دوپہر کا وقت تھا ۔تمام لوگ اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے لیکن حیا کو چین نہ تھا۔وہ سارے گھر کا جائزہ لے رہی تھی جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہی ہو۔اور مین ڈور کھول کے سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی جو دو زینےتھے۔باہر کا گیٹ بھی ادھ کھلا تھا ۔اور وہ سدا کی لاپرواہ حیا۔
چوکیدار بابا تو مارکیٹ کسی کام سے گئے ہو تھے۔اور اب وہ وسیع و عریض لان کا جائزہ لینے میں مگن ہو گئی تھی۔ہو طرف خاموشی کا راج تھا ۔گرمیوں کے دن تھے ۔کہی کہی سے چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔حیا اب ان کی طرف متوجہ ہو گئی جو کبھی اڑ جاتیں کبھی شاخ پہ بیٹھ جاتی تھیں ۔
وہ اچانک ایک مردانہ روعب دار آواز سے چونکی تھی۔
"محترمہ آپ اتنی گرمی میں یہاں کیا کر رہی ہیں ۔آپ کا دماغ تو ٹھیک ہےناں۔"چھ فٹ کا جوان اس پہ برس رہا تھا۔وہ اندر جانے ہے لگا تھا کہ اسکی نظر آدھ کھلے دروازے پہ پڑی تو وہ پھر غصے سے مڑا۔
"گیٹ کیوں کھلا چھوڑا ہے کچھ خیال ہے آپکو ۔کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔حالات کا اندازہ ہے آپکو کچھ۔اور یہ غفار بابا کہاں ہے۔"آخر میں اسنے چوکیدار کے بارے میں پوچھا ۔سب انکو بابا بولتے تھے کیونکہ وہ انکے آبائی گاؤں سے تھے اور انکے پاس ہی ہوتے تھے۔
"جی وہ میرے خیال میں ممانی کے کسی کام سے باہر گئے ہیں۔"نہ چاہتے ہوئے بھی حیا کو بولنا پڑا۔اور وہ خود گیٹ بند کرنے لگا۔
یہ بات سچ تھی کہ وہ ایک ہنس لکھ اور سب کا خیال رکھنے والی لڑکی تھی مگر ڈاکٹر رومان احسن سے اسکی کوئی خاص دشمنی تھی۔
"گھر کے باقی لوگ کدھر ہیں ۔"وہ چلتا ہوا ٹی وی لاونج میں آگیا مجبوراً اسے بھی پیچھے آنا پڑا۔
"سب لوگ کمروں میں ہیں ۔آرام کر رہے ہیں ۔"حیا نے اسکو خونخوار نظروں سے گھورتے جواب دیا ۔
"لیکن حیا بی بی کی روح کو چین نہیں۔"وہ طنز کرتا ہوا اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔جاتے جاتے پھر پلٹا۔
"آج تو میں نہ کچھ نہیں کہا ۔لیکن آئندہ میں تمہیں اس طرح لاپرواہ بیٹھا نہ دیکھو۔نہ ہی کھلے گیٹ کے ہوش اور نہ ہی اپنا ہوش۔"وہ حیا کو وارننگ دیتے اسکے گلے میں جھولتے ڈوپٹے پہ چوٹ کرتا اپنا بیگ لے کر کمرے میں چلا گیا ۔
وہ پیچھے جلتی رہ گئی ۔
"سمجھتا کیا ہے خود کو ہلاکو خان ۔ہر ایک کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ہونہہ ۔"
حیا غصے سے تن فن کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
"آگیا میرا بیٹا دودن کا کہہ کر گئے تھے۔اور پورا ایک ہفتہ دن لگا دیا تم نے۔"رومان کی ماں شائستہ بیگم نے رومان کو لاونج میں داخل ہوتے شکوہ کیا۔جو کانفرنس کے لیے اسلام آباد گیا ہوا تھا۔اور ایک ہفتہ بعد لوٹا تھا۔
