سب سامان اٹھا کر گیٹ پر آجاو" حیا کو آئے بمشکل چھ یا سات گھنٹے ہی ہوئے ہونگے جب رومان کا فون آیا۔
انداز بہت سخت اور غصے سے بھرپور تھا۔حیا یکدم ہل ہی گئی لیکن اگلے ہی لمحے وہ غصے سے بولی:" مجھے ابھی نہی آنا ۔ چھ سات دنوں بعد آوں گی آپکو فکر کرنے کی ضرورت نہی ہے" وہ بولی۔
سویٹ ہارٹ یہ کیا تم بورنگ شو دیکھ رہی ہو۔ چلو باہر چلتے ہیں ۔ پانچ منٹ میں ریڈی ہو جاو سویٹی"
زہن لاوئج میں آکر شوخی سے چلایا تھا۔اسکی آواز حیا کے ساتھ ساتھ رومان نے بھی سنی تھی۔
"حیا بکواس مت کرو جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔نہی تو انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی۔"رومان غصے سے چلایا تھا۔
"مگر"حیا ممنائی تھی۔
"حیا" وہ زور سے دھاڑا تھا۔حیا کو لگا تھا کہ جیسے اسکے کان کا پردہ پھٹ گیا ہو۔اگلے ہی پل کال بند ہوگئی۔اور وہ شرافت سے سامان پیک کرنے چلی گئی تھی۔کیونکہ انکار کی صورت میں رومان کا غصہ۔۔۔
_______________________
"پھوپو ممانی کی طبعیت ٹھیک نہی ہے۔مجھے ابھی جانا ہوگا میں پھر آوں گی۔" حیا نے بہانا بنایا تھا۔
"مجھے پہلے ہی پتا تھا تمہاری میسنی ممانی کوئی نہ کوئی ناٹک ضرور کرے گی۔" پھوپو نفرت سے بولی تھیں۔حیا کو بولنا بیکار تھا سو وہ چپ ہی رہی۔
"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی" پھوپو نے بات ختم کی۔
_________________________
اگلے دس منٹ میں رومان گیٹ پر تھا۔حیا نے رومان کو دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔ آنکھیں غصے سے سرخ تھیں اور چہرے پہ گھمبیر سنجیدگی اور غصہ تھا۔ یو لگ رہا تھا کہ جسم کا سارا خون چہرے پر اکٹھا ہو گیا ہو۔حیا بری طرح سہم گئی تھی
راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔ گھر آ کے گاڑی رکی اور رومان تیزی سے نکلا حیا کو یکدم غصہ آگیا تھا
"مجال ہے جو ایک سیکنڈ بھی لیٹ ہوں۔ ہلاکوخان پورے ٹائم پر آن پہنچتے ہیں"
حیا نے کڑھ کر سوچا تھا۔ وہ ایک دم نڈر ہو کر بولی "جب میں نے آپکو کہا تھا کی مجھے ابھی واپس نہی آنا تو آپ مجھے لینے کیوں آئے ہیں" حیا غصے سے رومان کا راستہ روکے کھڑی تھی اور غصے سے رومان کو دیکھا تھا۔
"جسٹ شٹ آپ"۔۔اب زیادہ بکواس کر کے میرا دماغ مت خراب کرنا سمجھی تم۔ جب میں نے کہا کہ تم یہاں نہی رہو گی تو نہی رہو گی" رومان نے ایک ایک لفظ غصے سے چبھا کر کہا تھااور آگے بڑھ گیا پیچھے سے پھر حیا کی جھنجھلائی آؤاز آئی ۔
"لیکن آپکی پابند نہی ہوں سمجھے آپ میں جو چاہوں وہ کروں گی۔آپ کون ہوتے ہیں مجھے روکنے والے" حیا دوبدو بولی تھی۔اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔
"وقت آنے پر سب بتا دوں گا۔ فی حال چپ رہو۔ مجھے پہلے ہی تم پر غصہ ہے۔میں کچھ کر بیٹھوں"
رومان نے غصے سے کہا تھا۔ ذین کے الفاظ ابھی تک رومان کے کانوں میں گونج رہے تھے۔
حیا نے غصے سے منہ پھیر لیا تھا " مجھے بھی آپ سے بات کرنے کا کوئی شوق نہی" حیا نے کہا
اور پیر پٹختے اندر داخل ہو گئی۔
________________________
سب ہی ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھے ناشتے میں مصروف تھے ۔جب رومان آیا۔
"آپ سب کیلیے ایک خوشخبری ہے" رومان خوشی سے بولا تھا۔ سامنے بیٹھی حیا کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔
حیا نے منہ پھیر لیا تھا۔اس روز سے دونوں میں بات چیت بند تھی۔ صرف آمنا سامنا ہوتا تھا۔ رومان کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ حیا کو دیکھ لیتا تھا۔
"کیا بات ہے بڑا چہک رہے ہو" شائستہ بیگم نے پیار سے بیٹے کو دیکھا تھا۔ جو بہت خوش لگ رہا تھا
"جی ممی بات ہی کچھ ایسی ہے۔آپ بھی جب سنے گی تو آپ بھی بہت خوش ہو جائے گی"
