’’مما دیکھیں تو کون آیا ہے۔‘‘ وہ مرکزی دروازے سے ہی شور مچاتا اندر داخل ہوا تھا وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئیں اور پھر جیسے زمین نے ان کے قدموں کو جکڑ لیا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ ہابیل شاہ نے آہستگی سے سلام کیا تھا وہ محض سر ہلا سکی۔
’’کیسی ہیں آنٹی۔‘‘ رعنا نے خود ہی آگے بڑھ کر ان کا احوال دریافت کیا تھا۔
’’اچھی ہوں۔‘‘ رکھائی بھرے جواب پر رعنا کو خفت نے گھیر لیا سونم نے مروتاً بھی اس کا حال نہیں پوچھا تھا۔
ہابیل شاہ کی نظریں اس کے چہرے پر جمی جیسے برسوں کی تشنگی سیراب کر رہی تھیں اسے لگا کہ وہ آج بھی اتنی ہی حسین ہیں جتنی بائیس سال قبل تھیں اتنے سال محض اسے چھو کر گزر گئے تھے۔
’’آپ بیٹھیں۔‘‘ انہیں پچھلے سات منٹ سے کھڑا دیکھ کر بالآخر اس نے بیٹھنے کا اذن دیا تھا وہ دونوں خاموشی سے کاؤچ پر بیٹھ گئے، راہب اتنی دیر سے کھڑا محض ان کے تاثرات نوٹ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے کہیں کوئی گنجائش نہیں مل رہی تھی مگر وہ پھر بھی مایوس نہیں ہوا تھا۔
’’کیا لیں گے آپ کافی یا چائے۔‘‘ اب وہ آداب میزبانی نبھا رہی تھیں انداز کس قدر لاتعلقی بھرا اور بیگانہ سا تھا جیسے زبردستی کوئی مہمان گلے پڑ گیا ہو۔
ہابیل شاہ کو بائیس سال کے ہجر سے زیادہ ایک اجنبی لمحے پر ملال ہوا تھا۔
’’آپ بیٹھیں میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ رعنا اٹھ کر کچن میں چلی گئی تھی وہ خاموشی سے دوسرے کاؤچ پر بیٹھ گئی راہب بھی چپکے سے کھسک گیا تھا۔
’’میری ہیلپ چاہیے تو بندہ حاضر ہے۔‘‘
’’ہاں وہ شوگر چائے اور سالٹ کہاں ہے۔‘‘ وہ ابھی تک کچن کا جائزہ ہی لے رہی تھی، اس نے اندر آ کر مطلوبہ چیزیں کاؤنٹر پر رکھ دیں، پھر کیبن سے ٹی سیٹ نکالنے لگا۔
’’اور تم یہ چائے میں نمک مت ڈالنا۔‘‘ سالٹ واپس رکھتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔
’’مجھے نمک والی چائے کا ذائقہ اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’اور مجھے نہیں لگتا۔‘‘
’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘
’’تمہارا قصور یہ ہے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتی تمہیں میرے نازک جذبات و احساسات کا کوئی خیال نہیں ہے جب سے آئی ہو ایک مسکراہٹ تک میں نے تمہارے چہرے پر نہیں دیکھی تم اتنی مغرور کیوں ہو۔‘‘
’’چلیں۔‘‘ وہ ٹرے سجا چکی تھی راہب محض دیکھ کر رہ گیا۔
رعنا نے سینٹرل ٹیبل پر ٹرے رکھی تو اسے احساس ہوا کہ دونوں میں سے ابھی تک کسی نے بھی ایک دوسرے کو مخاطب نہیں کیا تھا، اس نے دو کپ میں ایک ساتھ چائے بنائی۔
’’شوگر۔‘‘ اس نے بیک وقت دونوں سے پوچھا تھا۔
’’تین چمچ۔‘‘ دونوں کے لبوں سے ایک ساتھ پھسلا تھا دونوں کی نظریں بھی ایک لمحے کو ملی تھیں ہابیل شاہ کی آنکھوں میں حیرت اور سونم حیات احمد کے چہرے پہ اک نرم سا تاثر امڈ آیا تھا۔
’’ہابی پلیز میرے کپ میں اتنی شوگر مت ڈالو۔‘‘ وہ چلائی۔
