’’چلو نا یار کیفے ٹیریا چلتے ہیں۔‘‘ راہب نے قدرے جھنجھلا کر کوئی دسویں مرتبہ کہا تھا مگر وہ سر جھکائے کاغذ پر قلم گھسیٹے جا رہی تھی۔
اب کی بار اس کی نظریں تیزی سے چلتی مخروطی انگلیوں اور ریشمی پلکوں سے ٹکرائیں تو وہ دم بخود سا دیکھتا ہی چلا گیا تھا اسے اپنی بھوک اپنا جھنجلانا جیسے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔
جانے مزید کتنے پل بیت چکے تھے اس نے قلم پر کیپ لگانے کے بعد ایک گہرا سانس خارج کیا تو راہب جیسے ہوش میں آیا تھا۔
رعنا اس کے گھمبیر لہجے پر اپنے اسکارف کو اچھی طرح سے لپیٹتے اس کے ہاتھ گردن کے پاس ہی کہیں رک گئے تھے اور سیاہ آنکھوں پر سایہ فگن جھالر اب اس کی سمت اٹھی ہوئی تھی۔
’’مجھ سے شادی کرو گی۔‘‘ اس نے بلا کسی جھجک کے کہہ ڈالا تھا جس پر رعنا نے قدرے اطمینان سے اپنا اسکارف درست کرنے کے بعد سارے نوٹس فائل میں لگاتے ہوئے اسائنمنٹ اس کی جانب بڑھا دی تھی۔
’’یہ آخری بار ہے۔‘‘ حسب معمول وہ اپنا مخصوص جملہ دہرانا نہیں بھولی۔
’’میرے سوال کا جواب دو۔‘‘ وہ اسائنمنٹ ایک جانب رکھتے ہوئے استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا تو وہ لب بھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ہزار بار دے چکی ہوں اور اب تم پلیز مجھے پرپوز کرنا چھوڑ دو۔‘‘ اس نے جھک کر اپنا بیگ کاندھے پر ڈالا اور کیفے ٹیریا کی سمت قدم موڑ لئے۔
’’میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ وہ بھی اس کے ہمراہ چل رہا تھا رعنا نے ایک لمحے کے لئے رک کر اسے دیکھا پھر قدرے تحمل سے بولی۔
’’میں اپنوں کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی۔‘‘
’’میں تمہیں بغاوت کی ترغیب نہیں دے رہا مگر تم اپنے پیرنٹس کو قائل کرنے کی کوشش تو کر سکتی ہو نا۔‘‘
’’سوری میں یہ بھی نہیں کر سکتی۔‘‘ اس نے بیگ اور کتابیں میز پر پٹختے ہوئے ویٹر کو اشارہ کیا تھا اور دونوں اپنا اپنا آرڈر درج کروانے لگے تھے۔
’’کل صبح تیار رہنا میں تمہیں اپنی مما سے ملواؤں گا۔‘‘ رعنا کو ہاسٹل کے گیٹ پر ڈراپ کرتے ہوئے یہ آخری الفاظ تھے جو اس نے کہے تھے اور پھر گاڑی بھگا لے گیا تھا اور وہ زیر لب مسکراتے ہوئے وارڈن سے چابی لینے کے بعد اپنے روم میں چلی آئی تھی۔
بیگ صوفے پر اچھالنے کے بعد، اس نے پیروں کو شوز کی قید سے آزاد کیا پھر جرابیں اتارے بغیر کچن میں چلی آئی اس وقت اسے کافی کی شدید طلب ہو رہی تھی اپنے ساتھ ساتھ اس نے مائرہ کے لئے بھی ایک کپ بنایا تھا، مائرہ اس کی روم میٹ تھی اور اس کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔
’’تم کب آئیں۔‘‘ گروسری کا سامان سلیب پر رکھتے ہوئے اس نے رعنا سے دریافت کیا۔
’’میں کوئی دس منٹ قبل۔‘‘ کپ میں کافی ڈالنے کے بعد اس نے ایک کپ مائرہ کی جانب بڑھا دیا جو اس نے ’’تھینک یو‘‘ کے ساتھ تھام لیا تھا۔
کچھ دیر ادھر ادھر کی گپ شپ کے بعد وہ پھر سے تیار ہو کر باہر چلی گئی تھی۔ اسے اپنے ابو تراب کے ساتھ ڈنر پر جانا تھا۔