رومان نے سسپینس کری_ایٹ کیا تھا۔اور حیا کو دیکھا تھا۔جو سنجیدگی سے ناشتہ کر رہی تھی اور ایسے انجاں بیٹھی تھی کہ جیسے اس کے سوا یہاں کوئی نہی۔
"اب بتا بھی دو صاحب زادے" احسن صاحب بھی بولے تھے۔
"اوکے! منتشا۶ پھوپو لوگ پرسوں پاکستاں آرہے ہیں۔ہمیشہ کی لیے۔" رومان نے بتاتے ہوئے حیا کی طرف دیکھا تھا تاکہ اسکی مسکراہٹ دیکھ سکے۔
پر ادھر تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا تھا۔حیا کو لگا رہا تھا جیسے وہ اسکا مزاق اڑا رہا ہو کہ اسکی کوئی اہمیت ہی نہی ہے۔اسکی سگے والدین نے اپنے آنے کی خوشخبری نہی دی بلکہ اسے دی ہے جیسے وہ اپنی بیٹی سے زیادہ چاہتے ہیں
12چھن نے اندر کچھ ٹوٹا تھا۔کچھ آجکل اس شخص سے بد گمان یاں عروج پہ تھیں ۔
۔ وہ شخص جس نے آجکل انکی بیٹی کو اذیت میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے
"حیا یہ تم؟" رومان نے اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو بےچین ہو کر کہا تھا۔ مگر وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
"حیا! میری بات سنو پلیز" رومان اس کی پیچھے ہو لیا۔
"رومان بیٹا آجاو تم۔میں دیکھتی ہوں" شائستہ بیگم نے کہا تھا۔کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کی حیا اور رومان کی کبھی نہی بنتی۔ اس طرح بات سلجھنے کی بجائے اور الجھ جائے گی
"مگر مما وہ۔۔"رومان کو چین نہی آیا تھا
"کہا نا میں نے کہ مئں جاتی ہوں تم بیٹھوں۔" شائستہ بیگم نے کہا تھا رومان ناشتہ کیے بغیر ہی بوجھل دل لیے ہاسپٹل چل دیا تھا
_______________________________
رومان رات کو تھکا ہارا گھر پہنچا اور سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بیگ رکھ کر بیڈ پر گر گیا۔ تبھی حیا نے آکر اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا
"آخر آپ کیا چاہتے ہیں۔ کیوں مجھے نیچا دکھانے کی کوشش میں رہتے ہیں؟ آپ نے میرا سب کچھ چھین لیا ہے اور ۔۔۔میرے ماں باپ بھی!" حیا روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
رومان تو ساکت ہو گیا تھا۔حیا اس سی کس قدر بدگمان تھی۔ جبکہ رومان کی زندگی میں رنگ و روشنی حیا کی وجہ سے ہی تھی۔ حیا کی لی وہ کبھی برا سوچ ہی نہی سکتا تھا
"حیا ایسی کوئی بات نہی ہے تم غلط سمجھ رہی ہو"۔ رومان نے حیا کی بدگمانی دور کرنے کی کوشش کی تھی۔
"میں غلط نہی سمجھ رہی بلکل ٹھیک سمجھ رہی ہوں۔۔۔آپ ہمیشہ مجھے تکلیف ہی دیتے ہیں" حیا نے رومان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔
رومان کو حیا کی بدگمانی پر غصہ آگیا تھا۔اس نی حیا کو کلائی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا۔
"اپنی بکواس بند کرو۔میں نے کبھی ایسا نہی کیا۔تم کیا سمجھتی ہو مجھے! مجھے اس سے کوئی سروکار نہی۔" رومان نے کہا تھا
"میں بچی نہی ہوں! سب سمجھ ہے مجھے۔" حیا منمنائی تھی۔ اور کلائی چھڑوانے کی کوشش کی تھی۔
رومان کی گرفت برقرار تھی۔ حیا کی آنکھوں میں پھر سے ننھے ننھے آنسو چمک پڑے تھے۔رومان نے اسکی کلائی چھوڑ دی تھی
"مجھے تمہیں صفائی دینے کی کوئی ضرورت نہی ہے۔تم نے جو سمجھنا ہے سمجھو!"۔رومان نے سختی سے کہا تھا اور واش روم میں گھس گیا تھا۔
حیا اپنی بے وقعتی پر رو پڑی تھی۔ اس نے اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر گر کر زوروقطار رونا شروع کر دیا تھا۔ ایک بار پھر اس نے اپنا وعدہ توڑ دیا تھا کہ اب وہ کبھی رومان کی وجہ سے نہی روئے گی۔۔۔ لیکن وہ رو رہی تھی۔
اگلا دن گہما گہمی میں گزرا۔ سب ہی بہت خوش تھے۔ حیا بس تھوڑی دیر کے لیے ہی باہر نکلی تھے۔ رومان تو صبح سے بہت مصروف تھا۔ سب لوگ ہی اپنے اپنے کام ختم کر رہے تھے تاکہ جب منتشا۶ آئیں تو انکے ساتھ وقت گزارا جائے۔