ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻻﻥ ﮐﻮ ﺭﻧﮓ ﺑﺮﻧﮕﯽ ﻻﺋﭩﺲ ﺳﮯ ﺳﺠﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﮐﯽ ﺑﺮﺗﮫ ﮈﮮ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ خوبصورت نقوش ، گوری رنگت والی ﺗﺎﻧﯿﮧ ﮔﺮﯾﻦ ﮐﻠﺮ ﮐﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮍﮬﺎﺋﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﻮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺑﮩﺖ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﺁﺅ ﻋﻤﯿﺮ ﺑﮭﺌﯽ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ اظہر ہاشم ﻋﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﮯ ۔
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﺳﺮ ﺳﻮﺭﯼ ﻭﮦ ﭨﺮﯾﻔﮏ ﺟﺎﻡ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ آنے میں دیر ہو گئی اس نے ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ کہا ﺁﺝ ﻭﮦ ان کے انویٹیشن ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﮐﯽ ﺑﺮﺗﮫ ﮈﮮ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔
ﻭﻋﻠﯿﮑﻢ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ ﻭﮦ اپنائیت سے ﺑﻮﻟﮯ ۔ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻋﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﻣﻼنا ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﺎ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﻋﻤﯿﺮ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﻞ ﻟﮯ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ۔
ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺅ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ آواز دی ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻨﺪ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺗﮭﯽ اچھا میں ابھی آئی اس نے اپنی دوستوں سے کہا اور ان کی طرف بڑھ گئی ۔
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺘﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﺍﻇﮩﺮ ﮨﺎﺷﻢ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﮭﮯ ۔
ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻋﻤﯿﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ نئے ﻣﻨﯿﺠﺮ انہوں نے عمیر کا تعارف کروایا ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﯿﻨﮉﺳﻢ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﻠﯿﮏ ﭘﯿﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺋﭧ ﺷﺮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺼﻮﻣﯿﺖ ﺟﮭﻠﮏ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺁﺝ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﺎ ﻭﯾﺴﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﺗﻮ ﭘﺎﭘﺎ ﻧﮯ ﮐﺐ ﺳﮯ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻤﯿﺮ ﺑﯿﭩﺎ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ ﺑﺲ ﭘﺎﭘﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺁﺝ ﮐﻞ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ۔ اپنی بیٹی کی بات سن کر پاس کھڑے اظہر ہاشم کے لبوں پر بھی مسکراہٹ چھا گئی ۔ ﻭﯾﺴﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﻮﺋﯽ ۔
ﺟﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ اس نے ﺧﻮﺵ ﺩﻟﯽ ﺳﮯ کہا
ﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻮﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ ۔
ﺟﯽ ﺗﮭﯿﻨﮑﺲ ﻭﮦ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ۔
ﭼﻠﻮ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﺏ ﮐﯿﮏ ﮐﺎﭦ لیں ۔
" ﺟﯽ ﭘﺎﭘﺎ ﭼﻠﯿﮟ ۔ " وہ سامنے ہی ایک ٹیبل کی طرف بڑھ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻋﻤﯿﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯿﺒﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﺩﻭﮌﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﯿﺒﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ اس کے چہرے پر پریشانی چھائی ہوئی تھی ۔
ﻣﻨﯿﺠﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﻠﺪﯼ ﺁﺋﯿﮟ ﺳﺮ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻃﯿﺒﻌﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭼﺎﺋﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﻮلتا گیا ۔
ﺟﻠﺪﯼ ﺁﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ اس نے پریشانی سے کہا ۔ اظہر ہاشم کی تکلیف کی شدت میں دیکھتے ہوئے ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺲ ﮐﻮ ﮐﺎﻝ ﮐﯽ ۔
ﺍﻇﮩﺮ ﮨﺎﺷﻢ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ ﮐﻮ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ اس وقت ان کے چہرے کی رنگت پیلی ہو رہی تھی ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺾ ﺗﮭﮯ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﺎﻧﯿﮧ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺳﮯﮨﯽ ﮨﺎﺳﭙﭩﻞ چلی ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻋﻤﯿﺮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ وہ عمیر کے پاس پہنچتی ہوئی پریشان کن لہجے میں بولی جو اس وقت خود دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ پریشان سا ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔
جی ﺁﭖ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﭘﻠﯿﺰ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﯿﮟ وہ اسے تسلی دینے لگا ۔
یا اللہ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺁﭖ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﺎﭘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻣﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺁﭖ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯽ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﺎﺳﭙﭩﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ روتے ہوئے ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﭘﻠﯿﺰ ﯾﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﻟﯿﮟ وہ منلر واٹر کی بوتل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔ پلیز اب روئیں مت ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺗﺴﻠﯽ ﺩﮮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ہے ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﯿﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﮐﮩﺘﮯ تھے ۔
ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ﺍﻇﮩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮭﮍﺍ ان کی صحت یابی کے لیے ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﺁﭖ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﮯ نا ﮈﺍﮐﭩﺮ نے ﻋﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ پوچھا ۔
ﺟﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮨﻮﮞ ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﯿﺒﻌﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺧﻄﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﺁﭖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ رکھئیے ڈاکٹر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے چلا گیا ۔
ﭘﺎﭘﺎ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ تانیہ نے بے تابی سے پوچھا ۔
ﺟﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ وہ اسے پھر سے تسلی دینے لگا ۔
" ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ۔ " اس نے دل ہی میں اللہ کا شکریہ ادا کیا ۔
ﻭﮦ ﺧﻄﺮﮮ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ کن چہرے ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﺎ ﺗﮭﺎ ۔
"ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ ؟" اس نے سوالیہ نظروں سے عمیر کو دیکھا ۔
"ﺟﯽ ۔" عمیر نے اثبات میں سر ہلایا ۔
ﺍﺱ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﻣﺎﺳﮏ ابھی ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ اور ساتھ ہی ڈرپ لگی ہوئی تھی ان کے چہرے سے ایسے لگ رہا تھا جیسے برسوں کے بیمار ہوں ﺍﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﮎ نہیں ﭘﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ۔
عمیر ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ہی ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ۔
ﻋﻤﯿﺮ ﺁﭖ ﺗﻮ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﻣﺎﺳﮏ ﮐﯿﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔
ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﺮﺱ ﮐﺎ ﺟﻮ ﭘﺎﺱ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭘﻠﯿﺰ ﺁﭖ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﻮ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔
ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ اس نے خود کلامی کی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮨﯿﻠﻮ ﺯﻧﯿﺐ " ﺟﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ۔ "
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﭧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
" ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﺎﺋﯽ ۔" وہ فکر مندی سے بولی ۔
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺱ ﺍﻇﮩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﮨﺎﺭﭦ ﺍﭨﯿﮏ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﺎﺳﭙﭩﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ۔
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﺅﮞ ﮔﺌﯽ ۔
"ٹھیک ہے ﺧﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ ۔ "
ﻭﮦ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻞ ﻓﻮﻥ ڈالتے ہوئے ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﮐﯽ جانب بڑھ گیا ۔
تانیہ ان کے قریب ﭼﺌﯿﺮ پر بیٹھی ﺯﯾﺮ ﻟﺐ ﮐﭽﮫ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﯽ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﺱ ﮨﯽ ﭼﺌﯿﺮ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔
ﻋﻤﯿﺮ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﻮ ﮨﻮﺵ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ان کو دیکھتے ہوئے ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ۔ عمیر بھی چئیر سے اٹھ کر ان کے قریب آ گیا ۔
ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﻣﺎﺳﮏ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﺁﭖ ﺭﻭﮎ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻋﻤﯿﺮ نے روکنے کی کوشش کی ۔
ﺗﺎﻧﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔
ﻧﮩﯿﮟ ﻋﻤﯿﺮ ﺭﻭﮐﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﻮ ﻭﮦ نحیف ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ ۔
ﺟﯽ ﺳﺮ اس نے مودبانہ انداز میں کہا ۔
ﭘﺎﭘﺎ ﺁﭖ ابھی کوئی بات نہ کجیئے ﺁﭖ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﺎﺕ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ وہ فکر مندی سے بولی ۔
جی سر تانیہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ کو ابھی ریسٹ کی ضرورت ہے ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭘﮭﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ۔
ﭘﺎﭘﺎ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ تانیہ روندے ہوئے لہجے میں بولی ۔
ﺟﯽ ﺳﺮ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﺌﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﺳﺮ ایسی باتیں نہ کجیئے عمیر نے انہیں حوصلہ دیا ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﺭﯾﺴﭧ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ اس وقت بہت اہم بات کرنا چاہ رہا ﮨﻮﮞ ۔
" جی سر ۔" اس نے ادب سے کہا
بیٹا تم جانتے ہو میں نے ہمیشہ تمہیں اپنا بیٹا سمجھا ہے اور ایک باپ کی حثیت سے میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں مجھے امید ہے تم میری بات نہیں ٹالو گئے وہ مدہم لہجے میں بولتے ہوئے عمیر کو دیکھ رہے تھے ۔
جی سر میں جانتا ہوں میں بھلا آپ کی کوئی بات کیسے ٹال سکتا ہوں انہیں محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔
عمیر کیا تم میری بیٹی کا ہاتھ تھام سکتے ہو اور اس وقت میرے سامنے نکاح کر سکتے ہو یہ کہتے ہوئے انہوں نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔
عمیر اور تانیہ یہ بات سنتے ہی شاکڈ رہے گئے عمیر نے حیرت سے انہیں دیکھا کہ یہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔
پا...پاپا یہ آپ کیسی بات کر رہے ہیں وہ تو عمیر کے بارے میں کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔
"کاش کہ تانیہ انکار کر دے یا اللہ آپ تو جانتے ہیں ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﻣﻨﺎ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ لڑکی ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ یا اللہ مجھے اتنی بڑی آزمائش میں مت ڈالیں میں اپنی محبت نہیں کھونا چاہتا ۔" اس نے دل میں دعا کی ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺧﻮﺵ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺭﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﺧﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮ ﺩﺅ وہ تانیہ کو سمجھانے لگے ۔
ﭘﺎﭘﺎ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ان کی یہ بات سنتے ہی وہ تڑپ سی گئی ۔ ڈاکٹر نے کہا ہے آپ بالکل ﭨﮭﯿﮏ ہیں ﺑﺲ ﺁﭖ کو ابھی ریسٹ کی ضرورت ہے ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﻢ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯽ ۔
ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﭘﻠﯿﺰ ﻋﻤﯿﺮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﮩﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺗﻮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ اس دنیا میں ﺗﺎﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ انہوں نے عمیر کو خاموش دیکھ کر نم ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ کہا ۔
پاپا پلیز اب بس ریسٹ کریں اس سے پہلے کہ عمیر کچھ کہتا تانیہ نے التجاء کی ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﺮﯼ خوشی کے لیے یہ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺅ ﮔﺌﯽ میں یہ سب کچھ تمہاری بہتری کے لیے ہی کہہ رہا ہوں وہ اس کے ہاتھ کو لبوں سے لگاتے ہوئے بولے ۔
عمیر پریشان سا کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا اس کا دل بے چین سا ہو رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ تانیہ نے ہامی بھر لی تو وہ کیا کرے گا ۔
یہ بات کہہ کر انہوں نے فرار کے سارے راستے بند کر دے تھے کیونکہ اس کے لیے پاپا کی خوشی سے بڑھ کر کوئی خوشی نہ تھی ۔
"اوکے پاپا جیسے آپ چاہیں ۔ " اس نے مدہم لہجے میں سر جھکا کر جواب دیا ۔ انہیں دیکھتے ہوئے اس نے ﻧﮧ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ہامی بھر لی ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻋﺰﯾﺰ ﺗﮭﯽ ۔
ﻋﻤﯿﺮ ﺑﯿﭩﺎ تم نے ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭺ ہے اب کی بار وہ خوشی سے عمیر کی طرف متوجہ ہوئے جیسے انہیں یقین تھا کہ عمیر کبھی انکار نہیں کر سکتا ۔
"عمیر کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ کیا کرے ایک طرف محبت تھی تو دوسری طرف ایک باپ کی خوشی ۔"
"بیٹا خاموش کیوں ہو ۔ "
جی سر میں آپ کی بیٹی سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں وہ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﺲ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﮭﺮﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ اسے کی ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ عمیر نے پل بھر میں ہی اپنی محبت کو ایک باپ کی خوشی کی خاطر قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ " ہو سکے تو رمنا مجھے معاف کرنا میں ایک باپ کو انکار نہیں کر سکا ۔" وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب ہوا ۔
ان ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ہی ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ اس ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﭖ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮ ﻟﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ تھے ۔
ﺟﯽ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ نگاہ ڈال کر ﺑﺎﮨﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ خاموشی سے ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﮈﺍﮐﭩﺮ کو ﺍﻥ کے ﮨﻮﺵ میں آنے کی اطلاع دی ۔ ڈاکٹر صاحب انہیں ﭘﮭﺮ ﺳﮯ دیکھ ﻟﯿﮟ ۔ جی چلیں اب ان کی طبیعت کیسی ﮨﮯ ڈاکٹر اسٹیتھو سکوپ اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ جی ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﻟﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ اس نے ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ کہا ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﯿﻞ ﻓﻮﻥ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺳﺪ ﮐﻮ ﮐﺎﻝ ﻣﻼﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔
" ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭼﯿﮏ ﺍﭖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﺎ ﮐﺠﯿﺌﮯ ﮔﺎ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﭼﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﮨﺪﺍﯾﺘﯿﮟ میڈیسن دیکھ ﮐﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔ "
"ﮨﯿﻠﻮ ﺍﺳﺪ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻮ ؟ "
ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻟﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ اس کے لہجے سے انداز لگاتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا ۔
یار اس وقت میں تجھے کچھ نہیں بتا سکتا ﺑﺲ ﺗﻢ ابھی ﺟﻨﺎﺡ ﮨﺎﺳﭙﭩﻞ ﺁ ﺟﺎﺅ ﺍﯾﮏ ﻧﮑﺎﺡ ﺧﻮﺍﮞ اور چند گواہ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﺅﮞ ﮔﺎ ۔
ﭼﻞ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻧﺎ ﮨﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ اس نے مزید سوال پوچھنے کے بجائے اسے تسلی دی ۔
ﮨﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺁﻓﺲ ﺳﮯﺁﺋﮯ ﮨﻮ نصرت بیگم ﻻﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﭺ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯿﮟ ۔
ﺑﺲ ﻣﻤﯽ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺁ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﻭﮦ ﮐﺎﺭ ﮐﺎ ﻻﮎ ﮐﮭﻮﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ تھا
"اوکے ﺑﯿﭩﺎ ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺳﺪ ﮐﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﭼﻨﺪ ﮔﻮﺍﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﯿﺮ ﮐﺎ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ اس وقت ﺍﻇﮩﺮ ﺻﺎﺣﺐ کی ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺳﺪ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻋﻤﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﻣﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﻋﻤﯿﺮ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﻋﻤﯿﺮ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﻣﻨﺎ ﮐﺎ ﮨﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﻭﮦ ﮨﯽ ﺻﺮﻑ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﻮﮞ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺰﻧﺲ ﺍﻇﮩﺮ ﺍﻧﮉﺳﭩﺮﯾﺰ ﮐﮯ ﺍﺏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﻣﺎﻟﮏ ﮨﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﺌﮯ ۔
ﭘﺎﭘﺎ ﺁﭖ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﻠﯿﺰ ﺁﭖ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ پھر سے تانیہ کے آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے ۔
ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ اب ﺁﭖ ﺭﯾﺴﭧ ﮐﺮﯾﮟ اس نے ﺧﻠﻮﺹ ﺩﻝ ﺳﮯ کہا ۔
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﯿﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﻇﮩﺮ ﮨﺎﺷﻢ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮕﮍﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﭘﻠﯿﺰ ﻧﺮﺱ جلدی ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﺑﻼﺋﯿﮟ اس نے پاس کھڑی نرس سے پریشانی سے کہا جو میڈیسن دیکھنے میں مصروف تھے ۔
ﭘﻠﯿﺰ ﺁﭖ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ہوئے بولے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻋﻤﯿﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﮐﻮ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ گیا تھا آپ کو ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ اس نے قریب آتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا ۔
ﻭﮦ.... ﻭﮦ ﻋﻤﯿﺮ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ لیتی ﮨﻮﺋﯽ ﺑﻮﻟﯽ تھی ۔
اس نے ہاتھ میں موجود شاپر بینچ پر رکھ دئیے ﭘﻠﯿﺰ ﺁﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﯿﭩﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ تھام کر چئیر پر بیٹھایا ﺁﭖ ﭘﻠﯿﺰ ﺭﻭﺋﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﺌﮯ وہ اسے تسلی دینے لگا ۔ اس وقت خود ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ اس کے سامنے ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻇﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺑﺎﮨﺮ آیا ۔ ﻋﻤﯿﺮ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ۔ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﮯ اس نے ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ دریافت کیا ۔ ﺳﻮﺭﯼ ﻋﻤﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ساتھ ہی کھڑی ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﺻﺪﻣﮯ ﺳﮯ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﮨﻮ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺎﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺯﻧﯿﺐ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ جی ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻇﮩﺮ ﮨﺎﺷﻢ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔
ﺍﻇﮩﺮ ﮨﺎﺷﻢ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﻮ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻋﻤﯿﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﺎﮞ جی ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻟﯿﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ "ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﻣﻨﺎ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔ " ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﺭﻣﻨﺎ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺌﯽ اس نے ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ کہا ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺗﻔﺼﯿﻞ اسے ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ چلاتے ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯿﮟ ۔
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺘﻨﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ دہ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔
ﺑﯿﭩﺎ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ نہ جانا ۔ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﮯ ﻧﺎ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﺎ ﭘﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﺁﺝ ﺗﻮ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻇﮩﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﻮﻧﭗ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺏ ﮨﻤﺎﺭے ﺳﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ہے بھی ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ۔ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ سمجھاتی ہوئیں ﺑﻮﻟﯿﮟ ۔
ﺟﯽ ﻣﺎﮞ جی ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے جواب دیا ۔
ﭼﻠﻮ ﺍﺏ ﻣﻨﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﮬﻮ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁ ﺟﺎﺅ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ۔
ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﮉ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ کہنے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻭﮦ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ تو ﮔﮭﭗ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻞ ﻓﻮﻥ ﮐﯽ ﭨﺎﺭﭺ ﺁﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺋﭻ ﺑﻮﺭﮈ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﮐﺮ ﺳﺐ لائٹ ﺁﻥ ﮐﺮ ﺩیں کمرہ اچانک ﺳﮯ ﮨﯽ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺯﻭ ﮐﻮ ﺁﻧﮑﮫ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻟﯿﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺮﺥ ﮨﻮﺗﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﺮ ﺑﯿﮉ ﮐﺮﺍﺅﻥ ﺳﮯ ﭨﯿﮏ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﭨﮫ ﺑﯿﭩﮭﯽ ۔
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﻭﮦ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ۔ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻦ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﮭﺎ ۔
وعلیکم السلام وہ نم لہجے میں بولی ۔ دونوں کے درمیان کچھ دیر ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﯽ ﭘﮭﺮ عمیر نے ہی اس خاموشی کو توڑا ۔ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ تھیں آپ ﺗﯿﻦ ﺩﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻻﻧﭻ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮈﻧﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﭼﻠﯿﮟ ﺷﺎﺑﺎﺵ ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ ۔ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ بھی ﺍﺑﮭﯽ ڈنر ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ اسے دیکھتے ہوئے ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ﺗﮭﺎ ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﮎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﮦ مدہم ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﯽ ۔
" ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﮔﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﺳﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺭﻭ ﮐﺮ ﭘﮭﺮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﺳﺐ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﮐﮫ ﺳﮑﮫ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺁﭖ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﭘﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﮑﻮﻥ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ سمجھانے لگا ۔ "
ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﺁﭖ ﺍﺗﻨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺑﯿﮉ ﺳﮯ ﺍﭨﮭ کھڑا ہوا ۔
ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺛﺮ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﮧ ﻧﮑﻠﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺎﻣﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﺎﭘﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﻮﮞ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮯ ﺳﮩﺎﺭﮮ ﭼﮭﻮﮌ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻭﮦ ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻭﺍﺵ ﺭﻭﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﯽ تو ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻋﻤﯿﺮ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﮐﮭﮍﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﺳﮯ دیکھ کر کہا ۔ ﻭﮦ ﺁﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺻﻮﻓﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﻠﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮑﺎﻻ ﭼﻠﯿﮟ ﺍﺏ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ بڑھایا ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ۔
چند نوالے ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺲ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺁﭖ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ۔
کچھ سر میں درد ہے مزید میں نہیں کھا سکتی وہ اپنے ہاتھوں پر نظریں جمائے بولی ۔
اچھا ﭼﻠﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺩﻭﺩﮪ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻦ ﮐﻠﺮ میڈیسن ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺁﭖ جا کر لیٹ ﺟﺎﺋﯿﮟ اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
"ﺟﯽ شکریہ میڈیسن رہنے دیں آپ یہ تکلیف نہ اٹھائیں ۔" اس نے روکھے لہجے میں کہتے ہوئے صاف انکار کیا ۔
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺍﺏ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻣﯿﺮﺍ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﻧﮯﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﻭﮐﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ سنجیدگی سے بولا ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭺ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮے ﮔﺎ ۔
ﻭﮦ ﺍﺳﮯ پین کلر میڈیسن ﺩﮮ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﮉ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ذرا فاصلے پر ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ ۔ ﻟﯿﮑﻦ اس وقت ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﻮﺳﻮﮞ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﻢ ﺗﮭﺎ ۔
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻋﻤﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﺮﻭﭦ ﺑﺪﻟﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺗﺎﻧﯿﮧ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﯽ ﺭﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻭﮦ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﺻﺎﻑ کرنے لگا اسے بہلانے کے لیے شریر لہجے میں ﺑﻮﻻ ۔ ﻭﮦ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺗﻨﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮔﺌﯽ ۔
ﭼﻠﯿﮟ ﺍﺏ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﯾﮟ ﺭﻭﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ اپنا سرد ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ نرمی سے ﺳﺮ دبانے لگا ۔ اس نے نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﻮﻧﺪ ﻟﯿﮟ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