’’دیکھنا میں تمہیں بھی عادی بنا دوں گا اور پھر تم مجھے منع نہیں کرو گی۔‘‘ وہ روز اس کے کپ میں تین چمچ شوگر ڈال دیا کرتا تھا اور وہ برے برے منہ بناتی اس شربت کو حلق سے اتارا کرتی تھی۔
ان چاروں نے ساتھ بیٹھ کر چائے پی تھی مگر لاؤنج میں یوں سناٹا چھایا ہوا تھا جیسے وہاں کوئی نفوس موجود ہی نہ ہو۔
رعنا اور راہب کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں میں معنی خیز تبادلے ہوتے رہے تھے سونم چائے کے خالی کپ اٹھا کر کچن میں چلی گئی تھیں۔
’’ڈیڈ!‘‘ راہب نے مصنوعی خفگی سے انہیں گھورا تو وہ خفت زدہ سا مسکرائے۔
’’میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آئیں میں آپ کو کمرہ دکھا دوں۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا ہابیل شاہ نے اس کی تقلید میں قدم بڑھا دئیے تھے وہ کمرہ سونم کا تھا اس کی فضا میں اس کی مہک رچی ہوئی تھی۔
وہ کتنی ہی دیر اس سے متعلقہ چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، سائیڈ ٹیبل پر ایک سیاہ ڈائری الٹی رکھی ہوئی تھی انہوں نے احتیاط سے اٹھا کر سیدھا کیا تو سامنے ایک نظم تحریر تھی۔
تیرے خیال سے محبت کی
تیرے احساس سے محبت کی ہے
تو میرے پاس نہیں ہے پھر بھی
تیری یاد سے محبت کی ہے
کبھی تو نے مجھے یاد کیا ہو گا
میں نے ان لمحات سے محبت کی ہے
جن میں ہوں صرف تیری اور میری باتیں
میں نے ان اوقات سے محبت کی ہے
مہکے ہو صرف تیری ہی محبت سے
میں نے ان جذبات سے محبت کی ہے
تم سے ملنا تو اک خواب سا لگتا ہے
میں نے تیرے انتظار سے محبت کی ہے
ہابیل شاہ کو لگا جیسے کسی نے ان کا دل مٹھی میں لے کر بھینچ ڈالا ہو وہ کتنے ہی پل ان لفظوں کے سحر سے نکل نہیں پائے تھے، آنسوؤں کے مٹے مٹے سے نشانوں پر وہ اپنے لب رکھتے ہوئے بے ساختہ رو دئیے تھے۔
٭٭٭
رعنا اٹھ کر ان کے پیچھے ہی کچن میں چلی آئی تھی انہیں فریج میں جھانکتے دیکھا پھر وہ گوشت نکال کر اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتی سینک کی جانب بڑھ گئی کتنا آکورڈ لگ رہا تھا کہ میزبان تو لفٹ نہیں کروا رہے تھے اور وہ زبردستی کی مہمان بنی ان کے سر پہ سوار تھی۔
’’کچھ چاہیے۔‘‘ بالآخر انہیں اس کی موجودگی کا خیال آ ہی گیا تھا۔
’’میں آپ کی ہیلپ کروا دوں۔‘‘ وہ اتنی سی توجہ پر ہی کھل اٹھی تھی۔
’’نو تھینکس مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ رکھائی بھرے جواب پر اس کی آنکھوں کی جوت بجھ سی گئی۔
’’آپ مجھ سے ناراض ہیں۔‘‘ اس نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
’’کیوں؟‘‘ عجیب سوال تھا نا۔
’’راہب نے بتایا تھا کہ آپ کافی فرینڈلی اور سویٹ ہیں مگر جب سے میں آپ سے ملی ہوں آپ مسلسل مجھے اگنور کر رہی ہیں بابا نے جو کیا اس کی سزا مجھے تو نہ دیں میں زنبیل شاہ کی ہی نہیں فریال کی بھی بیٹی ہوں۔‘‘ سونم نے اس کے گلو گیر لہجے پر قدرے سٹپٹا کر اسے دیکھا وہ شاید رعنا سے یوں ڈائیریکٹلی اس بات کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے تم بتاؤ ڈنر میں کیا کھانا پسند کرو گی۔‘‘ ان کا انداز ہنوز تھا۔
