اس روز وہ لاؤنج میں ٹی وی دیکھتے ھوئے شام کی چائے پی رھا تھا جب اس نے رطابہ کو ثمرہ سے کہتے ھوئے سنا
"تمھارہ فون ھے جاؤ جا کر بات کر لو اپنے مجنوں سے"
وہ ٹی وی دیکھتے ھوئے چونکا تھا
"مجھے نئی کرنی اس ذلیل انسان سے بات' خود ھی منہ توڑ آتیں اسکا"
ثمرہ از حد پریشان اور ناراض دیکھائی دے رھی تھی
رطابہ نے اوزان کی وہاں موجودگی کو دھیان میں رکھتے ھوئے اپنا لہجہ خاصا دھیما رکھا تھا
"کم آن ثمرہ وہ بہت اصرار کر رہا ھے تم خود ھی اس اپنی زبان میں سمجھا دو تو بہتر ھے وہ ایسے باز آنے والا نئی ھے"
"کون ھے وہ؟"
بات اسکی سماعتوں تک پہنچ گئی تھی تبھی اس نے با رعب لہجے میں پو چھا تھا
ثمرا اور رطابہ اسکے تیور دیکھ کے خاموش رہ گئیں تھیں
وہ ایک گہری سنجیدہ نظر ان دونوں کے چہرے پر ڈالنے کے بعد فون سننے کے لئے اٹھ گیا تھا
مگر تب تک دوسری طرف سے کال کٹ ھو چکی تھی
اس نے ریسیور اٹھا کر کریڈل پر ڈالااور چند منٹ تک دوبارہ کال آنے کا ویٹ کرتا رھا مگر کال نئی آئی تو وہ واپس ان دونوں کے قریب چلا آیا
"کس کا فون تھا۔؟"
اس بار اس کے لہجے میں خاصا رعب تھا تبھی رطابہ نے سر جھکا کر دھیمے لہجے میں بتایا
"کوئی رانگ کالر ھے بھائی آپی سے بات کرنے کے لیئے اصرار کرتا ھے"
رطابہ کے بتانے پر اس کی سلگتی نگاھوں نے فورا ثمرہ کے چہرے کا طواف کیا تھا
"کیسے جانتا ھے وہ تمھیں؟"
استحقاق ایسا تھا تھا گویا اس کے جسم و جاں کا مالک ھو ثمرہ چند لمحوں کے لیئے واقعی کنفیوز ھو گئی تھی
"میری دوست مزنی کا بھائی ھے ایک روز کالج سے واپسی پر اسکی مما کی عیادت کرنے ان کے گھر گئی تھی وھیں دیکھا تھا اس نے مجھے بعد میں فرینڈ سے نمبر لے کر یہاں کال کرنے لگا"
اس وقت اسکی وضاحت پر کچھ بھی کہے بنا کچھ سوچتے ھوئے وہ واپس پلٹ گیا تھا
اگلے روز مزنی کے بہائی کی کال نئی آئی اوزان نے اس سے خفگی کے باوجود اس روز کے بعد اسے کالج چھوڑنے اور کالج سے لانے کی ذمہ داری سمبھال لی تھی
یہی نہیں بلکہ اس نے ثمرہ کو سختی سے منع کردیا تھا کہ وہ مزنی سے کلام کرے نہ ھی آئنیدہ کسی دوست کے ساتھ اسکے گھر جائے
یہی وہ وقت تھا جب اچانک سے اوزان کی محبت نے اس کے دل میں انگڑائی لی تھی
اسے مطلق خبر نہ ھو سکی کہ ایکدم سے وہ اسے اتنا اچھا کیوں لگنے لگا تھا
پہلے وہ اسکے رعب جمانے پر چڑتی تھی مگر اب اسکا غصہ کرنا جیلس ھونا حق جمانا اسے اچھا لگنے لگا تھا
ان دنوں وہ بہت خوش رھنے لگی تھی جان بوجھ کر اوزان کو تنگ کرتی اور لطف اندوذ ھوتی
اس روز وہ ابھی یونیورسٹی سےواپس لوٹا تھا جب وہ اسکی راہ روک کر کھڑی ھوگئی انداز خالص بیویوں والا تھا
۔"آج یونیورسٹی کے شروع کے پریڈ بنک کرکے کس کے ساتھ گئے تھے تم؟"
اس کے ساتھ نہ رہ کر بھی وہ اسکے پل پل کی کتنی خبر رکھتی تھی اوذان محض دیکھ کر رہ گیا
"ماریہ کی طبیعت خراب ھو گئی تھی اسے گھر ڈراپ کرنے گیا تھا"
"کیوں ۔۔۔۔تم اسکے ڈرائیور ھو یا شوھر جو روز اسکی طبیعت خراب ھونے پر اسے گھر ڈراپ کرکے آتے ھو کسی اور کو اس سے ہمدردی کا بخار کیوں نئی چڑھتا؟"
اوزان نے دیکھا اسکا چہرہ غصے سے سرخ ھو رھا تھا
وہ حیران بھی ھوا اور اسے خوشی بھی ھوئی کہ پہلے جس آگ میں وہ اب تک اسے جلاتی آئی تھی اب اسی آگ میں خود اسکا اپنا وجود جل رھا تھا شائد اسی لئیے اس نے بھی لطف سمیٹنے کی کوشش کی تھی
"فضول بکواس مت کرو ماریہ بہت اچھی لڑکی ھے میں محض تمھاری وجہ سے اسے ھرٹ کرنے کا سوچ بھی نئں سکتا تمھیں تو ویسے بھی ہر کسی سے جلنے کی پرانی عادت ھے"
اسکے الفاظ نے ثمرہ کو آگ لگائی تھی
" شٹ اپ مجھے کوئ ضرورت نئی کسی سے جلنے کی بھاڑ میں جائے وہ اور بھاڑ میں جاؤ ' تم میری بلا سے سر عام گھو مو پھرو مجھے کیا ۔۔۔ جب تمھیں ھی اپنے کردار کی پروہ نئی تو میں کیوں مفت میں خون جلاؤں اپنا"
تنک کر کہتی وہ پھر اسکے سامنے ٹھری نئی تھی
اوذان اسکی حالت کا مزہ لیتا کتنی ھی دیر اکیلا بیٹھا ہنستا رھا تھا
ان دنوں دونوں کے بیچ ایک عجیب سی جنگ شروع ھو گئی تھی