رعنا نے دروازہ بند کیا اور تکیہ درست کرتے ہوئے نیم دراز ہو گئی پلکوں کی جھالر گرتے ہی اس کا چہرہ چھم سے تصور میں اتر آیا تھا، دو آنسو چپکے سے راستہ بناتے رخساروں پر امڈ آئے۔
اس کے سامنے وہ جتنا بھی خود کو مضبوط اور بے نیاز کرتی مگر اس کا وجود اندر سے ریزہ ریزہ ہو رہا تھا جوں جوں فائنل کے دن قریب آ رہے تھے وہ مستقل جدائی کے خیال سے خوفزدہ رہنے لگی تھی چاچو کے بعد وہ پہلا شخص تھا جو اسے اتنا شائستہ اور نرم خو لگا تھا۔
’’کیا چاچو اس سلسلے میں میری کوئی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ ابھی اس نے اس پہلو پہ سوچنا شروع ہی کیا تھا کہ ڈیڈی کی آواز نے اس کی سوچوں پہ پہرہ لگا دیا۔
’’میں صرف تمہاری ذمہ داری پر اسے بھیج رہا ہوں کل کو میری عزت پر کوئی حرف آیا تو جواب طلبی تم سے ہو گی۔‘‘ اور چاچو نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جیسے اس ذمہ داری کو قبول کر لیا تھا۔
حویلی میں بس وہی تو تھے جو اسے سب سے زیادہ چاہتے تھے ورنہ باقی سب مردوں کو تو اس بات کا ملال کھائے جاتا تھا کہ ان کے بعد ان کی نسل کا کوئی وارث نہیں ہے۔
اسے آج بھی یاد تھا وہ دن جب اس نے بی ایس آنرز میں ٹاپ کیا تھا اور اسے آکسفورڈ یونیورسٹی کا اسکالر شپ ملا تھا، حنا، ندا، مریم سب کتنا مذاق اڑا رہی تھیں۔
’’اچھا تو اب آپ لندن جائیں گی۔‘‘
تصور سے ہی اس کی آنکھوں میں ستارے چمکنے لگے تھے۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے اس ٹاپک پر اپنے ڈیڈی سے بات کرنے کی خوامخواہ گھر کا ماحول خراب ہو گا جتنا پڑھ لیا اتنا کافی ہے۔‘‘ مما نے سنتے ہی اسے بری طرح سے جھاڑ دیا تھا اور وہ خاموشی سے لب کاٹتی کچن سے باہر نکل آئی تھی ان سب کے ساتھ سر کھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اسے تو بس چاچو کے آنے کا انتظار تھا وہ اپنے بزنس کے سلسلے میں آؤٹ آف سٹی گئے ہوئے تھے اور اس کے لئے دو دن گزارنا محال ہو گیا تھا۔
٭٭٭
وہ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھی فارم ہاتھوں میں لیے حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جب چاچو کی گاڑی کا مخصوص ہارن سنائی دیا، اس نے بھاگ کر ان کا بریف کیس پکڑا تھا اور ان کے ساتھ ہی اندر آئی تھی۔
ہمیشہ سے ہی وہ ان کا ہر کام کیا کرتی تھی جیسے ان کے جوتے پالش کرنا، کپڑے استری کرنا، ان کے کمرے کی صفائی، ناشتہ، کھانا اور چائے وغیرہ سے لے کر ان کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھنا بھی اس کی ذمہ داری تھا۔
وہ کئی بار منع کرتے تم رہنے دو ملازمہ کر لے گی مگر اس کا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا۔
’’مجھے اچھا لگتا ہے آپ کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرنا۔‘‘ اور اس کے جواب پر ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ابھر آتی تھی جیسے کسی کی یاد کا دیپ جل اٹھا ہو۔
’’کیا ہوا تمہارا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے۔‘‘ وہ بھی اس کے مزاج کا ہر رنگ پہچانتے تھے، رعنا چائے کا کپ انہیں تھما کر ان کے قریب ہی بیٹھ گئی تھی یوں کہ چہرے پر اس وقت زمانے بھر کی مظلومیت طاری تھی اور انہوں نے فوراً بھانپ بھی لیا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے اور پھر پوری بات سننے کے بعد وہ خاموش سے ہو گئے۔
