’’کیا ضروری تھا کہ یہ لڑکی زنبیل شاہ کی بیٹی ہوتی۔‘‘ وہ جب سے اس لڑکی سے ملی تھیں بے حد مضطرب ہو چکی تھیں، دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگی تھیں تیز ہواؤں نے ساری گرد جھاڑ دی تھی ماضی شفاف آئینے کی مانند ان کے سامنے کھڑا تھا، وہ کسی کو بھی سوچنا نہیں چاہتی تھیں، مگر قید کی زنجیروں میں جکڑی یادوں کو راہ فرار ملا تھا، کوئی دور بہت دور سے اسے پکارتا ہوا آ رہا تھا۔
’’سونم… سونم۔‘‘ دور سے آتی آواز کو نظر انداز کیے وہ امرود کے درخت تلے بیٹھی دھواں دار رونے میں مشغول تھی۔
’’سونم تمہاری اماں تمہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔‘‘ پھولی ہوئی سانسوں کو ہموار کرتا وہ اس کے پاس ہی بیٹھ چکا تھا۔
’’میں گھر نہیں جاؤں گی۔‘‘ اس نے روتے ہوئے کہا۔
’’تم رو کیوں رہی ہو اور گھر کیوں نہیں جانا۔‘‘ اس کے قریب گھٹنوں کے بل جھکا وہ چھوٹا سا لڑکا وڈے شاہ سائیں کا سب سے چھوٹا بیٹا ہابیل شاہ تھا جو تشویش بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
اور سونم کو پھر سے راہب یاد آیا تھا اس کا پیارا بھائی اس کی ہر چوٹ اور معمولی سی تکلیف پر بے چین ہو اٹھنے والا، اس سے بہت پیار کرنے والا، اسے گڑیا کہنے والا۔
’’گھر میں سب گندے ہیں کسی سے بات نہیں کروں گی۔‘‘ وہ سب سے خفا ہو چکی تھی ہابیل شاہ اس کے انداز پہ دھیرے سے مسکرا دیا، اسے منشی لالہ کی یہ گڑیا بہت پیاری لگتی تھی، سبز آنکھوں اور کالے بالوں والی بالکل باربی ڈول جیسی۔
’’اچھا جی تو تمہیں سب گندے لگتے ہیں وہ کیوں۔‘‘ وہ نرمی سے بولا۔
’’پھپھو میرے بھیا کو کیوں ساتھ لے گئی ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا کچھ دنوں بعد وہ پھر واپس آ جائے گا۔‘‘ وہ اسے بہلانے کو بولا اور پھر بہلا پھسلا کر اس کو اس کی مما کے پاس لے آیا، وہ دیکھتے ہی لپکی تھی۔
’’گڑیا میری جان میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں۔‘‘ اماں نے اس کے گرد میں اٹے ہاتھ پاؤں اور فراک جھاڑا ہاتھوں سے اس کے بال سنوارے، دوپٹے کے پلو سے چہرہ صاف کیا اور پھر گود میں اٹھا کر گھر کی سمت چل پڑی تھیں۔
’’تمہارا راہب بھائی پھپھو کے ساتھ ولایت چلا گیا ہے اب بہت بڑا ڈاکٹر بن کر واپس آئے گا پھر اپنے گاؤں میں ہاسپٹل بنائے گا وہ کہہ رہا تھا سونم کیلئے سنہری بالوں والی گڑیا بھی لائے گا۔‘‘ باتوں کے دوران وہ اسے کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی مگر نوالہ اس کے حلق میں بار بار اٹک رہا تھا وہ راہب کے بغیر بہت اداس اور تنہا ہو چکی تھی اگلے روز ابا اس کا دل بہلانے کی غرض سے اپنے ساتھ زمینوں پر لے گئے تھے وہاں اس کی ملاقات ہابیل شاہ سے بھی ہوئی تھی۔
وہ اپنے بھائی زنبیل شاہ اور نبیل شاہ کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا، اسے دیکھا تو کھیل ادھورا چھوڑ کر چلا آیا دونوں کے مابین گہری دوستی ہو چکی تھی وہ بالکل راہب کی طرح اس کا خیال رکھتا تھا۔
