قصبہ چلہ کی خلقت اورخاصۃً اہل تمول اور بنیے بقالوں کی اذیتوں اور بے مروتیوں نے شیخ کو جب بہت ہی دلگیر اور مجبور کر دیا تو اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کرنا ذرا ٹیڑھی کھیر خیال کیا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیے اور نیز وہ خود ایک معلومات کا خزانہ تھا اور یہ بھی سمجھتا تھا کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے اس لیے اس نے چپکے چپکے اپنے ارادے کی تکمیل کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا اور جب تمام دقتوں اور مشکلوں کو اس نے اپنی عالی ہمتی سے مار کے ہٹا دیا تو دفعتاً وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر تعین اس امر کے کہ کہاں جاؤں گا آدھی رات کو گھر سے نکل گیا۔ چونکہ ہم شیخ کی سوانح عمری میں اُس کے اُن دھبوں کے مٹانے کا قصد کر چکے ہیں جو اس کے دامن ناموری پر لگا گئے ہیں اور جہاں تک امکان میں تھا ہم نے صحیح صحیح حالات فراہم کر لیے ہیں اور مدتوں کی عرق ریزی اور محنت سے یہ واقعات جمع کر سکے ہیں۔ اس واقعہ کے تسلیم کرنے میں بالکل انکار ہے جو بڈھی عورتیں بچوں کے بہلانے کے لیے ایک کہانی میں اُس کی نسبت بیان کیا کرتی ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ چلی جب جوان ہوا تو گھر میں عسرت تھی۔ اُس کی بوڑھی ماں نے بیٹے کو کمانے کی ترغیب دی مگر وطن میں اُس کی لیاقت کا اندازہ کرنے والا کون تھا، اس لیے وہ دلی جانے پر آمادہ ہوا۔ ماں نے چار روٹیاں توشہ سفر کے لیے پکا دیں۔ وہ سویرے اُٹھ کے چلا اور دوپہر کو ایک کنویں پر پہنچا۔ چاروں روٹیوں کو چاروں کونوں پر رکھ کے کہنے لگا: ایک کو کھاؤں، دو کو کھاؤں، تین کو کھاؤں، کیا چاروں کو کھا لوں۔ قضا را اس کونے میں چار پریاں رہتی تھیں، وہ ڈریں کہ اللہ ایسا کون زبردست ہے جو ہم کو کھانے آیا ہے۔ مگر شیخ کی بے ساختہ تقریر سے سمجھ گئی تھیں کہ ہے کوئی تیکھا ہی۔ ناچار چاروں نے تجویز کی کہ اس کو کچھ رشوت دے کے ٹال دینا چاہیے۔ چنانچہ اُنھوں نے ایک بکری اس کو دی جو سونے کی مینگنیاں گراتی تھی۔ شیخ اس کو لے کے پلٹے تو سرا میں اُترے۔ بھٹیاری نے بکری اور مینگنیوں کو دیکھا تو ششدر ہو گئی اور بے ایمانی سے رات کو بکری بدل لی۔ دوسری بکری شیخ کے گلے منڈھی۔ وہ خوش خوش گھر آئے، ماں سے خوش خبری کہی کہ بکری ملی ہے اس کی سونے کی مینگنیاں ہوتی ہیں۔ ماں نے باندھا اور انتظار کیا تو بکری نے وہی معمولی مینگنیاں ڈالیں۔ شیخ حیران ہو گئے اور چار روٹیاں باندھ کر چلے اور کنویں پر وہی عمل کیا۔ اب کی بار ایک مرغی ملی جو سونے کا انڈا دیتی تھی۔ مگر سفاک بھٹیاری نے اُسے بھی اُڑا لیا۔ تیسری بار گئے تو ایک دیگچی ملی جس میں یہ تاثیر تھی کہ لیپ پوت کے چولھے پر چڑھادیا اور جو نعمت مانگی پک کے تیار ہو گئی۔ بھٹیاری کو خدا سمجھے اُسے بھی لے مری۔ ایک ٹھیکرا پتیلی دے کے شیخ کو رخصت کیا۔ چوتھی بار شیخ گئے تو پریوں نے تاڑ لیا کہ اس بیچارہ سے کوئی وہ چیزیں چھین لیتا ہو تب انھوں نے ایک سونٹا اور ایک رسی حوالے کی کہ رسی حکم دیتے ہی مشکیں باندھ لے گی اور سونٹا خود بخود پیٹ چلے گا۔ شیخ اب کی بار جو سراے میں آئے تو بھٹیاری کو کوئی چیز نظر نہ آئی اور رسی سونٹے پر اس کی توجہ ہی مائل نہ ہوئی۔ شیخ بھی چپکے ہو رہے۔ رات کو شیخ نے اپنے جی میں کہا: لاؤ اس کا امتحان کریں اور فوراً رسی کو حکم دیا کہ بھٹیاری اور اس کے گھر بھر کی مشکیں کس لے۔ رسی نے فوراً تعمیل کی تب تو شیخ نے کہا: “چل سونٹے تیری باری”۔ سونٹا اُٹھا اور گداگد پیٹنے لگا۔ دہائی ہے تہائی ہے۔ بھٹیاری قدموں پر گر پڑی اور سب چیزیں بکری، مرغی، پتیلی شیخ صاحب کے حوالے کردیں اور وہ گھر لے آئے۔
اس کہانی کی اصولی غلطیاں تو ایک طرف سطحی باتیں بھی اس قابل نہیں کہ ایسے فخر روزگار کی طرف نسبت دی جائے۔ مثلاً روٹیوں کو رکھ کے اُن کے کھانے کا سوال ایک لغو بات تھی، وہ تو کھانے ہی کے لیے ہیں پھر شیخ ایسی تحصیل حاصل میں کیوں پڑتا۔ اس کے بعد پریوں کا ڈرنا اور رشوت دینا بالکل جھوٹ ہے کیونکہ پریوں کو انسان کھا ہی نہیں سکتا بلکہ دیو پری انسان کا ناشتہ البتہ کیا کرتے ہیں، جب ہی تو تاج الملوک ڈرا تھا اور دیو نے بھی شکر کیا تھا کہ اللہ اللہ مدت کے بعد حلواے بے دود ملا ہے اور فرض کرو کہ پریوں کو بمقتضاے بشریت( ) خوف ہوا تھا تو جب نکل کے دیکھا تو ایک مفلوک مفلس کو دیکھا ہوگا جس سے ڈر گیا کیونکہ وہ ایک یہ چار کیا بنا لیتا۔ بکری سونے کی مینگنی نہیں کرتی نہ مرغی سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اور بھلا دیگچی میں بغیر جنس ڈالے کیسے کھانا پک سکتا ہے۔ سونٹا اور رسی بے جان چیزیں ہیں، ان میں ارادہ یا حکم کی تعمیل کجا۔ الغرض یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ہمارے شیخ صاحب پر محض بہتان باندھا گیا۔
شیخ گھر سے نکلا تو راستے کی صعوبت کا حال اور منزل اور مقام کی تفصیل ہم اس لیے نہیں بتا سکتے کہ اُس نے کوئی سفرنامہ اپنا نہیں چھوڑا اور ہو بھی تو قلمی کتابوں میں کسی خاص کتب خانہ میں پڑا ہوگا۔ زمانہ کی ناپرسانی ایسی بیش بہا چیزوں کو باہر آنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ ہمیں جو کچھ پتہ چلا یہ ہے کہ شیخ صاحب مدتوں مارے مارے پھرتے رہے اور کہیں تھل بیڑا نہ لگا۔ آخر اکبر آباد پہنچے۔ شہنشاہ اکبر اعظم کا زمانہ تھا، اہلِ کمال کی اتنی قدر اس سے بھی پہلے نہ اس سے بعد کبھی ہوئی نہیں۔ ہر طرف سے عقلاے روزگار اور ہر فن کے کامل چلے آتے تھے۔ دربار میں داخل ہوئے اور پاس ہو گئے۔ شیخ جس دن اکبر آباد میں پہنچا ہے، دو پیسے اُس کے پاس باقی تھے۔ بیچارہ سرا میں پہنچا اور اپنی معمولی دریا دلی اور فیاضی سے بھٹیاری سے کئی کھانوں کی فرمائش کردی اور اُس دن سرا کے سب مسافروں کو دعوت بھی دے دی کہ ہمارے ہی ساتھ ماحضر تناول فرمائیں۔ بھٹیاری نے بنیے سے سودا لیا اور کھانا وانا پکا کے شیخ کو مع دعوتیوں کے کھلایا۔ صبح کو شیخ جی سے دام جو مانگے یہاں کیا دھرا تھا ٹھن ٹھن گوپال وہی دو پیسے پھینک دیے۔ بھٹیاری حق حیران کہ معاملہ کیا ہے۔ جب ذرا بات کھلی تو میاں جما مہتر بھٹیاری کے کمترین شوہر بھی آدھمکے، اُدھر سے بنیا بھی لیے ہوئے دوڑا۔ اب آؤ تو جاؤ کہاں، شیخ کے حواس پیترا ہو ہی چکے تھے کہ دفعتاً ایک بزرگ شریف صورت مقطع متشرع سراے میں پہنچے اور چونکہ ادھر بڑا مجمع تھا اور غوغو پشتو ہو رہی تھی، آپ بھی اُسی طرف چلے آئے۔ یہ مولانا عبد القادر بدایوانی تھے جنھوں نے اکبر کی تاریخ بڑی دھوم کی لکھی ہے اور اکبر کو مذہباً کافر ملحد قرار دیا ہے جس کی نسبت آج تک جمہور اہلِ علم و اہلِ دول میں مذاکرے جاری ہیں اور قول فیصل اب تک نہ ہوا کہ فی الواقع اکبر کا مذہب کیا تھا۔ غرض کہ مولانا کے آتے ہی سب چُپ ہو گئے کیونکہ آپ ایک مشہور معروف آدمی اور دربار اکبری میں بھی بہت با اثر تھے مگر مُلا اور بالکل سادہ مزاج تھے۔ ان کو اپنے اعزاز دنیا یا علوے کمال اور تبحر علمی کا ذرا بھی غرہ یا گھمنڈ نہ تھا اور اس وقت تشریف لانے کی غایت یہ تھی کہ آپ کے وطن سے کوئی بزرگوار آنے والے تھے۔ دن بہت ہو گئے تھے۔ انتظار سخت شاق تھا۔ آج خود ہی سرا میں بہ نفس نفیس اُن کو ڈھونڈھنے چلے آئے۔ وہ تو ہنوز راہ ہی میں ہوں گے کہ یہاں اس ہنگامہ میں شیخ صاحب ان کو نظر پڑے۔ آدمی مردم شناس تھے، وضع قطع نے بھی کچھ بتا دیا اور تاڑ گئے کہ یہ شخص تو ہمارے جوار کا معلوم ہوتا ہے۔ دریافت کرنے سے رہا سہا شک بھی جاتا رہا اور قصبہ چلہ کا نام سُن کے مولانا نے شیخ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بھٹیاری کی اُجرت اور بنیے کے دام خدمت گار سے دلا دیے اور مکان پر لے آئے اور شیخ نے اپنے حالات سفر اور تجربات عظیم کا دفتر مولانا کے سامنے کھول دیا۔ مولانا کو شیخ کی ہمدردی کا خیال فطرتاً ہونا چاہیے تھے۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ آج کل بعض دربار رس لوگوں سے ان بن ہو گئی تھی کیونکہ اکبری( ) دربار میں مذہب کے متعلق اختراعات اور بدعات ہو رہے تھے۔ مولانا اُس سے بہت ہی بیزار تھے اور بہتیروں پر کفر کے فتوے جڑ دیے تھے۔ اس لیے چند روز سے آپ کا دربار بند تھا۔ سوچتے سوچتے خیال آگیا کہ ملا دوپیازہ سے مجھے خلاف نہیں ہے اور وہ خود بھی ان بدعتوں سے متنفر ہیں۔ مگر ضرورت وقت سے ظاہر نہیں کرتے۔ لاؤ اُن سے شیخ کی تقریب کر دیں۔ چنانچہ مولانا نے ملا صاحب کی خدمت میں ایک اشتیاقیہ رقعہ دے کے اپنے خدمت گار کو بھیجا۔ وہ اُسی وقت دربار سے آئے تھے اور کمر کھول رہے تھے اور آج معمول سے زائد خوش بھی تھے کیونکہ بیربل کو اکبر کے سامنے کئی لطیفوں میں زک دی تھی اور خاطر خواہ انعام ملا تھا اور نیز مولانا کے علم و فضل کے معتقد بھی تھے، زبانی کہلا بھیجا کہ آج رات کو خفیہ طور سے میں آپ سے ملوں گا۔
اس وعدے کی تکمیل یوں ہوئی کہ ملا نے ایک بیراگی کا روپ بھرا اور چمٹا کھٹکاتے ہوئے مولانا کے دروازہ پر پہنچے۔ پہلے تو خدمت گار نے روکا مگر جب ملا صاحب نے اپنی انگوٹھی مولانا کے پاس بھیج دی تو بُلا لیے گئے اور بعد معمولی مزاج پُرسی جناب شیخ صاحب کا تعارف کرایا گیا۔ مولانا نے ملا صاحب سے مسکرا کے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کے ملحد بادشاہ کے دربار نورتن میں ایک آدمی کی جگہ آج کل خالی ہے۔ ہمارے شیخ صاحب اس کمی کو پورا کر دیں گے۔ ملا صاحب نے شیخ کے ناصیۂ حال اور مجمل قیل و قال سے اندازہ کر لیا کہ ایسا باخبر اور ضروری شخص بے شک دربار ہی کے قابل ہے۔ اُسی وقت ساتھ لے کے مکان پر آئے اور دوسرے دن جب دربار میں جانے لگے تو شیخ صاحب سے کہہ گئے کہ میں چوبدار بھجوا دوں گا۔ تم دربار میں چلے آنا اور دربار کے ادب آداب بھی بتا دیے، جس کی ضرورت ہماری راے میں ایسے ذہین شخص کے لیے بالکل نہ تھی۔
خلاصہ یہ کہ آج ملا صاحب نے جب اکبر کو گرما گرم لطیفوں میں اپنے ڈھب پر لگا لیا تو شیخ صاحب کی تقریب کی اور کچھ اس برجستگی اور شوخی سے اس کو ادا کیا کہ اکبر پھڑک گیا اور فوراً حاضری کا حکم دیا۔ شیخ صاحب بایں ہیئت کذائی دربار میں پہنچے کہ لوٹا ڈور کاندھے پر تھا اور شترنجی سے کمر کسے ہوئے تھے۔ سر پر ملا صاحب کا پُرانا رفیدہ ڈھانک لیا تھا جو مقدار علم سے ذرا بھی زائد نہ تھا۔ اکبر نے ایسے باخبر شخص کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وجہ یہ تھی کہ جس شخص کی سادگی اور بے تکلفی کا یہ عالم ہو کہ ہر وقت سفر پر تیار رہے، اُس سے عجیب و غریب کام بن پڑنے کی توقع ہرگز غلط نہیں ہے۔ چنانچہ اُسی وقت شیخ صاحب کا سیاہہ ہو گیا اور نورتن میں داخل ہو گئے۔