"امی آج آپکے لاڈلے کو مجھ سے مار پڑ جائے گئ۔ اسکی وجہ سے آج میں یونی سے پہلی بار لیٹ ہوجاؤں گئ۔" وہ غصے سے بھری لاؤنج میں صوفہ پر بیٹھی روحان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
"جدوہ بیٹا وہ کسی کام میں پھنس گیا ہوگا۔" اقراء بیگم اسے پیار سے سمجھاتی ہیں جو کہ کچن میں کھڑی کام کرتے ہوئے اسے غصے سے آگ بگولہ ہوتی ہوئ دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
یونیورسٹی میں آج سپیچ کمپیٹیشن کے اوڈیشن تھے اور جدوہ اس میں حصہ لینے والی تھی روحان ابھی تک اسے لینے نہیں آیا تھا اسلیئے وہ پریشان تھی۔
" اسلام وعلیکم خالہ!" روحان اندر آتے ہوئے اقراء بیگم کو کچن میں کھڑا دیکھ سلام کرتا ہے۔
"اگئے تم، یاد آگیا کہ کوئ ناچیز تمہارا انتظار کررہی ہے۔" وہ روحان کے آتے ہی اس پر آگ کی طرح بھڑک اٹھتی ہے۔
صبر بل بتوڑی! تمہیں کسی نے سکھایا نہیں ہے کہ اپنے شوہر سے کیسے بات کرتے ہیں۔" وہ اسکے غصے سے لطف اٹھاتے ہوئے بازو باندھے کھڑا مسکرا رہا ہوتا ہے۔
"شوہر مائے فٹ! ڈائنو سار کہیں کا"۔ وہ اس پر آگ کی طرح برس رہی ہوتی ہے۔
" اچھا تو ڈائنوسار کی منکوحہ چلیں اب یونیورسٹی یا آج چھٹی کا ارادہ ہے۔" وہ اسے وقت کا اندازہ کرواتے ہوئےکہتا ہے۔
"او ہاں چلو اب جلدی۔" وہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے جلدی سے اپنی بکس سامنے ٹیبل سے پکڑتی ہے۔
"اچھا امی ہم جا رہے ہیں۔ " وہ کچن میں کھڑی اقراء بیگم کو سلام کر کے نکل جاتے ہیں۔
******♡♡♡♡♡******
"اب جناب زحمت کر کے یہ بتائیں گے کہ کہاں تھے اب تک؟" وہ اسکی طرف رخ کرتے ہوئے تفتیشی نظروں سے اس سے پوچھتی ہے۔
"ارینہ کے ڈیڈ سے ملنے چلا گیا تھا۔" وہ گاڑی چلاتے یوئے سنجیدگی سے اسے بتاتا ہے۔
"کیا کہا انہوں نے؟" وہ اس سے پریشانی سے پوچھتی ہے۔
وہ الف تا ے اسے ساری بات بتاتا ہے۔
"میرے خیال میں تم نے جو بھی کیا بہت اچھا کیا۔ ویسے بھی کسی کی ہیلپ کرنا اچھا کام ہے۔ اب کیا کرنے کا ارادہ ہے؟" وہ اس سے پوچھتی ہے۔
" بس یار آج جا کے اس سے بات کروں گا کوشش کروں گا کہ اسکی عادتیں چینج کرسکوں۔" وہ گاڑی کو یونی کی پارکنگ میں پارک کرتا ہے۔ اور دونوں اوڈیشن کیلیئے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی طرف جاتے ہیں۔
"مس جدوہ!" اندر سے پیئن باہر آتا ہے اور اسے اندر بلاتا ہے۔
" روحان باہر بیٹھا جدوہ کیلیئے پریشان ہورہا ہوتا ہے جب جدوہ اداس چہرہ لیئے باہر آتی ہے
"کیا ہوا سلیکشن ہوا یا نہیں؟ یار کچھ تو بتاؤ۔" وہ پریشان حال جدوہ کے ساتھ کاریڈور میں چل رہا ہوتا ہے۔
" یار بس کردو اب بتا بھی دو۔" وہ پریشان ہو کر اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا ہے۔
وہ زور سے قہقہہ لگاتی ہے۔ وہ مسکراتی ہوئ اس کے دل پر ہزاروں تیر برسا دیتی ہے۔ "یار پریشان نہ ہو میرا سلیکشن ہوگیا ہے۔" وہ اس کے گال کھینچتی ہوئ اس کو بتاتی ہے۔
" میں نہیں بلاتا تمہیں" وہ غصے سے اسے پیچھے کر کے دوسری طرف منہ کر کے ناراض ہوجاتا ہے۔