چند دنوں تک اس کا ایڈمیشن ہابیل شاہ کے سکول میں کروا دیا گیا تھا اس زمانے میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کا زیادہ رواج نہیں تھا مگر ابا کی خواہش تھی کہ ان کے دونوں بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلائیں اس کے ابا حیات احمد، وڈے شاہ سائیں کے ہاں منشی تھے اور ان کے تینوں بیٹوں کو شہر کے بڑے سکول پک اینڈ ڈراپ کرنے کی ذمہ داری بھی ان کی تھی اس لئے انہیں سونم کا زیادہ مسئلہ نہیں ہوا تھا۔
وہ صبح سویرے تیار ہو کر اماں کے ساتھ دروازے پر کھڑی تھی جب ہابیل شاہ اسے لینے کے لئے چلا آیا۔
’’بیٹا گڑیا کا خیال رکھنا یہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔‘‘ اماں نے اسے تاکید کی تھی جس پر ہابیل شاہ نے بڑے مدبرانہ انداز میں سر ہلایا تھا۔
سونم نے سکول جا کر اس کی کلاس میں بیٹھنے کی ضد کی تھی جس پر وہ اسے اپنی کلاس میں لے آیا تھا، ٹیچر سے اسے بہت ڈانٹ پڑی مگر وہ اسے اپنے ساتھ ڈیسک پر بٹھائے خاموشی سے سنتا رہا۔
اس کے ساتھ سکول جانا، کھیلنا، لنچ شیئر کرنا سے لے کر ہوم ورک کروانے تک ہر کام گویا کہ اس کی ذمہ داری بن چکا تھا۔
گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں بوڑھے برگد کی زمین بوس شاخوں پر بیٹھ کر وہ اسے بی بی سے سنی لوک داستانیں سنایا کرتا تھا۔
ہیر، سنڈریلا اور الف لیلیٰ کے بعد آج سوہنی کی باری تھی وہ بول رہا تھا وہ دم سادھے ہمہ تن گوش تھی، تبھی پوسٹ میں کی مخصوص گھنٹی سنائی دی۔
’’راہب بھیا کی چٹھی آئی ہے۔‘‘ اس نے بڑی آس سے پوسٹ میں کو دیکھا تھا۔
’’نہیں بیٹا۔‘‘ وہ اس کا گال تھپتھپا کر سائیکل پہ سوار ہو کر چلا گیا تو اس کی آنکھوں میں مایوسیوں کے بادل امڈ آئے، ہابیل شاہ خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا مگر وہ واپس آنے کی بجائے گھر چلی گئی تھی۔
اس کی کہانی ادھوری رہ گئی تھی شام کے بعد اسے سوہنی کا خیال آیا۔
’’طوفانی رات، کچا گھڑا اور بپھرتی لہریں۔‘‘ وہ خوف کے مارے اٹھ بیٹھی۔
ابا ساتھ والی چارپائی پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اور اماں دور بیٹھی لکڑیاں سلگاتی دودھ ابالنے میں مگن تھی اور اسے اپنی ادھوری کہانی کی فکر تھی اسے سوہنی کی فکر تھی۔
’’تو کیا سوہنی ڈوب جائے گی۔‘‘ وہ بے چینی سے صبح کا انتظار کرنے لگی تھی اور جب صبح ہوئی تو ہابیل شاہ نہیں آیا۔
نبیل شاہ اور زنبیل شاہ اپنے اپنے بیگ اٹھائے چلے آئے تھے اس نے پاؤں اچکتے ہوئے ان کے عقب میں نظر دوڑائی تو دور حویلی تک بل کھاتی لمبی سڑک نے اس کا منہ چڑایا ان دونوں کے بیٹھتے ہی ابا جیپ اسٹارٹ کر چکے تھے۔
’’ابا ابھی ہابی کو تو آ لینے دیں۔‘‘ اس نے روکنے کی کوشش کی تو زنبیل شاہ اکھڑے لہجے میں بولا۔
’’وہ آج نہیں آئے گا۔‘‘ وہ ایسا ہی تھا جھگڑالو، بد مزاج، سونم کو مزید کچھ پوچھنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی تبھی وہ چہرے پہ تکلیف کے آثار نمودار کرتے ہوئے حیات احمد سے بولی۔