"تمہیں پتہ تو ہے رومی بیٹا تمہارے بغیر ہم بوڑھی عورتوں کا دل نہیں لگتا۔"چاچی ماں بھی بولیں تھیں۔اور یہ سچ تھا کہ رومان احسن اس خاندان کی روح رواں تھا۔
"سوری ۔ینگ لیڈیز ۔لیکن آپکو تو پتہ ہی ہے کانفرنس کے علاوہ بھی کچھ کام ہوتے ہیں جو آپ کے بوڑھے شوہر نہیں کر سکتے ۔"وہ شرارت سے کہتے انکے پاس آن بیٹھا ۔انکی نوک جونک ایسے ہی چلتی تھی۔
"ارے ارے یہ بوڑھے کس کو بولا تم نے۔"چاچی ماں مصنوعی خفگی سے بولیں تھیں ۔
"اور آپ نے بوڑھی عورتیں کسے بولا ۔"وہ انکے ہی سٹائل میں بولا۔زہرہ بیگم نے اب پیار سے اسکا کان مروڑا۔اور وہ تینوں ہنس پڑے۔اب وہ انکو اپنی باتوں میں لگائے ہوئے تھا۔
احسن ولا جو شہر کے بارونق علاقے کے خوبصورت گھروں میں سے ایک تھا۔اس میں بیرسٹر ثقلین کی دو بچے رہتے تھے۔نوکری کے سلسلے میں انکو شہر کا رخ کرنا پڑا ۔جب انہوں نے اپنا بزنس اسٹیبلش کیا تو اپنی فیملی کو بھی لے آئے تھے۔انکے دو بیٹے تھے۔سب سے بڑا احسن اور چھوٹا شہریار ۔اور ایک بیٹی من تشاء۔
احسن اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا تو انکے والد کا انتقال ہو گیا ۔ان کو اب اپنے بھائی بہن اپنی جان سے بھی پیارے ہو گئےتھے۔ان تینوں کی محبت مثالی تھی۔تینوں بچوں کے فرض سے سبکدوش ہو کے والدہ کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔من تشاء بیاہ کر کویت چلی گئی تھی۔
انکی زندگیاں یونہی رواں دواں تھیں ۔
احسن کے دو بچے رومان اور احمد تھے۔اور شہریار کے تین بچے زین اور نیہا تھے۔من تشاء کی ایک بیٹی حیا تھی اور بیٹا حارث ۔
رومان ڈاکٹر تھا ۔اور ہاسپٹل چلا رہا تھا۔اور اپنے باپ اور چاچا کا بزنس بھی دیکھ رہا تھا۔احمد اور زین پڑھائی مکمل کر رہے تھے ۔
اور نیہا ابھی اپنا گریجویشن کر رہی تھی۔
"ماما نے مجھے یہاں بھیج کے بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔"حیا نے من ہی من میں سوچا ۔
حیا من تشاء کی بیٹی تھی۔اور اسکو اس ماحول میں رکھنا ہی نہیں چاہتے تھی ۔اسلیے انٹر کے بعد ہی اسکو پاکستان بھیج دیا تھا ۔جب اسکی شادی ہی پاکستان ہونی تھی۔
من تشاء کا یہ ماننا تھا کہ جب انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ہی پاکستان میں کرنی ہے تو بہتر ہے کہ وہ وہاں کھ طور طریقے بھی سیکھ لے۔کیونکہ جس لڑکے کا عکس انکے ذہن میں تھا وہ پاکستان میں ہی مل سکتا تھا۔
وہ چاہتی تھی کہ انکی بیٹی کی پرورش بھی اس ہی ماحول میں ہو جس میں انکی ہوئی ہے ۔
وہ تو خود پاکستان جانے کے لیے بے قرار رہتی تھی۔