اوذان اپنے نمبر بنانے کے لیئے زیادہ سے زیادہ اسے تنگ کرتا جبکہ وہ اس سے بدلہ لینے کے لیئے مختلف لڑکوں کا ذکر کرکے اسے چڑانے کی کوشش کرتی
ﺍﺱ ﺭﻭﺯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ
ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﻻﺅﻧﺞ ﻣﯿﮟ
ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮈﺍﺋﺠﺴﭧ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﻭﮦ
ﮔﻮﻟﮉ ﮐﺎ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺩﯾﺪﮦ ﺯﯾﺐ ﺑﺮﯾﺴﻠﭧ ﮨﺎﺗﮫ
ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮱ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﮧ ﺁ
ﺑﯿﭩﮭﺎ ۔۔
"ﺛﻤﺮﮦ ﯾﮧ ﺑﺮﯾﺴﻠﭧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﯾﺎﺭ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ؟"
ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ مگر ﮐﺲ ﮐﯿﻠﮱ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ؟"
ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﺴﻠﭧ ﮐﯿﻠﮱ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮔﯽ
ﺑﮭﺎﻧﭗ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺒﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﺟﯿﻨﺰ ﮐﯽ
ﭘﺎﮐﭧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﮨﻮﮰ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ۔۔۔
"ﻣﺎﺭﯾﮧ ﮐﺎ ﺑﺮﺗﮫ ﮈﮮ ﮨﮯ ﭘﺮﺳﻮﮞ ﺍﺳﮑﻮ
ﮔﻔﭧ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ۔۔
ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﭘﺮ ﺛﻤﺮﮦ
ﮐﺎ ﺩﻣﮑﺘﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻓﻮﺭﺍ ﺑﺠﮫ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ۔
ﮐﻞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺗﮭﯽ
ﻣﮕﺮ ﺍﻭﺯﺍﻥ اسے ﮐﺘﻨﯽ ﻻﭘﺮﻭﺍﮨﯽ ﺳﮯ
ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺍﺱ
ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮫ ﺳﮯ ﮐﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ
ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﺎ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﭘﮭﺮ ﺩﻝ
ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮍﮬﻨﮯ ﭘﺮ
ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﮔﯿﺎ۔۔
___
ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺮﺗﮫ ﮈﮮ ﮐﯽ
ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺳﮯ ﯾﺎﺩ
ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﮍﮪ
ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﯿﺎ
ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺪﻋﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﻧﮯ ﺳﻨﻮﺍﺭﻧﮯ ﺍﻭﺭ
ﻣﺰﮮ ﻣﺰﮮ ﮐﮯ ﭘﮑﻮﺍﻥ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﮔﮯ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺗﺎ
ﺗﮭﺎ۔
ﺛﻤﺮﮦ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﭘﮍﮬﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﮩﺬﺍ ﺍﭘﻨﮯ
ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻓﯿﻠﻮﺯ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺮﺟﻮﺵ
ﮨﻮﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﮈ ﺑﺎﻧﭩﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﺍﺱ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﻮ ﭼﺎﮦ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻼ
ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺟﺎﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺩﮐﮫ ﮐﯿﺴﯽ ﺁﮒ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ
ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺍﺳﮯ ﺟﻼ ﮐﺮ
ﺑﮭﺴﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﺎ 'ﺧﻮﺩ
ﺩﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮭﺮﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯿﻠﮱ ﻭﮦ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﺎ ﮔﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔
ﻭﮔﺮﻧﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﺁﻓﻨﺪﯼ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺟﻮ
ﺁﺗﺶ ﻓﺸﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﮭﭩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺻﺮﻑ ﻭﮨﯽ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ
ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﮯ ﮨﯽ ﮔﺰﺭ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻧﮯ
ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺎ
ﮔﻔﭧ ﮐﺮﮮ ؟ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺩﻟﯽ ﺳﮯ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﺗﮭﺎ۔۔۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﮧ ﺟﻮ ﭼﻮﭦ ﭘﮍﯼ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻓﺮﺍﺭ ﻟﯿﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﮧ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﮐﻮ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﮔﻔﭧ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺒﻌﯿﺖ ﻧﺎﺳﺎﺯ ﺗﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ
ﭼﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﺁﺝ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﺁﻓﻨﺪﯼ
ﮐﯽ ﺳﺎﻟﮕﺮﮦ ﺗﮭﯽ ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺐ
قریبی ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﻮﺍﺋﭧ ﮐﺮﻧﮯ
ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﭼﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ
۔۔ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﮐﯽ
ﻃﺮﺡ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺯﺍﻥ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ
ﺁﺧﺮﯼ ﭘﯿﺮﯾﮉ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺳﺐ ﻻﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮰ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ
ﻓﻨﮑﺸﻦ ﭘﺮ ﮈﺳﮑﺲ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ
ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺎﮐﭧ
ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻨﮭﯽ ﺳﯽ ﭘﯿﮏ ﺷﺪﮦ ﮈﺑﯿﺎ
ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺧﻠﻮﺹ ﺳﮯ ﻣﺎﺭﯾﮧ
ﮐﯿﻄﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯼ۔
"ﯾﮧ ﻟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺮﺗﮫ ﮈﮮ ﮔﻔﭧ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﻣﺎﺋﻨﮉ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﯿﮟ
ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﭘﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺁﺝ ﺷﺎﻡ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ
ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ
ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﻟﯿﭧ ﻧﺎﺋﭧ ﺗﮏ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﺩﻋﻮﺕ ﻗﺮﺽ ﺭﮨﯽ ﺗﻢ ﭘﺮ ۔۔۔۔"
___
ثمرہ ماریہ کے چہرے پہ بکھری اداسی بخوبی دیکھ سکتی تھی شاید تبھی ایک عجیب سا سکون اس کے اندر اترا تھا۔۔۔
دل سے بے ساختہ ہی اوزان کے اس اجنبی دوست کیلئے دعائیں نکلی تھیں۔۔جس کی آمد نے اوزان کو ماریہ کی برتھ ڈے پارٹی میں شرکت سے روک دیا تھا۔۔۔
ماریہ نے اسی وقت اوزان کے دیے گئے گفٹ کو چاک کرنا چاہا تو اوزان نے نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"کیا کر رہی ہو اسپیشل گفٹ ہے رات میں پارٹی سے فری ہو کر سب سے آخر میں اسے کھولنا آئی تھنک تمہیں اچھا لگے گا۔۔!!"