’’ابا میرے پیٹ میں بہت درد ہے۔‘‘
’’ارے یوں اچانک کیا کھایا تھا آج۔‘‘ وہ فکر مندی سے بولے تو پیچھے بیٹھا نبیل شاہ ہنسنے لگا۔
’’چچا آپ پریشان نہ ہوں یہ سب بہانے ہیں آج ہابیل نہیں آیا تو یہ بھی چھٹی کرے گی۔‘‘ سونم اس کے اتنے درست اندازے پر لب بھینچ کر رہ گئی تھی۔
’’بری بات ہے بیٹا۔‘‘ ابا نے اسے پیار بھرے لہجے میں ڈپٹا اور وہ سارا دن سکول میں بور ہوتی رہی اماں نے واپسی پہ اس کا لنچ باکس چیک کیا آدھا پراٹھا اور انڈا باقی تھا۔
’’یہ کیوں نہیں کھایا۔‘‘ وہ اس سے پوچھ رہی تھیں۔
’’ہابی نہیں آیا آج یہ اس کا حصہ تھا۔‘‘ دروازے میں رک کر کہتی وہ گھر سے باہر نکل آئی تھی اب اس کا رخ بوڑھے برگد کی سمت تھا۔
لیکن وہ آج وہاں بھی نہیں آیا تھا اس نے کچھ دیر انتظار کیا پھر اٹھ کر بڑی حویلی چلی آئی تھی مگر لاؤنج کے دروازے پر ہچکچا کر رکنا پڑا وہ دن میں چار بار ان کے گھر بلا جھجک آتا تھا مگر وہ حویلی پہلی بار آئی تھی اس نے ادھ کھلے دریچے سے اندر جھانکا۔
ایک خوبصورت خاتون ہابیل شاہ کو گود میں بٹھا کر بڑے پیار سے کھیر کھلا رہی تھی، باقی نوکر چاکر اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
وڈے شاہ سائیں اور چھوٹے شاہ سائیں دونوں بھائی تھے، وڈے شاہ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی روشنی تھی جبکہ چھوٹے شاہ کی ایک ہی بیٹی تھی فریال، جو زنبیل شاہ کے ساتھ منسوب تھی۔
’’سونم تم آئی ہو۔‘‘ ہابیل شاہ اسے دیکھ چکا تھا۔
’’آؤ اندر آؤ نا۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔
’’بی بی یہ میری دوست ہے۔‘‘ اب وہ بی بی کے سامنے کھڑا بڑے اشتیاق سے اس کا تعارف کروا رہا تھا بی بی نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا تو وہ انہیں سلام کرنے لگی۔
’’بہت پیاری ہے بالکل گڑیا جیسی ہے۔‘‘ بی بی نے اسے پیار کیا۔
’’کھیر کھاؤ گی۔‘‘ ساتھ ایک کٹوری بھی اس کی سمت بڑھا دی جسے جھجکتے ہوئے اس نے تھام لیا تھا۔
’’تمہیں بی بی کیسی لگی۔‘‘ ہال کی سیڑھیاں چڑھتا وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
’’بہت اچھی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔
’’یہ میرا کمرہ ہے۔‘‘ ہابیل اب اسے اپنے کھلونے دکھا رہا تھا مگر اس کا سارا دھیان باغیچے کے ایک جانب بیٹھ کر گڑیا کے ساتھ کھیلتی اس بچی پہ اٹکا ہوا تھا جس کے پاس سنہری بالوں والی ولایتی گڑیا تھی، وہ سیڑھیاں اتر کر اس کے قریب آ بیٹھی۔
’’میں جانتی ہوں تمہیں یہ بڑی بڑی محل نما حویلیاں اچھی نہیں لگتی لیکن جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو پھر تمہارے لئے سفید گھوڑے پہ بیٹھ کر ایک پیارا سا راج کمار آئے گا جو تمہیں اس حویلی سے نکال کر دور اپنی سندر سی دنیا میں لے جائے گا پھر تم اس کے ساتھ سکول جایا کرو گی باغوں میں جھولا لو گی اور وہ تمہیں ساری دنیا کی سیر…‘‘
سونم کے قریب آنے پر وہ خاموش ہو گئی تھی۔
’’میں تمہاری گڑیا دیکھ لوں۔‘‘