جانا تووہ خود چاہ رہی تھی مگر اپنے شوہر کی وجہ سے نہ جا سکتی تھی۔کیونکہ انکی جاب کا کانٹیکٹ ختم ہونے میں کچھ ٹائم لگ جانا تھا ۔وہ تو پہلے ہی حیا کو بھیجنا چاہ رہی تھی مگر باپ بیٹی ایک دوسرے سے دور نئیں تھے رہ سکتے اب بھی وہ دونوں من تشاء کا فیصلہ مان گئے تھے۔مشکل سے ہی۔یوں اسے یہاں آئے ڈیڑھ سال ہو چکا تھا ۔پہلے وہ ماما کے ساتھ آتے تھی ۔
"حیا میڈم کیا سوچا جا رہا ہے اکیلے اکیلے ۔"نہیا نی شرارت سے آکے پوچھا ۔دونوں میں اچھی خاصی دوستی تھی اور دونوں کلاس فیلو بھی تھیں ۔
"کچھ نئیں ماما پاپا اور حارث کو یاد کر رہی تھی۔"وہ اداس تھی۔
"کم ان یار ہم پھوپھو سے ابھی بات کر لیتے ہیں بلکہ انکل سے بھی اور حارث کے بچے سے بھی۔"نہیا خوشدلی سے بولی ۔
حیا ہنس دی ۔کیونکہ حارث اور نہیا کی ایک منٹ نہ بنتی تھی۔
"چلو باہر آؤ ۔رومی بھائی آئے ہیں اتنے دنوں بعد سب کے لئے گفٹس لے کے آئیں ہیں چلو ناں ۔"نیہا نے اسکو کھینچا۔
"نہیں مجھے نہیں جانا تم جاؤ مجھے کل ایک اسائمنٹ جمع کروانی ہےوہ تیار کرنی ہے ۔"حیا نے جھوٹ بول دیا۔
"کیا یار چلو اتنے بعد تو رومان بھائی فری ہوئے ہیں ۔ورنہ تو وہ بس ہاسپٹل اور آفس بس ۔اتنا مزہ آئے گا بھائی کی باتیں سن کے۔"آخر اسنے حیا کو لالچ دیا تھا۔
"مجھے نہیں جانا باہر ہلاکو خان دیکھتے ایسے ہیں کہ بس کھا ہی جائیں گے۔"نیہا قہقہ لگا کے ہنسی کیونکہ وہ حیا کی رومان کے ساتھ دشمنی کو جانتے تھی مگر وجہ کا آج تک نہ پتہ چل سکا تھا۔اسنے مزید اصرار نہ کیا کیونکہ اب اسنے باہر نہیں تھا
"اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں تمہاری ۔"حیا ناشتہ کرتے ہوئے چونکی تھی۔اسنے سر اٹھا کے دیکھا تو ڈاکٹر رومان اس سے ہی مخاطب تھے۔
"ٹھیک چل رہا ہے سب کچھ ۔"سپاٹ لہجے میں جواب آیا ۔
رومان جانتا تھا کہ وہ اس سے دامن بچا رہی ہے سامنے آنے سے گریز کر رہی اسلئے کل رات بھی نئیں آئے تو اسے ناشتے کے ٹیبل پہ جا لیا۔
"پھوپھو سے ہوئی بات تمہاری ۔وہاں سب لوگ ٹھیک ہیں ۔"صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ اب بات کو بڑھانا چاہ رہا ہے ۔حالانکہ پھوپھی سے بات کیے بغیر نہ اسکو کھانا ہضم ہوتا تھا نہ ہی انکو چین آتا تھا ۔
"جی سب ٹھیک ہے ۔ممانی جان میں اپنے روم میں جارہی ہوں مجھے تھوڑا کام ہے جب نیہا ریڈی ہو جائے گی میں آ جاؤں گی۔"حیا نے کچن میں کھڑی اپنی ممانی جو مخاطب کیا ۔اور رومان اسے دیکھتا رہ گیا ۔
"یعنی کہ ناراضگی ابھی تک برقرار ہے۔"رومان نے سوچا ۔
"بہت مشکل کام ہے ڈاکٹر رومان احسن ۔لیکن کیا کروں کرنا تو پڑے گا مجبوراً ۔"وہ خود سے مخاطب تھا۔من تشاء نے واقعی ہی اسے مشکل میں ڈال دیا تھا۔
"پھوپھو جان خیریت تو ہے ۔آپ اتنی پریشان کیوں ہیں۔"رومان اپنی عزیز از جان پھوپھی کی آواز سن کے پریشانی سے بولا۔
"کچھ نہیں بس حیا کی وجہ سے پریشان ہوں میں ۔"وہ پریشانی سے بولیں تھیں۔
"پھوپھو کھل کے بات کریں ۔"رومان کو کوفت ہونے لگی۔
