شیخ ابو الغنم قراقری خاندان بنی اطول سے شہر طیخوح مِن مضافات ماوراء النہر کا رہنے والا تھا جو بھیڑوں اور دنبوں کا بیوپار کرتا تھا۔ اس پیشہ میں اس کو اس قدر دستگاہ اور دقت نظر حاصل ہو گئی تھی کہ نر اور مادہ کو بلا تامل پہچان لیتا تھا اور بھیڑوں کے علم انساب کا پورا ماہر تھا۔ سَو قدم سے وہ یقین کر لیتا تھا کہ یہ دنبہ ہے یا بھیڑ اور یہ بتا دیتا تھا کہ اگر بھیڑ ہے تو اُس کا خاندان یقیناً بھیڑ ہی ہوگا اور دنبہ کا بچہ ممکن نہیں کہ دنبہ ہی نہ پیدا ہو۔ اس بات کے اظہار کی ضرورت نہیں کہ زمانہ دراز کی تجارت سے اس کو یہ ملکہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ بھیڑوں کے تھن کا صحیح اندازہ وہ کر لیا کرتا تھا کہ دو سے زائد کبھی نہ ہوں گے اور ہمیشہ اس کی بات سچ نکلتی تھی۔ دنبوں کی اون سے وہ کبھی بجز اس کے خیال ہی نہ کر سکا کہ کمل نہ بُنے جائیں گے۔ سال میں ایک بار بھیڑوں اور دنبوں کی اون کتروانے میں کبھی اس نے غلطی نہیں کی۔ اور بلا تامل قریب کی منڈیوں میں بھیج کے وہ نفع کثیر حاصل کرنے میں نہیں چوکا۔
چونکہ وہ بھیڑوں کو دنبوں پر ہمیشہ فضیلت دیتا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ دنبوں کو ان کی چکتیوں کے بار سے چلنے میں ذرا دقت ہوتی ہے اور وہ دور دور مقامات اون کے لے جانے کو بہت ہی مصیبت خیال کرتا تھا۔ لہذا بار بار اُس نے دنبوں اور دنبیوں کے ساتھ مُنڈی ہوئی بھیڑوں کے تبادلہ میں پس و پیش نہیں کیا اور بھیڑوں کو قبول کر لینے میں اپنی غیر معمولی ذکاوت سے بہت عجلت کی۔ چونکہ اس تجارت سے بڑھتے بڑھتے اس کے پاس اپنی ذاتی ملکیت کی بھیڑیں بکثرت ہو گئی تھیں اور گویا جو سرمایہ اُس نے پہلے لگایا تھا وہ پورا حاصل ہو کے نفع میں کئی گلے اُس کے یہاں موجود ہو گئے تھے اس لیے اُس کو اپنے نوکروں اور چرواہوں کے سالہا سال عملی مشاہدے سے بھیڑوں کا دودھ دوہنا بائیں ہاتھ کا کام ہو گیا تھا اور اُس کا استعمال حکیمانہ قاعدہ سے وہ کر سکتا تھا یعنی دودھ سے مکھن اور چھاچھ بنوا لینے میں مشاق ہو گیا تھا اور کچھ بھی نقصان نہ ہونے دیتا۔ کَرتے کی بدیا مشہور ہے۔ اسی وجہ سے اس سلیم تجارت میں اس کے تمام نکات اور باریکیوں پر علی وجہ الکمال پر اس کو قابو مل گیا تھا۔ جو سرمایہ اس کے پاس نقدی جمع ہوتا اس کے مصرف کے تدابیر سوچنے میں بھی اس کی قابلیت کچھ کم نہ تھی۔ یعنی وہ جاڑون میں بھیڑوں کے لیے الگ الگ ڈربے بنوا دیتا اور گرمیوں میں فوراً ان کو کھدوا ڈالتا تاکہ بھیڑوں کو عادت نہ ہو جائے۔ برسات میں اس کو یہ دقت ضرور ہوتی کہ بے موسم بال کتروا کے کمل بنوا لیتا اور بھیڑوں کے اوپر تان دیتا۔ اس کا اپنا ذاتی تجربہ تھا کہ جاڑوں میں بھیڑیں سُکڑ کے چھوٹی ہو جاتی ہیں اور برسات میں پانی سے گھل جاتی ہیں۔ اس جید نقصان کو ایسا باخبر آدمی کب گوارا کر سکتا،جس کی اس نے ڈربوں اور شامیانوں سے روک کر لی تھی۔ غرض کہ وہ اپنے وقت میں یکتا تاجر تھا۔ یا نہ تھا، مگر اس زمانہ کے لوگوں کے لیے تو اس کے کارنامے بہت بڑے استاد کا کام دے سکتے ہیں۔ اگر ایشیائی گدڑیے اور یورپین سوروں کے سوداگر اس کی چھوٹی چھوٹی روزمرہ قابلیتوں پر توجہ کریں تو کچھ شک نہیں کہ بڑے مالدار ہو جائیں۔
