شیخ چلی دربار میں اپنے جوہر قابلیت، لطافت مزاج، حُسن سلیقہ، حذاقت ذہن، قوت اختراع سے ہر دلعزیز ہو رہا ہے۔ علامہ ابو الفیاض فیضی اور اور علامہ ابو الفضل نے دھوم دھام سے الگ الگ اُس کی دعوتیں کیں مگر بایں ہمہ وہ اپنی بے روک طبیعت اور خالص آزادی سے ان کی غلطیوں سے بھرے دربار میں کبھی چشم پوشی نہیں کرتا اور بے دھڑک اعتراض جڑ دیتا ہے۔ فیضی نے تفسیر سواطع الالہام جب اکبر کے سامنے پیش کی ہے، سارا دربار دنگ ہو کے رہ گیا اور بڑے بڑے کملا و فضلا کے منہ پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں۔ اکبر گو خود بے علم تھا مگر علم شناس اور قدردان اس کے برابر ہوا ہی نہیں۔ اس کو بھی حیرت تھی کہ تیس جز کی عربی تفسیر القرآن لکھی جائے اور ایک حرف نقطہ دار نہ آنے پائے۔ نہ عربیت اور محاورۂ عرب کے خلاف عبارت ہو واقعی اس سے زائد کمال قرب بمحال ہے۔ مگر یکتاے عصر شیخ نے سر دربار وہ جید اعتراض قائم کیا کہ فیضی بھی منہ دیکھ کے رہ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ فیضی کے نام میں ایک حرف بھی بے نقطہ نہیں ہے پس جب تک تمھارا نام بھی بے نقطہ نہ آجائے کتاب کوڑی کام کی نہیں اور یہ محال ہے۔ اس لطیفہ پر دربار پھڑک گیا اور شیخ صاحب نے معرکہ مار لیا۔
اس قسم کی گل فشانیاں شیخ صاحب کی روز ہوا کرتی تھیں اور ان کی مدارات بھی برابر جاری تھی۔ مگر کوئی خاص کار نمایاں نہ ہوا تھا جس سے اعلی ترقی کا موقع ملتا۔ دفعتاً ہیمو بقال کا واقعہ پیش آیا اور اس نے علم بغاوت بلند کیا۔ اکبر کی خلقی اولو العزمی ایسی خفیف بغاوت کو خیال میں بھی نہ لاتی۔ مگر شیخ چلی نے کمال ہی کیا کہ بادشاہ کو فوری توجہ کی ضرورت پڑی۔ واقعہ یہ ہے کہ ہیمو کی سرکشی کی خبریں جب حد تواتر کو پہنچ گئیں اور نہ اس کی سرکوبی کی ہنوز کوئی تیاری بادشاہ کی طرف سے ہوئی تھی کہ ملا صاحب کی زبانی یہ تمام واقعہ شیخ صاحب کو معلوم ہوا۔ ان کو انتہا سے زیادہ نہ تھا آیا اور بے حد پیچ و تاب کھا کے دربار میں پہنچے۔ اکبر ابھی چوکے ہی میں تھا کہ آپ نے حاضری کی اجازت چاہی مگر موقع نہ ملا، اور بھی بگڑے اور خون پی کے رہ گئے۔ جب بادشاہ برآمد ہوئے، شیخ نے عرض کیا کہ اتنے بڑے بادشاہ سے ایک بقال کا یوں بگڑ بیٹھنا بالکل واہیات ہے۔ ہمارے چلہ میں جتنے بنیے بقال تھے ہم سب کو دبائے رکھتے تھے۔ کوئی چوں تک نہیں کرتا تھا۔ آپ کا اس نے کچھ بھی خیال نہ کیا۔ ہم ایسے بادشاہ کی نوکری نہیں کرتے۔ سلام علیک، خدا حافظ۔ بادشاہ نے جواب بھی نہ دیا تھا کہ دربار سے چلے آئے اور سیدھے ہیمو کے پاس پہنچے۔ وہ بنیا اور کیسا بنیا کہ کچے گھڑے کی چڑھی تھی، ان کا آنا غنیمت سمجھا کہ دربار کے آدمی ہمارے پاس ٹوٹ کے آنے لگے۔ مگر شیخ چلی نے نہ اپنا کوئی ارادہ ظاہر کیا نہ کوئی درخواست بیان کی۔ چپ چاپ وہاں ٹھہر گئے۔ تیسرے دن ہیمو دتون کر رہا تھا اور شیخ صاحب سامنے کھڑے تھے۔ اُس نے تھوکا تو ایک چھینٹ اُن پر پڑ گئی۔ بس اللہ دے اور بندہ لے، چھاتی پر چڑھ بیٹھے اور دانت سے ناک اتار لی( )۔ پرچہ نویس تو لگے ہی ہوئے تھے، فوراً اکبر کو خبر ملی۔ اُدھر شیخ جی بھاگے اور سیدھے چلہ کا رخ کیا مگر بادشاہ نے سانڈنی سوار دوڑا دیے کہ جہاں ملیں پکڑ لا اور ایسا ہی ہوا کہ جنگل میں پکڑے گئے اور مچل مچل کے دربار میں حاضر کیے گئے۔ اکبر نے بڑی عزت کی اور اس کارگزاری کی قدر فرمائی۔ منصب اور تنخواہ میں اضافہ ہوا۔ گو شیخ صاحب اپنے بیوی بچوں کو یاد بہت کرتے تھے مگر کچھ خرچ نہیں بھیجتے تھے اور اُس زمانہ میں یہ بات مشکل بھی تھی۔ مگر ملا صاحب ان کی تنخواہ اور انعام اُس سے لے لیا کرتے اور بغیر ان کی اطلاع کے خفیہ طور پر اُن کے گھر پر ہزارہا روپیہ بھیجتے رہے۔ وہاں بڑا لڑکا سیانا ہو گیا تھا اور خداداد دولت نے ہر طرح کا حوصلہ پیدا کر دیا تھا۔ چنانچہ اُس نے بڑا عالیشان مکان بنوایا اور ہر طرح کی آسائش اور آرائش کے سامان مہیا کر لیے۔
ادھر شیخ صاحب تجرد کی وجہ سے زیادہ گھبرا گئے۔ احتیاط کا اقتضا ہی سمجھنا چاہیے کہ کوئی جدید تعلق نہیں پیدا کیا۔ مگر ملا صاحب ان کو صلاح دیا کرتے تھے نکاح کر لو۔ آخر جب بہت تنگ ہوئے، دربار سے رخصت چاہی مگر نا منظور ہوئی۔ ناچار ایک رات چھپ کے چل دیے۔ جو کچھ روپیہ اشرفی بچا کھچا پاس تھا کمر میں باندھا اور سیدھے چلہ کو پہنچ گئے۔ ؏
طبیعت پختہ مغزوں کی جدھر آئی اُدھر آئی