’’چاچو پلیز آپ تو جانتے ہیں ناکہ مجھے یونیورسٹی میں پڑھنے کا کتنا شوق ہے۔‘‘ وہ منت سے بولی۔
’’تو یہاں کی کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لو۔‘‘ کچھ دیر سوچنے کے بعد انہوں نے ایک اور قابل قبول حل پیش کیا تھا جس پر رعنا کا منہ پھول گیا۔
’’وہاں کی ڈگری کی ویلیو زیادہ ہے۔‘‘
’’تو تمہیں کون سا کہیں نوکری کرنی ہے۔‘‘ وہ خفگی سے بولے۔
’’چاچو پلیز یہ چانس مجھے دوبارہ نہیں ملے گا اور کیا آپ کو مجھ پہ اعتبار نہیں ہے۔‘‘ اب کی بار اس نے ایموشنل بلیک میلنگ سے کام لیا تھا اور ہمیشہ کی طرح وہ اس کی ضد کے سامنے ہار گئے تھے، باقی کے تمام مراحل پھر انہوں نے ہی طے کیے تھے۔
وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو اعلیٰ ایجوکیشن کے لئے بیرون ملک کی اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔
راہب سے اس کی ملاقات جس روز ہوئی وہ اس کا یونیورسٹی میں فرسٹ ڈے تھا ایک تو سفر کی تھکان پھر وہ دیر سے سوئی تو آنکھ بھی دیر سے کھلی تھی، اتنی دیر کہ آخری پوائنٹ بھی نکل چکا تھا۔
وہ روڈ پہ کھڑی ٹیکسی کا ویٹ کر رہی تھی جب سیاہ لینڈ کروزر کے ٹائر اس کے قریب آ کر چڑچڑائے وہ اچھل کر دو فٹ دور ہٹی تھی۔
تبھی ونڈ اسکرین سے ایک ہینڈسم نوجوان کا چہرہ نمودار ہوا تھا وہ کوئی ایشین لڑکا تھا مگر اس کے نقش اتنے مانوس اور متاثر کن تھے کہ وہ اپنا سارا غصہ بھول کر حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’اگر آپ کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے آس پاس کہیں جانا ہے تو میں آپ کو ڈراپ کر سکتا ہوں۔‘‘ سر باہر نکالے وہ شائستگی سے کہہ رہا تھا۔
’’جی نہیں شکریہ۔‘‘ اس نے سہولت سے انکار کرتے ہوئے رخ موڑ لیا اور دل ہی دل میں اپنی بے اختیاری پر خود کو سرزنش بھی کی۔
’’اصل میں آپ نے کیب کو رکنے کا اشارہ کیا تھا اور وہ رکے بغیر چلی گئی تو میں نے سوچا یہ نیک فریضہ کیوں نا میں انجام دے لوں بس اسی لئے رک گیا تھا ویسے بھی میں یونیورسٹی جا رہا تھا اور آپ کے ہاتھوں میں پکڑی فائل اور بیگ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ بھی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہیں تو جب راستے ایک ہوں تو ساتھ چلنے میں کیا حرج ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ میں فائل کے ساتھ کاسٹ اینڈ منیجمنٹ اکاؤٹنگ کی بک تھی وہ دیکھ چکا تھا اور آخری جملے کو ادا کرتے ہوئے اس نے آنکھوں پر گلاسز چڑھانے کے ساتھ ساتھ فرنٹ ڈور بھی کھول دیا تھا اور وہ اس کی جرأت پر ششدر رہ گئی تھی۔
’’میم آپ کو کہیں جانا ہے۔‘‘ اس کی گاڑی کے پیچھے کھڑی کیب میں سے ایک برٹش آدمی نے انگلش میں دریافت کیا تھا وہ سر جھٹک کر اس کی کیب میں جا بیٹھی۔
ٹائم سے فائیو منٹ لیٹ وہ کلاس میں پہنچی تھی سر ولیم جون کلاس میں آ چکے تھے اور ان کا لیکچر جاری تھا وہ شش و پنج کا شکار دروازے پر کھڑی تھی جب سر ولیم نے اسے دیکھ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