"تمہیں تو پتہ ہے ناں کہ مجھے میڈیکل کا کتنا کریز تھا میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی پر ماما کو میری شادی کی جلدی تھی۔۔پھر تم نے میری خاطر یہ پروفیشن چوز کیا۔"وہ آزردہ سے بولی۔
"آئی نو پھوپھو ۔مجھے سب پتہ ہے۔"وہ مسکرا کے بولا۔
رومان کی پیدائش کے بعد شائستہ بیگم کی طبیعت خراب ہو گئے تھی بہت من تشاء جو پہلی ہی آ چکی تھی پھر رومان کو انہوں نے ہی سنبھالا تھا ۔اور دو سال تک وہ بھائی کے گھر ہی رہیں ۔کچھ انکا اپنا دل نہیں تھا لگتا کویت میں انکے شوہر آتے جاتے رہتے تھے۔ اس دوران رومان کو وہ اپنے ساتھ لگائے رکھتی تھی۔
کچھ وہ انکی فیملی کا پہلا بچہ تھا تو سب کی اس میں جان تھی
"بیٹا حیا کے بابا کے بے جا لاڈ پیار نے اسکو بگاڑ کے رکھ دیا ہے ۔انٹر کر کے ہی اسکی بس ہو گئی ہے۔میں کیا کروں اب ۔میں اس پاکستان بھجینا چاہتی ہوں۔بوڈنگ سے بہتر ہے کہ وہ تم لوگوں کے ساتھ ہو تو مجھے بھی سکون ہو۔ہم سے دور رہ کے ہی اسے عقل آ جائے۔"انہوں نے ساری بات بتا دی۔
"بس اتنی سی بات ۔آپ پریشان نہ ہو اسے بھیج دیں ۔دیکھ لیتے ہیں آپکی مغرور بیٹی کو بھی ز۔"وہ اینڈ پہ شوخ ہوا۔
"ارے خبردار اگر تم نے اسے کچھ کہا بھی تو۔"وہ دھمکی آمیز لہجے میں بولی تھیں۔
"آپ کیوں ٹینشن لیتی یہاں بھی انکے بہت ہمدرد ہیں ۔مجھے گھر سے نکال دیا جائے گا اگر میں نی انکی شان میں گستاخی کی۔"رومان کا اشارہ اپنے ماما اور پاپا کی طرف تو جو اس پہ جان چھڑکتے تھے۔
"اچھا ایک بات تو بتائیں میری پھوپھو تو اتنی لائق تھی۔آپکی صاحبزادی کس پہ چلی گئی۔"رومان نے حیرت سے پوچھا
"بس وہ اپنی سٹیڈیز پہ توجہ نہیں دیتی ورنہ اسکے گریڈز تو اچھے ہوتے ہیں ۔بس کامران کے بے جا پیار نے اسے ایسا کر دیا ہے ۔ہر ایکٹویٹز میں شامل ہو گئ ۔"انہوں نے بتایا ۔رومان کو بھی یہ ہی حل اچھا لگا کہ وہ تھوڑی سی سختی کے ساتھ ہو جائے گی ٹھیک کچھ وہ ماں باپ سے دور ہو گی ۔
"ہم ۔آپ پریشان نہ ہو۔آپ بھیج دیں اسے۔باقی میں دیکھ لوں گا۔"رومان نے پر سوچ انداز میں کہا ۔خود وہ اس سال ہاسپٹل جوائن کر چکا تھا۔
اسکے ٹھیک دو ماہ بعد حیا پاکستان تھی۔اسکی وجہ حیا کو رومان لگا یوں اسکی دشمنی کا آغاز ہوا تھا رومان کے ساتھ ۔ اپنی ماں کا حد سے زیادہ پیار رومان کے لیے برداشت نہ تھا۔ہر بات پہ رومان کی مثالیں۔
پہلی جب بھی وہ آتی تھی اسکی ملاقات ہی کم ہوتی تھی ۔
حیا ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی ہے جو لاڈ اور جذباتی طبیعت کی وجہ سے ایسے فیصلے کر جاتی ہے جو اسکی ذات کے لیے ہی تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔مگر ان میں انا کوٹ کوٹ کے بھری ہوتی ہے۔
حیا نے بھی ایسا ہی کیاایک معمولی سے بات کو بنیاد بنا کر رومان سے دشمنی مول لی تھی