’’روشنی ماسٹر جی آ گئے ہیں۔‘‘ فریال دور سے اطلاع دے کر واپس پلٹ گئی تھی روشنی بھی اٹھ کر اندر بھاگ گئی۔
’’یہ سکول نہیں جاتیں؟‘‘ اس نے ہابی سے پوچھا تھا۔
’’نہیں ان کے لئے گھر میں ماسٹر جی آتے ہیں۔‘‘
’’اور تم سکول کیوں نہیں آئے تھے۔‘‘ اسے حویلی آمد کی وجہ اچانک یاد آئی تھی۔
’’صبح فلو تھا لیکن اب ٹھیک ہوں۔‘‘
’’وہ سوہنی نے دریا پار کر لیا تھا نا۔‘‘ اسے کہانی پھر سے یاد آ گئی تھی۔
’’وہ تو ڈوب گئی۔‘‘ اس نے افسردگی سے بتایا اور سونم کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے پھر وہ کتنے دنوں تک اداس رہی تھی اور پھر اس نے بوڑھے برگد کے پاس جانا چھوڑ دیا تھا وہ کوئی اور کہانی سننا نہیں چاہتی تھی مگر کچھ سال گزرے تو وہ چھوٹے شاہ سائیں کی لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے لگی تھی لیکن ہابیل اسے کبھی المیہ انجام والی کہانی پڑھنے نہیں دیتا تھا وہ کسی کہانی کے المیہ انجام پر دکھی ہو ہابیل شاہ کو اس کا اتنا بھی دکھ گوارہ نہیں تھا۔
٭٭٭
اس نے میٹرک کے ایگزام دئیے تو وہ گریجویشن کے لئے لاہور چلا گیا جانے سے قبل اس سے ملنے آیا تھا۔
وہ گلاب کے پودے کے پاس بیٹھی پھولوں کی پتیاں چن رہی تھی۔
’’میں جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قریب آ کر کھڑا اطلاع دے رہا تھا۔
’’تو جاؤ تمہیں روکا کس نے ہے۔‘‘ اس کا انداز خفگی بھرا تھا۔
’’اب تو فریال اور روشنی سے تمہاری اچھی دوستی ہو چکی ہے سوچو بور تو وہاں میں رہوں گا۔‘‘ وہ خاموش رہی تھی۔
’’اچھا میں تمہیں خط لکھا کروں گا۔‘‘
’’جانتی ہوں تمہارے وعدے راہب بھیا کی طرح تم بھی جا کر بھول جاؤ گے۔‘‘
’’میں تمہارے راہب بھیا کی طرح بے وفا نہیں ہوں۔‘‘ وہ چھیڑنے کو بولا تو وہ بھڑک ہی اٹھی۔
’’وہ بے وفا نہیں ہیں بہت محبت کرتے ہیں مجھ سے۔‘‘
’’محبت تو میں بھی بہت کرتا ہوں تم سے۔‘‘ ہابیل نے اس کے قریب بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے سارے گلاب لے لئے تھے سونم کی پلکیں عارضوں پہ جھک آئیں، ہابیل نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا۔
’’سنو۔‘‘ اس نے کہا اور وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔
’’میری سوہنی بنو گی؟‘‘ اس کا لہجہ جذبوں کی آنچ سے بوجھل سا ہو گیا تھا۔
’’مجھے ڈوبنے سے بڑا خوف آتا ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں کالی رات اتر آئی تھی۔
’’ہم پکا گھڑا بنائیں گے۔‘‘ وہ اعتبار دلا کر چلا گیا اور اس کے دن رات ریشم کی اس ڈور سے منسوب ہو گئے جو محبت کی صورت ایک دل کو دوسرے کے ساتھ باندھے ہوئے تھی۔
اس کے جانے کے ایک ہفتے بعد اس کا پہلا خط آیا تھا، وہ بے چینی سے لفافے کا سینہ چاک کرتے ہوئے سیڑھیوں پر آ بیٹھی۔
’’راہب کی چٹھی آئی ہے۔‘‘ اماں نے اپنے دروازے سے خاکی وردی والے کو پلٹتے دیکھا تو مارے اشتیاق کے اس کے سر پہ آن کھڑی ہوئیں۔
’’نہیں اماں یہ ہابی کا خط ہے۔‘‘ اسے پڑھنے کی جلدی تھی۔