کلاس میں داخل ہوتے ہی تمام اسٹوڈنٹس کی نظریں اس پر مرکوز ہو چکی تھیں اسے جو پہلی سیٹ خالی نظر آئی وہ وہیں براجمان ہو گئی۔
سر ولیم دوبارہ لیکچر اسٹارٹ کر چکے تھے کلاس کی تمام تر توجہ اب نوٹس بکس کی جانب تھی جس پر سر جھکائے وہ لکھتے جا رہے تھے وہ اپنے بیگ سے نوٹ بک نکالنے کے بعد اب پن ڈھونڈ رہی تھی جو جانے اس نے بیگ میں رکھا بھی تھا کہ بھول گئی تھی تبھی اس کے دائیں پہلو سے سرگوشی نما آواز ابھری۔
’’وہ کیب والا کیا مجھ سے زیادہ قابل اعتماد تھا۔‘‘ رعنا نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر اپنے دائیں جانب دیکھا تھا اور پھر پلکیں جھپکے بغیر دیکھتی ہی چلی گئی اور وہ اس کی مشکوک نظروں سے محظوظ ہوتے ہوئے مزے سے بولا۔
’’اطمینان رکھیں آپ کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک نہیں آیا ہوں بلکہ پچھلے سات دن سے باقاعدہ کلاس اٹینڈ کر رہا ہوں اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی بھی اسٹوڈنٹ سے پوچھ سکتی ہیں۔‘‘
’’مجھے کیا ضرورت ہے کہ آپ کی انوسٹی گیشن کروں۔‘‘ رکھائی سے کہتی وہ دوبارہ سے اپنے بیگ کی جانب متوجہ ہو گئی۔
’’میرے پاس دو پن ہیں اگر آپ چاہیں تو…‘‘ اور اسی وقت سر ولیم نے دونوں کو کلاس سے باہر نکلنے کا حکم سنایا تھا وہ مرے مرے انداز میں اپنا بیگ اور نوٹ بک اٹھا کر باہر چلی آئی اس کے برعکس وہ خوب چہک رہا تھا۔
’’ایم سوری میری وجہ سے آپ کو بھی… اصل میں آج میرا برتھ ڈے ہے اور میرا بالکل موڈ نہیں ہو رہا کوئی کلاس اٹینڈ کرنے کا۔‘‘ وہ کچھ بولنے ہی والی تھی جب اس نے ٹوک دیا۔
’’اب آپ سوچ رہی ہوں گی کہ پھر میں یونیورسٹی کیا لینے آیا ہوں تو بات در اصل یہ ہے کہ میں اس شہر میں بالکل نیا اجنبی ہوں اور میرے سارے فرینڈز تو مانچسٹر میں ہی رہ گئے تو سوچا گھر میں بور ہونے سے اچھا ہے کہ یونیورسٹی چلا جاؤں ہو سکتا ہے کوئی نیا دوست مل جائے۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولا۔
’’آپ مجھ سے دوستی کریں گی۔‘‘ آفر اتنی اچانک تھی کہ وہ فوری طور پہ کچھ بول ہی نہ سکی۔
’’اچھا پہلے آپ مجھے وش تو کر دیں صبح سے کسی نے وش نہیں کیا مما بھی سرپرائز کے چکر میں شام ڈھلے وش کرتی ہیں۔‘‘
’’ہیپی برتھ ڈے۔‘‘ رعنا نے جان چھڑانے کو کہہ دیا۔
’’او تھینک یو سو مچ۔‘‘ وہ فوراً خوش ہو گیا تھا۔
’’اب آپ نے مجھے وش کیا ہے تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں آپ کو ٹریٹ بھی دوں اور ویسے بھی اب یہاں کھڑے ہو کر بور ہونے سے اچھا ہے کہ آپ میری کمپنی انجوائے کر لیں۔‘‘ عجیب زبردستی تھی رعنا کی گھوریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے وہ مسلسل بولے جا رہا تھا۔
اسے سچ میں رونا آنے لگا اتنی دور پردیس میں تنہا اور کوئی دوست بھی نہیں اس پہ یہ لڑکا تھا کہ آکٹوپس وہ کیسے جان چھڑائے۔
’’آپ کی کمپنی کا بہت شکریہ مجھے اس سے زیادہ آپ کا ساتھ نہیں چاہیے۔‘‘ وہ خود کو مضبوط کرتے ہوئے درشتی سے بولی۔