چونکہ مجھے اصل میں شیخ چلی کے حالات بہت تفصیل سے لکھنا ہیں اور وہی نامور فخر روزگار اس کتاب کا ہیرو ہے لہذا میں اس کے خاندان کے مختصر مختصر واقعات جلد جلد لکھ کے اُس کو شروع کر دوں گا۔
شیخ اپنی تجارت میں شہرۂ آفاق ہو رہا ہے۔ ملکوں ملکوں اُس کا نام پھیلا ہوا ہے۔ عراق عرب سے لے کر اسپین کے بربری حصہ تک اس کی تجارت کا سلسلہ چلا گیا ہے۔ ادھر مشرق میں جمنا پار سے کابل کی سرحد اور اس سے داہنے طرف تبت کے مشہور مقامات تک پہنچا ہے۔ دور دور سے بھیڑیا دھسان خلقت اس کی تجارت کے تجربوں کو سیکھنے آ رہی ہے اور افریقہ تک اس کی دساور کی مانگ ہو رہی ہے۔ یورپ کا ناشائستہ حصہ جو اس وقت بالکل اندھیرے میں پڑا ہوا تھا اس کی تجارت سے اگر کچھ فائدہ اٹھا سکا تو صرف اسی قدر کہ اس کے کارخانہ کے بُنے ہوے کمل تمام یورپ کے جان بخش تھے۔ اگر شیخ ابو الغنم کے کمل نہ جائیں، مارے جاڑوں کے تمام یورپ اینٹھ جائے۔ پینتالیس برس کی عمر تک ملک التجار کا کارخانہ بڑی ہی رونق سے جاری رہا اور دولت کثیر اس کے پاس جمع ہو گئی۔ اب شیخ نے شادی کی طرف توجہ کی۔ ایسے بڑے دولت مند کو دلہن ملنا کیا دشوار تھا۔ یوں تو سیکڑوں قبیلوں سے اس کے لیے لڑکیاں تیار تھیں اور جہاں چاہتا وہ بلا تردد شادی کر لیتا۔ کیونکہ صرف مالداری کی شان ہی اس میں نہ تھی بلکہ اپنے شہر اور قرب و جوار میں اشراف خاندان سے وہ پیدا ہوا تھا اور جوار کے کل قبیلے بوجہ نسب بھی اس کا احترام کرتے تھے مگر شیخ کو یہ ضد آ پڑی تھی کہ کوئی لڑکی خود مجھ پر عاشق ہو اور اپنے ماں باپ سے میرے ساتھ نکاح کی درخواست کرے۔ گو وہاں کے طرز معاشرت میں یہ کوئی مشکل اور عجیب بات نہ تھی مگر ہمارے شیخ صاحب کچھ ایسے حسین و جمیل واقع ہوئے تھے کہ قبائل عرب کی لڑکیاں آپ کے نظارۂ جمال کی تاب ہی نہ لا سکتی تھیں۔ آنکھ بھر کے دیکھیں تو عاشق ہوں۔ جب اس کی نوبت ہی نہ آنے پائے تو عشق کیسا۔ اس افتاد نے پانچ برس تک شیخ کو نامراد رکھا۔ لیکن آخر کار قبیلہ عقیلو کے شیخ الرئیس ابو احوش کی بیٹی سفیہہ نے شیخ ابو الغنم کی ضد کو پورا کیا۔ یعنی وہ عاشق ہو کر اپنے ماں باپ سے عقد کی خواست گار ہوئی۔ یہ ایک غیر معمولی بیاہ تھا۔ تمام ملک کے مشہور قبائل شریک ہوئے اور سُبھ گھڑی نیک ساعت میں نکاح ہو گیا۔