’’میں تمہارے بغیر بہت…‘‘ ساتھ ہی اماں نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ جھپٹ لیا اور وہ ہکا بکا اماں کی صورت دیکھنے لگی تھی جو عجیب تفتیشی انداز میں اب اس سے استفسار کر رہی تھی۔
’’اس نے تمہیں خط کیوں لکھا۔‘‘
’’اماں وہ میرا بچپن کا دوست ہے۔‘‘
’’بچپن کا دوست، دیکھو بیٹا اب تم بچی نہیں رہی ہو کل سے کالج جانے لگو گی پھر مجھے تمہاری شادی بھی تو کرنی ہے یہ دوستی کب تک تمہارے ساتھ چلے گی یہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں نا وہاں ایسی دوستیاں بڑی معیوب سمجھی جاتی ہیں میں نہیں چاہتی کہ لوگ تمہارا نام ہابیل کے ساتھ جوڑ کر تمہیں رسوا کریں۔‘‘ وہ مزید نہ جانے کیا کہے جا رہی تھیں مگر سونم کا سارا دھیان تو ان کی بند مٹھی میں سمٹے کاغذ پر اٹکا تھا جس کے اس نے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد کوڑا دان میں پھینک دئیے تھے۔
’’اماں کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئی۔
’’میں تمہارے بغیر بہت…‘‘ ساری رات اسی خالی جگہ کو پر کرتے ہوئے گزر گئی تھی۔
٭٭٭
چھ ماہ گزر چکے تھے وہ کالج جانے لگی تھی جب ایک روز واپسی پر اس نے ہابیل شاہ کو حویلی کے گیٹ پر کھڑے دیکھا حویلی میں نبیل شاہ کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں وہ بھی شاید اسی سلسلے میں گاؤں آیا تھا۔
’’مگر مجھ سے ملنے کیوں نہیں آیا۔‘‘ اسے سوچ کر ہی غصہ آ رہا تھا، مزید دو روز گزرنے پر بھی جب وہ نہیں آیا تو وہ خود ہی حویلی چلی آئی۔
آج رات مہندی تھی اور وہ لان میں کھڑا کرسیاں لگوا رہا تھا۔
’’سونم تم اچھا ہوا خود ہی چلی آئی میں ابھی تمہیں پیغام بھجوانے والی تھی۔‘‘ روشنی دور سے ہی بولتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی پھر اس کا ہاتھ تھام کر اندر لے گئی وہ اپنے ایک ہاتھ پر مہندی لگا چکی تھی اور دوسرے پر لگوانے کے لئے اس کا انتظار ہو رہا تھا۔
مگر کوریڈور میں وہ اس سے ٹکڑا گیا روشنی بی بی کی بات سننے جا چکی تھی۔
’’کیسی ہو؟‘‘ وہ اس کا احوال دریافت کر رہا تھا اور سونم کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔
’’کتنے دنوں سے یہاں ہو۔‘‘
’’تین دن سے۔‘‘ وہ انگلیوں پہ گنتے ہوئے بولا۔
’’تو مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئے۔‘‘ وہ تڑخ کر بولی، بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کا کیا حشر کر ڈالے۔
’’پہلے بتاؤ میرے کسی خط کا جواب کیوں نہیں دیا۔‘‘ وہ اپنا سوال لئے کھڑا تھا وہ ماتھے پر ہاتھ مار کر رہ گئی۔
’’تمہیں بتانا تو یاد ہی نہیں رہا اماں کو جانے کیا ہو گیا ہے وہ اب مجھے تم سے ملنے سے منع کرنے لگی ہیں اور اس نے مجھے تمہارا کوئی خط بھی پڑھنے نہیں دیا۔‘‘ آخر میں اس کا لہجہ روہانسا ہو گیا تھا۔
’’میں بھی تمہارے گھر گیا تھا تمہاری اماں نے کہا دیکھو بیٹا اب تم بڑے ہو چکے ہو تمہارا اس طرح سونم سے ملنا مناسب نہیں ہو گا۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولا تو وہ پریشان ہو گئی۔
٭٭٭