ان ہی سوچوں میں وہ گم لاونج میں بیٹھی تھی۔کتاب سامنے کھولی تھی۔ خود وہ سوچوں میں گم تھی۔
رومان نے اندر آتے اسے دیکھا تو اسکے طرف آ گیا ۔
"کیا ہو رہا ہے۔"رومان نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا ۔وہ جو اپنے خیالات میں مگن تھی اسکی آواز پہ اچھل گئی ۔
"کچھ بھی نہیں ۔"اسنے رکھائی سے جواب دیا اور اٹھ کے جانےلگی۔
"پڑھائی میں کوئی مشکل تو نہیں ہو رہی ۔اگر کوئی مسئلہ ہوا تو مجھے بتانا میں مدد کر دوں گا۔"رومان بولا
"مجھےان فارمیلیڑیز کی کوئی ضرورت نہیں ۔اور ان سب کے لیے بھی آپکو ماما نے بولا ہو گا۔"وہ طنزاً بولی۔
نا جانے آج کیسے وہ اسکے سامنے اتنا بول گئی تھی۔
"تم پھوپھو سے اتنا بد گمان کیوں ہو۔بس تمہیں عزت راس نہیں ۔بات اتنی سے ہے۔وہ صرف تمہاری بھلائی چاہتی ہیں۔"وہ زیادہ دیر اپنے غصے پہ قابو نہ رکھ سکا ۔
"تم سے بات کرنا ہی فضول ہے۔بھاڑ میں جاؤ تم میری بلا سے۔"وہ غصے سے کہتا چلا گیا ۔اور وہ پیچھے منہ دیکھتی رہ گئی۔
حیا کا رویہ سب کے ساتھ بہت اچھا تھا ۔اسکی وجہ ان لوگوں کا لوڈ پیار تھا ۔انہوں نے اسے کبھی گھر کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی۔من تشاء کے ساتھ بھی حیا کا رویہ ٹھیک تھا مگر کبھی کبھی تلخ کلامی ہو جاتی تھی۔رومان سے البتہ رویہ میں کوئی فرق نہ تھا۔
"حیا شام کوبھائی صاحب کی طرف جانا ہے ۔تم اپنی تیاری مکمل کر لینا ۔اور یہ نیہا کدھر ہے۔"نیہا کے ماموں کے بیٹے کے شادی تھی۔آج مہندی کا فنکشن تھا۔سب ہی جا رہے تھے سوائے ڈاکٹر صاحب کے۔
"جی ممانی ساری تیاری مکمل ہے آپ پریشان نہ ہوں۔نیہا شاید نہا رہی ہے۔"حیا نے انکو بتایا۔
اور سنو ٹھیک سے تیار ہو کے جانا ہے سمجھی ورنہ میں بہت ناراض ہو جاؤں گئ۔"انہوں نے اسے بولا کیونکہ انکو حیا کی عادت کا پتہ تھا۔
"تمہارے کپڑے میں پریس کروا دیے ہیں لیکن پھر بھی تم ایک دفعہ دیکھ لینا۔"وہ کہہ کر باہر نکل گئی۔
"کیا یار پھر تیار ہو کے جاؤ ۔کیا ضرورت ہے۔"حیا برا سا منہ بنا کے بولی نیہا سے جو ابھی واش روم سے نکلی تھی۔
"بڑی فضول لڑکی ہو تم حیا ۔اتنا مزہ ہے گا ۔اس دفعہ تو حیدر بھائی بھی آ گئے ہیں لندن سے میں ان سے بھی ملوآؤں گئ۔بہت اچھے ہیں وہ بھی۔"وہ ایکسائٹڈ تھی۔حیا کو بھی پاکستان کی شادیاں دیکھنے کا کم ہی تجربہ تھا۔
"نیہا تم تو مرو۔ہر بات پہ تمہیں مزہ ہی آتا ہے۔"اسنے نیہا کو گھورا۔
اب وہ اپنی تیاری میں مشغول ہو گئی اور حیا باہر نکل آئی۔
"اچھا سنو حیا ہم لوگ نکل رہے ہیں تم لوگ ڈرائیور کے ساتھ آ جانا۔"شائستہ بیگم بولی۔
"جی ممانی ۔"حیا نے انکی بولا۔
"سنیں بہت پیاری لگ رہی ہیں ۔"حیا نے پیچھے سے آواز لگائی ۔
"چل شریر ۔"وہ باہر نکل گئی