’’میرے ساتھ کا ایک فائدہ بھی ہے ایک ہفتے کے لیکچرز جو آپ مس کر چکی ہیں اس کے نوٹس میں آپ کو دینے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا رعنا رک گئی وہ بھی ٹھہر گیا۔
’’دیکھیں ہم کلاس فیلو بھی تو ہیں اور میں شکل سے جتنا اچھا نظر آتا ہوں دل کا بھی ویسا ہی شفاف ہوں آپ کو کبھی بھی میرے کریکٹر میں کوئی جھول نظر نہیں آئے گا سادہ مزاج اور بہت پر خلوص ہوں، اپنی حدود مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہیں اتنی ساری خوبیوں کے ساتھ تو میں آپ کی دوستی ڈیزرو کرتا ہوں۔‘‘
’’شٹ اپ۔‘‘ اچانک وہ پھٹ پڑی۔
’’نہ جان نہ پہچان زبردستی کا مہمان، کب سے میں آپ کی فضول گوئیاں برداشت کر رہی ہوں اتنا وقت برباد کیا میرا کلاس سے نکلوا دیا کیا یہاں کوئی فلم شوٹ ہو رہی ہے اسٹوپڈ۔‘‘ خوب دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد وہ واپس کلاس میں چلی آئی تھی۔
لیکن ایک ہفتے بعد جب سر ولیم نے گروپ بندی کی تو وہ اس کے گروپ میں شامل تھا ایک ساتھ مختلف پروجیکٹ پر کام کرتے ہوئے بات چیت کی ضرورت تو پڑتی تھی پھر اسے ایک پل کے لئے خاموش بیٹھنا تو آتا ہی نہیں تھا اس کی دوستی کی آفر ہنوز برقرار تھی اور روز اسے باور کروانا نہیں بھولتا تھا، پھر ایک روز اس نے کہا تھا۔
’’پتہ ہے رعنا مجھے خوبصورت میموریز اکٹھی کرنے کا بہت شوق ہے یہ اسٹوڈنٹ لائف زندگی میں پھر دوبارہ نہیں آئے گی تو کیوں نا ان چند مہینوں کو اتنا خوشگوار اور یادگار بنائیں کہ یہ ہماری زندگی کا سب سے خوبصورت وقت ہو۔‘‘ اس کے گروپ میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا اور بھی شامل تھا اس کا نام جمشید تھا وہ اس سے بھی ہائے ہیلو کر لیتی تھی پھر اس بیچارے کا کیا قصور تھا کہ اس سے ہر وقت لڑا جائے روڈلی بات کی جائے اس کے چٹکلوں کو انجوائے کرنے کی بجائے انا کا مسئلہ بنایا جائے اور دوسروں کو خود پہ کمنٹس پاس کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
ویسے بھی وہ اس کا کلاس فیلو تھا ان کے گروپ کا لیڈر تھا اور پھر اس سے زیادہ ذہین تھا اس نے دیکھا تھا وہ محض بڑبولا ہے اور کچھ نہیں پھر رعنا نے اس کی باتوں پر چڑنا اور اس سے لڑنا چھوڑ دیا تھا اور جب اس نے لڑنا اور چڑنا چھوڑ دیا تھا تو اسے راہب کا ساتھ اس کی باتیں اس کی شرارتیں سب اچھا لگنے لگا تھا وہ اپنی روایات اور اصولوں سے بغاوت کرنے پر مجبور ہو گئی تھی اس نے ایک لڑکے سے دوستی کر لی تھی اور پھر رفتہ رفتہ وہ لڑکا اس کے دل میں گھس کر بیٹھ گیا تھا وہ جانے کب کیسے اور کیوں اس سے محبت کرنے لگی تھی۔
وہ روز اسے پرپوز کرتا تھا اور وہ روز اسے ہی دو ٹوک انکار کر کے چلی آتی تھی دونوں کے مابین جو پل صراط حائل تھا اس کے پیروں میں اسے پار کرنے کی طاقت نہیں تھی راہب کے ساتھ کا مطلب تھا کہ وہ اپنے خاندان سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو جائے زندہ ہوتے ہوئے بھی سب کے لئے مرجائے اور ایک رشتے کے لئے اتنے سارے رشتوں کو کھونے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا۔
٭٭٭