اعتبار
شیخ کے گھر کسی نے لکھ بھیجا کہ شیخ کا انتقال ہو گیا۔ بیوی بچاری بہت روئی، چوڑیاں ٹھنڈی کر ڈالیں، نتھ بڑھا دی، رنڈ سالے کا جوڑا پہنا۔ سب رسوم سے فراغت کے بعد اکبرآباد کو قاصد روانہ کیا۔ یہاں پہنچا تو شیخ کو صحیح و سالم ہٹا کٹا پایا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ شیخ زار و قطار رونے لگا۔ ملا دو پیازہ نے گھبرا کے پوچھا: خیر تو ہے۔ آپ نے فرمایا: بیوی بیوہ ہو گئیں۔ ملا صاحب نے کہا: تم زندہ بیٹھے ہو، بیوہ کیسے ہوئیں۔ شیخ نے فرمایا: ہوں کیا میں یہ نہیں جانتا مگر یہ آدمی بڑا معتبر ہے۔
وکیل قطعی
فیضی نے شیخ سے پوچھا کہ بتائیے تو سہی پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی۔ شیخ نے ذرا سوچ کے اس مشکل مسئلہ کا چار طرح جواب دیا۔
1۔ انڈے سے مرغی پہلے پیدا ہوئی اور مرغی سے انڈا۔
2۔ مرغی سے انڈا ہوا اور انڈے سے مرغی۔
3۔ انڈا مرغی سے پہلے ہے کیونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے۔
4۔ مرغی پہلے تھی کیونکہ اس سے انڈا ہوتا ہے۔
محنت کم فائدہ زیادہ
یورپ میں آج جو ہنرمندیاں پائی جاتی ہیں اور وہاں کے دانش مندوں کی طباعی نے مشینوں کے ذریعہ سے ایک میں دو دو چار کام لیے ہیں، اس اصول سے شیخ بے خبر نہ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ کھچڑی کی ترکیب اچھی تو ضرور ہے۔ مگر یہ دقت ہے کہ چاول دال ملانا پڑتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ ایسی ترکیب کی جائے کہ کھچڑی ہی کھیت میں پیدا ہو۔ بیوی نے اور شیخ نے چاول اور دال ملا کے تخم ریزی کر دی۔ مگر اتفاق سے اس سال پانی نہ برسا اور روئیدگی مطلق نہ ہوئی ورنہ کامیابی میں کیا شبہ تھا۔
رحم
شیخ کے باوا کے وقت کی ایک گھوڑی تھی۔ چونکہ موے باپ کی نشانی تھی اس کو بہت پیار سے رکھتے اور دانہ چارہ خود ہی دیتے۔ ایک بار جنگل کو لے گئے اور گھاس چھیل کے گٹھا باندھا۔ پہلے گھوڑی پر رکھا اور خود بھی سوار ہونے کو تھے۔ خیال آگیا اس پر بوجھ ہو جائے گا لہذا گٹھا تو اپنے سر پر رکھا، آپ گھوڑی پر لد لیے۔ اس طرح بوجھ تقسیم ہو گیا اور گھوڑی کو تکلیف نہ ہوئی۔
قومی جوش
شہنشاہ اکبر ایک روز بیربل کو حسب معمول قومی فضیلت کے بارے میں چھیڑ رہے تھے۔ بیربل نے عرض کیا: خداوند! ہندوؤں کو ہر طرح اولویت اور فضیلت حاصل ہے جس کی ایک نظیر یہ ہے کہ ہندو کا پہلے مسلمان کا بعد نام لیا جاتا ہے یعنی ہندو مسلمان۔ شیخ کسی اور کام میں راجا ٹوڈرمل کے پاس مصروف تھے، یہ آواز جو کان میں پہنچی وہیں سے بول اٹھے: جہاں پناہ! جیسے جورو مرد۔
سادگی
علامہ ابو الفضل نے ہنس کے شیخ سے کہا کہ یہ بات آج تک سمجھ میں نہ آئی کہ آخری چہار شنبہ بدھی کے روز پڑتا ہے۔ شیخ نے کہا: آپ اسی کو پوچھتے ہیں۔ ہمارے قصبہ میں عشرہ محرم ہمیشہ چاندنی میں آیا کرتا ہے۔
اپنی عزت اپنے ہاتھ
راجہ بھگوان داس والیِ امبر کے بیٹے کے جینو کی رسم میں بڑا جلسہ اکبرآباد میں ہوا۔ منی بائی طوائف کا مجرا ہو رہا تھا۔ کسی حریف کے اشارہ سے اس نے یہ شعر گایا اور شیخ کی طرف ہاتھ اٹھا کے بتایا ؎
ریش سفید شیخ پر ہرگز نہ جائیو
اس مکر چاندنی پہ نہ کرنا گمان صبح
شیخ نے جھپٹ کے ایک طمانچہ اس زور سے رنڈی کے مارا کہ سارا جلسہ درہم برہم ہو گیا۔
خاموشی اور حفظ لسان
شیخ کبھی بے موقع بات نہ کرتا اور خاموشی کے فوائد سے پورا آگاہ تھا۔ وہ ایک بار سخت علیل ہوا اور جان پر نوبت آگئی۔ شہنشاہ اکبر نے اپنے خاص طبیب مہاراج اندرمان ویدانت برہمن کو علاج کے لیے بھیجا۔ شیخ سے حال پوچھا: اس نے مطلق جواب نہ دیا۔ بڑی سر کھپی کے بعد ارشاد ہوا: بیمار ہوں۔ مگر نہ بیماری کا حال کہا نہ اس کے اسباب۔ طبیب نے اپنی اٹکل سے نسخہ لکھ دیا اور چلا آیا۔ اس طرح اس کے گھر میں آگ لگی۔ نوکر چاکر باہر تھے۔ شیخ صحن میں ٹہلا کیا، سب جل کے خاک ہو گیا مگر اس نے بے فائدہ بات نا پسند کی۔
جھوٹ کی برداشت نہیں
شیخ کی بستی میں دوسری جگہ سے ایک برات آئی اور اس کے دروازہ کے سامنے سے نکلی۔ وہ متین تو تھا مگر شوقین۔ لڑکیاں اور خود اس کی بیوی کوٹھے پر چڑھ گئیں۔ شیخ کا بھی جی چاہا مگر دروازہ پر کھڑے ہو کے دیکھنا خلاف تہذیب اور کسر شان سمجھ کے وہ بھی کوٹھے پر پہنچا۔ منظور یہ تھا کہ یہاں بھی کوئی پہچانے نہیں۔ اس لیے لال دوپٹہ اوڑھ کے عورتوں میں مل گیا اور برات دیکھنے لگا۔ بندہ بشر ہے چہرہ چھپانا بھول گیا۔ ایک شریر لڑکے کی نظر پڑ گئی، اس نے گھبرا کے دوسرے لڑکے سے کہا: “ارے غضب داڑھی مونچھوں والی عورت”، اور شیخ کی طرف اشارہ کیا۔ اس جھوٹ اور اتہام پر شیخ کے آگ لگ گئی۔ مگر پھر بھی تہذیب کو ہاتھ سے نہ دیا اور دوپٹہ اتار کے کہا: عورت آپ کی والدہ ہوں گی ہم تو مرد ہیں۔
دور اندیشی
مرزا شاہ نواز بیگ قاقشال جب اکبر کی طرف سے ابراہیم عادل شاہ کے پاس سفارت پر گیا، ابراہیم نے اکبر اعظم کے لیے بہت سے تحفے دیے اس میں تمباکو کا بھی ایک ڈبہ تھا۔ یہ نئی چیز جب دربار اکبری میں پہنچی اس پر بڑے مباحثے ہوئے۔ آخر خاص طبیب شاہی شفاء الملک کے امتحان اور مشورے کے بعد تمباکو حقے میں بھرا گیا اور سر دربار اکبر کے سامنے پیش ہوا۔ شیخ نے اس کے پینے سے بے محابا اختلاف کیا اور وجہ یہ بیان کی کہ چلم سے جس طرح دھواں کھچ کے منہ میں پہنچتا ہے، اگر کوئی چنگاری پیٹ میں اتر جائے تو غضب ہی ہوجائے۔
فن تعمیر کا کمال
نواب بیرم خان نے مسجد بنوائی۔ جب اس کے مینار اونچے ہونے لگے، شیخ نے راے دی کہ اس طرح مینار ٹیڑھے بننے کا احتمال ہے۔ پہلے دو گہرے کنوؤں میں اینٹ چونا خوب بھر دیا جائے، جب سوکھ جائیں مینار بنے بنائے نکل آئیں گے۔ وہی کھڑے کر دیے جائیں۔
تمیز بذوقات
حکیم افراطونوس یونانی کا قصہ کے سامنے الہ وردی خان نے بیان کیا کہ ایک سو ایک ادویہ کی مرکب معجون کو اس نے چکھ کے سب دواؤں کے نام بتا دیے تھے۔ شیخ نے ہنس کے فرمایا: یہ کونسی بڑی بات ہے، ہم ہمیشہ باجرے کا ملیدہ اور بیسن کی کڑھی کھا کے بتا دیا کرتے ہیں کہ ایک میں گڑ ملا ہوا ہے دوسرے میں نمک، مرچ، ہلدی، پیاز اور میتھی کا بگھار بھی ہے۔ بغیر چکھے وہ حکیم بتا دیتا تو اک بات بھی تھی۔
بشپ انڈریو سے انگریزی سیکھی
اکبر کے دربار میں پرتگیزوں کا سفیر رہتا ہی تھا۔ اسی کی وساطت سے انگلستان کے لاٹ پادری بشب انڈریو کو بھی حضوری حاصل ہوئی۔ یہ بڑے لائق اور ملنسار تھے۔ فیضی نے اسی سے انگریزی زبان سیکھی۔ چونکہ شیخ اکثر فیضی کے یہاں جایا کرتا تھا، فیضی کو انگریزی پڑھتے دیکھ کے آپ کو بھی شوق چرایا مگر ضد یہ کہ شاگردی کا ننگ کون گوارا کرے۔ شیخ کی ذہانت مسلمہ ہے، اس نے فیضی کے سبق سننا شروع کیے اور آپ سے ان میں جوڑ لگا کے انگریزی الفاظ یاد کر لیے۔ یہ مشہور شعر ؎
اے نامے توژژد کرسٹو
سبحانک لا الہ یا ہو
فیضی کے نام سے مشہور ہے مگر تذکروں سے ثابت ہے کہ شیخ نے اپنی انگریزی دانی کے اظہار میں کہا تھا۔
پرتگیزی سفیر کو زک
ڈیورنڈ شیوری پرتگیزون کا سفیر نہایت متکبر تھا مگر اکبر کی جبروت کے سامنے اس کی نخوت کیا چل سکتی تھی۔ تاہم اہل دربار اس کی رعونت کے چرچے کیا کرتے تھے۔ شیخ کو بھی یہ حال معلوم تھا مگر کبھی اس سے بات نہیں کرتے تھے۔ نواب بیرم خان نے ایک دن شیخ کو اشارہ کر دیا کہ آج اس نصرانی کی آپ خبر لیجیے۔ یہ بہت بڑھ چلا ہے۔ فوراً ہی اس کے خیال میں ایک بات آگئی اور آپ مستعد ہو گئے۔ آج ڈیورنڈ جس وقت دربار پہنچا، شیخ نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور کسی حیلہ سے سفیر صاحب کی کرسی کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ وہ آداب گاہ میں پہنچ کے مجرا اور ڈنڈوت بجا لایا اور ادب سے پچھلے پاؤں ہٹتا ہوا اپنی کرسی کے قریب پہنچا۔ بیٹھنے کے لیے جھکا کہ شیخ نے پیچھے سے کرسی گھسیٹ لی اور سفیر صاحب انٹاچت۔
موسیو باریو دینیو فرانسیسی سے یارانہ
شیخ کو تمام اہل دربار میں موسیو باریو دینیو ایک فرانسیسی ملک التجار سے نہایت تعلق اور محبت تھی۔ باریو بڑا ظریف تھا اور شیخ کی ظرافت کو اس سے زیادہ کوئی نہیں پسند کرتا تھا اور بڑی وجہ شیخ کو اس کے ساتھ یارانہ کی یہ تھی کہ وہ فرانس کے سنگھاڑے اور کمرَکھیں ہمیشہ شیخ کو کھلایا کرتا تھا مگر شیخ نے اپنے یار کو بھی نہ چھوڑا اور ایک دن بھرے دربار میں اس کی بری گت بنائی۔ واقعہ یہ ہے کہ موسیو باریو اکبر کے لیے فرانس کی بنی ہوئی سنہری لیس، کٹہل کا مربہ، اندرسے کی گولیاں، لونگ چڑے کباب اور مٹر کے گدگدے تحفہ میں لایا تھا۔ اکبر اعظم جس قدر عظیم الشان شہنشاہ تھا اتنا عظیم الاخلاق عمیم الاحسان بھی تھا۔ اس نے جب چیزیں بکشادہ پیشانی قبول کیں اور مربہ کی ایک ایک قاش، تھوڑے تھوڑے گدگدے درباریوں کو تقسیم کیے، شیخ چلی اپنا حصہ لے کے وہیں نوش جان کرنے لگے۔ موسیو باریو نے چپکے سے کہا: مرد خدا! ہم کو بھی دو۔ شیخ نے مربہ کی قاش اس کی طرف بڑھائی اس کے ہاتھ رکے ہوئے تھے۔ کہا: منہ میں دے دو۔ شیخ اس کے منہ کے پاس لے گیا، اس نے منہ پھیلایا کہ شیخ نے جھپ سے اپنے منہ سے قاش رکھ لی۔
دفع ضرر کی تدبیر
شیخ کی چارپائی میں بکثرت کھٹمل پیدا ہو گئے۔ گرم پانی کی معمولی ترکیب پر اس کی طبیعت نہ لڑی، نہ کچھ مفید سمجھی؛ مگر کھٹمل ہیں کہ سارا خون چوسے لیتے ہیں۔ شیخ نے ایک دن ذرا غور کیا اور ایک ترکیب سمجھ میں آگئی۔ چار تولہ سنکھیا خرید لایا اور باریک پیس کے سوتے وقت تمام جسم میں اس کا ابٹن مل لیا۔ اب کاٹو۔
بدلا
شیخ مبارک کے مرنے پر فیضی اور ابو الفضل نے حسب آئین اکبری بھنڈارا کیا اور ڈاڑھی مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ دونوں بھائیوں کا تقرب اور اکبر اعظم کی مرضی سے اہل دربار کو بھی ڈاڑھی مونچھ منڈوانی پڑی۔ شیخ بھی ان میں شریک تھے۔ مولانا عبد القادر بدایونی اور صدر جہاں وغیرہ علما نے البتہ مطلق انکار کیا۔ خیر بات گئی گذری ہوئی۔ مگر شیخ کو اس کا خیال ضرور رہا۔ سال بھر کے بعد شیخ کی گاے مر گئی اور آپ نے اپنی ڈاڑھی مونچھ کا صفایا کیا سو کیا ہی، فیضی اور ابو الفضل کے بھی سر ہو گئے کہ ہم نے تمھارے باپ کے سوگ میں بھنڈارا کیا تھا۔ تم ہماری گئو ماتا کا بھنڈارا کیوں نہیں کرتے۔ ہر چند دونوں بھائیوں نے فلسفہ بگھارا اور حکمت کے سارے رموز کھول کے بیسیوں دلیلیں کیں مگر میرے شیر نے ایک نہ مانی۔ آخر اکبر تک یہ قصہ پہنچا اور راجا بیربل، دیوان ٹوڈرمل، مہاراجا مان سنگھ کچھواہا نے تائید کی۔ دونوں بھائیوں کو ڈاڑھی مونچھیں گئو ماتا کے بھنڈارا میں بھینٹ چڑھانا پڑا، تب جا کے شیخ نے دم لیا۔