وہ چینل سرچنگ میں مصروف تھی ۔اور ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی ۔نیہا کی تیاری کی ختم نہیں ہو رہی تھی۔ٹیلی فون کی بیل ہوئی اسنے اٹھایا ۔
"ہیلو۔"وہ بولی
"میں پانچ منٹ میں گھر آرہا ہوں ۔اور پانچ منٹ کا مطلب پانچ منٹ ۔ورنہ تم دونوں گھر رہو گی مہندی پہ نہیں جا سکو گی۔"وہ ایسے بولا تھا جیسے اسکا بٹن دبا دیا ہو کسی نے۔اس دن کی جھڑپ کے بعد آج بات ہو رہی تھی۔
"لیکن ہمم نے تو ڈرائیور کے ساتھ جانا تھا۔"حیا کو اسکے ساتھ جانےکا سن کے کوفت ہونے لگی۔
"سنو ۔جتنا کہہ ہے اتنا ہی کروں۔"رومان جو پہلے ہی بھرا تھا اب پھٹ پڑا تھا۔اور کھٹاک سے کال بند۔
احسن صاحب نے رومان کو کال کر کے ان دونوں کو لانے کا بولا تھا کیونکہ ڈرائیور کو ایمرجنسی میں گاؤں جانا پڑ گیا تھا۔سو مجبوراً آنا پڑا۔
اگلے پانچ منٹ میں وہ واقعی ہی تھا گھر تھا۔حیا کا پہلے ہی جانے کا موڈ نہ تھا پہلے ہی وہ ممانی کی وجہ سے جا رہا تھا۔
سارا راستہ خاموشی سے کٹا تھا ۔حیا دائیں طرف بیٹھی تھی۔بلکل ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے ۔مطلوبہ جگہ پہ پہنچ کے گاڑی روکی۔پورا گھر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔حیا کو گھبراہٹ ہو رہی تھی۔رومان اور نیہا باہر نکل گئے۔رومان کال اٹینڈ کررہا تھا۔
حیا سے اپنا لمبا ڈوپٹہ سنبھالا نہیں تھا جا رہا ۔وہ اپنا ڈوپٹہ سنبھالتے ہوئے بے دھیانی میں گیٹ کی طرف جانے کی بجائے آگے کی طرف بڑھ گئی۔
اسی لمحے رومان بھی کال بند کر کے گاڑی کی جانب موڑا تھا۔حیا چھ فٹ کی لمبے چوڑے مرد سے ٹکرائی تھی۔وہ پاس پڑے پتھر سے پاؤں ٹکرایا تھا اس سے پہلے کے وہ زمیں بوس ہو جاتی ۔دو ہاتھوں نے اس تھام لیا تھا۔
ڈاکٹر رومان احسن کے لیے جیسے پوری کائنات تھم سی گئی تھی۔وہ سٹل سا ہو گیا تھا چند لمحوں لے لئے ۔رومان کی نظریں حیا کے معصوم اور حسین چہرے کا طواف کر رہی تھیں ۔
مگر اگلی ہی پل وہ خود پہ کنٹرول پہ چکا تھا۔
"کیا مصیبت ہے۔تم دیکھ کے نہیں چل سکتی ۔آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے۔"اسے جھٹکے سے دور کر کے وہ بولا۔حیا کو سبکی سی محسوس ہوئی ۔
"اگریہ چھ فٹ کا ڈوپٹہ سنبھالا نہیں جاتا تو لیا کیوں تھا۔"اندر جاتی ہوئی حیا کو دیکھ کے وہ زور سے بولا تھا۔اپنے اس کیفیت پہ قابو پانے کے لے وہ زور زور سے بول رہا تھا ۔وہ اندر چلی گئی اور رومان کی بھی کوئی قیمتی چیز ساتھ لے گئی تھی شاید ۔
رومان نے ہاسپٹل جانے کا ارادہ ترک کر کے گھر کی طرف دخ کیا تھا۔عجیب کیفیت ہو رہی تھی اسکی ۔آنکھیں بند کرتے تو وہ ہی دو بڑی بڑی حسین آنکھیں سامنے آ رہیں تھیں۔گھر آ کے آدھا گھنٹے شاور لے کے وہ بستر پہ لیٹا تو وہ ہی کیفیت تھی۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی خود سے لڑتے لڑتے وہ جانے کب سویا تھا۔