کھڑکی سے باہر چھاجوں مینہ برس رھا تھا مگر وہ گم سم سا بے نیاز کھڑا شدید سردی کے باوجود ٹھنڈی ھوا کے تھپیڑوں کو اپنے وجود پر برداشت کرنے کی کوشش کر رھا تھا
سرخ آنکھوں میں کرب کی لہریں سمندر کی بچھری ھوئی موجوں کی مانند ہلچل مچا رھی تھیں
ہلکی ہلکی بڑھی ھوئی شیو میں اسکا دل کش سراپا اور بھی زیادہ خوبصورت دیکھائی دے رھا تھا
کچھ دیر وھیں کھڑے رھنے کے بعد وہ پلٹ کر بیڈ پر آبیٹھا تھا اگلے ھی پل اسکی انگلیاں ٍٍ۔احمد ولاجٍٍ۔۔۔ کا نمبر پریس کر رہی تھیں
ھیلو
دو تین بیلز کے بعد اسکی کال پک ھو گئی تھی دوسری طرف رطابہ نے اسکی کال پک کرلی تھی
اسلام علیکم کیسے ہیں آپ؟
میں ٹھیک ہوں ثمرہ کیسی ھے؟
اسکے لہجے میں گہرا اضطراب تھا رطابہ نے بے ساختہ گہری سانس بھری
اب تو ٹھیک ھے بخار نہیں ٹوٹ رھا اسکا
کیوں کیا چیک اپ اچھی طرح نہیں ھو رہا اسکا
ہو رہا ھے مگر وہ خود ٹھیک نہیں ھونا چاھتی آپ سمحھاتے کیوں نہیں اسے؟
سمجھاؤں گا
رطابہ کء کہنے پر بہت آہستہ سے کہتے ھوئے اس نے رابطہ منقطع کر دیا تھا
کیا تھی ثمرا بخاری اس کے لیئے؟
اسکی زندگی۔؟
اسکی سانس۔۔۔؟
یا پھر اسکی محبت۔۔۔۔؟
وہ اسکے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا مگر سوچ رھا تھا
کتنی عجیب بات تھی کہ جو لڑکی دھڑکن بنکر اسکے سینے میں دھڑکتی تھی اسی لڑکی کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے میں وہ ھمیشہ ناکام رھا تھا
اسے یاد تھا بچپن میں وہ دونوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر کتنا لڑتے تھے کبھی کبھی لڑائی کے دوران وہ اتنی شدت سے اسکے بازو پر کاٹتی تھی کہ زخم بن جاتا تھا
اب بھی اس کے دائیں بازو پر اسکے دانتوں کے نشان زخم کی صورت رقم تھے گو وقت کے ساتھ ان زخموں پر کھرنڈ آگیا تھا مگر یہ اب بھی اسکی روح میں رستے محسوس ھوتے تھے
کے جی سے لیکر میٹرک تک انہوں نے ایک ہی انگلش سکول میں تعلیمی مدارج طے کیئے تھے
اوزان اس سے ایک سال سینئر تھا مگر پڑھائی میں وہ اس سے کہیں ذٰیادہ تیز تھی ہر سال وہ فرسٹ پوزیشن لیکر پاس ہوتی تھی مگر اوزان سیکنڈ یا تھرڈ نمبر پر آتا تھا اور اپنی اس جیت پر ثمرہ بخاری کا خوبصورت چہرہ جتنے حسین رنگوں میں گھر جاتا وہ واقع دیکھنے لائق ہوتے تھے۔۔۔
ثمرہ سے لاکھ عداوتوں اور دشمنی کے باوجود وہ سکول میں اس کا ایسے خیال رکھتا جیسے وہ ننھی سی کانچ کی گڑیا ہو کبھی کسی لڑکے یا لڑکی ساتھ ثمرہ کی لڑائی ہو جاتی اور وہ رو کر اس سے شکایت کرنے آتی تو اوزان ایک لمحے میں ہیرو بن کر اسے تکلیف پہنچانے والے بچے کو پیٹ کر رکھ دیتا۔۔
بچپن بہت اچھا گزرا ۔۔
وہ لوگ سکول سے فارغ ہوئے تو گھر والوں نے دونوں کو الگ الگ کالجز میں ایڈمیشن دلا دیا ۔
ثمرہ کو یہ قبول نہیں تھا تبھی اس نے رو رو کر آنکھیں سجا لیں کہ پڑھنا ہے تو اوزان کے ساتھ وگرنہ نہیں !
اوزان کیلئے اس کی یہ ضد کافی حیرانگی کا باعث بنی تھی کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے۔۔۔۔
دن میں دس بار لڑائی ہوتی تھی پھر یہ لگاؤ ۔۔۔؟؟؟
وہ واقع بہت حٰیران ہوا تھا۔
اور اپنی اس حیرانگی کو ختم کرنے کیلئے جب اس نے ثمرہ سے اس ضد کی وجہ پوچھی تھی تو اس نے بڑے دکھی لہجے میں اسے بتایا تھا ۔۔۔
عازی تمہارے بغیر کالج میں میرا دل نہیں لگے گا۔۔۔
اچھا اور اگر تمھاری شادی کسی اور گھر میں ھو گئی تو وھاں کسیے دل لگے گا میرے بغیر؟
وہ دیکھ سکتا تھا کہ ثمرہ اس کے سوال پر بے حد پریشان ہوئی تھی ۔
نہیں
میں کسی اور سے شادی نہیں کراؤں گی نہ ہی اس گھر سے دور جاؤں گی ۔۔۔۔بس تم مجھ سے شادی کر لینا پلیز۔۔۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ
ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﮨﻨﺴﺘﮯ
ﮨﻮﮰ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ
"ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻭ ﺑﯽ ﺑﯽ ﻣﯿﮟ
ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﯿﻠﮱ ﯾﮧ ﺑﻼ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻠﮯ ﮈﺍﻟﻨﮯ
ﺳﮯ ﺑﺎﺯ ﺁﯾﺎ"
"ﻣﺮﻭ ﺗﻢ ، ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﮨﻮﮞ ؟۔۔
ﻭﮦ ﺭﻭﮨﺎﻧﺴﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺣﺎﻝ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﮰ ﺑﻮﻻ
"ﺍﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ، ﭘﻮﺭﯼ ﭼﮍﯾﻞ ﮨﻮ ﺟﻨﮕﻠﯽ
ﺑﻠﯽ ﮨﻮ۔۔۔
"ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﮨﻮ ﮔﮯ ﺟﻨﮕﻠﯽ ﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﭘﮍﮬﺘﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺷﺎﺩﯼ
ﮐﺮﻭﻧﮕﯽ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﮯ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﺟﻮ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﻮ"
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ
ﮨﻨﺴﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺛﻤﺮﮦ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭ
ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺮﺥ ﻧﺎﮎ ﺭﮔﮍﺗﯽ
ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻭﺍﮎ ﺁﺅﭦ ﮐﺮ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ -
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺳﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮕﺎﮦ ﺑﮍﯼ
ﺣﺴﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﻔﺎﻑ
ﮨﺘﮭﯿﻠﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﭘﮭﺮ ﺑﯿﮉ ﮐﮯ
ﮐﺮﺍﺅﻥ ﺳﮯ ﭨﯿﮏ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭘﻠﮑﯿﮟ ﻣﻮﻧﺪ ﻟﯿﮟ
___
ﺛﻤﺮﮦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
نا ﺻﺮﻑ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ
ﺍﯾﮉﻣﯿﺸﻦ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ
ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﺩﯼ
ﺍﻭﺯﺍﻥ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻥ
ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﯽ ﻟﮩﺬﺍ ﺑﮍﮮ ﻣﺰﮮ
ﺳﮯ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯ ﺑﻨﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺟﻼﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺍﮐﻠﻮﺗﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ
ﻟﮩﺬﺍ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺑﮕﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﺛﻤﺮﮦ ﺟﻮ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﭽﺎ ﺯﺍﺩ ﺗﮭﯽ ﺗﯿﻦ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ
ﺛﻤﺮﮦ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺁﭘﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ
ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮯ ﻗﺒﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺛﻤﺮﮦ ﺍﺱ
ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺭﻃﺎﺑﮧ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺍﻭﺯﺍﻥ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻓﺮﯼ ﺗﮭﺎ ۔۔۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺛﻤﺮﮦ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﮰ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﻭﺯﺍﻥ
ﮐﯽ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺳﯽ
ﮐﯽ ﺳﮕﯽ ﺑﮩﻦ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺛﻤﺮﮦ ﺍﻭﺭ
ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﮔﺮ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺁﭘﺲ
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﻠﻮﺗﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﺍﻥ ﮐﮯ
ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﮑﻮﻥ ﻗﺎﺋﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ
ﺳﺐ ﻣﻞ ﺟﻞ ﮐﺮ ﺑﮍﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺭﮨﺘﮯ
ﺗﮭﮯ۔
ﺛﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺯﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ
ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺻﺤﯿﺢ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻥ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺱ ﺭﻭﺯ ﻭﮦ ﮔﯿﻢ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺛﻤﺮﮦ
ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔۔
"ﻋﺎﺯﯼ۔۔۔"
ﻭﮦ ﺯﯾﺮﻟﺐ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ
ﭘﻠﭩﺎ ﺗﮭﺎ
"ﮨﺎﮞ ﮐﮩﻮ"
"ﻧﺎﻭﻝ ﻣﻨﮕﻮﺍﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻻ ﺩﻭ ﮔﮯ؟"
ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔"
ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻟﭙﮑﯽ
"ﮐﯿﻮﮞ ۔۔
"ﺁﭖ ﺑﮭﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮉﻡ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺁﭘﮑﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻧﮯ
ﺧﻮﺩ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﺕ نہ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺳﻨﺎﯾﺎ
ﺗﮭﺎ۔۔۔
"ﺑﮑﻮﺍﺱ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻭ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻏﺼﮯ
ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ۔
"ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺗﺮﮎ ﮐﯿﮱ ﮨﻮﮰ
ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺐ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ؟"
۔
"ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ"
ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﭼﮍﯼ ﺗﮭﯽ
ﺍﻭﺯﺍﻥ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﺰﯾﺪ
ﺗﻨﮓ ﮐﯿﺎ۔
"ﺍﻭﮐﮯ ﺟﺐ ﭘﺘﺎ ﻟﮓ ﺟﺎﮰ ﺗﻮ ﺁﮐﺮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻟﯿﻨﺎ"
ﺷﺎﻥ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ
ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺛﻤﺮﮦ
ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﭩﺨﺘﯽ ﺭﮦ ﮔﺊ _
ﺍﮔﻠﮯ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﭘﮭﺮ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﮨﻮ
ﮔﮱ ﺗﮭﮯ۔۔
ﺛﻤﺮﮦ ﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﯾﺎ
ﻣﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ
ﺍﺳﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﻠﮕﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