’’میں جانتی ہوں آپ شاید اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ راہب کی ضد پر کہیں مجھے بہو بنانا نہ پڑ جائے لیکن آپ بے فکر رہیں آپ کو انکار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی میں خود ہی راہب کو منع کر دوں گی۔‘‘ وہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی سونم سب چھوڑ چھاڑ کر کچن میں رکھے اسٹول پر بیٹھ گئیں، انہیں تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
وہ لڑکی کتنی آسانی سے کہہ گئی تھی کہ راہب کو منع کر دوں گی تو اس کا مطلب ہے کہ اب مجھے راہب کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا، اس خیال کے آتے ہی انہیں اپنا آدھا مسئلہ حل ہوتا دکھائی دیا تھا، وہ اپنے بیڈ روم سے اپنی شال لینے آئی تھیں ہابیل شاہ کو کھڑکی میں کھڑے دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئیں، واپس پلٹنا چاہا تو اس نے پکار لیا۔
’’سونم!‘‘ وہ ٹھہر گئی تھیں۔
’’ناراض ہو۔‘‘ وہ ان کے سامنے آن کھڑے ہوئے بائیس سال بعد انہیں یہ خیال آیا تھا کہ وہ ان سے ناراض بھی ہو سکتی ہیں آج ایک ہی دن میں دوسری بار ان سے یہ سوال دریافت کیا گیا تھا اور دوسری بار بھی ان کا جواب ہنوز تھا۔
’’کیوں؟‘‘ عجیب سوال نہیں تھا، مگر جواب ضرور عجیب تھا۔
’’بی بی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے تھے وہ ماں ہو کر میرے پیروں میں جھکی ہوئی تھیں میں فریال کے آنسوؤں اور بھائی کی محبت میں مجبور ہو گیا تھا اپنے مسئلوں کے سامنے مجھے تمہارا غم نظر ہی نہیں آیا، میں تمہیں کوئی دکھ دینا نہیں چاہتا تھا مگر مجھے لگا تم میرے بغیر نہیں رہ سکتی اس لئے میں نے تم سے وہ سب کہا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ تم مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی، میں نے تمہاری کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی اور تم نے اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنا لیا یہ بائیس سال کا سفر میں نے کسی پل صراط پر چلتے ہوئے طے کیا ہے تمہیں ڈھونڈنے مانچسٹر بھی آیا تھا تم نہیں ملی۔‘‘ ان کے آنسو سونم کو اپنے دل کی زمین پر گرتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے وہ اسے کہنا چاہتی تھیں پلیز اس طرح مت رو مگر ان کے لبوں پہ جیسے کوئی جنبش ہی نہیں رہی تھی، انہیں احساس نہیں تھا کہ وہ خود بھی رو رہی ہیں۔
’’فریال نے زنبیل شاہ کے گھر آنے پر بتا دیا تھا کہ اس میں راہب کا کوئی قصور نہیں تھا روشنی کی محبت یک طرفہ تھی تو زنبیل شاہ کو اپنے فعل پہ بھی رنج ہوا تم نے تو اسے دنیاوی سزا سے بچا لیا تھا قدرت نے اسے یہ سزا اس کے بیٹوں کی موت کی صورت دے دی تھی۔‘‘ سونم نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔
’’اس کا بڑا بیٹا تین سال کا تھا جب ہمیں پتہ چلا کہ اس کے دل میں سوراخ ہے اور دوسرا ڈیڑھ برس کا تھا جب اس کی برین ہمیرج سے ڈیتھ ہو گئی تھی ساری ساری رات وہ اپنے بچوں کے درد اور اذیت پر تڑپتے ہوئے گزارتا تھا، اس نے راہب کے نام ایک خیراتی ہاسپٹل بھی بنوا رکھا ہے وہ روز اس کی قبر پہ جا کر روتا ہے اور اس سے اپنے گناہ کی معافی مانگتا ہے، میری بہن پچھلے بائیس سال سے اس کمرے کو اپنی قبر بنائے بیٹھی ہے وہ ہم میں سے کسی کی شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی اور میں نے یہ بائیس سال ہجر کے تپتے صحرا میں جلتے ہوئے گزارے ہیں اب اس مسافر کو کنارا دے دو۔‘‘ ہابیل شاہ نے ان کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے تھے۔
سونم نے ان کے ہاتھوں پر اپنے لب رکھ دئیے وہ انہیں اپنے سامنے ہاتھ جوڑے اور روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
’’تم نے مجھے معاف کر دیا۔‘‘ بڑی آس تھی ان کی آنکھوں میں کہ ان کا محبوب جو ان کا محب بھی تھا آج انہیں خالی ہاتھ نہیں لوٹائے گا انہیں دھتکارے گا نہیں اور سونم ہابیل شاہ بھلا کیسے ان ہاتھوں کو جھٹک سکتی تھیں جو ان کے لئے اس دنیا میں سب سے پر سکون پناہ گاہ تھے، وہ شخص تو ان کا سرمایہ حیات تھا یہ محبت کی انتہا تھی یا پھر یہ چہرہ ان کو اتنا پیارا تھا کہ اس سے صرف محبت ہی کی جا سکتی تھی، بھیگی پلکوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلاتیں وہ ان کے سینے سے لپٹ گئی تھیں۔
’’کیا اس حسین منظر میں میرے لئے کوئی جگہ نکل سکتی ہے۔‘‘ وہ جانے کب دروازے پہ آن کھڑا ہوا تھا ہابیل شاہ نے اس کی جانب دونوں بازو پھیلا دئیے۔
’’مما آپ بھی نا اتنی جلدی مان گئیں۔‘‘ اس کا انداز شرارت آمیز تھا ہابیل شاہ اسے مصنوعی خفگی سے گھورتے ہوئے بولے۔
’’بائیس سال کم ہیں کیا؟‘‘
’’اور مجھے اپنا محاذ سر کرنے میں کتنے سال لگیں گے۔‘‘ اس کی بیچارگی پر سونم نے ہنستے ہوئے اپنے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی سے ڈائمنڈ رنگ اتار کر ہابیل شاہ کو تھما دی۔
’’مجھے اپنے بیٹے کی خوشی سے عزیز کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ زنبیل شاہ سے اب مزید کوئی بدلہ لینا اپنے ہی بیٹے کو دکھ دینے کے مترادف تھا سو انہیں اپنا فیصلہ بدلنے میں محض ایک لمحہ ہی لگا تھا۔
’’او مما یو آر گریٹ۔‘‘ محبت کے عملی مظاہرے کے طور پر اس نے سونم کو بازوؤں میں بھینچ ڈالا تھا پھر ہابیل شاہ کے پیچھے لپکا۔
’’ڈیڈ یہ فاؤل ہے انگیج منٹ میری ہے تو رنگ بھی میں پہناؤں گا۔‘‘
’’ہمارے ہاں ایسے رواج نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے مصنوعی خفگی سے گھورا۔
’’مگر ہمارے ہاں ایسے ہی رواج ہیں۔‘‘ وہ رعنا اور ان کے درمیان آن کھڑا ہوا تھا۔
رعنا اس ساری سیچویشن پر کافی کنفیوژ سی کھڑی تھی ہابیل شاہ پہلے تو اسے گھورتے رہے پھر شرافت سے رنگ اسے تھما دی۔ ’’رعنا مجھ سے شادی کر و گی۔‘‘ وہ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے قدرے خوشی سے بولا رعنا نے لاؤنج کی دہلیز پر کھڑی سونم آنٹی کو دیکھا جن کے چہرے پر اطمینان تھا آمادگی تھی، اس پر چاچو کی موجودگی کا خیال اس کے رخسار تپ اٹھے، ریشمی پلکوں کی جھالر لرز کر عارضوں پہ جھک آئی اور پھر چپکے سے اس نے اپنا ہاتھ راہب شاہ کی جانب بڑھا دیا، خوشیاں ہر سو مسکرانے لگی تھیں۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید