"جیسا کہ سٹوڈنس آپ سب کو پتہ ہے کہ کمپیٹیشن میں صرف ایک ویک رہ گیا ہے تو آج میں نے آپ کو اس کمپیٹیشن میں آنے والے ایک نئے ٹوئسٹ کا بتانے کیلیئے بلایا ہے۔" سر نظیر نے سب کو کمپیٹیشن کے ہیڈن رول بنانے کیلیئے بلایا تھا۔ جس کا سلیکشن کے وقت ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
" جیسا کہ سٹوڈنس آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ سب کے سپیچ کے ٹوپکس سبمٹ ہوگئے ہیں تو اب آپ کو اس بات سے باخبر کردیا جائے کہ وہ کمپیٹیٹرز جن کے ٹوپکس ایک دوسرے کے اوپوزیٹ ہیں وہ ایٹ آ ٹایم سپیچ کریں گے اور اپنے اپنے موقف کو مسیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گئے۔ اینڈ ایٹ دی اینڈ جو اپنی بات ٹھیک پروو کرے گا وہ اس کمپیٹیشن کے سیکنڈ راؤنڈ میں چلا جائے گا۔"
انکی اس بات پر سب سٹوڈنس کے رنگ اڑ جاتے ہیں۔
" تھینکس فار کمنگ۔ آپ لوگ اب جا سکتے ہیں اور کمپیٹیٹرز کی لسٹ نوٹس بورڈ پر لگا دی گئ ہے۔ " جدوہ اور ارینہ آفس سے باہر آتی ہیں۔ جہاں علیشا اور روحان کھڑے ان دونوں کا انتظار کررہے ہوتے ہیں۔
وہ چاروں نوٹس بورڈ پر لسٹ چیک کرنے جاتے ہیں۔
نوٹس بوڑڈ پر لسٹ دیکھنے کیلیئے سٹوڈنس کی بھیڑ لگی ہوئ تھی۔ روحان ان دونوں کے نام دیکھنے کیلیئے جاتا ہے۔
"یار کہاں رہ گیا روحان؟ روحان کو گئے کافی ٹائم ہوگیا ہے۔" ارینہ کچھ دیر گزرنے کے بعد روحان کے واپس نہ آنے پر علیشا کو کہتی ہے جبکہ جدوہ چپ کر کے ان سے کچھ فاصلے پر کھڑی بھیڑ کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے۔
اچانک جدوہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھرتی ہے۔ وہ آگے بڑھ کر روحان کی طرف جاتی ہے۔ اچانک اسکے قدم ساکت ہوجاتے ہیں جب روحان اسکے پاس سے گزر کر بغیر اس سے بات کیئے ارینہ کے پاس چلا جاتا ہے۔
"کانگریس آپ کی کمپیٹیٹر جدوہ ہے۔"وہ ارینہ کے پاس جا کر اس کو اسکے کمپیٹیٹر کا بتاتا ہے۔ کچھ فاصلے پر کھڑی جدوہ باآسانی یہ سب سن رہی ہوتی ہے۔
"آئ وش کہ آپ اپنا بیسٹ پرفارم کریں۔ وش یو بیسٹ آف لک۔ مائے پیریرز آر آلویز ود یو۔" وہ ارینہ کی حوصلہ افزائ کرتا ہے۔
"جدوہ!" اچانک روحان کو جدوہ کا خیال آتا ہے تو وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے لیکن جدوہ وہاں سے جا چکی ہوتی ہے۔ وہ پوری یونی میں جدوہ کو تلاش کرتا ہے اور آخر تھک ہار کر مین گیٹ پر آتا ہے جہاں گارڈ اسے بتاتا ہے کہ وہ کب کی گھر جا چکی ہیں۔ وہ پریشان چہرہ لیے اپنی گاڑی کی طرف جاتا ہے۔ جب اسکے کانوں میں آواز آتی ہے یہ اس فقیر کی صدا ہوتی ہے۔
" اے ابن آدم! ایک تیری چاہت ایک میری چاہت ہے۔"
روحان گاڑی کو لاک کر کے اس فقیر کے پاس جاتا ہے۔
" بابا ایک بات پوچھوں؟"