" او یار سوری پلیز مان جاؤ ایسے ناراض نہ ہو۔" وہ اسکا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ وہ کان پکڑ کر اس سے معافی مانگتی ہے۔
"اچھا چلو ایک شرط پر۔" وہ ہاتھ باندھ کر ایٹیٹیوڈ کے ساتھ اسے کہتا ہے۔
"کیا؟"
" تم آج رات اپنے ہاتھ کا بنا کھانا کھلاؤ گی۔"
" پکا۔ پاگل انسان۔" وہ مسکراتے ہوئے اسکی طرف دیکھتی ہے۔
"اچھا چلو اب کلاس میں چلیں۔"
******♡♡♡♡♡******
"ہیلو ارینہ!" وہ کیفے ٹیریا میں بیٹھی علیشا کے ساتھ سینڈوچ کھا رہی تھی۔
"کیسے ہو آؤ؟" وہ روحان کو دیکھ کر اسے بیٹھنے کا کہتی ہے۔
" کونگریٹس! تمہارا سپیج کمپیٹیشن کیلیئے سلیکشن ہوگیا۔" وہ اسے مبارکباد دیتا ہے۔
" اچھا تو آج رات آپکا کیا پروگرام ہے؟" وہ اس سے پوچھتا ہے۔
" کچھ نہیں فری ہوں۔ کیوں کیا بات ہے؟" وہ اپنا سارا دھیان اس وقت روحان کی طرف کر دیتی ہے۔
" کچھ نہیں بس میں چاہ رہا تھا اگر آپ کو کوئ پرابلم نہ ہو تو میں آپ کو اور آپ کی فرینڈ کو آج جدوہ کے گھر پر ڈنر کیلیئے بلانا چاہتا ہوں۔" وہ اسے ڈنر کیلیئے انوائیٹ کرتا ہے جس کی آج اس نے جدوہ سے فرمائش کی ہوتی ہے۔
" جی ضرور۔ لیکن جدوہ کے گھر پر کیوں؟" وہ اس سے جدوہ کے نام پر چڑ کر پوچھتی ہے۔
" بس ویسے ہی۔ اس نے مجھے بلایا تھا تو سوچا آپ کو بھی پوچھ لوں۔ یہ ہماری دوستی کا پہلا قدم بن سکتا ہے۔"
" اوکے۔" وہ مسکراتے ہوئے آنے کی ہامی بھرتی ہے۔
******♡♡♡♡♡******
"پھر شام کو گھر آجانا میں کھانا تیار رکھوں گئ۔" وہ گاڑی میں واپسی پر بیٹھتے ہوئے اسے اسکی شرط یاد کرواتی ہے۔
" کھانا تھوڑا زیادہ بنانا۔" وہ اسے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
" کیوں؟ کیا تم نے دو دن کا کھانا آج ہی کھانا ہے۔" وہ منہ بگاڑتے ہوئے اسے کہتی ہے۔
" میں نے ارینہ اور علیشا کو بھی بلایا ہے ڈنر پر۔"
"کیا؟" وہ شاک میں چلاتی ہے۔
"یار میں نے سوچا یہ دوستی کا اچھا قدم ہے۔" وہ گاڑی چلاتے ہوئے اسے اپنا موقف سمجھاتا ہے۔
"ہاں۔ اس سے دوستی کے چکر میں مجھے نوکرانی بنادیا۔"
" اے میری بل بتوڑی تم تو میرے دل کی رانی ہو بھلا تم کیسے نوکرانی بن سکتی ہو۔ اس دنیا میں کوئ ایسا نہیں جو تمہاری جگہ لے سکے۔" وہ گاڑی کو جدوہ کے گھر کے باہر روکتے ہوئے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسکی طرف ہو کر اسے سمجھاتا ہے۔
" پتہ ہے مجھے سب کچھ۔" وہ اداس چہرہ بنا کر اس سے ہاتھ چھڑوا گاڑی سے اتر جاتی ہے۔
"جدوہ پلیز!" وہ پیچھے سے جدوہ کا ہاتھ پکڑ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔
"مجھے تمہاری قسم میری زندگی میں تمہاری جگہ کوئ اور نہیں لے گا اور نہ ہی تم سے زیادہ کسی لڑکی کا مقام ہوسکتا ہے۔ تم میری عزت ہو۔ تمہاری بےعزتی میری بےعزتی ہے اور اپنی عزت کی عزت کروانا اور عزت کو بچانا مجھے آتا ہے۔"
وہ اسکے کندھے پر سر رکھ کے رونے لگ جاتی ہے۔
"اچھا اب جانے دوگی یا نکاح سے پہلے کچھ کرواؤں گئ۔"
"بدتمیز۔ شرم نہیں آتی۔ وہ پیچھے ہو کر مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔ "جاؤ شام کو ٹائم سے آجانا۔"
"اچھا بائے۔" وہ گاڑی میں اسے جاتے ہوئے دیکھتی ہے۔
******♡♡♡♡♡******