دروغ مصلحت آمیز
شہزادہ سلیم (جہانگیر) اکبر سے باغی ہو گیا۔ مریم مکانی (اکبر کی ماں) الہ آباد گئیں کہ لاڈلے پوتے کو منا لائیں۔ وہ خبر پاتے ہی کشتیوں کے نواڑے میں بیٹھ کے بنگالہ چل دیا۔ مریم مکانی کو سخت رنج ہوا۔ اکبر کابل کی مہم پر حکیم مرزا کے مقابلہ میں صف آرا تھا۔ اس خبر کو سنتے بے چین ہو گیا۔ ارکان دولت نے تدبیروں کے باد ہوائی کبوتر اڑائے مگر ایک نے بھی چھتری پر پنجے نہ ٹیکے، سب مہمل۔ شیخ بھی ہمراہ رکاب تھے۔ بادشاہ کو زیادہ متردد پاکے آپ نے بیڑا اٹھایا کہ میں شہزادہ کو لے آؤں گا۔ اکبر نے کچھ سوار ساتھ کیے اور شیخ جی روانہ ہوئے۔ شہزادہ قلعہ بہار میں مقیم تھا کہ یہ پہنچ گئے اور جاتے ہی مژدہ سنایا کہ اکبر اعظم حکیم مرزا کے مقابلہ میں مارا گیا۔ چلیے تخت سلطنت آپ کے لیے خالی ہے۔ شہزادہ اٹھ کھڑا ہوا اور یلغار کرکے آگرہ پہنچا۔ ادھر سے اکبر بھی حکیم مرزا کی مہم فیصل کرکے آگرہ میں پہنچ گیا تھا۔ اس تدبیر سے باپ بیٹوں میں ملاپ ہو گیا اور شیخ کو بڑا انعام عطا ہوا۔
شیطان پورہ
اکبر نے آگرہ میں کسبیوں کے چکلہ کے نام شیطان پورہ رکھا تھا۔ شیخ لہری بندے تھے، ادھر بھی کبھی کبھی ہو نکلتے۔ اکثر سے یاد اللہ بھی ہو گئی تھی۔ لینے دینے کا سبق آپ نے نہیں پڑھا تھا۔ جہاں جاتے نائکہ بڑبڑاتی، یہ سنتے اور پی جاتے۔ ایک دن پتلی بائی کے کمرہ میں پہنچے، پان کھائے، الائچیاں چکھیں۔ اٹھے تھے کہ نائکہ کو زینہ پر چڑھتے دیکھا۔ ادھر سے یہ اترے، بیچ میں ٹکر ہوئی۔ نائکہ لڑھکتی پڑھکتی نیچے آرہی اور شیخ نے پھر منہ پیک اس کے اوپر تھوک کے خود ہی غل مچا دیا: “نائکہ جی گر گئیں، سر پھوٹ گیا”۔ پتلی بائی دوڑی، دیکھا تو سر لہو لہان۔ حالانکہ وہ حضرت شیخ کے اوگال کا رنگ تھا۔
مخبری
اسی شیطان پورہ میں ایک بار شیخ جی راجا بیربل کو بھری دے کے لے آئے۔ راجا جی مہاتما گُن وان پنڈت ہی نہ تھے بلکہ شوقین مزاج بھی تھے۔ راجا جی تو دیوی کے پوجا میں لگے۔ ادھر شیخ بھاگے اور جاتے ہی اکبر سے جڑ دی۔ اکبر نے بلا کے بری گت بنائی اور بیٹھک کی بڑی فضیحتی ہوئی۔
زنانہ بازار
اکبر کی ہزاروں ایجادوں میں زنانہ بازار بھی تھا۔ امرا، شرفا عورتیں بیٹیاں اس بازار میں جمع ہوتیں، دوکانیں لگاتیں۔ شاہی بیگمات، خان و خوانین کی مستورات سودے کرتیں، خریدار بنتیں۔ بیربل خلوت کا یار تھا۔ اکبر اسے چرا چھپا کے جانے دیتا۔ شیخ کو خبر لگی۔ شوق ہوا اور غصہ بھی آیا ہم نہ جائیں بیربل جائے۔ دربار میں گئے تو روٹھے ہوئے منہ پھیلائے بیٹھے ہیں۔ اکبر نے پہلے خیال بھی نہ کیا۔ جب ذرا غور سے حضرت شیخ کی طرف دیکھا تو سمجھ گیا، آج کچھ دال میں کالا ہے۔ پاس بلایا۔ اٹھے مگر کچھ بڑبڑاتے ہوئے، حال پوچھا تو ارشاد ہوا: بیربل تو زنانے اور ہم نہیں۔
بھوکے اشراف سے ڈرو
دھرم پورہ میں اکبر کی طرف سے ہندوؤں کے لیے سدا برت جاری تھا۔ برہمن دیوتا، رسوئی پرستے اور وارد و صادر، غریب غربا، ہندو حیمتے دعائیں دیتے۔ شیخ ایک دن ادھر سے نکلے بھوکے تھے۔ دیکھا پنگھٹ جمی ہے اور پتیلیاں خالی ہو رہی ہیں۔ مانگ کے کھائیں شان کے خلاف۔ گاے کا ہڈا پڑا تھا، اُٹھا کے پنگھٹ میں پھینک دیا۔ رام رام کر کے ہندو اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے ہتے مارے چکھ چکھا کے چلتے بنے۔
لطیفہ
اکبر نے امراے دربار کو چیلا بنانا شروع کیا۔ بڑے بڑے گیانی پنڈت اور علماے دین بھی اس کے مرید ہوئے۔ ڈنڈوت، سجدہ، آفتاب کی پوچا سب کے لیے شرط تھی۔ شجرہ کیسا، اس کی جگہ بادشاہ کی تصویر دی جاتی تھی۔ شیخ اگرچہ ایسی تقلیدی باتوں سے کوسوں بھاگتے تھے مگر فیضی کا منتر چل گیا اور یہ بھی مونڈے گئے۔ تصویر عنایت ہوئی۔ گھر میں رکھیں تو چور لے جائیں، کھو جائے۔ قبا میں سامنے ٹانک دی اور جس وقت جی چاہا درشن کر لیے ؏
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
لطیفہ
بادشاہ نے حکم دیا کہ بارہ مہینوں کی خصوصیات قلم بند ہوں اور آئین میں داخل کی جائیں۔ حکیم، حمام، میر فتح اللہ شیرازی، ابو الفضل، فیضی، راجا ٹوڈرمل سب نے مل کے ہر مہینے کا زیچ قائم کر کے اُس کے خواص معین کیے۔ محرم: جاندار کو نہ ستاؤ۔ صفر: بندے آزاد کرو۔ اسی طرح جمادی الثانی کو قرار پایا: چمڑا کام میں نہ لاؤ۔ جب بادشاہ کے سامنے تعینات سُنائے گئے، شیخ چلی بول اٹھے: “جہاں پناہ کیا جیتا مرا دونوں”۔
اپنی اپنی پسند
اکبر نے امرا کو کام تقسیم کیے مثلاً عبد الرحیم خان خاناں گھوڑوں کی نگہداشت، راجہ ٹوڈر مل ہاتھی اور غلہ، شریف خان بھیڑ بکری، ابو الفضل پشمینہ؛ غرض اسی طرح سب کے کام تھے۔ شیخ نے اپنی درخواست سے جمنا کی لہریں گننے کا کام اپنے ذمہ لیا اور پورا کیا۔
اللہ رے اطمینان
بدگمان لوگ اسے بزدلی سے تعبیر کریں گے مگر ہم ایسے بے وجہ شبہے نہیں کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ خان زمان علی قلی خان اور اس کا بھائی بہادر دونوں بادشاہ سے باغی ہو گئے۔ لڑائیاں ہوئیں، رن پڑے اور وہ قابو میں نہ آئے۔ آخر جنگ میں اکبر خود معرکہ میں موجود تھا۔ کڑہ مانک پور پر میدان داری تھی۔ پہلے تو توپ بندوق چلتے رہے۔ تب تک اکبر کے ہاتھی کے پیچھے شیخ بھی ڈٹے تھے۔ آخر دست بدست کی نوبت آئی اور جنگ مغلوبہ ہونے لگی۔ ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ ہلڑ مچ گیا۔ جب ہیرانند ہاتھی نے علی قلی خان کو چیر کے پھینک دیا اور بہادر خان کو شہباز خان نے گرفتار کر لیا، لڑائی تھم گئی، میدان صاف ہو گیا۔ سردار اور خود بادشاہ اپنی اپنی جگہ پر پہنچے۔ مگر شیخ کا پتہ نہیں۔ زندوں، مردوں سب میں تلاش ہوئی۔ ہوں تو ملیں۔ شام کو گولنداز نے توپ صاف کرنی چاہی، سُمبھا ڈالتا ہے تو آگے نہیں بڑھتا۔ اس نے کھینچ لیا۔ ساتھ ہی شیخ جی آنکھیں ملتے نکل آئے۔ بادشاہ کے سامنے حاضر کیے گئے۔ حال پوچھا۔ عرض کیا: جب دست بدست لڑائی شروع ہو گئی مجھ پر نیند نے بے حد غلبہ کیا۔ کہیں جگہ نہ ملی۔ بادل گرج توپ میں سو رہا۔
بائیسکل
آج ہر شہر میں بائیسکلوں کی کثرت ہے۔ اس کی ایجاد کا بھی فخر شیخ چلی کو حاصل ہے۔ آگرہ میں وہ اکثر ایک بانس پر سوار ہو کے پھرا کرتا تھا اور نہایت تیز جاتا تھا۔ بشپ انڈریو نے اس سواری کو بہت پسند کیا اور یورپ میں جا کے اس کی شہرت دی۔ مدت تک یہی سواری وہاں مستعمل رہی مگر قاعدہ ہے ہر ایجاد میں زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق اصلاحیں ہوتی رہتی ہیں۔ رفتہ رفتہ بانس کی ہیئت کذائی یہ قرار پائی جو آج بائیسکلوں میں دیکھتے ہو۔ اس میں اُس میں تھوڑا سا فرق ہے۔
تثلیث کی تردید
پادری فریبتون نے جب دربار اکبری میں ثالث ثلثہ پر دلیلیں قائم کیں، تمام علما حکما دنگ ہو گئے کسی کو جواب نہ سوجھا۔ شیخ جی آستین چڑھا کے سامنے آئے فرمایا: ایک تین نہیں، نہ تین ایک، ہم اور تم اور یہ (فیضی کی طرف اشارہ کیا) تین ہیں اور تین ہی رہیں گے۔ ایک ہو نہیں سکتے۔ اسی طرح تم اکیلے ایک ہو ہم دونوں ایک ہو گئے، تم نہیں بن سکتے۔ بات معقول تھی۔ پادری ساکت اور بند ہو گیا۔
روپیہ نہ جائے
ملا دو پیازہ جب پہلی بار شیخ کو دربار میں لے گئے تو پانچ اشرفیاں ان کو دیں کہ بادشاہ کو نذر دکھانا۔ آپ نے نذر پیش کی۔ بادشاہ نے ہاتھ بڑھایا کہ نذر لے۔ شیخ پیچھے ہٹا اور ملا سے کہا: “ارے غضب اشرفیاں لے ہی مرا تھا”۔