سفیہہ کے نامبارک آئے ہوئے قدم کو ابھی سال بھر بھی نہ ہوا تھا کہ ملک میں سخت قحط پڑا اور شیخ ابو الغنم کے اوپر تباہی آئی۔ یعنی ہزار ہا بھیڑیاں بے آب و دانہ مر گئیں۔ ہزارہا کو بدوؤں نے چکھ ڈالا۔ کئی گلے شیخ نے تنگ ہو کر جنگل میں لاوارث چھوڑ دیے اور تھوڑے سے گلوں کو لے کر مع کسی قدر نقدی کے خود شیخ دشت قبچاق کی طرف چل نکلا۔ خاتون محل بھی ساتھ تھی۔ نوکر چاکر زیادہ نہیں لیے، صرف اسی قدر جو بھیڑوں کو سنبھال سکیں۔ غرض یہ تھی کہ وہاں چارہ بافراط ملے گا۔ بعد رفع قحط پھر وطن کو لوٹ آویں گے اور بھیڑوں کو ترقی دے لیں گے مگر خوش قسمتی نے تھوڑے دنوں کے لیے رخصت لے لی تھی اور ادبار کو اپنی جگہ چھوڑ گئی تھی یعنی دشت قبچاق میں شیخ کی تمام زندہ اور بے جان دولت قزاقون نے لوٹ لی اور بے چارہ صرف ایک بیڑی پاؤں میں پہنے ہوئے یعنی بی بی کو ساتھ لیے وہاں سے غزنی کی طرف چل نکلا۔ شیخ کی جغرافیہ دانی تو صرف ما وراء النہر ہی پر محدود تھی اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے غزنی کا قصد کر لیا تھا۔ بلکہ ملک خدا تنگ کے بھروسے پر ایک طرف منھ اٹھا دیا اور مرتا جیتا غزنی میں پہنچ گیا۔ سلطان محمود کا دور سلطنت تھا۔ مسافرین اور معذورین کی خبر گیری کی جاتی تھی۔ شیخ کو بھی اس سے حصہ ملا اور ایک کاروان سرا میں رہنے لگا۔
بھیڑوں کا خیال شیخ کو آیا ضرور تھا مگر غزنی کی آب و ہوا میں اُس وقت شیروں کی پیداوار کی زیادہ قابلیت تھی۔ اس وجہ سے وہ اپنے خیالی بھیڑوں کو دور ہی دور رکھنا چاہتا تھا اور اس فکر میں تھا کہ کسی طرح سلطان تک رسائی ہو جائے تو قزاقوں کو پہلے سزا دلواؤں پھر اپنے وطن جانے کی اجازت اور زاد راہ مانگوں۔ اسی دُھن میں وہ ایک دن فردوسی کے پاس پہنچ گیا اور سلام کر کے دشت قبچاق کا ذکر چھیڑ دیا۔ فردوسی شاہ نامہ کے لیے ایسے ایسے سامان کا تلاشی تھا۔ اُس نے دشت کے حالات پوچھے۔ شیخ نے قزاقوں کی بیداد گری کے ساتھ اپنے معلومات کا ذخیرہ اُگل دیا جو وہاں کے سرگردانی کے زمانہ میں حاصل ہوا تھا۔ فردوسی نے ایاز سے سفارش کر دی اور ایاز نے سلطان تک پہنچا دیا۔ چونکہ سلطان روم مردم شناس بھی تھا اور نیز شیخ نے اپنے واقعات تجارت تفصیل سے بیان کیے لہذا دنبوں کی داروغگی شیخ کو مل گئی۔ گو اس نے وطن جانے کی کئی بار درخواست کی مگر قبول نہ ہوئی۔ ناچار اسی پر قناعت کی اور بال منڈوانے میں کمال دکھانے لگا۔
سطان کو ہندوستان پر بارھواں حملہ کرنا تھا۔ 448ھ میں وہ اس قصد سے فوج لے کر غزنی سے چلا۔ شیخ بھی ہمراہ ہو لیا مگر یہ نہیں معلوم کس طرح۔ بہرحال ہندوستان کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے عزت بخشی۔ سفیہہ بھی ساتھ تھی، اُس کی ہمراہی سے شیخ کو کچھ اذیت نہیں ہوئی۔ کیونکہ دونوں کے اخلاق اور عادات میں خِلقی موافقت تھی۔ سلطان نے سومنات فتح کرلیا اور لَوٹ گیا۔ مگر شیخ نے ہمت ہار دی اور ہندوستان میں رہ پڑے۔
بدایوں کے پاس ایک قصبہ تھا چِلّہ، وہاں سطان نے تھوڑی سی جاگیر بطور آل تمغا شیخ کے نام مقرر کردی اور شیخ بی بی کے ساتھ اسی قصبہ میں رہنے لگے۔