" بابا اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟" وہ فقیر سے اس حدیث کا مفہوم پوچھتا ہے۔
" بیٹا! ہمارا رب ہمیں بس یہی بات سمجھاتا ہے کہ اسکا جو بندہ خود کو اسکی رضا میں شامل کرلے رب اس سے اسکی رضا میں راضی ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر بندہ اپنی رضا کی خاطر رب کو چھوڑتا ہے تو اس سے سب چھن جاتا ہے۔ پس بندے کا فرض ہے کہ اسکی رضا میں راضی رہے۔" وہ انکی بات سن کر ہلکا سا مسکرا دیتا ہے۔
"اچھا بابا میں چلتا ہوں۔" انکی بات سن کر وہ وہاں سے اٹھ جاتا ہے۔
******♡♡♡♡♡******
جدوہ بیٹا خیریت ہے ناں آج تم یونی سے بھی اکیلی آئ ہو اور جب سے یونی سے آئ ہو اسے اداس ہی بیٹھی ہوئ ہو؟" اقراء بیگم جدوہ کے کمرے میں آتی ہیں۔
" نہیں امی کوئ بات نہیں بس طعبیت ٹھیک نہیں ہے اور کوئ بات نہیں ہے۔" وہ اس وقت سٹڈی ٹیبل پر بیٹھی اپنی سپیچ لکھ رہی ہوتی ہے۔
"ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔ " اور اپنے ہاتھ سے اسکا منہ اپنی طرف کرتی ہے۔ "ماں ہوں میں تمہاری اور ماں کبھی بھی اپنی اولاد کے دکھ سے ناواقف نہیں ہوتی۔ چلو مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟ کیوں اتنا اداس ہو؟"
انکی اس بات پر وہ پھوٹ پھوت کر رونے لگ جاتی ہے۔ اسکے آنسوؤں کا سیلاب باہر آجاتا ہے۔ ماں کے آگے وہ اپنے اندر کا دکھ سمیٹ نہیں پاتی۔
" امی مجھے ایسا لگتا ہے کہ روحان نے اب مجھے اگنور کرنا اسٹارٹ کردیا ہے وہ مجھ سے دور ہوگیا ہے۔ امی مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہیں میں اسے کھو نہ دوں۔" وہ اپنی ماں کو اپنے اندر کا ڈر جو وہ ایک ہفتے سے اپنے اندر دبائ بیٹھی تھی، کھل کے بتا دیتی ہے۔
" ارے پگھلی! تم بھی ناں ایسی کوئ بات نہیں ہے۔ بس تم اپنے دل میں وسوسے پیدا کررہی ہو۔" وہ اسکو تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں۔
" نہیں امی آج بھی جب وہ لسٹ میں نام دیکھنے گیا تھا، وہ میرے پاس آنے کے بجائے وہ مجھے اگنور کیئے میرے پاس سے گزر کر ارینہ کے پاس چلا گیا۔" وہ سسک سسک کر سارا واقعہ اپنی امی کو بتا رہی ہوتی ہے۔ یہ بات سن کر اقراء بیگم کے چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔
" دیکھو جدوہ میری بات غور سے سنو مرد کی ذات ہی ایسی ہے کہ جیسے ایک عورت کی الماری میں کپڑوں کی مزید جگہ ہمیشہ ہوتی ہے اسی طرح مرد کے دل میں بھی ایک مزید عورت کی جگہ ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ یہ عورت پر منحصر ہے کہ کیسے وہ اپنے شوہر کو کسی اور کی طرف مائل ہونے سے بچاتی ہے۔ " اقراء بیگم جدوہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے سمجھاتی ہیں۔
******♡♡♡♡♡******