اسکی خوبصورت آنکھوں میں عجیب سے کانچ دمک رہے تھے۔۔۔
ثمرہ کا دل چاہا
وہ اسکے ہونٹوں پر رینگتی مسکراہٹ کو نوچ لے وہ اس کے ہر معاملے میں خود کو قطعی بے بس پاتی تھی۔
اوزان کو شاید اس کے آنسو لطف دینے لگے تھے تبھی وہ بات بات پر اسے ہرٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا
ان دنوں وہ خود کو جتنی تکلیف دہ عذاب میں محسوس کر رہی تھی اوزان اتنا ہی خوش دکھائی دیتا تھا اور اس کی یہی خوشی و لاپرواہی ہی اسے گہرے کرب سے دوچار کیئے رکھتی تھی۔
بات بات پر اس کا خیال رکھنے والا اب اکثر معاملوں میں اسے یکسر اگنور کرنے لگا تھا ،
اس روز اس کی طبیعت بہت بوجھل تھی لہذا ابتدائی دوچار پیریڈ اٹٰینڈ کرنے کے بعد اس نے اوزان سے گھر واپسی کا تقاضا کر دیا مگر اس نے ثمرہ کے تقاضے پر کان دھرنا تو دور اس کے ستے ہوئے چہرے کی طرف غور سے دیکھنابھی گوارہ نہیں کیا ۔
"تھوڑی دیر ویٹ کر لو یار میرا پیریڈ ہے ابھی دس منٹ بعد ماریہ بھی ہمارے ساتھ ہی چلے گی۔۔ تتم شاپنگ میں اسکی مدد کروا دینا۔۔
اس کے الفاظ روح تک ادھیڑ گئے تھے
، گزرتے ہر لمحے کے ساتھ وہ اسے اپنے دل سے دور جاتا محسوس ہو رہا تھا۔
"اوکے تم ماریہ کو شاپنگ کروا دینا میں خود ہی ٹیکسی سے چلی جاؤں گی۔
آج کل نا چاہتے ہوئے بھی ہر بات پر اس کا لہجہ بھر آتا تھا اوزان نے کچھ کہنے کو لب کھولے تھے مگر تب تک وہ پلٹ کر واپسی کیلئے آگے بڑھ چکی تھی
اس دن اوزان خاصی دیر سے گھر واپس آیا تھا
سونے سے قبل شاور لیکر چائے پینے کے بعد وہ کھڑکی کیطرف اسے بند کرنے کی غرض سے آٰیا تو نظر بے ارادہ ہی سامنے لان کے اس حصے کیطرف اٹھ گئ جہان ثمرہ کین کی چئیر پر بڑے ڈھیلے ڈھالے انداز میں پلکیں موندے بیٹھی خود اپنے آپ سے بھی یکسر بے نیاز دکھائی دے رہی تھی۔
ایک لمحے کو جیسے اسے کچھ ہوا تھا۔۔!!
وہ ساحلوں کی ہوا جیسی شوخ لڑکی پچھلے کچھ دنوں سے بجھنے لگی تھی اس کی شرارتوں پر جلنے کڑھنے کی بجائے مسلسل چپ کے لبادے میں لپٹ گئی تھی
وہ فورا کھڑکی سے ہٹ آٰیا تھا
دل ہی دل میں خود پر لعنت بھی بھیجی تھی
کہ فضول میں اب تک اس معصوم کا دل جلاتا رہا تھا جبکہ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ وہ سر سے پیر تک صرٖف اسی کا تھا اور یہی بات بتانے کیلئے وہ اس وقت اس کے قریب آیا تھا
"ثمرہ ۔
لہجے میں تمام تر جزبے سمو کر اس نے اسے پکارا تھا۔۔
جب ثمرہ نے چونک کر پلکیں وا کر کے زرا سا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا ،