"اسلام علیکم خالہ جان!" وہ مغرب کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتی ہی ہیں کہ روحان آتا ہے۔
"وعلیکم اسلام۔ کیسا ہے میرا شہزادہ؟" وہ اسکے ماتھے پر بوسہ دیتی ہیں۔
" میں تو بلکل ٹھیک ہوں پر آپ کی بیٹی لگتا ہے پاگل ہوگئ ہے۔" وہ منہ بگاڑ کر ان سے جدوہ کی شکایت لگاتا ہے۔
" ارے بیٹا ایسی کوئ بات نہیں۔ آؤ بیٹھو میں بلا کر لاتی ہوں اسے۔" وہ اسکی اس حرکت پر مسکرا دیتی ہیں۔
"نہیں رہنے دیں بلائیں نہ بلکہ اسے کہیں کہ یہ ڈریس پہن کر تیار ہوجائے ہم باہر جا رہے ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو؟" وہ ڈریس والا بیگ پکڑاتے ہوئے اجازت مانگنے کے انداز میں پوچھتا ہے۔
"ارے بیٹا یہ بھی کوئ پوچھنے والی بات ہے۔ وہ تو تمہاری امانت ہے ہمارے پاس جب دل کرے لے جاؤ۔" وہ روحان سے بیگ پکڑ کر جدوہ کے کمرے کی طرف جاتی ہیں۔
******♡♡♡♡♡******
"جدوہ بیٹا!" وہ جدوہ کے کمرے میں داخل ہو کر اسے مخاطب کرتی ہیں۔
" جی امی۔" وہ ڈسٹنگ والا کپڑا میز پر رکھ کر انکے پاس آتی ہے۔
"بیٹا وہ باہر روحان آیا ہے۔ وہ تمہیں اپنے ساتھ باہر لے کر جانا چاہتا ہے۔ یہ لو ڈریس اس نے تمہارے لیے دی ہے۔" وہ جدوہ کو ڈریس پکڑا کر روحان کے آنے کی اطلاع دیتی ہے۔
" امی آپ اس سے کہہ دیں میری طعبیت ٹھیک نہیں ہے میرا جانے کا بھی موڈ نہیں ہے۔" وہ ڈریس سائیڈ پر رکھ کر دوبارہ صفائ کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔
"جدوہ بیٹا میں نے ابھی تمہیں کل سمجھایا تھا کسی مرد کی زندگی میں تب تک کوئ دوسری عورت نہیں آتی جب تک اسکی پہلی محبت اسے اسکا موقع نہ دے۔" وہ اسکا بازو پکڑ کر اسکا رخ اپنی طرف کرتے ہوئےسختی سے پکڑتی ہوئ کہتی ہے۔
"اچھا ٹھیک ہے میں تیار ہوجاتی ہوں۔ اسے کہیں دس منٹ تک آرہی ہوں۔" وہ روہانسی ہو کر ڈریس پکڑ کر ڈریسنگ روم میں چلی جاتی ہے۔
******♡♡♡♡♡******
"کیا بنا خالہ جان آپ کہ لاڈلی کہاں ہے؟" آپ نے آنے میں اتنی دیر کیوں لگادی؟ وہ مان تو گئ ہے ناں؟" روحان انکے دیر سے واپس آنے کی وجہ سے ان کو سوالیہ نظروں کے ساتھ انکی طرف دیکھتا ہے۔
" ارے کچھ نہیں ہوا بیٹا بس وہ تیار ہورہی ہے۔ دس منٹ تک آجائے گئ۔" میں تمہارے لیے چئے بنا کر لاتی ہوں۔" روحان کی ٹینشن دور کر وہ چائے بنانے کچن میں چلی جاتی ہیں۔
روحان موبائل پر کسی سے بات کررہا ہوتا ہے جب اسکی نظر سیڑھیوں سے اترتی جدوہ پر پڑتی ہے۔ "آئ ول کال یو لیٹر۔" وہ کال کاٹ دیتا ہے۔
مائے پریٹی وائف یو ول کل می ون ڈے ود یور بیوٹی۔" وہ جدوہ کو کن آنکھیوں سے دیکھتے ہوئے زیر لب کہتا ہے۔
جدوہ ریڈ کلر کی فراک جس پر بلیک ایمبرائیڈری ہوتی ہے۔ روحان کے اندر تک اتر چکی ہوتی ہے۔
"جی جناب! عرض کریں کہا جانا ہے؟" وہ روحان کے پاس آ کر بڑے موڈ کے ساتھ اس سے پوچھتی ہے۔
"آپ کے سسرال۔" وہ بے ہوشی کے عالم میں کیا کہہ جاتا ہے اسے اندازہ نہیں ہوتا۔
" کیا مطلب؟" وہ ناک چڑھا کر اس سے پوچھتی ہے۔
او سوری میرا مطلب ہم ڈنر پر باہر جا رہے ہیں۔" وہ سر جھٹک کر اپنی بات کو درست کرتا ہے۔
" ٹھیک ہے پھر اب چلیں۔"
"جی ضرور۔" وہ سر جھکا کر ہاتھ کے ساتھ جدوہ کو آگے جانے کا اشارہ کرتا ہے۔
"روحان بیٹا چائے۔" اقراء بیگم کچن سے آواز دیتی ہیں۔
" خالہ جان میں واپس آ کر پیتا ہوں کہیں آپکی بیٹی کا موڈ چینج نہ ہوجائے۔"
******♡♡♡♡♡******
"کہاں جا رہے ہیں ہم؟" جدوہ ایک بار پھر روحان سے وہی سوال کرتی ہے جو وہ پہلے گھر پر بھی کر چکی تھی۔
" جان بتایا تو ہے ڈنر کیلیئے جا رہے ہیں۔" روحان گاڑی چلاتے ہوئے اسے چھیڑنے کے سے انداز میں کہتا ہے۔
"میرا مطلب ہے کس جگہ پر؟" وہ اسکے چھیڑنے پر شیرنی کی طرح غصّے سے دیکھتی ہے
"The monal
جارہے ہیں مائے ڈارلنگ۔" وہ اسے مزید چھیڑتا ہے۔
"روحان مار کھاؤ گے مجھ سے۔ مجھے تنگ مت کرو۔" وہ تنگ آ کر اسے دھمکی دیتی ہے۔
" لو جی اب اپنی وائف کے ساتھ رومانس نہیں کروں گا تو کس کے ساتھ کروں گا۔ "وہ معصوم بنتے ہوئے اسے تنگ کرنا جاری رکھتا ہے۔
" اوکے جو مرضی کرو۔" وہ تنگ آ کر غصّے سے دوسری طرف کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ جاتی ہے۔
روحان اسٹریو آن کرتا ہے۔ جس ہر سانگ سن کر جدوہ کی سانسین تھم جاتی ہیں۔
Baby you kill me tonight
You looks so tight
When you come to me
I will never let you go
Baby i love you
I went to show my love tonight
یہ سونگ سن کر اسکے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ وہ جلدی سے ہاتھ بڑھا کر اسٹریو بند کردیتی ہے۔ اسکی اس حرکت کو دیکھ کر روحان کے چہرے پرمسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔
"چلیں مائے پریٹی وائف آگیا ہوٹل۔" وہ گاڑی کو پارکنگ میں پارک کرتا ہے۔
"روحان۔۔!!! وہ غصّے کے ساتھ اسے ایک بار پھر چھیڑنے پر اسے دیکھتی ہے۔
" اچھا چلیں پھر اب۔" وہ بات کو سنھبالتے ہوئے اسے اندر چلنے کا کہتا ہے اور آگے بڑھ کر اسکا بازو اپنے بازو میں ڈال لیتا ہے۔ روحان کی اس حرکت پر جدوہ کے چہرے ہر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔
"ویلکم سر! آئیے آپ کا ہی ویٹ ہورہا تھا۔ مینجر جدوہ اور روحان کو ویلکم کرتا ہے۔
"کیا یہ پہلے سے پلین کیا تھا تم نے؟" جدوہ سوالیہ آنکھوں سے اس سے پوچھتی ہے۔
" یس مائے وائف۔" وہ اسکے ناک پر انگلی لگاتا ہوا کہتا ہے۔
وہ دونوں حال کے اندر آتے ہیں۔
ہال میں انٹر ہوتے ہی سامنے کا منظر دیکھ اور ڈیکوریشن اور سامنے لکھے الفاظ سے جدوہ ششدر رہ جاتی ہے۔
"یہ سب کیا ہے روحان تم نے مجھے اس سب کے بارے میں پہلے کیوں نہیں بتایا" وہ غصّے اور اداس دونوں کے ملاپ میں تھی۔
" یار اگر بتا دیتا تو سرپرائز کیسے دیتا۔ چلو آؤ اندر چلیں۔" وہ بمشکل سامنے لکھے الفاظ پڑھ کر اپنے آنسوؤں کو روکتی ہے۔ "ہیپی برتھ ڈے ارینہ۔" آج ارینہ کا برتھ ڈے تھا۔
" جدوہ جو کہ پتہ نہیں راستے میں کونسے حسین خواب سجائے آئ تھی، یہاں آ کر اسکے سارے خواب مٹی میں مل گئے تھے۔
"ہیلو ارینہ۔ کیسی ہو؟" ارینہ فرینڈز کے ساتھ باتوں میں مگن ہوتی ہے، جب روحان عین اس کے پیچھے پہنچ کر اسکو مخاطب کرتا ہے۔
" ہائے! آئ ایم فائن۔ واٹس آباوٹ یو؟" وہ پیچھے مڑ کر اسکے ساتھ ہلکا سا روایتی طور پر گلے لگتی ہے۔
" آلویز فائن اینڈ ہیپی برتھ ڈے پریٹی گرل۔" وہ اسکو وش کرتے ہوئے اپنے کوٹ کی پوکٹ میں سے ایک ڈبی نکال کر دیتا ہے اسے۔
"اوہ اٹس سو نائس۔ تھینک یو سو مچ۔" وہ اس کا دیا ہوا لاکٹ دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے۔
" ہیپی برتھ ڈے ارینہ۔" جدوہ ہاتھ اٹھا آگے بڑھا کر بے دلی سے ارینہ کو وش کرتی ہے۔
" اٹس اوکے یار۔ تم آگئ یہی بہت ہے۔" ارینہ کے رویے میں پہلے سے بہت چینج آگیا تھا اور ویسےبھی اسے جدوہ کے ساتھ کوئ خاص پریشانی بھی نہیں تھی۔ اس کے لیے جدوہ روحان کی بس کزن تھی۔ تو بھلا وہ اسکے ساتھ صحیح سے کیوں نہ پیش آتی۔
" اچھا روحان آؤ میں تمہیں اپنے کزن سے ملواتی ہوں۔ وہ آج ہی لندن سے آیا ہے۔" وہ روحان کو بازو سے پکڑ اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ ارینہ کے چہرے پر خوشی کا سمندر بکھرا ہوا تھا۔ اسکے برعکس جدوہ بہت اداس تھی۔ وہ ہال میں سائڈ پر ایک چئیر پر بیٹھ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ روحان ارینہ اور اسکے کزن کے ساتھ باتوں میں مگن جدوہ کو مکمل طور پر نظر انداز کررہا تھا۔ جدوہ نے جیسے تیسے کچھ وقت گزارا پھر سب اسکی برداشت سے باہر ہوگیا جب روحان نے سب کے بار بار کہنے پر ارینہ کے ساتھ ڈانس کیا۔
" روحان!" وہ ارینہ اور کچھ اور فرینڈز کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوتا ہے جب جدوہ اسے پیچھے سے آواز دیتی ہے۔
" جی۔" روحان پیچھے مڑ کر جدوہ کو دیکھتا ہے۔
" روحان میری طعبیت کچھ خراب ہو رہی ہے۔ کیا اب ہم گھر چل سکتے ہیں؟" وہ بجھے ہوئے منہ کے ساتھ روحان کو کہتی ہے۔
" یار جدوہ ابھی تو پارٹی اسٹارٹ ہوئ ہے اور تم گھر جانے کی بات کررہی ہو۔" ارینہ خفگی کے ساتھ جدوہ کو کہتی ہے۔
" بس میری طعبیت کچھ ٹھیک نہیں ہے میں گھر جا کر ریسٹ کرنا چاہتی ہوں۔ پلیز روحان چلیں۔" وہ روہانسی ہوجاتی ہے۔
" ایک منٹ رکو۔ ایسا کرو میرا ڈرائیور تمہیں گھر چھوڑ آتا ہے۔ روحان کو یہاں ہی رہنے دع.ارینه جدوہ کو مشورہ دیتی ہے۔ ارینہ کی بات پر جدوہ بمشکل اپنے آنسوؤں کو روکتی ہے۔
"ٹھیک ہے تم اپنے ڈرائیور کو کہہ دو کہ مجھے گھر ڈراپ کر آئے۔" وہ روحان کی طرف حیرت سے دیکھتی ہے جو کہ اس بات پر بغیر کوئ تاثر دیے مسکرارہا ہوتا ہے۔
"اوکے بائے۔" وہ سب کو بائے بول کر باہر گاڑی میں بیٹھ جاتی ہے جس میں ڈرائیور پہلے ہی اس کا ویٹ کررہا ہوتا ہے۔
" کہاں جانا ہے میم؟" ڈرائیور گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اس سے پوچھتا ہے۔ وہ اسے ایڈریس بتا کر سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر کے کہیں دور کسی سوچوں میں مگن ہوجاتی ہے۔
"میم ہم پہنچ گئے۔" ڈرائیور اسکے گھر کے باہر گاڑی روکتے ہوئے اسے جگاتا ہے جو کہ پتہ نہیں کن سوچوں میں کھوئ ہوتی ہے۔
" تھینکس۔" وہ گاڑی سے اتر کر تیزی سے روتی ہوئ گھر کے اندر بھاگتی ہے۔
"جدوہ جدوہ! کیا ہوا میری جان۔" رحیم صاحب جدوہ کو روتے ہوئے اندر آتا دیکھ پریشانی کے ساتھ اٹھ کر جدوہ کو سینے سے لگا کر پوچھتے ہیں۔
"ہائے میرے اللہ کیا ہوگیا میری بیٹی کو؟ اسے صوفے پر بٹھائیں۔" اقراء بیگم جدوہ کو ایسے دیکھ پریشان ہوجاتی ہیں۔
"بیٹا روحان کہاں ہے؟ تم اکیلی کیوں آئ ہو؟ کچھ تو بتاؤ۔" اقراء بیگم فکر کے مارے رونے لگ جاتی ہیں۔ جدوہ ہچکیاں لیتی ہوئ سارا واقعہ اپنے بابا کو سناتی ہے۔ وہ سب سن کر اپنے ساتھ لگا لیتے ہیں۔
"تم فکر نہ کرو بیٹا میں صبح ہی صدیق سے بات کرتا ہوں۔"
"پلیز بابا انھیں کچھ مت بتائیے گا۔ انھیں بس اتنا کہہ دیں کہ ہم لوگ جتنا جلدی ہوسکے اتنا جلدی رخصتی چاہتے ہیں۔"
"ٹھیک ہے بیٹا میں کرتا ہوں بات ۔اب رونا نہیں میری جان۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔" وہ اسے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے اپنے کمرے میں آرام کرنے کا کہتے ہیں۔
"اوکے بابا۔" وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ کپڑے بدل کر وہ سونے کیلیئے بیڈ پر لیٹتی ہے لیکن نیند اسکی آنکھوں میں اترنے کا نام نہیں لیتی۔ وہ کتنی دیر انہی خیالات میں مگن ہوتی ہے۔ پھر اچانک اس پر نیند کی دیوی مہربان ہوجاتی ہے اور وہ نیند کی
آغوش میں چلی جاتی ہے۔
******♡♡♡♡♡******
"گڈ مارننگ بابا۔" وہ ناشتے کی ٹیبل پر آکر ان سے ملتی ہے۔
"گڈ مارننگ۔ اٹھ گئ میری شہزادی۔ چلو بیٹھو ناشتہ کرلو۔" وہ اسے مسکرا کر ویلکم کرتے ہیں۔
"بیٹا میں نے صدیق سے بات کرلی ہے، ہم لوگوں نے اگلے ماہ کی پندرہ تاریخ کو تم دونوں کی رخصتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔" وہ اسے طے ہونے والے معاملات کا بتاتے ہیں۔
"ٹھیک ہے بابا جیسا آپ کو ٹھیک لگے۔" وہ ناشتہ کرتے ہوئے انکے فیصلے کی ہامی بھرتی ہے۔
"اسلام و علیکم جناب۔ کیسی تیاری ہے آپ کی؟" جدوہ سٹیج کے پیچھے بیٹھی اپنی سپیچ کی ریئسل کررہی ہوتی ہے جب روحان اسکے پاس آتا ہے۔ آج وہ روحان سے دودن بعد ملی تھی۔
"اچھی ہے۔ تم سناؤ۔" وہ نارمل انداز سے اس سے ملتی ہے۔
"میں تو ٹھیک ہوں تم بتاؤ اب اتنی بےصبری ہوگئ ہو کہ اپنے شوہر بغیر ایک رات بھی نہیں کٹتی۔" وہ اسے چھیڑتے ہوئے کہتا ہے۔
"جی نہیں! ایسا بلکل نہیں ہے۔ بس میں اپنے پیرنٹس کے فیصلے میں انکے ساتھ ہوں۔" وہ پورے ایٹیٹیوڈ سے اسے جواب دیتی ہے۔
"اوہ! آئ سی۔ ٹھیک ہے بیسٹ آف لک۔ بعد میں ملتے ہیں۔" وہ وہاں سے چلا جاتا ہے۔
******♡♡♡♡♡******